- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کی ہدایت کے لئے انبیاء کرام علیہم السلام کا مقدس سلسلہ جاری فرمایا جس کی ابتداء سیدنا آدم علیہ السلام سے ہوئی اور اختتام ہمارے پیارے آقا سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوا، انبیاء کی طرح ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں مطاع بنا کر آئے:
وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اﷲِ (النساء:۶۴)
اور ہم نے جو پیغمبر بھیجا ہے اس لئے بھیجا ہے کہ اللہ کے فرمان کے مطابق اس کا حکم مانا جائے۔
کیونکہ منصب نبوت کا یہی تقاضا ہے کہ اُمتی مطیع ہوں اور نبی مطاع ہو، ارشاد ہوتا ہے:
قُلْ اَطِیْعُوا اﷲَ وَ الرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اﷲَ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ
کہہ دو کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اگر نہ مانیں تو اللہ بھی کافروں کو دوست نہیں رکھتا۔ (آل عمران:۳۲)۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَطِیْعُوا اﷲَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ لَا تُبْطِلُوْآ اَعْمَالَکُمْ (محمد:۳۳)
مومنو! اللہ کا ارشاد مانو اور پیغمبر کی فرمانبرداری کرو اور اپنے اعمال کو ضائع نہ ہونے دو۔
اس حکم ربانی کو قبول کر کے اطاعت کرنی ہدایت کا ذریعہ ہے۔ ارشا ہوتا ہے:
قُلْ اَطِیْعُوا اﷲَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّوا فَاِنَّمَا عَلَیْہِ مَا حُمِّلَ وَ عَلَیْکُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ وَ اِنْ تُطِیْعُوْہُ تَھْتَدُوْا وَ مَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ (النور:۵۴)
کہہ دو کہ اللہ کی فرمانبرداری کرو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر چلو اور اگر منہ موڑو گے تو رسول پر (اس چیز کا ادا کرنا) جو ان کے ذمے ہے اور تم پر (اس چیز کا ادا کرنا) ہے جو تمہارے ذمے ہے، اور اگر تم ان کے فرمان پر چلو گے تو سیدھا راستہ پا لو گے اور رسول کے ذمے تو صاف صاف (احکام کا) پہنچا دینا ہے۔
سورئہ الانفال میں اسے ایمان کا جزو قرار دیا ہے:
وَ اَطِیْعُوا اﷲَ وَ رَسُوْلَہٗٓ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (الانفال:۱)
اور اگر ایمان رکھتے ہو تو اللہ و رسول کے حکم پر چلو۔
اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کا ذریعہ بھی یہی ہے، ارشاد ہوتا ہے:
وَ اَطِیْعُوا اﷲَ وَ الرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ (آل عمران:۱۳۲)
اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحمت کی جائے۔
یہی اُمتی اور نبی کے درمیان بین امتیاز ہے کہ نبی مطاع ہوتا ہے اور امتی مطیع ہوتا ہے۔ کیونکہ پیغمبر مورد وحی ہوتا ہے، اللہ کی طرف سے انسان کی ہدایت کے لئے اس کی طرف وحی نازل ہوتی ہے، وہ احکام شریعت کو وحی کے ذریعے حل کرتا ہے، ارشاد ہوتا ہے:
وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی (النجم:۳،۴)
اور نہ خواہش نفس سے منہ سے بات نکالتے ہیں، یہ (قرآن) تو اللہ کا حکم جو (ان کی طرف) بھیجا جاتا ہے۔
اور اس وحی کی تفہیم بھی خود اللہ تعالیٰ ہی نبی کو عطا کرتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ (القیامۃ:۱۹)
پھر اس (کے معانی) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اس ملکہ کی بنا پر نبی اپنی وحی کا سب سے بڑا مفسر ہوتا ہے کہ منصب نبوت کا یہی تقاضا ہے، ارشاد ہوتا ہے:
بِالْبَیِّنٰتِ وَ الزُّبُرِ وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ (النحل:۴۴)
(اور ان پیغمبروں) کو دلیلیں اور کتابیں دیکر (بھیجا تھا) اور ہم نے تم پر یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو (ارشادات) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں انہیں (وضاحت سے) کھول کر بیان کر دو تاکہ وہ غور کریں۔
وحی الٰہی کی تفسیر نبی خواہ اپنے عمل سے کرے یا قول سے ارشاد فرمائے بہرحال امتی پر لازم ہے کہ وہ اسے قبول کرے اور دل و جان سے عزیز جان کر اس پر عمل کرے، کیونکہ یہی اُمتی کا مقام ہے، ارشاد ہوتا ہے:
اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْآ اِلَی اﷲِ وَ رَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَھُمْ اَنْ یَّّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (النور:۵۱)
مومنوں کی تو یہ بات ہے کہ جب اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلائے جائیں تاکہ وہ ان میں فیصلہ کریں تو کہیں کہ ہم نے (حکم) سن لیا اور مان لیا، اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
انسان جب کفر کے اندھیروں سے نکل کر نور اسلام کی طرف آتا ہے تو ایمان لانے کے ساتھ اس کا اللہ و رسول کے ساتھ یہ عہد ہوتا ہے، اور جو لوگ اس عہد کو توڑ ڈالتے ہیں، وہ ایمان سے خالی ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے:
وَ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاﷲِ وَ بِالرَّسُوْلِ وَ اَطَعْنَا ثُمَّ یَتَوَلّٰی فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ مِّنْ بَعْدِ ذٰلِکَ وَ مَآ اُولٰٓئِکَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ (النور:۴۷)
اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور رسول پر ایمان لائے اور (ان کا) حکم مان لیا۔ پھر اس کے بعد ان میں سے ایک فرقہ پھر جاتا ہے، اور یہ لوگ صاحب ایمان ہی نہیں ہیں۔
کوئی بھی اُمتی جب اس تقسیم ربانی سے باغی ہو کر سمعنا و اطعنا کی حیثیت سے آگے بڑھتا ہے تو تحریف فی الدین کی ابتداء ہوتی ہے، ارشاد ہوتا ہے:
مِنَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ وَ یَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا وَاسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ وَّ رَاعِنَا لَیًّا بِاَلْسِنَتِھِمْ وَطَعْنًا فِی الدِّیْنِ وَ لَوْ اَنَّھُمْ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانْظُرْنَا لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ وَ اَقْوَمَ وَ ٰلکِنْ لَّعَنَھُمُ اﷲُ بِکُفْرِھِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا (النساء:۴۶)
اور یہ جو یہودی ہیں ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ کلمات کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا اور نہیں مانا، اور سنیئے نہ سنوائے جاؤ اور زبان کو مروڑ کر اور دین میں طعن کی راہ سے (تم سے گفتگو کے وقت) راعنا کہتے ہیں اور اگر (یوں) کہتے کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا اور (صرف) اسمع اور (راعنا کی جگہ) انظر (کہتے) تو ان کے حق میں بہتر ہوتا اور بات بھی درست ہوتی لیکن اللہ نے ان کے کفر کے سبب ان پر لعنت کر رکھی ہے تو یہ کچھ تھوڑے ہی ایمان لاتے ہیں۔
تقریظ فضیلۃ الشیخ علامہ ابو صہیب محمد داو'د ارشد حفظہ اللہ
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کی ہدایت کے لئے انبیاء کرام علیہم السلام کا مقدس سلسلہ جاری فرمایا جس کی ابتداء سیدنا آدم علیہ السلام سے ہوئی اور اختتام ہمارے پیارے آقا سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوا، انبیاء کی طرح ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں مطاع بنا کر آئے:
وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اﷲِ (النساء:۶۴)
اور ہم نے جو پیغمبر بھیجا ہے اس لئے بھیجا ہے کہ اللہ کے فرمان کے مطابق اس کا حکم مانا جائے۔
کیونکہ منصب نبوت کا یہی تقاضا ہے کہ اُمتی مطیع ہوں اور نبی مطاع ہو، ارشاد ہوتا ہے:
قُلْ اَطِیْعُوا اﷲَ وَ الرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اﷲَ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ
کہہ دو کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اگر نہ مانیں تو اللہ بھی کافروں کو دوست نہیں رکھتا۔ (آل عمران:۳۲)۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَطِیْعُوا اﷲَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ لَا تُبْطِلُوْآ اَعْمَالَکُمْ (محمد:۳۳)
مومنو! اللہ کا ارشاد مانو اور پیغمبر کی فرمانبرداری کرو اور اپنے اعمال کو ضائع نہ ہونے دو۔
اس حکم ربانی کو قبول کر کے اطاعت کرنی ہدایت کا ذریعہ ہے۔ ارشا ہوتا ہے:
قُلْ اَطِیْعُوا اﷲَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّوا فَاِنَّمَا عَلَیْہِ مَا حُمِّلَ وَ عَلَیْکُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ وَ اِنْ تُطِیْعُوْہُ تَھْتَدُوْا وَ مَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ (النور:۵۴)
کہہ دو کہ اللہ کی فرمانبرداری کرو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر چلو اور اگر منہ موڑو گے تو رسول پر (اس چیز کا ادا کرنا) جو ان کے ذمے ہے اور تم پر (اس چیز کا ادا کرنا) ہے جو تمہارے ذمے ہے، اور اگر تم ان کے فرمان پر چلو گے تو سیدھا راستہ پا لو گے اور رسول کے ذمے تو صاف صاف (احکام کا) پہنچا دینا ہے۔
سورئہ الانفال میں اسے ایمان کا جزو قرار دیا ہے:
وَ اَطِیْعُوا اﷲَ وَ رَسُوْلَہٗٓ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (الانفال:۱)
اور اگر ایمان رکھتے ہو تو اللہ و رسول کے حکم پر چلو۔
اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کا ذریعہ بھی یہی ہے، ارشاد ہوتا ہے:
وَ اَطِیْعُوا اﷲَ وَ الرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ (آل عمران:۱۳۲)
اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحمت کی جائے۔
یہی اُمتی اور نبی کے درمیان بین امتیاز ہے کہ نبی مطاع ہوتا ہے اور امتی مطیع ہوتا ہے۔ کیونکہ پیغمبر مورد وحی ہوتا ہے، اللہ کی طرف سے انسان کی ہدایت کے لئے اس کی طرف وحی نازل ہوتی ہے، وہ احکام شریعت کو وحی کے ذریعے حل کرتا ہے، ارشاد ہوتا ہے:
وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی (النجم:۳،۴)
اور نہ خواہش نفس سے منہ سے بات نکالتے ہیں، یہ (قرآن) تو اللہ کا حکم جو (ان کی طرف) بھیجا جاتا ہے۔
اور اس وحی کی تفہیم بھی خود اللہ تعالیٰ ہی نبی کو عطا کرتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ (القیامۃ:۱۹)
پھر اس (کے معانی) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اس ملکہ کی بنا پر نبی اپنی وحی کا سب سے بڑا مفسر ہوتا ہے کہ منصب نبوت کا یہی تقاضا ہے، ارشاد ہوتا ہے:
بِالْبَیِّنٰتِ وَ الزُّبُرِ وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ (النحل:۴۴)
(اور ان پیغمبروں) کو دلیلیں اور کتابیں دیکر (بھیجا تھا) اور ہم نے تم پر یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو (ارشادات) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں انہیں (وضاحت سے) کھول کر بیان کر دو تاکہ وہ غور کریں۔
وحی الٰہی کی تفسیر نبی خواہ اپنے عمل سے کرے یا قول سے ارشاد فرمائے بہرحال امتی پر لازم ہے کہ وہ اسے قبول کرے اور دل و جان سے عزیز جان کر اس پر عمل کرے، کیونکہ یہی اُمتی کا مقام ہے، ارشاد ہوتا ہے:
اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْآ اِلَی اﷲِ وَ رَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَھُمْ اَنْ یَّّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (النور:۵۱)
مومنوں کی تو یہ بات ہے کہ جب اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلائے جائیں تاکہ وہ ان میں فیصلہ کریں تو کہیں کہ ہم نے (حکم) سن لیا اور مان لیا، اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
انسان جب کفر کے اندھیروں سے نکل کر نور اسلام کی طرف آتا ہے تو ایمان لانے کے ساتھ اس کا اللہ و رسول کے ساتھ یہ عہد ہوتا ہے، اور جو لوگ اس عہد کو توڑ ڈالتے ہیں، وہ ایمان سے خالی ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے:
وَ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاﷲِ وَ بِالرَّسُوْلِ وَ اَطَعْنَا ثُمَّ یَتَوَلّٰی فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ مِّنْ بَعْدِ ذٰلِکَ وَ مَآ اُولٰٓئِکَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ (النور:۴۷)
اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور رسول پر ایمان لائے اور (ان کا) حکم مان لیا۔ پھر اس کے بعد ان میں سے ایک فرقہ پھر جاتا ہے، اور یہ لوگ صاحب ایمان ہی نہیں ہیں۔
کوئی بھی اُمتی جب اس تقسیم ربانی سے باغی ہو کر سمعنا و اطعنا کی حیثیت سے آگے بڑھتا ہے تو تحریف فی الدین کی ابتداء ہوتی ہے، ارشاد ہوتا ہے:
مِنَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ وَ یَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا وَاسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ وَّ رَاعِنَا لَیًّا بِاَلْسِنَتِھِمْ وَطَعْنًا فِی الدِّیْنِ وَ لَوْ اَنَّھُمْ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانْظُرْنَا لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ وَ اَقْوَمَ وَ ٰلکِنْ لَّعَنَھُمُ اﷲُ بِکُفْرِھِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا (النساء:۴۶)
اور یہ جو یہودی ہیں ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ کلمات کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا اور نہیں مانا، اور سنیئے نہ سنوائے جاؤ اور زبان کو مروڑ کر اور دین میں طعن کی راہ سے (تم سے گفتگو کے وقت) راعنا کہتے ہیں اور اگر (یوں) کہتے کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا اور (صرف) اسمع اور (راعنا کی جگہ) انظر (کہتے) تو ان کے حق میں بہتر ہوتا اور بات بھی درست ہوتی لیکن اللہ نے ان کے کفر کے سبب ان پر لعنت کر رکھی ہے تو یہ کچھ تھوڑے ہی ایمان لاتے ہیں۔