• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فکرِغامدی ایک تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ثبوت دین پر اجماع
ہم یہ بات ذکر کر چکے ہیں کہ بعض اوقات اجماع اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ فلاں شیء بطور دین ثابت ہے جیسا کہ نمازوں کی تعداد کے پانچ ہونے پر امت کا اجماع ہے۔ اجماع کی اس قسم کا تذکرہ اصول فقہ کی کتابوں میں کثرت سے ملتاہے۔ امام شافعیؒ نے ’الرسالۃ‘ میں اجماع کی اسی قسم کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ امام شافعیؒ کے نزدیک سنت کی تدوین سے پہلے جو سنت صحابہؓ کی ’خبر العامہ‘ سے نقل ہو رہی تھی وہ دین کے انہی بنیادی اصولوں پر مشتمل تھی کہ جن کے دین ہونے پر صحابہؓ کا علمی اتفاق بھی تھا۔ امام شافعیؒ کے نزدیک جب دین کی بنیادوں سے متعلق ایسی سنت کے دین ہونے پر صحابہ ؓ کا اتفاق ہو جائے تو اس سنت کے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اس سنت کے منکر سے توبہ کروائی جائے گی۔
امام شافعیؒ فرماتے ہیں:
فإن قال قائل : ھل یفترق معنی قولک حجة ؟ قیل لہ: إن شاء اللہ نعم۔ فإن قال فأبن ذلک؟ قلنا : أما ما کان نص کتاب بین أو سنة مجتمع علیھا فیھا مقطوع و لا یسع الشک فی واحد منھما و من امتنع عن قبولہ استتیب۔ (الرسالۃ : ص۴۶۰)
اگر کوئی کہنے والا یہ کہے: کہ جب آپ کہتے ہیں کہ فلاں چیز حجت ہے‘ تو اس کے معنی میں بھی کوئی فرق ہوتا ہے۔ ایسے شخص سے ان شاء اللہ کہا جائے گا : ہاں۔ پس اگر سائل یہ کہے کہ تم اس فرق کوبیان کرو۔ تو ہم کہیں گے : جوچیز واضح کتاب یاکسی مجمع علیہ سنت کی نص ہو۔ ان کے بارے میں عذرناقابل قبول ہے اور ان دونوں میں سے کسی ایک شیء میں بھی شک کی گنجائش نہیں ہے اور جو ان میں کسی چیز کو قبول کرنے سے رکا رہے گا تو اس سے توبہ کروائی جائے گی۔
امام ابن عبد البرؒ کے مطابق اس اجماع یعنی کسی حکم شرعی کے بطور دین ثابت ہونے پر ہونے والے اجماع کے منکر پر قتل کی حد بھی جاری ہو گی۔امام صاحبؒ لکھتے ہیں:
و أما أصول العلم فالکتاب و السنة‘ و تنقسم السنۃ قسمین أحدھما تنقلہ الکافۃ عن الکافة فھذا من الحجج القاطعة للأعذار إذا لم یوجد ھنالک خلاف و من رد إجماعھم فقد رد نصا من نصوص اللہ یجب استتباتہ علیہ و إراقة دمہ إن لم یتب لخروجہ عما أجمع علیہ المسلمون العدول و سلوکہ غیر سبیل المؤمنین جمعیھم و الضرب الثانی من السنة أخبار الآحاد الثقات الأثبات العدول۔ (جامع بیان العلم و فضلہ: باب معرفۃ أصول العلم و حقیقتہ)
جہاں تک علم کے اصولوں کا معاملہ ہے تو وہ کتاب و سنت ہیں اور سنت کی دو قسمیں ہیں ۔ان میں سے ایک وہ ہے جسے ایک بہت بڑی جماعت دوسری بڑی جماعت سے نقل کرتی ہے۔ جب ان میں اختلاف نہ ہو تو یہ وہ سنن ہیں جو کہ عذر کو ختم کرنے والی ہیں۔ پس جس نے امت کے اجماع کو رد کیا تو اس نے اللہ کی نصوص میں سے ایک نص کا رد کیاہے۔ جو شخص ایسی سنت کا انکار کر دے اس سے توبہ کروانی واجب ہے اور اگر توبہ نہ کرے تو اس کاخون بہانا لازم ہے کیونکہ وہ عادل مسلمانوں کے اجماع سے پھر گیا اور اس نے سبیل المؤمنین کو چھوڑ دیا۔سنت کی دوسری قسم اخبار آحاد ہیں جو کہ ثقہ‘ ثابت اور عادل راویوں سے منقول ہوں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
امام شافعی اور شوافع کے نظریہ اجماع کا مفہوم
امام شافعیؒ اور امام ابن عبد البرؒکے مطابق ’خبر العامہ‘ والی سنت سے مراد دین کے وہ بنیادی اصول و ارکان ہیں کہ جن کا تعلق ضروریات دین سے ہے جیسا کہ نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوۃ‘ حدود و قصاص وغیرہ ہیں۔ ان اہل علم کی اس اجماعی سنت سے مراد کھانے سے پہلے ’بسم اللہ‘ پڑھنا یاچھینک آنے پر ’الحمد للہ‘ کہنا یا نومولود کے دائیں کان میں اذان کہنا نہیں ہے جیسا کہ غامدی صاحب کا خیال ہے۔ کیونکہ دین کا ادنی درجے کا طالب علم بھی یہ جانتاہے کہ علماء کے صحیح قول کے مطابق اس طرح کے جزوی مسائل کے انکار سے نہ تو کسی شخص کا خون مباح ہوتا ہے اور نہ ہی اس سے زبردستی توبہ کروائی جائے گی اور تقریباًتمام شوافع کا اس مسئلے میں یہی موقف ہے۔
الدکتور خالد بن علی بن محمد العنبری ؒ لکھتے ہیں:
و جاحد الحکم المجمع علیہ ‘ إنما یکفر إذا کان معلوما من الدین بالضرورة‘ و أما المجمع الذی لیس معلوما من الدین بالضرورة فلا یکفر بإنکارہ۔۔۔کذا قال السبکی۔۔۔و نحو ذلک قال ابن حجرالھیثمی: قد یکن الشیء متواترا معلوما بالضرورة عند قوم دون غیرھم ‘ فیکفر من تواتر عندہ دون غیرہ‘ أما المجمع علیہ غیر المعلوم بالضرورة کاستحقاق بنت الإبن السدس مع بنت الصلب فلا کفر بإنکارہ عندنا۔‘‘(الحکم بغیر أنزل اللہ و أصول التکفیر: ص۸۷‘ ۸۸‘ دار الفرقان‘ لاہور)
[/B]جو شخص کسی مجمع علیہ مسئلے کا انکار کرنے والا ہو تو اس کی تکفیر اس وقت کی جائے گی جبکہ وہ مسئلہ ضروریات دین میں سے ہو جبکہ وہ مجمع علیہ مسئلہ جو کہ ضروریات دین سے متعلق نہ ہو تو اس کے انکار کرنے والے کی تکفیر نہ کی جائے گی[/B]۔۔۔امام سبکیؒ کاقول بھی اسی طرح کا ہے ۔۔۔اور امام ابن حجر ہیثمیؒ نے بھی اسی طرح کی بات کی ہے۔۔۔کہ وہ مجمع علیہ مسائل کہ جو ضروریات دین سے متعلق نہ ہوں‘ جیسا کہ حقیقی بیٹی کے ساتھ پوتی کو چھٹاحصہ ملے گا‘ تو ان کا انکار ہمارے نزدیک کفر نہیں ہے۔
حقیقی بیٹی کے ساتھ پوتی کو چھٹا حصہ ملے گا‘ یہ سنت سے ثابت بھی ہے اور اس پرصحابہؓ کا اجماع بھی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص یہ کہے کہ وہ مونچھوں کوپست رکھتا ہے‘ زیرناف کے بال مونڈتا ہے‘ بغل کے بال صاف کرتا ہے‘ بڑھے ہوئے ناخن کاٹتا ہے‘ ناک و منہ کی صفائی کرتا ہے لیکن ان میں سے کسی ایک چیز کو دین نہیں مانتا بلکہ اپنے جسم کی صفائی وطہارت کے لیے یہ سب کام کرتا ہے تو کیا ایسے شخص کاخون شوافع کی رائے میں مباح ہو جائے گا ؟ امام شافعیؒ کے ’الرسالۃ‘ میں بیان کردہ موقف کو چھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کہنا کیا چاہتے ہیں؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
خلاصہ کلام

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اہل سنت کے نزدیک دین کے ثبوت و حجت ہونے کے بنیادی ذرائع تین ہیں ۔
  1. ایک قرآن
  2. دوسرا سنت یعنی حدیث
  3. تیسرا اجماع امت۔
غامدی صاحب ان تینو ں ذرائع کو مانتے ہیں لیکن ان کے مسمی میں فرق کرتے ہیں۔غامدی صاحب بھی اس مسئلے میں اہل سنت کے ساتھ ہیں کہ قرآن بنیادی مآخذ دین میں سے ہے
لیکن قرآن سے مراد کیاہے ؟ اس میں غامدی صاحب اور اہل سنت میں اختلاف ہے ۔اہل سنت جمیع متواتر قراء ات کو قرآن کے مسمی میں شامل کرتے ہیں جبکہ غامدی صاحب ان قراء ات کو فتنہ عجم قرار دیتے ہیں۔
اسی طرح اہل سنت جب ’سنت‘ کو مستقل بالذت ماخذقرار دیتے ہیں تو
ان کی مراد آپؐ کے جمیع اقوال ‘ افعال اور تقریرات ہوتی ہیں اور اس سنت سے ان کے نزدیک عقیدہ و عمل سب کچھ ثابت ہوتا ہے جبکہ غامدی صاحب کے نزدیک سنت سے مراد عملی زندگی سے متعلق وہ اعمال و افعال ہیں جن کے دین ہونے پر صحابہؓ کا اجماع ہے اور وہ تاریخی اعتبار سے قرآن سے مقدم ہیں یعنی حضرت ابراہیم ؑ کے زمانے سے چلے آ رہے ہیں جبکہ آپؐ کے افعال ‘ اقوال و تقریرات کو وہ حدیث کا نام دیتے ہیں اور وہ حدیث سے دین میں کسی قسم کے عقیدے و عمل کے اضافے کو نہیں مانتے اور اسے صرف مستقل بالذات دین کا شارح قرار دیتے ہیں یعنی حدیث سے ان کے نزدیک اہل سنت کی طرح مستقل بالذات دین ثابت نہیں ہوتا ہے اگرچہ وہ مستقل بالذت دین کی توضیح و تشریح ضرور کرتی ہے۔
اسی طرح اہل سنت جب یہ کہتے ہیں کہ اجماع‘ حجت ہے
تو ان کی مراد دو طرح کے اجماع ہیں۔ ایک کسی نص کے بطور قرآن یا سنت ثابت ہونے پر ان کا اتفاق ہے اور دوسرا کسی نص یعنی قرآن وسنت کے کسی متن کے مفہوم پر ان کا اجماع ہے۔لیکن غامدی صاحب جس اجماع کو مانتے ہیں وہ کسی شیء کے دین ہونے پر صحابہؓ کا اجماع ہے جہاں تک کسی نص کے فہم پر صحابہؓ کے اتفاق کا معاملہ ہے‘ تو اس اجماع میں ان کے نزدیک غلطی کا امکان ہے۔
پس اہل سنت اور غامدی صاحب کے نزدیک قرآن‘ سنت اور اجماع کے مسمی میں مذکورہ بالا بنیادی و جوہری اختلافات پائے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں ان تینوں مصدر کے منتقل ہونے کے جو بنیادی ذرائع ہیں‘ ان میں بھی اہل سنت اور غامدی صاحب کے درمیان فرق یہ ہے کہ
غامدی صاحب کے نزدیک قرآن و سنت اجماع صحابہؓ سے ثابت ہوتے ہیں اور اجماع ہی کے ذریعے منتقل بھی ہوتے ہیں جبکہ اہل سنت کے نزدیک قرآن وسنت صحابہؓ کی طرف سے اللہ کے رسولﷺ کی طرف منسوب قطعی و ظنی خبر سے ثابت ہوتے ہیں جو بعض اوقات المحتف بالقرائن کے قبیل سے ہوتی ہے اور بعض اوقات المتلقی بالقبول ہوتی ہیں اور بعض اوقات مجرد خبر واحد ہوتی ہے اور بعض اوقات اس خبر کے ثبوت پر امت کا اجماع بھی ہوتا ہے اوربعض اوقات اس خبر کے مشمولات کے دین ہونے یا اس سے اخذ شدہ کسی مفہوم پر امت کا اتفاق ہوتا ہے ۔
پس دین اسلام کی منتقل و حجت ہونے کا اصل و واحد ذریعہ خبر ہے۔ قرآن وسنت کی بیسیوں نصوص میں ہر دور میں اللہ کے نبیﷺ کی طرف سے پہنچائی گئی اس خبرمیں دین اسلام کو تلاش کرنے کا حکم دیا گیا ہے جس کا اتصال آپؐ تک ثابت ہو‘ چاہے وہ خبر قطعی ہو یا ظنی۔
نوٹ : یہاں اس کتاب کا پہلا باب ختم ہوا جو اہل سنت اور غامدی صاحب کے مصادر دین قرآن، سنت اور اجماع کے مفہوم کے تقابلی مطالعہ اور ان کے نسل در نسل نقل ہونے کے ذرائع کے تقابلی مطالعہ پر مشتمل تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭​
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
فصل اوّل:
قراء اتِ متواترہ اور اہلِ سنت کا موقف

قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور شریعت اسلامیہ میں اصل الاصول کی حیثیت رکھتا ہے۔تاریخ اسلامی کے ہر دورمیں فقہاء و علماء نے استنباطِ احکام کے لیے اسے اپنا اوّلین مرجع و مصدر بنایا۔اس کی بہت سی خصوصیات ہیں ‘ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ اللہ کے رسول ﷺ پر ایک سے زائد قراء ات کے ساتھ نازل ہوا اور پھر اِن قراءات کے ساتھ اُمت میں مروی ہے۔ان میں سے بعض قراء ات ایسی ہیں جو آج بھی بعض ممالک اسلامیہ میں عوام الناس کی سطح پر رائج ہیں‘ مثلاً روایتِ حفص ‘روایتِ قالو ن‘روایتِ ورش اور روایتِ دَوری۔جبکہ بعض قراء ات ایسی ہیں جو اُمت کے خواص میں نقل در نقل چلی آرہی ہیں اور اُمت کے فقہاء ‘علماء ‘مفسرین ‘محدثین ‘مجتہدین اور قراء کاان قراء ات کے قرآن ہونے پر اتفاق ہے۔
علمائے اُمت نے قراء ات کی دو قسمیں بیان کی ہیں :
1۔قراء ات متواترہ : یہ وہ قراء ات ہیں جن میں درج ذیل تین شرائط پائی جائیں :
ا ) جو رسول اللہﷺ سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہو اور ائمۂ قراء کے ہاں مشہور ہو۔
ب) جو مصاحف عثمانیہ کے رسم الخط کے مطابق ہو۔
ج) جولغات عرب میں سے کسی لغت کے مطابق ہو۔
2۔قراء ات شاذہ : اگر کسی قراء ت میں ان تین شرائط میں سے کوئی شرط مفقود ہو تو اسے قراء تِ شاذہ کہتے ہیں ۔
قرآن سے احکام مستنبط کرتے ہوئے قرآن کی قراء اتِ متواترہ کو دلیل بنانے پر مذاہبِ اربعہ کے جمیع فقہاء کا اتفاق ہے‘ لیکن قراء ات شاذہ کے بارے میں اختلاف ہے۔
احناف اور حنابلہ کا موقف یہ ہے کہ قراء اتِ شاذہ کی اگر سند صحیح ہو تو وہ بطورِ حدیث حجت ہیں‘ جبکہ مالکیہ اور شوافع کا نقطہ نظر یہ ہے کہ قراء اتِ شاذہ حجت نہیں ہیں ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
فصل دوم:
قراء اتِ متواترہ کے بارے میں غامدی صاحب کا نقطۂ نظر

غامدی صاحب نے اپنی کتاب ’میزان‘ میں قراء ات متواترہ پر مختلف اعتراضات وارد کرتے ہوئے ان کا انکار کیا ہے ۔غامدی صاحب کے نزدیک قرآن کی متواتر قراء ات فتنۂ عجم کے باقیات میں سے ہیں۔ان کے نزدیک قرآن کی صرف ایک ہی قراء ت ہے جسے وہ ’قراء تِ عامہ‘کہتے ہیں۔یہ وہ قراء ت ہے جو کہ مشرق کے اکثرو بیشتر ممالک میں ’روایت حفص‘کے نام سے رائج ہے۔ غامدی صاحب لکھتے ہیں :
’’لہٰذا یہ بالکل قطعی ہے کہ قرآن کی ایک ہی قرأت ہے جو ہمارے مصاحف میں ثبت ہے۔اس کے علاوہ اس کی جو قرا ٔ تیں تفسیروں میں لکھی ہوئی ہیں یا مدرسوں میں پڑھی اور پڑھائی جاتی ہیںیا بعض علاقوں میں لوگوں نے اختیار کر رکھی ہیں ‘وہ سب اس فتنہ عجم کے باقیات ہیں جس کے اثرات سے ہمارے علوم کا کوئی شعبہ ‘افسوس ہے کہ محفوظ نہیں رہ سکا‘‘۔(۱)
غامدی صاحب مراکش‘ تیونس‘ لیبیا‘ سوڈان‘ یمن‘ موریطانیہ‘ الجزائر‘ صومالیہ اور افریقہ کے اکثر و بیشر ممالک میں رائج قراء ات کو قرآن نہیں مانتے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں :
’’قرآن وہی ہے جو مصحف میں ثبت ہے اور جسے مغرب کے چند علاقوں کو چھوڑ کر پوری دنیا میں امت مسلمہ کی عظیم اکثریت اس وقت تلاوت کر رہی ہے ۔ یہ تلاوت جس قرأت کے مطابق کی جاتی ہے ‘اس کے سوا کوئی دوسری قرأت نہ قرآن ہے اور نہ اسے قرآن کی حیثیت سے پیش کیا جا سکتا ہے‘‘۔(۲)
غامدی صاحب نے قراء ات متواترہ کے بارے میں صحاح ستہ میں موجود’’سبعۃ أحرف‘‘ کی متواتر روایات کا انکار کیا ہے ۔
غامدی صاحب حضرت ہشام بن حکیم اور حضرت عمرکی روایت پر اعتراضات کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اول یہ کہ یہ روایت اگرچہ حدیث کی امہات کتب میں بیان ہوئی ہے ‘لیکن اس کا مفہوم ایک ایسا معما ہے جسے کوئی شخص اس امت کی پوری تاریخ میں کبھی حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔امام سیوطی نے اس کی تعیین میں چالیس کے قریب اقوال اپنی کتاب ’’الاتقان ‘‘ میں نقل کیے ہیں ‘پھر ان میں سے ہر ایک کی کمزوری کا احساس کر کے موطأ کی شرح ’’تنویر الحوالک ‘‘میں بالآخر یہ اعتراف کر لیا ہے کہ اسے من جملہ متشابہات ماننا چاہیے جن کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا…یہی معاملہ ان روایتوں کا بھی ہے جو سیدنا صدیق اور ان کے بعد سیدنا عثمان کے دور میں قرآن کی جمع و تدوین سے متعلق حدیث کی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں ۔قرآن ‘جیسا کہ اس بحث کی ابتدا میں بیان ہوا‘اس معاملے میں بالکل صریح ہے کہ وہ براہِ راست اللہ کی ہدایت کے مطابق اور رسول اللہ ﷺ کے حین حیات میں مرتب ہوا‘ لیکن یہ روایتیں اس کے بر خلاف ایک دوسری ہی داستان سناتی ہیں جسے نہ قرآن قبول کرتا ہے اور نہ عقل عام ہی کسی طرح ماننے کے لیے تیار ہو سکتی ہے ۔صحاح میں یہ اصلاً ابن شہاب زہری کی وساطت سے آئی ہیں ۔ائمہ رجال انہیں تدلیس اور ادراج کا مرتکب تو قرار دیتے ہی ہیں‘اس کے ساتھ اگر وہ خصائص بھی پیش نظر رہیں جو امام لیث بن سعد نے امام مالک کے نام اپنے ایک خط میں بیان فرمائے ہیں تو ان کی کوئی روایت بھی‘ بالخصوص اس طرح کے اہم معاملات میں قابل قبول نہیں ہو سکتی‘‘۔(۳)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
فصل سوم:
غامدی صاحب کے نقطہ نظر کی غلطی

ہم ذیل میں غامدی صاحب کے ان اعتراضات اور ان کے جوابات کو علی الترتیب ذکر کریں گے :
1۔غامدی صاحب کی عربی دانی
غامدی صاحب قراء ات متواترہ پر تنقید کا شوق پورا فرما رہے ہیں اور کیفیت یہ ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب’میزان‘میں ص ۲۵ سے لے کر ۳۳ تک ’قرأت کے اختلاف‘کے عنوان سے قراء ات متواترہ پر بحث کی ہے اور ’قرأت‘ کا لفظ اپنی اس بحث میں تقریباً ۳۴ دفعہ لے کر آئے ہیں اور ہر دفعہ انھوں نے اس لفظ کو ’قرأت‘ ہی لکھا ہے‘گویا انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ لفظ’قرأت‘ نہیں بلکہ ’قراء ت‘ہوتا ہے جس کی جمع ’ قراء ات ‘ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
2۔غامدی صاحب حفاظت قرآن کے قائل نہیں ہیں
غامدی صاحب تو حفاظت قرآن کے بھی قائل نہیں ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :
’’لہٰذا یہ بالکل قطعی ہے کہ قرآن کی ایک ہی قرأت ہے جو ہمارے مصاحف میں ثبت ہے۔اس کے علاوہ اس کی جو قرأتیں تفسیروں میں لکھی ہوئی ہیں یا مدرسوں میں پڑھی اور پڑھائی جاتی ہیںیا بعض علاقوں میں لوگوں نے اختیار کر رکھی ہیں ‘وہ سب اس فتنۂ عجم کے باقیات ہیں‘‘۔(۴)
گویا غامدی صاحب قرآن کو محفوظ نہیں سمجھتے۔ اگر قرآن مجید محفوظ ہے تو پھر یہ’ قرا ء ات‘امت میں بطور قرآن کیسے رائج و معروف ہو گئیں؟
٭۔امام المفسرین ابن جریر طبری ؒسے لے کر علامہ آلوسیؒ تک ہر مفسر نے اپنی تفسیر میں ان قراء ات کا تذکرہ کیا ہے اور ان کے ذریعے آیات قرآنیہ کی تفسیر و تأویل میں مدد لی ہے۔
٭۔یہ قراء ات مشرق سے لے کر مغرب تک تقریباً تمام اسلامی ممالک کی عالمی شہر ت کی حامل جامعات مثلاً جامعہ ازہر‘جامعہ کویت اور مدینہ یونیورسٹی وغیرہ کے نصاب میں شامل‘ ہیں۔
٭۔بریلوی ہوں یا اہل حدیث ‘دیوبندی ہوں یااہل تشیع‘تقریباًتمام مکاتب فکر کے بڑے بڑے مدارس میں یہ قراء ات سبقاً سبقاً پڑھائی جاتی ہیں۔
٭۔اُمتِ مسلمہ کی ایک بہت بڑی تعداد غامدی صاحب کی ’قرأت عامہ‘کے مطابق قرآن نہیں پڑھتی مثلاً لیبیا ‘تیونس اور الجزائر کے بعض علاقوں میں روایت ’قالون‘پڑھی جاتی ہے۔سوڈان‘ صومالیہ اور یمن( حضر موت) کے علاقے میں روایت’دوری‘ میں قرآن پڑھا جاتا ہے۔ اسی طرح موریطانیہ‘ الجزائر کے اکثر وبیشتر علاقوں‘مراکش اوربر اعظم افریقہ کے اکثر ممالک میں روایت’ورش‘ رائج ہے۔بلکہ واضح رہے کہ اکیلی روایت ’’ورش‘‘ دنیا کے تقریباً چالیس ممالک میں رائج ہے۔ ہمارا غامدی صاحب سے سوال ہے کہ :
کیا ہمارے تمام مفسرین قرآن سے جاہل تھے ؟
کیا اللہ تعالیٰ نے’ فتنہ عجم‘ کوامت مسلمہ میں اتنا عام کر دیا کہ کیا خواص اور کیا عوام‘ سب ہی اسے چودہ صدیوں سے قرآن سمجھ کر پڑھ رہے ہیں؟
کیا ان مذکورہ بالا تمام ممالک میں رہنے والے کروڑوںمسلمان اپنی نمازوں میں قرآن کی بجائے ’فتنہ عجم ‘ کی تلاوت کرتے ہیں ؟
کیا غامدی صاحب مراکش‘ لیبا‘ تیونس‘ الجزائر‘ موریطانیہ‘ سوڈان‘ صومالیہ‘ یمن‘ مغربی ممالک اور براعظم افریقہ کے کروڑوں مسلمانوں کو امت مسلمہ میں شامل نہیں سمجھتے ؟
کیا عالم عرب و عجم کے تمام معروف قراء کی مختلف’ قراء ات‘میں آڈیو اور ویڈیوکیسٹس ’مشرق‘ میں عام نہیں ہیں ؟
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امت مسلمہ میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی روایت‘ روایت حفص ہے‘ لیکن اُمت کی ایک معتد بہ تعداد میں روایت قالون‘ ورش اور دوری بھی رائج ہے۔ اور ان ’قراء ات‘ کا امت مسلمہ میں رائج ہونا ہی ان کے قرآن ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے‘
کیونکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ‘‘ (الحجر)
’’بے شک ہم نے ہی قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں‘‘۔
جب اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے تو ایک ایسی چیز جو قرآن نہیں ہے‘ وہ اُمت مسلمہ میں بطور قرآن کیسے رائج ہو سکتی ہے؟ غامدی صاحب کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ جس طرح وہ صرف اسی قراء ت کے قائل ہیں جو مشرق کے عوام الناس میں رائج ہے اور مغرب میں پڑھی جانے والی قراء ات کے انکاری ہیں اسی طرح مغرب میں بھی بعض ایسے لوگ موجود ہیں جو صرف اسی قراء ت کو حق سمجھتے ہیں جو کہ ان کے علاقوں میں پڑھی جاتی ہے اور غامدی صاحب کی’قرأت عامہ‘ان کے نزدیک قرآن نہیں ہے‘بلکہ وہ اپنے ہاں رائج قراء ت کو ہی ’قرأت عامۃ‘ کہتے ہیں ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
3-غامدی صاحب کی ’’قرأت عامہ ‘‘اور اُمت مسلمہ کے مصاحف
غامدی صاحب کے نزدیک قرآن کی صرف ایک ہی قراء ت ہے جو کہ مصاحف میں ثبت ہے۔
غامدی صاحب لکھتے ہیں :
’’لہٰذا یہ بالکل قطعی ہے کہ قرآن کی ایک ہی قرأت ہے جو ہمارے مصاحف میں ثبت ہے‘‘۔(۵)
’ہمارے مصاحف‘ سے غامدی صاحب کی کیا مراد ہے؟ ’المورد‘ کے تصدیق شدہ مصاحف یا امت مسلمہ کے مصاحف؟ اگر تو ان کی مراد’ المورد‘ کے مصاحف ہیں تو پھر تو ہم بھی مانتے ہیں کہ قرآن کی ایک ہی قراء ت ہے‘ لیکن اگر ان کی مراد امت مسلمہ کے مصاحف ہیں تو وہ جس طرح روایت حفص میں ہمارے ممالک میں موجود ہیں اسی طرح روایت قالون‘ روایت ورش‘ روایت دوری کے مطابق یہ مصاحف لاکھوں کی تعداد میں متعلقہ ممالک میں باقاعدہ ان ممالک کی حکومتوں کی زیر نگرانی ایسے ہی شائع کیے جاتے ہیں جیسے کہ غامدی صاحب کا ’قرأت عامۃ ‘ کا مصحف۔ اب تو ’ مجمع الملک الفھد ‘ نے بھی لاکھوں کی تعداد میں روایتِ دوری‘ قالون اور ورش کے مطابق مصاحف کومتعلقہ ممالک کے مسلمانوں کے لیے شائع کیا ہے۔ مختلف قراء ات کے رسم الخط کے مطابق یہ طبع شدہ مصاحف ہمارے پاس بھی موجود ہیں۔
لہٰذا ثابت یہ ہوا کہ جو مصاحف اُمت مسلمہ میں رائج ہیں وہ ایک سے زائدقراء ات پر مشتمل ہیں اور غامدی صاحب کا یہ دعویٰ بے بنیاد ہے کہ ہمارے مصاحف میں ایک ہی قرا ء ت ثبت ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
4-غامدی صاحب کی ’’قرأتِ عامہ‘‘ اور اُمت مسلمہ کی روایت حفص
قراء اتِ قرآنیہ کے نقل کرنے میں دس امام ایسے ہیں جنہیں بہت شہرت حاصل ہوئی اور مابعد کے زمانوں میں یہ قراء ات انہی ائمہ کے ناموں سے معروف ہو گئیں۔ ان ائمہ کے نام درج ذیل ہیں :
امام نافع ؒ (متوفی۱۶۹ھ)‘ امام ابن کثیر مکیؒ (متوفی۱۲۰ھ)‘ امام ابو عمرو بصری ؒ (متوفی۱۵۴ھ)‘ امام ابن عامر شامیؒ(متوفی۱۱۸ھ) ‘ امام عاصمؒ (متوفی۱۲۷ھ)‘ امام حمزہ ؒ(متوفی۱۸۸ھ)‘ امام کسائی ؒ(متوفی۱۸۹ھ)‘ امام ابو جعفرؒ (متوفی۱۳۰ھ)‘ امام یعقوبؒ (متوفی۲۲۵ھ)‘ امام خلفؒ (متوفی۲۰۵ھ)۔
ان ائمہ کی قراء ات ’قراء ات عشرۃ‘ کہلاتی ہیں۔ ان ائمہ سے ان قراء ات کو نقل کرنے والے ان کے سینکڑوں شاگرد ہیں لیکن ہر اما م کی قرا ء ت بعدازاں اس کے دو شاگردوں سے معروف ہوئی۔ ان شاگردوں کی اپنے امام سے نقل ِقراء ت قرآن کی ’روایت‘ کہلاتی ہے۔ پس ہر امام کے دو شاگردوں کے اعتبار سے قرآن کی کل بیس روایات ہوئیں۔ ان بیس روایات میں سے چار روایات ایسی ہیں جو اُمت مسلمہ کے مختلف علاقوں میں عوامی سطح پررائج ہیں‘ جن کا ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں‘ جبکہ باقی سولہ روایات قراء کی ایک بہت بڑی تعداد سے نقل در نقل چلی آ رہی ہیں اور ان تمام قراء ات کی اللہ کے رسول ﷺ تک باقاعدہ اسناد موجودہیں۔
غامدی صاحب ان بیس کی بیس روایات قرآنیہ کے منکر ہیں اور انھیں فتنہ عجم قرار دیتے ہیں‘ لیکن ان بیس روایات میں سے ایک روایت’روایتِ حفص‘ ہے اور ’’حفص‘‘ اما م عاصم کے شاگرد ہیں۔ کیا ہی عجب اور حسنِ اتفاق ہے کہ’روایتِ حفص‘لفظ بلفظ وہی ہے جسے غامدی صاحب ’قرأت عامہ‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور اسے قرآن کہتے ہیں۔
اب غامدی صاحب اگر اس روایت کا انکار کریں تو اپنی ہی ’قرأت عامہ‘کے بھی انکاری ہوں گے اور اگر وہ اس روایت حفص کو مان لیں تو باقی انیس روایات و ماننے سے انکار کیوں ؟
اگر ’قرأتِ عامہ‘سے غامدی صاحب کی مراد عوام الناس کی قراء ت ہے تو روایت حفص‘ روایت ورش‘ روایت قالون اور روایت دوری بھی تو عوام الناس ہی کی قراء ات ہیں‘ ان کو ماننے سے غامدی صاحب کیونکر انکار کر سکتے ہیں؟
غامدی صاحب کے نزدیک قرآن اجماع و قولی تواتر سے ثابت ہوتا ہے‘ جبکہ قرآن کی مندرجہ بالا روایات اربعہ بلکہ عشرہ اجماع و قولی تواتر دونوں سے ثابت ہیں۔لیکن اس کے باوجود غامدی صاحب ان روایات کو قرآن ماننے سے انکاری ہیں۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top