- شمولیت
- جون 11، 2015
- پیغامات
- 401
- ری ایکشن اسکور
- 13
- پوائنٹ
- 79
السلام علیکم!جناب ! آپ کی کافی پوسٹس کو (جو کہ کافی طویل تھیں ) پڑھا جا چکا ہے اور اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ آپ ذہن پرستی کا شکار ہیں !
آمین !
اس پوسٹ یا تھریڈ کا بنیادی "ٹائٹل " جو درج ہے وہ یہی ہے کہ "قرآن لاریب ہے!! حدیث کی طرف پھر رجوع کیوں؟"
لیکن آپ خود ہی واقف نہیں اور بحث برائے بحث جاری رکھے ہوۓ ہیں
لیجیے اپنی تحریر ملاحظہ کیجیے :
خط کشیدہ الفاظ آپ کے سامنے ہیں !
اگر آپ حدیث کو منزل من الله مانتے ہیں تو پھر اس کا انکار کیوں ؟؟؟
اگر آپ یہ کہیں کہ" تعلیمات قرآنی کے خلاف ہے بات ، لہذا درست نہیں " تو عرض یہ ہے کہ اگر اسی طرح اگر کوئی آیت دوسری آیت کے خلاف ہو تو کیا وہ بھی موضوع ہےیا نہیں ؟؟؟
اگر وہ آیت موضوع نہیں تو پھر وہ حدیث کیوں ؟؟؟
نوٹ : قرآن کی دو آیتوں میں بظاہر تضادنظر آتا ہے لیکن ہم دونوں کو تسلیم کرتے ہیں کسی ایک کو بھی مسترد نہیں کرتے ۔ کسی ایک کا بھی انکار نہیں کرتے ۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ اس کی وجہ سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ دونوں ثابت شدہ ہیں ۔ ثابت شدہ چیز کا انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ یہی چیز حدیث کے معاملہ میں بھی صحیح ہے اگر کسی آیت اور کسی حدیث میں تضاد نظر آئے تو اگر حدیث ثابت شدہ ہے تو اس کا انکار نہیں کیا جائے گا بلکہ دونوں میں تطبیق کی صورت پیدا کی جائے گی ۔
مثال کے طور پر۔
صحیح بخاری۔كتاب الجهاد والسير۔کتاب جہاد کا بیان
باب ما يذكر من شؤم الفرس:
باب: اس بیان میں کہ بعض گھوڑے منحوس ہوتے ہیں
حدیث نمبر: 2858
صحیح بخاری۔كتاب الجهاد والسير۔کتاب جہاد کا بیان
باب ما يذكر من شؤم الفرس:
باب: اس بیان میں کہ بعض گھوڑے منحوس ہوتے ہیں
حدیث نمبر: 2858
حدثنا ابو اليمان اخبرنا شعيب عن الزهري قال: اخبرني سالم بن عبد الله ان عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول:"إنما الشؤم في ثلاثة في الفرس والمراة والدار".
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:"إِنَّمَا الشُّؤْمُ فِي ثَلَاثَةٍ فِي الْفَرَسِ وَالْمَرْأَةِ وَالدَّارِ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں سالم بن عبداللہ نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ”نحوست صرف تین چیزوں میں ہوتی ہے۔ گھوڑے میں، عورت میں اور گھر میں۔“
سنن أبي داود۔كتاب الكهانة والتطير۔کہانت اور بدفالی سے متعلق احکام و مسائل
باب في الطيرة
باب: بدشگونی اور فال بد لینے کا بیان۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:"إِنَّمَا الشُّؤْمُ فِي ثَلَاثَةٍ فِي الْفَرَسِ وَالْمَرْأَةِ وَالدَّارِ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں سالم بن عبداللہ نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ”نحوست صرف تین چیزوں میں ہوتی ہے۔ گھوڑے میں، عورت میں اور گھر میں۔“
سنن أبي داود۔كتاب الكهانة والتطير۔کہانت اور بدفالی سے متعلق احکام و مسائل
باب في الطيرة
باب: بدشگونی اور فال بد لینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3922
حدثنا القعنبي حدثنا مالك عن ابن شهاب عن حمزة وسالم ابني عبد الله بن عمر عن عبد الله بن عمر ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " الشؤم في الدار والمراة والفرس " قال ابو داود: قرئ على الحارث بن مسكين وانا شاهد اخبرك ابن القاسم قال: سئل مالك عن الشؤم في الفرس والدار قال: كم من دار سكنها ناس فهلكوا ثم سكنها آخرون فهلكوا؟ فهذا تفسيره فيما نرى والله اعلم قال ابو داود: قال عمر رضي الله عنه: حصير في البيت خير من امراة لا تلد.
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ حَمْزَةَ، وَسَالِمٍ ابْنَيْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:"الشُّؤْمُ فِي الدَّارِ وَالْمَرْأَةِ وَالْفَرَسِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: قُرِئَ عَلَى الْحَارِثِ بْنِ مِسْكِينٍ وَأَنَا شَاهِدٌ، أَخْبَرَكَ ابْنُ الْقَاسِمِ، قَالَ: سُئِلَ مَالِكٌ عَنِ الشُّؤْمِ فِي الْفَرَسِ وَالدَّارِ، قَالَ: كَمْ مِنْ دَارٍ سَكَنَهَا نَاسٌ، فَهَلَكُوا ثُمَّ سَكَنَهَا آخَرُونَ، فَهَلَكُوا؟ فَهَذَا تَفْسِيرُهُ فِيمَا نَرَى وَاللَّهُ أَعْلَمُ، قَالَ أَبُو دَاوُد: قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: حَصِيرٌ فِي الْبَيْتِ خَيْرٌ مِنَ امْرَأَةٍ لَا تَلِدُ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نحوست گھر، عورت اور گھوڑے میں ہے ۱؎“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: حارث بن مسکین پر پڑھا گیا اور میں موجود تھا کہ ابن قاسم نے آپ کو خبر دی ہے کہ امام مالک سے گھوڑے اور گھر کی نحوست کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: بہت سے گھر ایسے ہیں جس میں لوگ رہے تو وہ مر گئے پھر دوسرے لوگ رہنے لگے تو وہ بھی مر گئے، جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہی اس کی تفسیر ہے، واللہ اعلم۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ گھر کی ایک چٹائی بانجھ عورت سے اچھی ہے۔
عائشہؓ نے کہا یہ صحیح نہیں ، ابو ہریرہؓ نے آدھی بات سنی اور آدھی نہیں سنی، آپؐ پہلا فقرہ کہہ چکے تھے کہ ابو ہریرہؓ پہونچے، آپ نے یہ فرمایا کہ’’ یہود کہتے ہیں کہ بد شگونی تین چیزوں میں ہے ، عورت میں ، گھوڑے میں ، گھر میں ۔‘‘
٭ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ وسلم) نے دو بار خدائے عزوجل کو دیکھا ، مسروق تابعی نے عائشہؓ سے جا کر پوچھا ’’مادرِ من! کیا محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) نےاللہ کو دیکھا تھا۔‘‘ عائشہؓ نے کہا تم ایسی بات بولے جس کو سن کر میرے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو گئے ، جو تم سے یہ کہے کہ محمدؐ نے اللہ کو دیکھا وہ جھوٹ کہتا ہے، پھر یہ آیت پڑھی:
سورۃ الانعام 6۔
لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ ۡ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ ۚ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ ١٠٣
نگاہیں اس کو نہیں پا سکتیں اور وہ نگاہوں کو پالیتا ہے ، وہ نہایت باریک ہیں اور باخبر ہے۔(103)
دیکھو تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے بصیرت کی روشنیاں آگئی ہیں ، اب جو بینائی سے کام لے گا اپنا ہی بھلا کرے گا اور جو اندھا بنے گا خود نقصان اُٹھائے گا۔ میں تم پر کوئی پاسبان نہیں ہوں۔(104)
اس کے بعد یہ دوسری آیت پڑھی:
سورۃ الشوری42۔ کسی بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اُس سے رُو برو بات کرے ۔اُس کی بات یا تو وحی (اشارے ) کے طور پر ہوتی ہے یا پردے کے پیچھے سے ، یا پھر وہ کو ئی پیغام بر (فرشتہ ) بھیجتا ہے اور وہ اُس کے حکم سے جو کچھ وہ چاہتا ہے وحی کرتا ہے ، وہ برتر اور حکیم ہے۔(51)
یہ امر مسلّم ہے کہ محرم اسرار سے محرم اسرار دوست کی بنسبت بیوی بہت کچھ زیادہ جان سکتی ہے ، آنحضرت(صلی اللہ علیہ وسلم) ہمہ تن مثال اور اسوہ تھے،
سورۃ الانعام 6۔
لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ ۡ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ ۚ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ ١٠٣
نگاہیں اس کو نہیں پا سکتیں اور وہ نگاہوں کو پالیتا ہے ، وہ نہایت باریک ہیں اور باخبر ہے۔(103)
دیکھو تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے بصیرت کی روشنیاں آگئی ہیں ، اب جو بینائی سے کام لے گا اپنا ہی بھلا کرے گا اور جو اندھا بنے گا خود نقصان اُٹھائے گا۔ میں تم پر کوئی پاسبان نہیں ہوں۔(104)
اس کے بعد یہ دوسری آیت پڑھی:
سورۃ الشوری42۔ کسی بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اُس سے رُو برو بات کرے ۔اُس کی بات یا تو وحی (اشارے ) کے طور پر ہوتی ہے یا پردے کے پیچھے سے ، یا پھر وہ کو ئی پیغام بر (فرشتہ ) بھیجتا ہے اور وہ اُس کے حکم سے جو کچھ وہ چاہتا ہے وحی کرتا ہے ، وہ برتر اور حکیم ہے۔(51)
یہ امر مسلّم ہے کہ محرم اسرار سے محرم اسرار دوست کی بنسبت بیوی بہت کچھ زیادہ جان سکتی ہے ، آنحضرت(صلی اللہ علیہ وسلم) ہمہ تن مثال اور اسوہ تھے،
اب دلیل کس بات کو کہا جا رہا ہے۔۔۔بتائیں تو صحیح۔۔۔کہاں سے جواب لیا جا رہا ہے ۔۔اور کون جواب دے رہا ہے ان کی شان کیا ہے !بیان کر سکتے ہیں جن کا نام لیا جا رہا ہے ان کی شان کیا ہے ؟
مولانا کی شان زیادہ ہے میرا خیال ہے شایدآپ کے نزدیک!