فصل چہارم
قرآن کے ثبوت کا بنیادی ذریعہ
اہل سنت کے ہاں دین کے بنیادی مآخذ تین ہی ہیں یعنی قرآن، سنت اور اجماع۔ یہ تینوں اصول، خبر ہی سے ثابت ہوتے ہیں۔ ذیل میں ہم قرآن کے ثبوت کے بنیادی ذریعہ پر بحث کر رہے ہیں۔
قراء کرام نے ہر دور میں اللہ کے رسولﷺ سے بذریعہ خبر سنتے ہوئے قرآن کی تصدیق کی ہے اور علماء و جمیع امت نے اس خبر پر اتفاق کیاہے۔ آج بھی تمام امت قراء ہی سے قرآن حاصل کر رہی ہے اور ہر قاری کے پاس وہ سند موجود ہے جو کہ اللہ کے رسولﷺ تک پہنچتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن تحریری شکل میں بھی ہمار ے پاس موجود ہے لیکن یہ تحریر بھی ایک خبر ہے یعنی ہم یہ نہیں کہتے کہ مصاحف ہمارے اوپر آسمان سے نازل ہوئے ہیں بلکہ ہم یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہمارے پاس موجود مصاحف وہی ہیں جو کہ صحابہ ؓکے پاس تھے اور وہاں سے نقل در نقل ہم تک پہنچے ہیں اور صحابہ نے یہ مصاحف اللہ کے رسولﷺ سے قرآن سن کر ترتیب دیے تھے۔ پس مصاحف بھی صحابہؓ کی خبر ہی کی بنیاد پر مرتب ہوئے ہیں۔
لہذا یہ مصاحف اور ان مصاحف میں جو لکھا ہوا ہے اسے کیسے پڑھنا ہے‘ یہ دونوں باتیں ہمیں اللہ کے رسولﷺ سے بذریعہ خبر ملی ہیں۔ پس ہم ان مصاحف اور ان کے پڑھنے کی سند اللہ کے رسولﷺ تک قطعی و یقینی ذریعے سے پہنچاتے ہیں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ آج ہمارے پاس موجود قرآن وہی ہے جو آج سے چودہ صدیاں پہلے اللہ کے رسولﷺ پر نازل ہوا تھا۔
اہل سنت کے نزدیک قرآن اللہ کے رسول ﷺ سے ایسی خبر کے ذریعے ثابت ہوتا ہے جو کہ قطعی و یقینی ہو۔ اسی لیے جمیع اہل سنت حنفیہ ‘ مالکیہ‘ شافعیہ ‘ حنبلیہ ‘ اہل الظاہر اور اہل الحدیث(محدثین) کے علاوہ معتزلہ اور اہل تشیع کے نزدیک بھی قرآن کی وہ تمام روایات قرآن ہی ہیں کہ جن کی نسبت اللہ کے رسولﷺ کی طرف قطعی و یقینی طور پر ثابت ہو جائے‘ چاہے عامۃ الناس ان سے واقف ہوں یا نہ ہوں۔ قرآن کی یہ روایات بیس ہیں اور علماء و قراء کی اصطلاح میں انہیں عشرۃ قراء ات کہا جاتا ہے۔
فقہائے اربعہ اور ان کے متبعین قرآن کی ان روایات کو قرآن مانتے ہیں لہذا فقہ کی کتب میں ان سے مسائل بھی مستنبط کیےجاتے ہیں۔ امام ابن جریر طبریؒ سے لے کر معاصر مفسرین تک تقریبا ً تمام مفسرین نے کتاب اللہ کی تفسیر میں ان روایات کا تذکرہ کیا ہے اور ان سے قرآن کی تفسیر کی ہے۔ ہر دور میں اصولیین نے اپنی کتابوں میں ان روایات پر بحث کی ہے اور ان کو قرآن قرار دیا ہے۔
امام سرخسی ؒ لکھتے ہیں:
’’اعلم بأن الکتاب ھو القرآن المنزل علی رسول اللہ المکتوب فی دفات المصاحف المنقول إلینا علی الأحرف السبعة المشھورة نقلا متواترا۔‘‘ (أصول السرخسی:ص ۲۷۹‘ المطبعۃ السلفیۃ‘ القاہرۃ)
جان لو! کتاب اللہ سے مراد وہ قرآن ہے جو کہ اللہ کے رسولﷺ پر نازل کیا گیا ہے‘ مصاحف کے گتوں کے درمیان لکھا گیا ہے اور ہم تک معروف احرف سبعہ کے ساتھ تواترسے منقول ہے۔
امام غزالی ؒ متوفی ۵۰۵ھ لکھتے ہیں:
’’و حد الکتاب ما نقل إلینا بین دفتی المصحف علی الأحرف السبعة المشھورة نقلا متواترا۔‘‘ (المستصفی:جلد۱‘ ص۸۱‘ دار الکتب العلمیۃ)
کتاب اللہ کی تعریف یہ ہے کہ جو مصحف کے دو گتوں کے درمیان معروف احرف سبعہ کے ساتھ ہم تک متواتر منقول ہے۔