کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
اسی طرح مراکش سے ’وزارة الأوقاف و الشؤون الاسلامةۃ‘ المملکة المغربیة‘ کے تحت شائع ہونے والے مصحف کے آخر میں بھی قراء کی ایک فہرست بیان کی گئی ہے کہ جنہوں نے اس روایت کی تصدیق کی ہے۔ یہ مصحف مراکش کی حکومت کی طرف سے سرکاری طور پر جاری کیا گیا ہے اور یہ روایت ورش میں ہے کیونکہ مراکش اور افریقہ کے اکثر ممالک میں عامۃ الناس روایت ورش میں قرآن پڑھتے ہیں۔
اسی طرح کا معاملہ مصر اور پاکستان سے شائع ہونے والے مصاحف کا بھی ہے۔ مصر میں جامعۃ الأزھر کے ما تحت ادارے ’مجمع البحوث الاسلامیة‘ کی تصدیق کی مصاحف شائع کیے جاتے ہیں جبکہ پاکستان میں ’وزارة الأوقاف‘ کی طرف سے مقررکردہ قراء حضرات کی تصدیق کے بعد قرآن کی طباعت اور نشر واشاعت کی اجازت دی جاتی ہے۔
اسی طرح کا معاملہ مصر اور پاکستان سے شائع ہونے والے مصاحف کا بھی ہے۔ مصر میں جامعۃ الأزھر کے ما تحت ادارے ’مجمع البحوث الاسلامیة‘ کی تصدیق کی مصاحف شائع کیے جاتے ہیں جبکہ پاکستان میں ’وزارة الأوقاف‘ کی طرف سے مقررکردہ قراء حضرات کی تصدیق کے بعد قرآن کی طباعت اور نشر واشاعت کی اجازت دی جاتی ہے۔
پس ثابت ہوا کہ اصل قرآن قراء ہی سے حاصل ہوتا ہے نہ کہ عامۃ الناس سے‘ اور عامۃ الناس قرآن کے حصول میں قراء کے تابع ہیں ۔یہ تو مصاحف کا معاملہ ہے جبکہ دوسری طرف مصاحف سے قرآن پڑھنے کے لیے بھی عامۃ الناس قراء ہی کے محتاج ہیں۔ ہمارے معاشرے کا ۹۹ فی صد طبقہ ایسا ہے جو آج بھی مسجد کے قاری صاحب سے قرآن حاصل کررہا ہے نہ کہ اپنے ماں، باپ یا دادا‘ دادی یانانا ‘ نانی سے۔ جس ایک فی صد طبقے نے اپنی نانی و دادی سے قرآن سیکھا بھی ہے تو امر واقعہ ہے کہ یہ لوگ قرآن کی دو سطریں بھی درست نہیں پڑھ سکتے ہیں۔