نوید عثمان
رکن
- شمولیت
- جنوری 24، 2012
- پیغامات
- 181
- ری ایکشن اسکور
- 121
- پوائنٹ
- 53
ظلم کی لغوی تعریف کیا ہے؟اس دعوے کی دلیل پیش کیجئے۔۔۔
ظلم کی لغوی تعریف کیا ہے؟اس دعوے کی دلیل پیش کیجئے۔۔۔
اس میں توہین والی کونسی بات ہے۔؟اور اس بات کی دلیل بھی:
اور سیدنا معاویہؓ کا تذکرہ توہین آمیز انداز سے کرنے کی بھی
کیا صرف حضرت معاویہ پر اعتراض توہین کے ذمرے میں آتا ہے ؟ حضرت علی رض کے بارے میں جس کے منہ میں جو آئے کہ دے ؟اعتراض بھی توہین ہی ہے۔۔۔
اس ہی لئے میں نے لفظ اس کو نظر انداز کردیا۔۔۔
میں چاہ رہا تھا کے موصوف ذرا دلیل پیش کریں۔۔۔
تو ہم بھی آستین اونچی کریں۔۔۔
ہم نے ایسی ناخلق زبان کب استعمال کی محترم جو آپ اپنا نزلہ ہم پر گرا رہے ہیں۔۔۔کیا صرف حضرت معاویہ پر اعتراض توہین کے ذمرے میں آتا ہے ؟ حضرت علی رض کے بارے میں جس کے منہ میں جو آئے کہ دے ؟
صفی الرحمن المباركپوری اپنی کتاب الرحیق المختوم بارہ ایسے صحابہ کو جو غزوہ تبوک میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمرا ہ تھے منافق کہا ہے آپ لکھتے ہیںامام بخاری فرماتے ہیں-
ما أبالي صليت خلف الجهمي والرافض أم صليت خلف اليهود والنصارى ولا يسلم عليهم ولا يعادون ولا يناكحون ولا يشهدون ولا تؤكل ذبائحهم
میں کسی جہمی یا رافضی یا عیسائ یا یہودی کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئ فرق نہیں پاتا۔ ان کو نہ ہی سلام کرنا چاہئیے ، نہ ہی ان سے ملنا چاہئیے ، نہ ہی ان سے نکاح کرنا چاہئیے ، نہ ان کی شہادت قابل قبول ہے اور نہ ہی ان کا زبیحہ کھایا جائے۔
من شتم أحداً من أصحاب محمد أبا بكر أو عمر أو عثمان أو معاوية أو عمرو ابن العاص، فإن قال كانوا على ضلال وكفر قتلخلق افعال العباد ، ص 13
حضرت امام مالک نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی کو بھی مثلا حضرت ابوبکر کو یا حضرت عمر کو اوریا حضرت عثمان یا حضرت معاویہ یا حضرت عمرو بن عاص کو برا کہنے والے کے بارہ میں حکم بیان کرتے ہوئے یوں فرمایا ہے کہ اگروہ شخص یہ کہے کہ وہ (صحابہ )گمراہ تھے یا کافر تھے تو اس شخص کو قتل کیا جائے-
نیز امام احمد سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جس شخص نے نبی کریم ﴿ص﴾ کے صحابی کو گالی دی ﴿﴿قد مَرَقَ عن الدِّين﴾﴾ تو وہ دین سے نکل گیا۔
السنہ للخلال ج 3ص 493
یہ یاد رہے کہ منافقین پہلے ہی بہانہ بنا کر اس جنگ میں جانے سے گریز کرچکے تھے اور کچھ راستے سے واپس آگئے تھےاسلامی لشکر تبوک سے مظفر و منصور واپس آیا ۔ کوئی ٹکر نہ ہوئی ۔ اللہ جنگ کے معاملے میں مومنین کے لیے کافی ہوا ۔ البتہ راستے میں ایک جگہ ایک گھاٹی کے پاس بارہ منافقین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی کوشش کی ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس گھاٹی سے گزر رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف حضرت عمار رضی اللہ عنہ تھے جو اونٹنی کی نکیل تھامے ہوئے تھے اور حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ تھے جو اونٹنی ہانک رہے تھے ۔ باقی صحابہ کرام دور وادی کے نشیب سے گزر ہے تھے اس لیے منافقین نے اس موقع کو اپنے ناپاک مقصد کے لیے غنیمت سمجھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف قدم بڑھایا ۔ ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ساتھی حسب معمول راستہ طے کررہے تھے کہ پیچھے سے ان منافقین کے قدموں کی چاپیں سنائی دیں ۔ یہ سب چہروں پہ ڈھاٹا باندھے ہوئے تھے اور اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تقریباً چڑھ ہی آئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو ان کی جانب بھیجا ۔ انہوں نے ان کی سواریوں کے چہروں پر اپنی ایک ڈھال سے ضرب لگانی شروع کی ، جس سے اللہ نے انہیں مرعوب کردیا اور وہ تیزی سے بھاگ کر لوگوں میں جا ملے ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نام بتائے اور ان کے ارادے سے باخبر کیا اسی لیے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا '' رازدان '' کہا جاتا ہے ۔ اسی واقعہ سے متعلق اللہ کا یہ ارشاد نازل ہوا کہ '' وَھَمُّوْا بِمَا لَم یَنَالُوْا (9: 74) انہوں نے اس کام کا قصد کیا جسے وہ نہ پا سکے ''۔
الرحیق المختوم صفحۃ 578 تاليف: صفي الرحمن المباركفوري
http://www.kitabosunnat.com/kutub-library/article/urdu-islami-kutub/siar-o-sawanih/153-سیرت-رسول-مقبول-صلی-اللہ-علیہ-وسلم/565-alraheeq-ul-makhtoom.html
کیا آپ عین وردۃ کا معرکہ جیسے جنگ توابین بھی کہا جاتا ہے بھول گئے جس میں صحابی رسول حضرت سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ نے قصاص امام حسین علیہ السلام کے لئے جنگ کیاگریزید اس لئے قصوروار ہے کہ اس نے خون حسین رضی اللہ عنہ کا قصاص نہیں لیا تو پوری امت بھی قصوروارہے کہ ان میں کسی ایک نے بھی اس قصاص کا نہ تو مطالبہ کیا اورنہ ہی اس کے سبب کسی بھی قسم کا احتجاج کیا ہے، اورنہ ہی اس کی وجہ سے کہیں بھی یزید کی بیعت توڑی گئی۔
آپ کے اس صرف نے مجھ لکھنے پر مجبور کردیا کہ آپ تو حدیث سکشن کے ناظم ہیں پھر بھی اس طرح کی باتیں کرتے ہیں کیا آپ کو نہیں معلوم کہ یزید لعنتی نے اہل مدینہ کے ساتھ کیا سلوک کیا اور اس عمل بد کے بارے میں رسول اللہ کا ارشاد کیا ہےیزید رحمہ اللہ نے تو صرف مکہ ومدینہ کے چند لوگوں کے خلاف کاروائی کی جبکہ علی رضی اللہ عنہ نے تو مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت کے خلاف کاروائی کی یہ سب کیا ہے؟؟؟؟؟؟
تمام محدثین و آئمہ کے نزدیک صحابی رسول اس انسان کو کہا جاتا ہے- جو الله اور اس کے رسول صل اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاے آپ کی صحبت اختیار کی اور ایمان کی حالت میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے - اس میں شک نہیں کہ وہ انسان تھے اور ان سے خطا ء ممکن تھی لیکن وہ اپنی خطا ء پر قائم و دائم نہیں رہتے تھے - یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ان پاک ہستیوں کا ذکر اس انداز میں کیا ہے -صفی الرحمن المباركپوری اپنی کتاب الرحیق المختوم بارہ ایسے صحابہ کو جو غزوہ تبوک میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمرا ہ تھے منافق کہا ہے آپ لکھتے ہیں
یہ یاد رہے کہ منافقین پہلے ہی بہانہ بنا کر اس جنگ میں جانے سے گریز کرچکے تھے اور کچھ راستے سے واپس آگئے تھے
کیا امام بخاری امام احمد اور امام مالک کے یہ فتوے صفی الرحمن المباركپوری پر کارگر ہونگے جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ غزوہ تبوک میں شریک ان بارہ صحابہ کو منافق بتا رہیں ہیں ؟؟؟؟
صحابہ کی تعریف آپ کے الفاظ میں
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَٰكِنْ لَا يَعْلَمُونَ سوره البقرہ ١٣
اور جب انہیں (منافقین) کو کہا جاتا ہے کہ ایمان لاؤ جس طرح لوگ ایمان لائے ہیں (یعنی صحابہ کرام ) تو کہتے ہیں کیا ہم ایمان لائیں جس طرح بے وقوف ایمان لائے ہیں خبردار وہی بے وقوف ہیں لیکن نہیں جانتے -
یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّہَ وَ کُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ سوره التوبه ١١٩
اے اِیمان لانے والو اللہ (کے ذاب اور ناراضگی) سے بچو اور سچے (عقیدے اور عمل والے ) لوگوں (صحابہ کرام ) کے ساتھ رہو-
وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ المُہَاجِرِینَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِینَ اتَّبَعُوہُم بِإِحسَانٍ رَّضِیَ اللّہُ عَنہُم وَرَضُوا عَنہُ وَأَعَدَّ لَہُم جَنَّاتٍ تَجرِی تَحتَہَا الأَنہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا أَبَداً ذَلِکَ الفَوزُالعَظِیم سوره التوبہ ١٠٠
اور مہاجرین اور انصار میں سے سب سے پہلے ایمان قبول کرنے والوں اور احسان کے ساتھ اُن (صحابہ ) کے نقش قدم پر چلنے والوں پر اللہ راضی ہے اور اُن سب کے لیے اللہ نے ایسے باغات تیار کر رکھے ہیں جِن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں اور وہ سب اُن باغات میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے یہ عظیم کامیابی ہے-
وَمَن یُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الہُدَی وَیَتَّبِع غَیرَ سَبِیلِ المُؤمِنِینَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلَّی وَنُصلِہِ جَہَنَّمَ وَسَاء ت مَصِیراً سوره النسا ء ١١٥
اور جو کوئی ہدایت واضح ہو جانے کے بعد رسول (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ) کو الگ کرے گا اور المومنین (صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین) کے راستے کے علاوہ کسی اور راہ پر چلے گا تو ہم یقینا اسے اُسی طرف چلائیں گے جس طرف وہ چلا ہے اور یقینا اُسے جہنم میں داخل کریں گے اور (ایسا کرنے والے کا یہ)راستہ بہت ہی بُرا ہے
إِنَّمَا کَانَ قَولَ المُؤمِنِینَ إِذَا دُعُوا إِلَی اللَّہِ وَرَسُولِہِ لِیَحکُمَ بَینَہُم أَن یَقُولُواسَمِعنَا وَأَطَعنَا وَأُولَئِکَ ہُمُ المُفلِحُونَ
اِیمان والوں کو جب اللہ اور اُس کے رسول (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم)کی طرف بلایا جاتا ہے کہ وہ رسول (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) اُن لوگوں کے درمیان فیصلہ فرمائیں تو یہ اِیمان والے (صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین) کہتے ہیں ہم نے سُنا اور تابع فرمانی کی اور یہ (ہی) لوگ کامیابی پانے والے ہیںo
مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا سوره الفتح
محمد الله کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں کفار پر سخت ہیں آپس میں رحم دل ہیں تو انہیں دیکھے گا کہ رکوع و سجود کر رہے ہیں الله کا فضل اوراس کی خوشنودی تلاش کرتے ہیں ان کی شناخت ان کے چہرو ں میں سجدہ کا نشان ہے یہی وصف ان کا تو رات میں ہے اور انجیل میں ان کا وصف ہے مثل اس کھیتی کے جس نے اپنی سوئی نکالی پھر اسے قوی کر دیا پھر موٹی ہوگئی پھر اپنے تنہ پر کھڑی ہوگئی کسانوں کو خوش کرنے لگی تاکہ الله ان کی وجہ سے کفار کو غصہ دلائے الله ان میں سے ایمان داروں اورنیک کام کرنے والوں کے لیے بخشش اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے -
اب آپ مجھے بتائیں کہ کیا صحابہ کرام رضوان الله اجمین کیا چند نفوس پر ہی مشتمل تھے -جنہیں آپ کے نزدیک شیعا ن علی کہا جاتا ہے ؟؟؟؟؟
کیا صرف چند صحابہ ہی ایسے تھے جنھوں نے آپ صل الله علیہ وسلم کے ساتھ مل کر جہاد کیا ؟؟؟؟
کیا یہ تمام آیات قرانی صرف حضرت علی رضی الله عنہ اور ان کے اہل بیت سے ہی متعلق ہیں ؟؟؟
اگر ایسا ہی ہے تو پھر آپ نبی کریم صل الله علیہ وسلم پر بہت بڑا بہتان لگا نے کی جرّت کر رہے ہیں - یعنی آپ صل الله علیہ وسلم کی شب و روز محنت سے صرف چند لوگ ہی (یعنی شیعا ن علی) ہی اس قابل ہو سکے جو ایمان کے معیار پر پورے اترتے تھے باقی سب مرتد ہو گئے (نعوز باللہ میں ذالک ) اور نعوز باللہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم اپنے اس مشن میں بری طرح ناکام ہو گئے -؟؟؟
کچھ اور بھی آیات قرآنی ہیں جو صحابہ کے بارے میں نازل ہوئیںتمام محدثین و آئمہ کے نزدیک صحابی رسول اس انسان کو کہا جاتا ہے- جو الله اور اس کے رسول صل اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاے آپ کی صحبت اختیار کی اور ایمان کی حالت میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے - اس میں شک نہیں کہ وہ انسان تھے اور ان سے خطا ء ممکن تھی لیکن وہ اپنی خطا ء پر قائم و دائم نہیں رہتے تھے - یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ان پاک ہستیوں کا ذکر اس انداز میں کیا ہے -