• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فکرِغامدی ایک تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
آٹھویں دلیل
آٹھویں دلیل کے طور پر امام شافعیؒ فرماتے ہیں:
’’و بعث رسول اللہ ﷺ أبا بکر والیا علی الحج فی سنة تسع و حضرہ الحج من أھل بلدان مختلفة و شعوب متفرقة فأقام لھم مناسکھم و أخبرھم عن رسول اللہ بما لھم و ما علیھم۔‘‘(الرسالۃ : باب الحجۃ فی تثبیت خبر الواحد)
اللہ کے رسولﷺ نے حضرت أبوبکر کو ہجرت کے نویں سال حج کا والی بنا کر بھیجا۔ اس سال حج میں مختلف شہروں اور قبائل سے لوگ حاضر ہوئے اور حضرت أبوبکرؓ نے آپؐ کی طرف ان حاضرین حج کے لیے ان امور کو واضح کیا جوان کے لیے تھے یا ان پر تھے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نویں دلیل
نویں دلیل کے طور پر امام شافعیؒ فرماتے ہیں:
’’و بعث علی بن أبی طالب فی تلک السنة فقرأ علیھم فی مجمعھم یوم النحر آیات من سورۃ براءة و نبذ إلی قوم سواء و جعل لھم مددا و نھاھم عن أمور فکان أبو بکر و علی معروفین عند أھل مکة بالفضل و الدین و الصدق و کان من جھلھما أو أحدھما من الحاج وجد من یخبرہ عن صدقھما و فضلھما و لم یکن رسول اللہ ﷺ لیبعث إلا واحدا الحجة قائةۃ بخبرہ علی من بعثہ إلیہ إن شاء اللہ۔‘‘(الرسالۃ : باب الحجۃ فی تثبیت خبر الواحد)
اسی طرح آپؐ نے حضرت علی ؓ کو اسی سال حج پر بھیجا اور انہوں نے مجمع عام میں قربانی کے دن سورۃ توبہ کی آیات تلاوت کیں (جو کہ ابھی ابھی نازل ہوئی تھیں) اور مشرکین کے ساتھ کیے گئے معاہدات کو توڑنے کا اعلان کیا اوران کے لیے ایک حد مقرر کی اور انہیں چند کاموں سے منع کیا۔ پس ابو بکر ؓ و علیؓ اہل مکہ کے ہاں اپنے فضل‘ دین اور صدق میں معروف تھے اورکوئی حاجی جو کہ ان دونوں صحابہؓ یا ان میں سے کسی ایک سے ناواقف تھا‘ وہ کسی ایسے شخص کو پا سکتا تھا جو اس کو ان دونوں صحابہؓ کے فضل و صدق کے بارے میں خبر دے سکتا تھا۔ اللہ کے رسولﷺ کسی بھی ایک شخص کو اس وقت تک نہیں بھیجنے والے نہ تھے جب تک کہ اس ایک شخص کے ذریعے ان پر حجت نہ قائم ہوتی ہو کہ جن کی طرف اس کو بھیجا جا رہا ہو۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ’خبر الواحد المحتف بالقرائن‘ سے قرآن بھی ثابت ہوتا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دسویں دلیل
دسویں دلیل کے طور پر امام شافعیؒ فرماتے ہیں:
’’ و قد فرق النبیﷺ عمالا علی نواحی عرفنا أسمائھم و المواضع التی فرقھم علیھا فبعث قیس بن عاصم و الزبرقان بن بدر و ابن نویرۃ إلی عشائرھم بعلمھم بصدقھم عندھم و قدم علیھم وفد البحرین فعرفوا من معہ فبعث معھم ابن سعید بن العاص و بعث معاذ بن جبل إلی الیمن و أمرہ أن یقاتل من أطاعہ من عصاہ و یعلمھم ما فرض اللہ علیھم و یأخذ منھم ما وجب علیھم لمعرفتھم بمعاذ و مکانہ منھم و صدقہ و کل من ولی فقد أمرہ یأخذ ما أوجب اللہ علی من ولاہ علیہ و لم یکن لأحد عندنا فی أحد ممن قدم علیہ من أھل الصدق‘ أن یقول: أنت واحد و لیس لک أن تأخذ منا ما لم نسمع رسول اللہ ﷺ یذکر أنہ علینا۔‘‘(الرسالۃ : باب الحجۃ فی تثبیت خبر الواحد)
اللہ کے رسولﷺ نے مختلف عمال کومختلف علاقوں کی طرف بھیجا۔ہم ان علاقوں اور ان کی طرف بھیجے گئے لوگوں کے ناموں سے واقف ہیں۔ پس آپؐ نے قیس بن عاصم ‘ زبرقان بن بدر اور ابن نویرۃ کو ان قبائل کی طرف بھیجا جو کہ ان کے صدق سے اچھی طرح واقف تھے۔ بحرین سے ایک وفد آپؐ اور صحابہؓ کے پاس آیا تو اس وفد نے ا ن لوگوں کو پہچان لیا جو آپؐ کے ساتھ تھے پس آپؐ نے ان کے ساتھ سعید بن العاصؓ کو بھیج دیا۔اسی طرح آپؐ نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن کی طرف بھیجا اور ان کو یہ حکم دیا کہ جو ان کی اطاعت کرے اس کے ساتھ مل کر اس سے قتال کریں جو ان کی نافرمانی کرے اور ان کو وہ کچھ بتلائیں جو اللہ نے ان پر فرض کیا ہے اور ان سے وہ وصول کریں جو ان پر واجب ہے اور حضرت معاذؓ کو اہل یمن کی طرف اس لیے بھیجا گیا کہ وہ حضرت معاذؓ کو جانتے تھے اور ان کے مقام و مرتبے اور ان کے صدق سے آگاہ تھے۔ اللہ کے رسولﷺ نے جس کو بھی والی بنا کر بھیجا‘ اس کو یہ حکم دیا کہ وہ اس چیز (یعنی زکوۃ وغیرہ) کو ان سے وصول کرے جسے اللہ تعالی نے ان پر واجب کیا ہے کہ جن پر اسے والی بنایا گیا ہے۔ ہمارے نزدیک آپؐ کے کسی ایک والی کے لیے بھی کہ جو کسی شخص کے پاس آیا ہو اور وہ اہل صدق میں سے ہو‘ کسی شخص کے لیے یہ کہنا جائز نہیں تھا کہ تو‘ تو ایک شخص ہے اور ہمارے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ جب تک ہم اللہ کے رسولﷺ سے براہ راست نہ سن لیں کہ ہمارے اوپر اتنامال (بطور زکوۃ وغیرہ) واجب ہے اس وقت تک تیرے لیے ہم سے کچھ (زکوۃ وغیرہ) لینا درست نہیں ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
گیارہویں دلیل
گیارہویں دلیل بیان کرتے ہوئے امام صاحب فرماتے ہیں:
’’و بعث فی دھر واحد اثنی عشر رسولا إلی اثنی عشر ملکا یدعوھم إلی إلاسلام و لم یبعثھم إلا إلی من قد بلغتہ الدعوة و قامت علیہ الحجة فیھا و ألا یکتب فیھا دلالات لمن بعثھم الیہ علی أنھا کتبہ۔‘‘ (الرسالۃ : باب الحجۃ فی تثبیت خبر الواحد)
آپؐ نے ایک ہی زمانے میں بارہ بادشاہوں کی طرف بارہ پیام بر بھیجے اور ان کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ آپؐ نے ان صحابہؓ کو ان لوگوں کی طرف بھیجا کہ جن تک آپؐ کی دعوت پہنچ جائے اور اس دعوت کے حوالے سے ان پر حجت بھی قائم ہو جائے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آپؐ ان خطوط میں ایسی علامتیں مقرر کرتے کہ جن سے ان لوگوں، کہ جن کی طرف یہ خطوط بھیجے گئے تھے، کو یہ معلوم ہوتا کہ آپؐ ہی نے ان کو بھیجا ہے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
بارہویں دلیل
بارہویں دلیل کے طور پر فرماتے ہیں:
أخبرنا سفیان و عبد الوھاب عن یحی بن سعید عن سعید بن المسیب : أن عمر بن الخطاب قضی فی الإبھام بخمس عشرة و فی التی تلیھا بعشر و فی الوسطی بعشر و فی التی تلی الخنصر بتسع و فی الخنصر بست۔قال الشافعی : لما کان معروفا و اللہ أعلم عند عمر أن النبیﷺ قضی فی الید بخمسین و کانت الید خمسة أطراف مختلفة الجمال و المنافع‘ نزلھا منازلھا فحکم لکل واحدمن الأطراف بقدرہ من دیة الکف فھذا قیاس علی الخبر۔ فلما وجدنا کتاب آل عمرو بن حزم فیہ‘ أن رسول اللہ ﷺ قال و فی کل إصبع مما ھنالک عشر من الابل صاروا إلیہ۔ و لم یقبلوا کتاب آل عمرو بن حزم واللہ أعلم حتی یثبت لھم أنہ کتاب رسول اللہ ﷺ و فی الحدیث دلالتان : أحدھما‘ قبول الخبر و الآخر أن یقبل الخبر فی الوقت الذی یثبت فیہ و إن لم یمضی عمل من الأئة بمثل الخبر الذی قبلوا و دلالة علی أنہ لو مضی أیضا عمل من أحد من الأئمة ثم وجد خبرا عن النبیﷺ یخلاف عملہ لترک عملہ لخبر رسول اللہ ﷺ و دلالة علی أن حدیث رسول اللہ ﷺ یثبت نفسہ لا بعمل غیرہ بعدہ۔ و لم یقل المسلمون قد عمل فینا عمر بخلاف ھذا بین المھاجرین و الأنصار و لم تذکروا أنتم أن عندکم خلافہ و لا غیرکم بل صاروا إلی ما وجب علیھم من قبول الخبر عن رسول اللہﷺ و ترک کل عمل خالفہ۔ ولو بلغ ھذا عمر صار الیہ ان شاء اللہ کما صار إلی غیرہ فیما بلغہ عن رسول اللہ بتقواہ للہ و تأدیتہ الواجب علیہ فی اتباع أمر رسول اللہ ﷺ و علمہ و بأن لیس لأحد مع رسول اللہ ﷺ أمر و أن طاعة اللہ فی اتباع أمر رسول اللہﷺ۔ (الرسالۃ : باب الحجۃ فی تثبیت خبر الواحد)
ہمیں سفیان اور عبد الوہاب نے یحی بن سعید سے خبر دی ہے اور وہ سعید بن المسیب سے بیان کرتے ہیں کہ عمر بن خطابؓ نے انگوٹھے کی دیت کے بارے میں فیصلہ کیا کہ اس کی دیت پندرہ اونٹ ہے جبکہ انگشت شہادت کی دیت دس اونٹ‘ درمیانی انگلی کی بھی دس اونٹ‘ اس کی ساتھ والی انگلی کی نو اونٹ اور سب سے چھوٹی نگلی کی دیت چھ اونٹ مقرر کی۔ امام شافعیؒ فرماتے ہیں: چونکہ اللہ کے رسولﷺ کے بارے میں معروف تھا کہ آپؐ نے ایک ہاتھ کی دیت پچاس اونٹ مقرر کی ہے اور ہاتھ اپنے حسن و جمال اور منافع کے اعتبار سے پانچ حصوں میں تقسیم ہوتا ہے لہذا حضرت عمرؓ نے ہاتھ کی دیت والی روایت میں قیاس سے کام لیتے ہوئے ہاتھ کے ہرحصے کی دیت اس کے کام کے اعتبار سے مقرر کر دی۔ امام شافعیؒ فرماتے ہیں : پس جب ہمیں آل عمرو بن حزم کا خط اس مسئلے کے بارے میں مل گیا کہ جس میں یہ تھا کہ اللہ کے رسولﷺ نے ہر انگلی کے بارے میں کہا کہ اس میں دس اونٹ دیت ہے تو تمام مسلمان اس خبر کی طرف مائل ہو گئے۔ انہوں نے آل عمرو بن حزم کا خط اس وقت تک قبول نہ کیا جب تک ان کے لیے یہ بات ثابت نہ ہو گی کہ وہ واقعتا اللہ کے رسولﷺ کاہی خط ہے۔ امام شافعیؒ فرماتے ہیں : اس حدیث میں دو دلیلیں ہیں ایک تویہ ہے کہ خبرواحد کو ہر مسئلے میں قبو ل کیاجائے گا۔جبکہ دوسری یہ ہے کہ خبر کو اسی وقت قبول کیا جائے گا جبکہ وہ ثابت ہو جائے اور اگرچہ اس خبر‘ کہ جس کو لوگوں نے قبول کیا ہو‘ پر بعض أئمہ نے عمل نہ بھی کیا ہو۔ یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اگر أئمہ میں سے کسی امام کا کوئی عمل پایا جائے اور اللہ کے رسولﷺکی حدیث اس کے خلاف معلوم ہو تو اس امام کا عمل اللہ کے رسولﷺ کی خبر واحد کی وجہ سے چھوڑ دیاجائے گا۔ اس حدیث میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اللہ کے رسولﷺ کی خبر واحد کسی امام کے عمل سے صحیح نہیں قرار پاتی بلکہ بذاتہ صحیح ہوتی ہے۔ اس موقع (یعنی جب آل عمرو بن حزم کاخط دریافت ہوا) پر کسی بھی مسلمان نے یہ نہیں کہا کہ حضرت عمر ؓنے اس خبر واحد کے خلاف عمل مہاجرین اور انصار کی موجودگی میںجاری کیا۔لہذا تم اس بات کا ذکر بھی نہ کرو کہ تمہارے پاس یا کسی دوسرے کے پاس حضرت عمرؓ کے عمل کے خلاف کچھ موجود ہے۔بلکہ وہ سب مسلمان اللہ کے رسولﷺ کی خبر کی طرف متوجہ ہوگئے جس کو قبول کرنا ان پر واجب تھا اور انہوں نے اللہ کے رسولﷺ کے قول کے خلاف ہر عمل کو ترک کر دیا۔ اور اگر حضرت عمرؓ کو یہ حدیث پہنچ جاتی تو وہ بھی ان شاء اللہ اس کی طرف رجوع کرتے جیسا کہ اس کے علاوہ کئی ایک معاملات میں انہوں نے خبر واحد کے ملنے کے بعد اپنی رائے سے حدیث کی طرف رجوع کر لیا کیونکہ ان میں اللہ کا ڈر موجود تھا۔ وہ صاحب علم آدمی تھے اور وہ جانتے تھے کہ اللہ کی رسولﷺ کی اتباع ان پر فرض کی گئی ہے اور انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ اللہ کے رسولﷺ کے مقابلے میں کسی کی رائے نہیں چلتی اور اللہ کے رسولﷺ کی اتباع‘ اللہ ہی کی اطاعت میں داخل ہے۔
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اگر مسلمانوں کا عمل کسی خبر کے خلاف ہو تو اس صورت میں خبر کو ان کے عمل پر ترجیح دی جائے گی۔ پس قرآن وسنت کی نصوص سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ وہ خبر کہ جس کی نسبت قطعی یا ظنی ذریعے سے اللہ کے رسولﷺ کی طرف ثابت ہو جائے‘ اس سے دین اسلام ثابت ہو گا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
فصل چہارم
قرآن کے ثبوت کا بنیادی ذریعہ

اہل سنت کے ہاں دین کے بنیادی مآخذ تین ہی ہیں یعنی قرآن، سنت اور اجماع۔ یہ تینوں اصول، خبر ہی سے ثابت ہوتے ہیں۔ ذیل میں ہم قرآن کے ثبوت کے بنیادی ذریعہ پر بحث کر رہے ہیں۔
قراء کرام نے ہر دور میں اللہ کے رسولﷺ سے بذریعہ خبر سنتے ہوئے قرآن کی تصدیق کی ہے اور علماء و جمیع امت نے اس خبر پر اتفاق کیاہے۔ آج بھی تمام امت قراء ہی سے قرآن حاصل کر رہی ہے اور ہر قاری کے پاس وہ سند موجود ہے جو کہ اللہ کے رسولﷺ تک پہنچتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن تحریری شکل میں بھی ہمار ے پاس موجود ہے لیکن یہ تحریر بھی ایک خبر ہے یعنی ہم یہ نہیں کہتے کہ مصاحف ہمارے اوپر آسمان سے نازل ہوئے ہیں بلکہ ہم یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہمارے پاس موجود مصاحف وہی ہیں جو کہ صحابہ ؓکے پاس تھے اور وہاں سے نقل در نقل ہم تک پہنچے ہیں اور صحابہ نے یہ مصاحف اللہ کے رسولﷺ سے قرآن سن کر ترتیب دیے تھے۔ پس مصاحف بھی صحابہؓ کی خبر ہی کی بنیاد پر مرتب ہوئے ہیں۔
لہذا یہ مصاحف اور ان مصاحف میں جو لکھا ہوا ہے اسے کیسے پڑھنا ہے‘ یہ دونوں باتیں ہمیں اللہ کے رسولﷺ سے بذریعہ خبر ملی ہیں۔ پس ہم ان مصاحف اور ان کے پڑھنے کی سند اللہ کے رسولﷺ تک قطعی و یقینی ذریعے سے پہنچاتے ہیں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ آج ہمارے پاس موجود قرآن وہی ہے جو آج سے چودہ صدیاں پہلے اللہ کے رسولﷺ پر نازل ہوا تھا۔
اہل سنت کے نزدیک قرآن اللہ کے رسول ﷺ سے ایسی خبر کے ذریعے ثابت ہوتا ہے جو کہ قطعی و یقینی ہو۔ اسی لیے جمیع اہل سنت حنفیہ ‘ مالکیہ‘ شافعیہ ‘ حنبلیہ ‘ اہل الظاہر اور اہل الحدیث(محدثین) کے علاوہ معتزلہ اور اہل تشیع کے نزدیک بھی قرآن کی وہ تمام روایات قرآن ہی ہیں کہ جن کی نسبت اللہ کے رسولﷺ کی طرف قطعی و یقینی طور پر ثابت ہو جائے‘ چاہے عامۃ الناس ان سے واقف ہوں یا نہ ہوں۔ قرآن کی یہ روایات بیس ہیں اور علماء و قراء کی اصطلاح میں انہیں عشرۃ قراء ات کہا جاتا ہے۔
فقہائے اربعہ اور ان کے متبعین قرآن کی ان روایات کو قرآن مانتے ہیں لہذا فقہ کی کتب میں ان سے مسائل بھی مستنبط کیےجاتے ہیں۔ امام ابن جریر طبریؒ سے لے کر معاصر مفسرین تک تقریبا ً تمام مفسرین نے کتاب اللہ کی تفسیر میں ان روایات کا تذکرہ کیا ہے اور ان سے قرآن کی تفسیر کی ہے۔ ہر دور میں اصولیین نے اپنی کتابوں میں ان روایات پر بحث کی ہے اور ان کو قرآن قرار دیا ہے۔
امام سرخسی ؒ لکھتے ہیں:
’’اعلم بأن الکتاب ھو القرآن المنزل علی رسول اللہ المکتوب فی دفات المصاحف المنقول إلینا علی الأحرف السبعة المشھورة نقلا متواترا۔‘‘ (أصول السرخسی:ص ۲۷۹‘ المطبعۃ السلفیۃ‘ القاہرۃ)
جان لو! کتاب اللہ سے مراد وہ قرآن ہے جو کہ اللہ کے رسولﷺ پر نازل کیا گیا ہے‘ مصاحف کے گتوں کے درمیان لکھا گیا ہے اور ہم تک معروف احرف سبعہ کے ساتھ تواترسے منقول ہے۔
امام غزالی ؒ متوفی ۵۰۵ھ لکھتے ہیں:
’’و حد الکتاب ما نقل إلینا بین دفتی المصحف علی الأحرف السبعة المشھورة نقلا متواترا۔‘‘ (المستصفی:جلد۱‘ ص۸۱‘ دار الکتب العلمیۃ)
کتاب اللہ کی تعریف یہ ہے کہ جو مصحف کے دو گتوں کے درمیان معروف احرف سبعہ کے ساتھ ہم تک متواتر منقول ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ہر دور میں علماء کی ایک بہت بڑی تعدادقرآن کی ان روایات کو پڑھی‘ پڑھاتی اور ان کی اسناد اللہ کے رسولﷺ تک پہنچاتی رہی ہے۔ آج بھی علمائے امت کا ایک بڑا طبقہ ان تمام روایات کو با اہتمام سند نقل کر رہا ہے اوربعض روایات عوامی سطح پر بھی مختلف ممالک میں پڑھی جا رہی ہیں۔
’مجمع البحوث الاسلامیة‘ القاھرة‘ کی سرپرستی میں پی۔ ایچ۔ ڈی کا ایک مقالہ تیار کیا گیا ہے کہ جس میں قرآن کی جمیع روایات کی اسناد کو نقل کیا گیا ہے۔ ان اسناد میں سے قرآن کی ایک روایت، روایت حفص کی سند ’مجمع البحوث الاسلامیة‘ القاھرة‘ کی تصدیق سے ’وزارة الأوقاف و الشؤون الاسلامیة ‘ کویت‘ نے شائع کی ہے جو سرکاری سظح پر عام کی گئی ہے۔ روایت حفص کی اس سند میں عصر حاضر کے معروف شام‘ مصر‘ افریقہ‘ سعودیہ‘ بلاد مغرب اور برصغیر پاک و ہند وغیرہ کے قراء کی سند اللہ کے رسول ﷺ تک جتنے واسطوں سے پہنچتی ہے‘ ان سب کو نقل کیا ہے۔
یہ ایک بہت ہی نادر علمی کام ہے اور اس نہج پر تمام متواتر قرا ء ات کی اسناد کی تیاری کاکام جاری ہے۔
دنیا کی تمام بڑے بڑے اسلامی ممالک مثلا پاکستان‘ سعودی عرب‘ مصر‘ مراکش ‘ لیبیا‘ تیونس‘ شام‘ انڈونیشیا ‘ ملائشیا‘ کویت‘ سوڈان اور ایران وغیرہ میں ہزاروں ایسے مدارس اور یونیورسٹیاں موجود ہیں جو ان روایات کو قرآن کے طور پر پڑھا رہی ہیں حالانکہ ان روایات کا ایک بڑا حصہ عوام الناس کے پاس نہیں ہے یعنی عامۃ الناس اس کو عملا پڑھتے نہیں ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے فرمان’کلھا شاف کاف‘ کے مطابق ان میں سے ہر روایت اپنی جگہ مکمل اور کفایت کرنے والی ہے‘ اسی لیے عامۃ الناس پر تمام روایات کے پڑھنے پڑھانے کا بوجھ نہیں ڈالا گیا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
بعض علاقوں میں کچھ روایات معروف ہو گئیں جبکہ بعض دوسرے ممالک میں کچھ اور روایات عام ہو گئیں۔ مثلاجن علاقوں میں امام ابوحنیفہ ؒ کی فقہ نافذ ہو گئی وہاں ان کے استاد امام عاصم ؒکی قراء ت عام ہوئی۔ یہ ذہن میں رہے کہ حفصؒ‘ جن کی روایت برصغیر پاک وہند میں پڑھی پڑھائی جاتی ہے‘ امام عاصمؒ کے شاگرد ہیں۔ علاوہ ازیں جن ممالک میں مالکی فقہ کو پذیرائی ملی وہاں امام مالکؒ کے استاد امام نافع ؒ کی قراء ت رائج ہو گئی جیسا کہ آج بھی جن افریقی و مغربی اسلامی ممالک میں فقہ مالکی پر عمل ہوتا ہے وہاں روایت قالون اور ورش رائج ہے اور یہ دونوں امام نافعؒ کے شاگرد ہیں۔ پس جس طرح بہت سے فقہی مذاہب تاریخی‘ جغرافیائی‘ سیاسی اور معاشرتی حالات کی وجہ سے صرف کتابوں میں رہ گئے اور عامۃ الناس میں جاری نہ ہوسکے اسی طرح بہت سی قرآن کی روایات ایک خاص عرصے تک ہی عامۃ الناس میں جاری رہیں ہیں۔
امام ابن عطیہ ؒ لکھتے ہیں :
’’و مضت الأعصار و الأمصار علی قراء ات الأئمۃ السبعة بل العشرة و بھا یصلی لأنھا تثبت بالاجماع۔‘‘( المحرر الوجیز‘ ابن عطیۃ‘جلد۱‘ص۹)
’’قراء ات سبعہ بلکہ عشرہ بھی ہر زمانے اور ہر شہر میں رائج رہی ہیں اور ان کی نماز میں تلاوت کی جاتی رہی ہے کیونکہ یہ اجماع امت سے ثابت ہیں ۔‘‘
لیکن بعد میں فقہی و جغرافیائی اثرات کی وجہ سے عامۃ الناس میں ان کا پڑھنا ‘ پڑھانا ختم ہو گیا اور صرف قراء و علماء کی حد تک باقی رہا۔ جبکہ عامۃ الناس میں عموماً وہ روایات باقی رہی ہیں کہ جن کا مروج و معروف فقہی مذاہب کے ساتھ کوئی تعلق قائم تھا۔
غامدی صاحب سے جب یہ سوال ہوا کہ قرآن کہاں ہے تو اس کاجواب انہوں نے یہ دیا کہ وہ امت کے پاس ہے ۔اگر قرآن امت کے پاس ہے تو اس وقت امت میں قرآن کی چار روایات یعنی روایت حفص‘ روایت ورش‘ روایت قالون اور روایت دوری پڑھی جا رہی ہے۔غامدی صاحب کے پاس جو قرآن ہے وہ علماء اہل سنت کی اصطلاح میں روایت حفص ہے جبکہ غامدی صاحب اس کو ’روایت حفص‘ نہیں مانتے بلکہ’ قراء ت عامہ‘ کہتے ہیں۔
دنیا کے تقریبا چالیس ممالک میں روایت ورش اور پانچ ممالک میں روایت قالون اور بعض ممالک میں روایت دوری میں قرآن پڑھا جاتا ہے۔ غامدی صاحب کہتے ہیں کہ قرآن امت کے اجماع اور قولی تواتر سے ثابت ہوتا ہے۔ امت تو اس وقت عملا پانچ روایات پڑھ رہی ہے کسی ایک روایت کے پڑھنے پر امت کا اتفاق تو دور کی بات ہے‘ عامۃ الناس کو تو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ قرآن کی ’روایت حفص‘ کے علاوہ بھی کو ئی روایت ہے جو کہ بعض دوسرے اسلامی ممالک میں پڑھی جاتی ہے اور اس کے پڑھنے کا انداز و اسلوب ’روایت حفص‘سے بہت مختلف ہے۔
ایک نشست میں راقم الحروف نے غامدی صاحب پر جب یہ سوال کیا کہ مشرق میں جو قرآ ن پڑھا جارہا ہے‘ بلاد مغرب کے عامۃ الناس اس کو قرآ ن نہیں مانیں گے اور جو بلاد مغرب میں پڑھا جارہا ہے‘ مشرق کے لوگ اس کا انکارکریں گے تو امت کا ایک قرآن پر اجماع کیسے ہو گا ؟ غامدی صاحب نے اس کا جواب یہ دیا کہ اگرچہ مشرق کے عوام الناس کو یہ معلوم نہیں ہے کہ مغرب میں کیا پڑھا جا رہا ہے اور اگر وہ ان کے سامنے پڑھا جائے تو وہ اپنے علماء سے اس کی تصدیق چاہیں گے اور علماء کی تصدیق کی صورت میں اس کو قرآن مان لیں گے‘ یعنی عوام الناس کا اجماع در اصل علماء کے تابع ہوتاہے لہذا قرآن پر اجماع ہو جائے گا‘ چاہے و ہ مشرق میں پڑھا جا رہا ہو یا مغرب میں۔
غامدی صاحب نے بہت عمدہ بات کی ہے کہ اجماع سے مراد عوام الناس کااجماع نہیں ہے بلکہ اہل علم کا اجماع ہے۔ پس اہل علم حنفی ‘ شافعی ‘ مالکی‘ حنبلی‘ اہل حدیث ‘ بریلوی اور دیوبندی اس بات پر متفق ہیں کہ مشرق و مغرب پڑھی جانے والی روایت حفص‘ قالون‘ ورش اور دوری قرآن ہیں اور اللہ کے رسولﷺ سے قطعی و یقینی سند سے ثابت ہیں لیکن اس کے باوجود غامدی صاحب اسلامی بلاد مغرب میں پڑھنے جانے والے قرآن کو قرآن ماننے کو تیار نہیں ہیں اور اس بارے ہم تفصیل سے ایک باب میں بحث کریں گے۔
اسی طرح یہ سب اہل علم اس بات پر بھی متفق ہیں کہ عشرہ أئمہ کی قراء ات بھی قطعی و یقینی سندسے اللہ کے رسولﷺ سے ثابت ہیں لہذا یہ سب قراء ات امت کے اجماع سے ثابت ہو ئی ہیں اور اگر کسی نے ا ن کا انکار کیا بھی ہے تو وہ ایسا ہی ہے کہ جس اختلاف کے لیے محترم غامدی صاحب ’ما لا یعبأ بہ‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
کسی بھی مسئلے میں امت کے اجماع سے مراد درحقیقت اہل علم ہی کا اجماع ہوتاہے اور امت اس اجماع میں اہل علم کے تابع ہوتی ہے۔
امام ابن تیمیہ ؒ لکھتے ہیں:
فان جمیع أھل العلم با الحدیث یجزمون بصحة جمہور أحادیث الکتابین و سائر الناس تبع لھم فی معرفة الحدیث فاجماع أھل العلم بالحدیث علی أن ھذا الخبر صدق کاجماع الفقہاء علی أن ھذا الفعل حلال أو حرام أو واجب و اذا أجمع أھل العلم علی شیء فسائر الناس تبع لھم فاجماعھم معصوم لا یجوز أن یجمعوا علی خطأ۔ (فتاوی ابن تیمیہ‘جلد۱۸‘ص۱۷‘ وزارۃ الشؤون الاسلامیۃ و الأوقاف و الدعوۃ و الأرشاد‘ المملکۃ العربیۃ السعودیۃ)
تمام محدثین صحیحین کی اکثر احادیث کوقطعاصحیح کہتے ہیں اور عوام الناس حدیث کے علم میں محدثین کے متبعین ہیں‘پس محدثین کا کسی خبر کی صدق پر اجماع ایسا ہی ہے جیسا کہ فقہاء کا کسی فعل پر اجماع ہو کہ یہ حلال‘حرام یا واجب ہے اور جب اہل علم کا کسی چیز پر اجماع ہوجائے تو تمام عوام لناس اس اجماع میں علماء کے تابع ہوتے ہیں(پس علماء کا اجماع ‘پوری امت کے اجماع کے قائم مقام ہے)پس امت اپنے اجماع میں معصوم ہے‘پوری امت کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ خطا پر اکھٹی ہو۔
علاوہ ازیں جس خبر کو امت میں’تلقی بالقبول‘حاصل ہو‘ اس سے علم یقینی حاصل ہوتا ہے۔ پس روایت حفص‘ دوری‘ ورش اور قالون اگرچہ سند کے اعتبار سے خبر واحد ہی کیوں نہ ہوں لیکن عامۃ الناس میں ان کو ’تلقی بالقبول‘ حاصل ہے۔ اسی طرح بقیہ روایات قرآن کو اہل علم میں قبولیت عامہ کا درجہ حاصل ہے لہذا یہ تمام قراء ات خبر واحد سے ثابت ہونے کے باوجود علم قطعی و یقینی کا فائدہ دیتی ہیں۔
اسی طرح امام ابن تیمیہ ؒ لکھتے ہیں :
و خبر الواحد المتلقی بالقبول یوجب العلم عند جمہورالعلماء من أصحاب أبی حنیفة و مالک و الشافعی و أحمد و ھو قول أکثر أصحاب الأشعری کا لأسفرائینی و ابن فورک۔(فتاوی ابن تیمیۃ‘ جلد۱۸‘ ص۴۱‘ وزارۃ الشؤون الاسلامیۃ و الأوقاف و الدعوۃ و الأرشاد‘ المملکۃ العربیۃ السعودیۃ)
ایسی خبر واحد کہ جس کو’تلقی بالقبول‘ حاصل ہو علم کا فائدہ دیتی ہے اور یہی جمہور أحناف‘ مالکیہ‘شوافع اور اصحاب أحمدؒ کا قول ہے اور اکثر أشاعرہ کا بھی یہی مذہب ہے جیسا کہ الاستاذ اسفرائینیؒ اور ابن فورکؒ ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن اللہ کے رسولﷺ سے قطعی و یقینی سند کے ساتھ ثابت ہوتا ہے اورمشہور قراء کے اتفاق سے قرآن قرار پاتا ہے۔ باقی امت قرآن کے معاملے میں قراء کے تابع ہے لہذا قرآن کی جس روایت کو قراء قطعی و یقینی سند کے ساتھ اللہ کے رسولﷺ تک ثابت کر دیں اور اس کے قرآن ہونے پر اتفاق کر لیں تو وہ قرآن ہے جس پر قراء کا اتفاق ہے تبعاً امت کے علماء اور عامۃ الناس بھی اس کو قرآن قرار دیتے ہیں لہذا اس طرح وہ امت کے اتفاق سے قرآن قرار پاتا ہے۔
امام شوکانی ؒ لکھتے ہیں:
’’حد الکتاب اصطلاحا فھو الکلام المنزل علی الرسول المکتوب فی المصاحف المنقول الینا نقلا متواترا۔۔۔و خرج بقولہ المنقول الینا نقلا متواترا القراء ات الشاذة۔۔۔و الحاصل إن ما اشتمل علیہ المصحف الشریف و اتفق علیہ القراء المشھورون فھو قرآن۔‘‘(ارشاد الفحول : ص۴۶‘ ۴۷)
کتاب اللہ کی تعریف یہ ہے کہ اس سے مراد وہ کلام ہے جو کہ اللہ کے رسولﷺ پر نازل کیاگیاہے‘ مصاحف میں لکھا گیا ہے اور ہم تک تواتر سے منقول ہے۔۔۔ہم تک تواتر سے منقول ہونے کی شرط لگانے سے قراء ات شاذہ نکل گئی ہیں۔۔۔اور اس ساری بحث کاحاصل کلام یہ ہے کہ جس پر مصاحف مشتمل ہیں اور معروف قراء کا اس پر اتفاق ہو‘ وہ قرآن ہے۔
آج قرآن کہاں ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن اس قطعی و یقینی خبر میں ہے کہ جس کی نسبت قراء حضرات نے اللہ کے رسولﷺ کی طرف کی ہے۔ قراء کرام متصل سند کے ساتھ اللہ کے رسولﷺ سے حاصل کیے گئے قرآن کو امت تک پہنچاتے ہیں۔ یہ قرآن اگرچہ مصاحف میں بھی لکھا ہوا ہے لیکن قراء سے سیکھے بغیر ایک شخص کے لیے براہ راست مصاحف سے اس کو صحیح طور پر پڑھنا ممکن نہیں ہے۔ امت ہر دور میں قراء کرام ہی سے قرآن حاصل کرتی آئی ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
آج بھی کسی بھی اسلامی ملک میں جو مصاحف شائع کیے جاتے ہیں ان کی طباعت و اشاعت کی اس وقت تک اجازت نہیں ہوتی ہے جب تک کہ اس کی تصدیق ان مستند قراء سے نہ کروالی جائے جوکہ باقاعدہ علم قراء ات کے فن سے واقف ہوں اور ان کے پاس اس کی سند بھی اللہ کے رسولﷺ تک موجود ہو۔ پس اس وقت جو بھی مصاحف‘ اسلامی ممالک میں شائع ہو رہے ہیں وہ انہی قراء کرام کی تصدیق سے شائع ہو رہے ہیں جو کہ باقاعدہ قرآن کی سند رکھتے ہیں‘ لہذا عامۃ الناس کے پاس جو مصحف موجود ہے وہ قراء کے واسطے سے ہے اور عامۃ الناس مطبوع قرآن کے حصول میں بھی قراء کے محتاج ہیں۔ مثال کے طور پر ’مجمع الملک فھد‘ کے زیر نگرانی کروڑوں کی تعداد میں جو بھی مصاحف شائع کر کے پوری دنیا میں بھیجے جاتے ہیں‘ ان سب مصاحف کی مراجعت جلیل القدر مصری و سعودی علماء کی ایک جماعت کرتی ہے اور اس مراجعت میں کتب قراءات کو ہی معیار بنایا جاتا ہے۔
مصحف مدنی کے آخرمیں ہے:
’’و قد تولت ھذہ اللجنة مراجعة ھذا المصحف الشریف علی أمھات کتب القراء ات و الرسم و الضبط و الفواصل و الوقف و التفسیر۔‘‘
پس علماء کی اس کمیٹی نے اس مصحف کی نظر ثانی کی ذمہ داری قبول کی ہے اور علم قراء ات‘ علم الرسم‘ علم الضبط‘ علم الفواصل‘ علم الوقف اور علم التفسیر کی بنیادی کتابوں سے اس مصحف کی مراجعت کا کام مکمل کیا ہے۔
یہ مصحف سعودی حکومت کی نگرانی میں شائع ہوتا ہے۔
اسی طرح روایت قالون میں ’لیبیا‘ سے شائع ہونے والے مصحف کے آخر میں ہے:
’’ تولی مراجعة ھذا المصحف الشریف لجنة من علماء الاختصاص فی القراء ات و الرسم و الضبط بکل من تونس و لیبیا و المغرب الأقصی۔‘‘
تیونس‘ لیبااور بلاد مغرب کے علماء کی ایک کمیٹی نے اس مصحف کی مراجعت کا کام مکمل کیا ہے جو کہ علم قراء ات‘ علم الرسم اور علم ضبط میں ماہر علماء شمار ہوتے ہیں۔
یہ مصحف’ لیبیا‘کی حکومت کی نگرانی میں شائع ہوا ہے۔ ’لیبا ‘میں عوام الناس میں روایت قالون پڑھی جاتی ہیں اسی لیے وہاں روایت قالون میں مصحف شائع ہوتے ہیں۔
’لیبیا‘ ہی سے سرکاری سطح پر شائع ہونے ولے ایک اور مصحف کے آخر میں ہے:
’’فراویة الامام قالون عن نافع متواترة فی جمیع طبقاتھا و تنتشر ھذہ الروایة انتشار واسعا فی القطر اللیبی و القطر التونسی و القطر الموریتانی و أماکن أخری من أفریقیا و الطریقة التی انتشرت بھا فی بلادنا و حفظ بھا القرآن الکریم نقلت الینا بأعلی درجات الروایة و ھی المشافھة حیث یأخذ القاری عن المقری تنتھی السلسلة الی رسول اللہ الی جبریل الی رب العزة و الجلال حسبما اثبتنا ذلک فی سند الروایة۔‘‘
امام قالونؒ کی امام نافع ؒ سے مروی روایت تمام طبقات میں متواتر ہے۔۔۔امام قالونؒ کی یہ روایت لیبا‘ تیونس‘ موریطانیہ اور افریقہ کے دوسرے ممالک میں بہت بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی ہے۔ وہ طریقہ کہ جس کے ذریعے یہ روایت ہمارے ان علاقوں میں پھیلی ہے اور اسکے ذریعے قرآن کو یاد کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ روایت ہم تک روایت کے اعلی درجات سے نقل ہوتے ہوئے پہنچی ہے یعنی اس طرح کہ ایک قاری کسی دوسر ے مقری (پڑھانے والے) سے براہ راست قرآن کو اخذ کرتا ہے اور یہ سلسلہ اللہ کے رسولﷺ تک اور پھر حضرت جبرئیل ﷺاور پھر اللہ رب عز وجل تک پہنچ جاتا ہے جیسا کہ ہم نے روایت کی سند میں اس بات کا تذکرہ کیاہے۔
روایت’ دوری‘ میں بیروت سے شائع ہونے والے ایک مصحف کے آخر میں ہے:
’’فقد یسر اللہ تعالی لمنہ و فضلہ اخراج طبعة للقرآن الکریم بروایة الدوری عن أبی عمرو البصری و قد قام باخراج ھذا المصحف الشریف علی امھات کتب القرء ات و الرسم و الضبط و الفواصل و الوقف و التفاسیر فضیلة شیخ القراء فی الدیار الشامیة محمد کریم راجح و الشیخ محمد فھد خاروف۔‘‘
پس اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنے احسان اور فضل سے امام ابوعمروبصری ؒکے شاگرد ’دوری‘ کی روایت میں قرآن کو چھاپنے کی توفیق دی ہے ۔اس مصحف کو شام کے فضیلۃ الشیخ محمد کریم راجح اور محمد فھد خاروف نے علم قراء ات‘ علم الرسم‘ علم الضبط‘ علم الفواصل‘ علم الوقف اور علم التفسیر کے بنیادی مصادر کی رہنمائی میں تیار کیا ہے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top