• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن عظیم الشان کے عربی پر اعتراضات

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
قرآن پر نحوی و صرفی اعتراض کرنے والوں کو پہلے یہ طے کر لینا چاہئے کہ نحو وصرف کے قواعد کہاں سے ماخوذ ہیں ؟؟
نحو وصرف کا کون ساقاعدہ درست ہے؟ کون ساغلط؟ اس کا فیصلہ کس بات اورکس دلیل سے ہوگا؟؟
جن لوگوں نے نحو وصرف کے قواعدبیان کئے ہیں ان کا مرجع وماخذ ودلائل کیا ہے؟؟



ظاہر ہے کہ نحو وصرف کے قواعد کی بنیاد ودلائل اہل عرب کا کلام ہے ۔
اور عہد رسالت میں جو اہل عرب تھے ان کا کلام نحو و صرف کے باب میں حجت ودلیل ہے ۔
اگر کوئی کوئی عربی عبارت اس دور کی ثابت ہوجائے تو وہ بجائے خود حجت ودلیل ہے کیونکہ یہ اس دور کی عبارت ہے جو قواعد کے مرجع ودلیل کا دور ہے۔
اس دور کی عبارتیں بعد میں بیان کردہ قواعد کے تابع نہیں بلکہ بعد میں بیان کردہ قواعد اس دور کے کلام کے تابع ہیں۔



لہٰذا اصولی اعتبار سے اس دور کے کلام کو نحو و صرف کے قواعد پر پرکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ نحو وصرف کے بیان کردہ قواعد خود اس بات کے محتاج ہیں کہ وہ اس دور کے کلام سے مطابقت رکھتے ہوں۔
اگر اس دور میں کوئی کلام استعمال میں آیا ہے اور بعد کے بیان کردہ قواعد اس کے خلاف ہیں تو نقص مرجع کے دور میں مستعمل کلام میں نہیں بلکہ بعد میں بیان کردہ قاعدہ میں ہوگا۔
اصولی اعتبار سے اعتراض مرجع کے دور میں مستعمل کلام پر نہیں بلکہ بعد میں بیان کردہ قاعدہ پر ہونا چاہئے اور اعتراض کرنے والوں کو یوں کہنا چاہئے کہ نحو وصرف کے ماہرین نے یہ کیسا قاعدہ بیان کردیا جو مرجع کے دور میں مستعمل کلام کے خلاف ہے؟؟

نیز یہ مقام اور اٹھارٹی اور مرجع ودلائل کی حیثیت اس دور کے عام کلام کو حاصل ہے ۔
اور قران مجید کا نزول اسی دور میں ہوا اور یہ اسی دور کے اہل عرب کی زبان میں نازل ہوا ۔
اس پر اعتراض کی تو سرے سے گنجائش ہی نہیں ہے کیونکہ یہ کلام اس دور میں نازل ہوا ہے جو دور نحو وصرف کے قواعد کے مرجع ودلیل کا دور ہے ۔

ایک مسلمان تو یہ تصور بھی نہیں کرسکتا کہ اس میں عربی قواعد کے لحاظ سے غلطی ہوسکتی ہے کیونکہ یہ کلام منزل من اللہ ہے ۔



اگرمرجع کے دور میں کسی جاہل بدو عرب نے خواب میں بڑبڑاتے ہوئے کوئی کلام استعمال کرلیا اور یہ کلام بعد کے بیان کردہ نحو یا صرف کے ان قواعد کے خلاف ہو جسے نحو و صرف کے ماہرین کی ایک جماعت نے بیان کیا ہو تو ایسی صورت میں بھی محل نظر بیان کردہ قاعدہ ہی ٹہرے گا، نہ کہ جاہل بدو عرب کی بڑبڑاہٹ پر مشتمل کلام !!
یہ اتھارٹی ایک جاہل بدو عرب کے کلام کو حاصل ہے قرانی مجید تو رب العالمین کا کلام ہے ۔



اور اگر کوئی دہریہ اور کافر اور بد دماغ اس بات پر ایمان نہ رکھے کہ یہ اللہ کا کلام ہے اور منزل من اللہ ہے ، تو اسے بھی یہ حق حاصل نہیں کہ اس کلام پر نحو وصرف کے قواعد کو لے کر اعتراض کرے کیونکہ یہ اس دور کا کلام ہے جو دور نحو و صرف کے قواعد کے مرجع ودلیل کا دور ہے۔

اگر مرجع کے دور کا کوئی کلام بعد میں وضع کردہ قاعدہ کے خلاف نظر آئے تو قاعدہ کو سمجھنے کی کوشش کی جائے گی نہ کہ مرجع کی حیثیت رکھنے والے کلام پر اعتراض کیا جائے گا ۔ اور اگر کوئی تطبیق ممکن نہ ہوئی تو بھی مرجع کی حیثیت رکھنے والا کلام اپنی جگہ پر اٹل رہے گا اور قاعدہ کو یہ کہتے ہوئے اپنی خیر منانی ہوگی کہ : لکل قاعدۃ شواذ۔ اور اگر اس کی بھی گنجائش نہ رہی تو قاعدہ کو مسمار ہونا پڑے گا۔ نحو وصرف کی کتابوں میں ایسے مسمار شدہ قواعد کے کھنڈرات بہت ملتے ہیں۔

افسوس ! دنیائے قواعد کی یہ کیسی بوالعجبی ہے کہ قواعد کو لیکر قواعد کے مرجع ودلیل پر اعتراض کیا جارہاہے ؟؟؟
یہ تو وہی مثال ہوئی کہ کسی فقہی قاعدہ کو لیکر قرآن کی کسی آیت یا کسی صحیح حدیث پر اعتراض کردیا جائے۔ یہ کہہ کر یہ آیت یا یہ صحیح حدیث فقہی قاعدہ کے خلاف ہے!!!
ظاہر ہے کہ یہ طرزعمل احمقانہ ہے کیونکہ فقہی قواعد ، قران و صحیح حدیث ہی سے ماخوذ ہیں اور قران و صحیح حدیث فقہی قواعد کے لئے دلیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر کوئی قرآنی آیت یا صحیح حدیث کسی فقہی قاعدہ کے خلاف نظر آئے تو اصولی اعتبار سے اعتراض قرآنی آیت یا صحیح حدیث پر نہیں بلکہ فقہی قاعدہ پر وارد ہوگا۔
دریں صورت فقہی قاعدہ کو سمجھنے کی کوشش کی جائے گی نہ کہ قرآن و صحیح حدیث پر اعتراض کیا جائے گا جو فقہی قواعد کی دلیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اوراگر کوئی قرآنی آیت یا کوئی صحیح حدیث کسی فقہی قاعدہ کا ساتھ نہ دے تو قاعدہ ہی کو ٹوٹنا پڑے گا۔ اور قواعد فقہیہ کی کتب میں ایسے متروک قواعد کا ذکر موجودہے۔

اسے دوسری مثال سے یوں سمجھیں کی کسی سائنس داں کے بیان کردہ کسی اصول یا فارمولہ کے خلاف اگر کوئی کائناتی حقیقت نظر آئے تو محل اعتراض کون سی چیز ہوگی ؟؟ کائناتی حقیقت یا سانس دانوں کا بیان کردہ اصول و فارمولہ ؟؟
ظاہر ہے کہ کائناتی حقیقت اٹل ثابت ہوگی کیونکہ یہی سائنسی تحقیقات کا مرجع ہے ۔
دریں صورت بھی کوئی مطابقت تلاش کی جائے گی اور اگر اس کا امکان نہ ہو تو کائناتی حقیقت سائنس دانوں کے بیان کردہ اصول و فارمولوں کی دھجیاں بکھیردے گی۔

بہت پہلے سائنسدانوں نے یہ تحقیق پیش کی تھی کی سورج گردش نہیں کرتا لیکن بعد میں کائناتی حقیقت یہ سامنے آئی کہ سورج گردش کرتا ہے ۔ تو کیا کائناتی حقیقت ہی کو جھٹلا دیا جائے یا سائنسدانوں کی بیان کردہ تحقیق کو ؟؟ انجام کار کس کو پیچھے ہٹنا پڑا یہ سب کو معلوم ہے۔

الغرض یہ کہ کسی چیز پر اعتراض کرنے سے پہلے یہ طے کرلیا جائے کہ اس پر اعتراض کے امکانات بھی ہیں یا نہیں ؟؟
اگرکوئی چیز اعتراضات سے بالاتر ہو تو اس پر اعتراض کی کوشش انتہائی بچکانہ اور حددرجہ احمقانہ حرکت ہے۔

اللہ ہم سب کو سمجھ عطاء فرمائے۔آمین


جناب محترم برادرم کفایت اللہ صاحب بہت ہی احترام کی ساتھ خوش آمدید کی بعد اپنے گرامر اور صرف ونحو کو استعمال کرتے ہوے ویوم نحشر المتقین الی الرحمن وفدا
اس آیت مبارکہ میں بقول آپ کے آپ کیسے بولینگے کہ نحشر سے اللہ مراد ہے ؟؟؟؟؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
جناب انس نظر صاحب ویوم نحشر المتقین الی الرحمن وفدا
اس آیت مبارکہ میں بقول آپ کے آپ کیسے بولینگے کہ نحشر سے اللہ مراد ہے ؟؟؟؟؟
مکرر کہتا ہوں:
مخصوص آیات پر بعد میں بات کریں گے۔
پہلے آپ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کیلئے جہاں جہاں جمع کے صیغے آئے ہیں، ان کے متعلق اپنا عمومی موقف واضح کریں!
ہم کہتے ہیں جمع تعظیم کیلئے ہیں!
آپ کیا کہتے ہیں؟؟؟
اگرآپ نہیں بتا سکتے تو اپنے استاد محترم سے پوچھ کر بتا دیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بغیر آپ سے بعض مخصوص آیات سے متعلق بحث بے فائدہ ہے۔
 

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
الیاسی صاحب! آپ اس مضمون کا مرکزی خیال یہاں بیان کر دیں تاکہ اس پر بات آگے بڑھائی جا سکے ....
جناب انس نظر صاحب مندرجہ ذیل آیات مبارکہ پر غور کرے تو مضمون کی مرکزی خیال سمجھ آجایگا۔ غلط جملہ حذف۔ انتظامیہ!





وَمِن كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ اس آیت میں ہے کہ ہرچیز کو ھم نے جوڑ میں پیدا کیا ہے لیکن کرسچن حضرات کہتے ہیں کہ ساینس کی دریافت کی متعلق ہرچیز جوڑ میں نہیں ہے اور پھر کرسچن کہتے ہیں کہ یہ قرآن مجید کی غلطی ہے
جواب
اس آیت مبارکہ میں خلقنا والی ہم سے مراد اللہ کی عظیم الشان کارکنان قدرت ہیں اس آیت سے مراد اللہ تعالی ہے ہی نھیں اب آپ غور فرمایں سورہ انعام کی آیت نمبر 101
بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُن لَّهُ صَاحِبَةٌ ۖ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
(وہی) آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا (ہے)۔ اس کے اولاد کہاں سے ہو جب کہ اس کی بیوی ہی نہیں۔ اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے۔ اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے
یہاں خلق کل شیء سے اللہ مراد ہے اس لیے یھاں جوڑ کا کوئی ذکر نھیں
جہاں اللہ تعالی نے براہ راست تخلیق کیا ہے وہاں جو ڑ کا کوئی ذکر نھیں اور جھاں اللہ تعالی نے اپنی کارکنان قدرت کی ذریعے تخلیق کیا ہے ووہاں پر جوڑ کا ذکر ہے
جیسا کہ حضرت سیدنا عیسی فرماتے ہیں انی اخلق لکم تو یہاں دیکھیں خالق عیسی علیہ السلام بھی ہیں لیکن باذن اللہ جیسے حضرت عیسی نے باذن اللہ تخلیق کی ہے اسی طرح عظیم الشان کارکنان قدرت نے بھی باذن اللہ تخلیق کی ہے لیکن جوڑ میں اور اللہ تعالی کی بذات خود تخلیق دونوں طرح ہے جوڑ اور بغیر جوڑ اسی لیے
سورہ 23آیت نمبر 14
ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ ۚ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ
میں فرمایا گیا کہ اللہ سبحانہ وتعالی خالق نھیں بلکہ احسن الخالقین ہے اور صاف واضح ہے کہ خالقین جمع ہے لیکن یہ سب ہوتے ہیں باذن اللہ اس لیے اس میں شرک کا کوئی شایبہ نھیں آسکتا
 
شمولیت
مارچ 15، 2012
پیغامات
154
ری ایکشن اسکور
493
پوائنٹ
95
ماشااللہ یہ ہے عظیم الشان تحقیق- گویا قران صرف کلام الہی نہیں بلکہ کارکنان قدرت کا کلام بھی ہے- اس زلف پہ بھپتی شب دیجور کی سوجھی اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی
 

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
ماشااللہ یہ ہے عظیم الشان تحقیق- گویا قران صرف کلام الہی نہیں بلکہ کارکنان قدرت کا کلام بھی ہے- اس زلف پہ بھپتی شب دیجور کی سوجھی اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی
اچھا عبدالعلام صاحب ایک سوال کا جواب دیں کہ قرآن مجید میں لکھا ھوا ہے ومن کل شیء خلقنا زوجین
ھم نے ہر چیز جوڑے میں میں پیدا کیا ہے اب کرسچن اس پر یہ اعتراض کررہے ہیں کہ ساینس کی مطابق کچھ چیزیں ایسی بھی ہے جو جوڑے میں نھیں ہے تو آپ بتادے اس کا آپ کیا جواب دینگے ؟؟؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
اچھا عبدالعلام صاحب ایک سوال کا جواب دیں کہ قرآن مجید میں لکھا ھوا ہے ومن کل شیء خلقنا زوجین
ھم نے ہر چیز جوڑے میں میں پیدا کیا ہے اب کرسچن اس پر یہ اعتراض کررہے ہیں کہ ساینس کی مطابق کچھ چیزیں ایسی بھی ہے جو جوڑے میں نھیں ہے تو آپ بتادے اس کا آپ کیا جواب دینگے ؟؟؟
اللہ کے بندے! کرسچن تو قرآن پاک اور نبی کریمﷺ پر بھی تو اعتراض کر رہے ہیں ان سے دستبرداری کر دو گے؟
 

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
ماشااللہ یہ ہے عظیم الشان تحقیق- گویا قران صرف کلام الہی نہیں بلکہ کارکنان قدرت کا کلام بھی ہے- اس زلف پہ بھپتی شب دیجور کی سوجھی اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی

اس زلف پہ بھپتی شب دیجور کی سوجھی اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی[/quote]
جناب جب اندھیرا ھوتا ہے تو آنکھ والے اور اندھے دونوں کو کچھ نظر نھیں آتا لیکن جب جگہ روشن ھوجاے تو جس کو نظر نا آے اسی اندھا کہتے ہیں ھم جس دور سےگذر رھے ہیں یہ روشنی کا دور ہے
 
شمولیت
مارچ 15، 2012
پیغامات
154
ری ایکشن اسکور
493
پوائنٹ
95
اچھا عبدالعلام صاحب ایک سوال کا جواب دیں کہ قرآن مجید میں لکھا ھوا ہے ومن کل شیء خلقنا زوجین
ھم نے ہر چیز جوڑے میں میں پیدا کیا ہے اب کرسچن اس پر یہ اعتراض کررہے ہیں کہ ساینس کی مطابق کچھ چیزیں ایسی بھی ہے جو جوڑے میں نھیں ہے تو آپ بتادے اس کا آپ کیا جواب دینگے ؟؟؟
الیاسی صاحب ان کرسچن کی بات اپ نہ ہی کریں تو بہتر ہے- ہمارے لیے تو بھیا جو ہیں آپ ہیں- آپ نے اپنے استاد محترم کی جو تحقیق پیش فرماءی ہے اس کا خلاصہ میں یہ سمجھا ہوں کہ آپ حضرات کے نزدیک قران میں جہاں جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے ان میں بہت سے مقامات پر وہ اللہ کا کلام ہے ہی نہیں بلکہ کارکنان ٖقدرت کا کلام ہے- گویا قران کو صرف کلام الہی سمجھنا غلطی ہے(نعوذباللہ)- دوسرے جو چیزیں جوڑا جوڑا بنائ گیی ہیں وہ کارکنان قدرت کی تخلیق ہے اور اللہ نے صرف وہ چیزیں بنای جو جوڑا نہیں ہیں -اگر میں صحیح سمجھا ہوں تو بتادیں تاکہ ناچیز کچھ عرض کرسکے-
 
شمولیت
اگست 08، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
519
پوائنٹ
57
الیاسی !! ھر چیز ایٹم سے بنی ہے اور ایٹم کے جوڑے ہوتے ہیں لہذا ہر چیز جو بنی ہے جوڑوں پر مبنی ہے ۔
الیاسی !! علماء اھل سنت سے علم حاصل کرو ۔
 

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
مکرر کہتا ہوں:
جو کام اللہ سبحانہ وتعالی نے بذات خود کیا ہو وھاں پر مفرد کا صیغہ استعمال ہوتاہے اور جھاں پر کسی نا کسی طریقے سے اللہ سبحانہ وتعالی نے کارکنان قدرت ک یعنی اپنے کسی مخلوق کو استعمال کیا ہو تو وھاں جمع کی صیغے کو استعمال کیا گیا ہے یہ ہے میری استاد محترم کی موقف
 
Top