محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
فقہ حنبلی کے اصول:
امام محترم نے اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کے لئے کچھ ایسے اصول اختیار کئے جو بعد میں فقہ حنبلی کی اساس قرار پائے۔ یہ پانچ اصول ہیں جو آپ کے فتاوی میں واضح طور پر ملتے ہیں اور انہی پر ہی آپ کی فقہ کا دار ومدار تھا۔ امام محترم اگر دلائل کو متعارض پاتے تو بالکل فتوی نہ دیتے ۔ اور اگر کسی مسئلے میں صحابہ کرام کا اختلاف ہوتا یا کوئی حدیث آپ کے علم میں نہ ہوتی یا کسی صحابی یا تابعی کا قول نہ ملتا تو توقف فرماتے۔
جس مسئلے میں سلف سے کوئی اثر نہ ملتا تو بھی فتوی نہیں دیتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے: اس مسئلے پر رائے دینے سے بچو جس میں تمہارے پاس کوئی راہنما نہ ہو۔ جب مسائل کا جواب دیتے یا لکھتے تو کھلے دل سے فقہاء محدثین کے فتاوی کو اور امام مالکؒ اور اصحاب مالک ؒکے فتاوی وغیرہ کو بطور دلیل کے پیش کردیا کرتے۔ ایسے فتویٰ سے روکا کرتے جس میں حدیث سے اعراض نظر آتا ہو یا حدیث کے مطابق وہ فتوی نہ ہو اور نہ ہی ایسے فتویٰ کو قابل عمل سمجھتے تھے۔ وہ پانچ اصول درج ذیل ہیں:
۱۔ نصوص: نص کی جمع ہے جس سے مراد قرآن وحدیث سے کوئی دلیل جو نص کی صورت میں ہو۔ نص جب انہیں مل جاتی تو اسی کے مطابق فتوی دے دیا کرتے خواہ کسی نے بھی اس کے خلاف کہا ہو۔ حدیث صحیح پر کسی کے قول، عمل، رائے اور قیاس کو مقدم نہیں کیا کرتے تھے۔ نہ ہی اجماع کو وہ حدیث صحیح پر مقدم کرتے تھے۔ امام احمدؒ نے ایسے اجماع کو تسلیم ہی نہیں کیا جو صحیح حدیث کی موجودگی میں اس کے برعکس کیا گیا ہو۔ کسی مسئلے پر اجماع کے دعوے کو بھی تسلیم نہیں کیا کرتے تھے۔ اس لئے کہ جو یہ دعویٰ کر رہا ہے اسے کیا علم کہ علماء نے اس سے اختلاف کیا ہو۔ اور یا اس اختلاف کا علم اسے نہ ہوا ہو۔
۲۔ فتاویٰ صحابہ: کسی صحابی کا فتوی مل جانے کے بعد اس کی مخالفت کسی اور صحابی سے نہ ملتی تو فتوی اس کے مطابق دیتے ۔ ایسے فتوی کو اجماع تونہ کہتے بلکہ یہ فرمایا کرتے: اس کے بارے میں مجھے کسی ایسی بات کا علم نہیں جو اس صحابی کی بات کورد کرتی ہو۔ اس نوع کا کوئی فتوی ـ آپ کو بھی اگر مل جاتا تو کسی کے عمل، رائے یا قیاس پر اسے مقدم نہیں کرتے تھے۔
۳۔ اقوال صحابہ کا چناؤ: جب اقوال صحابہ میں انہیں اختلاف نظر آتا تو اس صورت میں وہ اس صحابی کا قول لیتے جو کتاب وسنت کے قریب ترین ہوتا۔ اور اگر کسی کے قول کی کوئی موافقت نہ ملتی تو اس مسئلے میں اختلاف کا ذکر فرماتے مگر کوئی حتمی رائے نہ دیتے۔
۴۔ حدیث مرسل: کسی مسئلے میں اگر صحیح حدیث نہ ہوتی تو امام محترم حدیث مرسل اور حدیث ضعیف سے بھی استدلال لیتے ۔ ایسی حدیث کو تو وہ قیاس پر بھی ترجیح دے دیا کرتے۔ضعیف حدیث سے مراد ان کے ہاں کوئی باطل حدیث، یا منکر حدیث، یا اس راوی کی حدیث نہیںجومتہم ہوکہ ایسی حدیث پر عمل ناگزیر ہو بلکہ ان کے نزدیک ضعیف حدیث، صحیح کی ایک قسم ہی ہے جو حسن کے درجے کی ہے۔ کیونکہ ان کے زمانہ میں حدیث کی دو ہی اقسام ہوا کرتی تھیں صحیح اور ضعیف۔ ضعیف حدیث کے کچھ مراتب تھے۔ جن کی ادنی قسم یہ ضعیف ہوا کرتی تھی جو بعد میں حسن کہلائی۔ جب کسی مسئلہ میں کوئی ایسا اثر نہ پاتے یا کسی صحابی کا کوئی قول نہ ملتا یا کوئی اجماع اس کے خلاف نہ ملتا جو اس ضعیف حدیث کو ردکرسکے توقیاس کو ترجیح دینے کی بجائے اس پر عمل فرماتے۔ تمام ائمہ کی طرح ان کا بھی یہی اصول تھا کہ ضعیف حدیث کو قیاس پر مقدم رکھا جائے۔(اعلام الموقعین ۱؍۳۲)
۵۔ضرورۃ ً قیاس: جب کسی مسئلہ میں ان کے پاس کوئی نص نہ ہوتی اور نہ ہی قول صحابہ یا صحابی، نہ کوئی اثر مرسل یا ضعیف، پھر آپ پانچویں اصول کی طرف توجہ فرماتے جسے قیاس کہتے ہیں۔ اسے بھی امام محترم نے بوقت ضرورت استعمال کیا ہے۔ابوبکرالخلال کی کتاب میں ہے : امام احمدؒ فرماتے ہیں: میں نے امام شافعی ؒسے قیاس کے بارے میں دریافت کیا: توانہوں نے فرمایا: ضرورت کے وقت اس کی طرف بھی رخ کیا جاسکتا ہے۔ ( اعلام الموقعین: ۱؍۳۲)