چوتھی دلیل
بعض جگہ قرآن میں اشارتاً بھی اس بات کا تذکرہ آیا ہے کہ خبر واحد کی صورت میں دی گئی خبر کو قبول کیا جائے گا۔ایک جگہ ارشاد باری تعالی ہے:
وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَا أَرَى الْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنَ الْغَائِبِينَ ﴿٢٠﴾ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا شَدِيدًا أَوْ لَأَذْبَحَنَّهُ أَوْ لَيَأْتِيَنِّي بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ ﴿٢١﴾ فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ فَقَالَ أَحَطتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ وَجِئْتُكَ مِن سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ ﴿٢٢﴾ إِنِّي وَجَدتُّ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِن كُلِّ شَيْءٍ وَلَهَا عَرْشٌ عَظِيمٌ ﴿٢٣﴾ وَجَدتُّهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِن دُونِ اللَّـهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ ﴿٢٤﴾ أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّـهِ الَّذِي يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ ﴿٢٥﴾ اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ۩ ﴿٢٦﴾ قَالَ سَنَنظُرُ أَصَدَقْتَ أَمْ كُنتَ مِنَ الْكَاذِبِينَ ﴿٢٧﴾ اذْهَب بِّكِتَابِي هَـٰذَا فَأَلْقِهْ إِلَيْهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ فَانظُرْ مَاذَا يَرْجِعُونَ ﴿٢٨﴾ (النمل)
’’حضرت سلیمان ؑ نے پرندوں کا جائزہ لیا تو کہا کیا ہو گیا ہے مجھے میں ہدہد کو دیکھ نہیں پا رہا ہوں یا وہ غائب ہے۔میں اس کو لازما شدید عذب دوں گا یا اسے ذبح ہی کر دوں گا یا وہ میرے پاس کوئی واضح دلیل(عذر) لے کر آئے۔پس حضرت سلیمان ؑ نے زیادہ دیر نہیں گزاری (کہ ہدہد آ گیا) پس ہدہدنے کہا : میں نے اس چیز کا احاطہ کیا ہے جس کا آپ احاطہ نہیں کرسکے اور میں آپ کے پاس قوم سبا سے ایک یقینی خبر لے کر آیا ہوں۔ میں نے ایک عورت کو دیکھا ہے وہ ان پر حکمرانی کرتی ہے اور اسے ہر چیز دی گئی ہے اور اس کے پاس ایک بہت بڑا تخت ہے۔ میں اس عورت اور اس قوم کے لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ اللہ کے علاوہ سورج کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے لیے ان کے اعمال کو مزین کر دیا ہے پس اس نے انہیں سیدھے رستے سے روک دیا ہے۔ پس وہ اس بات کی طرف رہنمائی نہیں پا سکے کہ وہ اس اللہ کو سجدہ کریں جو زمیں یا آسمانوں میں چھپی ہوئی ہر چیز کو نکالتا ہے اوروہ جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو یا ظاہر کرتے ہو۔ اللہ، اس کے سوا کوئی بھی معبود نہیں ہے اور وہ عرش عظیم کا رب ہے۔حضرت سلیمان ؑ نے کہا : ہم عنقریب دیکھیں گے کہ تم نے سچ بولا یا تم جھوٹوں میں سے ہو۔ تو میرا یہ خط لے جا اور ان کی طرف ڈال دے پھر ان سے منہ موڑ لے پس دیکھ کیا وہ لوٹاتے ہیں۔‘‘
ہدہد کے قول
’ أَحَطتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ‘ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس نے حضرت سلیمان ؑ کو جو خبر دی تھی وہ ان کے علم میں نہ تھی اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہدہد کی خبر قوم سبا کے عقیدے کے بارے میں تھی۔حضرت سلیمان ؑ نے اسے یہ نہیں کہا کہ خبر واحد سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا ہے بلکہ زیادہ سے زیادہ جو بات کی وہ یہ تھی کہ ہم تمہاری خبر کی تحقیق کریں گے۔ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ہدہد کی یہ خبر
’خبر الواحد المحتف بالقرائن‘ کے قبیل سے تھی کہ جن سے علم یقینی حاصل ہوتا ہے اور قرآن نے
’ وَجِئْتُكَ مِن سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ ‘ میں اس طرف اشارہ کیاہے کہ اس قسم کی خبر واحد سے علم یقینی حاصل ہوتا ہے۔یہ دعوی درست نہیں ہے کہ علم یقین صرف خبر متواتر سے ہی حاصل ہوتا ہے۔
علامہ ابن حجرؒ‘ امام نوویؒ کے تعاقب میں لکھتے ہیں :
أما قول الشیخ محی الدین نووی ’لا یفید العلم إلا أن تواتر‘ فمنقوص بأشیاء : أحدھا الخبر المحتف بالقرائن یفید العلم النظری و ممن صرح بہ امام الحرمین و الغزالی و السیف الآمدی و ابن الحاجب و من تبعھم، ثانیھا الخبر المستفیض الوارد من وجوۃ کثیرۃ لا مطعن فیھا یفید العلم النظری للمتبحر فی ھذا الشأن وممن ذھب الی ھذا الاسناد أبو اسحاق الاسفرائینی و الاستاذ أبو منصور التمیمی و الأستاذ أبو بکر بن فورک۔۔۔و ثالثھا ما قدمنا نقلہ عن الأٗئمۃ فی الخبر اذا تلقتہ الأمۃ بالقبول و لا شک أن اجماع الأمۃ علی القول بصحۃ الخبرأقوی من افادۃ العلم من القرائن المحتفۃ و من مجر کثرۃ الطرق۔(النکت علی ابن صلاح:جلد ۱‘ص۳۷۷‘۳۷۸‘ المجلس العلمی احیاء تراث الاسلامی)
جہاں تک امام نوویؒ کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ تواتر کے بغیر خبر سے علم یقین حاصل نہیں ہوتا ‘تو یہ دعوی چند وجوہات سے ناقص دعوی ہے۔پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ایسی خبر واحد کہ جس کا قرائن نے احاطہ کیا ہو‘ علم نظری کا فائدہ دیتی ہے جیسا کہ امام لحرمین ؒ‘ امام غزالی ؒ‘ علامہ آمدی ااور ابن الحاجبؒ وغیرہ نے بیان کیا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ ایسی خبرمستفیض جو کہ کئی طرق سے مروی ہواور اس میں کسی قسم کا طعن نہ ہو‘ علم حدیث کے ماہرین کو علم نظری کا فائدہ دیتی ہے ۔اس بات کوالأستاذ أبو اسحاق اسفرائینیؒ‘ الأستاذ أبو منصور التمیمیؒ اورالأستاذ أبو بکر بن فورکؒ نے بیان کیاہے۔۔۔تیسری بات یہ ہے کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ اس بات پر اجماع ہے کہ ایسی خبر واحد کہ جس کو امت میں ’تلقی بالقبول‘ حاصل ہو قطعا صحیح ہوتی ہے ۔او ر کسی خبر کے صحیح ہونے پر امت کے اجماع سے جو علم یقین حاصل ہوتا ہے وہ روایت کے طرق کثیرہ یا قرائن محتفہ سے بھی حاصل نہیں ہوتا۔
احادیث مبارکہ کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ایسا ہے جو
’المحتف بالقرائن‘ کی قبیل سے ہے۔اس بات کو ایک سادہ سی مثال سے یوں سمجھیں کہ زید ۱۵ سال کا ایک نوجوان لڑکا ہے اور اس کے بچپن کے دو دوست حامد اور احمد ہیں ۔حامد کی سال میں ایک آدھ دفعہ زید سے ملاقات ہو جاتی ہے جبکہ احمد اس سے مستقل طور پر رابطے میں ہے۔اچانک ایک دن معلوم ہوا کہ زید کو کینسر ہے اور اس کو ہسپتال میں داخل کروادیاجاتا ہے۔ احمد‘ زید کی عیادت کے لیے بھی ہسپتال جاتا رہتاجاتا ہے جبکہ حامد کو زید کی اس بیماری کا علم نہیں ہے۔اچانک ایک دن حامد اور احمد دونوں کو کسی شخص کی طرف سے صرف اتنی خبر ملتی ہے کہ زید کی وفات ہو گئی ہے تو حامد کو ملنے والی خبر ‘ صرف خبر واحد ہے جبکہ احمد کوملنے والی خبر
’خبر الواحد المحتف بالقرائن‘ ہے لہذ ا اس خبر کو سننے کے بعد دونوں کو حاصل ہونے والا علم مختلف ہوگا۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی تمام روایات
’خبر الواحد المحتف بالقرائن‘ میں سے ہیں کہ جن سے علم یقینی حاصل ہوتا ہے۔ اس موضوع پر راقم الحروف کا ایک مضمون ماہنامہ’ محدث ‘ مارچ ۲۰۰۸ء اور ماہنامہ ’حکمت قرآن‘ اکتوبر ۲۰۰۷ء میں شائع ہو چکا ہے۔
اس بات کا امکان موجود ہے کہ حضرت سلیمان ؑ کو یہ معلوم ہو کہ جس علاقے کی خبر ہدہد لے کر آرہا ہے وہاں کوئی قوم آباد ہے لیکن اس قوم کے عقائد و نظریات کیا تھے اس سے حضرت سلیمان ؑ بے خبر تھے جس کی پھرہدہد نے آ کر ان کو خبر دی ہے۔