محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
۲۔ چلتے پانی کا پنگھٹ، جہاں لوگ پانی پینے پلانے کے لئے آئیں۔جب اونٹ پانی کے پنگھٹ پر پہنچ جاتے توعرب کہا کرتے: شرعت الإبل۔میں اونٹوں کو پانی کے پنگھٹ پر لایا۔ ایک ضرب المثل بھی ہے: أَہْوَنُ السَّقِیِّ : التَّشْرِیْعُ۔ مراد یہ کہ اونٹوں کو چلتے پنگھٹ پر لے جاؤ تاکہ وہ پانی پی لیں۔کیونکہ بغیر ڈول نکالے یہی طریقہ زیادہ آسان تھا۔اس معنی میں شریعت جسم وقلب کو سیراب کرنے والی ایسے شے ہے جیسے پانی پیاسے کے حلق وجسم کو سیراب کردیتا ہے۔قرآن مجید میں اس لفظ کا استعمال اسی معنی میں ہوا ہے۔
{لکلّ جعلنا منکم شرعۃ و منھاجاً}تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے ایک شریعت او رایک راہ عمل متعین کر دی ہے۔
یہ آیت اصل میں اس آیت {شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحاً} کی تفسیر ہے کہ سبھی ملتوں کا دین واصول مساوی اورایک ہی تھا جس میں نسخ نہیں ہوا۔جیسے معرفت باری تعالی اور دیگر اصول جیسے:{ ومن یکفر باللہ وملئکتہ وکتبہ ورسلہ }(۔۔النسائ:۱۳۶)۔نیز اس سوال کا جواب بھی کہ جب تمام انبیاء کرام اور کتابوں کا دین ایک ہے اور سب ایک دوسرے کی تصدیق کرتے آئے ہیں تو پھر شریعت کی تفصیلات میں فرق کیوں ہے؟ جواب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے مختلف قوموں کے لئے مختلف زبانوں اورمختلف حالات میں مختلف ضابطے بنائے۔ کیونکہ پچھلی شریعتوں میں بعض فروعی احکامات ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ ایک شریعت میں بعض چیزیں حرام تھیں تو دوسری میں حلال تھیں۔بعض میں کسی مسئلے میں شدّت تھی تو دوسری میں تخفیف۔ لیکن سب کی دعوت اور دین ایک ہی تھا۔ آپﷺ نے بھی اس کی وضاحت یوں فرمائی تھی۔
{نَحْنُ مَعَاشِرُ الأنْبِیَاء إِخْوَۃٌ لِعَلاّتٍ، دِینُنُا وَاحِدٌ}ہم انبیاء کی جماعت علاتی بھائی ہیں ہمارا دین ایک ہے۔(صحیح بخاری)
علاتی بھائی وہ ہوتے ہیں جن کی مائیں تو مختلف ہوں مگر باپ ایک ہی ہو۔ مطلب یہ کہ ان کا دین ایک ہی تھا اور شریعتیں (دستور اور طریقے) مختلف تھیں۔ شریعت محمدیہ کے بعد اب سابقہ شریعتیں منسوخ ہو گئی ہیں۔ اب دنیا کے خاتمے تک دین بھی ایک ہے اور شریعت بھی ایک۔ ایک اور مقام پہ ارشاد ربانی ہے:
{ثم جعلناک علی شریعۃ من الأمر فاتبعھا ولا تتبع أھواء الذین لا یعلمون} (الجاثیہ:۱۸) پھر ہم نے آپ کو دین کی ظاہر راہ پر قائم کر دیا۔ سو آپ اسی پر رہیں اور نادانوں کی خواہشات پہ نہ چلیں۔
{لکلّ جعلنا منکم شرعۃ و منھاجاً}تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے ایک شریعت او رایک راہ عمل متعین کر دی ہے۔
یہ آیت اصل میں اس آیت {شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحاً} کی تفسیر ہے کہ سبھی ملتوں کا دین واصول مساوی اورایک ہی تھا جس میں نسخ نہیں ہوا۔جیسے معرفت باری تعالی اور دیگر اصول جیسے:{ ومن یکفر باللہ وملئکتہ وکتبہ ورسلہ }(۔۔النسائ:۱۳۶)۔نیز اس سوال کا جواب بھی کہ جب تمام انبیاء کرام اور کتابوں کا دین ایک ہے اور سب ایک دوسرے کی تصدیق کرتے آئے ہیں تو پھر شریعت کی تفصیلات میں فرق کیوں ہے؟ جواب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے مختلف قوموں کے لئے مختلف زبانوں اورمختلف حالات میں مختلف ضابطے بنائے۔ کیونکہ پچھلی شریعتوں میں بعض فروعی احکامات ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ ایک شریعت میں بعض چیزیں حرام تھیں تو دوسری میں حلال تھیں۔بعض میں کسی مسئلے میں شدّت تھی تو دوسری میں تخفیف۔ لیکن سب کی دعوت اور دین ایک ہی تھا۔ آپﷺ نے بھی اس کی وضاحت یوں فرمائی تھی۔
{نَحْنُ مَعَاشِرُ الأنْبِیَاء إِخْوَۃٌ لِعَلاّتٍ، دِینُنُا وَاحِدٌ}ہم انبیاء کی جماعت علاتی بھائی ہیں ہمارا دین ایک ہے۔(صحیح بخاری)
علاتی بھائی وہ ہوتے ہیں جن کی مائیں تو مختلف ہوں مگر باپ ایک ہی ہو۔ مطلب یہ کہ ان کا دین ایک ہی تھا اور شریعتیں (دستور اور طریقے) مختلف تھیں۔ شریعت محمدیہ کے بعد اب سابقہ شریعتیں منسوخ ہو گئی ہیں۔ اب دنیا کے خاتمے تک دین بھی ایک ہے اور شریعت بھی ایک۔ ایک اور مقام پہ ارشاد ربانی ہے:
{ثم جعلناک علی شریعۃ من الأمر فاتبعھا ولا تتبع أھواء الذین لا یعلمون} (الجاثیہ:۱۸) پھر ہم نے آپ کو دین کی ظاہر راہ پر قائم کر دیا۔ سو آپ اسی پر رہیں اور نادانوں کی خواہشات پہ نہ چلیں۔