• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فکرِغامدی ایک تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تیسری دلیل
اسی طرح سورۃ الحجرات میں ارشاد باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا ﴿٦﴾
اے وہ لوگو۱ جو ایمان لائے ہو اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آ ئے تو تم تحقیق کر لیا کرو(اس خبر کی)۔
اس آیت مبارکہ میں دین و دنیا سے متعلق کسی بھی خبرواحد کو قبول کرنے کے لیے یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگراس خبر کا راوی کوئی فاسق شخص ہو تو اس خبر اوراس کے راوی دونوں کی تحقیق کر لیا کرو۔
الحمد للہ! محدثین نے آپؐ کی طرف منسوب اخبار میں راویان احادیث کی چھان پھٹک کے ساتھ ساتھ متون کی بھی تحقیق کی ہے۔
محدثین کے بارے میں بعض ناواقف حضرات کا یہ خیال غلط ہے کہ ان کے نزدیک کسی حدیث کے صحیح ہونے کا دارومدارصرف اس کی سند کی صحت پر ہے اور وہ حدیث کی قبول و رد میں متن حدیث کی جانچ پڑتال نہیں کرتے اور متن کی تحقیق کے اصول فقہاء نے وضع کیے ہیں۔اصول حدیث کا علم سند اور متن دونوں کی تحقیق کے اصول بیان کرتاہے۔
اس موضوع پر ہمارے ایک استاذ‘ حافظ حمزہ مدنی زیاد صاحب نے بہالپور یونیورسٹی سے پی ۔ایچ ۔ڈی کا مقالہ لکھ کر جمع کر وا دیا ہے جس میں درایت حدیث کے اعتبار سے محدثین کی خدمات کا تفصیلی و تحقیقی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ یہ مقالہ ان شاء اللہ کچھ ہی عرصے بعد شائع بھی ہو جائے گا۔
نوٹ:
قارئين كرام: حافظ حمزہ زیاد مدنی حفظہ اللہ کے جس مقالہ کی بات حافظ زبیر صاحب کررہے ہیں وہ شائع ہوچکا ہے۔ اور الحمدللہ ہماری ویب سائٹ پر اپلوڈ بھی،جو بھائی مطالعہ کا شوق رکھتا ہوں وہ ڈاؤنلوڈ کرلے۔
(کلیم حیدر)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
چوتھی دلیل
بعض جگہ قرآن میں اشارتاً بھی اس بات کا تذکرہ آیا ہے کہ خبر واحد کی صورت میں دی گئی خبر کو قبول کیا جائے گا۔ایک جگہ ارشاد باری تعالی ہے:
وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَا أَرَى الْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنَ الْغَائِبِينَ ﴿٢٠﴾ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا شَدِيدًا أَوْ لَأَذْبَحَنَّهُ أَوْ لَيَأْتِيَنِّي بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ ﴿٢١﴾ فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ فَقَالَ أَحَطتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ وَجِئْتُكَ مِن سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ ﴿٢٢﴾ إِنِّي وَجَدتُّ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِن كُلِّ شَيْءٍ وَلَهَا عَرْشٌ عَظِيمٌ ﴿٢٣﴾ وَجَدتُّهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِن دُونِ اللَّـهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ ﴿٢٤﴾ أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّـهِ الَّذِي يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ ﴿٢٥﴾ اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ۩ ﴿٢٦﴾ قَالَ سَنَنظُرُ أَصَدَقْتَ أَمْ كُنتَ مِنَ الْكَاذِبِينَ ﴿٢٧﴾ اذْهَب بِّكِتَابِي هَـٰذَا فَأَلْقِهْ إِلَيْهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ فَانظُرْ مَاذَا يَرْجِعُونَ ﴿٢٨﴾ (النمل)
’’حضرت سلیمان ؑ نے پرندوں کا جائزہ لیا تو کہا کیا ہو گیا ہے مجھے میں ہدہد کو دیکھ نہیں پا رہا ہوں یا وہ غائب ہے۔میں اس کو لازما شدید عذب دوں گا یا اسے ذبح ہی کر دوں گا یا وہ میرے پاس کوئی واضح دلیل(عذر) لے کر آئے۔پس حضرت سلیمان ؑ نے زیادہ دیر نہیں گزاری (کہ ہدہد آ گیا) پس ہدہدنے کہا : میں نے اس چیز کا احاطہ کیا ہے جس کا آپ احاطہ نہیں کرسکے اور میں آپ کے پاس قوم سبا سے ایک یقینی خبر لے کر آیا ہوں۔ میں نے ایک عورت کو دیکھا ہے وہ ان پر حکمرانی کرتی ہے اور اسے ہر چیز دی گئی ہے اور اس کے پاس ایک بہت بڑا تخت ہے۔ میں اس عورت اور اس قوم کے لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ اللہ کے علاوہ سورج کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے لیے ان کے اعمال کو مزین کر دیا ہے پس اس نے انہیں سیدھے رستے سے روک دیا ہے۔ پس وہ اس بات کی طرف رہنمائی نہیں پا سکے کہ وہ اس اللہ کو سجدہ کریں جو زمیں یا آسمانوں میں چھپی ہوئی ہر چیز کو نکالتا ہے اوروہ جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو یا ظاہر کرتے ہو۔ اللہ، اس کے سوا کوئی بھی معبود نہیں ہے اور وہ عرش عظیم کا رب ہے۔حضرت سلیمان ؑ نے کہا : ہم عنقریب دیکھیں گے کہ تم نے سچ بولا یا تم جھوٹوں میں سے ہو۔ تو میرا یہ خط لے جا اور ان کی طرف ڈال دے پھر ان سے منہ موڑ لے پس دیکھ کیا وہ لوٹاتے ہیں۔‘‘
ہدہد کے قول’ أَحَطتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ‘ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس نے حضرت سلیمان ؑ کو جو خبر دی تھی وہ ان کے علم میں نہ تھی اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہدہد کی خبر قوم سبا کے عقیدے کے بارے میں تھی۔حضرت سلیمان ؑ نے اسے یہ نہیں کہا کہ خبر واحد سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا ہے بلکہ زیادہ سے زیادہ جو بات کی وہ یہ تھی کہ ہم تمہاری خبر کی تحقیق کریں گے۔ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ہدہد کی یہ خبر ’خبر الواحد المحتف بالقرائن‘ کے قبیل سے تھی کہ جن سے علم یقینی حاصل ہوتا ہے اور قرآن نے ’ وَجِئْتُكَ مِن سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ ‘ میں اس طرف اشارہ کیاہے کہ اس قسم کی خبر واحد سے علم یقینی حاصل ہوتا ہے۔یہ دعوی درست نہیں ہے کہ علم یقین صرف خبر متواتر سے ہی حاصل ہوتا ہے۔
علامہ ابن حجرؒ‘ امام نوویؒ کے تعاقب میں لکھتے ہیں :
أما قول الشیخ محی الدین نووی ’لا یفید العلم إلا أن تواتر‘ فمنقوص بأشیاء : أحدھا الخبر المحتف بالقرائن یفید العلم النظری و ممن صرح بہ امام الحرمین و الغزالی و السیف الآمدی و ابن الحاجب و من تبعھم، ثانیھا الخبر المستفیض الوارد من وجوۃ کثیرۃ لا مطعن فیھا یفید العلم النظری للمتبحر فی ھذا الشأن وممن ذھب الی ھذا الاسناد أبو اسحاق الاسفرائینی و الاستاذ أبو منصور التمیمی و الأستاذ أبو بکر بن فورک۔۔۔و ثالثھا ما قدمنا نقلہ عن الأٗئمۃ فی الخبر اذا تلقتہ الأمۃ بالقبول و لا شک أن اجماع الأمۃ علی القول بصحۃ الخبرأقوی من افادۃ العلم من القرائن المحتفۃ و من مجر کثرۃ الطرق۔(النکت علی ابن صلاح:جلد ۱‘ص۳۷۷‘۳۷۸‘ المجلس العلمی احیاء تراث الاسلامی)
جہاں تک امام نوویؒ کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ تواتر کے بغیر خبر سے علم یقین حاصل نہیں ہوتا ‘تو یہ دعوی چند وجوہات سے ناقص دعوی ہے۔پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ایسی خبر واحد کہ جس کا قرائن نے احاطہ کیا ہو‘ علم نظری کا فائدہ دیتی ہے جیسا کہ امام لحرمین ؒ‘ امام غزالی ؒ‘ علامہ آمدی ااور ابن الحاجبؒ وغیرہ نے بیان کیا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ ایسی خبرمستفیض جو کہ کئی طرق سے مروی ہواور اس میں کسی قسم کا طعن نہ ہو‘ علم حدیث کے ماہرین کو علم نظری کا فائدہ دیتی ہے ۔اس بات کوالأستاذ أبو اسحاق اسفرائینیؒ‘ الأستاذ أبو منصور التمیمیؒ اورالأستاذ أبو بکر بن فورکؒ نے بیان کیاہے۔۔۔تیسری بات یہ ہے کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ اس بات پر اجماع ہے کہ ایسی خبر واحد کہ جس کو امت میں ’تلقی بالقبول‘ حاصل ہو قطعا صحیح ہوتی ہے ۔او ر کسی خبر کے صحیح ہونے پر امت کے اجماع سے جو علم یقین حاصل ہوتا ہے وہ روایت کے طرق کثیرہ یا قرائن محتفہ سے بھی حاصل نہیں ہوتا۔
احادیث مبارکہ کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ایسا ہے جو ’المحتف بالقرائن‘ کی قبیل سے ہے۔اس بات کو ایک سادہ سی مثال سے یوں سمجھیں کہ زید ۱۵ سال کا ایک نوجوان لڑکا ہے اور اس کے بچپن کے دو دوست حامد اور احمد ہیں ۔حامد کی سال میں ایک آدھ دفعہ زید سے ملاقات ہو جاتی ہے جبکہ احمد اس سے مستقل طور پر رابطے میں ہے۔اچانک ایک دن معلوم ہوا کہ زید کو کینسر ہے اور اس کو ہسپتال میں داخل کروادیاجاتا ہے۔ احمد‘ زید کی عیادت کے لیے بھی ہسپتال جاتا رہتاجاتا ہے جبکہ حامد کو زید کی اس بیماری کا علم نہیں ہے۔اچانک ایک دن حامد اور احمد دونوں کو کسی شخص کی طرف سے صرف اتنی خبر ملتی ہے کہ زید کی وفات ہو گئی ہے تو حامد کو ملنے والی خبر ‘ صرف خبر واحد ہے جبکہ احمد کوملنے والی خبر’خبر الواحد المحتف بالقرائن‘ ہے لہذ ا اس خبر کو سننے کے بعد دونوں کو حاصل ہونے والا علم مختلف ہوگا۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی تمام روایات ’خبر الواحد المحتف بالقرائن‘ میں سے ہیں کہ جن سے علم یقینی حاصل ہوتا ہے۔ اس موضوع پر راقم الحروف کا ایک مضمون ماہنامہ’ محدث ‘ مارچ ۲۰۰۸ء اور ماہنامہ ’حکمت قرآن‘ اکتوبر ۲۰۰۷ء میں شائع ہو چکا ہے۔
اس بات کا امکان موجود ہے کہ حضرت سلیمان ؑ کو یہ معلوم ہو کہ جس علاقے کی خبر ہدہد لے کر آرہا ہے وہاں کوئی قوم آباد ہے لیکن اس قوم کے عقائد و نظریات کیا تھے اس سے حضرت سلیمان ؑ بے خبر تھے جس کی پھرہدہد نے آ کر ان کو خبر دی ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
فصل سوم
دین کی روایت کا بنیادی ذریعہ:سنت کی روشنی میں

احادیث میں بھی کثیر تعداد میں اس قسم کے دلائل موجود ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دین کے منتقل ہونے میں خبر واحد کو بنیادی ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔امام اہل سنت ‘ امام شافعیؒ نے اپنی کتاب ’الرسالہ‘ میں اس موضوع پر مفصل بحث کی ہے اوردین سے یہ ثابت کیاہے کہ دین کے پہنچنے کا بنیادی ذریعہ خبر واحد ہے ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
پہلی دلیل
امام شافعیؒ فرماتے ہیں :
قال " الشافعي : " فإن قال قائل : اذكر الحجة في تثبيت خبر الواحد بنصِّ خبر أو دلالةٍ فيه أو إجماعٍ
فقلت له أخبرنا سفيان عن عبد الملك بن عمير عن عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود عن أبيه أن النبي قال : " نضَّر الله عبداً سمع مقالتي فحفظها ووعاها وأداها فرُبَّ حاملِ فقهٍ غيرِ فقيه ورُبَّ حامل فقه إلى من هو أفقه منه . ثلاثٌ لا يَُغِلُّ عليهن قلبُ مسلم : إخلاصُ العمل لله والنصيحةُ للمسلمين ولزوم جماعتهم فإنّ دعوتهم تحيط من روائهم " . فلما نَدَب رسول الله إلى استماع مقالته وحفظِها وأدائها امرأً يؤديها والامْرُءُ واحدٌ : دلَّ على أنه لا يأمر أن يُؤدَّى عنه إلا ما تقوم به الحجة على من أدى إليه لأنه إنما يُؤدَّى عنه حلال وحرام يُجتَنَب وحدٌّ يُقام ومالٌ يؤخذ ويعطى ونصيحة في دينٍ ودنيا۔ (الرسالة : باب الحجة فی تثبیت خبر الواحد)

’’اگر کوئی کہنے والا یہ کہے کہ تم اس بارے میں کہ خبر واحد سے دین ثابت ہوتا ہے‘ خود خبر سے یا اس خبر کی کسی دلالت سے یا اجماع سے حجت پیش کرو تو میں اس سے کہوں گا: مجھے سفیان نے عبد الملک بن عمیر خبر دی ہے۔ وہ عبد الرحمن بن عبد اللہ بن مسعود سے اور وہ اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ہے: اللہ تعالی اس شخص کو سرسبز و شاداب رکھے جس نے میری کوئی بات سنی پس اس کو محفوظ کیا ہے پھر یاد کیا اور پھرآگے ادا کر دیا۔ پس کتنے ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کہ کسی گہرے کلام کے حاملین تو ہوتے ہیں لیکن فقیہ نہیں ہوتے۔ اور بہت سارے گہری باتوں کے حاملین ایسے بھی ہوتے ہیں جو کہ اپنے سے زیادہ فقیہ و سمجھدار کو وہ بات نقل کرنے والے ہوتے ہیں۔۔۔پس جب اللہ کے رسولﷺ نے اپنے اقوال کے سننے ‘ ان کو یاد کرنے اور پھر ان کو آگے پہنچانے کو کسی بھی شخص کے لیے مستحب قرار دیاہے‘ آدمی جبکہ وہ ایک بھی ہو‘ اس بات پر دلالت کرتاہے کہ آپؐ اپنی طرف سے کسی بھی ایسی بات کوپہنچانے کا حکم نہیں دیں گے کہ جس سے اس شخص پر حجت قائم نہ ہوتی ہو کہ جس تک وہ بات پہنچائی جائے۔ کیونکہ آپؐ کی طرف سےحلال و حرام بھی پہنچایا جائے گا اور ایسی حدود بھی کہ جن کو قائم کیا جائے ‘ ایسا مال بھی جو کہ دیا یا لیاجائے اوردین و دنیا کی نصیحت بھی۔ ‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپﷺ کی طرف سے کوئی بھی خبر واحد کسی شخص تک پہنچ جائے تو اس کا ماننا اس کے لیے حجت ہے ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دوسری دلیل
دوسری دلیل کے طور پر امام شافعیؒ فرماتے ہیں:
أخبرنا سفيان قال أخبرني سالم أبو النضر أنه سمع عبيد الله بن أبي رافع يخبر عن أبيه قال : قال النبي : " لا أُلفِيَنَّ أحدكم متّكئاً على أريكته يأتيه الأمر من أمري مما نهيت عنه أو أمرت به فيقول : لا ندري ما وجدنا في كتاب الله اتبعناه " قال ابن عيينة : وأخبرني محمد بن المنكدر عن النبي بمثله مرسلاً وفي هذا تثبيتُ الخبر عن رسول الله وإعلامُهم أنه لازم لهم وإن لم يجدوا له نصَّ حكمٍ في كتاب الله وهو موضوع في غير هذا الموضع (الرسالة : باب الحجة فی تثبیت خبر الواحد)
ہمیں سفیان نے خبر دی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ مجھے أبونضر سالم نے خبر دی ہے کہ انہوں نے عبید اللہ بن أبی رافع سے سنا ہے وہ اپنے والد کے بارے میں خبر دیتے ہیں کہ انہوں نے کہا: اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا:میں تم میں سے کسی ایک کو اپنی مسند پر تکیہ لگائے نہ پاؤں اس حال میں کہجب اس کے پاس میرے حکم میں سے کوئی حکم آئے جو اس چیز سے متعلق ہو جس کا میں نے حکم دیا ہو یا اس سے منع کیا ہو‘ تو وہ شخص کہے: ہم تو اس کونہیں جانتے ‘ جوکچھ ہم نے کتاب اللہ میں پایا ہے ہم تو صرف اسی کی اتباع کریں گے۔ ابن عیینہ رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ مجھے محمد بن المنکدر رحمہ اللہ نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی ہی بات مرسل طور پر نقل کی ہے۔ اور اس روایت میں اس بات کی دلیل ہے کہ اس خبر واحد سے دین ثابت ہوتا ہے جو اللہ کے رسولﷺ سے منقول ہو اور اس روایت میں یہ بھی خبر دی گئی ہے کہ اس طرح کی خبر سے ثابت شدہ دین کو لینا ان کے لیے لازم کیا گیا ہے اگرچہ وہ اس بارے میں کتاب اللہ میں کوئی نص نہ بھی پائیں۔اس بحث کو اس کے علاوہ جگہ پر بھی بیان کیاگیاہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپؐ کی طرف سے اگر مستقل بالذات یا غیر مستقل بالذات دین کا کوئی ایسا حکم خبر واحد کے ذریعے کسی امتی تک پہنچے کہ وہ حکم قرآن میں موجود نہ ہو تو اس کا ماننا لازم ہے۔مستقل بالذات دین سے مراد قرآن وسنت کے کسی بھی مسئلے میں ابتدائی و بنیادی احکامات ہیں جبکہ غیر مستقل بالذات دین سے مراد قرآن و سنت کی وہ نصوص ہیں جو ان ابتدائی و بنیادی احکامات کی تشریح کرنے والی ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تیسری دلیل
امام شافعی ؒ تیسری دلیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’أخبرنا مالک عن زید بن أسلم عن عطاء بن یسار أن رجلا قبل امرأتہ و ھو صائم فوجد من ذلک وجدا شدیدا فأرسل امرأتہ تسأل عن ذلک فدخل علی أم سلمة أم المؤمنین فأخبرتھا ؟ فقالت أم سلمة : إن رسول اللہﷺ یقبل و ھو صائم فرجعت المرأة إلی زوجھا فأخبرتہ فزادہ ذلک شرا ! و قال لسنا مثل رسول اللہ ﷺ یحل اللہ لرسولہ ما شاء۔ فرجعت المرأة إلی أم سلمة فوجدت رسول اللہ ﷺ عندھا فقال رسول اللہﷺ: ما بال ھذہ المرأة ؟ فأخبرتہ أم سلمة فقال : ألا أخبرتیھا أنی أفعل ذلک ؟ فقالت أم سلمة : قد أخبرتھا فذھبت الی زوجھا فأخبرتہ فزاد ذلک شرا و قال : لسنا مثل رسول اللہ ﷺ یحل اللہ لرسولہ ما شاء فغضب رسول اللہﷺ ثم قال و اللہ إنی لأتقاکم للہ و لأعلمکم بحدودہ۔ و قد سمعت من یصل ھذا الحدیث و لا یحضرنی ذکر من وصلہ۔ قال الشافعی فی ذکر قول النبیﷺ : '' ألا أخبرتیھا أنی أفعل ذلک‘‘ دلالة علی أن خبر أم سلمة عنہ یجوز قبولہ لأنہ لا یأمرھا بأن تخبر عن النبی ﷺإلا و فی خبرھا ما تکون الحجة لمن أخبرتہ۔ و ھکذا خبر امرأتہ إن کانت من أھل الصدق عندہ۔‘‘(الرسالۃ : باب الحجۃ فی تثبیت خبر الواحد)
ہمیں مالک نے زید بن أسلم سے اور انہوں نے عطاء بن یسار سے خبر دی ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو روزے کی حالت میں بوسہ دیا۔ پس اس شخص کو اس بات کا بہت غم ہوا تواس نے اپنی بیوی کو بھیجا تا کووہ اس مسئلے کے بارے میں فتوی حاصل کرے۔ اس شخص کی بیوی حضرت أم المؤمنین أم سلمہؓ کے پاس آئی اور اس نے انہیں سارا واقعہ بتلایا۔ پس أم سلمہؓ نے اس عورت کوکہا کہ اللہ کے رسولﷺ بھی روزے کی حالت میں بوسہ لے لیتے ہیں۔ پس وہ عورت اپنے شوہر کے پاس آئی اور اس نے اسے ساری خبر دی تو اس بات نے اس کے شوہر کو شر کے اعتباراور زیادہ بڑھا دیا اور اس نے کہا : ہم تو اللہ کے رسولﷺ کی مانند نہیں ہیں، اللہ تعالی اپنے رسولﷺ کے لیے جو چاہتا ہے حلال کرتا ہے۔ پس وہ عورت حضرت أم سلمہؓ کے پاس دوبارہ پہنچ گئی اور اس نے وہاں اللہ کے رسولﷺ کو پایا تو اللہ کے رسولﷺ نے کہا : اس عورت کا کیا مسئلہ ہے تو حضرت أم سلمہؓ نے آپؐ کو بتلایا۔ اس پر اللہ کے رسولﷺ نے حضرت أم سلمہؓ سے فرمایا : کیا آپ نے ا س خاتون کو یہ نہیں بتایا تھا کہ میں بھی ایسا کر لیتا ہوں تو حضرت أم سلمہؓ نے عرض کی : میں نے اس عورت کو یہ بات بتلائی تھی پس اس عورت نے جا کر اپنے شوہر کو بھی یہ خبر دی تھی لیکن اس خبر نے اس کے شوہر کو شر کے اعتبار سے بڑھا دیا اور اس نے کہا کہ ہم میں سے کوئی بھی اللہ کے رسولﷺ کی مانند ہے اللہ تعالی اپنے رسولﷺ کے لیے جو چاہتاہے حلال کرتا ہے۔ پس اللہ کے رسولﷺ (یہ بات سن کر)سخت غصے میں آگئے اور آپؐ نے کہا : اللہ کی قسم! میں تم میں سے سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور اس کی حدود کو جاننے والا ہوں‘‘۔ (حدیث مکمل ہو گئی)۔ امام شافعیؒ فرماتے ہیں) میں نے اس شخص کوبھی سنا ہے جو کہ اس حدیث کو متصل بیان کرتا ہے لیکن ابھی مجھے وہ شخص یاد نہیں ہے۔ امام شافعیؒ اللہ کے رسولﷺ کے قول’ ألا أخبرتیھا أنی أفعل ذلک‘ سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ الفاظ اس بات پر دلالت کر رہے ہیں حضرت أم سلمہؓ کی خبر کو آپؐ کی طرف سے قبول کرنا جائز تھا کیونکہ آپؐ حضرت أم سلمہ کو صرف اسی صورت میں یہ حکم جاری کرتے کہ وہ اللہ کے رسولﷺ کی طرف سے کوئی خبر دیں جبکہ اس خبر میں اس شخص کے لیے کوئی حجت بھی ہو تی کہ جسے وہ خبر دے رہیں تھی۔ اسی طرح کامعاملہ اس عورت کی خبر کابھی ہے بشرطیکہ وہ اہل صدق میں سے ہو۔‘‘
اس روایت سے معلوم ہوا کہ آپؐ کی خبر کئی واسطوں سے بھی کسی امتی تک پہنچے تو اس کے لیے اس خبر کو قبول کرنا واجب ہے بشرطیکہ اس کے نزدیک خبر دینے والے اہل صدق میں سے ہوں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
چوتھی دلیل
امام شافعیؒ چوتھی دلیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’أخبرنا مالک عن عبد اللہ بن دینار عن ابن عمر قال: بینما الناس بقباء فی صلاة الصبح إذ أتاھم آت فقال : إن رسول اللہﷺ قد أنزل علیہ قرآن و قد أمر أن یستقبل القبلة فاستقبلوھا و کانت وجوھھم إلی الشام فاستداروا إلی الکعبة۔ و أھل قباء أھل سابقة من الأنصار و و فقہ و قد کانوا علی قبلة فرض اللہ علیھم استقبالھا و لم یکن لھم أن یدعوا فرض اللہ فی القبلة إلا بما تقوم علیھم الحجة و لم یلقوا رسول اللہ ﷺ و لم یسمعوا ما أنزل اللہ علیہ من تحویل القبلة فیکونون مستقبلین بکتاب اللہ و سنة نبیہ سمعا من رسول اللہ ﷺ ولا بخبر عامة و انتقلوا بخبر واحد إذا کان عندھم من أھل الصدق‘ عن فرض کان علیھم فترکوہ إلی ما أخبرھم عن النبیﷺ أنہ أحدث علیھم من تحویل القبلة ولم یکونوا لیفعلوہ إن شاء اللہ بخبر إلا عن علم بأن الحجة تثبت بمثلہ إذا کان من أھل الصدق و لا لیحدثوا أیضا مثل ھذا العظیم فی دینھم إلا عن علم بأن لھم إحداثہ و لا یدعون أن یخبروا رسول اللہ ﷺ بما صنعوا منہ۔ ولو کان ما قبلوا من خبر الواحد عن رسول اللہ ﷺ فی تحویل القبلة و ھو فرض مما یجوز لھم لقال لھم إن شاء اللہ رسول اللہ ﷺقد کنتم علی قبلة و لم یکن لکم ترکھا إلا بعد علم تقوم علیکم بہ حجة من سماعکم منی أو خبر عامة أو أکثر من خبر واحد عنی۔(الرسالۃ : باب الحجۃ فی تثبیت خبر الواحد)
ہمیں مالک نے عبد اللہ بن دینار سے اور انہوں نے عبد بن عمرؓ سے خبر دی ہے کہ اس دوران کہ لوگ قبا میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ان کے پاس ایک آنے والا آیا اور اس نے یہ کہا : بے شک اللہ کے رسولﷺپر قرآن نازل ہوا ہے اور آپؐ کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ آپؐ بیت اللہ کی طرف رخ کریں تو ان تمام لوگوں نے بیت اللہ کی طرف رخ کر لیا جبکہ اس سے پہلے ان کا رخ شام کی طرف تھا تو وہ (نماز کی حالت میں ہی) کعبہ کی طرف پھر گئے۔ اہل قباء ان لوگوں میں سے ہیں جو انصار میں ایمان و دین کی سمجھ دونوں کے اعتبار سے سبقت لے جانے والوں میں سے تھے۔ یہ لوگ اس قبلے پر تھے کہ جس کی طرف رخ کرنا اللہ تعالی نے ان پر فرض کیا تھا اور ان کے لیے یہ بالکل بھی جائز نہیں تھا کہ وہ قبلہ کے حوالے سے ا للہ تعالی کے ایک فرض حکم کو(کسی خبر کی وجہ سے) چھوڑ دیں سوائے اس( خبر )کے کہ جس سے ان پر حجت قائم ہوتی ہوحالانکہ انہو ں نے اللہ کے رسولﷺ سے ابھی(اس نئے حکم کی تصدیق کے بارے میں) ملاقات بھی نہ کی تھی اور نہ ہی انہوں نے ان آیات کو سنا تھا کہ جو کہ اللہ تعالی نے تحویل قبلہ کے بارے میں آپؐ پر نازل کی تھیں۔ پس وہ سب اللہ کی کتاب(کے نزول) اور آپؐ کی سنت کی خبرآپؐ کی طرف سے سن کرقبلہ رخ ہو جاتے ہیں اور خبر العامہ کا (انتظار یا مطالبہ) نہیں کرتے۔ وہ خبر واحد کو سن کر، جبکہ اس کے نقل کرنے والے ان کے نزدیک اہل صدق میں سے ہوں‘ اس فرض سے منتقل ہو جاتے ہیں کہ جس پر وہ پہلے سے تھے۔ پس وہ ایک شخص کی اللہ کے رسولﷺ کی طرف منسوب اس خبر کی وجہ سے اپنے قبلے کو ترک کر دیتے ہیں کہ آپؐ نے ان کے بارے میں تحویل قبلہ کا ایک نیا حکم جاری کیاہے۔ یہ صحابہؓ اس وقت تک کسی خبر کی بنیاد پریہ کام کرنے والے نہ تھے‘ ان شاء اللہ تعالی ‘ جب تک کہ ان کو اس بات کاعلم نہ ہوتا کہ اس قسم کی خبر سے حجت قائم ہو جاتی ہے‘ بشرطیکہ کہ خبر دینے والا اہل صدق میں سے ہو۔ ( اسی طرح)صحابہؓ اس وقت تک اس قسم کے عظیم دینی معاملے کو (بذریعہ خبر واحد)بیان کرنے والے نہ ہوتے جب تک ان کویہ معلوم نہ ہوتا کہ اس طرح کے معاملات کو بھی اس طرح(یعنی خبر واحد کی صورت میں) بیان کرنے کی ان کو اجازت ہے اور وہ اللہ کے رسولﷺ کو ضرور اس بات کی خبر دیتے جو کہ انہوں نے آپؐ کی طرف منسوب خبر کی بنیاد پر کیاتھا۔ صحابہؓ کو جو خبر واحد دی گئی تھی ‘ اگر اس خبر کی بنیاد پر ان کے لیے اس قبلہ کو تبدیل کرنا‘ جوکہ ان پر فرض تھا‘ جائز نہ ہوتا تو اللہ کے رسولﷺ ان شاء اللہ ضرور صحابہؓ سے یہ بات کہتے کہ تم ایک قبلے کی پیروی کر رہے تھے اور تمہارے لیے اس قبلے سے پھرنا اس وقت تک جائز نہیں تھا جب تک کہ تمہیں اس ذریعے سے قبلہ کی تبدیلی کا علم نہ ہوجاتا کہ جس سے حجت قائم ہو جاتی ہے مثلا تم مجھ سے براہ راست سن لیتے یا تم تک کوئی خبر العامہ پہنچتی یا ایک سے زائد افراد تمہیں اس بارے میں خبر دیتے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ اہل قبا اللہ کے رسولﷺ سے زیادہ دور آبادنہ تھے‘ ان میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ ہم اللہ کے رسولﷺ کے پاس جا کر پہلے اس خبر کی تصدیق کریں گے کہ واقعتاً قبلہ تبدیل ہو گیا یا نہیں‘پھر ہم اس خبر واحدکو قبول کریں گے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
پانچویں دلیل
امام شافعیؒ پانچویں دلیل کے طور پر بیان فرماتے ہیں:
’’أخبرنا مالک عن إسحاق بن عبد اللہ بن أبی طلحة عن أنس بن مالک قال: کنت أسقی أبا طلحة و أبا عبیدة بن الجراح و أبی بن کعب شرابا من فضیخ و تمر فجائھم آت فقال: إن الخمر قد حرمت‘ فقال أبو طلحة : قم یا أنس إلی ھذہ الجرار فاکسرھا فقمت إلی مھراس لنا فضربتھا بأسفلہ حتی تکسرت۔ و ھؤلاء فی العلم و المکان من النبیﷺ و تقدم صحبتہ بالموضع الذی لا ینکرہ عالم۔ و قد کان الشراب عندھم حلالا یشربونہ فجاء ھم آت و أخبرھم بتحریم الخبرفأمر أبو طلحة و ھو مالک الجرار بکسر الجرار و لم یقل ھو و لا ھم و لا أحد منھم نحن علی تحلیلھا حتی نلقی رسول اللہ ﷺ مع قربہ منا أو یأتینا خبر عامة و ذلک أنھم یھریقون حلالا إھراقہ سرف و لیسوا من أھلہ۔‘‘(الرسالۃ : باب الحجۃ فی تثبیت خبر الواحد)
ہمیں مالک نے اسحاق بن عبد اللہ بن أبی طلحہ سے خبر دی ہے انہوں نے حضرت أنس بن مالکؓ سے خبر دی ہے کہ انہوں نے کہا: کہ میں حضرت أبوطلحہؓ ‘ أبو عبیدہ بن جراح ؓاور أبی بن کعبؓ کو کچی اور پکی کھجوروں کی شراب پلاتا تھا۔پس ان کے پاس ایک آنے والا آیا اور اس نے کہا: بے شک شراب حرا م کر دی گئی ہے تو أبو طلحہ نے کہا: اے انس ! اس مٹکے کے پاس کھڑے ہو جاؤ اور اس کو توڑ دو۔پس میں نے اپنا کھجوریں کوٹنے والا موسل اٹھایا اور اسے مٹکے کے نچلے حصے پر دے مارا یہاں تک کہ وہ ٹوٹ گیا۔ یہ صحابہؓ اللہ کے نبیﷺ کے ہاں مرتبے و علم کے اعتبار سے ایک مقام پر تھے اور حضرت أنس ؓ کو اللہ کے رسولﷺ کی جو صحبت نصیب ہوئی ہے اس کا تو کوئی بھی عالم انکار نہیں کرے گا۔ ان صحابہؓ کے نزدیک شراب حلال تھی اور وہ اس کوپی رہے تھے پس ان کے پاس ایک آنے والا آتاہے اور انہیں شرب کی حرمت کی خبر دیتا ہے۔ پس أبو طلحہ جو کہ شراب کے مٹکے کے مالک تھے ‘ اس مٹکے کو توڑنے کا حکم دیتے ہیں۔پس نہ أبو طلحہ نے ‘ نہ ان سب صحابہؓ نے اور نہ ہی ان میں کسی ایک صحابیؓ نے یہ بات کہی کہ ہم تو شراب کو اس وقت تک حلال سمجھیں گے جب تک خود اللہ کے رسولﷺ سے ملاقات (کر کے اس کی حرمت معلوم ) نہ کر لیں جبکہ آپؐ ان صحابہؓ کے بہت قریب بھی تھے‘ اسی طرح ان صحابہؓ نے یہ بھیٰ نہیں کہا کہ جب تک ہمارے پاس خبر العامہ نہیں آئے گی ہم اس وقت تک شراب کی حرمت کا یقین نہیں کریں گے۔اور یہ اس وجہ سے بھی ہے کہ صحابہؓ کسی بھی حلال شیء کو بہاکے ضائع کرنے والے نہیں ہیں کیونکہ حلال کوضائع کرنا اسراف ہے اورصحابہؓ مسرفین نہیں تھے ۔ ‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خبرواحد کی بنیاد پراشیاء کی حلت و حرمت بھی ثابت ہوتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ’ خبر الواحد المحتف بالقرائن‘ سے قرآن بھی ثابت ہوتا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے جب صحابہ ؓ کو قرآن دیا تویہ خبر واحد تھی۔اس طرح جب صحابہؓ سے تابعینؒ نے قرآن سیکھا تو ایسا نہیں تھا کہ ہر ہر تابعی ؒ نے صحابہؓ کے ایک جم غفیر سے مکمل قرآن سنا ہو بلکہ ایک صحابیؓ جب کسی ایک تابعیؒ کو قرآن پہنچا دیتے تھے تو تابعی ؒ ‘ صحابیؓ کی اس خبر واحد کو قبول کرتے تھے۔ تابعینؒ کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جنہوں نے ایک ‘ دو یا تین صحابہؓ سے قرآن حاصل کیا ہے اور یہ سب خبر واحد ہی ہے۔ لیکن یہ ایسی خبر واحد ہے جو ’المحتف بالقرائن‘ ہے۔ قراء ات أئمہ عشرۃ میں اکثر وبیشتر قراء ات ایسی ہیں کہ جن کی اسناد میں تابعینؒ نے دو ‘ تین ‘ چار یا پانچ صحابہؓ سے قرآن حاصل کیا ہے۔ روایت حفص جو برصغیر پاک و ہند میں پڑھی جاتی ہے‘کی سند میں بھی تین تابعینؒ ہیں جنہوں نے پانچ صحابہؓ سے پڑھا ہے۔ قرآن کی اسناد پر ہم بالتفصیل بحث آگے چل کر کریں گے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
چھٹی دلیل
امام شافعیؒ چھٹی دلیل کے طور پر بیان کرتے ہیں:
’’و أمر رسول اللہ ﷺ أنیسا أن یغدو علی امرأة رجل ذکر أنھا زنت ’’فإن اعترفت فارجمھا‘‘ فاعترفت فرجمھا۔ و أخبرنا بذلک مالک و سفیان عن الزھری عن عبید اللہ بن عبد اللہ عن أبی ھریرة و زید بن خالد و ساقا عن النبیﷺ۔‘‘(الرسالۃ : باب الحجۃ فی تثبیت خبر الواحد)
’’اللہ کے رسولﷺ نے حضرت أنیسؓ کو یہ حکم دیا کہ وہ ایک ایسے آدمی کی بیوی کے پاس صبح کریں کہ جس نے زنا کیا تھا اور اگر وہ اعتراف کر لے تواس کو رجم کر دیں پس اس عورت نے اعتراف کر لیا تو انہوں نے اس عورت کو رجم کر دیا۔اس حدیث کی خبر ہمیں مالکؒ اور سفیانؒ نے زہریؒ سے دی ہے اور انہوں نے عبید اللہ بن عبداللہؒ سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرۃؓ اور زید بن خالدؓ سے نقل کیا ہے اور ان دونوں نے اسے اللہ کے نبیﷺ سے بیان کیاہے۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ثابت شدہ جرائم میں خبر واحد کی بنیاد پر حدود کا نفاذ بھی ہوسکتا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ساتویں دلیل
امام شافعیؒ ساتویں دلیل کے طور پر فرماتے ہیں:
’’أخبرنا عبد العزیز عن ابن الھاد عن عبد اللہ بن أبی سلمة عن عمرو بن سلیم الزرقی عن أمہ قالت : بینما نحن بمنی إذا علی بن أبی طالب علی جمل یقول : إن رسول اللہ ﷺ یقول : إن ھذہ أیام طعام و شراب فلا یصومن أحد فاتبع الناس و ھو علی جملہ یصرخ فیھم بذلک‘‘ و رسول اللہ ﷺ لایبعث بنھیہ واحدا صادقا إلا لزم خبرہ عن النبیﷺ یصدقہ عن المنھیین عن ما أخبرھم أن النبی ﷺ نھی عنہ و مع رسول اللہ ﷺ الحاج و قد کان قادرا علی أن یبعث الیھم فیشافھھم أو یبعث إلیھم عددا فبعث واحدا یعرفونہ بالصدق و ھو لا یبعث بأمرہ إلا و الحجة للمبعوث إلیھم و علیھم قائةۃ بقبول خبرہ عن رسول اللہﷺ فإذا کان ھکذا مع ما وصفت من مقدرة النبیﷺ علی بعثہ جماعة إلیھم‘ کان ذلک إن شاء للہ فیمن بعدہ ممن لا یمکنہ ما أمکنھم و أمکن فیھم‘ أولی أن یثبت بہ خبر الصادق۔‘‘(الرسالۃ : باب الحجۃ فی تثبیت خبر الواحد)
ہمیں عبد العزیز نے ابن الھاد سے‘ انہوں نے عبد اللہ بن أبی سلمہ سے‘ انہوں نے عمرو بن سلیم الزرقی سے نقل کیا ہے اور وہ اپنی والدہ سے نقل کرتے ہیں اور انہوں نے کہا : ہم منی میں تھی کہ حضرت علیؓ ایک اونٹ پر سوار ہو کر یہ کہہ رہے تھے : بے شک اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ہے : یہ کھانے اور پینے کے دن ہیں پس تم میں کوئی بھی روزہ نہ رکھے ۔ پس لوگ ان کے پیچھے پیچھے تھے اور وہ اونٹ پر سوار ہو کرلوگوں میں اونچی آواز سے اس بات کا اعلان کر رہے تھے۔اللہ کے رسولﷺ کسی ایک صادق شخص کو اس وقت تک اپنی طرف سے کسی بات سے منع کرنے کے لیے نہ بھیجتے جب تک کہ اس شخص کی خبر سے منع کیے جانے والے لوگوں پر یہ لازم نہ ٹھہرتا کہ وہ اس بات سے رک جائیں جس سے اللہ کے رسول ﷺ نے منع کیاہے۔ باوجودیکہ اللہ کے رسول ﷺ لوگوں کے ساتھ حج کر رہے تھے اورآپؐ ان کے پاس جاسکتے تھے اور ان تک براہ راست اپنا پیغام پہنچا سکتے تھے یا ان کی طرف ایک سے زائد صحابہ ؓ کو بھی بھیج سکتے تھے لیکن آپؐ نے پھر بھی ایک ہی صحابیؓ کو بھیجا جو کہ ان کے نزدیک اہل صدق میں سے تھا۔ اللہ کے رسولﷺ اسی وقت اپنے کسی حکم کو پہنچانے کے لیے کسی ایک شخص کو بھیجتے تھے جبکہ اس ایک کوبھیجنے سے ان پر حجت قائم ہوتی ہوکہ جن کی طرف اسے بھیجا جا رہا ہواور ان کے اوپر یہ بھی لازم ہو جاتا ہو کہ وہ اللہ کے رسولﷺ کی طرف سے دی گئی اس خبر کو قبول کریں۔ پس جب معاملہ اس طرح کا ہے کہ جیساکہ بیان کیاگیاہے یعنی آپؐ نے ا اپنا پیغام پہنچانے کے لیے صحابہؓ کی ایک جماعت کوبھیجنے کی قدرت رکھنے کے باوجود بھی ایک ہی شخص کو بھیجا تو یہ بات ان شاء اللہ تعالی آپؐ کے بعد والوں کے لیے جو کہ اس قدر قدرت بھی نہیں رکھتے جس قدر آپؐ اپنے لیے لوگوں کو براہ راست پیغام پہنچانے پر قدرت رکھتے تھے یا صحابہؓ کی ایک جماعت کو بھیجنے کی قدرت رکھتے تھے ‘ بھی اعلی طریقے سے ثابت ہو گی کہ ان کے لیے اس قسم کی خبر واحد سے کوئی حکم ثابت ہو۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ کے رسولﷺ سے براہ راست دین کی کسی بات کو سننا اور بذریعہ واسطہ سننے میں کوئی بھی فرق نہیں ہے بشرطیکہ یہ واسطہ ایسے شخص کا ہو جوکہ اہل صدق میں سے ہو۔ اللہ کے رسولﷺ کے نزدیک اگر آپؐ کے براہ راست حکم پہنچانے اور بذریعہ واسطہ پہنچانے میں کوئی فرق ہوتا تو آپؐ قدرت رکھنے کے باوجود حضرت علیؓ کو اپنی طرف سے پیغام پہنچانے کے لیے نہ بھیجتے اور صحابہؓ بھی ایک دوسرے کی اخبار پر اعتماد کرنے کی بجائے آپؐ سے براہ راست ہر اس خبر کی تصدیق کر لیا کرتے کہ جو انہوں نے اپنے ہی ہم عصر کسی دوسرے صحابی ؓ سے سنی ہوتی تھی۔
اسی طرح یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک شخص کی خبر اور ایک سے زائد کی خبر میں اللہ کے رسولﷺ کے نزدیک کوئی فرق نہیں ہے جبکہ وہ ایک شخص اہل صدق میں سے ہو۔ اگر آپؐ کے نزدیک ایک اور جماعت کی خبر میں کوئی فرق ہوتا تو آپؐ ضرور اپنا حکم پہنچانے کے لیے ایک جماعت بھیجتے ۔آپؐ کایہ معمول تھا کہ آپؐ عموما ً اپنی طرف سے ایک ہی صحابیؓ کو بھیجا کرتے تھے جیسا کہ آپؐ نے تقریبا ً۱۲ بادشاہوں کی طرف جن صحابہ ؓ کو بھیجا وہ مبعوث بھی ایک ایک صحابی ؓ ہی تھے وغیر ذلک۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top