• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فکرِغامدی ایک تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اسی طرح مراکش سے ’وزارة الأوقاف و الشؤون الاسلامةۃ‘ المملکة المغربیة‘ کے تحت شائع ہونے والے مصحف کے آخر میں بھی قراء کی ایک فہرست بیان کی گئی ہے کہ جنہوں نے اس روایت کی تصدیق کی ہے۔ یہ مصحف مراکش کی حکومت کی طرف سے سرکاری طور پر جاری کیا گیا ہے اور یہ روایت ورش میں ہے کیونکہ مراکش اور افریقہ کے اکثر ممالک میں عامۃ الناس روایت ورش میں قرآن پڑھتے ہیں۔
اسی طرح کا معاملہ مصر اور پاکستان سے شائع ہونے والے مصاحف کا بھی ہے۔ مصر میں جامعۃ الأزھر کے ما تحت ادارے ’مجمع البحوث الاسلامیة‘ کی تصدیق کی مصاحف شائع کیے جاتے ہیں جبکہ پاکستان میں ’وزارة الأوقاف‘ کی طرف سے مقررکردہ قراء حضرات کی تصدیق کے بعد قرآن کی طباعت اور نشر واشاعت کی اجازت دی جاتی ہے۔
یہ تو مصاحف کا معاملہ ہے جبکہ دوسری طرف مصاحف سے قرآن پڑھنے کے لیے بھی عامۃ الناس قراء ہی کے محتاج ہیں۔ ہمارے معاشرے کا ۹۹ فی صد طبقہ ایسا ہے جو آج بھی مسجد کے قاری صاحب سے قرآن حاصل کررہا ہے نہ کہ اپنے ماں، باپ یا دادا‘ دادی یانانا ‘ نانی سے۔ جس ایک فی صد طبقے نے اپنی نانی و دادی سے قرآن سیکھا بھی ہے تو امر واقعہ ہے کہ یہ لوگ قرآن کی دو سطریں بھی درست نہیں پڑھ سکتے ہیں۔
پس ثابت ہوا کہ اصل قرآن قراء ہی سے حاصل ہوتا ہے نہ کہ عامۃ الناس سے‘ اور عامۃ الناس قرآن کے حصول میں قراء کے تابع ہیں ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اسی طرح مراکش سے ’وزارة الأوقاف و الشؤون الاسلامية‘ المملکة المغربیة‘ کے تحت شائع ہونے والے مصحف کے آخر میں بھی قراء کی ایک فہرست بیان کی گئی ہے کہ جنہوں نے اس روایت کی تصدیق کی ہے۔ یہ مصحف مراکش کی حکومت کی طرف سے سرکاری طور پر جاری کیا گیا ہے اور یہ روایت ورش میں ہے کیونکہ مراکش اور افریقہ کے اکثر ممالک میں عامۃ الناس روایت ورش میں قرآن پڑھتے ہیں۔
اسی طرح کا معاملہ مصر اور پاکستان سے شائع ہونے والے مصاحف کا بھی ہے۔ مصرمیں جامعۃ الأزھر کے ما تحت ادارے ’مجمع البحوث الاسلاةیۃ‘ کی تصدیق کی مصاحف شائع کیے جاتے ہیں جبکہ پاکستان میں ’وزارة الأوقاف‘ کی طرف سے مقرر کردہ قراء حضرات کی تصدیق کے بعد قرآن کی طباعت اور نشر واشاعت کی اجازت دی جاتی ہے۔
یہ تو مصاحف کا معاملہ ہے جبکہ دوسری طرف مصاحف سے قرآن پڑھنے کے لیے بھی عامۃ الناس قراء ہی کے محتاج ہیں۔ ہمارے معاشرے کا ۹۹ فی صد طبقہ ایسا ہے جو آج بھی مسجد کے قاری صاحب سے قرآن حاصل کررہا ہے نہ کہ اپنے ماں، باپ یا دادا‘ دادی یانانا ‘ نانی سے۔ جس ایک فی صد طبقے نے اپنی نانی و دادی سے قرآن سیکھا بھی ہے تو امر واقعہ ہے کہ یہ لوگ قرآن کی دو سطریں بھی درست نہیں پڑھ سکتے ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ اصل قرآن قراء ہی سے حاصل ہوتا ہے نہ کہ عامۃ الناس سے‘ اور عامۃ الناس قرآن کے حصول میں قراء کے تابع ہیں۔
الحمد للہ! آج کسی بھی بریلوی‘ دیوبندی‘ اہل حدی ‘ حنفی ‘ مالکی‘ شافعی یا حنبلی کو یہ سوال پیدا نہیں ہوتا ہے کہ روایت حفص کے علاوہ بھی قرآن ہے یانہیں؟
اگر انہیں یہ سوال پیدا ہوبھی جائے تو وہ اپنے علماء اور قراء پر اس مسئلے میں اعتبار کرتے ہیں اور وہ تمنا عمادی یا غامدی یا اصلاحی صاحب سے پوچھنے نہیں جاتے کہ یہ قرآن ہے یا نہیں۔ اس طرح بیس روایات کے قرآن ہونے پر امت کا اتفاق حاصل ہوجاتا ہے سوائے ان لوگوں کے اختلاف کہ جن کی تعداد و رائے کو امت کے اتفاق کے بالمقابل کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں ہے۔ آج اللہ کے فضل سے مرکز اسلام‘ مسجد نبوی اور دنیا کی کئی ایک بڑی اور معروف مساجد میں بھی نماز میں کئی ایک روایات میں قرآن پڑھا جاتا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اب ہم اس سوال کے جواب کی طرف آتے ہیں کہ قرآن خبر متواتر سے ثابت ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو خبر متواتر سے مراد کیاہے؟
خبر کے ذریعہ سے جو علم حاصل ہوتا ہے بعض اوقات وہ ظنی ہوتا ہے اور بعض اوقات قطعی و یقینی ہوتا ہے۔ ایسی خبر کہ جس کے ذریعہ قطعی و یقینی علم حاصل ہو خبر متواتر کہلاتی ہے۔ متواتر کے اس مفہوم پر اہل سنت کا اتفاق ہے۔ بعض علماء نے خبر متواتر کے لیے ایک جم غفیر کی روایت کو بطور شرط بیان کیا ہے لیکن جمہور علمائے اہل سنت کے نزدیک خبر متواتر کو صرف تعداد رواۃکے ساتھ مقید کرنا غلط ہے۔
امام ابن تیمیہؒ متوفی ۷۲۸ھ فرماتے ہیں:
’’إذ المقصود من المتواتر مایفید العلم لکن من الناس من لا یسمی متواترا إلا ما رواہ عدد کثیر یکون العلم حاصلا بکثرة عددھم فقط و یقولون إن کل عدد أفاد العلم فی قضیة أفاد مثل ذلک العدد فی کل قضیة و ھذا قول ضعیف و الصحیح ما علیہ الأکثرون إن العلم یحصل بکثرة المخبرین تارة و قد یحصل بصفاتھم لدینھم و ضبطھم و قد یحصل بقرائن تحتف بالخبریحصل العلم بمجموع ذلک و قد یحصل بطائفة دون طائفۃ۔۔۔و أما عدد ما یحصل بہ التواتر فمن الناس من جعل لہ عددا محصورا ثم یفرق ھؤلاء فقیل أکثر من أربعة و قیل اثنا عشر و قیل أربعون و قیل سبعون و قیل ثلاثمائة و ثلاثة عشر و قیل غیر ذلک و کل ھذہ الأقول باطلة لتکافؤھا فی الدعوی والصحیح الذی علیہ الجمھور أن التواتر لیس لہ عدد محصور۔ (مجموع الفتاوی : جلد ۱۸‘ص۴۹)
’’متواتر کی اصطلاح کا اصل مقصود علم یقینی کا حصول ہے جبکہ بعض لوگ متواتر اس کوکہتے ہیں جس کو ایک بہت بڑی تعداد نے نقل کیا ہو اور علم یقینی صرف ان کی کثرت تعداد کی بنیاد پر حاصل ہو رہا ہو۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ایک مخصوص تعداد جب ایک واقعے میں علم یقین کا فائدہ دیتا ہے تو وہ تعداد ہر واقعے میں علم یقین کا فائدہ دے گی اور یہ قول ضعیف ہے۔صحیح قول جمہور علماء کاہے جس کے مطابق بعض اوقات علم یقینی مخبرین کی تعداد سے حاصل ہوتا ہے جبکہ بعض اوقات مخبرین کی (اعلی) دینی صفات اور ضبط سے حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح بعض اوقات خبر کے ساتھ کچھ ایسے قرائن ملے ہوئے ہوتے ہیں کہ جن کی موجودگی میں علم یقینی حاصل ہو رہا ہوتا ہے جبکہ بعض اوقات ایک گروہ کو ایک خبر سے علم یقینی حاصل ہوتاہے اور دوسرے کو نہیں ہو رہا ہوتا ہے۔۔۔جہاں تک اس عدد کا تعلق ہے کہ جس سے تواتر حاصل ہو جائے تو بعض لوگوں نے اس کے لیے ایک مخصوص عدد مقرر کیا ہے۔ پھر جنہوں نے مخصوص عد د مقرر کیا ہے ان میں اس عدد کی تعیین میں بھی اختلاف ہے۔بعض کے نزدیک چار سے زائد‘ بعض کے ہاں بارہ‘ بعض چالیس‘ بعض ستر‘ بعض تین سو اور بعض تین سو تیرہ کے عدد کو تواتر کے حصول کی بنیاد بناتے ہیں ۔اس کے علاوہ بھی کچھ اقوال ہیں لیکن یہ سب اقوال باطل ہیں کیونکہ یہ دعوی میں ایک دوسرے کے مخالف ہیں جبکہ صحیح قول یہ ہے کہ تواتر کا کوئی عدد مقرر نہیں ہے (یعنی یہ ایک آدمی سے بھی حاصل ہو سکتاہے اور بعض اوقات ستر سے بھی حاصل نہ ہوگا) ۔
امام ابن الجزریؒ متوفی ۸۳۲ ھ نے بھی’ منجد المقرئین‘میں تواتر کی اصل‘ تعداد رواۃ کی بجائے علم کے حصول کو قرار دیا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
پس جب علماء قرآن کو متواتر کہتے ہیں تو ان کی تواتر سے مراد تعدد رواۃ نہیں ہوتی بلکہ علم یقینی کا حصول ہوتا ہے ۔
امام سرخسی ؒ لکھتے ہیں:
’’اعلم بأن الکتاب ھو القرآن المنزل علی رسول اللہ المکتوب فی دفات المصاحف المنقول إلینا علی الأحرف السبعة المشھورة نقلا متواترا۔‘‘(أصول السرخسی:ص ۲۷۹‘ المطبعۃ السلفیۃ‘ القاہرۃ)
جان لو! کتاب اللہ سے مراد وہ قرآن ہے جو کہ اللہ کے رسولﷺ پر نازل کیا گیا ہے‘ مصاحف کے گتوں کے درمیان لکھا گیا ہے اور ہم تک معروف احرف سبعہ کے ساتھ تواترسے منقول ہے۔
امام غزالی ؒ متوفی ۵۰۵ھ لکھتے ہیں:
’’و حد الکتاب ما نقل إلینا بین دفتی المصحف علی الأحرف السبعة المشھورة نقلا متواترا۔‘‘(المستصفی:جلد۱‘ ص۸۱‘ دار الکتب العلمیۃ)
کتاب اللہ کی تعریف یہ ہے کہ جو مصحف کے دو گتوں کے درمیان معروف احرف سبعہ کے ساتھ ہم تک متواتر منقول ہے۔
ان دونوں جلیل القدر فقہاء نے قرآن کی تعریف میں قراء ات متواترہ کو بھی شامل کیا ہے اور یہ بات أظھر من الشمس ہے کہ قراء ات متواترہ کا تواتر ‘ تعدد رواۃ کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ ایسی سند کی بنیاد پر ہے جو یقینی و قطعی طور پر ثابت ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
فصل پنجم
سنت کے ثبوت کا بنیادی ذریعہ

یہی معاملہ سنت رسول ﷺ کابھی ہے ۔اللہ کے رسولﷺ پر قرآن کے علاوہ جو وحی نازل ہوتی تھی یا اللہ کی تصویب کی شکل میں آپ کا کوئی فعل وحی قرار پاتا تھا تودین کی اس صورت کو بھی صحابہؓ نے بذریعہ خبر امت تک پہنچایا ہے۔ آپؐ کے اقوال ‘ افعال اور تقریرات کا مشاہدہ کر کے صحابہؓ نے ان سنن کی خبر دی ہے۔ صحابہ ؓ کی یہ خبر دو صورتوں میں تھی۔ ایک خبر تو دین کے بعض ایسے بنیادی و جزئی احکام کے بارے میں تھی کہ جن کا سماع یا مشاہدہ آپؐ کے زمانے میں صحابہؓ کی ایک بہت بڑی جماعت لیے ثابت تھا‘ مثلا اللہ کے رسولﷺ نے پانچ نمازیں پڑھی یا باجماعت نماز پڑھانے کا اہتمام کیا یا آپؐ نے حج کے دوران عرفات کا قیام کیا یا آپؐ نے عیدین کی نماز شہر سے باہر نکل کر پڑھائی یا آپؐ نے کھڑے ہو کر خطبہ جمعہ دیا وغیرہ۔ دین کے ان معاملات کو صحابہؓ کی ایک بہت بڑی جماعت نے روایت کیا ہے اور ان اقوال و افعال کی آپؐ سے نسبت کی صحت کے بارے میں علماء کا کوئی اختلاف مروی نہیں ہے۔
آپؐ کے اس قسم کے اقوال و افعال کہ جن کو صحابہؓ کے ایک جم غفیر نے نقل کیا ہو ‘ دو طرح کے ہیں۔
۱۔ ایک وہ کہ جو دین کی بنیاد یا اساس ہیں مثلا آپؐ کا پانچ نمازوں کا پڑھنا یا مناسک حج اداکرناہے۔ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ آپؐ کی کسی سنت کا مشاہدہ تو کچھ صحابہؓ نے کیا ہوتا ہے لیکن وہ مشاہدہ تمام صحابہؓ کے درمیان بذریعہ خبر آپؐ کے زمانے میں ہی بہت بڑے پیمانے پر پھیل گیا ہوتا ہے جیساکہ چور کے ہاتھ کلائی سے کاٹنا وغیرہ۔ یہ سب دین کے وہ احکامات ہیں کہ جن کے دین ہونے پرصحابہ ؓ کا اجماع ہے اور ان کا انکار انسان کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیتا ہے۔
۲۔ دوسری طرح کی سنن کہ جن کو صحابہؓ کی ایک بڑی جماعت نے بغیر کسی اختلاف کے نقل کیا ہے‘ دین کے جزئی و فروعی مسائل سے متعلق ہیں۔ان کا انکار کفر نہیں ہے اور نہ ہی ان پر عمل کرنا لزوم کے درجے میں امت پر واجب کیا گیا ہے مثلا آپؐ کا شہر سے باہر نکل کر نماز عیدین کی نماز پڑھانا‘ اس مسئلے میں صحابہؓ اور علماء میں سے کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے کہ آپؐ نے عیدین کی نماز شہر سے باہر نکل کر پڑھائی ہے۔ آپؐ کے اس عمل پر اجماع صحابہؓ کے باوجود اس کا خلاف جائز ہے‘ چاہے عذر سے ہو یا بغیر کسی شرعی عذر کے‘ اگرچہ افضل و مستحب عمل شہر سے باہر نکل کر ہی نماز پڑھنا ہو گا۔

امام شافعی کے نزدیک سنت کی پہلی قسم
پہلی قسم کے علم کی روایت کے طریقے کو بیان کرتے ہوئے امام شافعیؒ فرماتے ہیں:
’’قال الشافعی: فقال لی قائل: ما العلم؟ و ما یجب علی الناس فی العلم؟ فقلت لہ: العلم علمان :علم عامۃ لا یسع بالغا غیر مغلوب علی عقلہ جھلہ‘ قال : و مثل ماذا ؟ فقلت : مثل الصلوات الخمس و إن للہ علی الناس صوم شھر رمضان و حج البیت إذا استطاعوا و زکاة فی أموالھم وأنہ حرم علیھم الزنا و القتل و السرقة و الخمر و ما کان فی معنی ھذا مماکلف العباد أن یعقلوہ و یعملوہ و یعطوہ من أنفسھم و أموالھم و أن یکفو عنہ ما حرم علیھم منہ وھذا العلم الصنف کلہ من العلم موجودا نص فی کتاب اللہ و موجودا عاما عند أھل الاسلام ینقلہ عوامھم عن من مضی من عوامھم یحکونہ عن رسول اللہ و لا یتنازعون فی حکایتہ و لا وجوبہ علیھم و ھذا العلم العام الذی لا یمکن فیہ الغلط من الخبر و لا التأویل و لا یجوز فیہ التنازع۔‘‘(الرسالۃ :باب العلم) [/ARB]
مجھ سے ایک کہنے والے نے کہا : علم کیا ہے؟ اور لوگوں کے اوپر کون سے علم پر عمل واجب ہے۔ تو میں نے اس سے کہا : علم دو طرح کے ہیں : ایک عام علم ہے کہ جس سے تو کسی بھی بالغ شخص کو‘ کہ جس کی عقل اس کی جہالت سے مغلوب نہ ہو‘ خالی نہ پائے گا۔ اس شخص نے کہا : اس علم کی مثال بیان کریں۔ میں نے کہا : مثلا پانچ نمازیں اور اللہ تعالی نے رمضان کے مہینے کے روزے فرض کیے ہیں اور استطاعت کی صورت میں حج اور ان کے اموال میں زکوۃ کو فرض کیا ہے اور ان پر زنا‘ قتل‘ چوری اور شراب نوشی وغیرہ کوحرام کیا ہے۔ اللہ تعالی نے اس قسم کے احکام کا اپنے بندوں کو مکلف بنایا ہے کہ وہ ان کو سمجھیں اور ان پر عمل کریں اور ان کی ادائیگی کے لیے اپنی جانوں اور مالوں کو کھپائیں اور ان میں سے جو چیزیں حرام کی گئی ہیں ان سے اجتناب کریں۔ علم کی یہ قسم تمام کی تمام کتاب اللہ میں نصاً موجود ہے اورمسلمانوں کے پاس بھی ہے۔ ان کے عوام الناس اپنے سے پہلے گزر جانے والے عوام الناس سے اس علم کو نقل کرتے چلے آئے ہیں اور ان کے سابقین اللہ کے رسولﷺ سے اس علم کو بیان کرتے ہیں۔ یہ علم کی وہ قسم ہے کہ جس کے نقل کرنے میں یا اس کے فرض ہونے میں کسی کا بھی کوئی اختلاف نہیں ہے اور یہ وہ عام علم ہے کہ جس کی خبر کے نقل ہونے اور اس کی تاویل میں غلطی کا امکان بھی نہیں ہے اور اس میں کسی قسم کا اختلاف بھی مروی نہیں ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سنت کی اس قسم کو امام شافعیؒ نے اپنی کتاب ’جماع العلم‘ میں ’خبر العامة عن العامة‘ کا نام دیا ہے اور اس خبر کو اجماع کی بحث میں مجمع علیہ مسائل کی دلیل کے طور پر بیان کیا ہے۔ یہ واضح رہے کہ امام شافعیؒ جب سنت کی اس قسم یعنی ’خبر العامہ‘ کی بات کرتے ہیں تو ان کی یہ مراد قطعا ً نہیں ہوتی ہے کہ ان کے نزدیک سنت کی اس قسم کی سند ہی موجود نہیں ہے۔
امام شافعیؒ بیان فرماتے ہیں:
’’ قال الشافعی: فقال لی قائل : قد فھمت مذھبک فی أحکام اللہ ثم احکام رسولہ و إن من قبل عن رسول اللہ فعن اللہ قبل بأن اللہ افترض طاعة رسولہ و قامت الحجة بما قلت بأن لا یحل لمسلم علم کتابا و لا سنة أن یقول بخلاف واحد منھما و علمت أن ھذا فرض اللہ فما حجتک فی أن تتبع ما اجمتع الناس علیہ مما لیس منہ نص حکم اللہ و لم یحکوہ عن النبیﷺ۔ أ تزعم ما یقول غیرک أن إجماعھم لا یکون أبدا إلا علی سنة ثابتة و إن لم یحکوھا قال فقلتہ أما ماجتمعوا علیہ فذکروا أنہ حکایة عن رسول اللہ فکما قالوا إن شاء اللہ و أما ما لم یحکوہ فاحتمل أن یکون قالوا حکایة عن رسول اللہﷺ و احتمل غیرہ و لا یجوز أن نعدہ لہ حکایة لأنہ لا یجوز أن یحکی إلا مسموعا و لا یجوز أن یحکی شیئا یتوھم یمکن فیہ غیر ما قال فکنا نقول بما قالوا بہ اتباعا لھم و نعلم أنھم اذ کانت سنن رسول اللہ لا تعزب عن عامتھم و قد تعزب عن بعضھم و نعلم أن عامتھم لا تجتمع علی خلاف لسنة رسول اللہ و لا علی خطأ إن شاء اللہ۔‘‘(الرسالۃ : باب الإجماع)
امام شافعیؒ فرماتے ہیں : کہ مجھے ایک کہنے والے نے کہا : میں اللہ تعالی اور پھر اس کے رسول ﷺ کے احکام کے بارے میں نے آپ کا مذہب اچھی طرح سمجھ لیا ہے ۔پس جو شخص بھی اللہ کے رسولﷺ کی طرف سے خبر کو قبول کرے گا وہ اللہ ہی کی خبر قبول کرے گا کیونکہ اللہ تعالی نے اپنے رسولﷺ کی اطاعت کو فرض کیا ہے اور جو کچھ (دلائل ) آپ نے (اس مسئلے میں) بیان کیے ہیں اس سے حجت قائم ہو جاتی ہے کہ کسی بھی شخص کے لیے یہ جائز نہیں ہے وہ کتاب و سنت کی خبر پہنچ جانے کے بعد اس کی مخالفت کرے اور میں نے یہ بھی جان لیا ہے کہ اللہ تعالی نے اس (طرز عمل) کو فرض قرار دیا ہے لیکن یہ بتلائیں کہ جس بات پر لوگوں کا اجماع ہو گیا ہو اس کے اتباع کی آپ کے پاس کیا دلیل ہے جبکہ اس (اجماع) کے بارے میں کتاب اللہ کی نہ توکوئی نص موجود ہو اور نہ ہی کوئی ایسی روایت ہوجسے لوگ اللہ کے رسولﷺ سے بیان کر رہے ہوں۔ (سائل نے مزید کہا) کیا آپ کا موقف بھی وہی ہے جو آپ کے علاوہ بعض علماء کا ہے کہ اجماع ہمیشہ کسی ایسی سنت پر ہو گا جو کہ ثابت ہو اگرچہ لوگ اس سنت کو آپؐ کی طرف منسوب نہ کر رہے ہوں۔ میں نے کہا : اگر تو جس بات پر ان کا اجماع ہو گیا ہے اوہ وہ اس کو اللہ کے رسو لﷺ سے نقل بھی کر رہے ہیں تو اس کا معاملہ تو ویسا ہی ہے ان شاء اللہ تعالی جیسا کہ انہوں نے بیان کیاہے ( یعنی آپؐ سے ثابت ہونے کی وجہ سے دین ہے) اور جس کو انہوں نے اللہ کے رسولﷺ سے بیان نہیں کیا ہے (لیکن اس کے دین ہونے پر ان کا اجماع ہے ) تو اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ انہوں نے یہ بات اللہ کے رسولﷺ سے نقل کی ہو اور اس کے غیر کابھی احتمال ہے۔ ہمارے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ ہم اس قسم کے اجماع کو اللہ کے رسولﷺ سے منقول قرار دیں کیونکہ آپؐ سے اسی چیز کی حکایت جائز ہے جو سن کر نقل کی گئی ہو۔ یہ بھی جائز نہیں ہے کہ کسی ایسی چیز کو آپ کی سنت کے طور پر نقل کیاجائے کہ جس میں آپؐ کے سنت ہونے کا صرف وہم ہو اور اس کے سنت نہ ہونے کا امکان بھی ہو۔ پس ہم بھی اس صورت میں وہی بات کہیں گے جو کہ باقی علماء کہتے ہیں اور ہم یہ جانتے ہیں کہ اگر وہ اللہ کے رسولﷺ کی سنن ہوتی تو عامۃ الناس سے پوشیدہ نہ رہتیں اگرچہ بعض افراد کے لیے اس بات کاامکان ہے کہ ان کو ان سنن کا علم نہ ہو۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں۔ امت عامہ نہ تو اللہ کے رسولﷺ کی کسی سنت کے خلاف جمع ہوگی اور نہ ہی کسی خطا پر اکھٹی ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
امام شافعی کی خبر العامہ کی سند
پس وہ خبر جس کو اللہ کے رسول ﷺ سے صحابہ ؓ کی ایک بہت بڑی تعداد نے بیان کیا ہے اور ان صحابہؓ سے تابعینؒ کی ایک بہت بڑی تعداد نے اس خبر کو نقل کیا ہے اور تابعین ؒ سے وہ خبر تبع تابعینؒ تک اسی طرح پہنچی ہو، یہ اس وقت کا معاملہ ہے جب تک کہ ابھی تک سنت کی تدوین نہیں ہوئی تھی کیونکہ امام شافعیؒ(۱۵۰ھ تا ۲۰۴ھ) کا زمانہ دوسری صدی ہجری کا ہے اور سنت کی تدوین تیسری و چوتھی صدی ہجری میں ہوئی ہے۔
بعد میں جب تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں باقاعدہ احادیث کی کتابیں مدون ہوئیں تو سنت کی اس قسم کو بھی مدون کیا گیا۔ ہم اس بات کودوبارہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ امام شافعیؒ جب سنت کی اس قسم یعنی ’خبر العامہ‘ کی بات کرتے ہیں تو ان کی یہ مراد قطعا ً نہیں ہوتی ہے کہ ان کے نزدیک سنت کی اس قسم کی سند ہی موجود نہیں ہے۔ امام شافعیؒ فرماتے ہیں :

کل العلوم سوی القرآن مشغلة
إلاالحديث والا الفقہ فی الدین
العلم ما کان فیہ قال حدثنا
و ما سوی ذلک وسواس الشیاطین
(شرح عقیدہ طحاویہ لابن أبی العز الحنفی متوفی۷۹۲ھ: ص۲۴)
قرآن کے علاوہ تمام علوم کھیل تماشہ ہیں سوائے حدیث اور فقہ (یعنی قرآن وسنت کے گہرے فہم)کے علم کے‘ اصل علم تو وہ ہے کہ جس میں کوئی شخص ’حدثنا‘کہے اور اس علم (یعنی حدثنا) کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ شیاطین کے وساوس ہیں۔
امام شافعیؒ کے علاوہ بہت سے علماء نے دین کے ثبوت کے لیے سند کی اہمیت کو واضح کیا ہے۔ امام عبد اللہ بن مبارکؒ فرماتے ہیں:
’’الإسناد من الدین : لولا الإسناد لقال من شاء ما شاء۔‘‘(مقدمہ صحیح مسلم )
سند بیان کرنا دین کا حصہ ہے اور اگرسند کا بیان نہ ہوتا تو جو شخص جو چاہتا کہہ دیتا۔
امام صاحبؒ ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
’’مثل الذی یطلب أمر دینہ بلا اسناد کمثل الذی یرتقی السطح بغیر سلم۔‘‘(الاسناد من الدین : ص۱۹)
جو شخص اپنے دین کو بغیر سند کے حاصل کرنا چاہتا ہے وہ ایسے شخص کی مانند ہے جو بغیر کسی سیڑھی کے چھت پر چڑھنا چاہتا ہے۔
امام اوزاعیؒ فرماتے ہیں:
’’ماذھاب العلم إلا ذھاب الاسناد۔‘‘(الاسناد من الدین : ص۱۹)
علم کے اٹھ جانے سے مرادسند بیان کرنے رواج ختم ہو جانا ہے۔
امام ابن تیمیہ ؒ متوفی ۷۲۸ھ فرماتے ہیں:
’’الاسناد من خصائص ھذہ الأمۃ و ھو من خصائص الاسلام ثم ھو من خصائص أھل الاسلا م من خصائص أہل السنة۔‘‘(الاسناد من الدین : ص۲۹‘ ۳۰)
سند بیان کرنا اس امت کے خصائص میں سے ہے اور یہ دین اسلام کے خصائص میں سے بھی ہے۔ پھر اہل اسلام میں سے اہل سنت کے خصائص میں سے ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
کتابوں میں جب سنت کی یہ قسم (خبر العامہ)نقل ہوئی ہے تو اخبار آحاد کے طور پر نقل ہوئی ہے نہ کہ سینکڑوں اسناد کے ساتھ۔
اس وجہ یہ تھی کہ دین کے یہ معاملات اختلافی نہ تھے بلکہ اتفاقی و اجماعی تھے لہذا ان کو اتنی بڑی تعدادراوۃ و اسناد کے ساتھ نقل کرنے کی کوئی بنیادی وجہ و ضرورت موجود نہ تھی۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس دور میں محدثین میں متواتر کی کوئی اصطلاح بھی موجود نہ تھی بلکہ ان کے نزدیک اصل اصطلاح خبر ہی کی تھی کہ جس سے دین کا علم ثابت ہوتاتھا۔
متواتر کی اصطلاح محدثین میں پہلی مرتبہ
خطیب بغدادیؒ متوفی ۴۹۳ھ نے ’الکفایہ‘ میں پانچویں صدی ہجری میں استعمال کی ہے اوریہ اصطلاح بھی خطیب بغدادیؒ نے اصول فقہ کی کتابوں سے لی ہے جیسا کہ خود خطیب بغدادی ؒ کے کلام سے بھی واضح ہے اورامام ابن الصلاح ؒنے بھی ’مقدمہ ابن الصلاح‘میں اس کی وضاحت کی ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ محدثین کا اصل مقصود زندگی کے ہر گوشے سے متعلق اللہ کے رسولﷺ کی ہزاروں سنن کواکٹھا کرنا تھا نہ کہ ایک ہی ایک سنت سے متعلق سینکڑوں اسناد کوجمع کرنا۔ اسی لیے امام بخاری ؒ اور امام ترمذیؒ اپنی کتاب کا نام’الجامع الصحیح‘ رکھا ہے۔ امام بخاریؒ کے بارے میں معروف ہے کہ انہوں نے تقریباً پانچ لاکھ صحیح روایات میں سے سات ہزار روایات کو اپنی کتاب میں درج کیا ہے۔ اس لیے سنن کی کتابوں میں کسی سنت کی اسناد کم ہونے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اس کو روایت کرنے والے بھی کم تھے۔
کسی بھی ’خبر العامۃ‘ پر صحابہؓ کے اتفاق و نقل اورپھر اس کی کتب حدیث میں تدوین کے بعدآج ان کے پہچاننے کا واحد ذریعہ ایک تو وہ اخبار و آثارہیں کہ جن میں اس بات کا تذکرہ ہے کہ صحابہ ؓ کا فلاں اخبار عامہ میں بیان شدہ دین اسلام کے فلاں بنیادی اصولوں پر اتفاق تھا۔ صحابہؓ اور ما بعد کے زمانوں کے علماء کے اجماع سے متعلق یہ اخبارو آثار کتب فقہ و اصول فقہ‘ کتب تفاسیر اور شروحات الحدیث میں موجود ہیں۔ اسی طرح ان اخبار عامہ کے جاننے کا ایک دوسرا بڑا ذریعہ کتب سنن بھی ہیں کہ جن میں موجود روایات اس بات کی خبر دیتی ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ سے یہ اقوال و افعال دین کی حیثیت سے ثابت ہیں اور ان کے دین ہونے میں کسی بھی فقیہ کا اختلاف مروی نہیں ہے۔
تواتر عملی سنت کی اس قسم کے ثبوت کا کوئی ذریعہ نہیں ہے جیسا کہ غامدی صاحب کا خیال ہے کیونکہ آج امت کی اکثریت کا حال یا تواتر عملی یہ ہے کہ وہ نہ نمازپڑھتے ہیں اور نہ روزہ رکھتے ہیں۔ نہ زکوۃ ادا کرتے ہیں اور نہ ہی باقی شعائر اسلام پر عمل کرتے ہیں تو تواتر عملی سے دین کیسے حاصل ہوگا ؟ اسی طرح یہ کہنا کہ ہم نے سنت کی یہ قسم اپنے باپ دادا سے لی ہے اور انہوں نے اپنے باپ داداسے سیکھی ہے اور اس طرح اللہ کے رسولﷺ تک یہ ثابت ہو جاتی ہے‘ بھی غلط ہے کیونکہ ہمارا تاریخی ذخیرہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں بسنے والوں کے باپ دادا ہندو‘ سکھ اور بدھ وغیرہ تھے۔ اپنے ارد گرد کسی بھی مسلمان کا نسب نامہ دیکھ لیجئے‘ حد پانچویں یا چھٹی پشت تک جائے گا اور اس کے بعد کوئی سردار صاحب یا پنڈت صاحب موجود ہوں گے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ محمد بن قاسم ؒ کے حملوں سے پہلے اس علاقے میں مسلمانوں کا نام و نشان تک نہ تھا۔ محمد بن قاسمؒ اور ان کے ساتھ حملہ آور مسلمانوں کی خبر سے اس خطے میں دین پھیلا اور لوگوں نے اسلام قبول کیا۔
لہذا بفرض محال ہمیں اگرسنت کی یہ قسم اپنے آباؤ اجداد کے عمل سے ملی بھی ہے تو ہمارے آباؤ اجداد نے بھی اسے خبر کے ذریعہ ہی حاصل کیاتھا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
امام شافعی کے نزدیک سنت کی دوسری قسم
اللہ کے رسولﷺ کی سنت کی دوسری قسم وہ ہے جسے امام شافعیؒ نے خبر الخاصہ کا نام دیا ہے جیسا کہ نبیﷺ نے کسی مجلس میں دین کی فروعی معاملات سے متعلق کوئی بات ارشاد فرما ئی جیسا کہ آپؐ نے کھانا کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھی یا آپ ؐنے کوئی عمل کیا اور کسی صحابیؓ یا صحابیہ ؓنے آپؐ کو دیکھا جیسا کہ آپؐ نے عصر کے بعداپنی ایک زوجہ محترمہ کے ہاں دو رکعت نمازنفل پڑھی یا آپؐ کے سامنے کسی صحابی ؓنے کوئی عمل کیا اور آپؐ نے اس پر خاموشی اختیار کی جیسا کہ حضرت خالد بن ولیدؓ نے آپؐ کے سامنے گوہ کھائی اور آپؐ نے اس سے منع نہ فرمایا۔ پس اس قسم کے قول ‘ فعل یا تقریر کو مجلس میں موجود ایک‘ دو‘ تین‘ چار‘ پانچ یا جو بھی صحابہؓ اس مجلس میں موجود تھے انہوں نے آگے نقل کر دیا۔ سنت کی یہ قسم بھی اب مدون ہو کر کتابی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔
یہ واضح رہے کہ کتب سنن کی تدوین کے بعد ان سنن کی اسناد کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے اگرچہ اب بھی ہمارے علماء و شیوخ حدیث پڑھاتے وقت اپنی اسناد ان کتب سنن کے مؤلفین تک پہنچاتے ہیں۔
اس ساری بحث کے خلاصے کے بعد حاصل کلام یہ ہے کہ جناب غامدی صاحب نے امام شافعیؒ کے تصور سنت سے کسی قدر استفادہ ضرور فرمایا ہے لیکن یہ کہنا بالکل بھی درست نہیں ہے کہ غامدی صاحب نے بعینہ اسی تصور سنت کو اختیار کیا ہے جوکہ امام شافعیؒ کا تھا اور یہ بھی درست نہیں ہے کہ ان دونوں حضرات کے تصور سنت میں صرف ایک جگہ اختلاف ہے کہ غامدی صاحب خبر الخاصہ کو حدیث کہتے ہیں اور امام شافعیؒ اس کو بھی سنت ہی کا نام دیتے ہیں۔
امام شافعیؒ اور جنا ب غامدی صاحب کے تصور سنت میں درج ذیل نمایاں فرق ہیں:
۱۔ خبر العامہ والی سنت کے جمیع احکامات قرآن سے بھی ثابت ہے جیسا کہ انہوں نے قتل‘ چوری اور زنا وغیرہ کی حرمت کو بھی سنت کی اس قسم میں داخل کیا ہے۔ جبکہ غامدی صاحب کے نزدیک قرآن سے ابتدائی طور پر ثابت شدہ احکامات سنت نہیں ہیں۔
۲۔ خبر العامہ والی سنت میں صرف وہی اجماعی احکامات داخل ہیں کہ جو دین کی بنیاد و اساس ہیں اور ان کا انکار دائرہ اسلام سے نکلنے کے مترادف ہے جیسا کہ پانچ نمازیں اور رمضان کے روزے وغیرہ جبکہ غامدی صاحب کے نزدیک دین کے ایسے اجماعی احکامات بھی سنت کی اس قسم میں داخل ہیں جو کہ دین کے جزئی و فروعی احکام ہیں جیسا کہ کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا و غیرہ۔
۳۔ غامدی صاحب فطرت کی بنیاد پر ثابت شدہ معروفات و منکرات کو سنت کے مسمی میں داخل نہیں کرتے جبکہ امام شافعیؒ نے ایسے تمام احکامات کو بھی سنت کی اس قسم میں شمار کیاہے مثلا زنا کرنا‘ شراب پینا وغیرہ
۴۔ امام شافعیؒ کے نزدیک خبر العامہ والی سنت پہلے سند (محدثین کی اصطلاح مراد ہے) سے ثابت ہوتی ہے اور پھر اس پر صحابہ ؓ کا اجماع ہوتا ہے جبکہ غامدی صاحب کے نزدیک اس قسم کے احکام کے سنت قرار پانے لیے ان کا سند سے ثابت ہونا ضروری نہیں ہے، صرف صحابہؓ کا اجماع بھی کافی ہے۔
۵۔ امام شافعیؒ خبر الخاصہ کے لیے بھی سنت کا لفظ استعمال کرتے ہیں جبکہ غامدی صاحب کے نزدیک صرف خبر العامہ ہی سنت ہے اور خبر الخاصہ کو وہ سنت کی بجائے حدیث کانام دیتے ہیں۔
۶۔ امام شافعیؒ کے نزدیک سنت چاہے خبر العامہ ہو یا خبر الخاصہ‘ دونوںصورتوں میں اس سے مستقل بالذات دین ثابت ہوتا ہے جیسا کہ امام صاحبؒ نے خبر الخاصہ سے قبلے کی تبدیلی کی مثال بیان کی ہے جبکہ غامدی صاحب کے نزدیک خبر العامہ تو سنت ہے اور اس سے مستقل بالذات دین ثابت ہوتا ہے اور خبر الخاصہ جسے وہ حدیث کہتے ہیں اس سے دین میں عقیدے و عمل کا اضافہ نہیں ہوتا بلکہ وہ قرآن و سنت میں بیان شدہ احکامات کی تبیین و تشریح ہوتی ہے۔ امام شافعیؒ کے علاوہ تمام أئمہ اہل سنت کے نزدیک حدیث سے مستقل بالذات دین ثابت ہوتا ہے‘ چاہے وہ عقیدہ ہو یا عمل۔ اس کو ہم کسی اور مضمون میں تفصیل سے واضح کریں گے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
فصل ششم
إجماع کے ثبوت کا بنیادی ذریعہ

اسی طرح کا معاملہ اجماع کا بھی ہے۔ کسی بھی زمانے میں قرآن و سنت کی کسی تعبیر پر امت کے تمام مجتہد علماء کا اتفاق اجماع کہلاتا ہے اور آج ہمیں خبر ہی سے معلوم ہوتاہے کہ فلاں دور میں علماء کا اس بات پر اجماع ہوا تھا بلکہ عصر حاضر میں اگر علماء کا کسی بات پر اجماع ثابت ہو یا ہو جائے تو اس اجماع کے علم کی بھی ممکن صورت خبر ہی ہے یعنی بذریعہ خبر ہم امت کے تمام علماء کی کسی مسئلے کے بارے میں آراء اکٹھی کر سکتے ہیں اور ان کا اتفاق معلوم کرسکتے ہیں مثلا ہم یہ کہتے ہیں کہ عصر حاضر کے علماء و عامۃ الناس کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنی چاہیے لیکن ہم میں کسی ایک شخص نے بھی تمام دنیا کے علماء یا عامۃ الناس تو چھوڑیں‘ پاکستان کے، بلکہ پاکستان بھی کیا‘ لاہورشہر تک کے تمام علماء یاعامۃ الناس سے ہم نے براہ راست یہ نہیں سنا ہو گا کہ وہ کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کو دین قرار دیتے ہیں لیکن ہم اس کے باوجود اس مسئلے کو اجماعی قرار دیتے ہیں اور ایسا ہم خبر کی بنیاد پر کرتے ہیں یعنی کوئی ایک عالم ہمیں یہ خبر دیتا ہے کہ اس عمل کے دین ہونے پر تمام امت کا اتفاق ہے تو ہم اس عالم کی اس خبر واحد کو تسلیم کرتے ہوئے اجماع کایقین کر لیتے ہیں باوجودیکہ ہمارے ارد گرد مسلمانوں کی اکثریت کھانا کھانے سے پہلے دین کے اس حکم پر عمل نہیں کر رہی ہوتی ہے اور یہ بے عمل اکثریت اپنی بے عملی سے اس عمل کے دین ہونے کی ایک طرح سے مخالفت کر رہی ہوتی ہے۔
عصر حاضر میں یہ بھی بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے کہ امت کے تمام علماء کو ایک جگہ جمع کرنے کے بعد کسی مسئلے میں ان کی رائے لی جائے اور بذریعہ مشاہدہ علماء کے اجماع کا علم حاصل ہو۔
اجماع علمی اتفاق کا نام ہے اور علمی اتفاق بتانے سے ہوتا ہے۔ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ ایک مسئلے میں تمام علماء خاموش ہیں لہذا ان کا اس مسئلے پر اجماع ہے۔ خاموش اتفاق کا نام اجماع نہیں ہے بلکہ اپنی رائے کے اظہار کے بعد اس پر سب کے اتفاق کا نام اجماع ہے۔پس اجماع بھی خبر ہی کی ایک قسم ہے ۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top