کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
ثبوت دین پر اجماع
ہم یہ بات ذکر کر چکے ہیں کہ بعض اوقات اجماع اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ فلاں شیء بطور دین ثابت ہے جیسا کہ نمازوں کی تعداد کے پانچ ہونے پر امت کا اجماع ہے۔ اجماع کی اس قسم کا تذکرہ اصول فقہ کی کتابوں میں کثرت سے ملتاہے۔ امام شافعیؒ نے ’الرسالۃ‘ میں اجماع کی اسی قسم کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ امام شافعیؒ کے نزدیک سنت کی تدوین سے پہلے جو سنت صحابہؓ کی ’خبر العامہ‘ سے نقل ہو رہی تھی وہ دین کے انہی بنیادی اصولوں پر مشتمل تھی کہ جن کے دین ہونے پر صحابہؓ کا علمی اتفاق بھی تھا۔ امام شافعیؒ کے نزدیک جب دین کی بنیادوں سے متعلق ایسی سنت کے دین ہونے پر صحابہ ؓ کا اتفاق ہو جائے تو اس سنت کے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اس سنت کے منکر سے توبہ کروائی جائے گی۔
امام شافعیؒ فرماتے ہیں:
ہم یہ بات ذکر کر چکے ہیں کہ بعض اوقات اجماع اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ فلاں شیء بطور دین ثابت ہے جیسا کہ نمازوں کی تعداد کے پانچ ہونے پر امت کا اجماع ہے۔ اجماع کی اس قسم کا تذکرہ اصول فقہ کی کتابوں میں کثرت سے ملتاہے۔ امام شافعیؒ نے ’الرسالۃ‘ میں اجماع کی اسی قسم کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ امام شافعیؒ کے نزدیک سنت کی تدوین سے پہلے جو سنت صحابہؓ کی ’خبر العامہ‘ سے نقل ہو رہی تھی وہ دین کے انہی بنیادی اصولوں پر مشتمل تھی کہ جن کے دین ہونے پر صحابہؓ کا علمی اتفاق بھی تھا۔ امام شافعیؒ کے نزدیک جب دین کی بنیادوں سے متعلق ایسی سنت کے دین ہونے پر صحابہ ؓ کا اتفاق ہو جائے تو اس سنت کے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اس سنت کے منکر سے توبہ کروائی جائے گی۔
امام شافعیؒ فرماتے ہیں:
امام ابن عبد البرؒ کے مطابق اس اجماع یعنی کسی حکم شرعی کے بطور دین ثابت ہونے پر ہونے والے اجماع کے منکر پر قتل کی حد بھی جاری ہو گی۔امام صاحبؒ لکھتے ہیں:فإن قال قائل : ھل یفترق معنی قولک حجة ؟ قیل لہ: إن شاء اللہ نعم۔ فإن قال فأبن ذلک؟ قلنا : أما ما کان نص کتاب بین أو سنة مجتمع علیھا فیھا مقطوع و لا یسع الشک فی واحد منھما و من امتنع عن قبولہ استتیب۔ (الرسالۃ : ص۴۶۰)
اگر کوئی کہنے والا یہ کہے: کہ جب آپ کہتے ہیں کہ فلاں چیز حجت ہے‘ تو اس کے معنی میں بھی کوئی فرق ہوتا ہے۔ ایسے شخص سے ان شاء اللہ کہا جائے گا : ہاں۔ پس اگر سائل یہ کہے کہ تم اس فرق کوبیان کرو۔ تو ہم کہیں گے : جوچیز واضح کتاب یاکسی مجمع علیہ سنت کی نص ہو۔ ان کے بارے میں عذرناقابل قبول ہے اور ان دونوں میں سے کسی ایک شیء میں بھی شک کی گنجائش نہیں ہے اور جو ان میں کسی چیز کو قبول کرنے سے رکا رہے گا تو اس سے توبہ کروائی جائے گی۔
و أما أصول العلم فالکتاب و السنة‘ و تنقسم السنۃ قسمین أحدھما تنقلہ الکافۃ عن الکافة فھذا من الحجج القاطعة للأعذار إذا لم یوجد ھنالک خلاف و من رد إجماعھم فقد رد نصا من نصوص اللہ یجب استتباتہ علیہ و إراقة دمہ إن لم یتب لخروجہ عما أجمع علیہ المسلمون العدول و سلوکہ غیر سبیل المؤمنین جمعیھم و الضرب الثانی من السنة أخبار الآحاد الثقات الأثبات العدول۔ (جامع بیان العلم و فضلہ: باب معرفۃ أصول العلم و حقیقتہ)
جہاں تک علم کے اصولوں کا معاملہ ہے تو وہ کتاب و سنت ہیں اور سنت کی دو قسمیں ہیں ۔ان میں سے ایک وہ ہے جسے ایک بہت بڑی جماعت دوسری بڑی جماعت سے نقل کرتی ہے۔ جب ان میں اختلاف نہ ہو تو یہ وہ سنن ہیں جو کہ عذر کو ختم کرنے والی ہیں۔ پس جس نے امت کے اجماع کو رد کیا تو اس نے اللہ کی نصوص میں سے ایک نص کا رد کیاہے۔ جو شخص ایسی سنت کا انکار کر دے اس سے توبہ کروانی واجب ہے اور اگر توبہ نہ کرے تو اس کاخون بہانا لازم ہے کیونکہ وہ عادل مسلمانوں کے اجماع سے پھر گیا اور اس نے سبیل المؤمنین کو چھوڑ دیا۔سنت کی دوسری قسم اخبار آحاد ہیں جو کہ ثقہ‘ ثابت اور عادل راویوں سے منقول ہوں۔