السلام علیکم!
مجھے تکلیف یہ ہے کہ آج 2018 میں یا نبی کریم ﷺ کی وفات کےبعد بہت سے لوگوں نے نبی کریم ﷺ کا نام لے کر جھوٹی باتیں منسوب کیں اور دلائل دئے کہ فلاں صحابی سے ثابت ہے۔اور بعض اوقات انہیں اصاحب کو بھی غلط فہمی ہوتی رہی جس کی درستگی
عائشہ رضی اللہ عنہا کرتی رہیں۔میرا یہ مسئلہ ہے میرے بھائی۔۔۔قرآن کیونکہ لاریب ہے اس کی ذمہ داری اللہ نے لی۔۔۔جب یاد اور لکھوایا جاتا تھا آپ کو کیا تکلیف ہوتی ہے کہ یہ ماننے میں سورۃ البقرہ 282 میں عام لین دین تو احتمام کے ساتھ لکھوایا جاتا رہا لیکن قرآن لکھوایا تو جاتا تھا الو بالو کر دیا جاتا رہا۔۔۔کیا بات ہے ۔
حدیث نمبر: 5093۔
باب: عورت کی نحوست سے بچنے کا بیان،
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے صاحبزادے حمزہ اور سالم نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نحوست عورت میں، گھر میں اور گھوڑے میں ہو سکتی ہے۔
واضح صحابی کو غلط فہمی ہوئی اور وہ سمجھے نبی کریم ﷺ نے یہ فرمایا کہ نحوست تین چیزوں میں ہے۔ گھوڑے، عورت اور گھر میں۔یعنی صحابی نے نبی کریم ﷺ کی بات کو مکمل سن نہیں سکے تھے آدھی بات سنی تھی جن کی درستگی کروائی گئی ۔۔۔تھی تو غلط بات ہی نا ۔۔یعنی صحابی ثقہ ہونے کے باوجود غلط فہمی کا شکا تو ہو گئے نا۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بات کی درستگی عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس طرح فرمائی جبکہ جن کو غلطی لگی وہ ایک ثقہ روای ہیں اصحاب ہیں۔۔۔۔۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے کسی نے بیان کیا کہ
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تین چیزیں نحس ہیں، عورت گھوڑا اور گھر۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے آدھی بات سنی، جب ابو ہریرہ آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلا فقرہ فرما چکے تھے وہ یہ کہ ’’ یہودی کہتے ہیں کہ نحوست تین چیزوں میں ہے عورت، گھر اور گھوڑا۔‘‘
اب اس غلطی کو آپ قرآن کے ساتھ ملا دیتے ہیں کہ ایک آیت دوسری آیت کی تفسیر ہوتی ہے
یہ حقیقت میں
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو غلط فہمی ہوئی آپ اس غلط فہمی کو قرآن کے ساتھ کیسے ملا سکتے ہو قرآن میں ایک بات ہے تو اسی بات کی مزید تشریح و تفسیر کسی اگلی آیات میں ہے یہ نہیں ہے کہ واضح واضح غلط فہمی ،غلط بات کو اگلی کسی آیت سے درست کیا گیا ہو
۔۔۔۔جناب یہ واضح واضح ایک صحابی کی غلط فہمی کو دور کیا گیا ہے جبکہ قرآن میں غلط فہمی نہیں ہے کوئی غلط ،جھوٹ بات،کمزور بات نہیں ہے ۔۔۔۔
جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے ۔۔۔۔قرآن پر اعتراض کرتے رہیں ۔ میں تمام دلائل دے چکا ہوں ۔ تحقیق کی مجھے نہیں آپ کو ضرورت ہے ۔
دلیل1۔٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سورۃ البقرہ 2آیت نمبر282۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، جس کسی مقرر مدت کے لیے تم آپس میں قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔ فریقین کے درمیان انصاف کے ساتھ ایک شخص دستاویز تحریر کرے۔ جسے اللہ نے لکھنے پڑھنے کی قابلیت بخشی ہو ، اسے لکھنے سے انکار نہ کرنا چاہیے۔ وہ لکھے اور اِملا وہ شخص کرائے جس پر حق آتا ہے ( یعنی قرض لینے والا) ، اور اسے اللہ ، اپنے رب سے ڈرنا چاہیے کہ جو معاملہ طے ہوا ہو، اس میں کوئی کمی بیشی نہ کرے۔ لیکن اگر قرض لینے والا خود نادان یا ضعیف ہو ، یا املاء نہ کرا سکتا ہو ، تو اس کا ولی انصاف کے ساتھ املاء کرائے۔ پھر اپنے مردوں میں سے دو آدمیوں کی اس پر گواہی کرالو اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں تاکہ ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے۔ یہ گواہ ایسے لوگوں میں سے ہونے چاہیں ، جن کی گواہی تمہارے درمیان مقبول ہو۔ گواہوں کو جب گواہ بننے کے لیے کہا جائے ، تو انہیں انکار نہ کرنا چاہیے ۔ معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا میعاد کی تعین کے ساتھ اس کی دستاویز لکھوا لینے میں تساہل نہ کرو۔ اللہ کے نزدیک یہ طریقہ تمہارے لیے زیادہ مبنی بر انصاف ہے ، اس سے شہادت قائم ہونے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے ، اور تمہارے شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے کا امکان کم رہ جاتا ہے۔ ہاں جو تجارتی لین دین دست بدست تم لوگ آپس میں کرتے ہو ، اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں ، مگر تجارتی معاملے طے کرتے وقت گواہ کر لیا کرو۔ کاتب اور گواہ کو ستایا نہ جائے۔ ایسا کرو گے ، تو گناہ کا ارتکاب کرو گے۔ اللہ کے غضب سے بچو۔ وہ تم کو صحیح طریقِ عمل کی تعلیم دیتا ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے۔(282)
اب آپ کو اس آیت میں صرف عام لین دین ،قرض کا لین دین نظر آتا ہے ۔۔۔۔اللہ واقع ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔۔۔۔۔۔بے شک۔۔۔
٭اس آیت سے واضح ہوتا ہے جس قوم کو عام لین دین کے معاملات کو ضبط تحریر میں لانے کا ایسا تاکیدی حکم دیا گیا تھا، اس قوم نے اپنی آسمانی کتاب کو تحریر میں لانے کیلئے کیا اہتمام نہیں کئے ہوں گے جو ان کیلئے ضابطہ حیات تھی اور جس کی رہنمائی کی انھیں قدم بہ قدم پر ضرورت تھی اور قرآن کریم تو پوری انسانیت کیلئے تاقیامت ایک ہدایت اور نور (روشنی) ہے تو اس وحی کو لکھنے میں کوتاہی کے بارے میں سوچا ہی نہیں جا سکتا۔
إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍ لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ
(سورة الواقعة 5677تا80)
بیشک یہ قرآن کریم ہے جو کتابی شکل میں محفوظ ہے اس کو وہی مس کرتے ہیں جو مطہرین ہیں جہانوں کے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے۔
وَمَا كُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِهِ مِن كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ ۖ إِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ
﴿سورة العنكبوت29آیت نمبر 48﴾
اور اس سے قبل نہ تو کوئی کتاب پڑھتا تھا اور نہ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتا تھا اس وقت االبتہ باطل پرست شک کرتے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
دلیل 2۔
سورۃ الفرقان 25آیت نمبر 5۔کہتے ہیں ’’ یہ پرانے لوگوں کی لکھی ہوئی چیزیں ہیں جنہیں یہ شخص نقل کراتا ہے اور وہ اِسے صبح و شام سنائی جاتی ہیں‘‘ (5)
طبرانی اوسط میں ہے۔
حضرت زید رضی اللہ عنہ کاتب وحی فرماتے ہیں۔
فااذافرغت قال اقرء فافرءه فان كان فيه سقط اقامه
(مجمع الزوائد ج1 صفحہ 60)
یعنی جب میں لکھ چکتا تو آپ فرماتے کہ اسے سنائو
۔
میں پڑھتا اگر اس میں کوئی غلطی ہوتی۔تو آپ اس کی اصلاح کر ادیتے پس
دیکھو قرآن مجید کے لکھے جانے کی بابت کافروں نے جو کہا تھا۔وہ واقعہ کے کس قدر مطابق تھا۔
دلیل 3۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔!
إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ
اس آیت میں تاکید جملہ کے لئے۔اِنَ اور حصر کے لئے عَلَینَا
مقدم کیا گیا ہے۔مطلب یہ ہوا کہ جمع قرآن صرف ہمارا ہی کام ہے۔اور اہم اسے ضرور ضرور کریں گے۔جمع کی صورتیں دو اور صرف دو ہی ہیں۔
1۔جمع صدر یعنی سینوں میں محفوظ رہنا۔
2۔جمع مکتوبی یعنی تحریر کی صورت میں جمع ہونا۔
1۔اول یعنی جمع صدر کی بابت ارشاد ہے۔
بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ
یعنی یہ کتاب روشن آیات کا مجموعہ ہے۔جو علم والوں کے سینوں میں محفوظ ہے۔
2۔دوم۔یعنی جمع مکتوبی(جو ہمارا مضمون ہے اس کی) کی بابت آیات زیل ملاحظہ ہوں۔
مکی آیات۔
1۔سورہ طور میں ارشاد ہے۔
وَكِتَابٍ مَّسْطُورٍ فِي رَقٍّ مَّنشُورٍ
یعنی یہ کتاب (قرآن جس کو جمع مکتوبی کے لہا ظ سے ''کتاب''فرمایا)کشادہ اوراق میں لکھی ہے۔عربی زبان میں ورق پتلے چمڑے کو کہتے ہیں۔ جس میں اگلے زمانے میں کتابیں لکھی جاتی تھیں۔صراح میں سے رق بالفتح پوست آہو کہ بروے نودیسند''قامو س میں ہے۔رق جلد رقيق يكتب عليه (باریک کھال جس پر لکھا جاتا ہے۔اس کی تایئد عمارۃ بن غزیۃ کی ر وایت قطع الادیم سے ہوتی ہے۔جو فتح الباری میں ہے۔
انما كان في الاديم اولا قبل ان يجمع في عهد ابي بكر
(پ20 صفحہ 423)
یعنی عہد ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جمع سے پیشتر قرآن مجید پہلے قطعات ادیم یعنی چمڑہ پر لکھا جاتا تھا۔
2۔
ا ِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍ لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ
(سورۃ واقعہ 79۔77)
یعنی یہ قرآن عزت والا ہے۔محفوظ کتاب میں لکھا ہوا ہے۔اس کو پاک لوگ(صحابہ کاتبان وحی لکھنے کے وقت )چھوتے ہیں۔اس آیت میں کاتبین قرآن کی طہارت اور صفائی کا بیان ہوا ہے۔جس سے حفاظت کے لئے احتیاط کا بیان کرنا مقصود ہے اس کی تفصیل تیسری آیت میں ملاحظ ہو۔
3۔
فِي صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍ ﴿١٣﴾ مَّرْفُوعَةٍ مُّطَهَّرَةٍ ﴿١٤﴾ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ ﴿١٥﴾ كِرَامٍ بَرَرَةٍ ﴿١٦﴾
(سورۃ عبس 13 تا 16)
یعنی یہ قرآن عزت والے۔بلند قدر۔پاکیزہ۔صحیفوں میں ۔بزرگ اور نیک کاتبوں کے ہاتھوں سے لکھا ہے۔اس آیت میں قرآن کے لکھنے والے صحابہ کی نیکی اور بزرگی نیز اُن کا عمل و اعتقاد دونوں میں درست ہونا بیان ہوا ہے۔جس کی وجہ سے کمی بیشی کا شبہ اور خیانت کا احتمال پیدا ہی نہیں ہوسکتا۔
دلیل 4۔
عمر فاروق کے واقع پر غور کریں تو انہیں صرف یہ معلوم تھا کہ ایک محمد ہے جو اپنے آپ کو اللہ کا پیغمبر کہتا ہے لیکن وہ نبی کریم ﷺ پر ابھی ایمان نہیں لائے ایمان لائے تو قرآن مجید کو پڑھ کر سمجھ کر وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ میں اسلام قبول کرنا چہتا ہوں۔
اب یہاں غور فرمائیں میرے پیارے اشماریہ صاحب عمر فاروق رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ پر پہلے ایمان نہیں لائے پہلے کس چیز کو دیکھ کر پڑھ کر سن کر ایمان لائے ۔۔۔۔۔۔(؟)۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ خود جواب دیں اس سوال کا شکریہ۔
مدنی آیات۔
اب بعض مدنی آیتیں ملاحظہ ہوں۔جن میں قرآن کے مکتوب ہونے کا بہت زیادہ زکر ہے۔
5۔رَسُولٌ مِّنَ اللَّـهِ يَتْلُو صُحُفًا مُّطَهَّرَةً
یعنی اللہ کے رسول ﷺنوشتہ پاک کی تلاوت فرماتے ہیں۔اس آیت کی تفسیر فتح الباری میں یوں مرقوم ہے۔
قد اعلم الله في القران بانه مجموع في الصحف في قوله يَتْلُو صُحُفًا مُّطَهَّرَةً الاية وكا ن القران مكتوبا في الصحف (پ2 ص422(
یعنی اللہ نے آیت مذکورہ میں خبر دی ہے۔کہ قرآن مجید صحیفوں میں مکتوب و مجموع ہے۔
6۔سارے قرآن پاک میں بہت سے مقامات پر اس کتاب کا نام الکتاب (یعنی مکتوب) آیا ہے شروع میں ہی ہے۔
ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ (سورۃ بقرہ ۔2(
اس کتاب میں شک کا دخل نہیں ہے۔
پس اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے موافق دونوں مذکورہ صورتوں (جمع صدر جمع مکتوبی) کے زریعے سے قرآن کو زمانہ نبوت ہی میں جمع کرادیا تھا۔اور ان دونوں صورتوں کو باہم اس لئے مقرر فرمایا کہ بسا اوقات کتابت میں غلطی ہو جاتی ہے۔تو اسکی اصطلاح ضبط صدر(حافظہ)سے ہوجائےگی۔اور حافظ میں نسیان یا بھول واقع ہو تو ضبط کتاب سے غلطی رفع ہو جائے گی۔اس لئے آپ ﷺ حفاظت قرآن کے لئے ہردو امور(ضبط صدر۔ضبط مکتوبی)کا بہت خیال رکھتے تھے۔صحابہ کرام کو یاد بھی کرادیتے (چنانچہ حدیث بیئر معونہ میں جو ستر قراء شہید ہوئے ان قراء کی بابت فتح الباری میں ہے۔
الذين اشتهروا بحفظ القران
)پ2(
یعنی یہ ستر صحابہ قرآن کے مشہور حافظوں میں سے تھے۔اس طرح ان کو لکھوا بھی دیتے تھے۔
دلیل 5۔
ترتیب آیات۔
آیت مذکورہ سے یہ امر بھی ثابت ہوتا ہے۔کہ جمع صدر اور جمع مکتوبی ہردو میں آیات کی ترتیب بھی اللہ تعالیٰ کی مقرر فرمائی ہوئی ہے۔اس کا بیان اس طور پر ہے۔کہ آیتوں کا نزول حسب ضرورت ہوا کرتا لیکن جمع کی ترتیب (جس کا زکر اس حدیث میں ہے۔
كان النبي مما تتنزل عليه الايات فيدعوا بعض من يكتب له ويقول له ضع هذه الاية في السورةالتي يذكر فيهاكذا وكذا
(رواہ ابودائود)
یعنی آپ پر جب آیتیں اتریں۔تو کاتب کوبلاکر فرماتے کہ اس آیت کو فلاں سورت میں لکھو۔یہ ترتیب اللہ تعالیٰ کی طرف سے القاء ہوتی جیسا کہ سورہ نحم (آیت 473)میں فرمایا !
وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ
یعنی دین سے متعلق جو کچھ آپ فرمایئں۔وہ سب وحی خدا ہوتا ہے۔آپ کی خواہش کو اس میں دخل نہیں ہے۔چنانچہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب آیت
وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّـهِ آلایۃ نازل ہوئی۔
فقال جبرئيل للنبي ضعها علي راس ما ئتين وثمانين من سورةالبقرة (خازن ج1 ص 206)
تو جبریل علیہ السلام نے نبی کریم ﷺ سے کہا کہ اس آیت کوسورۃ بقرہ کی دو سواسی آیت کے بعد لکھوایئے گا۔موجودہ قرآن میں اس آیت کا نمبر 281 ہے۔
معلوم ہواکہ قرآن مجید کی ایک ایک آیت نمبر وار اور ترتیب سے ہے۔نیز یہ ترتیب توفیقی یعنی من جانب اللہ ہے۔علاوہ ازیں سنن ابی دائود میں آیا ہے۔
كان النبي صلي الله عليه وسلم لا يعرف فصل السورة حتي تنزل بسم الله الرحمان الرحيم
یعنی جب تک بسم اللہ نہ اُترتی آپ کو سورۃ پوری ہو جانے کاعلم نہیں ہوتا تھا۔
(مشکواۃ ص 185
)
دلیل 6۔
قرآن مجید میں کسی آیت یا سورۃ کا جو حوالہ دیاجاتاہے۔وہ بھی موجودہ جمع و ترتیب کو من جانب اللہ ثابت کرتاہے۔چنانچہ سورۃ ھود میں فرمایا!
قُلْ فَأْتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ (آیت 13)
یعنی لے آئو دس سورتیں مثل اس کے گھڑ کر۔
یہ حکم سورہ ھود میں دیا گیا ہے۔جو گیارہویں سورۃ ہے۔اس سے پیشتر واقعی دس ہی سورتیں ہیں۔اسی طرح سورۃ نساء میں فرمایا!
وَمَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ
(سورۃ النساء آیت 127)
اس آیت میں جس آیت کا حوالہ دیا گیا ہے۔وہ علیٰ اختلاف الاقوال آیت میراث یا
وَآتُوا الْيَتَامَىٰ أَمْوَالَهُمْ (آیت نمبر 2)
وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ
(آیت نمبر 3)ہے اور یہ سب آیتیں سورۃ النساء کی ہیں۔اور پہلے واقع ہیں۔علیٰ ہذالقیاس سورۃ حج میں فرمایا!
وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ (آیت نمبر 30)
اس آیت میں جن حرام جانوروں کی آیتوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔وہ سب اسی سورت سے پہلے کی سورتوں میں واقع ہیں۔یعنی سورۃ بقرہ سورہ مائدہ سورہ انعام اور سورہ نحل اس کے بعد کسی سورت میں تاآخر قرآن نہیں ہیں۔اس حسن ترتیب کے لہاظ سے قرآن مجید کو''کلاموصول''بھی فرمایا گیا ہے۔چنانچہ ارشاد ہے۔
وَلَقَدْ وَصَّلْنَا لَهُمُ الْقَوْلَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ﴿٥١﴾
(قصص 28 پ ۔51آیت)
اور (نصیحت کی) بات پے در پے ہم انہیں پہنچا چکے ہیں تاکہ وہ غفلت سے بیدار ہوں۔(51)
اور سورۃ البقرہ آیت نمبر 282 میں عام لین دین کے بارے میں فرمایا گیا ہے۔
درج ذیل آیت میں ایک لفظ "قرطاس"استعمال ہوا ہے جس کا مطلب کاغذ ہوتا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ نبی ؐ کے وقت میں بھی کاغذ کا وجود تھا چاہے وہ کوئی بکری کی کھال کا ہی کیوں نہ بنایا ہو۔.سورۃ الانعام 6۔
وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتٰبًا فِيْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوْهُ بِاَيْدِيْهِمْ لَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ هٰذَآ اِلَّا سِحْـرٌ مُّبِيْنٌ Ċ
اے پیغمبر ﷺ ، اگر ہم تمہارے اوپر کوئی
کاغذ میں لکھی لکھائی کتاب بھی اتار دیتے اور لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چھو کر بھی دیکھ لیتے تب بھی جنہوں نے حق کا انکار کیا ہے وہ یہی کہتے کہ یہ تو صریح جادو ہے۔ (7)
زمانہ نزول قرآن میں عربوں میں کتابت (لکھنے پڑھنے) کا رواج اتنا عام تھا کہ مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ
سورة البقرة کی آیت نمبر 282 میں قرض کا لین دین کے بارے میں جو اوپر بیان کر چکا ہوں۔
دلیل نمبر 7۔
٭ لکھنے کا رواج ایک حدیث سے بھی ثابت ہے جب نبی کریم ﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی اور وہ ورقہ بن نوفل کے پاس گئے وہ تورات کو عبرانی زبان میں ترجمہ کرکے لکھتے بھی تھے۔ ۔
دلیل نمبر 8۔
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 473 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 7 متفق علیہ 6
۔۔۔آخری الفاظ یہاں لگا رہا آپ کی آنکھیں کھولنے کے لئے اس وقت اگر سفید کاغذ استعمال نہیں ہوتا تھا تو اس میں اس کا ذکر کیسے؟؟؟؟
۔۔۔۔۔۔پھر وہ لوگ جنت کی نہروں میں سے کسی نہر میں داخل ہوں گے اور اس میں یہ نہائیں گے اور پھر اس
نہر سے کاغذ کی طرح سفید ہو کر نکلیں گے
( یہ حدیث سن کر ) پھر ہم وہاں سے لوٹے اور ہم نے کہا افسوس (تم خارجی لوگوں) پر کیا تمہار اخیال ہے کہ شیخ جابر بن عبداللہ جیسا شخص بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جھوٹ باندھ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں اللہ کی قسم ہم میں سے ایک آدمی کے علاوہ سب خارجی تھے عقائد سے تائب ہو گئے جیسا کہا ابونعیم نے کہا۔
دلیل نمبر 9۔
٭ حضور ﷺ کا احادیث لکھنے سے منع کرنا :
حضوراکر م ﷺ کا کتابت حدیث سے منع کرنا
" قَالَ لَا تَکْتُبُوا عَنِّي وَمَنْ کَتَبَ عَنِّي غَيْرَ الْقُرْآنِ فَلْيَمْحُهُ وَحَدِّثُوا عَنِّي وَلَا حَرَجَ وَمَنْ کَذَبَ عَلَيَّ قَالَ هَمَّامٌ أَحْسِبُهُ قَالَ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ "(مسلم شریف جلد دوم صفحہ۴۱۴)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم مجھ سے کوئی بات نہ لکھو اور جس آدمی نے قرآن مجید کے علاوہ مجھ سے کچھ سن کر لکھا ہے تو وہ اس مٹا دے اور مجھ سے سنی ہوئی احادیث بیان کرو اس میں کوئی گناہ نہیں اور جس آدمی نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا تو اسے چاہئے کہ وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔
٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع میں قرآن کریم کے علاوہ کچھ اور لکھنے سے منع فرما دیا تھا ، اور انہیں اپنی کلام لکھنے سے مؤقتا روک دیا تھا حتی کہ صحابہ کرام کی ہمتیں قرآن کریم کے حفظ اور اس کی کتابت پربندھ جاۓ ، اور اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا اللہ تعالی کی کلام قرآن کریم کے ساتھ اختلاط نہ ہو جا ئے اور قرآن کریم زیادتی و نقصان سے محفوظ رہے ۔
٭نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےامین اورفقہاء صحابہ کرام کی ایک جماعت کووحی لکھنے کی ذمہ داری سونپی رکھی تھی ، اور وہ صحابہ اپنے تراجم میں کاتب وحی کے ساتھ اس طرح معروف نہیں جتنے کہ خلفاء اربعہ اور عبداللہ بن عمرو بن عاص اور معاویہ بن ابی سفیان اور زید بن ثابت وغیرہ رضی اللہ تعالی عنہم معروف ہیں ۔
٭٭٭
دلیل نمبر10۔
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 66 حدیث مرفوع مکررات 6 متفق علیہ 4
اسماعیل بن عبداللہ ، ابراہیم بن سعد، صالح، ابن شہاب، عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے
اپنا خط ایک شخص کے ہاتھ بھیجا اور اس کو یہ حکم دیا کہ یہ خط بحرین کے حاکم کو دے دے ( چنانچہ اس نے دے دیا) بحرین کے حاکم نے اس کو کسٰری (شاہ ایران) تک پہنچایا،
جب کسری ٰنے اس کو پڑھا تو اپنی بدبختی سے اس کو پھاڑ ڈالا،
ابن شہاب (جو اس حدیث کے روای ہیں) کہتے ہیں کہ میرے خیال میں ابن مسیب نے اس کے بعد مجھ سے یہ کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (اپنے خط کو پھاڑنا سنا) تو ان لوگوں کو بددعا دی کہ ان کے پر خچے اڑا دیئے جائیں گے۔
دلیل نمبر 11۔
٭سب سے پہلے اللہ نے اس کی تلاوت کی ،اللہ کا ارشادہے:
{ تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ } [الجاثية: 6]
یہ اللہ کی آیتیں ہیں جنہیں ہم تم پرحق کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں (یعنی پڑھتے ہیں)۔
اللہ کے بعد جبرئیل علیہ السلام نے اس قران کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا:
{وَإِنَّهُ لَتَنْزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ (192) نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ (193) عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنْذِرِينَ (194) بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ (195)} [الشعراء: 192 - 195]
اور بیشک و شبہ یہ (قرآن) رب العالمین کا نازل فرمایا ہوا ہے۔اسے امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے ،آپ کے دل پر اترا ہے کہ آپ آگاہ کر دینے والوں میں سے ہوجائیں ،صاف عربی زبان میں ہے۔
اس کے بعدجبرئیل علیہ السلام نے بھی قران مجید کو پڑھ کراورتلاوت کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھا یا ہے، بخاری میں ہے:
وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ القُرْآنَ(صحیح البخاری (1/ 8) رقم 6)
یعنی جبرئیل علیہ السلام رمضان کی ہررات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے اورآپ کوقران پڑھاتے تھے۔
اوراللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قران پڑھ کر ہی صحابہ کرام کوبتلایا ہے۔یاد کروایا ساتھ لکھوایا۔
٭٭٭٭
مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 677 مکررات 0 متفق علیہ 0
وعن عثمان بن عبد الله بن أوس الثقفي عن جده قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " قراءة الرجل القرآن في غير المصحف ألف درجة وقراءته في المصحف تضعف عل ذلك إلى ألفي درجة " . رواه البيهقي في شعب الإيمان
حضرت عثمان بن عبداللہ بن اوس ثقفی (رض) اپنے دادا (حضرت اوس) سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آدمی کا بغیر مصحف (یعنی زبانی) قرآن پڑھنا ہزار درجہ ثواب رکھتا ہے اور مصحف میں (دیکھ کر) پڑھنے کا ثواب بغیر مصحف (یعنی زبانی) پڑھنے کے ثواب سے دو ہزار درجہ تک زیادہ کیا جاتا ہے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ مصحف (قرآن مجید) میں دیکھ کر تلاوت کا ثواب زبانی تلاوت کے ثواب سے زیادہ ہوتا ہے اور اس میں ثواب کی زیادتی کی وجہ یہ ہے کہ مصحف میں دیکھ کر کی جانے والی تلاوت میں غور و فکر اور خشوع و خضوع زیادہ حاصل ہوتا ہے مصحف شریف کی زیارت نصیب ہوتی ہے اور مصحف کو ہاتھ لگایا جاتا ہے اسے اوپر اٹھایا جاتا ہے اس طرح نہ صرف یہ کہ قرآن کریم کی عظمت و احترام کا اظہار ہوتا ہے بلکہ جیسا کہ منقول ہے کہ قرآن کریم کی زیارت بھی عبادت ہے چنانچہ اکثر صحابہ و تابعین مصحف میں دیکھ کر ہی تلاوت کیا کرتے تھے حضرت عثمان (رض) کے بارہ میں منقول ہے کہ ناظرہ تلاوت کی کثرت کی وجہ سے ان کے پاس دو قرآن خستگی کی حالت کو پہنچ گئے تھے۔
خطبہ یومِ عرفہ کی روایات درج ذیل ہیں:
٭ امام بیہقی مسور بن مخرمہ سے روایت لائے ہیں کہ رسول اللہا نے عرفات میں حمدوثنا کے بعد خطاب فرمایا۔ (بیہقی ۵؍۱۲۵)
٭ حضرت جابر نبی کریمﷺ کا حج بیان کرتے ہوئے خطبہ حجۃ الوداع کے متعلق بیان کرتے ہیں:
اگر وہ ایسا کریں تو تم انہیں مار سکتے ہو لیکن سخت مار نہ مارنا، اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم انہیں معروف کے ساتھ کھلاؤ اور پہناؤ اور میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے پکڑے رکھا تو اس کے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے اور وہ ہے اللہ کی کتاب اور تم سے میرے متعلق پوچھا جانے والا ہے تو تم لوگ کیا کہو گے؟ صحابہ نے کہا: ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپؐ نے تبلیغ کردی، پیغام پہنچا دیا اور خیرخواہی کا حق ادا کردیا۔
یہ سن کر آپﷺ نے انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے تین بار فرمایا: اے اللہ گواہ رہ۔‘‘
٭٭٭٭
اعراب۔
دلیل نمبر 12۔
قران نے پوری دنیا کوچیلنج کیا ہے کہ کوئی بھی قران جیسی کوئی سورة نہیں بنا سکتا،اگرپوری دنیا قران جیسی سورة پیش کرنے سے عاجزہے،توخودمسلمانوں میں یہ طاقت کہاں سے آگئی کہ وہ قران میں قران ہی جیسی کوئی چیز داخل کریں اوروہ بھی ''الحمد'' سے لیکر ''الناس'' تک؟؟؟
اس سے بھی ثابت ہواکہ زبرزیرکوبعدمیں داخل نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ قران میں پہلے ہی سے موجودتھا۔
دلیل نمبر 13۔
صحابہ کرام وازواج مطہرات باقائدہ زبرزیرسے استدلال کرتے تھے، ملاحظہ ہو:
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ: أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَأَيْتِ قَوْلَهُ: (حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِّبُوا) أَوْ كُذِبُوا؟ قَالَتْ: «بَلْ كَذَّبَهُمْ قَوْمُهُمْ» ، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَقَدِ اسْتَيْقَنُوا أَنَّ قَوْمَهُمْ كَذَّبُوهُمْ، وَمَا هُوَ بِالظَّنِّ، فَقَالَتْ: «يَا عُرَيَّةُ لَقَدِ اسْتَيْقَنُوا بِذَلِكَ» ، قُلْتُ: فَلَعَلَّهَا أَوْ كُذِبُوا، قَالَتْ: " مَعَاذَ اللَّهِ، لَمْ تَكُنِ الرُّسُلُ تَظُنُّ ذَلِكَ بِرَبِّهَا، وَأَمَّا هَذِهِ الآيَةُ، قَالَتْ: هُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ، الَّذِينَ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَصَدَّقُوهُمْ، وَطَالَ عَلَيْهِمُ البَلاَءُ، وَاسْتَأْخَرَ عَنْهُمُ النَّصْرُ، حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَتْ مِمَّنْ كَذَّبَهُمْ مِنْ قَوْمِهِمْ، وَظَنُّوا أَنَّ أَتْبَاعَهُمْ كَذَّبُوهُمْ، جَاءَهُمْ نَصْرُ اللَّهِ "صحيح البخاري (4/ 150 رقم3389
یحیی بن بکیر لیث عقیل ابن شہاب عروہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے زوجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ بتائے (فرمان خداوند ی) جب رسول مایوس ہو گئے اور انہیں یہ گمان ہوا کہ انکی قوم انہیں جھٹلا دے گی میں کذبوا کے ذال پر تشدید ہے یا نہیں؟ یعنی کذبوا ہے یا تو انہوں نے فرمایا (کذبوا ہے) کیونکہ انکی قوم تکذیب کرتی تھی میں نے عرض کیا بخدا رسولوں کو تو اپنی قوم کی تکذیب کا یقین تھا (پھر ظنوا کیونکر صادق آئیگا) تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا اے عریہ (تصغیر عروہ) بیشک انہیں اس بات کا یقین تھا میں نے عرض کیا تو شاید یہ کذبوا ہے عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا معاذ اللہ انبیاء اللہ کے ساتھ ایسا گمان نہیں کر سکتے (کیونکہ اس طرح معنی یہ ہوں گے کہ انہیں یہ گمان ہوا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا یعنی معاذ اللہ خدا نے فتح کا وعدہ پورا نہیں کیا لیکن مندرجہ بالا آیت میں ان رسولوں کے وہ متبعین مراد ہیں جو اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے تھے اور پیغمبروں کی تصدیق کی تھی پھر ان کی آزمائش ذرا طویل ہوگئی اور مدد آنے میں تاخیر ہوئی حتیٰ کہ جب پیغمبر اپنی قوم سے جھٹلانے والوں کے ایمان سے مایوس ہو گئے اور انہیں یہ گمان ہونے لگا کہ ان کے متبعین بھی ان کی تکذیب کر دیں گے تو اللہ کی مدد آ گئی ۔
اس حدیث میں غورفرمائیں کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا یہاں اعراب کی پربحث کی ہے اس سے ثابت ہو اکہ اعراب اورزبرزیرقران میں پہلے ہی سے ہے۔
رُوِيَ عَنْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «مَا أَتَاكُمْ عَنِّي فَاعْرِضُوهُ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ فَإِنْ وَافَقَ كِتَابَ اللَّهِ فَأَنَا قُلْتُهُ وَإِنْ خَالَفَ كِتَابَ اللَّهِ فَلَمْ أَقُلْهُ أَنَا،
وَكَيْفَ أُخَالِفُ كِتَابَ اللَّهِ، وَبِهِ هَدَانِي اللَّهُ»
٭یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو بات تمہارے پاس میرے حوالے سے پیش ہو اسے کتاب اللہ پر پیش کرو، اگر موافق پاؤ تو میرا فرمان ہے ورنہ نہیں، کیونکہ میں صرف کتاب اللہ کی موافقت کرتا ہوں اور اسی سے اللہ مجھے راہ دکھاتے ہیں۔
«كَلَامِي لَا يَنْسَخُ كَلَامَ اللَّهِ وَكَلَامُ اللَّهِ , يَنْسَخُ كَلَامِي وَكَلَامُ اللَّهِ , يَنْسَخُ بَعْضُهُ بَعْضًا»
٭ "میرا کلام اللہ کے کلام کو منسوخ نہیں کرتا جبکہ اللہ کا کلام میرے کلام کو منسوخ کرتا ہے اور اللہ کے کلام کا بعض اس کے بعض کو منسوخ کرتا ہے۔"
بے شک قرآن وحی ہے ، وہاں حدیث بھی وحی ہے ،لیکن ان جناب کو کون سمجھائے کہ جو احادیث ہم تک پہنچ رہی ہیں انہیں میں سے یہ ضعیف بھی نکالی گئی ہیں ان نکالی گئی روایات میں بھی نبی کریم ﷺ کا ہی نام لیا گیا ہے اورآپ ﷺ پر جھوٹ بولا گیا،یا راوی جھوٹا،یا بھول گیا،یا لکھنے میں غلطی،یاسمجھنے میں غلطی،وغیرہ۔یہ ضعیف احادیث کے درجے ہیں جو درج ذیل ہیں۔
معلق،مرسل،معصل،منقطع،مدلس،مرسل خفی،معلول یا معلل،راویہ المبتدع،روایتہ المبتدع،روایتہ الفاسق، متروک،موضوع،مقلوب ، مدرج،المزدی فی متصل الاسانید، شاذ،منکی ، روایتہ سی الحقط،روایتہ کثیر الغفلتہ، روایتہ فاحش الغلط، رویتہ المختلط، مضطرب، روایتہ مجھول العین، روایتہ مجھول الحال، مبھم،
اَوَاَمِنَ اَهْلُ الْقُرٰٓي اَنْ يَّاْتِيَهُمْ بَاْسُنَا ضُحًى وَّهُمْ يَلْعَبُوْنَ
فَذَرْهُمْ يَخُوْضُوْا وَيَلْعَبُوْا حَتّٰى يُلٰقُوْا يَوْمَهُمُ الَّذِيْ يُوْعَدُوْنَ