کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
5۔قرا ء اتِ متواترہ اور اجماع اُمت
غامدی صاحب کے نزدیک قراء ات متواترہ کے بارے میں مروی وہ تمام روایات جو صحاح ستہ میں موجود ہیں‘ سندا ً اور معناً دونوں اعتبارات سے ناقابل قبو ل ہیں۔ سندا ً اس لیے کہ ان تمام روایات کی سند میں ابن شہاب زھری ہے جو ائمۂ رجال کے نزدیک مدلس و مدرج ہے اور معناً ا س لیے کہ ان احادیث کے معنی و مفہوم کا آج تک تعین نہیں ہو سکا۔
غامدی صاحب کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ قرآن کو حدیث کی دلیل سے ثابت کرنا چاہتے ہیں‘ حالانکہ قرآن اپنے ثبوت کے لیے کسی حدیث کا محتاج نہیں ہے۔ غامدی صاحب جس کو ’قرأت عامہ‘ کہتے ہیں کیا وہ حدیث سے ثابت ہے؟ قرآن کا اجماع اور تواتر کے ساتھ امت میں نقل ہونا ہی اس کے ثبوت کی سب سے بڑی دلیل ہے‘ اور’قراء اتِ عشرہ‘ تواتر اور اجماع کے ساتھ ثابت ہیں۔
غامدی صاحب کے نزدیک قراء ات متواترہ کے بارے میں مروی وہ تمام روایات جو صحاح ستہ میں موجود ہیں‘ سندا ً اور معناً دونوں اعتبارات سے ناقابل قبو ل ہیں۔ سندا ً اس لیے کہ ان تمام روایات کی سند میں ابن شہاب زھری ہے جو ائمۂ رجال کے نزدیک مدلس و مدرج ہے اور معناً ا س لیے کہ ان احادیث کے معنی و مفہوم کا آج تک تعین نہیں ہو سکا۔
غامدی صاحب کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ قرآن کو حدیث کی دلیل سے ثابت کرنا چاہتے ہیں‘ حالانکہ قرآن اپنے ثبوت کے لیے کسی حدیث کا محتاج نہیں ہے۔ غامدی صاحب جس کو ’قرأت عامہ‘ کہتے ہیں کیا وہ حدیث سے ثابت ہے؟ قرآن کا اجماع اور تواتر کے ساتھ امت میں نقل ہونا ہی اس کے ثبوت کی سب سے بڑی دلیل ہے‘ اور’قراء اتِ عشرہ‘ تواتر اور اجماع کے ساتھ ثابت ہیں۔
آج بھی مدارس و جامعات اسلامیہ کے ہزاروں طلبہ ان قراء ات کو اپنے شیوخ سے نقل کر رہے ہیں۔ ان میں سے بعض قراء ات تو مغرب و افریقہ کے بلاد اسلامیہ میں اسی طرح رائج ہیں جس طرح ہمارے ہاں روایت حفص‘ اور ان قراء ات کا تواتر کے ساتھ امت میں پڑھا جانا ہی ان کے قرآن ہونے کے ثبوت کے لیے قطعی دلیل ہے۔مشہور مفسر اور اندلسی عالم ابن عطیہ ؒلکھتے ہیں :
ومضت الاعصار والامصار علی قراء ات الائمۃ السبعة بل العشرة و بھا یصلی لانھا تثبت بالاجماع(۶)
’’ قراء ات سبعہ بلکہ عشرہ بھی ہر زمانے اور ہر شہر میں رائج رہی ہیں اور ان کی نماز میں تلاوت کی جاتی رہی ہے‘ کیونکہ یہ اجماع امت سے ثابت ہیں ‘‘۔