• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ اسلامی از ابوہشام (کینیڈا)

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
فقہ حنبلی کے اصول:​

امام محترم نے اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کے لئے کچھ ایسے اصول اختیار کئے جو بعد میں فقہ حنبلی کی اساس قرار پائے۔ یہ پانچ اصول ہیں جو آپ کے فتاوی میں واضح طور پر ملتے ہیں اور انہی پر ہی آپ کی فقہ کا دار ومدار تھا۔ امام محترم اگر دلائل کو متعارض پاتے تو بالکل فتوی نہ دیتے ۔ اور اگر کسی مسئلے میں صحابہ کرام کا اختلاف ہوتا یا کوئی حدیث آپ کے علم میں نہ ہوتی یا کسی صحابی یا تابعی کا قول نہ ملتا تو توقف فرماتے۔

جس مسئلے میں سلف سے کوئی اثر نہ ملتا تو بھی فتوی نہیں دیتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے: اس مسئلے پر رائے دینے سے بچو جس میں تمہارے پاس کوئی راہنما نہ ہو۔ جب مسائل کا جواب دیتے یا لکھتے تو کھلے دل سے فقہاء محدثین کے فتاوی کو اور امام مالکؒ اور اصحاب مالک ؒکے فتاوی وغیرہ کو بطور دلیل کے پیش کردیا کرتے۔ ایسے فتویٰ سے روکا کرتے جس میں حدیث سے اعراض نظر آتا ہو یا حدیث کے مطابق وہ فتوی نہ ہو اور نہ ہی ایسے فتویٰ کو قابل عمل سمجھتے تھے۔ وہ پانچ اصول درج ذیل ہیں:

۱۔ نصوص: نص کی جمع ہے جس سے مراد قرآن وحدیث سے کوئی دلیل جو نص کی صورت میں ہو۔ نص جب انہیں مل جاتی تو اسی کے مطابق فتوی دے دیا کرتے خواہ کسی نے بھی اس کے خلاف کہا ہو۔ حدیث صحیح پر کسی کے قول، عمل، رائے اور قیاس کو مقدم نہیں کیا کرتے تھے۔ نہ ہی اجماع کو وہ حدیث صحیح پر مقدم کرتے تھے۔ امام احمدؒ نے ایسے اجماع کو تسلیم ہی نہیں کیا جو صحیح حدیث کی موجودگی میں اس کے برعکس کیا گیا ہو۔ کسی مسئلے پر اجماع کے دعوے کو بھی تسلیم نہیں کیا کرتے تھے۔ اس لئے کہ جو یہ دعویٰ کر رہا ہے اسے کیا علم کہ علماء نے اس سے اختلاف کیا ہو۔ اور یا اس اختلاف کا علم اسے نہ ہوا ہو۔

۲۔ فتاویٰ صحابہ: کسی صحابی کا فتوی مل جانے کے بعد اس کی مخالفت کسی اور صحابی سے نہ ملتی تو فتوی اس کے مطابق دیتے ۔ ایسے فتوی کو اجماع تونہ کہتے بلکہ یہ فرمایا کرتے: اس کے بارے میں مجھے کسی ایسی بات کا علم نہیں جو اس صحابی کی بات کورد کرتی ہو۔ اس نوع کا کوئی فتوی ـ آپ کو بھی اگر مل جاتا تو کسی کے عمل، رائے یا قیاس پر اسے مقدم نہیں کرتے تھے۔

۳۔ اقوال صحابہ کا چناؤ: جب اقوال صحابہ میں انہیں اختلاف نظر آتا تو اس صورت میں وہ اس صحابی کا قول لیتے جو کتاب وسنت کے قریب ترین ہوتا۔ اور اگر کسی کے قول کی کوئی موافقت نہ ملتی تو اس مسئلے میں اختلاف کا ذکر فرماتے مگر کوئی حتمی رائے نہ دیتے۔

۴۔ حدیث مرسل: کسی مسئلے میں اگر صحیح حدیث نہ ہوتی تو امام محترم حدیث مرسل اور حدیث ضعیف سے بھی استدلال لیتے ۔ ایسی حدیث کو تو وہ قیاس پر بھی ترجیح دے دیا کرتے۔ضعیف حدیث سے مراد ان کے ہاں کوئی باطل حدیث، یا منکر حدیث، یا اس راوی کی حدیث نہیںجومتہم ہوکہ ایسی حدیث پر عمل ناگزیر ہو بلکہ ان کے نزدیک ضعیف حدیث، صحیح کی ایک قسم ہی ہے جو حسن کے درجے کی ہے۔ کیونکہ ان کے زمانہ میں حدیث کی دو ہی اقسام ہوا کرتی تھیں صحیح اور ضعیف۔ ضعیف حدیث کے کچھ مراتب تھے۔ جن کی ادنی قسم یہ ضعیف ہوا کرتی تھی جو بعد میں حسن کہلائی۔ جب کسی مسئلہ میں کوئی ایسا اثر نہ پاتے یا کسی صحابی کا کوئی قول نہ ملتا یا کوئی اجماع اس کے خلاف نہ ملتا جو اس ضعیف حدیث کو ردکرسکے توقیاس کو ترجیح دینے کی بجائے اس پر عمل فرماتے۔ تمام ائمہ کی طرح ان کا بھی یہی اصول تھا کہ ضعیف حدیث کو قیاس پر مقدم رکھا جائے۔(اعلام الموقعین ۱؍۳۲)

۵۔ضرورۃ ً قیاس: جب کسی مسئلہ میں ان کے پاس کوئی نص نہ ہوتی اور نہ ہی قول صحابہ یا صحابی، نہ کوئی اثر مرسل یا ضعیف، پھر آپ پانچویں اصول کی طرف توجہ فرماتے جسے قیاس کہتے ہیں۔ اسے بھی امام محترم نے بوقت ضرورت استعمال کیا ہے۔ابوبکرالخلال کی کتاب میں ہے : امام احمدؒ فرماتے ہیں: میں نے امام شافعی ؒسے قیاس کے بارے میں دریافت کیا: توانہوں نے فرمایا: ضرورت کے وقت اس کی طرف بھی رخ کیا جاسکتا ہے۔ ( اعلام الموقعین: ۱؍۳۲)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
معتمد کتب حنابلہ:


یوں تو امام محترم نے بہت سی کتب چھوڑیں مگر حنابلہ حضرات کے نزدیک کچھ کتب اساسی حیثیت رکھتی ہیں۔ جن میں سے چند ایک کے نام درج ذیل ہیں:

۱۔ المسند: امام محترم نے اپنے پیچھے یہ کتاب ایک مسودے کی شکل میں چھوڑی جس میں تقریباً بیالیس ہزار احادیث ہیں۔ سولہ سال کی عمر میں اس مقصدکے لئے ثقہ راویوں اور قابل اعتماد محدثین سے احادیث کو جمع کرنا شروع کیا اور عمر کے آخیر تک اس کتاب میں لگے رہے۔ کہا کرتے: میں نے اس کتاب کو ایک امام ودلیل کے طور پر لکھا ہے جب لوگ سنت رسول میں اختلاف کرنے لگیں تو اس کی طرف رجوع کیا کریں۔ یہ تمام احادیث متفرق اوراق میں تھیں آخری عمر میں ان کے بیٹوں اور چند خاص شاگردوں نے اسے جمع کیا اور پھر امام محترم نے انہیں جو کچھ بھی لکھا تھا اسے املاء بھی کرادیا۔ گو یہ سب اوراق مرتب نہیں تھے۔بعد از وفات ان کے بیٹے عبد اللہ اور شاگرد ابوبکر القطیعی نے اس کتاب میں اپنے دیگر اساتذہ سے سنی ہوئی بعض احادیث بھی شامل کرکے اسے روایت کیا اور یوں یہ کتاب شائع ہوگئی۔

۲۔ مسائل الإمام أحمد بروایت عبد اللہ بن احمد

۳۔ مسائل الإمام أحمد بروایت امام ابی داؤد سجستانی

۴۔مسائل الإمام أحمد بروایت ابو الفضل صالح بن احمد

۵۔ الجامع الکبیر از ابوبکر الخلال

۶۔ مختصر الخرقی
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
چند حنبلی اصطلاحات :​

امام احمد ؒ کے شاگردوں نے امام محترم کی آراء کو نقل کرتے وقت بہت سی مصطلحات کا استعمال کیا ہے۔ اسی طرح دیگر حنبلی مجتہدین کی آراء کو بھی کتب میں ملتی ہیں جن کی مراد اور مفہوم اپنا اپنا ہے۔ ذیل میں ان کی مختصر تفصیل دی جاتی ہے۔

۱۔ النص: امام محترم نے کسی مسئلے کے بارے میں کوئی واضح حکم بتایا ہو اسے نص کہا گیا۔
۲۔ التنبیہ : یہ امام محترم کا وہ قول ہوتا ہے جیسے کسی نے آپ سے کوئی مسئلہ پوچھا تو اس کے جواب میں انہوں نے ایک حدیث بیان کردی جو اس حکم کا مفہوم بتادیتی ۔ ساتھ ہی امام محترم نے اس حدیث کو صحیح بھی کہہ دیا یا مزید تقویت دینے کے لئے اسے اصح کہہ دیا مگر اس حکم کے بارے میں صراحت سے خود کچھ نہ کہا۔ اسے تنبیہ کہا گیا ہے۔تنبیہ… ایمائ، اشارہ اور توقف سے ملتی جلتی اصطلاح ہے۔
۳۔ الروایۃ: امام محترم کی منقول نص کو کہتے ہیں۔ امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: امام احمدؒ کی صرف منقول روایات کو نصوص کہتے ہیں۔ ورنہ روایت میں امام احمدؒ کا قول بھی شامل ہے۔
۴۔ القول: ایسا حکم جو امام محترم نے بتایا نہ ہو بلکہ ان کی طرف منسوب ہو۔ اسے قول کہتے ہیں۔
قول اور روایت میں فرق: روایت منقول نص کو کہتے ہیںاور قول ان کی طرف منسوب حکم کو کہتے ہیں۔

۵۔ تخریج: حکم کو ایک مسئلہ سے منتقل کرکے اس مسئلہ کی طرف لے جانا جو اس سے ملتا جلتا ہو اور ان دونوںکے درمیان اس حکم میں برابری کردینا ۔جیسے أقیموا الصلاۃ میں اقامت کے ساتھ باجماعت نماز کی فرضیت بھی برابر کردی جائے۔ یہ تخریج اس صورت میں ممکن ہوتی ہے جب مسئلہ کے معنی کا فہم حاصل ہو جائے۔

تخریج اور قول میں فرق: امام محترمؒ کی طرف قول اس شرط پر منسوب ہوگا جب کہ وہ ان کا ہو۔ رہی تخریج تو وہ امام صاحب کے اصول سے حکم کے استخراج کا نام ہے۔

۶۔ النقل: امام محترمؒ کی نصوص کی روایت کو اور ان پر تخریج کو کہا جاتا ہے۔
۷۔ الوجہ: امام محترم ؒکے اصولوں ، یا ان کے ایمائ، دلیل، تعلیل، یا امام احمدؒ کے کلام کے سیاق یا قوت کلام کا اتباع کرتے ہوئے کسی مسئلے کا قیاس کے ذریعے دوسرے ایسے حکم سے مسئلہ مستنبط کرنا جو اس سے ملتا جلتا ہو۔ وجہ کہلاتا ہے۔
۸۔ الاحتمال: وجہ کا ہم معنی ہے۔ فرق یہ ہے کہ وجہ میں فتوی دینا پڑتا ہے احتمال میں جزم نہیں ہوتا۔
۹۔ المذہب: اس سے مراد حنبلی مذہب میں معمول بہ شے ہے خواہ وہ امام کی طرف سے ہو یا حنبلی فقہاء کی طرف سے۔ خواہ وہ نص سے ثابت ہو یا ایماء وتخریج سے۔
۱۰۔ ظاہر المذہب: ایسا لفظ جس میں دومعنوں کا احتمال ہو مگر ان میں سے ایک دوسرے سے اظہر ہو، وہ ظاہر کہلاتا ہے۔ لہٰذا ان میں قوی معنی کو لینا ہی جائز ہوگا۔ اس سے مراد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مشہور مذہب یہی ہے۔ یہ لفظ اس وقت استعمال ہوگا جب کسی مسئلہ میں وہاں اختلاف ہو۔
۱۱۔ التوقف: کسی مسئلہ میں اگر کوئی قول نہ ہو تو دلائل کے تعارض کی صورت میں دیگراقوال میں سے پہلے، دوسرے قول کو ترک کرنا اور نفی یا اثبات کو ترک کرنا اور کچھ نہ کہنا توقف کہلاتا ہے۔
۱۲۔ الروایتان: روایت کا تثنیہ ہے۔ جب یہ کہا جائے کہ اس مسئلہ میں دو روایتیں ہیں تو اس سے مراد ایک روایت نص کے ساتھ ہے اور دوسری ایماء کے ساتھ ۔ یاایک اور نص سے تخریج کی گئی ہے۔ یا وہ ایسی نص سے ہوگی جو ناپسندیدہ ہو۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس مسئلہ میں ایک روایت ہے تو اس سے مراد امام کی اس حکم میں ایک ہی نص ہوگی۔
۱۳۔ القولان: دونوں قول یا تو امام کی نص سے ہوں گے یا ان میں سے ایک نص سے ہوگا اور دوسرا ایماء سے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان میں اس کے برعکس وجہ ہو یا تخریج یا احتمال ہو ۔
۱۴۔ الوجہان: وجہ تخریج کے بغیر نہیں ہوتی۔ جب یہ کہا جائے کہ اس مسئلہ میں دو صورتیں ہیں تو اس سے مراد یہ ہوگا کہ امام محترم ؒکی اس مسئلے میں کوئی نص نہیں بلکہ ان کے اصحاب نے اس مسئلہ میں تخریج کرکے حکم لگایا ہے۔ ایسی صورت میں ان اصحاب کے مابین اجتہادی اختلاف ہوا تو نتیجۃً ہر اجتہاد کی الگ الگ صورت ظاہر ہوئی۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
ائمہ اربعہ کے فقہی مناہج پر تبصرہ​

آپ نے ہر مسلک کے طریقہ استنباط واصول کا مطالعہ کیا۔ تجزیہ یہی بتاتا ہے: کہ امام احمدؒ بن حنبل جو امام شافعی رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں اور دنیائے اسلام میں ایک مسلمہ امام ہیں۔ انہوں نے اپنے شیخ محترم کے معین اصولوں کو تقریباً قبول کیا ہے اور عمل بھی کیا ہے۔ صرف اما م شافعیؒ کے اصولوں میں دو باتوں میں اضافہ کیا یا ترمیم کی۔

۱۔ ہمارے قیاس سے اقوال صحابہ بہتر ہیں۔ ۲۔ خبر واحد قابل عمل ہے۔

ان اصولوں کی وجہ سے امام احمدؒ بن حنبل کا امام شافعیؒ کے مسلک سے اختلاف بہت کم مسائل میں نظر آتا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کے مذہب سے امام شافعیؒ نے تقریبا بیس فی صد مسائل میں اختلاف کیا ہے۔ یہ اختلافات عبادات میں کم تر اور معاملات میں نمایاں ہیں۔ حنفی مذہب سے امام شافعی رحمہ اللہ نے تقریبا ستر فی صد مسائل میں اختلاف کیا ہے۔ یہ اختلافات عبادات، معاملات غرضیکہ ہر فقہی شعبہ میں نمایاں نظر آتا ہے۔اسی طرح امام محترم چاروں مصادر سے استنباط مسائل کرتے تھے اور انہیں قابل استدلال سمجھتے تھے۔ مگر آپ احناف کے استحسان کو اور مالکیوں کے مصالح مرسلہ کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔

ائمہ اربعہ کے تراجم وفقہی واجتہادی سرگرمیوں کو پڑھنے سے واضح ہوتا ہے کہ ا ن ائمہ کرام کے ا دوار میں مسلمان پوری آزادی اور حریت فکر کے ساتھ سوچتے اور کسی خاص مذہب کے پابند نہ تھے کیونکہ ان ائمہ کرام نے نہ سینئرز کی پابندی کی اور نہ ہی خود کسی کو پابند کیا۔عام مسلمان نے بھی دین میں کوئی ایسی شق نہ پائی جو ان ائمہ کرام میں سے کسی ایک کے استنباط واجتہاد کو حتمی حیثیت دیتی۔ باقی یہ سوچنا بھی محال ہے کہ ان ائمہ کرام نے اپنی ساری جدوجہد اپنے اپنے مذاہب کی ترویج کے لئے کی تھی۔ چہ جائے کہ مذہبی یا مسلکی پابندی کی بات ہو۔ نیز نقطہ نظر کے اختلاف کو جس طرح انہوں نے اپنے لئے پسند فرمایا دوسرے کے لئے بھی ضرور پسند فرمایا ہوگا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
ان ائمہ اربعہ کے بارے میں شاہ ولی اللہ محدثؒ دہلوی اپنا تبصرہ یوں پیش فرماتے ہیں:

وَکَانَ أَعْظمَہُمْ شَأنًا وَأَوْسَعَہُمْ رِوَایَۃً وَأَعْرَفَہُمْ مَرْتَبَۃً وَأَعْمَقَہُمْ فِقْہًا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَإِسْحٰقُ بْنُ رَاہُویَۃَ، وَکَانَ تَرتِیبَ الْفِقْہِ عَلَی ہٰذَا الْوَجْہِ یَتَوَقَّفُ عَلَی جَمْعِ شَیئٍ کَثِیرٍ مِنَ الأَحَادِیثِ وَالآثاَرِ۔محدثین میں سب سے زیادہ محترم، وسعت روایت کے حامل، مراتب حدیث کے عارف اور گہرے فقیہ امام احمد بن حنبل اور امام اسحق بن راہویہ تھے ۔ ان کے ہاںفقہ درجہ بالا کمالات پرہی موقوف تھی کہ بہت سی احادیث اور آثار کو جمع کرکے فقہ کو مرتب کیا جائے۔

پھر امام احمد ؒ کے بعد کے محدثین کے ذکر میں لکھا ہے۔

وَکَانَ أَوْسَعَہُمْ عِلْمًا عِنْدِیْ وَأَنْفَعَہُمْ تَصْنِیفًا وَأَشْہَرَہُمْ ذِکْرًا رِجَالٌ أَرْبَعَۃٌ مُتَقَارِبُونَ فِی الْعَصْرِ، أَوَّلُہُم أبُو عَبدِ اللہِ البُخاریُّ وَکَانَ غَرَضُہُ تَجْرِیدُ الأَحادیثِ الصِّحاحِ الْمُسْتَفِیضَۃِ الْمُتَّصِلَۃِ مِنْ غَیرِہَا، وَاسْتِنْبَاِط الْفِقْہِ وَالسِّیْرَۃِ وَالتَّفْسِیرِ مِنْہَا، فَصَنَّفَ جَامِعَہُ الصَّحِیحَ ووَفّٰی بِمَا شَرَطَ ۔ان میں سب سے زیادہ علم اور مفید علمی تصانیف پیش کرنے والوں میںچار مشہور ترین شخص ہیں جن کا زمانہ قریب قریب کا ہے۔ ان میں اول حیثیت امام ابو عبد اللہ البخاری کی ہے ان کی تصنیف کا مقصد یہی تھا کہ احادیث صحیحہ کو الگ الگ کر دیا جائے، جس سے فقہ وسیر ت وتفسیر مستنبط کی جا سکے۔ یہی شرط انہوں نے اپنی کتاب میں پوری کر دکھائی۔

پھر ذکر محدثین کے بعد لکھا ہے:
وَکَانَ بِإِزَائِ ہٰؤلاء فِی عَصْرِ مَالِکٍ وَسُفْیَانَ وَبَعْدَہُمْ قَومٌ لاَ یَکْرَہُونَ الْمَسَائِلَ، وَلاَ یَہَابُونَ الفُتْیَا، وَیَقولونَ عَلَی الْفِقْہِ بِنَائُ الدِّینِ ، فَلاَبُدَّ مِنْ إشَاعَتِہِ، وَیَہَابُونَ رِوَایۃَ حَدیثِ رَسولِ اللہِﷺ ۔امام مالک وامام سفیان ثوری کے زمانہ میں محدثین کے مقابلہ میں ایک جماعت ایسی بھی تھی جو کثرت سوال کو برا نہیں جانتی تھی اور بے دھڑک فتوی دے دیتی اور کہتی تھی کہ دین کا دار ومدار فقہ ہی پر تو ہے۔ ضرور اس کی اشاعت ہونی چاہئے۔ مگر روایت حدیث سے وہ بھاگتے تھے۔

پھر دوسرے مدرسہ فقہاء کا تذکرہ ان الفاظ میںفرماتے ہیں:

لَمْ یَکُنْ عِنْدَہُمْ مِنَ الأحَادیثِ وَالآثارِ مَا یَقْدِرُونَ بِہِ عَلَی اسْتِنْباَطِ الْفِقْہِ عَلَی الأُصُولِ الَّتِی اخْتَارَہَا أَہْلُ الْحَدیثِ وَلَمْ تَنْشَرِحْ صُدُورُہُم لِتَنْظُرَ فِی أَقوالِ عُلَمائِ الْبُلدانِ، وَجَمْعِہَا، وَالْبَحْثِ عَنْہَا۔ وَاتَّہَمُوا أَنْفُسَہُم فِی ذٰلِکَ، وَکَانُوا اعْتَقَدُوا فِی أَئِمَّتِہِم أَنَّہُمْ فِی الدَّرَجَۃِ الْعُلْیاَ مِنَ التَّحْقِیقِ، وَکَانَ قُلُوبُہُمْ أَمْیَلُ شَیئٍ إِلٰی أَصْحَابِہِمْ کمَا قَالَ عَلْقَمَۃُ: ہَلْ أَحَدٌ مِنْہُمْ أَثْبَتُ مِنْ عَبْدِ اللہِ، وَقَالَ أَبو حَنیفۃَ: إبْرَاہیمُ أَفْقَہُ مَنٰ سَالِمٍ ولَو لاَ فَضْلُ الصُّحْبَۃِ لَقُلتُ: عَلْقَمَۃُ أَفْقَہُ مِنِ ابْنِ عُمَرَؓ۔
ان لوگوں کے پاس احادیث وآثار ایسے نہ تھے جس سے وہ محدثین کی طرح مسائل استنباط کر سکتے۔ ان کے سینے اس بات کے لئے بھی نہ کھل سکے کہ دوسرے علاقوں کے علماء کے اقوال پربھی غور وفکر کیا جائے۔ یا انہیں جمع کیا جائے اور اس میں صحیح کو تلاش کیا جائے۔ اس سلسلے میں انہوں نے خود کو متہم بھی کیا تھا۔ اپنے ائمہ کرام کے بارے میں ان کا یہ اعتقاد تھا کہ وہ بحث وتحقیق کی بلندیوں کو چھوتے ہیں۔ ان کا میلان بھی حد درجہ اپنے اساتذہ کرام کی طرف تھا۔ جیسے علقمہ نے کہا: کہ عبد اللہ بن مسعود سے بڑھ کر بھی کوئی ثقہ ہے؟ اور امام ابوحنیفہؒ نے کہا: ابراہیم نخعی، سالم سے بڑھ کر فقیہ ہیں۔ اگر فضل صحابی کی بات نہ ہوتی تو میں کہتا کہ علقمہ ، عبد اللہ بن عمر سے زیادہ بڑے فقیہ ہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
مذاہب اربعہ میں قیاس اور رائے کاسب سے زیادہ استعمال احناف نے کیا اور سب سے کم اہل ظاہرنے۔ اور نصوص یا صحیح احادیث سے استدلال سب سے زیاد شوافع اور حنابلہ نے کیا اور سب سے کم احناف اور موالک نے کیا ہے۔امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ائمہ اربعہ کا اپنا دور زمانہ اخیر کا ہے۔ اپنے مشایخ اور اساتذہ کے علم سے یہ بھی منور ہوئے۔ اللہ کا دین ان کے قلوب ونگاہ میں اس بات سے بلند تھا کہ وہ رائے ، عقل یا قیاس کو اس پر ترجیح دیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان کے اخلاص کو مقبولیت بخشی اور ان کا شہرہ چاردانگ عالم میں پھیل گیا۔ ان کا ذکر جمیل جاری ہوگیا۔ ان کے بعد ان کے عقیدت مند دو اعتبار سے سامنے آئے:

ایک جماعت تو ان کے اتباع میں انہی کے مطابق رہی۔ اللہ نے انہیں توفیق دی کہ انہوں نے وہی طریقہ جاری رکھا جس پر ان بزرگوں کو پایا تھا کسی کی جانب داری ان میں نام کو نہ تھی۔ وہ اپنے بزرگوں کی طرح حجت ودلیل کا ساتھ دیا کرتے تھے۔ حق کا رخ جدھر پاتے اپنا منہ فورا اسی طرف پھیر لیا کرتے تھے۔ حق کا دامن تھامتے رہے اور اسی کے گرد گھومتے رہے۔ صحیح دلیل ثابت ہوتے ہی اکیلے یا باجماعت اس کی طرف لپک جاتے۔ حدیث رسول سنتے ہی پروانہ وار جھومتے جھومتے آتے اور اسے قولاً وعملاً اپناتے۔ یہی ان کا عقیدہ تھا۔ وہ جانتے تھے کہ قرآن وحدیث کے مقابلے میں کسی انسان کا قول وحجت کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ قرآن وحدیث کا مقابلہ رائے یا قیاس سے کرنا گویاان کی توہین وحقارت کے مترادف ہے۔

دوسری جماعت نے تقلید پر ہی قناعت کرلی جس نے تعصب کو جنم دیا۔ اس سے پھوٹ اور تفریق پیدا ہوگئی۔ جدا جدا گروہ بندیاں ہو گئیں اور اپنے اپنے جداگانہ اصول وفروع ایجاد کر لئے گئے۔ ہر کوئی ان پر بخوشی جم گیا۔ ان میں سب سے بڑا دین دار اسے سمجھا جانے لگا جو سب سے زیادہ اپنے امام کی تقلید میں متعصب ثابت ہوا اور یوں ان لوگوں نے یہ نعرہ لگایا: {وجدنا علیہ آبائنا وإنا علی آثارہم لمقتدون}۔ ( اعلام الموقعین: ۱؍۲۶)

ائمہ اربعہ کے نکتہ ہائے نظر کو سمجھنے کے بعد ہمارے لئے یہ فرق کرنا غالباً مشکل نہیں ہوگا کہ کسی مسئلہ میں احناف کیا کہتے ہیں اور امام ابو حنیفہؒ کیا فرماتے ہیں؟ شوافع کا کیا نکتہ نظر ہے اور امام شافعی کا کیا؟ امام مالکؒ یا امام احمدؒ کس نکتہ نظر کے حامی ہیں اور موالک وحنابلہ کس کے؟ اس لئے کہ ان ائمہ کرام کے علمی مقام ومرتبے کا انکار نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ان کی انتھک کاوشوں کو بے قیمت سمجھا جا سکتا ہے جنہوں نے اپنی ساری عمریں شریعت اور اس کے علوم کی خدمت ونگرانی میں گذار دیں یہاں تک کہ یہ علوم ہم تک پہنچے۔اور ہم ان سے استفادہ کے لائق ہوئے۔ اللہ تعالی ان علماء کو ہماری طرف سے اور شریعت کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے۔آمین۔مگر بعد کی کاوشوں کو یا تخریجات کو ان کی فقہ کہنا نامناسب لگتا ہے۔

٭٭٭٭٭​
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
چوتھا باب :
فقہی تقسیم اور تناؤ
ائمہ مجتہدین کرام جب تک اجتہاد کی حدود کی پابندی کرتے رہے اس وقت تک اجتہاد باعث رحمت رہا۔اس مشروط اجتہاد میں ایک مبارک روش واضح طور پر نظر آتی ہے کہ اختلاف رائے ،کے باوجودرواداری، حوصلہ اور درگزرکا پہلو غالب رہا۔ تعصب کی بجائے فکر ونظر کو تازگی ملتی رہی اور اسلام اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ جلوہ گر رہا۔ مگر جونہی ان شرائط کو نظر انداز کیا گیا۔ مذہبیت بتدریج غالب آگئی اور مسلمان اپنے اسلاف کے منہج سے بتدریج ہٹتے گئے۔یہ سلسلہ کب شروع ہوا ؟اس بارے میں شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ حجۃ اللہ البالغۃ: ج ۱ ص۴۳۸ فرماتے ہیں:

اعْلَمْ أَنَّ النَّاسَ قَبْلَ الْمِائَۃِ الرَّابِعَۃِکَانُوا غَیرَ مُجْمَعِینَ عَلَی التَّقْلِیدِ الْخَالِصِ لِمَذْہَبٍ وَاحِدٍ بِعَیْنِہِ۔آپ کے علم میں یہ بات ہونی چاہئے کہ مسلمان چوتھی صدی ہجری سے قبل کسی ایک مذہب کی تقلید خالص پر متفق نہ تھے۔
آپ فرماتے ہیں کہ جونہی حنفی، شافعی ، حنبلی اور مالکی کی اصطلاحات متعارف ہوئی ہیں ہمارا یہ خیال ہے کہ اسلامی فقہ کا عظیم دور گزر گیا اور اس کی جگہ مذہبی دور آگیا۔ ہو سکتا ہے کئی سیاسی اور عقلی عوامل اس مذہبیت کے پیچھے ہوں مگر بعد میں شخصیت پرستی(تقلید) کی روح عوام میں بتدریج سرایت کرگئی۔ جس میں علماء بھی شامل ہوگئے اور یوں فہم دین میں بتدریج زوال آنا شروع ہوا۔

فقہی مذاہب کا آغاز:

دوسری صدی ہجری کے آخیر میں فقہ اسلامی کا رنگ بدل گیا۔ علمی سرگرمیوں کے نتیجے میں ماحول وشخصیات کی فکر کے تعلق سے دو اہم مدارس وجود میں آگئے: جو مدرسہ حدیث (Hadith School)اور مدرسہ رائے(Anology School) کہلائے۔ ان مدارس نے اپنی فکر کے انتشار میں جو تگ ودو دکھائی اور اصول بنائے اور اپنی فقہ کی عمارت انہی اصولوں پر قائم کی۔ اس کا تفصیلی تذکرہ امام شہرستانی ؒ(۵۴۸ھ) جو امت اسلامیہ میں مختلف فرقوں اور مذاہب کے بننے اور بگڑنے پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔ اسی موضو ع میں لکھی گئی اپنی مستند کتاب الملل والنحل میں یوں فرماتے ہیں:

ثُمَّ المُجْتَہِدُونَ مِنْ أَئِمَّۃِ الأُمَّۃِ مَحْصُورُونَ فِی صِنْفَیْنِ، لاَ یُعَدَّانِ إِلٰی ثَالِثٍ، أَصْحَابُ الْحَدِیثِ وَأصْحَابُ الرَّأْیِ۔
أَصْحَابُ الْحَدِیثِ ہُمْ أَہْلُ الْحِجَازِ وَأصْحَابُ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ وأَصْحَابُ مُحَمَّدِ بْنِ إِدریسَ الشافِعِیِّ وَأَصْحَابُ سُفیانَ الثَّورِیِّ وَأصْحابُ أَحمدَ بْنَ حَنبلٍ وَأصْحابُ دَاؤدَ بْنِ عَلیِّ بْنِ محمدِ الإصفہَانِیِّ، وَإِنَّمَا سُمُّوا أَصْحَابُ الحدیثِ لِأنَّ عِنَایَتَہُمْ بِتَحْصِیلِ الأحَادیثِ وَنَقْلِ الأخْبَارِ وَبِنَائِ الأحکامِ عَلَی الْمَنْصُوصِ وَلاَ یَرْجِعونَ إِلَی الْقِیَاسِ الْجَلِیِّ وَالْخَفِیِّ مَا وَجَدُوا خَبْرًا۔
وَأَصْحَابُ الرَّأْیِ وَہُم أہْلُ الْعِرَاقِ: ہُم أصحابُ أَبِی حَنیفۃَ النُّعمانِ بْنِ ثابتٍ وَمِنْ أَصحابِہِ محمدُ بْنُ الْحَسَنِ وَأَبُویوسُفَ یَعقوبُ بْنُ محمدٍ القاضیُّ وَزُفَرُ بْنُ ہُذَیلٍ وَالْحَسَنُ بْنُ زِیادٍ اللُّؤْلُؤِیُّ وَابْنُ سَمَاعَۃَ وَعَافِیَۃُ القاضیُّ وأبومُطِیع الْبَلْخِیُّ وَالْبِشْرُ الْمِرِّیْسِیُّ، وَإِنَّمَا سُمُّوا أَصْحَابُ الرَّأیِ لِأنَّ عِنَایَتَہُمْ بِتَحْصِیلِ وَجْہٍ مِنَ الْقِیاسِ وَالْمَعنیَ الْمُسْتَنْبَطُ مِنَ الأحکامِ وَبِنَائِ الْحَوَادِثِ عَلَیہَا، وَرُبَمَا یُقَدِّمُونَ الْقِیَاسَ الْجَلِیَّ عَلَی أخْبارِ الآحَادِ۔
ائمہ مجتہدین کی دو ہی قسمیں ہیں تیسری کوئی قسم نہیں: اصحاب حدیث اور اصحاب رائے۔

۱۔ اصحاب حدیث کا مسکن حجاز ہے جن میں امام مالک اور ان کے تلامذہ، امام شافعی اور ان کے شاگرد، سفیان الثوری اور ان کے رفقائ، امام احمد کے ساتھی اور امام داؤد اور ان کے خدام، انہیں اصحاب حدیث اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان کی زیادہ تر توجہ حدیث اور اخبار کی طرف ہے ، یہ لوگ احکام کی بنیاد نصوص پر رکھتے ہیں۔ جب حدیث موجود ہو تو یہ لوگ قیاس جلی ہو یا خفی اس کی پروا نہیں کرتے۔

۲۔ اہل عراق کو اصحاب رائے کہا جاتا ہے جو امام ابوحنیفہؒ اور ان کے تلامذہ ہیں، انہی میں امام محمد، امام ابویوسف قاضی، زفربن ہذیل، حسن بن زیاد، ابن سماعہ، قاضی عافیہ، ابو مطیع البلخی اور بشر المریسی وغیرہ شمار ہوتے ہیں۔ انہیں اصحاب رائے اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان کی زیادہ تر توجہ قیاس اور معانی کے استنباط کی طرف ہے یہ لوگ احکام کی بنیاد قیاس پر رکھتے ہیں اور بسا اوقات قیاس جلی کے سامنے خبر واحد کی بھی پروا نہیں کرتے۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی معروف کتاب حجۃ اللہ البالغۃ کے باب الفرق بین أہل الحدیث وأہل الرأی میں شہرستانی کی اسی بات کی مزیدشرح بھی فرمائی ہے۔جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
تقسیم کی وجہ :

ائمہ کرام کے بعد یہ مسلمان علماء کیسے منقسم ہوئے؟ وجوہات کیا تھیں؟ تاریخ کے امام مشہور مورخ وناقد علامہ ابن خلدون (۸۰۸ھ) کا درج ذیل اقتباس بھی اس وجہ کو سمجھانے کے لئے قابل غور ہے ۔ فرماتے ہیں:

وانْقَسَمَ الْفِقْہُ فِیْہِمْ إِلٰی طَرِیْقَیْنِ: طَریقُ أَہْلِ الرَّأْیِ وَالْقِیاسِ وَہُم أَہْلُ الْعِراقِ، وَطَریقُ أَہْلِ الْحَدیثِ وَہُم أہلُ الحِجازِ، وَکانَ الحدیثُ قَلیلاً فِی أہلِ العِراقِ لِمَا قَدَّمْنَاہُ، فَاسْتَکْثَرُوا مِنَ الْقِیَاسِ وَمَہَرُوا فِیہِ، فَلِذَلِکَ قِیلَ أہلُ الرَّأْیِ، وَمُقَدَّمُ جَمَاعَتِہِمُ الَّذِی اسْتَقَرَّ الْمَذْہَبُ فِیہِ وِفِی أصحابِہِ: أبوحنیفۃَؒ - وَإِمَامُ أَہْلِ الْحِجازِ مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ وَالشافِعِیُّ مِنْ بَعْدُ۔
پہلوں میں فقہ کے دوطریقے رائج ہو گئے۔ ایک طریقہ اہل عراق (کوفہ وغیرہ) والوں کا ہے اور دوسرا محدثین کا جو حجاز (مکہ و مدینہ) والوں کا ہے۔ اہل عراق میں جیسا کہ پہلے ذکرہو چکا ہے۔ حدیث کا ذوق کم تھا۔ لہٰذا انہوں نے بکثرت قیاس سے کام لیا اور اسی میں مہارت حاصل کی۔ جس کی وجہ سے انہیں اھل الرائے کہا گیا۔ اس جماعت کے سرخیل امام ابوحنیفہؒ قرار پائے۔ ان میں اور ان کے شاگردوں میں مذہب نے قرار پکڑا۔ اہل حجاز(مکہ و مدینہ) والوں کے پیشوا امام مالکؒ اور پھر امام شافعی ؒٹھہرے۔ (مقدمہ ابن خلدون: ۳۸۹)

خیر القرون میں ہر فقیہ کا یہ حق تھا کہ وہ صورت مسؤلہ کا جواب دے اس لئے کہ لوگ اس سے فقہی سوالات کا حل مانگتے تھے۔ اور جب اس نے اجتہاد کیا تو اپنے علم کے مطابق یہی سمجھا کہ میری نظر میں یہی حق ہے۔بعد میں فقہاء کرام کی یہ کوششیں انفرادی حیثیت اختیار کر گئیںجوہر شہر میں اپنے اپنے مسلک کی تھیں۔ وہ اپنے ماحول اور حالات کے لحاظ سے معذور بھی تھے۔ان تک صحیح احادیث رسول نہیں پہنچ سکیں بلکہ وہ احادیث ضعیفہ ، آثار اور فتاوی پر اکتفاء کرتے رہے۔انہی حالات میں تدوین حدیث ہوئی اور ضعیف وموضوع یا مرسل ومنقطع روایات بے وزن ہوگئیں مگر بعض علمائ، نے پھر بھی انہیں اپنی کتب کی زینت بنایا اور واعظ حضرات بھی اپنے خطبوں میں ان کا تذکرہ کرتے رہے۔ مکہ کے فقہاء ہوں یا مدینہ کے، عراق کے ہوں یا یمن کے، مصر کے ہوں یا شام کے سب کی فقہی جزئیات اور قابل اعتماد ذرائع علیحدہ علیحدہ تھے۔ کوئی جامع ضابطہ نہ تھا جو حدیث کی صحت وضعف کا معیار قائم کرسکتا اور نہ ہی کوئی اصول وقواعد تھے۔ بلکہ ہر شہر کا فقیہ اور فقہ علیحدہ علیحدہ تھی۔ اجتہاد، افتاء اور استنباط مسائل کے لئے احادیث صحیحہ کے مقابلے میں مرسل، منقطع اور موقوف روایات پر اعتماد وانحصار تھا۔ اسی بناء پر امام زرکشیؒ نے المحصول میں مسلکی فقہ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے:

ہُوَ مَعْرِفَۃُ أحْکامِ الْحَوَادِثِ نَصًّا وَاسْتِنباطًا عَلَی مَذْہَبٍ مِنَ الْمَذَاہِبِ۔جدید مسائل کے احکام کو نصوص واستنباط کے ذریعے سے کسی بھی مذہب کی روشنی میں جاننا۔۱؍۱؍۹۴
ان تمام ائمہ کی طرف نسبت سے فقہ مدون ومرتب ہوئی جوفقہ حنفی،فقہ مالکی،فقہ شافعی فقہ جعفری اورفقہ حنبلی کے نام سے موسوم ہوئی۔جود میں آئی۔ اس طرح ہر فقہ ایک ہی مسلک کی محدود فقہ بن گئی۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
مذہبی شدت :

شاہ صاحب نے تقلید کے زمانہ کی جو تحدید کی ہے ہمارا خیال یہ ہے کہ غالبا اس کا آغاز ائمہ حضرات کے دور میں ہی ہو چکا تھا۔ اس مذہبی فقہ کا قاری بآسانی اندازہ لگا سکتا ہے کہ مسئلہ اور اس کا رد عمل، اندلس میں مالکی فقہاء اور مشرق میں حنفی فقہاء کی اپنے اپنے قاضیوں کی مناصب پر تعیین اوران کی پیشگی شرائط، امام شافعیؒ اور امام محمدؒ کے فقہی مناظرے، امام شافعیؒ کے بارے میں مالکی فقہاء کی بد دعائیں، کتب فقہیہ میں مناظرانہ رنگ اور علمی احترام کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک دوسرے پر شدید ردود، اپنے فقہاء کے بارے میں غلو اور دوسروں کی اہانت، شاعرانہ چشمک نے یہ مذہبی عصبیت شروع ہی سے پیدا کردی تھی۔

امام بخاری رحمہ اللہ کو ان کے آخری ایام میں بخارا سے بدر کروانے میں شاید یہی عوامل کارفرما تھے کہ امام بخاریؒ کے فتاوی نصوص پر تھے جن کے مقابلہ میںحنفی علماء کے فتاوی اپنے مسلک کے مطابق تھے کیونکہ سلطنت عباسی کے سایہ شفقت میں بخارا وسمرقند میں فقہ حنفی کا تسلط تھا۔ فقہاء وعلماء کے درمیان ایسی صورت حال پیدا ہوتی رہی جو ایک دوسرے کے لئے پریشان کن تھی۔ مثلا: بعض فقہاء کا یہ فتوی تھا کہ مدہوشی کی حالت میں طلاق مؤثر ہوتی ہے ان کے مقابل یہ فتوی دیا گیاکہ حالت نشہ میں دی گئی طلاق غیر مؤثر ہوتی ہے۔ فقہاء نے وجہ یہ بتائی کہ لفظ طلاق کی ساتھ نیت ضروری نہیں۔دوسروں نے کہا: نہیں بلکہ آپﷺ کا ارشاد ہے: إنما الأعمال بالنیات۔ عمل کے مؤثر ہونے کا دارو مدار نیت پر ہے۔مے نوش جب حالت نشہ میں طلاق دیتا ہے تو اس کی نیت طلاق دینے کی نہیں ہوتی لہٰذا اس کے الفاظ ، لغو الفاظ ہیں اور طلاق مؤثر نہیں۔

اسی طرح ایک فتویٰ یہ بھی سامنے آیا کہ جبر، تشدد اور اکراہ سے حاصل کی گئی طلاق مؤثر ہے۔ یہ فتوی بھی یہ کہتے ہوئے رد کر دیا گیا کہ یہ طلاق غیر مؤثر ہے اس لئے کہ نبیﷺ نے فرمایا جبری طلاق نہیں ہوتی۔

فقہاء نے کہا: نکاح کے لئے لڑکی کی رضا ضروری نہیں ہے۔ دوسروں نے فتوی دیا: نکاح کے لئے لڑکی کی رضا ضروری ہے آپﷺ نے اس لڑکی کا نکاح کالعدم قرار دیا تھا جس نے اظہار کراہت کیا تھا۔ اور کراہت کا ضد لفظ رضا ہے ، اجازت نہیں ہے۔
یہ فتویٰ بھی سامنے آیا: نکاح سے قبل طلاق دینا جائز ہے۔دوسرے فقہاء نے فرمایا ایسا کرنا درست نہیں اس لئے یہ قرآن کے حکم کے خلاف ہے نکاح سے قبل طلاق کا جواز ہی نہیں بلکہ ایسی طلاق لغو ہے۔

فقہاء نے کہا: نکاح وطلاق میں قاضی کا فیصلہ ظاہر وباطن میں نافذ ہوتا ہے۔دیگر فقہاء نے فتوی دیا یہ بھی درست نہیں۔ عمداجھوٹ بول کر یا عمدا ًجھوٹے گواہ بنا کر اگر عدالت کا فیصلہ لے لیا جائے تو عورت بیوی نہیں بنتی۔ جب کہ پہلوں نے کہا وہ بیوی بن جاتی ہے۔
یہ بھی فتویٰ سامنے آیا: ایک قطرہ دودھ پینے سے عورت رضاعی ماں بن جاتی ہے۔جواب میں کہا گیا یہ بھی غلط ہے اس لئے کہ آپﷺ کا ارشاد ہے : ایک دو گھونٹ پینے سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
مذہبی شدت کے یہ انمٹ آثار ہماری ان کتب کی زینت ہیں جنہیں ہمارے ہاں قابل قدر اثاثہ وسرمایہ سمجھ کر پڑھایا جاتا ہے۔امام خطیب بغدادی ؒ حنبلی مسلک رکھتے تھے کسی مسئلہ پر تحقیقی وعلمی اندازسے سوچا تو امام شافعیؒ کی رائے وقیع ومدلل نظر آئی چنانچہ انہوں نے اس کے مطابق فتوی دے دیا۔ صبح جب اپنے کمرے سے باہر آنا چاہا تو حنبلیوں نے راتوں رات ان کے دروازے پر دیوار چن دی۔ مالکیوں نے امام بقیؒ بن مخلد محدث اندلس کے ساتھ جو کچھ کیا کہ اندلس میں اس عالم حدیث کا وجود تک برداشت نہ کرسکے۔ماضی میں معمولی فقہی مسائل پر شوافع اور احناف کے درمیان باقاعدہ میدان جنگ سجے اور بزعم خود شہادتوں کے ڈھیر لگے۔ تاتاریوں کے ہاتھوںبغداد کے تاخت وتاراج کے پس منظر میںیہی فرقہ واریت ہی توہے۔ ہاتھ چھوڑ کر نماز مالکی پڑھتے ہیں ۔ پوچھا جائے کہ اس کی دلیل تمہارے پاس کیا ہے جب کہ امام محترم اپنی کتاب موطأ میں ہاتھ باندھنے کی حدیث بطور دلیل کے پیش فرماتے ہیں اور وہ خود بھی اس پر عامل رہے؟ ان کا جواب یہی ہے کہ چونکہ ہمارے امام کا یہ آخری عمل ہے۔اس لئے ہم اسے چھوڑ نہیں سکتے۔ بعض کتب فقہ میں بڑے بڑے ائمہ مجتہدین کے خلاف ایسا تلخ وترش لب ولہجہ استعمال ہوا ہے جوکسی بھی طرح ایک طالب علم کو علماء وفقہاء اور محدثین کے ادب و احترام کا خوگر نہیں بناتا بلکہ دیگر مسالک سے تعصب اور نفرت کا داعیہ پیدا کرتا ہے۔کسی کو گمراہ قرار دینے یا کفر تک پہنچانے کے رجحانات بھی بہت تیز وشدید پائے جاتے ہیں۔ عموما ًیہ رجحان فروعات کے بارے میں ہے جب کہ فروعی مسائل میں اختلاف کی گنجائش باقی رہتی ہے۔

اسی طرح مسانیدابی حنیفہؒ کے نام سے ایک کتاب ساتویں ہجری میں ایک حنفی عالم ابو المؤید الخوارزمی نے مرتب کی۔ اولاً تو اس کتاب کی ثقاہت بیشتر علماء ومحدثین کے نزدیک محل نظر ہے جس کی تفاصیل ہمیں حجۃ اللہ البالغۃ میں مل جائیں گی۔ نیز اس کی بیشتر احادیث سنداورمتن دونوں اعتبار سے محدثین کے ہاں ضعف اور وضع سے بھر پور ہیں۔ پھر بھی مؤلف مرحوم کا تصنیفی داعیہ ملاحظہ فرمائیے لکھتے ہیں:

زَعَم َأَنَّہَ لَیْسَ لأِبِی حَنیفۃَ رَحِمَہُ اللہُ مُسْنَدٌ، کَاَن لَا یَرْوِیْ إِلاَّ عِدَّۃَ أَحادیثَ فَلَحِقَتْنِیْ حَمِیّۃٌ دِیْنِیَّۃٌ رَبَّانِیَّۃٌ، وَعَصَبِیَّۃٌ حَنَفِیَّۃٌ نُعْمَانِیَّۃٌ فَأَرَدْتُّ أَنْ أَجْمَعَ بَینَ خَمْسَۃَ عَشَرَ مِنْ مَسَانِیدِہِ......(مقدمہ جامع المسانید از خوارزمی)مخالف یہ دعوی کرتا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی کوئی مسند نہیں ہے۔ نیز یہ کہ وہ چند احادیث ہی کو روایت کرتے تھے۔ تو مجھے دین کی ربانی غیرت نے اور حنفی نعمانی عصبیت نے للکارا اورجوش دلایا۔ اس بنیاد پر میں نے چاہا کہ ان پندرہ مسانید کو جمع کرڈالوں۔۔۔

جس فقیہ کے یہ الفاظ ہوں اس نے کیا جمع کیا ہوگا؟۔

ہونا یہ چاہئے تھا کہ تمام فقہاء کی کاوشوں اور اجتہادات سے بھرپور فائدہ اٹھا کر فقہ کو محدود کرنے کی بجائے وسیع کیا جاتاجو کم ازکم اسلامی فقہ تو کہلاتی۔ اس لئے کہ ان فقہاء کرام نے یہ سب کاوشیں دین اسلام کے لئے کیں نہ کہ اپنی ذات یا اپنے مسلک کو رواج دینے کے لئے۔ جب چاروں فقہاء برحق ہیں توایک مسلک سے جڑ کر ان کی فقہ کو اسلامی فقہ کیسے کہا جاسکتا ہے؟۔ مدینہ منورہ کے فقہاءسبعہ میں سب سے بڑے امام سعیدبن المسب رحمہ اللہ(م:۹۳ھ) ہیں ان کا فرمانا ہے:

لَیْسَ مِنْ عالِمٍ ولاَ شَریفٍ ولاَ ذِی فَضْلٍ إلاّ وفیہِ عَیبٌ، ولٰکِن مَن کان فَضْلُہُ أَکْثَرَ مِنْ نَقْصِہٍ، ذَہَبَ نَقْصُہُ لِفَضْلِہِ، کَمَا أنَّہُ مَنْ غَلَبَ عَلَیْہِ نُقْصَانُہُ ذَہَبَ فَضْلُہُ۔ وقا لَ غَیرُہُ: لا یَسْلَمُ العَالِمُ مِنَ الخَطأِ ، فَمَنْ أَخْطَأَ قلیلاً وأصَابَ کثیراً فہُوَ عالِمٌ، ومَنْ أَصَابَ قلیلاً وأخطأً کثیراً فہو عالِمٌ، ومَنْ أَصَابَ قلیلاً وأخْطَأَ کثیراً فہُوَ جاہِلٌ۔(جامع بیان العلم از ابن عبد البر ۲؍۴۸)علمائ، شرفاء اور صاحب فضل لوگوں میں کوئی ایسا نہیںجس میں کوئی عیب نہ ہو۔ہاں جس کی خوبی اس کی خامی سے زیادہ ہو وہ یقیناً خوبی میں برتر ہوگیا اور جس کی خامی اس کی خوبی سے کم ہو اس کی عزت گئی۔ ایک اور فقیہ فرماتے ہیں: کوئی عالم غلطی سے نہیں بچا۔ جس کی غلطی کم اور صواب زیادہ ہو وہ یقیناً عالم ہے اور جس کا صواب کم اور غلطی زیادہ ہو وہ یقیناً جاہل ہے۔
 
Top