• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن عظیم الشان کے عربی پر اعتراضات

شمولیت
جنوری 19، 2013
پیغامات
301
ری ایکشن اسکور
571
پوائنٹ
86
الیاسی صاحب آپ واپس آ گئے آپ کے استاد صاحب کی علمی قابلیت کا اندازہ مجھے اس وقت ہی ہو گیا تھا جب رجم والے تھریڈ میں دو آیا ت کا ظاھری تضاد دور کرنے کا کہا تھا ۔اب تو خیر آپ لوگ عربی کے اعتراضات کا بھی جواب دے رہے ہیں ماشاء اللہ
 

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
قابل صد احترام جناب انس نظر صاحب السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
آپ کی پوسٹ نمبرون کی آیت نمبرون یعنی سورہ مومنون کی آیت نمبر 99 کو پہلی بحث کیلیے لیتے ہیں پھر باقی آیات مبارکہ پر بھی بات کرینگے ایک ایک پواینٹ پر اگر بات کیجاے تو ان شاء اللہ ہمیں حق تک پھنچنا آسان ھوگا
جناب انس نظر صاحب یھاں پر بحث ہورھی ہے مشرکین کا اس آیت مبارکہ کی سابقہ آیات سے بھی پتہ چلتا ہے واضح آیت ہے حَتّىٰ إِذا جاءَ أَحَدَهُمُ المَوتُ قالَ رَ‌بِّ ار‌جِعونِ آپ اسی سورت کی آیت نمبر 91 ماتخذا اللہ من ولد دیکھیں تو بات واضح ھوجاتی ہیں کہ شرک اور اہل شرک کی بات چل رھی ہے یعنی یہ لوگ ایک اللہ کی ساتھ اور الہ کو بھی مانتے تھے جن کاقرآن مجید رد کررھا تھا
جناب انس نظر صاحب دیکھیں نا احدھم سے کون مراد ہے یھاں رب ارجعون ان کا ہی قول ہے اس لیے انھوں نے پہلی رب اور پھر ارجعون جمع امرحاضر کا صیغہ استعمال کیا ہے کیونکہ وہ لوگ ایک بڑے اللہ کوبھی مانتے تھے اور ان کی ساتھ شریک بھی مانتے تھے تو اسی نظریے سے انھوں نے واحد اورجمع دونوں کا صیغہ استعمال کیا ھے
امید ہے کہ آپ ًمحبت سےاس پر غور کرینگے تو پھر ھم آگے بات بڑھادینگے
 

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
محترم جناب انس نظر صاحب حفظکم اللہ تعالی اگر ٹایم ملے تو اس پہلی آیت پر کچھ گفتگو فرماے ہمارے معروضات پر تاکہ پھر ہم باقی آیات پر بھی گفتگو کریں جو آپ نے اپنے سابقہ پوسٹوں میں تحریر فرمادی تھی
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
جنا ب انس نظر صاحب ، آیت 91 میں کفار نے اللہ کے ساتھ کسی اور کو بھی الہ سمجھا اور آیت نمبر 99 میں ان ھی کو جمع کے صیغے میں پکارا ھے- قرآن مجید کی بہت ساری آیات ایسی ھیں جھاں جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہےلیکن وھاں اللہ مراد ہے ہی نھیں لوگوں کو غلط فھمی ہورہی ہے اور غیراللہ کو اللہ سمجھ رھے ہیں
خلاصہ آیت91 میں مشرکین کے ایمان کاتعارف کروایا گیاہے، اور آیت 99 میں ان کے ایمان اسی مشرکانہ ایمان کا اظھار ہے غلط فھمی اس وقت پیداہوتی ہے جب ھم آیت91 سے صرف نظر کر کےصرف آیت99 کی سمجھنے کی کوشش کریں -
اس مضمون کے بہت فواید ہیں ایک تو یہ کہ جو لوگ غیراللہ کو اللہ سمجھ رہے ہیں وہ سمجھ جایں اور ایسانہ کریں اور دوسرا فایدہ یہ کہ ایک مسلمان عالم محض اس لیۓ عیسائی بن گیا تھا، کرسچنوں کے اس اعتراض کی وجہ سے کہ تثیلث کا عقیدہ صحیح ہے کیونکہ اللہ نے قرآن میں اپنی لیے بارہا جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے تو میرے استاد محترم جناب الیاس ستار صاحب حفظہ اللہ تعالی نے تفصیلی جواب دیکر ان کو سمجھایا ہے کہ ھرجگہ جمع کی صیغے سے مراد اللہ تعالی نھیں ہے-
 
شمولیت
مارچ 15، 2012
پیغامات
154
ری ایکشن اسکور
493
پوائنٹ
95
الیاسی صاحب آپ اپنی بات انس ساحب سے جاری رکھین میں صرف اتنا جاننا چاھتا ہوں کہ سورہ بقرہ کی ایت واذ قلنا للملاءکۃ اسجدوا لادم فسجدوا الا ابلیس ابی واستکبر وکان من الکافرین میں جمع کے صیغے سے کیا مراد ہے- شکریہ
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
الیاسی صاحب میں نے آپ نے سوال کیا تھا کہ
الیاسی صاحب سے سوال ہے کہ قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے جہاں جہاں جمع کا صیغہ استعمال فرمایا ہے، اس کے متعلق ان کا اور ان کے استاد کا کیا موقف ہے؟؟؟
میرا سوال بالکل واضح ہے کہ جہاں بھی اللہ کیلئے جمع کا صیغہ آیا ہے اس کے متعلق اپنا موقف واضح کریں!
آپ نے جواب میں سورۃ المؤمنون کی ایک خاص آیت کریمہ (نمبر 99) کے متعلّق بات شروع کر دی۔ یہ آیت کریمہ میں نے ہی اپنے موقف میں پیش کی تھی، اس آیت کریمہ کے متعلق میرا ایک موقف ہے جو میں نے سلف صالحین کی تفاسیر سے سمجھا ہے، وللہ الحمد والمنّۃ! لیکن مخصوص آیات پر بعد میں بات کریں گے۔

پہلے آپ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کیلئے جہاں جہاں جمع کے صیغے آئے ہیں، ان کے متعلق اپنا عمومی موقف واضح کریں!

ہم کہتے ہیں جمع تعظیم کیلئے ہیں!

آپ کیا کہتے ہیں؟؟؟

اگرآپ نہیں بتا سکتے تو اپنے استاد محترم سے پوچھ کر بتا دیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بغیر آپ سے بعض مخصوص آیات سے متعلق بحث بے فائدہ ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
قرآن پر نحوی و صرفی اعتراض کرنے والوں کو پہلے یہ طے کر لینا چاہئے کہ نحو وصرف کے قواعد کہاں سے ماخوذ ہیں ؟؟
نحو وصرف کا کون ساقاعدہ درست ہے؟ کون ساغلط؟ اس کا فیصلہ کس بات اورکس دلیل سے ہوگا؟؟
جن لوگوں نے نحو وصرف کے قواعدبیان کئے ہیں ان کا مرجع وماخذ ودلائل کیا ہے؟؟



ظاہر ہے کہ نحو وصرف کے قواعد کی بنیاد ودلائل اہل عرب کا کلام ہے ۔
اور عہد رسالت میں جو اہل عرب تھے ان کا کلام نحو و صرف کے باب میں حجت ودلیل ہے ۔
اگر کوئی کوئی عربی عبارت اس دور کی ثابت ہوجائے تو وہ بجائے خود حجت ودلیل ہے کیونکہ یہ اس دور کی عبارت ہے جو قواعد کے مرجع ودلیل کا دور ہے۔
اس دور کی عبارتیں بعد میں بیان کردہ قواعد کے تابع نہیں بلکہ بعد میں بیان کردہ قواعد اس دور کے کلام کے تابع ہیں۔



لہٰذا اصولی اعتبار سے اس دور کے کلام کو نحو و صرف کے قواعد پر پرکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ نحو وصرف کے بیان کردہ قواعد خود اس بات کے محتاج ہیں کہ وہ اس دور کے کلام سے مطابقت رکھتے ہوں۔
اگر اس دور میں کوئی کلام استعمال میں آیا ہے اور بعد کے بیان کردہ قواعد اس کے خلاف ہیں تو نقص مرجع کے دور میں مستعمل کلام میں نہیں بلکہ بعد میں بیان کردہ قاعدہ میں ہوگا۔
اصولی اعتبار سے اعتراض مرجع کے دور میں مستعمل کلام پر نہیں بلکہ بعد میں بیان کردہ قاعدہ پر ہونا چاہئے اور اعتراض کرنے والوں کو یوں کہنا چاہئے کہ نحو وصرف کے ماہرین نے یہ کیسا قاعدہ بیان کردیا جو مرجع کے دور میں مستعمل کلام کے خلاف ہے؟؟

نیز یہ مقام اور اٹھارٹی اور مرجع ودلائل کی حیثیت اس دور کے عام کلام کو حاصل ہے ۔
اور قران مجید کا نزول اسی دور میں ہوا اور یہ اسی دور کے اہل عرب کی زبان میں نازل ہوا ۔
اس پر اعتراض کی تو سرے سے گنجائش ہی نہیں ہے کیونکہ یہ کلام اس دور میں نازل ہوا ہے جو دور نحو وصرف کے قواعد کے مرجع ودلیل کا دور ہے ۔

ایک مسلمان تو یہ تصور بھی نہیں کرسکتا کہ اس میں عربی قواعد کے لحاظ سے غلطی ہوسکتی ہے کیونکہ یہ کلام منزل من اللہ ہے ۔



اگرمرجع کے دور میں کسی جاہل بدو عرب نے خواب میں بڑبڑاتے ہوئے کوئی کلام استعمال کرلیا اور یہ کلام بعد کے بیان کردہ نحو یا صرف کے ان قواعد کے خلاف ہو جسے نحو و صرف کے ماہرین کی ایک جماعت نے بیان کیا ہو تو ایسی صورت میں بھی محل نظر بیان کردہ قاعدہ ہی ٹہرے گا، نہ کہ جاہل بدو عرب کی بڑبڑاہٹ پر مشتمل کلام !!
یہ اتھارٹی ایک جاہل بدو عرب کے کلام کو حاصل ہے قرانی مجید تو رب العالمین کا کلام ہے ۔



اور اگر کوئی دہریہ اور کافر اور بد دماغ اس بات پر ایمان نہ رکھے کہ یہ اللہ کا کلام ہے اور منزل من اللہ ہے ، تو اسے بھی یہ حق حاصل نہیں کہ اس کلام پر نحو وصرف کے قواعد کو لے کر اعتراض کرے کیونکہ یہ اس دور کا کلام ہے جو دور نحو و صرف کے قواعد کے مرجع ودلیل کا دور ہے۔

اگر مرجع کے دور کا کوئی کلام بعد میں وضع کردہ قاعدہ کے خلاف نظر آئے تو قاعدہ کو سمجھنے کی کوشش کی جائے گی نہ کہ مرجع کی حیثیت رکھنے والے کلام پر اعتراض کیا جائے گا ۔ اور اگر کوئی تطبیق ممکن نہ ہوئی تو بھی مرجع کی حیثیت رکھنے والا کلام اپنی جگہ پر اٹل رہے گا اور قاعدہ کو یہ کہتے ہوئے اپنی خیر منانی ہوگی کہ : لکل قاعدۃ شواذ۔ اور اگر اس کی بھی گنجائش نہ رہی تو قاعدہ کو مسمار ہونا پڑے گا۔ نحو وصرف کی کتابوں میں ایسے مسمار شدہ قواعد کے کھنڈرات بہت ملتے ہیں۔

افسوس ! دنیائے قواعد کی یہ کیسی بوالعجبی ہے کہ قواعد کو لیکر قواعد کے مرجع ودلیل پر اعتراض کیا جارہاہے ؟؟؟
یہ تو وہی مثال ہوئی کہ کسی فقہی قاعدہ کو لیکر قرآن کی کسی آیت یا کسی صحیح حدیث پر اعتراض کردیا جائے۔ یہ کہہ کر یہ آیت یا یہ صحیح حدیث فقہی قاعدہ کے خلاف ہے!!!
ظاہر ہے کہ یہ طرزعمل احمقانہ ہے کیونکہ فقہی قواعد ، قران و صحیح حدیث ہی سے ماخوذ ہیں اور قران و صحیح حدیث فقہی قواعد کے لئے دلیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر کوئی قرآنی آیت یا صحیح حدیث کسی فقہی قاعدہ کے خلاف نظر آئے تو اصولی اعتبار سے اعتراض قرآنی آیت یا صحیح حدیث پر نہیں بلکہ فقہی قاعدہ پر وارد ہوگا۔
دریں صورت فقہی قاعدہ کو سمجھنے کی کوشش کی جائے گی نہ کہ قرآن و صحیح حدیث پر اعتراض کیا جائے گا جو فقہی قواعد کی دلیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اوراگر کوئی قرآنی آیت یا کوئی صحیح حدیث کسی فقہی قاعدہ کا ساتھ نہ دے تو قاعدہ ہی کو ٹوٹنا پڑے گا۔ اور قواعد فقہیہ کی کتب میں ایسے متروک قواعد کا ذکر موجودہے۔

اسے دوسری مثال سے یوں سمجھیں کی کسی سائنس داں کے بیان کردہ کسی اصول یا فارمولہ کے خلاف اگر کوئی کائناتی حقیقت نظر آئے تو محل اعتراض کون سی چیز ہوگی ؟؟ کائناتی حقیقت یا سانس دانوں کا بیان کردہ اصول و فارمولہ ؟؟
ظاہر ہے کہ کائناتی حقیقت اٹل ثابت ہوگی کیونکہ یہی سائنسی تحقیقات کا مرجع ہے ۔
دریں صورت بھی کوئی مطابقت تلاش کی جائے گی اور اگر اس کا امکان نہ ہو تو کائناتی حقیقت سائنس دانوں کے بیان کردہ اصول و فارمولوں کی دھجیاں بکھیردے گی۔

بہت پہلے سائنسدانوں نے یہ تحقیق پیش کی تھی کی سورج گردش نہیں کرتا لیکن بعد میں کائناتی حقیقت یہ سامنے آئی کہ سورج گردش کرتا ہے ۔ تو کیا کائناتی حقیقت ہی کو جھٹلا دیا جائے یا سائنسدانوں کی بیان کردہ تحقیق کو ؟؟ انجام کار کس کو پیچھے ہٹنا پڑا یہ سب کو معلوم ہے۔

الغرض یہ کہ کسی چیز پر اعتراض کرنے سے پہلے یہ طے کرلیا جائے کہ اس پر اعتراض کے امکانات بھی ہیں یا نہیں ؟؟
اگرکوئی چیز اعتراضات سے بالاتر ہو تو اس پر اعتراض کی کوشش انتہائی بچکانہ اور حددرجہ احمقانہ حرکت ہے۔

اللہ ہم سب کو سمجھ عطاء فرمائے۔آمین
 

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
ہم کہتے ہیں جمع تعظیم کیلئے ہیں!
جناب انس نظر صاحب ویوم نحشر المتقین الی الرحمن وفدا
اس آیت مبارکہ میں بقول آپ کے آپ کیسے بولینگے کہ نحشر سے اللہ مراد ہے ؟؟؟؟؟
 
Top