• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن و حدیث میں تحریف

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وضع احادیث کے اسباب

وضع احادیث کے متعدد اسباب ہیں جن پر محدثین کرام نے مفصل گفتگو کی ہے۔ ان میں سے ایک سبب تقلید بھی ہے۔ مقلدین نے قرآن و حدیث کی بجائے شخصی اقوال کو دین و مذہب قرار دیا تو ان کے اقوال کی تقویت و حمایت کی غرض سے احادیث کو وضع کیا، امام قرطبی رحمہ اللہ شرح مسلم میں فرماتے ہیں:
استجاز بعض فقھاء اھل الرأی نسبۃ الحکم الذی دل علیہ القیاس الجلی الی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نسیۃ قولیۃ فیقولون فی ذلک قال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کذا! و لھذا تری کتبھم مشحونۃ باحادیث تشھد متونھا بانھا موضوعۃ تشبۃ فتاوی الفقھاء ولانھم لا یقیمون لھا سندا
اہل رائے نے اس حکم کی نسبت جس پر قیاس جلی دلالت کرے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر نے کو جائز قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے فرمایا ہے کہ اگر آپ فقہ کی کتابیں ملاحظہ فرمائیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ وہ ایسی روایات سے بھری ہوئی ہیں جن کے متن من گھڑت ہونے پر گواہی دیتے ہیں۔ وہ متن ان کتابوں میں اس وجہ سے درج ہیں کہ وہ فقہاء کے فتوؤں کے موافق مشابہت رکھتے ہیں۔ حالانکہ وہ ان کی سند بھی نہیں پاتے۔
(بحوالہ الباعث الحثیث ص۸۸)۔
مولانا عبدالحئی لکھنوی مرحوم حنفی نے کھل کر اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ:
السادس قوم حملھم علی الوضع التعصب المذھبی والتجمد التقلیدی کما وضع مامون الھروی حدیث من رفع یدیہ فی الرکوع فلا صلوۃ لہ و وضع حدیث من قرأ خلف الامام فلا صلوٰۃ لہ وضع ایضا حدیثا فی ذم الشافعی و حدیثا فی منقبۃ ابی حنیفۃ
یعنی روایات کو وضع کرنے کا چھٹا گروہ وہ ہے جن کو مذہبی تعصب اور تقلیدی جمود نے وضع پر اُبھارا ہے جیسا کہ مامون ہروی نے یہ روایات وضع کیں کہ جو رفع الیدین کرے گا اس کی نماز نہیں، اور جو امام کے پیچھے قراء ت کرے اس کی نماز نہیں، اسی طرح امام شافعی کی مذمت اور مناقب ابو حنیفہ (میں ا س نے روایت کو) وضع کیا ہے۔ (الآثار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ ص:۱۷)
مولانا لکھنوی مرحوم نے یہ جو بات کہی ہے وہ بالکل انصاف پر مبنی ہے، تقلیدی تعصب اور اقوال فقہاء اور آراء الرجال کی تائید و نصرت میں ان کے مقلدین نے متعدد روایات کو وضع کیا ہے۔ آج بھی یہ لوگ وضع احادیث کرنے سے نہیں ڈرتے۔ (تحفہ حنفیہ ص۳۴،۳۵)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قرآن و حدیث میں تحریف

تحریف کا مطلب ہے کسی مضمون کو بدل دینا، تحریر میں اصل الفاظ بدل کر کچھ اور لکھ دینا، عبارت میں ردّ و بدل، تغیر و تبدل کرنا۔ یہود کے علماء کی اللہ تعالیٰ نے یہ صفت بیان کی ہے کہ وہ کتاب اللہ کے مضمون میں ردّ و بدل اور تبدیلی کر ڈالتے تھے اور اللہ کے فرمان کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَـــکُمْ وَ قَدْ کَانَ فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ یَسْمَعُوْنَ کَلٰمَ اﷲِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَہٗ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوْہُ وَ ھُمْ یَعْلَمُوْنَ (البقرۃ:۷۵)
''(اے مسلمانوں) کیا پھر بھی تم توقع رکھتے ہوں کہ یہ تمہاری بات مان لیں گے حالانکہ ان میں سے ایک گروہ ایسا بھی تھا جو اللہ کا کلام سننے اور اس کو سمجھ لینے کے بعد تحریف کر ڈالتے تھے حالانکہ وہ جانتے ہوتے تھے''۔
مِنَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ وَ یَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَ عَصَیْنَا وَ اسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ وَّ رَاعِنَا لَیًّا بِاَلْسِنَتِھِمْ وَطَعْنًا فِی الدِّیْنِ
(النساء:۴۶)
''ان لوگوں میں سے جو یہودی ہیں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو الفاظ کو ان کے موقع و محل سے پھیر دیتے ہیں (بظاہر کہتے ہیں) ہم نے سنا اور دل میں کہتے ہیں ہم نے قبول نہیں کیا اور آپ سے کہتے ہیں سنو (اور دل میں کہتے ہیں) تجھے سنائی نہ دے اور آپ کو راعنا کے بجائے راعینا کہتے ہیں اپنی زبان کو توڑ موڑ کر اور تمہارے دین پر طعن کرتے ہوئے''۔
ایک اور مقام پر اشاد ہے:
فَبِمَا نَقْضِھِمْ مِّیثَاقَھُمْ لَعَنّٰھُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوْبَھُمْ قٰسِیَۃً یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ وَ نَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُکِّرُوْا بِھٖج وَ لَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰی خَآئِنَۃٍ مِّنْھُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْھُمْ فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاصْفَحْ اِنَّ اﷲَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ
''پھر ان کے اپنے عہد کو توڑ دینے کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت بنا دیا۔ وہ الفاظ کو ان کے (اصل) موقع محل سے بدل دیتے ہیں اور جو نصیحت انہیں کی گئی تھی وہ اس کے ایک بڑے حصے کو بھول گئے اور تم (آئندہ بھی) ان کی کسی نہ کسی خیانت سے آگاہ ہوتے رہو گے۔ ان میں سے بہت کم لوگوں کے سوا جو بچے ہوئے ہیں پس انہیں معاف کر دو اور ان سے درگزر کرو۔ اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (المائدۃ:۱۳)۔
تحریف کے علاوہ علماء یہود کی ایک عادت یہ بھی تھی کہ وہ ایک مسئلہ اپنی طرف سے گھڑ لیتے اور پھر لوگوں کو باور کرواتے کہ یہ فرمان رب العالمین ہے۔
فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتٰبَ بِاَیْدِیْھِمْ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اﷲِ لِیَشْتَرُوْا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیْلًا فَوَیْلٌ لَّھُمْ مِّمَّا کَتَبتْاَ اَیْدِیْھِمْ وَ وَیْلٌ لَّھُمْ مِّمَّا یَکْسِبُوْنَ (البقرۃ:۷۹)
''پس ان لوگوں کے لئے تباہی ہے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب (ایک تحریر) لکھتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے (یعنی اللہ کا فرمان ہے) تاکہ اس (فتوی) کے ذریعے قلیل سا معاوضہ حاضل کریں پس ان لوگوں کے لئے تباہی ہے جو اِن کے ہاتھوں نے لکھا اور ان کے لئے تباہی ہے جو ان کے ہاتھوں نے کمایا''۔
کتاب عربی زبان میں کسی تحریر، خط وغیرہ کو بھی کہتے ہیں:
یہود و نصارٰی جن بیماریوں میں مبتلا ہوئے تھے اور نفس پرستی اور اللہ کی نافرمانی کی وباء جس طرح ان کے رگ و ریشہ میں پیوست ہو گئی تھی آج اُمت مسلمہ بھی ان ہی بیماریوں سے دوچار ہے بلکہ بعض معاملات میں انہوں نے یہود و نصارٰی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے اور آج یہ بھی انہی مغضوب علیہم اور ضال و گمراہ لوگوں کے نقش قدم پر چل پڑی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ ایسا دور بھی آجائے گا کہ جب اُمت مسلمہ بھی یہود و نصارٰی کی سنت کو اختیار کرلے گی اور ان کے نقش قدم پر رواں دواں ہو جائے گی۔ جناب ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
حدثنا سعید بن أبن مریم حدثنا ابو عثمان قال حدثنی زید بن اسلم عن عطاء ابن یسارعن أبی سعید رضی اللہ عنہم ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لتتبعن سنن من قبلکم شبرا بشبر و ذراعا بذراع حتی لو سلکوا جحر ضب لسلکتموہ قلنا یارسول اﷲ الیھود والنصاری؟ قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم فمن؟ (صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب ما ذکر عن بنی اسرائیل حدیث نمبر۳۴۵۶۔۷۳۲۰)
تم لوگ بھی اگلے لوگوں کے نقش قدم پر چلنے لگو گے، یہاں تک کہ جیسے بالشت، بالشت کی طرح اور ہاتھ دوسرے ہاتھ کی طرح ہوتا ہے (تم لوگ بھی بالکل ان کے ہم رنگ ہو جاؤ گے) یہاں تک کہ ان میں سے اگر کوئی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوا ہو گا تو تم بھی اس میں داخل ہو کر رہو گے۔ ہم نے عرص کیا اے اللہ کے رسول کیا اگلے لوگوں سے مراد یہود و نصارٰی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اور کون مراد ہو سکتا ہے؟ (یعنی تم یہود و نصارٰی کے قدم بقدم چلنے لگو گے اور ان کی راہ کو اختیار کر لو گے)۔
جناب ابوہریرہ رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
حدثنا أحمد بن یونس حدثنا إبن أبی ذئب عن المقبری عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہم عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لا تقوم الساعۃ حتی تأخذ أمتی بأخذ القرون قبلھا شبرا بشبر و ذراعا بذراع فقیل یارسول اﷲ کفارس والروم؟ فقال:ومن الناس إلا أولئک
(صحیح بخاری کتاب الاعتصام ح:۷۳۱۹)
قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک کہ میری اُمت بھی اگلے لوگوں کے نقش قدم پر نہ چلنے لگے جیسے بالشت دوسری بالشت کی طرح اور ہاتھ دوسرے ہاتھ کی طرح ہوتا ہے (اسی طرح میری اُمت بھی اگلے لوگوں کی طرح ہو جائے گی اور ان کے طور طریقے کو اختیار کر لے گی) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم : کیا اگلے لوگوں سے مراد فارس اور روم والے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جی ہاں انکے علاوہ اور کوئی دوسرا مراد نہیں۔
اوپر والی حدیث میں وضاحت ہے کہ اس سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قرآن و حدیث میں جھوٹ بولنے پر وعید

قرآن مجید کی کسی آیت میں کوئی شخص تحریف کر دے یا اس آیت کے معنی و مطالب کو اپنی خواہش کے مطابق بیان کرے یا کسی من گھڑت بات کو قرآن کے حوالے سے بیان کرے اور اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولے ایسے شخص کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِاٰٰیتِہٖ اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ (الانعام:۲۱)
اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا اس کی آیات کو جھٹلائے۔ یقینا ظالم فلاح نہیں پاتے''۔
دوسرے مقام پر ارشاد ہے:
فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اﷲِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِاٰٰیتِہٖ اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الْمُجْرِمُوْنَ (یونس:۱۷)
پھر اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا اس کی آیات کو جھٹلائے بے شک مجرم لوگ فلاح نہیں پاتے۔
اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والا گویا اللہ تعالیٰ پر جھوٹا بہتان لگاتا ہے لہٰذا اس سے بڑھ کر ظالم کوئی نہیں ہو سکتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے پر وعید

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنا، یا جانتے بوجھتے کوئی موضوع (جھوٹی) روایت بیان کرنا یا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں تحریف کر کے اس کے معنی و مطلب کو بدل دینا ان تمام اعمال پر احادیث میں سخت وعید وارد ہوئی ہیں۔
(۱) جناب مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے:
ان کذبا علی لیس ککذب علی احد من کذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار (صحیح بخاری کتاب الجنائز باب ما یکرہ من النیاحہ علی المیت رقم:۱۲۹۱، صحیح مسلم مقدمۃ الرقم۵)
''بیشک مجھ پر جھوٹ باندھنا دوسرے لوگوں پر جھوٹ باندھنے کی طرح نہیں ہے جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولے تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے''۔
جناب عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ومن کذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار (صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب من ذکر عن بنی اسرائیل الرقم ۳۴۶۱ مشکاۃ المصابیح باب العلم ۱۹۸)
''اور جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولے تو اسے چاہیئے کہ وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے''۔
جناب سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہم اور جناب مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من حدث عنی بحدیث یری انہ کذب فھو احد الکاذبین
(صحیح مسلم مقدمۃ الرقم۱ و قال الامام مسلم: وھو الاثر المشھور عن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ مشکاۃ کتاب العلم الرقم۱۹۹)
''جو شخص میری طرف منسوب کر کے کوئی حدیث بیان کرے اور وہ جانتا ہو کہ وہ جھوٹ ہے تو وہ شخص بھی جھوٹوں میں سے ایک ہے''۔
ان احادیث کے علاوہ جناب علی، جناب انس بن مالک، ابوہریرہ رضی اللہ عنہم کی روایات بھی صحیح مسلم میں موجود ہیں۔ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ خاموشی سے اپنی کتابوں میں جھوٹی احادیث نقل کر جاتے ہیں اور تقاریر میں بھی ان موضوع یا ضعیف احادیث کو بیان کرتے ہیں۔ اور اللہ کے عذاب سے ذرا بھی خوف نہیں کھاتے۔ فما اصبرھم علی النار۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حدیث کے ذکر کرنے کا ایک اصول

جناب ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
کفی بالمرء کذبا ان یحدث بکل ما سمع (صحیح مسلم مقدمۃ الرقم ۷،۸)
کسی بندے کے جھوٹا ہونے کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی حدیث (بات) بیان کرتا پھرے۔ (اور اس کی تحقیق نہ کرے)۔
کسی حدیث کو کتاب میں درج کرنے سے پہلے یا تقریر میں بیان کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اس کی تحقیق کر لی جائے۔ اور جب تک اس کی تحقیق نہ ہو جائے اسے بیان نہ کرے۔ اور اس حدیث میں جو اصول بیان ہوا ہے اس کی تائید قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ سے بھی ہوتی ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنْ جَآئَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْآ اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًا بِجَھَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ (الحجرات:۶)
''اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو (کہیں ایسا نہ ہو) کہ تم کسی گروہ کو لاعلمی سے (نقصان) پہنچا دو اور پھر جو کچھ تم نے کیا ہو اس پر نادم ہو''۔
اس آیت سے بھی واضح ہوا کہ کوئی خبر یا حدیث جب ہم تک پہنچے تو اس کے راویوں کی تحقیق کر لی جائے۔ اور جب محدثین کے اصول کے مطابق وہ حدیث صحیح ثابت ہو جائے تو پھر اسے ذکر کیا جائے۔ اسی طرح معاشرے میں بھی کوئی خبر یا افواہ معلوم ہو تو فوری طور پر اس کی تحقیق کی جائے۔ قرآن کریم میں ایک مقام پر ارشاد ہے:
وَ اِذَا جَآئَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہٖ وَ لَوْ رَدُّوْہُ اِلَی الرَّسُوْلِ وَ اِلٰی اُولِی الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہ' مِنْھُمْ وَ لَوْ لَا فَضْلُ اﷲِ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَتُہٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّیْطٰنَ اِلَّا قَلِیْلًا (النساء:۸۳)
''ان کے پاس جب کوئی بات امن یا خطرے کی آتی ہے تو اسے پھیلا دیتے ہیں اور اگر یہ اس کو رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) یا اپنے میں سے اصحاب امر کے پاس لائیں تو یہ خبر ان لوگوں کے علم میں آجائے جو اس سے صحیح نتیجہ اخذ کر سکیں (اور اس کی تحقیق کر سکیں) اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تھوڑے سے لوگوں کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ گئے ہوتے''۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دَور میں جب کوئی خبر امن یا خطرے کی معلوم ہوتی تو منافقین اس کی تشہیر کرتے اور اسے معاشرے میں پھیلا دیتے۔ اس آیت میں کسی خبر یا بات کو معاشرہ میں پھیلانے سے پہلے اس کی تحقیق کا حکم دیا گیا ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ جو دوسرے ذمہ دار افراد اس کام کے مجاز بنائے گئے ہیں ان میں سے کسی فرد تک اس بات کو پہنچانے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ وہ اس کی تحقیق کریں اور تحقیق کے بعد اس خبر کو بیان کرنے کو کہا گیا ہے۔
آنے والے صفحات کے مطالعے سے معلوم ہو گا کہ اُمت مسلمہ میں بھی ایسے ایسے افراد پیدا ہوئے ہیں کہ جنہوں نے قرآن و حدیث کو اپنے مسلک و مذہب کے موافق ڈھالنے کے لئے کیا کیا کاوشیں کیں اور کن کن ہتھکنڈوں سے انہوں نے قرآن و حدیث میں تبدیلی کی کوششیں کی ہیں۔ کسی نے سچ کہا ہے: ع
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں​
ہوئے کس درجہ بے توفیق فقیہانِ حرم​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دیوبندی شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی کی خود ساختہ آیت

دیوبندی شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے اہل حدیث کے ایک اشتہار کا جواب ادلہ کاملہ کے نام سے ایک کتاب کے ذریعے دیا اور جب اہل حدیث کی طرف سے اس کا جواب شائع ہوا تو انہوں نے دوبارہ اس کا مفصل جواب کتاب ایضاح الادلہ کے نام سے تحریر کیا اور اس کتاب میں تقلید کی تائید کے لئے ایک آیت بھی پیش کی لیکن ان الفاظ کے ساتھ یہ آیت قرآن مجید میں کہیں بھی موجود نہیں ہے، موصوف کی خود ساختہ آیت یہ ہے:
فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اﷲِ وَ الرَّسُوْلِ وَ اِلٰی اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ
پس اگر تمہارے درمیان کسی مسئلہ میں نزاع ہو جائے تو اس مسئلہ کو اللہ اور رسول اور تم میں سے جو اولواالامر ہوں ان کی طرف لوٹا دو۔
اور کتب خانہ فخریہ امروہی یوپی کی شائع کردہ ''ایضاح الادلہ'' کے حاشیہ میں اس آیت کا یہ ترجمہ کیا گیا ہے:
''اگر تم کسی چیز میں جھگڑو تو اس کو اللہ اور رسول اور اپنے اولی الامر کے پاس لے جاؤ اگر تم اللہ پر اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتے ہو''۔۱۲ (ص۱۰۳)۔
ایضاح الادلہ مطبع قاسمی دیوبند کا عکس
bk2uu.jpg
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
4tsi12.png

مولانا موصوف کی زندگی میں یہ کتاب تین مرتبہ شائع ہوئی، پہلی بار ۱۲۹۹ھ میں اور دوسری مرتبہ اکتیس سال کے بعد ۱۳۳۰ھ میں اور اس کے بعد تیسری بار بھی اسے شائع کیا گیا اور پھر موصوف ۱۳۳۹ھ میں وفات پا گئے۔ چالیس سال کے اس طویل عرصہ میں موصوف کو یہ غلطی نظر نہیں آئی اور نہ اس کے کسی عقیدت مند اور مرید نے اس غلطی کو محسوس کیا۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ موصوف کی نگاہ میں یہ غلطی ہی نہ تھی کیونکہ تقلید میں لت پت ہونے کی وجہ سے اس کے ذہن پر یہ آیت اسی طرح نقش تھی۔ ورنہ چالیس سال میں ایک بچہ پیدا ہو کر جوانی کی انتہاء تک پہنچ جاتا ہے اور زندگی کے مختلف تجربات اُسے حاصل ہو جاتے ہیں۔ تقلید کی بیماری نے ان حضرات کو اس حد تک اندھا کر رکھا تھا کہ استادوں، شاگردوں اور مریدوں میں سے کسی کو بھی یہ غلطی دکھائی نہ دی اور اس کا اعتراف دیوبندیوں نے اپنی تحریر کے ذریعے کیا ہے،
چنانچہ ملاحظہ فرمائیں:
 
Top