اشماریہ
سینئر رکن
- شمولیت
- دسمبر 15، 2013
- پیغامات
- 2,682
- ری ایکشن اسکور
- 752
- پوائنٹ
- 290
میرے پیارے بھائی! نہ ہم نے اس سے انکار کیا کہ نبی کریم ﷺ کے دور میں قرآن کریم لکھا گیا تھا اور نہ اس سے انکار کیا کہ نبی کریم ﷺ کے بعد جب قرآن کریم کو ایک جگہ جمع کیا گیا تو دو دو آدمیوں کی گواہی لی گئی۔السلام علیکم!
کمال ہے میرے پیارے بھائی۔!سورۃ البقرہ 282میں آپ کے لئے بہت کچھ ہے لیکن میرے بھائی کو صرف لفظوں سے مطلب ہے ۔ان سارے نقاط کا باغور جائزہ لو اگر اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہو تو۔۔۔
نبی کریم ﷺ کو اور ساری امت کو یہ کیا فرمایا جا رہا ہے ۔۔۔۔۔
٭قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔ فریقین کے درمیان انصاف کے ساتھ ایک شخص دستاویز تحریر کرے۔
٭جسے اللہ نے لکھنے پڑھنے کی قابلیت بخشی ہو ، اسے لکھنے سے انکار نہ کرنا چاہیے۔ وہ لکھے اور اِملا وہ شخص کرائے جس پر حق آتا ہے
٭۔ لیکن اگر قرض لینے والا خود نادان یا ضعیف ہو ، یا املاء نہ کرا سکتا ہو ، تو اس کا ولی انصاف کے ساتھ املاء کرائے۔
٭ پھر اپنے مردوں میں سے دو آدمیوں کی اس پر گواہی کرالو اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں تاکہ ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے۔ یہ گواہ ایسے لوگوں میں سے ہونے چاہیں ، جن کی گواہی تمہارے درمیان مقبول ہو۔ گواہوں کو جب گواہ بننے کے لیے کہا جائے ، تو انہیں انکار نہ کرنا چاہیے ۔
٭معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا میعاد کی تعین کے ساتھ اس کی دستاویز لکھوا لینے میں تساہل نہ کرو۔
٭ اللہ کے نزدیک یہ طریقہ تمہارے لیے زیادہ مبنی بر انصاف ہے ، اس سے شہادت قائم ہونے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے ، اور تمہارے شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے کا امکان کم رہ جاتا ہے۔
٭ ہاں جو تجارتی لین دین دست بدست تم لوگ آپس میں کرتے ہو ، اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں ، مگر تجارتی معاملے طے کرتے وقت گواہ کر لیا کرو۔
٭ کاتب اور گواہ کو ستایا نہ جائے۔ ایسا کرو گے ، تو گناہ کا ارتکاب کرو گے۔ اللہ کے غضب سے بچو۔ وہ تم کو صحیح طریقِ عمل کی تعلیم دیتا ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے۔(282)
پھر کہتا ہوں آنکھیں پوری طرح کھول کر دیکھو اس آیت 282کو اس میں نشانی ہے عقلمندوں کے لئے۔۔۔۔۔جو غور و فکر کرتے ہوں۔
مجھے معلوم ہے جناب کو اس میں صرف عام لین دین کا معاملہ ہی نظر آئے گا۔۔۔یہ ظاہری الفاظ ہی نظر آنے ان میں چھپی ہوئ بات ہے جو آپ کو نظر نہیں آتی۔
لفظ دیکھائو فلاں لفظ لکھا ہوا دیکھا اگر یہ دین صرف لفظوں میں ہے تو میرے پاس بھی بہت کچھ پوچھنے کے لئے جو آپ اور آپ کے یہ بزرگار ساری زندگی جواب دینے میں لگا دیں گے ۔۔۔۔۔۔۔میں یہ ظلم اپنے اوپر نہیں کر سکتا۔۔۔
ہمارا آپ سے مطالبہ یہ ہے کہ آپ کے نزدیک جو قرآن کریم "ایک کتاب" کی شکل میں نبی کریم ﷺ کی رحلت کے وقت مرتب تھا (جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے بعد جمع نہیں کیا گیا) اس پر ایک اور صرف ایک واضح آیت یا حدیث دکھا دیں جس میں یہ لکھا ہو۔ آپ وہ دکھانے کے بجائے دنیا بھر کی تاویلات کر رہے ہیں۔
اگر آپ کے پاس روایات نہیں ہیں تو پھر ہمارے پاس بعد میں جمع کرنے سے متعلق روایات ہیں اور ہمارا موقف مضبوط ہوگا۔ اگر آپ کے پاس ایسی ایک صریح روایت ہے تو آپ کا موقف مضبوط ہوگا۔ بات ختم!
اب آپ ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بجائے ایک واضح روایت پیش کر دیں تو بات آگے بڑھے۔
ایک تو میرے عقیدے کے باطل ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ کا عقیدہ درست ہو اور اس پر آپ دلیل لا نہیں پا رہے۔مام ابن ابی عاصم متوفی 287 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عثمان بن ابی العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں ثقیف کے کچھ لوگوں کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضرہوا ، انہں نے مجھ سے کہا : تم ہمارے سامان اور سواریوں کی حفاظت کرو ، میں نے کہا : اس شرط پر کہ تم فارغ ہونے کے بعد میرا انتظار کرنا ، وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے اپنی ضروریات کے متعلق سوال کیا ، پھر وہ باہر آگئے تو میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا ، میں نے آپ سے مصحف (قرآن مجید کا مترتب لکھا ہوا نسخہ یا کتاب) کا سوال کیا جو آپ کے پاس موجود تھا تو آپ نے مجھے وہ عطا فرما دیا ، تاہم یہ مصحف ایک جلد میں نہیں تھا ، اس کے متعدد اجزاء تھے ۔
اس کے متعدد اجزائ تھے۔یعنی ان کے پاس متعدد آیات اکھٹی ایک جگہ پر تھیں !!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ اجزائ میں کیوں تھا جبکہ آپ کا یہ باطل عقیدہ ہے کہ وہ ۔۔۔آلو بالو کر دیا جاتا تھا۔۔!!!؟؟؟؟؟
کیا اس میں تمام آیات موجود تھیں؟ اس روایت میں یہ ہے تو مجھے بھی دکھائیے! متعدد آیات تھیں، ایک جگہ تھیں، لیکن کیا ناسخ و منسوخ الگ الگ تھیں؟
کیا اس وقت دین کی تکمیل ہو چکی تھی کہ ناسخ و منسوخ آیات الگ الگ ہو جاتیں؟
یہ سوالات آپ کی روایت سے متعلق ہیں اور یہی سوالات اس روایت کو آپ کے دعوے سے غیر متعلق ظاہر کرتے ہیں۔
رہ گیا آپ کا سوال کہ قرآن مجید "آلو بالو" کر دیا جاتا تھا تو یہاں موجود کیوں تھا (یہ آپ کے الفاظ ہیں، ہم قرآن کریم کے بارے میں یہ الفاظ استعمال نہیں کرتے)؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے قبل قرآن کریم کا مصحف کسی کو دینے کا کوئی ثبوت نہیں ہے اس لیے یہ یہاں موجود تھا۔ اب ہمت ہے تو لائیں کوئی دلیل کہ اس سے پہلے بھی تقسیم ہوا تھا!
ویسے یہ مناظرانہ جواب ہے ورنہ عین ممکن ہے کہ نبی کریم ﷺ کسی کو دینے کے بعد دوبارہ تحریر کروا دیتے ہوں کیوں کہ قرآن کریم تئیس سال تک لکھا جاتا رہا ہے اور ایک اچھا کاتب مکمل قرآن صرف ایک مہینے میں خوش خط تحریر کر سکتا ہے۔ باقی عرصے میں پھر کیا لکھا جاتا رہا؟
لیکن آپ اصل سوال کو اپنے سوال کے ضمن میں لا کر گول کیوں کر گئے؟
آپ سے یہ سوال کیا تھا:
اور آپ کا "ایمان" "چینج" ہونے کے بعد یہ سوال کیا تھا:اس میں یہ کہاں لکھا ہے کہ یہ نقل دوسروں کو دے دی جاتی ہے؟
فیضان صاحب! ان سوالات کے جوابات کہاں ہیں؟؟؟یہ کون سی آیت یا روایت میں لکھا ہوا ہے کہ یہ نسخے قابل واپسی ہوتے تھے؟
کہاں رہ رہے ہیں فیضان صاحب! آج 2017ء میں مصروفیات اور پڑھائیوں کے تلاطم میں اوور آل حافظے کی کمی کے باوجود میں آپ کو کتنے ایسے حافظ دکھاؤں جو قرآن کریم کو کھول کر دیکھتے تک نہیں ہیں اور اس کےالفاظ گویا موتیوں کی طرح ان کے لبوں سے ادا ہوتے رہتے ہیں؟آج 2017 میں کتنے لوگ ہیں جو بغیر دیکھ کر قرآن پڑھتے ہیں؟یہ ترقی کا دور ہے پھر بھی کیا حال ہے۔۔۔۔؟
کیا نبی کریم ﷺ کے دور میں تمام لوگ صرف زبانی یاد کرتے تھے؟کیا صرف لوگ ایک ایک آیت ساری زندگی پڑھتے رہے یعنی اگر وہ نقل نہیں کی جاتی تھی تو کیا جتنا جتنا قرآن کے اوراق ہوتے صرف اتنا ہی پڑھتے تھے ۔۔۔۔واہ کیا دین ہے میرے پیارے بھائی کی کیا مضبوط بنیاد ہے۔۔۔۔بنیاد کا یہ حال ہے تو باقی ایمان ،عقیدہ کا کیا حال ہوگا۔۔۔۔واہ
فیضان صاحب یہ قاری محمد علی مدنی دامت برکاتہم ہیں۔ یہ میرے استاد کے استاد ہیں اور یہ نابینا ہیں۔ یہ قرآن کریم کو دیکھ ہی نہیں سکتے۔ اور یہ تو یہ ان کے کئی شاگرد (بشمول میرے استاد محترم قاری مختیار احمد مدنی) بھی قرآن کریم میں اٹکتے تک نہیں ہیں:
اور اس بچے کو تو دیکھیے! اس کی عمر دیکھیے اور قراءۃ حفص عن عاصم اور ورش عن نافع پر اس کی گرفت دیکھیے! کبھی ورش میں مجھے ایک رکوع آنکھوں سے دیکھ کر بغیر اٹکے پڑھ کر دکھائیں تو مانوں قرآن کے دعویدارصاحب!
واپس آئیں حقیقت کی دنیا میں فیضان صاحب! ہم تو بات ہی اس زمانے کے لوگوں کی کر رہے ہیں جن کے صرف اشعار سے دواوین بھرے ہوئے ہیں جو انہیں یاد ہوتے تھے۔ قرآن و حدیث کے تقابل کرنے والے میرے معصوم بھائی! کبھی دیوان الحماسہ کی شکل دیکھی ہے؟ کبھی "تابط شرا" کا نام سنا ہے؟ کبھی کعبے میں لٹکنے والے قصیدے پڑھے ہیں؟ امرؤ القیس کو جانتے ہیں؟
جو لوگ اپنے گھوڑوں کے نسب یاد رکھتے تھے ان کے لیے قرآن کو یاد کرنا کیا مشکل تھا؟
فیضان صاحب وہ لوگ آپ کی طرح قرآن کریم کو دیکھ کر پڑھنے کے محتاج نہیں ہوتے تھے اگر آپ کو کچھ سمجھ آیا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے کیا ثابت ہوا جناب عالی؟؟مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 677 مکررات 0 متفق علیہ 0
وعن عثمان بن عبد الله بن أوس الثقفي عن جده قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " قراءة الرجل القرآن في غير المصحف ألف درجة وقراءته في المصحف تضعف عل ذلك إلى ألفي درجة " . رواه البيهقي في شعب الإيمان
حضرت عثمان بن عبداللہ بن اوس ثقفی (رض) اپنے دادا (حضرت اوس) سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آدمی کا بغیر مصحف (یعنی زبانی) قرآن پڑھنا ہزار درجہ ثواب رکھتا ہے اور مصحف میں (دیکھ کر) پڑھنے کا ثواب بغیر مصحف (یعنی زبانی) پڑھنے کے ثواب سے دو ہزار درجہ تک زیادہ کیا جاتا ہے۔
کیا اس سے یہ ثابت ہو اکہ نبی کریم ﷺ کی رحلت کے وقت قرآن کریم ایک کتاب کی شکل میں مرتب حالت میں تھا؟ اگر ہاں تو کیسے؟
اگر صرف "مصحف" کے لفظ کی وجہ سے تو وہ تو ابن ابی عاصمؒ کی روایت میں بھی تھا اور اس کے باوجود وہ متعدد اجزاء میں تھا؟
اگر اس سے کچھ ثابت نہیں ہوا تو اسے پیش کیوں کیا؟ خلط مبحث کے لیے؟
یہ دلیل کی کون سی قسم ہے؟صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 3 حدیث مرفوع مکررات 24 متفق علیہ 22
خدیجہ (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لے کر ورقہ بن نوفل بن اسید بن عبدالعزی کے پاس گئیں جو حضرت خدیجہ (رض) کے چچا زاد بھائی تھے، زمانہ جاہلیت میں نصرانی ہوگئے تھے اور عبرانی کتاب لکھا کرتے تھے۔ چنانچہ انجیل کو عبرانی زبان میں لکھا کرتے تھے، جس قدر اللہ چاہتا، نابینا اور بوڑھے ہوگئے تھے، ان سے حضرت خدیجہ (رض) نے کہا اے میرے چچا زاد بھائی اپنے بھتیجے کی بات سنو آپ سے ورقہ نے کہا اے میرے بھتیجے تم کیا دیکھتے ہو؟ تو جو کچھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا تھا، بیان کر دیا، ورقہ نے آپ سے کہا کہ یہی وہ ناموس ہے، جو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل فرمایا تھا، کاش میں نوجوان ہوتا، کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا، جب تمہاری قوم تمہیں نکال دے گی، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا! کیا وہ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے جواب دیا، ہاں! جو چیز تو لے کر آیا ہے اس طرح کی چیز جو بھی لے کر آیا اس سے دشمنی کی گئی، اگر میں تیرا زمانہ پاؤں تو میں تیری پوری مدد کروں گا، پھر زیادہ زمانہ نہیں گذرا کہ ورقہ کا انتقال ہوگیا اور وحی کا آنا کچھ دنوں کے لئے بند ہوگیا۔
٭ورقہ بن نوفل جاہلیت میں نصرانی ہوگئے ۔اور وہ انجیل کو عبرانی زبان میں خود لکھتے تھے لیکن نبی کریم ﷺ قرآن ایک جگہ مرتب ہی نہ کروا سکے واہ۔۔۔۔ورقہ بن نوفل بزرگی کی حالت میں لکھتے تھے انہیں کاغذ بھی مل جاتا تھا ،لکھنے کے لئے جو کچھ چاہئے مل جاتا تھا اور وہ ایک جگہ کتاب کو مرتب کرتے تھے لیکن نبی کریم ﷺ کو نہ تو ٹائم ملا،نہ ہی اللہ نے موقع فراہم کیا واہ۔۔۔سورۃ البقرہ 282 کو پھر سے غور سے پڑھو۔علمائ اکرام
کیا ورقہ بن نوفل پر انجیل نازل ہوتی تھی؟
نبی کریم ﷺ پر تو قرآن کریم نازل ہوتا تھا اور حجۃ الوداع تک نازل ہوتا رہا۔ قرآن کامل ہی اس وقت ہوا جب آپ ﷺ کی حیات مبارکہ کے صرف تین مہینے رہ گئے تھے۔
کیا ورقہ نے تیرہ سال کی تکالیف اٹھائی تھیں اور دس سال کی مشکل ترین حکومت سنبھالی تھی؟ کیا ورقہ بذات خود دس سے زائد جنگوں میں شریک ہوئے تھے؟ کیا ورقہ نے تبلیغ کا اتنا مشکل کام اپنے سر لیا ہوا تھا؟ کیا ورقہ صفہ کے چبوترے والوں کو تعلیم دیا کرتے تھے؟ کیا ورقہ وفدوں سے ملتے اور اپنے وفد بھیجتے تھے؟
کیا ہو گیا فیضان صاحب! ! عقل بیچ کے چلغوزے تو نہیں لے لیے؟
جناب والا! اشماریہ آپ سے ان روایات کے معانی پر بحث کرے گا۔(1)…قرآن مجیددیکھ کر پڑھنا، زبانی پڑھنے سے افضل ہے۔۔! کیا یہ بات آپ کو آج معلوم ہوئی ہے؟
یہ لو ان احادیث کو ضعیف کہہ کر کوڑے کی طرح باہر پھینک دیا۔۔۔
قرآن کریم کو دیکھ کر پڑھنے کی فضیلت میں کچھ احادیث وارد ہیں ان کے ضعیف ہونے کی بنا پر ہم صرف تنبیہ کے لئے یہاں ذکر کر رہے ہیں :یعنی ایک مولانا کہے گا دو وہ روایت اور حدیث اشماریہ صاحب سجدہ کر کے تسلیم کریں گے اور ایک بڑا مولانا یہ کہے کہ یہ ضعیف ہے تو میرا یہ پیارا بھائی اشماریہ جی سجدہ کرتے ہوئے اسے کہیں گے کہ ہاں یہ ضعیف ہے ۔۔۔۔۔۔مجھے آپ پر ایک آیت یاد آ رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔سنیں ،دیکھیں،پڑھیں،غور فرمائیں۔
سورۃ التوبہ 9آیت نمبر 31۔انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا ربّ بنا لیا ہے۔
سورۃ التوبہ 9 آیت نمبر 34۔اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، ان اہلِ کتاب کے اکثر علماء اور درویشوں کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کے مال باطل طریقوں سے کھاتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔
( مصحف میں دیکھنا عبادت ہے ، اور بیٹے کا والدین کو دیکھنا عبادت ہے ، اور علی بن ابی طالب( رضی اللہ تعالی عنہ ) کو دیکھنا عبادت ہے ) ۔
جیسا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے کہا کہ یہ حدیث موضوع ہے دیکھیں سلسلۃ احا دیث الضعیفۃ ( 1 / 531 ) ۔
اور یہ حدیث بھی : ( اپنی آنکھوں کو عبادت کا حصہ دو : قرآن میں دیکھنا ، اوراس میں غوروفکر کرنا ،اور اس میں عجائبات سے عبرت حاصل کرنا ) یہ حدیث بھی موضوع ہے سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ ( 4 / 88 ) ۔
اور یہ بھی کہ ( پانچ چیزیں عبادت میں سے ہیں ، کم کھانا ، مساجد میں بیٹھنا ، اور کعبہ کو دیکھنا ، اور قرآن کریم میں دیکھنا ، اور عالم دین کے چہرہ کو دیکھنا ) اور یہ حدیث بہت ہی زیادہ ضعیف ہے ۔ دیکھیں ضعیف الجامع الصغیر حدیث نمبر ( 2855 )
یہ ان روایات میں کس قرآن کی بات ہو رہی ہے !!!کون سا قرآن نبی کہہ رہے پڑھو دیکھ کر جبکہ آپ کا باطل عقیدہ تو ہے کہ نبی کریم ﷺ کی زندگی میں وہ ہر ورق الو بالو کرتے تھے ۔۔۔۔پھر یہ کیا کہہ دیا اور اس کو ضعیف اس لئے کہہ دیا کہ ہمارے بڑےعالم یہ فرما گئے کہ یہ ضعیف ہے ۔۔۔یعنی ضعیف کی تلوار چلانے والے ہوتے کوں ہو۔۔۔کیا آپ کو معلوم نہیں نبی کریم ﷺ جھوٹ نہیں بولتے ،ان کی زبان سے صرف حق بات نکلتی ہے ۔۔۔۔۔؟ کیا کہیں گے جناب۔
ویسے تو سیدھی بات ہے کہ جب آپ حدیث پیش کریں گے تو یہ آپ کی ذمے داری ہے کہ اسے صحیح ثابت کریں۔ اگر نہیں کر سکتے تو پیش کیوں کر رہے ہیں؟
لیکن مجھے ضرورت کیا ہے فیضان صاحب؟ میں آپ سے صرف یہ کہوں گا کہ ان ضعیف احادیث میں سے ہی یہ ثابت کر دیں کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ کے آخری تین مہینے میں (قرآن کے کامل ہونے کے بعد آپ تین مہینے ہی حیات رہے ہیں نا) میں قرآن کریم مکمل تحریر و مرتب کروا کر رکھ دیا تھا۔
آپ ان شاء اللہ یہ بات ان ضعیف احادیث سے بھی ثابت نہیں کر سکیں گے فیضان صاحب۔
اور اس کی وجہ یہ ہے فیضان صاحب کہ آپ سے پہلے کوئی ایسا بیوقوف غالباً ضعفاء اور کذابین میں بھی نہیں گزرا جس نے یہ بات کی ہواور آپ کے لیے دلیل بن سکے۔
عبداللہ ابن مسعود نے کہا کہ جب ہم تم سے کوئی حدیث بیان کرتے ہیں تو کتاب اللہ سے اس کی تصدیق بھی لا تے ہیں ۔( تفسیر ابن کثیر ج٤ ص٩٤٥ ،سورہ فاطر)
یہ تو حال ہے آپ جناب کا۔۔۔۔پھر کہتے ہیں ہم ہیں دین والے ،ایمان والے ۔۔۔۔۔کیسے ثابت کریں گے اپنے آپ کو ۔۔۔۔۔؟
- مخالف فرقے کی کتب میںدرج روایات اھادیث و اعمال رسول ناقابل قبول ہیں۔ لیکن ان کی احادیث سے انکار کرکے آپ منکر الحدیث نہیں ہوتے ۔واہ
- جو روایات ہمارے موقف کی حمایت نہیں کرتی ہیں، خود کا نا پسند ہوں یا موقف کے مخالف ہوں و نا پسندیدہ روایات اپنی کتب روایات سے ہونے کے باوجود ضعیف ہیں۔ واہ
- آپ ہر روایت پر مکمل یقین رکھئے، اس کا ایک نقطہ بھی تبدیل نہیں ہوا ہے۔ ان رویات پر ایمان بالمثل القرآن ضروری ہے۔
- کتب روایات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ پرانی کتب ذرا دبلی ہیں، کھا پی کر بعد میں موٹی ہوگئی ہیں ۔ یعنی تبیدیلیاں آتی رہیں ؟ِ؟؟؟
- صرف ہمارے فرقے کی کتب روایات میں تمام روایات درست ہیں ۔ دوسرے فرقے کی کتب روایات سے ہم انکار کرتے ہیں، لیکن اس انکار کے باوجود ہم منکر الحدیث تھوڑی ہیں۔واہ
- جی ، کچھ روایات یقیناً دشنمنان اسلام نے شامل کردی ہونگی ۔ لیکن ہم سب روایات پر یقین رکھتے ہیں۔ دشمنان اسلام کی شامل شدہ روایات پر بھی ، ٹھیک ہے کہ اس میں اہانت رسول و انبیا اور اہانت اللہ اور قران سے مخالف واقعات شامل ہین - لیکن کیا ہے کہ ہم بتا نہیں سکتے کہ وہ حتمی طور پر وہ کون سے واقعات ہیں ، ہم ان سب واعات پر جو دشمنان اسلام نےشامل کی ہیں یقین رکھتے ہیں۔ پھر بھی منکر الحدیث تھوڑا ہی ہیں۔واہ
- جب ان سب کی سب تمام فرقون کی روایات، واقعات و احادیث پر آپ ایمان بالمثل القرآن نہیں تو پھر کیا ہے؟ ایمان یا ہوتا ہے یا نہیں ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ تھوڑا سا ایمان ہوتا ہے یا آدھا ایمان ہوتا ہے۔ ایمان کا مطلب ہے - مان لینا۔ اور تکفیر کا مطلب ہے نا ماننا آدھے ادھر اور آدھے ادھر کو کیا کہتے ہیں ؟ سمجھا دیجئے گا۔عین نوازش ہو گی ۔
پہلے میرے سوالات سے باہر نکلیں فیضان صاحب! پھر آپ کی ان تمام باتوں کا جواب دوں گا۔
اور یہ یاد رکھیے کہ اگر آپ سیدھا جواب نہیں دیں گے تو اگر یہ بحث دس سال جاری رہی تو بھی میں ان شاء اللہ جاری رکھوں گا۔یہ تھریڈ اگر آپ کی آنکھیں نہ کھول سکا تب بھی قارئین کے لیے آپ کے فتنے سے بچنے کا ایک ذریعہ ان شاء اللہ بنا رہے گا۔