• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن عظیم الشان کے عربی پر اعتراضات

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
محترم جناب انس نظر صاحب جناب کفایت اللہ صاحب جناب عبد العلام صاحب ودیگر قاریین
وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ
إِنِّي اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسَالَاتِي وَبِكَلَامِي
وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّىٰ يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ
يُرِيدُونَ أَنْ يُبَدِّلُوا كَلَامَ اللَّهِ
ان چار آیات مبارکہ سے بالکل واضح ہے کہ قرآن مجید اللہ کاکلام ہے لیکن یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ قرآن مجید کی اندر فرعون ۔شیطان ۔ حضرت سیدنا ابراھیم علیہ السلام کا حضرت سیدنا موسی علیہ السلام کافرشتوں کا ھدھد کا ملکہ سبا کا
حضرت سیدنا لوط علیہ السلام کا سب کا کلام موجود ہے
پھر اللہ سبحانہ وتعالی نے ان کو جمع کرکے یکجاکرکے نازل فرمایا
اب بات یہ ہے جھاں اللہ سبحانہ وتعالی کوئی حکم دے رھے ہیں تو ھم بولینگے اللہ نے کھا جھاں شیطان کی بات آتی ہے تو ھم کھینگے کہ شیطان نے کھا کہ ااسجد لمن خلقت طینا اسی طرح شیطان نے کہا تھا خلقتنی من نار وخلقتہ من طین اب سوال یہ کہ جھاں ھم یا نحن یا نا کاصیغہ ہے وھاں ھم کیا کہیں ؟؟؟ کہ کس نے کہا ؟؟؟ اسی پرسارا بحث ہے
قرآن کریم میں امر ونواہی بھی ہیں وعد ووعید بھی، امثال بھی ہیں اور قصص وغیرہ بھی ۔ اللہ تعالیٰ کی اپنی باتیں بھی ہیں اور بہت سی باتیں ایسی بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے دوسروں کی طرف سے بطور حکایت بیان کی ہیں۔ لیکن قرآن کریم سارے کا سارا اللہ کا کلام ہے، اس کا ایک شوشہ بھی کسی دوسرے کی طرف سے نہیں ہے۔ اگر کہیں اللہ تعالیٰ نے کسی فرشتے، نبی ، پرندے، نیک صالح شخص یا برے شخص، فرعون، نمرود اور شیطان وغیرہ کی کوئی بات نقل کی ہے تو وہ بطور حکایت کی ہے۔ یہ حکایت اپنے الفاظ میں پیش کرنے والے صرف اللہ تعالیٰ ہیں، کوئی اور ذات نہیں ہے۔

قرآن کریم میں دیگر افراد کی طرف سے اللہ تعالیٰ نے بطورِ حکایت واحد متکلم اور جمع متکلم کے صیغے جہاں بھی استعمال کیے ہیں، وہاں اللہ تعالیٰ نے اس کی باقاعدہ وضاحت فرمائی ہے ۔ مثلاً فرشتوں کے متعلق آتا ہے:
﴿ وَعَلَّمَ ءادَمَ الأَسماءَ كُلَّها ثُمَّ عَرَ‌ضَهُم عَلَى المَلـٰئِكَةِ فَقالَ أَنبِـٔونى بِأَسماءِ هـٰؤُلاءِ إِن كُنتُم صـٰدِقينَ ٣١ قالوا سُبحـٰنَكَ لا عِلمَ لَنا إِلّا ما عَلَّمتَنا ۖ إِنَّكَ أَنتَ العَليمُ الحَكيمُ ٣٢ ﴾ ... سورة البقرة
اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام نام سکھا کر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا، اگر تم سچے ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ (31) ان سب نے کہا اے اللہ! تیری ذات پاک ہے ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا تونے ہمیں سکھا رکھا ہے، پورے علم وحکمت والا تو تو ہی ہے (32)

درج بالا آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے ایک سوال کیا تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے اپنے لئے جمع متکلم کا صیغہ استعمال کیا (فرشتوں کا جواب سرخ رنگ میں موجود ہے۔)

﴿ وَإِذ قُلنا لِلمَلـٰئِكَةِ اسجُدوا لِـٔادَمَ فَسَجَدوا إِلّا إِبليسَ قالَ ءَأَسجُدُ لِمَن خَلَقتَ طينًا ٦١ قالَ أَرَ‌ءَيتَكَ هـٰذَا الَّذى كَرَّ‌متَ عَلَىَّ لَئِن أَخَّر‌تَنِ إِلىٰ يَومِ القِيـٰمَةِ لَأَحتَنِكَنَّ ذُرِّ‌يَّتَهُ إِلّا قَليلًا ٦٢ ﴾ ... سورة الإسراء
جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجده کرو تو ابلیس کے سوا سب نے کیا، اس نے کہا کہ کیا میں اسے سجده کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے (61) اچھا دیکھ لے اسے تو نے مجھ پر بزرگی تو دی ہے، لیکن اگر مجھے بھی قیامت تک تو نے ڈھیل دی تو میں اس کی اولاد کو بجز بہت تھوڑے لوگوں کے، اپنے بس میں کرلوں گا (62)

درج بالا آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں بشمول ابلیس کو سیدنا آدم﷤ کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو ابلیس نے جواب میں جو عذر پیش کیا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم اس کی حکایت کی ہے اور اس میں ابلیس کی طرف سے واحد متکلم کا صیغہ بھی استعمال کیا گیا ہے۔

اس انداز سے تو قرآن کریم میں غیر اللہ کیلئے واحد وجمع متکلم کے صیغے استعمال ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ قرآن کریم میں جہاں بھی واحد وجمع متکلم کا صیغہ آئے گا، اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات ہی ہوگی جو اس عظیم الشان معجز نما کلام کے متکلّم ہیں۔ اگر ہم جمع متکلم کے صیغے کو اللہ کے علاوہ کسی اور کے لئے مانیں گے تو اس کا مطلب صرف یہی ہوگا کہ قرآن اللہ کے علاوہ کسی اور کی کلام ہے اور اس سے شرک بھی لازم آئے گا کیونکہ اس میں جگہ جگہ بغیر حکایت کے بہت سے ایسے کاموں (جو صرف اللہ کے ہو سکتے ہیں) کی نسبت جمع متکلم کے صیغے سے اللہ کی طرف سے کی گئی ہے۔

مثلاً چند آیات آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں:
وَلَقَد كَرَّ‌منا بَنى ءادَمَ وَحَمَلنـٰهُم فِى البَرِّ‌ وَالبَحرِ‌ وَرَ‌زَقنـٰهُم مِنَ الطَّيِّبـٰتِ وَفَضَّلنـٰهُم عَلىٰ كَثيرٍ‌ مِمَّن خَلَقنا تَفضيلًا ٧٠ يَومَ نَدعوا كُلَّ أُناسٍ بِإِمـٰمِهِم ۖ فَمَن أوتِىَ كِتـٰبَهُ بِيَمينِهِ فَأُولـٰئِكَ يَقرَ‌ءونَ كِتـٰبَهُم وَلا يُظلَمونَ فَتيلًا ٧١ وَمَن كانَ فى هـٰذِهِ أَعمىٰ فَهُوَ فِى الـٔاخِرَ‌ةِ أَعمىٰ وَأَضَلُّ سَبيلًا ٧٢ وَإِن كادوا لَيَفتِنونَكَ عَنِ الَّذى أَوحَينا إِلَيكَ لِتَفتَرِ‌ىَ عَلَينا غَيرَ‌هُ ۖ وَإِذًا لَاتَّخَذوكَ خَليلًا ٧٣ وَلَولا أَن ثَبَّتنـٰكَ لَقَد كِدتَ تَر‌كَنُ إِلَيهِم شَيـًٔا قَليلًا ٧٤ إِذًا لَأَذَقنـٰكَ ضِعفَ الحَيوٰةِ وَضِعفَ المَماتِ ثُمَّ لا تَجِدُ لَكَ عَلَينا نَصيرً‌ا ٧٥ وَإِن كادوا لَيَستَفِزّونَكَ مِنَ الأَر‌ضِ لِيُخرِ‌جوكَ مِنها ۖ وَإِذًا لا يَلبَثونَ خِلـٰفَكَ إِلّا قَليلًا ٧٦ سُنَّةَ مَن قَد أَر‌سَلنا قَبلَكَ مِن رُ‌سُلِنا ۖ وَلا تَجِدُ لِسُنَّتِنا تَحويلًا ٧٧ ﴾ ... سورة الإسراء

ان آیات میں جمع متکلم کے صیغوں سے اللہ کے علاوہ کوئی اور شخصیت یا شخصیات مراد لینا اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور یہ ماننا ہے کہ قرآن کریم اللہ کے علاوہ اس کی کلام ہے؟؟؟ والعیاذ باللہ!
 

سعدیہ

مبتدی
شمولیت
فروری 23، 2013
پیغامات
11
ری ایکشن اسکور
43
پوائنٹ
11
ھمارے سر نے بتایا ہے کہ جمع کا لفظ احترام اور عزت کی خاطر ہے جیسا کہ بادشاہ کہتاہے ھم سب مجرموں کوپکڑلینگے
قرآن شریف اللہ کا کتاب اور کلام ہے جہاں شیطان کی بات ہے وہاں تو رب نے کہا ہے نا کہ شیطان نے کہا
 

سعدیہ

مبتدی
شمولیت
فروری 23، 2013
پیغامات
11
ری ایکشن اسکور
43
پوائنٹ
11
نہ بھائی! گرائمر کو غلط نہ کہیں، عام لوگوں کو ہلنے سے بچانے کیلئے کچھ گزارشات پیش کرتا ہوں، اگر صحیح ہیں تو اللہ کی طرف سے ہیں ورنہ میری اور شیطان کی طرف سے۔
اللهم إنا نسألك علما نافعا وعملا متقبلا ورزقا واسعا طيبا

اولاً
یہاں سیدات امہات المؤمنین (ازواج مطہرات) کو ’اہل بیت‘ کہہ کر پکارا گیا ہے۔ اور ’اہل‘ کا لفظ بیوی، عزیز واقارب اور اصحاب کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ یہ لفظ جمع ہے۔ اگر اس سے مراد اکیلی بیوی یا زیادہ بیویاں یا دیگر مذکر ومؤنث عزیز واقارب (خواہ وہ ایک دو ہوں یا زیادہ) بھی مراد ہوں تب بھی ظاہری لفظ کا دھیان رکھتے ہوئے جمع مذکر کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے، جیسے
وَهَل أَتىٰكَ حَديثُ موسىٰ ٩ إِذ رَ‌ءا نارً‌ا فَقالَ لِأَهلِهِ امكُثوا إِنّى ءانَستُ نارً‌ا لَعَلّى ءاتيكُم مِنها بِقَبَسٍ أَو أَجِدُ عَلَى النّارِ‌ هُدًى ١٠ ۔۔۔ سورة طه
بہت سے علماء کے نزدیک یہاں ’اہل‘ سے مراد سیدنا موسیٰ﷤ کی اہلیہ ہیں، اس کے باوجود لفظ اہل کی وجہ سے جمع مذکر کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔

اسی طرح جب فرشتوں نے سیدنا ابراہیم﷤ کو سیدنا اسحاق اور یعقوب علیہما السلام کی بشارت دی اور سیدہ سارہ نے حیرانگی ظاہر کی تو فرشتوں نے کہا:
قالوا أَتَعجَبينَ مِن أَمرِ‌ اللَّـهِ ۖ رَ‌حمَتُ اللَّـهِ وَبَرَ‌كـٰتُهُ عَلَيكُم أَهلَ البَيتِ ۚ إِنَّهُ حَميدٌ مَجيدٌ ٧٣ ۔۔۔ سورة هود
یہاں بھی سيده سارہ کیلئے جمع مذکر کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔

نیز فرمایا:
وَحَرَّ‌منا عَلَيهِ المَر‌اضِعَ مِن قَبلُ فَقالَت هَل أَدُلُّكُم عَلىٰ أَهلِ بَيتٍ يَكفُلونَهُ لَكُم وَهُم لَهُ نـٰصِحونَ ١٢ ۔۔۔ سورۃ القصص
یہاں بھی سیدہ ام موسیٰ کا لفظ ’اہل‘ سے تذکرہ کرتے ہوئے ان کیلئے صیغۂ جمع مذکر استعمال کیا گیا ہے۔

البتہ الیاسی صاحب ان تینوں مثالوں میں یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ یہ اللہ کے اقوال نہیں ہیں، بلکہ سیدنا موسیٰ﷤، فرشتوں اور اخت موسیٰ کے قول کی حکایت ہے۔ (ابتسامہ)

ثانیاً
یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ سورۃ الاحزاب کی اس آیت کریمہ ﴿ إِنَّما يُر‌يدُ اللَّـهُ لِيُذهِبَ عَنكُمُ الرِّ‌جسَ أَهلَ البَيتِ وَيُطَهِّرَ‌كُم تَطهيرً‌ا ٣٣ میں جمع مذکر کا صیغہ اس لئے استعمال کیا گیا ہے کہ اس جملہ میں یہاں اہل بیت سے مراد صرف امہات المؤمنین نہیں بلکہ سادات علی، فاطمہ، حسن وحسین﷢ بھی مراد ہیں اور جب زیادہ مذکر ومؤنث جمع ہوں تو ان کیلئے جمع مذکر کا صیغہ استعمال ہوتا ہے۔
صحیح احادیث مبارکہ میں ہے:
لمَّا نزلت هذِهِ الآيةُ على النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا في بيتِ أمِّ سلمةَ فدعا فاطمةَ وحَسنًا وحُسينًا فجلَّلَهم بِكساءٍ وعليٌّ خلفَ ظَهرِهِ فجلَّلَهُ بِكساءٍ ثمَّ قالَ اللَّهمَّ هؤلاءِ أَهلُ بيتي فأذْهِب عنْهمُ الرِّجسَ وطَهِّرْهم تطْهيرًا قالت أمُّ سلمةَ وأنا معَهُم يا نبيَّ اللَّهِ قالَ أنتِ على مَكانِكِ وأنتِ على خيرٍ
الراوي: عمر بن أبي سلمة
المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الترمذي - الصفحة أو الرقم: 3205
خلاصة حكم المحدث: صحيح
الدرر السنية - الموسوعة الحديثية
نھایت مدلل اور علمی جواب ہے
 

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
قرآن کریم میں امر ونواہی بھی ہیں وعد ووعید بھی، امثال بھی ہیں اور قصص وغیرہ بھی ۔ اللہ تعالیٰ کی اپنی باتیں بھی ہیں اور بہت سی باتیں ایسی بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے دوسروں کی طرف سے بطور حکایت بیان کی ہیں۔ لیکن قرآن کریم سارے کا سارا اللہ کا کلام ہے، اس کا ایک شوشہ بھی کسی دوسرے کی طرف سے نہیں ہے۔ اگر کہیں اللہ تعالیٰ نے کسی فرشتے، نبی ، پرندے، نیک صالح شخص یا برے شخص، فرعون، نمرود اور شیطان وغیرہ کی کوئی بات نقل کی ہے تو وہ بطور حکایت کی ہے۔ یہ حکایت اپنے الفاظ میں پیش کرنے والے صرف اللہ تعالیٰ ہیں، کوئی اور ذات نہیں ہے۔

قرآن کریم میں دیگر افراد کی طرف سے اللہ تعالیٰ نے بطورِ حکایت واحد متکلم اور جمع متکلم کے صیغے جہاں بھی استعمال کیے ہیں، وہاں اللہ تعالیٰ نے اس کی باقاعدہ وضاحت فرمائی ہے ۔ مثلاً فرشتوں کے متعلق آتا ہے:
﴿ وَعَلَّمَ ءادَمَ الأَسماءَ كُلَّها ثُمَّ عَرَ‌ضَهُم عَلَى المَلـٰئِكَةِ فَقالَ أَنبِـٔونى بِأَسماءِ هـٰؤُلاءِ إِن كُنتُم صـٰدِقينَ ٣١ قالوا سُبحـٰنَكَ لا عِلمَ لَنا إِلّا ما عَلَّمتَنا ۖ إِنَّكَ أَنتَ العَليمُ الحَكيمُ ٣٢ ﴾ ... سورة البقرة
اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام نام سکھا کر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا، اگر تم سچے ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ (31) ان سب نے کہا اے اللہ! تیری ذات پاک ہے ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا تونے ہمیں سکھا رکھا ہے، پورے علم وحکمت والا تو تو ہی ہے (32)

درج بالا آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے ایک سوال کیا تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے اپنے لئے جمع متکلم کا صیغہ استعمال کیا (فرشتوں کا جواب سرخ رنگ میں موجود ہے۔)

﴿ وَإِذ قُلنا لِلمَلـٰئِكَةِ اسجُدوا لِـٔادَمَ فَسَجَدوا إِلّا إِبليسَ قالَ ءَأَسجُدُ لِمَن خَلَقتَ طينًا ٦١ قالَ أَرَ‌ءَيتَكَ هـٰذَا الَّذى كَرَّ‌متَ عَلَىَّ لَئِن أَخَّر‌تَنِ إِلىٰ يَومِ القِيـٰمَةِ لَأَحتَنِكَنَّ ذُرِّ‌يَّتَهُ إِلّا قَليلًا ٦٢ ﴾ ... سورة الإسراء
جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجده کرو تو ابلیس کے سوا سب نے کیا، اس نے کہا کہ کیا میں اسے سجده کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے (61) اچھا دیکھ لے اسے تو نے مجھ پر بزرگی تو دی ہے، لیکن اگر مجھے بھی قیامت تک تو نے ڈھیل دی تو میں اس کی اولاد کو بجز بہت تھوڑے لوگوں کے، اپنے بس میں کرلوں گا (62)

درج بالا آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں بشمول ابلیس کو سیدنا آدم﷤ کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو ابلیس نے جواب میں جو عذر پیش کیا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم اس کی حکایت کی ہے اور اس میں ابلیس کی طرف سے واحد متکلم کا صیغہ بھی استعمال کیا گیا ہے۔

اس انداز سے تو قرآن کریم میں غیر اللہ کیلئے واحد وجمع متکلم کے صیغے استعمال ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ قرآن کریم میں جہاں بھی واحد وجمع متکلم کا صیغہ آئے گا، اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات ہی ہوگی جو اس عظیم الشان معجز نما کلام کے متکلّم ہیں۔ اگر ہم جمع متکلم کے صیغے کو اللہ کے علاوہ کسی اور کے لئے مانیں گے تو اس کا مطلب صرف یہی ہوگا کہ قرآن اللہ کے علاوہ کسی اور کی کلام ہے اور اس سے شرک بھی لازم آئے گا کیونکہ اس میں جگہ جگہ بغیر حکایت کے بہت سے ایسے کاموں (جو صرف اللہ کے ہو سکتے ہیں) کی نسبت جمع متکلم کے صیغے سے اللہ کی طرف سے کی گئی ہے۔

مثلاً چند آیات آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں:
وَلَقَد كَرَّ‌منا بَنى ءادَمَ وَحَمَلنـٰهُم فِى البَرِّ‌ وَالبَحرِ‌ وَرَ‌زَقنـٰهُم مِنَ الطَّيِّبـٰتِ وَفَضَّلنـٰهُم عَلىٰ كَثيرٍ‌ مِمَّن خَلَقنا تَفضيلًا ٧٠ يَومَ نَدعوا كُلَّ أُناسٍ بِإِمـٰمِهِم ۖ فَمَن أوتِىَ كِتـٰبَهُ بِيَمينِهِ فَأُولـٰئِكَ يَقرَ‌ءونَ كِتـٰبَهُم وَلا يُظلَمونَ فَتيلًا ٧١ وَمَن كانَ فى هـٰذِهِ أَعمىٰ فَهُوَ فِى الـٔاخِرَ‌ةِ أَعمىٰ وَأَضَلُّ سَبيلًا ٧٢ وَإِن كادوا لَيَفتِنونَكَ عَنِ الَّذى أَوحَينا إِلَيكَ لِتَفتَرِ‌ىَ عَلَينا غَيرَ‌هُ ۖ وَإِذًا لَاتَّخَذوكَ خَليلًا ٧٣ وَلَولا أَن ثَبَّتنـٰكَ لَقَد كِدتَ تَر‌كَنُ إِلَيهِم شَيـًٔا قَليلًا ٧٤ إِذًا لَأَذَقنـٰكَ ضِعفَ الحَيوٰةِ وَضِعفَ المَماتِ ثُمَّ لا تَجِدُ لَكَ عَلَينا نَصيرً‌ا ٧٥ وَإِن كادوا لَيَستَفِزّونَكَ مِنَ الأَر‌ضِ لِيُخرِ‌جوكَ مِنها ۖ وَإِذًا لا يَلبَثونَ خِلـٰفَكَ إِلّا قَليلًا ٧٦ سُنَّةَ مَن قَد أَر‌سَلنا قَبلَكَ مِن رُ‌سُلِنا ۖ وَلا تَجِدُ لِسُنَّتِنا تَحويلًا ٧٧ ﴾ ... سورة الإسراء

ان آیات میں جمع متکلم کے صیغوں سے اللہ کے علاوہ کوئی اور شخصیت یا شخصیات مراد لینا اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور یہ ماننا ہے کہ قرآن کریم اللہ کے علاوہ اس کی کلام ہے؟؟؟ والعیاذ باللہ!

جناب انس نظر صاحب آپ سورہ کھف آیت نمبر 65 سے 82 تک پڑھ لیں - آیت نمبر 79 میں ہے فاردت ان اعیبھا (میں نے چاہا ) پھر آیت نمبر 81 میں ہے فاردنا ان یبدلھما (ھم نے چاہا) اورآیت نمبر 82 میں ہے فاراد ربک( کہ رب نے چاہا ) ایک ہی سورت اور ایک واقعے میں ایک ہی شخص حضرت خضر علیہ السلام نے تینوں صیغے استعمال کی ہے تو کیا حضرت خضر علیہ السلام نے بھی جمع کا صیغہ عزت کیلیے استعمال کیا ؟؟؟
سعدیہ بہن سے بھی درخواست ہے کہ اپنی سرسے اس کاجواب پوچھ لیں
 
Top