- شمولیت
- جون 11، 2015
- پیغامات
- 401
- ری ایکشن اسکور
- 13
- پوائنٹ
- 79
السلام علیکم!
بڑی بات ہے کبھی تو جواب دینا سیکھیں جب جب سوال کرتا ہوں صرف آپ سے سوال ہی ملتا ہے میں بھی ہوں جواب پر جواب دیتا رہتا ہوں جناب عالی کو۔جناب آپ نے کہا تھا کہ۔
سورۃ الفرقان 25آیت نمبر 5۔
وَقَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلٰى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا
کہتے ہیں ’’ یہ پرانے لوگوں کی لکھی ہوئی چیزیں ہیں جنہیں یہ شخص نقل کراتا ہے اور وہ اِسے صبح و شام سنائی جاتی ہیں‘‘ (5)
آپ کی غلط فہمی کہ میں نے آپ کو ابھی تک جواب نہیں دیا اور آپ کی خوش فہمی بھی جبکہ میں جواب بہت واضح دے چکا ہوں۔مختلف آیات سے آپ کو سمجھایا اور ساتھ احادیث سے بھی لیکن آپ کے سامنے سب کچھ چھان بورا ہے ۔لیکن میرے لئے پختہ دلیل ہے ۔
آپ جناب اشماریہ صاحب کا فرمان ہے کہ۔
استغفراللہ ۔۔۔۔۔تہمت بھی ایسی لگا رہے ہیں چلیں آپ کو ایک بار پھر یہ روایت دیکھا دیتا ہوں اس میں ہے کیا۔۔۔۔۔یہ وہ وحی قرآن ہے جو کاتب وحی لکھتے تھے(نبی کریم ﷺ کے پاس محفوظ حالت میں لکھا ہوا تھا ) اور ان کو ایک جگہ محفوظ رکھا گیا یہ بانٹنے کے لئے نہیں تھا بلکہ ضرورت کے وقت نبی کریم ﷺ سے مانگ لیا کرتے تھے (جیسے آج 2017 میں مسجدوں میں قرآن یا مختلف کتابیں ہوتی ہیں اور وہ قابلے واپسی ہوتی ہیں یہ مسجد کی ملکیت ہوتی ہیں )یعنی قابلے واپسی تھا ، کسی نے کچھ پڑھنا ہو اپنی درستگی کرنی ہو تلاوت کلام کے لئے کسی مہمان کی تبلیغ کے لئے اس کو قابلے واپسی دیا جاتا تھا۔۔۔الو بالو چیز ونڈی دی لئی جائو ۔۔۔۔کے لئے نہیں دیا جاتا تھا ۔۔۔۔۔۔
امام ابن ابی عاصم متوفی 287 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عثمان بن ابی العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں ثقیف کے کچھ لوگوں کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضرہوا ، انہں نے مجھ سے کہا : تم ہمارے سامان اور سواریوں کی حفاظت کرو ، میں نے کہا : اس شرط پر کہ تم فارغ ہونے کے بعد میرا انتظار کرنا ، وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے اپنی ضروریات کے متعلق سوال کیا ، پھر وہ باہر آگئے تو میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا ، میں نے آپ سے مصحف (قرآن مجید کا مترتب لکھا ہوا نسخہ یا کتاب) کا سوال کیا جو آپ کے پاس موجود تھا تو آپ نے مجھے وہ عطا فرما دیا ، تاہم یہ مصحف ایک جلد میں نہیں تھا ، اس کے متعدد اجزاء تھے ۔
٭ضرورت کے وقت کے حساب سے مانگا گیا ۔
٭ایک جلد میں نہیں تھا مکمل لیکن ایک جگہ تھا نہ کہ لوگوں کے پاس ۔۔۔۔۔۔ایسا نہیں ہوا کہ نبی کریم ﷺ سے قرآن کا مطالبہ کیا ہو اب تلاش کرو کہاں گیا !وہ تو فلاں لے گیا !وہ فلاں آیات فلاں لے گیا !اس کے پیچھے بھاگو! اور دوسری فلاں شخص لے گیا وہ مل نہیں رہا! اب وہ آیت کہاں گئی مصحف! چلو پھر سے سارا قرآن لکھتے ہیں۔۔۔سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 282آپ کے لئے کسی وجہ سے لگائی گئی تھی جس کو آپ نے نظر انداز کردیا کہ یہ تو عام لین دین ہے بھائی یہی بتارہا یہ عام لین دین کے لکھنےکی اتنی اہمیت ہے اور قرآن کی کوئی اہمیت ہی نہیں خود مانتے ہو۔ قرآن 23 سال میں نازل ہوتا رہا،یاد بھی کروایا گیا،لکھوایا بھی گیا۔لیکن مکمل مانتے ہوئے کیوں شرم آتی ہے جناب کو ایک جگہ مرتب تھا ترتیب سے دیا گیا یہ مانتے ہوئے کیوں شرم آتی ہے۔۔جناب کو۔
سورۃ جاثیہ 45۔اور جب ہماری واضح آیات انہیں سنائی جاتی ہیں تو اِن کے پاس کوئی حجت اس کے سوا نہیں ہوتی کہ اٹھا لائوہمارے باپ دادا کو اگر تم سچے ہو ۔(25)
واہ کیا بات ہے میرے بھائی کی۔۔۔۔کیا بات کرتے ہو یار کچھ تو خیال کرو۔۔۔
بنیا د ہی غلط ہو تو اس پر بلند عمارت آپ کیسے تعمیر کر سکتے ہیں۔
آپ کی بنیاد ہی جھوٹ ،تہمت،قیاس،فہم،وہم پر ہو اس کا دین کیسا ہو گا۔؟!!!!!!!؟
بڑی بات ہے کبھی تو جواب دینا سیکھیں جب جب سوال کرتا ہوں صرف آپ سے سوال ہی ملتا ہے میں بھی ہوں جواب پر جواب دیتا رہتا ہوں جناب عالی کو۔جناب آپ نے کہا تھا کہ۔
میرے پیارے بھائی! اشماریہ صاحب۔
اشماریہ صاحب کہتے ہیں۔ جو آیت نازل ہوتی آیت کا نسخہ جب لوگ مانگتے تھے تو انہیں دے دیا جاتا تھا۔
٭میرا آپ سے سوال ہے کہ کیا جو کاتب وحی آیت لکھتے تھے وہی نسخہ دے دیا جاتا تھا یا ۔۔۔۔۔۔اس کی نکل؟
آپ اس بات کا جواب دیں دلیل کے ساتھ کہ جو کاتب وحی آیت نازل ہونے پر لکھتے تھے وہ میٹھائی کی طرح( آیت کا نسخہ دے دیا جاتا تھا!) بانٹ(لوگوں میں تقسیم کر دیتے تھے؟!!) یعنی وہ الو بالو چیز ونڈی دی لئی جائو۔۔۔۔کرتے تھے۔۔۔ اچمبہ کی بات ہے
یہ لیں میری دلیل۔یہ آپ کا ایمان ہے دلیل نہیں۔ اس پر کوئی دلیل دیجیے۔
سورۃ الفرقان 25آیت نمبر 5۔
وَقَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلٰى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا
کہتے ہیں ’’ یہ پرانے لوگوں کی لکھی ہوئی چیزیں ہیں جنہیں یہ شخص نقل کراتا ہے اور وہ اِسے صبح و شام سنائی جاتی ہیں‘‘ (5)
٭ابھی تک آپ کو یہی نہیں معلوم کہ میں آپ کے کس بات سے اتفاق کرتا ہوں اور کس سے نہیں۔بہرحال جب نبی کریم ﷺ کی رحلت ہوئی تو اس وقت ایک ایسے نسخے کی موجودگی، جو کہ تمام منسوخ آیات سے خالی ہو اور ایک مکمل کتاب کی شکل میں مرتب ہو، پرکوئی دلیل نہیں ہے۔ اسی پر آپ سے آیت یا حدیث کا مطالبہ کیا تھا جو آپ نے اب تک نہیں دی۔
نیز آپ سے عرض کیا تھا کہ ہمارے موقف میں جتنی بات سے آپ کو اتفاق ہو وہ بتا دیجیے۔
آپ کی غلط فہمی کہ میں نے آپ کو ابھی تک جواب نہیں دیا اور آپ کی خوش فہمی بھی جبکہ میں جواب بہت واضح دے چکا ہوں۔مختلف آیات سے آپ کو سمجھایا اور ساتھ احادیث سے بھی لیکن آپ کے سامنے سب کچھ چھان بورا ہے ۔لیکن میرے لئے پختہ دلیل ہے ۔
میرے بھائی میں کسی بھی معاملے میں دلیل مانگوں چاہے مثبت ہو،منفی ہو،تقسیم ہو ،ضرب ہو،لیکن آپ کو دلیل دینی پڑے گی ۔۔۔۔یہ آپ کا قیاس ہے جو آپ نے اتنی آسانی سے فرما دیا ہے ۔جو نسخے نبی کریم ﷺ کے پاس ہوتے تھے وہ آپ ﷺ دے دیا کرتے تھے جیسا کہ اس روایت میں ہے۔ اگلے نسخے میں منسوخ آیات یقیناً نکال دی جاتی ہوں گی لیکن اس پر کوئی دلیل نہیں ہے اور دلیل کسی نئی چیز کو ثابت کرنے کے لیے دی جاتی ہے نہ کہ اس کی نفی کرنے کے لیے۔ آپ مجھ سے، معذرت کے ساتھ، نفی پر دلیل مانگ رہے ہیں۔
آپ جناب اشماریہ صاحب کا فرمان ہے کہ۔
جو نسخے نبی کریم ﷺ کے پاس ہوتے تھے وہ آپ ﷺ دے دیا کرتے تھے جیسا کہ اس روایت میں ہے
استغفراللہ ۔۔۔۔۔تہمت بھی ایسی لگا رہے ہیں چلیں آپ کو ایک بار پھر یہ روایت دیکھا دیتا ہوں اس میں ہے کیا۔۔۔۔۔یہ وہ وحی قرآن ہے جو کاتب وحی لکھتے تھے(نبی کریم ﷺ کے پاس محفوظ حالت میں لکھا ہوا تھا ) اور ان کو ایک جگہ محفوظ رکھا گیا یہ بانٹنے کے لئے نہیں تھا بلکہ ضرورت کے وقت نبی کریم ﷺ سے مانگ لیا کرتے تھے (جیسے آج 2017 میں مسجدوں میں قرآن یا مختلف کتابیں ہوتی ہیں اور وہ قابلے واپسی ہوتی ہیں یہ مسجد کی ملکیت ہوتی ہیں )یعنی قابلے واپسی تھا ، کسی نے کچھ پڑھنا ہو اپنی درستگی کرنی ہو تلاوت کلام کے لئے کسی مہمان کی تبلیغ کے لئے اس کو قابلے واپسی دیا جاتا تھا۔۔۔الو بالو چیز ونڈی دی لئی جائو ۔۔۔۔کے لئے نہیں دیا جاتا تھا ۔۔۔۔۔۔
امام ابن ابی عاصم متوفی 287 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عثمان بن ابی العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں ثقیف کے کچھ لوگوں کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضرہوا ، انہں نے مجھ سے کہا : تم ہمارے سامان اور سواریوں کی حفاظت کرو ، میں نے کہا : اس شرط پر کہ تم فارغ ہونے کے بعد میرا انتظار کرنا ، وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے اپنی ضروریات کے متعلق سوال کیا ، پھر وہ باہر آگئے تو میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا ، میں نے آپ سے مصحف (قرآن مجید کا مترتب لکھا ہوا نسخہ یا کتاب) کا سوال کیا جو آپ کے پاس موجود تھا تو آپ نے مجھے وہ عطا فرما دیا ، تاہم یہ مصحف ایک جلد میں نہیں تھا ، اس کے متعدد اجزاء تھے ۔
٭ضرورت کے وقت کے حساب سے مانگا گیا ۔
٭ایک جلد میں نہیں تھا مکمل لیکن ایک جگہ تھا نہ کہ لوگوں کے پاس ۔۔۔۔۔۔ایسا نہیں ہوا کہ نبی کریم ﷺ سے قرآن کا مطالبہ کیا ہو اب تلاش کرو کہاں گیا !وہ تو فلاں لے گیا !وہ فلاں آیات فلاں لے گیا !اس کے پیچھے بھاگو! اور دوسری فلاں شخص لے گیا وہ مل نہیں رہا! اب وہ آیت کہاں گئی مصحف! چلو پھر سے سارا قرآن لکھتے ہیں۔۔۔سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 282آپ کے لئے کسی وجہ سے لگائی گئی تھی جس کو آپ نے نظر انداز کردیا کہ یہ تو عام لین دین ہے بھائی یہی بتارہا یہ عام لین دین کے لکھنےکی اتنی اہمیت ہے اور قرآن کی کوئی اہمیت ہی نہیں خود مانتے ہو۔ قرآن 23 سال میں نازل ہوتا رہا،یاد بھی کروایا گیا،لکھوایا بھی گیا۔لیکن مکمل مانتے ہوئے کیوں شرم آتی ہے جناب کو ایک جگہ مرتب تھا ترتیب سے دیا گیا یہ مانتے ہوئے کیوں شرم آتی ہے۔۔جناب کو۔
سورۃ جاثیہ 45۔اور جب ہماری واضح آیات انہیں سنائی جاتی ہیں تو اِن کے پاس کوئی حجت اس کے سوا نہیں ہوتی کہ اٹھا لائوہمارے باپ دادا کو اگر تم سچے ہو ۔(25)
واہ کیا بات ہے میرے بھائی کی۔۔۔۔کیا بات کرتے ہو یار کچھ تو خیال کرو۔۔۔
بنیا د ہی غلط ہو تو اس پر بلند عمارت آپ کیسے تعمیر کر سکتے ہیں۔
آپ کی بنیاد ہی جھوٹ ،تہمت،قیاس،فہم،وہم پر ہو اس کا دین کیسا ہو گا۔؟!!!!!!!؟