ایک کام کیجئے۔ مبہم اورغیر واضح باتوں کے بجائے نشاندہی کردیجئے کہ نواب صدیق حسن خان کی اورفلاں فلاں عالم کی فلاں فلاں باتیں خلاف قرآن وحدیث ہی۔ ہم مان جائیں گے۔تویہ نشاندہی کب تک کررہے ہیں۔
زیر بحث مسئلہ قرآن کی کس آیت کے خلاف یاکس حدیث کے خلاف ہے اس کی واضح نشاندہی کریں۔ ادھر ادھر کی بات کرکے بات کو الجھانے کے بجائے یہ بتائیں کہ یہ کس نص شرعی کے خلاف ہے۔
چلئے ایک بات یہ بتادیں کہ اگرایسی صورت پیش آہی گئی تو غیرمقلدین کااس بارے میں کیافتوی ہوگا۔اب پھر اس قسم کی مضحکہ خیز باتیں کرکے پیچھانہ چھڑایئے گاکہ ہم فرضی مسائل پر فتوی نہیں دیتے۔ چونکہ فقہ کی کتابوں میں فرضی طورپر مسائل کا ہی عموماجواب دیاجاتا۔اکثر مسائل ایسے ہیں جو عام طورپر پیش آتے ہیں۔ کچھ ہیں جو کم پیش آتے ہیں اوربہت کم ان کتابوں میں ایسے مسائل ہیں جو شاذونادر کےقبیل سے ہوں۔
دوبارہ یاددہانی کرادوں کہ اگر ایسی صورت پیش آہی گئی تو غیرمقلدین اس بارے میں کیافتوی دیں گے؟اپنے دارالافتاء سے پوچھ کر یہاں پوسٹ کردیں۔
جہاں تک بات گندے مسائل کی ہے تو مسائل بذات خود گندے نہیں ہوتے۔ یہ ہے کہ سامنے والے کا ذہن کیساہے۔ ایک شخص میڈیکل کا طالب علم ہے۔ یاوہ سرجن کی پڑھائی کررہاہے تواسے اعضائ جسمانی کا پورامطالعہ کرناپڑتاہے اس میں شرمگاہ بھی شامل ہے۔ اگر وہ صحیح الفطرت انسان ہے تو اس کو اپنی پڑھائی کا ایک حصہ سمجھے گااوراگراس کی فطرت مسخ ہوگئی تواس سے جنسی تسکین اورتلذذ حاصل کرے گا۔
احناف کی کتابوں میں یہ مسائل صدیوں سے ہیں۔ شافعیوں اورمالکیوں سے ان کے مناظرات ہوئے۔ لیکن کبھی کسی شافعی نے یہ الزام نہیں دیاکہ تمہاری کتابوں میں گندے مسائل ہیں وجہ کیاتھی صرف یہ کہ ان حضرات کی فطرت صحیح تھی وہ یہ جانتے تھے کہ زندگی میں بہت سارے مسائل پیش آتے ہیں کچھ اچھے ہوتے ہیں کچھ خراب ہوتے ہیں۔ اسی اعتبار سے مسائل فرض کرکے فقہاء نے ان کاجواب دیاہے۔
غیرمقلدین حضرات جن کی فطرت مسخ ہوچکی ہے(مجھے یہ کہنے پر معاف کریں لیکن مجبوری ہے آپ حضرات کی شرارت کو دیکھتے ہوئے)انہوں نے عرصہ سے اس طرح کا کھیل شروع کررکھاہے کہ فقہ حنفی کے کچھ مسائل کو لے کر عوام الناس کو باور کراتے ہیں کہ دیکھو یہ کتنے گندے مسائل ہیں اس فقہ کی جس کو تم نےے اختیارکررکھاہے اورعوام الناس کو متنفر کراکر اہل حدیث بناتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کہاجائے تولوگوں کو غیرمقلدبنانے کیلئے نہ ان کے پاس توحید کی دعوت ہے(جس کا وہ بڑاشوروشراباکرتے ہیں)نہ حدیث شریف کی اہمیت ہے(جس کانام لے کر غلط سلط اپنی جماعت قائم کررکھی ہے)۔
یہ مسائل زندگی کا ایک حصہ ہیں۔ یعنی ان کا پیش آناممکن ہے۔ان کو ہرخاص وعام کے ہاتھ میں دے دیناہرایک سے بیان کرناغیرمقلدین کی نری حماقت ہے ۔غیرمقلدین ان کو ہرفورم پر ہرجگہ ایسے مسائل بیان کرتے ہیں۔ لیکن یہ غیرمقلدین حدیث رفاعہ کو اپنی گھر کی عورتوں کے سامنے بیان کیوں نہیں کرتے ؟یہ غیرمقلدین حدیث عائشہ جس میں جماع وغیرہ کا ذکر ہے کہ غسل کب واجب ہوگا۔ اپنے خاندان کی عورتوں کے سامنے بیان کیوں نہیں کرتے؟یہ غیرمقلدین حدیث ام سلیم جس میں عورتوں کے انزال کا ذکر ہے۔ خواتین کے جلسہ میں بیان کیوں نہیں کرتے؟آخر بات توحدیث کی ہے؟کیوں اپنی بہو بیٹیوں کے سامنے اس کو پیش نہیں کرتے۔ کیوں اپنی مائوں اوربہنوں کواس کی تشریح اورتفسیر نہیں سمجھاتے؟
باتیں کچھ تلخ کہہ گیالیکن یہ ضروری تھاکیوں کہ غیرمقلدین کے اس قسم کے گندے کھیل کوعرصہ سے دیکھ رہاہوں کہ جوچیز علماء کیلئے خاص تھی اس کو عوام الناس کے سامنے بیان کرنا بدترین قسم کی جہالت توہے ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول کے بھی خلاف ہے۔
ہرشخص اس کا اہل نہیں ہوتاکہ ہربات اس کے سامنے بیان کی جائے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ
لوگوں سے ان کی عقل کے مطابق بیان کرو کیاتم چاہتے ہو کہ اللہ اوراس کے رسول کی بات جھٹلائی جائے۔ کیوں غیرمقلدین کی عقل اتنی تنگ ہوگئی ہے کہ وہ اس قسم کی واضح باتوں کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ وہ خود اپنے گریبان میں جھانکیں اورسوچیں کہ وہ فقہ حنفی کے خلاف جس قسم کے گندے پرچاراورتبلیغ میں مبتلاہیں۔اس کو علم سے کوئی تعلق ہے۔
آخر میں یہ واضح کردوں کہ لولی آل ٹائم نے انتہائی خیانت سے کام لیتے ہوئے عنوان ہی غلط رکھاہے اورترجمہ بھی غلط کیاہے۔ صحیح ترجمہ ہے"کہ اگرکسی شخص کی نظرپڑگئی "یعنی بغیر ارادہ کے۔ جب لولی آل ٹائم کے ترجمہ میں بالارادہ دیکھنے کا بیان ہے۔ کیونکہ اسی کتاب میں آگے چل کر یہ بھی بیان ہے کہ محرم عورت کے جسم کے کس حصے کو دیکھناجائز ہے اورکس کو دیکھناحرام ہے۔
خدا سے دعاہے کہ کسی غیرمقلد کو اس مرض سے شفاء ملے۔
ایں دعاازمن وازجملہ جہاں آمین باد