• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن و حدیث میں تحریف

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تقریظ فضیلۃ الشیخ علامہ ابو صہیب محمد داو'د ارشد حفظہ اللہ

نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کی ہدایت کے لئے انبیاء کرام علیہم السلام کا مقدس سلسلہ جاری فرمایا جس کی ابتداء سیدنا آدم علیہ السلام سے ہوئی اور اختتام ہمارے پیارے آقا سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوا، انبیاء کی طرح ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں مطاع بنا کر آئے:
وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اﷲِ (النساء:۶۴)
اور ہم نے جو پیغمبر بھیجا ہے اس لئے بھیجا ہے کہ اللہ کے فرمان کے مطابق اس کا حکم مانا جائے۔
کیونکہ منصب نبوت کا یہی تقاضا ہے کہ اُمتی مطیع ہوں اور نبی مطاع ہو، ارشاد ہوتا ہے:
قُلْ اَطِیْعُوا اﷲَ وَ الرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اﷲَ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ
کہہ دو کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اگر نہ مانیں تو اللہ بھی کافروں کو دوست نہیں رکھتا۔ (آل عمران:۳۲)۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَطِیْعُوا اﷲَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ لَا تُبْطِلُوْآ اَعْمَالَکُمْ (محمد:۳۳)
مومنو! اللہ کا ارشاد مانو اور پیغمبر کی فرمانبرداری کرو اور اپنے اعمال کو ضائع نہ ہونے دو۔
اس حکم ربانی کو قبول کر کے اطاعت کرنی ہدایت کا ذریعہ ہے۔ ارشا ہوتا ہے:
قُلْ اَطِیْعُوا اﷲَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّوا فَاِنَّمَا عَلَیْہِ مَا حُمِّلَ وَ عَلَیْکُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ وَ اِنْ تُطِیْعُوْہُ تَھْتَدُوْا وَ مَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ (النور:۵۴)
کہہ دو کہ اللہ کی فرمانبرداری کرو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر چلو اور اگر منہ موڑو گے تو رسول پر (اس چیز کا ادا کرنا) جو ان کے ذمے ہے اور تم پر (اس چیز کا ادا کرنا) ہے جو تمہارے ذمے ہے، اور اگر تم ان کے فرمان پر چلو گے تو سیدھا راستہ پا لو گے اور رسول کے ذمے تو صاف صاف (احکام کا) پہنچا دینا ہے۔
سورئہ الانفال میں اسے ایمان کا جزو قرار دیا ہے:
وَ اَطِیْعُوا اﷲَ وَ رَسُوْلَہٗٓ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (الانفال:۱)
اور اگر ایمان رکھتے ہو تو اللہ و رسول کے حکم پر چلو۔
اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کا ذریعہ بھی یہی ہے، ارشاد ہوتا ہے:
وَ اَطِیْعُوا اﷲَ وَ الرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ (آل عمران:۱۳۲)
اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحمت کی جائے۔
یہی اُمتی اور نبی کے درمیان بین امتیاز ہے کہ نبی مطاع ہوتا ہے اور امتی مطیع ہوتا ہے۔ کیونکہ پیغمبر مورد وحی ہوتا ہے، اللہ کی طرف سے انسان کی ہدایت کے لئے اس کی طرف وحی نازل ہوتی ہے، وہ احکام شریعت کو وحی کے ذریعے حل کرتا ہے، ارشاد ہوتا ہے:
وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی (النجم:۳،۴)
اور نہ خواہش نفس سے منہ سے بات نکالتے ہیں، یہ (قرآن) تو اللہ کا حکم جو (ان کی طرف) بھیجا جاتا ہے۔
اور اس وحی کی تفہیم بھی خود اللہ تعالیٰ ہی نبی کو عطا کرتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ (القیامۃ:۱۹)
پھر اس (کے معانی) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اس ملکہ کی بنا پر نبی اپنی وحی کا سب سے بڑا مفسر ہوتا ہے کہ منصب نبوت کا یہی تقاضا ہے، ارشاد ہوتا ہے:
بِالْبَیِّنٰتِ وَ الزُّبُرِ وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ (النحل:۴۴)
(اور ان پیغمبروں) کو دلیلیں اور کتابیں دیکر (بھیجا تھا) اور ہم نے تم پر یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو (ارشادات) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں انہیں (وضاحت سے) کھول کر بیان کر دو تاکہ وہ غور کریں۔
وحی الٰہی کی تفسیر نبی خواہ اپنے عمل سے کرے یا قول سے ارشاد فرمائے بہرحال امتی پر لازم ہے کہ وہ اسے قبول کرے اور دل و جان سے عزیز جان کر اس پر عمل کرے، کیونکہ یہی اُمتی کا مقام ہے، ارشاد ہوتا ہے:
اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْآ اِلَی اﷲِ وَ رَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَھُمْ اَنْ یَّّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (النور:۵۱)
مومنوں کی تو یہ بات ہے کہ جب اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلائے جائیں تاکہ وہ ان میں فیصلہ کریں تو کہیں کہ ہم نے (حکم) سن لیا اور مان لیا، اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
انسان جب کفر کے اندھیروں سے نکل کر نور اسلام کی طرف آتا ہے تو ایمان لانے کے ساتھ اس کا اللہ و رسول کے ساتھ یہ عہد ہوتا ہے، اور جو لوگ اس عہد کو توڑ ڈالتے ہیں، وہ ایمان سے خالی ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے:
وَ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاﷲِ وَ بِالرَّسُوْلِ وَ اَطَعْنَا ثُمَّ یَتَوَلّٰی فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ مِّنْ بَعْدِ ذٰلِکَ وَ مَآ اُولٰٓئِکَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ (النور:۴۷)
اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور رسول پر ایمان لائے اور (ان کا) حکم مان لیا۔ پھر اس کے بعد ان میں سے ایک فرقہ پھر جاتا ہے، اور یہ لوگ صاحب ایمان ہی نہیں ہیں۔
کوئی بھی اُمتی جب اس تقسیم ربانی سے باغی ہو کر سمعنا و اطعنا کی حیثیت سے آگے بڑھتا ہے تو تحریف فی الدین کی ابتداء ہوتی ہے، ارشاد ہوتا ہے:
مِنَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ وَ یَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا وَاسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ وَّ رَاعِنَا لَیًّا بِاَلْسِنَتِھِمْ وَطَعْنًا فِی الدِّیْنِ وَ لَوْ اَنَّھُمْ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانْظُرْنَا لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ وَ اَقْوَمَ وَ ٰلکِنْ لَّعَنَھُمُ اﷲُ بِکُفْرِھِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا (النساء:۴۶)
اور یہ جو یہودی ہیں ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ کلمات کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا اور نہیں مانا، اور سنیئے نہ سنوائے جاؤ اور زبان کو مروڑ کر اور دین میں طعن کی راہ سے (تم سے گفتگو کے وقت) راعنا کہتے ہیں اور اگر (یوں) کہتے کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا اور (صرف) اسمع اور (راعنا کی جگہ) انظر (کہتے) تو ان کے حق میں بہتر ہوتا اور بات بھی درست ہوتی لیکن اللہ نے ان کے کفر کے سبب ان پر لعنت کر رکھی ہے تو یہ کچھ تھوڑے ہی ایمان لاتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تحریف کی دو صورتیں ہوتی ہیں، لفظی و معنوی۔ معنوی کا مطلب یہ ہے کہ کسی بات کی ایسی تأویل کرنی کہ حکم بے معنی ہو کر رہ جائے اور تحریف لفظی کا مطلب ہے کہ الفاظ میں ہی ردّ و بدل کر دینا۔
اسلام میں جب باطل فرقوں نے جنم لیا تو اپنے نظریات کو حق و صواب ثابت کرنے کے لئے نصوص میں لفظی و معنی تحریفات کی ابتداء ہوئی کیونکہ وہ اسلام کے سیدھے راستے، سمعنا و اطعنا، سے ہٹ چکے تھے، انہوں نے یہ خیال نہ رکھا کہ ہماری حیثیت دین میں مطاع کی نہیں بلکہ مطیع کی ہے، چنانچہ انہوں نے منصب نبوت پر ڈاکہ مار کر قانون دان سے قانون ساز بن گئے، عقائد سے لے کر اعمال تک تحریف کرنے کی کوشش کی، قرآن کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے ذمہ لے رکھا تھا، اس میں لفظی تحریف کرنے میں تو ناکام رہے مگر معنوی تحریفات جی بھر کر کیں، ہاں البتہ اپنے نظریات باطلہ کے حق میں لکھے ہوئے لٹریچر میں قرآنی آیات کو بدلنے کی بھی کوشش کی، رافضیوں سے ایک فرقہ بہائی ہے جو نسخ اسلام کا قائل ہے، ان کا ایک فاضل لکھتا ہے:
علامہ بیضاوی آیت: یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک الاسرار الالھیۃ ما یحرم افشائہٖ کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔ (التبیان و البرھان صفحہ ۵۸، طبع بہائی پبلشنگ ٹرسٹ پاکستان۔ ۲۰۰۴ء)۔
یہ تو ایک کافر اور منکر اسلام کا حوالہ ہے، مگر بعض ایسے افراد جو اُمت مرحومہ میں خود کو داخل سمجھتے ہیں، انہوں نے بھی قرآن کی آیات میں لفظی تحریفات کی ہیں، جس کی تفصیل اصل کتاب میں دیکھی جا سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تحریف کی ابتداء متروک و کذاب افراد نے کی جنہوں نے اس مشن کو مستقل بنیادوں پر استوار کیا اور ان کا مرکز عراق کا علاقہ تھا جو فتنوں کا سرچشمہ اور بقول سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم قرن الشیطان ہے۔ (طبرانی الاوسط جلد۵ صفحہ ۶۳، رقم الحدیث ۴۱۱۰)۔
اس حقیقت کا ادراک کر کے امام اہل سنت احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کہا تھا کہ اہل کوفہ کی روایت میں نور نہیں۔ (سنن ابوداو'د صفحہ۳۴۱، جلد۲)۔
اہل عراق کی معنوی ذریت آج بھی وضع احادیث سے متہم ہے۔ ہمارے معاصر اہل تقلید کے جملہ مصنفین میں شاید ہی کوئی ایسا مصنف مل سکے جو نصوص میں لفظی و معنوی تحریف کا مرتکب نہ ہوا ہو، قبور دھرم کے ناصر مفتی احمد یار گجراتی اثبات تقلید پر دلیل دیتے ہوئے لکھتا ہے:
عن انس قال سمعت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یقول ان الرجل یصلی و یصوم و یحج و یغزو و انہ لمنافق قالوا یا رسول اﷲ بما ذا دخل علیہ النفاق قال لطعنہ علی امامہ من قال قال اﷲ فی کتابہ فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون (جاء الحق ص۲۶ ج ۱)
یہ حدیث مفتی احمد یار کی وضع کردہ ہے جو اس نے بزعم خود تقلید کے اثبات کے لئے دلیل بنائی ہے، حدیث کی کسی کتاب میں اس کا قطعاً وجود نہیں۔
اہل تقلید کا دیوبندی گروپ بھی وضع احادیث سے متہم ہے، ان کے اکابر کی متعدد مثالیں خاکسار نے تحفہ حنفیہ اور ضمیمہ سبیل الرسول میں درج کر دی ہیں، اعادہ کی ضرورت نہیں۔
قرآن کریم نے خمر (شراب) کو حرام قرار دیا ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ کل شراب اسکر فھو حرام، ہر نشہ آور مشروب حرام ہے۔ (مسلم کتاب الاشربۃ باب بیان ان کل مسکر خمر و ان کل خمر حرام رقم الحدیث ۵۲۱۲)
اور ایک حدیث میں ہے: کل مسکر خمر و کل مسکر حرام، یعنی ہر نشہ آور چیز خمر (شراب) ہے اور ہر مسکر حرام ہے۔ (مسلم باب سابق رقم الحدیث ۵۲۱۹)۔
اس حدیث کی رو سے ہر نشہ آور مشروب حرام ہے، خواہ وہ کسی بھی چیز سے بنایا گیا ہو، اس تفسیر نبوی کے برعکس مولوی ظفر احمد تھانوی دیوبندی کہتا ہے: صرف انگور کی شراب حرام ہے، خواہ کم ہو یا زیادہ، انگوری کے علاوہ جتنی شرابیں ہیں فقط مقدار مسکر میں ہی حرام ہیں، اس کے الفاظ ہیں:
اما الخمر فحرام قلیلھا و کثیرھا و اما غیرھا فحرام القدر المسکر منہ (اعلاء السنن ص ۳۲ ج۱۸)
بلاشبہ لغت میں انگور کے شیرہ کو خمر کہتے ہیں، مگر جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر نشہ آور مشروب کو خمر قرار دیا ہے، تو اس تفسیر کے بالمقابل لغت لے کر بیٹھ جانا، سمعنا و اطعنا، کی خود نفی کرنا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اہل تقلید کے دونوں گروپوں (بریلوی و دیوبندی) کی طرف سے مخصوص مقاصد کے لئے کتب ستہ کے تراجم بھی دھڑا دھڑ شائع ہو رہے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ بالخصوص نوجوان نسل ان تراجم پر بھی ایک طائرانہ نظر ڈال کر حفاظت سنت کا حق ادا کرے، اللہ کرے کوئی اس فرض کو ادا کرے، ان تمام تراجم پر نقد کرنا ہمارا موضوع نہیں اور نہ ہی یہ مختصر تبصرہ اس بات کا متحمل ہے۔ چند غلط ترا جم کی نشان دہی بطور نمونہ پیش خدمت ہے، جو مطلب برآری اور حنفیت کے دفاع کے لئے حدیث نبوی میں معنوی تحریفات کی گئی ہیں:
(۱) و مسح بناصیتہ و علی العمامۃ، پیشانی کی مقدار سر پر مسح کیا۔ (شرح صحیح مسلم، ص۹۴۶، ج۱۔ للمولوی غلام رسول سعیدی بریلوی۔ طبع فرید بک سٹال ۱۹۹۵ء)۔
(۲) فدعا بماء فرشہ، پانی منگا کر کپڑے پر بہا دیا۔ (ایضا ص۹۶۶۔ ج۱)
یہ تو صرف دو مثالیں ہیں، حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی معنوی تحریفات سے یہ ترجمہ بھرا پڑا ہے، خاکسار نے ۱۹۹۶ء کے ابتداء میں اس کی صرف پہلی جلد (جس میں فقط ۱۰۶۲ احادیث کا ترجمہ ہے) پر نقد کیا تو چار صد چھبیس اغلاط فاش کا ضخیم مسودہ تیار ہو گیا، اسی پر ہی باقی تراجم احناف کو قیاس کر لیا جائے۔
ان ظالموں نے تحریف معنوی کے علاوہ نصوص میں تحریف لفظی کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اللہ تعالیٰ نے ہر زمانے میں محرفین کی خیانتوں کا پردہ چاک کرنے کے لئے بڑے بڑے لوگ پیدا کئے جو ان کی تأویلات فاسدہ اور تحریفات سے عوام الناس کو مطلع کرتے رہے، اللہ تعالیٰ ائمہ محدثین کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے جنہوں نے اللہ کی توفیق سے کتاب و سنت کی حفاظت کا کام باحسن طریقے سے ادا کیا، اس سلسلہ مروارید اور سموط ذھبیہ کی کڑی محبی و اخی الشیخ ابوجابر حفظہ اللہ تعالیٰ ہیں، جنہوں نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے موجودہ دور کے محرفین کا تعاقب کیا ہے، حق و باطل کے اس معرکہ میں انہوں نے باطل کو چاروں شانے چت لٹا دیا ہے کیونکہ اس میدان حرب میں ''زھق الباطل'' اہل تقلید کا مقدر ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ محترم کے کام میں برکت ڈالے اور اندھیروں کے سوداگروں کے لئے مشعل راہ بنائے، اور فاضل دوست کے لئے توشہ آخرت اور کفارہ سیّأت۔ آمین یا الٰہ العالمین۔
ابو صہیب محمد داو'د ارشد​
۱۳ ستمبر ۲۰۰۶ء​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

منکر حدیث تمنا عمادی کا نظریہ
مرزا غلام احمد قادیانی دجال کے متعلق


امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ جناب عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے زندہ بجسد عنصری کے آسمانوں پر اٹھا لیا ہے اور وہ اس وقت آسمانوں پر زندہ موجود ہیں اور قرب قیامت وہ دوبارہ نازل ہوں گے۔
قرآن کریم کی متعدد آیات اور احادیث صحیحہ و متواترہ سے یہ مضمون ثابت ہے۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے آسمانوں پر اٹھائے جانے کا انکار صرف فلاسفہ، معتزلہ اور یہود و نصاری نے کیا ہے اور موجودہ دور میں اس کا انکار منکرین حدیث نے کیا ہے۔
منکرین حدیث میں سے ایک صاحب ''تمنا عمادی'' بھی ہے جسے اس دور کا محدث، محقق اور علامہ قرار دیا گیا ہے اور اس کے لٹریچر کو مولوی محمد اکرم جھنگوی اپنے استاذ ابوالخیر اسدی کی مدد سے شائع کر رہا ہے۔ یہ خود ساختہ محدث و محقق مرزا غلام احمد قادیانی جیسے دجال اور ملعون کو رحمۃ اللہ علیہ کہتا ہے اور اسے جھوٹا و کذاب بھی نہیں مانتا۔ ظاہر ہے کہ جو شخص کسی دجال و کذاب کو جھوٹا نہ مانے تو درحقیقت وہ خود دجال و کذاب ہو گا۔ اور اس کی تحقیق بھی مرزا قادیانی جیسی ہو گی۔ تمنا عمادی نے یہ بات اپنی کتاب ''الطلاق مرتان'' مطبوعہ عزیزیہ آرٹ پریس ڈھاکہ کے صفحات ۱۶۔۱۷ اور ۱۸ پر لکھی ہے جو اکتوبر ۶۳ء کو شائع ہوئی تھی۔
اس کتاب کے خاص مقامات کا عکس اگلے صفحہ پر ملاحظہ فرمائیں:
کیماڑی میں دعوت قرآن و حدیث کی ترویج
الحمد ﷲ! کیماڑی کے علاقہ میں قرآن و حدیث کی دعوت آہستہ آہستہ پھیل رہی ہے اور لوگ قرآن و حدیث کی دعوت کو اختیار کر کے اہل حدیث بنتے جا رہے ہیں۔ اس وقت کیماڑی میں صرف ایک چھوٹی سی مسجد، مسجد ابراہیم کے نام سے قائم ہو چکی ہے۔ لیکن پوری کیماڑی کے لئے اس وقت کم از کم پانچ مساجد کی ضرورت ہے۔
الداعی الی الخیر:​
مدرسہ اُمّ المؤمنین حفصہ بنت عمر فاروق رضی اللہ عنہما (للبنات) کیماڑی کراچی​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سنت کی اہمیت اور تقلید کی مذمت

اللہ تعالیٰ نے اُمت مسلمہ کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے اپنے آخری نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور اپنی اطاعت کے ساتھ ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو بھی لازم و ملزوم قرار دیا بلکہ یہاں تک ارشاد فرمایا:
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اﷲَ (النساء:۸۰)
جس نے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کی تو گویا اس نے اللہ ہی کی اطاعت کی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے سلسلہ میں چند آیات پیش کی جاتی ہیں تاکہ یہ مسئلہ بالکل واضح اور بے غبار ہو جائے۔ اگرچہ اہل ایمان کے لئے تو ایک ہی آیت کافی و شافی ہے اور نہ ماننے والے کے لئے دفتر کے دفتر بھی ناکافی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَطِیْعُوا اﷲَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اﷲِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا (النساء:۵۹)
''اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ تعالیٰ کی اور اطاعت کرو رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اور اُن کی جو تم میں اولوا الامر (صاحب حکومت) ہیں۔ پھر اگر تمہارے درمیان کسی چیز میں اختلاف ہو جائے تو اس بات کو اللہ اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف لوٹا دو، اگر تم واقعی اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو یہ تمہارے لئے بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھی ہے''۔
اس آیت مبارکہ سے واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اہل ایمان پر لازم و ضروری ہے۔ اور خلیفہ وقت اور مسلمانوں کے امیر کی اطاعت بھی معروف میں ضروری ہے۔ لیکن اگر کسی مسئلہ میں مسلمانوں کے درمیان یا خلیفہ وقت اور مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف واقع ہو جائے تو پھر اس مسئلہ کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں پیش کیا جائے گا اور قرآن حکیم اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جو حل مل جائے تو اسے قبول کیا جائے گا۔ جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو یہی حل اس کے لئے بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی اچھا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ایک شبہ کا ازالہ (اولوا الامر کی اطاعت کا کیا مطلب ہے؟)

اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے بعد اُولوا الامر کی اطاعت کا بھی حکم دیا گیا ہے جس سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ اُولوا الامر کی اطاعت بھی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی طرح لازم و ضروری ہے لیکن اس آیت کے بعد والے ٹکڑے میں اختلاف کے وقت صرف اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کا حکم دیا گیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ حقیقی اطاعت صرف اللہ تعالیٰ کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور اُولواالامر کی اطاعت عارضی ہے۔ یہ اطاعت عام اور سیاسی اُمور میں ہے۔ نیز اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت غیر مشروط ہے جبکہ اُولوالامر کی اطاعت مشروط ہے جیسا کہ احادیث سے یہ بات واضح اور عیاں ہوتی ہے۔
جناب عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت مبارکہ کے متعلق فرماتے ہیں:
نزلت فی عبداﷲ بن حذافۃ بن قیس بن عدی اذ بعثہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی سریۃ (بخاری:۴۵۸۴)
''یہ آیت عبداللہ بن حذافہ بن قیس بن عدی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک سریہ میں (امیر بنا کر) بھیجا تھا''۔
جناب علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ بھیجا اور اس پر ایک انصاری (عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ ) کو امیر مقرر فرمایا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ وہ اس انصاری کی اطاعت کریں۔ دورانِ سفر انصاری کو کسی بات پر غصہ آگیا اور اس نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کہا کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں میری اطاعت کا حکم نہیں دیا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا کیوں نہیں۔ انصاری نے کہا کہ میرے لئے لکڑیاں جمع کرو۔ پس انہوں نے جمع کر دیں پھر اس نے کہا کہ ان لکڑیوں سے آگ روشن کرو چنانچہ انہوں نے آگ روشن کی۔ پس اس انصاری نے کہا کہ اب اس آگ میں داخل ہو جاؤ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ارادہ کیا اور ان کی حالت یہ تھی کہ بعض نے بعض کو پکڑ رکھا تھا اور وہ کہہ رہے تھے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر آگ سے بچنے کے لئے ہی ایمان لائے تھے۔ پس اسی کشمکش کے دوران آگ بجھ گئی اور انصاری کا غصہ بھی رفع ہو گیا۔ پس یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ آگ میں داخل ہو جاتے تو قیامت تک اس سے نہ نکل سکتے۔ (امیر کی) اطاعت صرف معروف میں ہے، (صحیح بخاری کتاب المغازی باب سریہ عبداللہ بن حذافہ السہمی الرقم:۴۳۴۰) اور دوسری روایت میں ہے:
لا طاعۃ فی المعصیۃ انما الطاعۃ فی المعروف (بخاری:۷۲۵۷)
معصیت میں کوئی اطاعت نہیں، اطاعت تو صرف معروف کے کاموں میں ہے۔
جناب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(مسلمانوں کے امیر کا) حکم سننا اور اطاعت کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے خواہ وہ حکم پسند نہ آئے جب تک کہ وہ تمہیں کسی گناہ کا حکم نہ دے اور جب وہ گناہ کا حکم دے تو ایسی صورت میں اس کا حکم سننا اور اس کی اطاعت کرنا جائز نہیں ہے۔
(بخاری و مسلم)۔
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اُولوا الامر کی اطاعت صرف معروف کے کاموں میں ہے اور جب معصیت کا حکم دیا جائے گا تو پھر کوئی سمع و طاعت جائز نہیں ہے۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (النساء:۶۵)
پس آپ کے رب کی قسم وہ لوگ مومن نہیں ہو سکتے جب تک آپ کو اپنے اختلافی اُمور میں اپنا فیصل نہ مان لیں پھر آپ کے فیصلہ کے بارے میں اپنے دِلوں میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں اور پورے طور سے اسے تسلیم کر لیں''۔
اس آیت میں واضح کر دیا گیا کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختلافی مسائل میں حکم اور فیصلہ کرنے والا نہ مان لے وہ کبھی مومن نہیں ہو سکتا اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رب کی قسم کھا کر ان لوگوں کے ایمان کی نفی کر دی ہے جو اختلافی مسائل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم نہیں مانتے۔ گویا ایسا شخص کبھی مومن ہو ہی نہیں سکتا۔ ایک دوسرے مقام پر ارشاد ہے:
وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جَھَنَّمَ وَ سَآئَ تْ مَصِیْرًا (النساء:۱۱۵)
اور جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتا ہے، ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد اور مومنوں کی راہ کو چھوڑ کر وہ کسی اور راستے کی اتباع کرتا ہے تو ہم بھی اسے پھیر دیں گے جس طرف وہ خود پھر گیا ہے اور اسے جہنم میں ڈال دیں گے اور وہ برا ٹھکانہ ہے۔
جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی مخالفت کرتا ہے خود بھی اس پر عمل نہیں کرتا اور دوسروں کو بھی اس سنت کو اختیار کرنے سے روکتا ہے حالانکہ اس کے سامنے ہدایت یعنی سنت واضح ہو چکی ہے اور وہ مومنوں کی راہ کے بجائے دوسرے راستے پر چلتا ہے تو ایسا شخص جہنمی ہے۔ مومنوں کی راہ سے مراد بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا راستہ ہے۔ کیونکہ مومن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے راستے پر گامزن رہتے ہیں۔ اس کی ایک مثال حدیث میں اس طرح بیان ہوئی ہے۔ جناب براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من ذبح قبل الصلوۃ فانما یذبح لنفسہ ومن ذبح بعد الصلوۃ فقد تم نسکہ و اصاب سنۃ المسلمین (متفق علیہ)
جس شخص نے نماز سے پہلے جانور ذبح کیا تو وہ اس نے اپنے لئے ذبح کیا اور جس نے نماز کے بعد ذبح کیا تو اس نے اپنی قربانی مکمل کر لی اور اس نے مسلمانوں کی سنت کو پا لیا۔
اور دوسری حدیث میں یہ الفاظ ہیں:
فمن فعل ذالک فقد اصاب سنتنا ...(متفق علیہ)
(اور جس شخص نے عید کی نماز کے بعد قربانی کی) پس جس نے ایسا کیا اُس نے ہماری سنت کو پا لیا۔
سنۃ المسلمین کی وضاحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت سے فرما دی۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی مسلمانوں کی سنت ہے۔
لَقَدْ مَنَّ اﷲُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ (آل عمران:۱۶۴)
درحقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود ان ہی میں سے ایک پیغمبر بھیجا جو اس کی آیات انہیں سناتا ہے ان کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور انہیں کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔
اس آیت کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا والوں کی ہدایت کا سبب بنایا اور جن لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور اطاعت اختیار کی تو وہ گمراہیوں کی اتھاہ تاریکیوں سے نکل کر فلاح و ہدایت کی روشن شاہراہ پر گامزن ہو گئے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع ہدایت کا سبب ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر کسی اور کا اتباع اختیار کرنا گمراہی ہے۔
دوسرے مقام پر ارشاد ہوا:
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَ یَغْفِرْ لَـــکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَ اﷲُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ قُلْ اَطِیْعُوا اﷲَ وَ الرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اﷲَ لَایُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ (آل عمران:۳۱۔۳۲)
اے نبی( صلی اللہ علیہ وسلم ) لوگوں سے کہہ دو اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیرو ی اختیار کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا، وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔ ان سے کہو اللہ اور رسول کی اطاعت قبول کر لو پھر اگر تمہاری دعوت قبول نہ کریں تو یقینا یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے جو اس کی اور اس کے رسول کی اطاعت سے انکار کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا شرط ایمان ہے کیونکہ ایمان کی وادی میں قدم رکھنے کا مطلب یہی ہے کہ وہ شخص اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓااَشَدُّ حُبًّا ِﷲِ (البقرۃ:۱۶۵)
اور اہل ایمان اللہ تعالیٰ سے شدید محبت کرتے ہیں۔
اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعویدار ہے تو اس کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع اختیار کرنا لازم ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر ایک شخص کوئی دعویٰ کرتا ہے تو اپنے اس دعوے پر ثبوت پیش کرنا اس پر لازم ہو گا۔ اسی طرح جو شخص اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعویدار ہے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کر کے اس کا ثبوت فراہم کرے گا ورنہ اس کا یہ دعویٰ ہی سرے سے جھوٹا ہو گا۔ معلوم ہوا کہ ایمان والوں کے لئے اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرض ہے اور اطاعت رسول سے اعراض کرنا کفر کے مترادف ہے۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے:
لَقَدْ کَانَ لَـــکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اﷲَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اﷲَ کَثِیْرًا (الاحزاب:۲۱)
''جو کچھ رسول تمہیں دے، وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رُک جاؤ اور اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے''۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع ہدایت پر قائم رہنے کا ذریعہ ہے اور یہی صراط مستقیم ہے۔
وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ (الاعراف:۱۵۸)
اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پیروی اختیار کرو تاکہ تمہیں ہدایت نصیب ہو۔
وَاتَّبِعُوْنِ ھٰذَا صِرَاطُ مُّسْتَقِیْمُ (الزخرف:۶۱)
اور میری پیروی اختیار کرو، یہی سیدھا راستہ ہے۔
جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اختیار کرنے کی بجائے کسی اور طریقے کو اختیار کرتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اسے اختیار کرکے وہ ہدایت پالیں گے تو وہ خام خیالی میں مبتلا ہیں۔ اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو چھوڑنے والے گمراہ ہیں اور قیامت کے دن بھی وہ ناکام و نامراد ہوں گے۔
فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖٓ اَنْ تُصِیْبَھُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ یُصِیْبَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (النور:۶۳)
رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیئے کہ وہ کسی فتنے میں گرفتار نہ ہو جائیں یا ان پر دردناک عذاب نہ آجائے۔
''فتنہ'' کی مختلف صورتوں کے علاوہ ایک صورت یہ بھی ہے (اور یہ صورت تاریخ کے ناقابل تردید دلائل سے بالکل واضح ہے) کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی چھوڑ کر مختلف اماموں کی تقلید اختیار کر لیں گے اور یہ تفرقہ بازی ان میں شدید نفرت اور اختلافات پیدا کر دے گی اور آخر کار ان میں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے بھی اس آیت میں فتنہ سے تقلید مراد لی ہے اور اس کا ردّ کیا ہے۔ (کتاب التوحید صفحہ ۲۹۰، باب ۳۸)۔
اس آیت سے واضح ہوا کہ جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کی مخالفت کرتے ہیں وہ کسی فتنہ میں مبتلا ہو سکتے ہیں یا انہیں دردناک عذاب پہنچ سکتا ہے۔ اب اس مسئلہ کی اس سے زیادہ وضاحت ممکن نہیں ہے۔ کوئی بدنصیب ایمان کا دعویٰ کرنے کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو تو پس پشت ڈال دے اور اپنے کسی محبوب امام کی تقلید کا راگ الاپتا رہے، اللہ رب العالمین کے حکم کو تو خاطرمیں نہ لائے اور اپنے من پسند امام کی راہ پر گامزن ہو تو ایسے شخص کا انجام اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے؟پھر محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تقاضا بھی یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تمام لوگوں سے زیادہ محبت کی جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو تمام لوگوں کے اقوال پر فوقیت دی جائے اور جو ایسا نہ کرے تو اس کا دعویٰ ایمان محض خام خیالی تصور کیا جائے گا۔ لہٰذا مقلد کو اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دلائل شرعیہ چار ہیں

عموماً یہ بات مشہور ہے کہ دلائل شرعیہ چار ہیں۔
1- کتاب اللہ۔
2-سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
3-اجماع امت اور
4-قیاس۔
اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ اصل ماخذ دین دو ہی ہیں:
1-قرآن مجید اور
2-حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
اجماع کا ماخذ بھی قرآن و حدیث ہی ہے۔ اور قرآن و حدیث کو سامنے رکھ کر کسی مسئلہ پر اُمت مسلمہ کے تمام علماء کا اتفاق و اتحاد کر لینا اجماع کہلاتا ہے۔ اور قیاس بھی قرآن و حدیث ہی کے کسی مسئلہ کو سامنے رکھ کر کیا جاتا ہے اور قرآن و حدیث اصل ہیں۔ اور اجماع و قیاس و اجتہاد اس کی فرع ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
1-قرآن مجید

اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ آخری کتاب اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عظیم الشان معجزہ ہے کیونکہ پندرہ سو سال گزرنے کے باوجود بھی قرآن مجید جیسی کتاب کوئی بھی پیش نہ کر سکا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰٓی اَنْ یَّّاْتُوْا بِمِثْلِ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَ لَوْ کَانَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَھِیْرًا (بنی اسرائیل:۸۸)
کہہ دیجئے کہ اگر تمام انسان اور جنات مل کر اس قرآن کی مثل لانا چاہیں تو ان سب سے اس کی مثل لانا ناممکن ہے گو وہ (آپس میں) ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں۔
قرآن مجید ہر طرح کے شک و شبہ سے پاک و صاف ہے۔ یہ ایسا کلام ہے کہ اسے اگر پہاڑ پر بھی نازل کر دیا جاتا تو وہ پہاڑ بھی اللہ کے خوف سے دب جاتا اور پھٹ جاتا۔ (الحشر:۲۱)
قرآن مجید کی ایک آیت کا انکار بھی گویا پورے قرآن کا انکار ہے۔ اسی طرح اپنی خود ساختہ فقہ کے مقابلے میں قرآن مجید کی آیات کی غلط، باطل اور بعید تاویل کرنا بھی یہود و نصاریٰ کے افعال میں سے ہے۔ یہود اپنے خود ساختہ مسائل کے مقابلے میں کتاب اللہ کو اس طرح پس پشت ڈال دیتے تھے کہ گویا وہ اسے جانتے ہی نہ تھے۔ اسی طرح کتاب کے بعض فرامین کو وہ مانتے اور بعض کا انکار کر دیتے تھے۔
قرآن مجید کے ساتھ حنفیوں نے کیا سلوک کیا ہے وہ ابوالحسن عبیداللہ کرخی کی زبانی سماعت فرمائیں:
ان کل آیۃ تخالف قول اصحابنا فانھا تحمل علی النسخ او علی الترجیح و الاولی ان تحمل علی التأویل من جھۃ التوفیق (اصول کرخی اصول۲۸)
''ہر وہ آیت جو ہمارے فقہاء کے قول کے خلاف ہو گی اسے یا تو منسوخ سمجھا جائے یا ترجیح پر محمول کیا جائے گا اور اولی یہ ہے کہ اس آیت کی تأویل کر کے اسے (فقہاء کے قول کے) موافق کر لیا جائے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2-سنت

قرآن مجید کے بعد دوسرا بڑا ماخذ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کا علم حدیث کے ذریعے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی اطاعت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ رسول چونکہ اللہ تعالیٰ کا نمائندہ ہوتا ہے اور اس کے ذمہ لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچانا ہوتا ہے، لہٰذاللہ تعالیٰ نے رسول کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے:
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اﷲَ (النساء:۸۰)
جس شخص نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ ہی کی اطاعت کی۔
اختلافی مسائل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا انکار کرنے والا اور اسے دل سے تسلیم نہ کرنے والا مومن نہیں ہے۔ اسی طرح ہدایت واضح ہو جانے کے بعد یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا عمل کا علم ہونے کے بعد بھی کوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گا تو وہ پکا جہنمی ہے۔
لیکن فقہ حنفی کا حدیث کے متعلق کیا اصول ہے؟ اس اصول کو ہم اصولِ کرخی سے معلوم کرتے ہیں:
ان کل خبر بخلاف قول اصحابنا فانہ یحمل علی النسخ او علی انہ معارض بمثلہ ثم صار الی دلیل اخر او ترجیح فیہ بما یحتج بہ اصحابنا من وجوہ الترجیح او یحمل علی التوفیق (اصول کرخی اصول ۲۹)
بے شک ہر اس حدیث کو جو ہمارے اصحاب (یعنی فقہاء حنفیہ) کے خلاف ہو گی منسوخ سمجھا جائے گا اور یا یہ حدیث کسی دوسری حدیث کے خلاف ہے۔ پھر کسی اور دلیل کا تصور کیا جائے گا، پھر بعض وجوہ کی بناء پر اس حدیث کو ترجیح دی جائے گی کہ جو حدیث ہمارے اصحاب کی دلیل ہے۔ یا پھر یہ تصور کیا جائیگا کہ موافقت کی کوئی اور صورت ہو گی (جو ہمیں نہیں معلوم)''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
3-اجماع

اجماع اُمت کا مطلب یہ ہے کہ کسی مسئلہ پر اُمت کے تمام علماء و فقہاء کا اتفاق ہو۔ صرف حنفی فقہاء کا اجماع و اتفاق مراد نہیں ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں بہت سے مسائل پر ان کا اتفاق و اتحاد ہوا تو یہ اجماع اُمت ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد اگرچہ اجماع و اتفاق کے دعوے تو بہت سے مسائل میں کئے گئے ہیں لیکن حقیقت میں ایسے اجماعی مسائل بہت کم ہیں۔ البتہ اگر اُمت کا کسی مسئلہ پر اجماع ثابت ہو جائے تو اس اجماع کا انکار بھی صحابہ کرام کے اجماع کے انکار کی طرح کفر ہے۔ کیونکہ حدیث میں ہے: جناب عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لا یجمع اﷲ امتی علی ضلالۃ ابدا و ید اﷲ علی الجماعۃ
(المستدرک للحاکم ج۱ ص ۱۱۶ و قال الالبانی والحافظ زبیر علی زئی صحیح۔ مشکاۃ الرقم۱۷۳)
اللہ تعالیٰ میری اُمت کو کبھی بھی گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور جماعت پر اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے۔
اسی طرح کی ایک حدیث ترمذی کتاب الفتن میں بھی ہے
 
Top