• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن و حدیث میں تحریف

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
4-قیاس

قیاس اندازہ، اٹکل اور جانچ کو کہتے ہیں۔ قیاس کے لغوی معنی اندازہ کرنا، مطابق اور مساوی کرنا ہیں۔ فقہاء کی اصطلاح میں علت کو مدار بنا کر سابقہ فیصلہ اور نظیر کی روشنی میں نئے مسائل حل کرنے کو قیاس کہتے ہیں اس کی تعریف یہ ہے:
تقدیر الفرع بالدلیل فی الحکم والعلۃ (نور الانوار مبحث القیاس ص ۲۲۴)
حکم اور علت میں فرع (نیا مسئلہ) کو اصل سابق حکم کے مطابق کرنا۔
ذیل کی تعریف اس سے زیادہ واضح ہے:
الحاق امر بامر فی الحکم الشرعی لاتحاد بینھما فی العلۃ (ایضاً)
دو مسئلوں میں اتحاد و علت کی وجہ سے جو حکم ایک مسئلہ کا ہے وہی حکم دوسرے مسئلہ کا قرار دینا۔ (فقہ اسلامی کا تاریخی پس منظر ص ۱۲۴)
اس تفصیل سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن و سنت (حدیث) ہی دراصل بنیادی ماخذ ہیں اور انہی پر دین اسلام کی بنیاد ہے۔ یہی شریعت اور صراط مستقیم ہے جبکہ اجماع اور قیاس وغیرہ اس کی فرع ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اہل حدیث پر ایک اعتراض

بعض حنفی اہل حدیث پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اہل حدیث اجماع و قیاس کو نہیں مانتے تو واضح رہے کہ یہ محض الزام ہے، اہلحدیث اجماع و قیاس بلکہ اجتہاد تک کو مانتے ہیں لیکن جیسا کہ واضح کیا گیا ہے کہ دین اسلام کے اصل ماخذ دو ہی ہیں یعنی قرآن و حدیث اور اجماع و قیاس اس کی فرع ہیں۔ نیز قیاس و اجتہاد وقتی اور عارضی چیز یں ہیں جبکہ قرآن و حدیث مستقل حیثیت رکھتے ہیں اور اصل اتھارٹی یہی دو چیزیں ہیں۔ فا فھم۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَ ٰلکِنْ رَّسُوْلَ اﷲِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ وَکَانَ اﷲُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا (الاحزاب:۴۰)
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
اس مسئلہ پر تمام اُمت کا اجماع و اتفاق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت و رسالت کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو شخص بھی نبوت کا دعویٰ کرے تو وہ دجال و کذاب ہو گا۔ احادیث میں اس مضمون کو پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''میری اور اگلے پیغمبروں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک گھر بنایا اس کو خوب آراستہ پیراستہ کیا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ اس میں آتے جاتے اور تعجب کرتے ہیں کہ اس اینٹ کی جگہ کیوں چھوڑ دی گئی (اور اس مکان کی وہ آخری) اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں''۔ (بخاری۔ کتاب المناقب باب خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم )۔
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لے آنے سے قصر نبوت کامل و مکمل ہو گیا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''بنی اسرائیل پر نبی حکومت کیا کرتے تھے جب ایک نبی فوت ہو جاتا تو اس کی جگہ دوسرا نبی ہوتا۔ مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا، البتہ میرے بعد خلفاء ہوں گے اور کثرت سے ہوں گے۔
(بخاری کتاب الانبیاء باب ما ذکر عن بنی اسرائیل، مسلم کتاب الامارۃ باب الامر بالوفاء بیعۃ الخلفاء)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور آپ کے بعد کوئی نیا نبی آنے والا نہیں اور نہ کوئی نئی شریعت نازل ہونے والی ہے۔ جناب عیسی علیہ السلام بھی جب تشریف لائیں گے تو وہ لوگوں کو عیسائی نہیں بنائیں گے بلکہ محمدی بنانے کے لئے تشریف لائیں گے اور وہ خود بھی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر عمل پیرا ہوں گے اور اسی شریعت اسلامیہ کی طرف لوگوں کو بھی دعوت دیں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ وفات پا چکے ہیں کیونکہ جو انسان دنیا میں آتا ہے آخرکار اسے ایک نہ ایک دن دنیا سے واپس بھی جانا ہوتا ہے۔ موت کا پیالہ تو ہر فرد و بشر کو پینا ہی ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک باقی رکھا ہے۔ کیونکہ آپ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خاتم النبیین ہیں اور آپ کی رسالت قیامت تک قائم ہے۔اور جب یہ بات واضح اور ثابت ہے تو پھر اطاعت و فرمانبرداری اور پیروی بھی صرف اور صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ہو گی۔ کسی دوسرے فوت شدہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے یہ مقام ہی نہیں دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اطاعت و اتباع اور پیروی اس کی بھی اختیار کی جائے۔ یہ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا خاصہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی خصوصیت ہے کہ اطاعت و پیروی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص کر دی گئی ہے۔
قرآن مجید اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے صاف طور پر واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی اطاعت و پیروی ضروری ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت گویا اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے(النساء:۸۰) کیونکہ آپ اللہ کے رسول یعنی پیغمبر (پیغام بر) ہیں یعنی انسانوں تک اللہ کا پیغام پہنچانے والے ہیں۔
اس تفصیل کا خلاصہ یہ ہے:
1- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت قیامت تک باقی رہے گی لہٰذا اُمت پر یہ امر لازم کیا گیا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کرے۔
2- آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول (پیغمبر) ہیں اور رسول ہونے کے ناطے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رابطہ اللہ تعالیٰ سے قائم رہتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالیٰ جب چاہتا وحی نازل فرماتا تھا۔ اور وحی کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی کی جاتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اگر کوئی لغزش رونما ہوتی تو وحی کے ذریعے اس کی اصلاح کر دی جاتی تھی۔
آپ کا ہر قدم وحی کے تابع تھا اور اللہ تعالیٰ جیسا حکم نازل فرماتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح اس پر عمل پیرا ہو جاتے:
اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ (الانعام:۵۰)
میں تو صرف اس وحی کا تابعدار ہوں کہ جو مجھ پر کی جاتی ہے۔
نیز ملاحظہ فرمائیں سورۃ النجم:۳،۴۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
علماء اُمت کی ذمہ داریاں

حدیث میں ہے:
ان العلماء ورثۃ الانبیاء ان الانبیاء لم یورثوا دینارا ولا درھما انما ورثوا العلم فمن اخذ بہ اخذ بحظ وافر
(سنن الترمذی کتاب العلم باب ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ)
بیشک علماء انبیاء کرام کے وارث ہوتے ہیں اور انبیاء اپنے ورثہ میں درہم و دینار چھوڑ کر نہیں جاتے بلکہ ان کا ورثہ علم ہوتا ہے پس جس نے اس علم کو حاصل کیا تو اس نے ایک وافر حصہ لے لیا۔
1-اللہ تعالیٰ نے قرآن و حدیث کا وارث اور حامل علماء کرام کو بنایا اور ان کی یہ ذمہ داری لگا دی کہ وہ اس علم کو اُمت کی طرف منتقل کرتے رہیں۔ علماء کرام قرآن و حدیث کے علم کو اُمت تک پہنچانے اور منتقل کرنے کے لئے واسطہ کا کام سرانجام دیتے ہیں اور علماء کرام لوگوں کو اپنی اطاعت و پیروی کی دعوت نہیں دیتے بلکہ وہ لوگوں کو قرآن و حدیث کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ اور قرآن و حدیث سے ثابت شدہ مسائل سے انہیں آگاہ کرتے رہتے ہیں۔
2- علماء کرام سے مسائل میں بعض اوقات غلطی کا صدور بھی ہو جاتا ہے اور وہ غلطی کو پہچان بھی نہیں پاتے کیونکہ ان کے ساتھ وحی کا سلسلہ نہیں ہوتا کہ انہیں فوری طور پر غلطی پر متنبہ کر دیا جائے۔ وحی کا سلسلہ صرف انبیاء کرام کی خصوصیت ہے۔ علاوہ ازیں علماء انبیاء کرام کی طرح غلطیوں سے پاک نہیں ہوتے۔ عصمت صرف انبیاء کرام کے ساتھ خاص ہے یعنی وہ معصوم عن الخطاء ہوتے ہیں۔
3- قرآن و حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی عالم، امام وغیرہ کی اطاعت و پیروی کا حکم نہیں دیا گیا ہے اور نہ اس اُمت کو کسی کی تقلید کا پابند بنایا گیا ہے۔
کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ:
(۱) ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام کی تقلید واجب ہے۔
(۲) اب (موجودہ دور میں) تقلید شخصی ضروری ہے۔
(۳) تقلید پر اجماع ہے وغیرہ۔
لیکن یہ تمام دعوے جھوٹے ہیں اور کذابین کے مشہور کردہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع و پیروی کے علاوہ کسی اُمتی کی تقلید واجب نہیں بلکہ تقلید گمراہی کا دوسرا نام ہے اور مقلد سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا تارک بن جاتا ہے۔ اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محروم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا تقلید کا ترک کرنا واجب ہے۔ تقلید شخصی بھی گمراہی ہے اور ترک تقلید پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین کا اجماع ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
تقلید کے متعلق حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کا ایک قیمتی مضمون

اس وضاحت کے بعد اب ہم تقلید کے اس مضمون کو حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ تعالیٰ کے اس قیمتی مضمون پر ختم کرتے ہیں:
تقلید: ''جو شخص نبی نہیں ہے اس کی بات بغیر دلیل کے ماننے کو تقلید کہتے ہیں''۔ دیکھئے (مسلم الثبوت ص۲۸۹)
اس تعریف پر امت مسلمہ کا اجماع ہے (الاحکام لابن حزم:ص ۸۳۶)
لغت کی کتاب ''القاموس الوحید'' میں تقلید کا درج ذیل مفہوم لکھا ہوا ہے:
''بے سوچے سمجھے یا بے دلیل پیروی، نقل، سپردگی''۔
''بلا دلیل پیروی، آنکھ بند کر کے کسی کے پیچھے چلنا، کسی کی نقل اتارنا جیسے قلد القرد الانسان'' (ص۱۳۴۶)
نیز دیکھئے المعجم الوسیط (ص۷۵۴)
جناب مفتی احمد یار نعیمی بدایونی بریلوی نے غزالی سے نقل کیا ہے کہ:
التقلید ھو قبول قول بلا حجۃ (جاء الحق ج ۱ ص ۱۵ طبع قدیم)
اشرف علی تھانوی دیوبندی صاحب سے پوچھا گیا کہ ''تقلید کی حقیقت کیا ہے اور تقلید کسے کہتے ہیں''؟ تو انہوں نے فرمایا:
''تقلید کہتے ہیں امتی کا قول ماننا بلا دلیل''۔
عرض کیا گیا کہ کیا اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو ماننا بھی تقلید کہلائے گا؟
فرمایا:
''اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ماننا تقلید نہ کہلائے گا وہ اتباع کہلاتا ہے''۔ (الافاضات الیومیہ/ملفوظات حکیم الامت ۳/۱۵۹ ملفوظ ۲۲۸)
یاد رہے اصول فقہ میں لکھا ہوا ہے کہ:
قرآن ماننا، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ماننا، اجماع ماننا، گواہوں کی گواہی پر فیصلہ کرنا، عوام کا علماء کی طرف رجوع کرنا (اور مسئلہ پوچھ کر عمل کرنا) تقلید نہیں ہے۔ (دیکھئے مسلم الثبوت: ص ۲۸۹ والتقریر و التحبیر:۳/۴۵۳)
محمد عبیداللہ الاسعدی دیوبندی تقلید کے اصطلاحی مفہوم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
''کسی کی بات کو بلا دلیل مان لینا تقلید کی اصل حقیقت یہی ہے لیکن ...'' (اصول الفقہ ص۲۶۷)
اصل حقیقت کو چھوڑ کر نام نہاد دیوبندی فقہاء کی تحریفات کون سنتا ہے!
احمد یار نعیمی صاحب لکھتے ہیں کہ:
''اس تعریف سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے کو تقلید نہیں کہہ سکتے کیونکہ ان کا ہر قول و فعل دلیل شرعی ہے تقلید میں ہوتا ہے: دلیل شرعی کو نہ دیکھنا، لہٰذا ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی کہلائیں گے نہ کہ مقلد، اسی طرح عالم کی اطاعت جو عام مسلمان کرتے ہیں اس کو بھی تقلید نہ کہا جائے گا کیونکہ کوئی بھی ان عالموں کی بات یا ان کے کام کو اپنے لئے حجت نہیں بناتا''۔ (جاء الحق ج۱ ص۱۶)۔
اللہ تعالیٰ نے اس بات کی پیروی سے منع کیا ہے جس کا علم نہ ہو (سورئہ بنی اسرائیل:۳۶) یعنی بغیر دلیل والی بات کی پیروی ممنوع ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات بذات خود دلیل ہے اور اجماع کے حجت ہونے پر دلیل قائم ہے۔ لہٰذا قرآن، حدیث اور اجماع کو ماننا تقلید نہیں ہے۔ دیکھئے (التحریر لابن ہمام:ج ۴ ص ۲۴۱، ۲۴۲ فواتح الرحموت: ج۲ ص۴۰۰)
اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں کسی شخص کی بھی تقلید کرنا شرک فی الرسالت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین میں رائے کے ساتھ فتویٰ دینے کی مذمت فرمائی ہے۔ (صحیح بخاری:۲/۱۰۸۶ ح ۷۳۰۷)
عمر رضی اللہ عنہم نے اہل الرائے کو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن قرار دیا ہے (اعلام الموقعین:ج۱ ص۵۵)
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ ان آثار کی سند بہت زیادہ صحیح ہے۔ (ایضاً)۔
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں: ''امازلۃ عالم فان اھتدی فلا تقلدوہ دینکم'' اور رہی عالم کی غلطی، اگر وہ ہدایت پر (بھی) ہو تو اپنے دین میں اس کی تقلید نہ کرو۔
(کتاب الزھد لامام وکیع ج ۱ ص ۳۰۰ ح۷۱ و سندہ حسن، کتاب الزھد لابی داود ص ۱۷۷ ح۱۹۳ دحلیۃ الاولیاء ج۵ ص ۹۷ و جامع بیان العلم و فضلہ لابن عبدالبرج ۲ ص ۱۳۶ والاحکام لابن حزم ج۶ ص۲۳۶ و صححہ ابن القیم فی اعلام الموقعین ج۲ ص۲۳۹) اس روایت کے بارے میں امام دارقطنی نے فرمایا:
''والموقوف ھو الصحیح'' اور (یہ) موقوف (روایت) ہی صحیح ہے (العلل الواردۃ ج۶ ص۸۱ سوال۹۹۲)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم نے بھی تقلید سے منع کیا ہے۔ (السنن الکبری:۲/۱۰ وسندہ صحیح)
ائمہ اربعہ (امام مالک، امام ابوحنیفہ اور امام شافعی اور امام احمد بن حنبل) نے بھی اپنی اور دوسروں کی تقلید سے منع کیا ہے (فتاوی ابن تیمیہ:ج۲ ص۱۰،۲۱۱، اعلام الموقعین:ج۲ ص۱۹۰، ۲۰۰،۲۰۷،۲۱۱،۲۲۸)
کسی امام سے بھی یہ بات قطعاً ثابت نہیں ہے کہ اس نے کہا ہو: ''میری تقلید کرو'' اس کے برعکس یہ بات ثابت ہے کہ مذاہب اربعہ کی تقلید کی بدعت چوتھی صدی ہجری میں شروع ہوئی ہے۔ (اعلام الموقعین:ج۲ ص۲۰۸)
اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے کہ تقلید جہالت کا دوسرا نام ہے اور مقلد جاہل ہوتا ہے: (جامع بیان العلم:ج۲ ص۱۱۷، اعلام الموقعین:ج۲ ص۱۸۸، ج۱ ص۷)
ائمہ مسلمین نے تقلید کے ردّ میں کتابیں لکھی ہیں مثلاً امام ابو محمد القاسم بن محمد القرطبی (متوفی ۲۷۶ھ) کی کتاب ''الایضاح فی الرد علی المقلدین'' (سیر اعلام النبلاء ج۱۳ ص۳۲۹)
جبکہ کسی ایک مستند امام سے یہ قطعاً ثابت نہیں ہے کہ اس نے تقلید کے وجوب یا جواز پر کوئی کتاب یا تحریر لکھی ہو۔
مقلدین حضرات ایک دوسرے سے خونریز جنگیں لڑتے رہے ہیں (معجم البلدان: ج۱ ص۲۰۹، ج۳ ص۱۱۷، الکامل لابن الاثیر: ج۸ ص۳۰۷،۳۰۸، وفیات الاعیان: ج۳ ص۲۰۸)
ایک دوسرے کی تکفیر کرتے رہے ہیں (میزان الاعتدال: ج۴ ص۵۲، الفوائد البہیہ ص۱۵۲،۱۵۳)۔
انہوں نے بیت اللہ میں چار مصلے قائم کر کے اُمت مسلمہ کو چار ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔ چار اذانیں چار اقامتیں اور چار امامتیں!! چونکہ ہر مقلد اپنے زعم باطل میں اپنے امام و پیشوا سے بندھا ہوا ہے، اس لئے تقلید کی وجہ سے اُمت مسلمہ میں کبھی اتفاق و امن نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا آئیے ہم سب مل کر کتاب و سنت کا دامن تھام لیں۔ کتاب و سنت میں ہی دونوں جہانوں کی کامیابی کا پورا پورا یقین ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
تقلید کی تباہ کاریاں

تقلید ایک ایسی بدعت ہے جو انسان کے دین و ایمان کو غارت کر کے رکھ دیتی ہے، ایک مقلد جس کے دل میں امام کی محبت اس انداز سے ڈال دی جاتی ہے کہ وہ اپنے امام ہی کو صاحب شریعت تصور کرنے لگتا ہے اور عملاً اسے رسالت کے منصب پر فائز کر دیتا ہے۔ اب اس مقلد کے سامنے قرآن و حدیث کی واضح نص بھی آجائے تو یہ اپنے منتخب امام ہی کی طرف دیکھتا ہے اور اس کے فیصلے کا منتظر رہتا ہے اور حدیث بھی صرف وہی مانتا ہے جس سے اس کے مسلک کی تائید ہوتی ہے اور جو حدیث اس کے مسلک کے خلاف ہو تو اول اس کی عجیب و غریب تاویل کی جاتی ہے اور تاویل سے بھی کام نہ بنے تو پھر حدیث ہی کو ردّ کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ مقلدین یہ دعوٰی بھی کرتے ہیں کہ وہ ادلہ اربعہ کو مانتے ہیں یعنی
1- قرآن مجید۔
2-سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
3-اجماع اور
4-قیاس۔
لیکن تقلید کی رَو میں بہہ کر مقلدین عموماً ادلہ اربعہ کا خیال بھی بھول جاتے ہیں اور صرف تقلید کے گن گاتے رہتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ادلہ اربعہ میں بھی تقلید کا کوئی ذکر نہیں ہے جس سے ثابت ہوا کہ تقلید دلیل کا نام نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات، صفات اور حقوق و عبادات میں وحدہ لا شریک ہے اور وہ کسی کی شرکت کسی طور پر بھی برداشت نہیں کرتا۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی رسالت میں بھی اکیلے ہیں اور ان کی رسالت میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہے۔ لہٰذا کسی اُمتی کو آپ کی رسالت میں شریک ٹھہرانا شرک فی الرسالت کہلائے گا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر کسی اُمتی کی اطاعت و فرمانبرداری اختیار کر لینا اور دین کے ہر معاملے میں اُمتی کی اطاعت کرنا اور اطاعت ہی نہیں بلکہ اس کی تقلید کو اختیار کر لینا اور اس تقلید کو لازم و ضروری اور واجب قرار دینا یہی شرک فی الرسالت ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اہل تقلید کے نزدیک امام کا قول و فعل ہی قابل تقلید ہے تو گویا انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رسالت سے عملاً معزول کر رکھا ہے پھر اہل تقلید کے اس دعویٰ میں بھی کوئی صداقت نہیں کہ وہ اہل سنت والجماعت ہیں کیونکہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو عملاً انہوں نے واجب العمل ہی نہیں سمجھا تو وہ اہل سنت کس طرح ہو سکتے ہیں؟ کیونکہ اہل سنت کا مطلب ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کرنے والا اور سنت سے محبت کرنے والا لہٰذا اب انہیں انتہائی فخر کے ساتھ اپنے آپ کو اہل تقلید کہلوانا چاہیئے۔ اور لوگوں پر واضح کر دینا چاہیئے کہ وہ اہل التقلید والجماعت ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے مخالفین کو کثرت کے ساتھ غیر مقلد کہتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اُن کے مخالفین تقلید کو نہیں مانتے اور وہ تقلید کے مخالف ہیں۔ تو جب انہیں تقلید سے اس قدر شدید محبت ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ وہ ضرور اہل تقلید کہلوائیں اور اہل تقلید کہلوانے پر فخر کریں اور وہ اہل سنت کہلوانا چھوڑ دیں کیونکہ ان الفاظ سے وہ لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں یا لوگ دھوکا کھا جاتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اِرشاد ہے:
مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنِّیْ (مسلم کتاب الایمان:۲۸۴)
''جس نے دھوکا دیا وہ مجھ میں سے نہیں ہے''۔
اور ایک روایت میں ہے:
مَنْ غَشَّنا فلیس منا (مسلم ح:۲۸۳)
''جس نے ہم (مسلمانوں) کو دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے''۔
اور ایک روایت میں ہے:
من غش المسلمین فلیس منھم (طبرانی کبیر ۱۸/۳۵۹) و رجالہ ثقات (مجمع الزوائد:۴/۷۹)
''جس نے مسلمانوں کو دھوکا دیا وہ ان میں سے نہیں ہے''۔
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مقلدین کی نگاہ میں قرآن و حدیث کی حقیقتاً کوئی اہمیت نہیں ہے بلکہ ان کے ہاں اصل اہمیت تقلید کو حاصل ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید اختیار کریں اور ان کے بتائے ہوئے مسلک سے وابستہ رہیں جبکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمہ عظام نے لوگوں کو تقلید سے روکا۔ اگر تقلید اختیار کرنا شرعی مسئلہ ہے تو پھر اس کا حکم قرآن و حدیث میں واضح طور پر موجود ہونا ضروری ہے لیکن قرآن و حدیث کے نصوص اس تقلید کا انکار کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے بعد صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہی کو لازمی و ضروری قرار دیا گیا ہے اور رسول کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت کہا گیا ہے۔ اللہ اور رسول کی اطاعت لازمی، دائمی اور غیر مشروط ہے جبکہ اولوا الامر کی اطاعت عارضی اور مشروط ہے اور اختلاف کے وقت صرف اللہ اور رسول کی طرف رجوع کا حکم ہے جس کی تفصیل گذر چکی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
مقلدین کے اکابرین کے اقوال

تقلید کے متعلق مقلدین کے اکابرین کے چند اقوال ہم یہاں نقل کرتے ہیں ممکن ہے کہ کوئی ان اقوال کو پڑھ کر صراط مستقیم اختیار کر لے۔
ابوالحسن عبیداللہ کرخی لکھتے ہیں:
ان کل آیۃ تخالف قول اصحابنا فانھا تحمل علی النسخ او علی الترجیح و الاولی ان تحمل علی التأویل من جھۃ التوفیق (اصول کرخی اصول۲۸)
''ہر وہ آیت جو ہمارے فقہاء کے قول کے خلاف ہو گی اسے یا تو منسوخ سمجھا جائے یا ترجیح پر محمول کیا جائے گا اور اولی یہ ہے کہ اس آیت کی تأویل کر کے اسے (فقہاء کے قول کے) موافق کر لیا جائے''۔
اسی طرح احادیث کے متعلق بھی یہ قانون بنایا گیا:
ان کل خبر بخلاف قول اصحابنا فانہ یحمل علی النسخ او علی انہ معارض بمثلہ ثم صار الی دلیل اخر او ترجیح فیہ بما یحتج بہ اصحابنا من وجوہ الترجیح او یحمل علی التوفیق (اصول کرخی اصول ۲۹)
بے شک ہر اس حدیث کو جو ہمارے اصحاب (یعنی فقہاء حنفیہ) کے خلاف ہو گی منسوخ سمجھا جائے گا اور یا یہ حدیث کسی دوسری حدیث کے خلاف ہے۔ پھر کسی اور دلیل کا تصور کیا جائے گا، پھر بعض وجوہ کی بناء پر اس حدیث کو ترجیح دی جائے گی جو حدیث کہ ہمارے اصحاب کی دلیل ہے۔ یا پھر یہ تصور کیا جائیگا کہ موافقت کی کوئی اور صورت ہو گی (جو ہمیں نہیں معلوم)''
ان اصولوں کو اگر مان لیا جائے تو پھر قرآن و حدیث پر عمل ناممکن ہو جائے گا حالانکہ ایک مسلم کے لئے سب سے مقدم اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہے وہ قرآن و حدیث پر عمل کرتے ہوئے کسی تیسری شخصیت کی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتا لیکن افسوس کہ تقلید نے مقلدین کو کہاں سے کہاں تک پہنچا دیا ہے۔ ہم منکرین حدیث کو روتے ہیں اور یہاں گھر ہی میں منکرین حدیث موجود ہیں کہ جو قرآن و حدیث کے بجائے تقلید کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔ دیوبندیوں کے شیخ الہند محمود الحسن دیوبندی فرماتے ہیں:
یترجح مذھبہ و قال الحق والانصاف ان الترجیح للشافعی فی ھذہ المسئلۃ و نحن مقلدون یجب علینا تقلید امامنا ابی حنیفۃ واﷲ اعلم
یعنی اس (امام شافعی) کا مذہب راجح ہے اور (محمود الحسن نے) کہا: حق و انصاف یہ ہے کہ اس مسئلے میں (امام) شافعی کو ترجیح حاصل ہے اور ہم مقلد ہیں ہم پر ہمارے امام ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے، واللہ اعلم۔ (التقریر للترمذی ص ۳۶)
غور کریں کس طرح حق و انصاف کو چھوڑ کر اپنے مزعوم امام کی تقلید کو سینے سے لگایا گیا ہے۔ یہی محمود الحسن صاحب صاف صاف اعلان کرتے ہیں کہ:
''لیکن سوائے امام اور کسی کے قول سے ہم پر حجت قائم کرنا بعید از عقل ہے''۔
(ایضاً اللادلہ ص۲۷۶ سطر:۱۹ مطبوعہ: مطبع قاسمی مدرسہ اسلامیہ دیوبند ۱۳۳۰ھ)
محمود الحسن دیوبندی صاحب مزید فرماتے ہیں:
''کیونکہ قولِ مجتہد بھی قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی شمار ہوتا ہے''۔
(تقاریر حضرت شیخ الہند ص ۲۴، الورد الشذی ص۲)
جناب محمد حسین بٹالوی صاحب نے دیوبندیوں سے تقلید شخصی کے وجوب کی دلیل مانگی تھی، اس کا جواب دیتے ہوئے محمود الحسن صاحب مطالبہ کرتے ہیں کہ :
''آپ ہم سے وجوبِ تقلید کی دلیل کے طالب ہیں۔ ہم آپ سے وجوب اتباعِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم و وجوبِ اتباع قرآن کی سند کے طالب ہیں''۔ (ادلہ کاملہ ص ۷۸)
یعنی مقلد اس قدر جاہل ہوتا ہے کہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع اور اتباعِ قرآن کی دلیل بھی معلوم نہیں ہوتی۔
۲۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتی تھی تو اس کے خاوند نے اس عورت کو قتل کر دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الا اشھدوا ان دمھا ھدر
سن لو، گواہ رہو کہ اس عورت کا خون رائیگاں ہے۔
(سنن ابی داؤد، کتاب الحدود، باب الحکم فیمن سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ح ۴۳۶۱)
اس حدیث اور دوسرے دلائل سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کرنے والا واجب القتل ہے۔ یہی مسلک امام شافعی اور محدثین کرام کا ہے، جبکہ حنفیوں کے نزدیک شاتم الرسول کا ذمہ باقی رہتا ہے۔ (دیکھئے الہدایہ ج:۱ ص:۵۹۸)۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
و اما ابو حنیفۃ و اصحابہ فقالوا لیس ینقض العھد بالسب ولا یقتل الذمی بذلک لکن یعزر علی اظھار ذلک ... الخ
ابوحنیفہ اور اس کے اصحاب (شاگردوں و متبعین) نے کہا: (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو) گالی دینے سے معاہدہ (ذمہ) نہیں ٹوٹتا اور ذمی کو اس وجہ سے قتل نہیں کیا جائے گا لیکن اگر وہ یہ حرکت اعلانیہ کرے تو اسے تعزیر لگے گی ... الخ۔
(الصارم المسلول بحولہ رد المحتار علی الدر المختار ج۳ ص ۳۰۵)
اس نازک مسئلے پر ابن نجیم حنفی نے لکھا ہے کہ:
نعم نفس المؤمن تمیل إلی قول المخالف فی مسئلۃ السب لکن اتباعنا للمذھب واجب
جی ہاں، گالی کے مسئلہ میں مومن کا دل (ہمارے) مخالف کے قول کی طرف مائل ہے لیکن ہمارے لئے ہمارے مذہب کی اتباع (تقلید) واجب ہے۔
(البحر الرائق شرح کنز الدقائق ج ۵ ص ۱۱۵)
۳۔ حسین احمد مدنی ٹانڈوی لکھتے ہیں کہ:
''ایک واقعہ پیش آیا کہ ایک مرتبہ تین عالم (حنفی، شافعی اور حنبلی) مل کر ایک مالکی کے پاس گئے اور پوچھا کہ: تم ارسال کیوں کرتے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ: میں امام مالک کا مقلد ہوں دلیل ان سے جا کر پوچھو اگر مجھے دلائل معلوم ہوتے تو تقلید کیوں کرتا؟ تو وہ لوگ ساکت ہو گئے''۔
(تقریر ترمذی اردو ص ۳۹۹ مطبوعہ: کتب خانہ مجیدیہ ملتان)۔
(ارسال: ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنا۔ ساکت: خاموش)۔
۴۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک وتر پڑھتے تھے اور آپ (وتر کی) دو رکعتوں اور ایک رکعت کے درمیان (سلام پھیر دیتے اور) باتیں کرتے تھے''
(مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ ص۲۹۱ ح۶۸۰۳)۔
ایسی ایک روایت المستدرک للحاکم سے نقل کر کے انور شاہ کشمیری دیوبندی فرماتے ہیں:
''ولقد تفکرت فیہ قریبا من اربعۃ عشر سنۃ ثم استخرجت جوابہ شافیا و ذلک الحدیث قوی السند ...''
اور میں نے اس حدیث (کے جواب) کے بارے میں تقریباً چودہ سال تفکر کیا ہے۔ پھر میں نے اس کا شافی (شفا دینے والا اور کافی) جواب نکال لیا۔ اور یہ حدیث سند کے لحاظ سے قوی ہے۔ الخ۔ (العرف الشذی ج۱ ص۱۰۷ واللفظ لہ، فیض الباری ج۲ ص۳۷۵ و معارف السنن للبنوری ج۴ ص۲۶۴ و درس ترمذی ج۲ ص۲۲۴)
۵۔ احمد یار خان نعیمی بریلوی لکھتے ہیں کہ:
''اب ایک فیصلہ کن جواب عرض کرتے ہیں وہ یہ کہ ہمارے دلائل یہ روایات نہیں۔ ہماری اصل دلیل تو امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے۔ ہم یہ آیت و احادیث مسائل کی تائید کے لئے پیش کرتے ہیں، احادیث یا آیات امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی دلیلیں ہیں ...'' (جاء الحق ج۲ ص۹۱ طبع قدیم)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
نعیمی مذکورہ صاحب مزید لکھتے ہیں کہ:
''کیونکہ حنفیوں کے دلائل یہ روایتیں نہیں ان کی دلیل صرف قولِ امام ہے، الخ
(جاء الحق ج۲ ص۹)
۶۔ ایک آدمی نے مفتی محمد (دیوبندی) صاحب دارالافتاء والارشاد، ناظم آباد کراچی کو خط لکھا کہ:
''ایک شخص تیسری رکعت میں امام کے ساتھ شریک ہوا، امام اگر سجدہ سہو کے لئے سلام پھیرے تو تیسری رکعت میں شریک ہونے والا مسبوق بھی سلام پھیرے یا نہیں؟ یہاں ایک صاحب بحث کر رہے ہیں کہ اگر سلام نہیں پھیرے گا تو امام کی اقتداء نہیں رہے گی۔ آپ دلیل سے مطمئن کریں (مجاہد علی خان کراچی)۔
دیوبندی صاحب نے اس سوال کا درج ذیل جواب دیا:
جواب: مسبوق یعنی جو پہلی رکعت کے بعد امام کے ساتھ شریک ہوا وہ سجدہ سہو میں امام کے ساتھ سلام نہ پھیرے، اگر عمداً پھیر دیا تو نماز جاتی رہی، سہواً پھیرا تو سجدہ سہو لازم ہے، مسئلہ سے جہالت کی بناء پر پھیرا تو بھی نماز فاسد ہو گئی، عوام کے لئے دلائل طلب کرنا جائز نہیں، نہ آپس میں مسائل شرعیہ پر بحث کرنا جائز ہے، بلکہ کسی مستند مفتی سے مسئلہ معلوم کر کے اس پر عمل کرنا ضرور ی ہے''۔
(ہفت روزہ ضرب مومن جلد:۳ شمارہ:۱۵،۲۱ تا ۲۷ ذوالحجہ ۱۴۱۹ھ ۹ تا ۱۵، اپریل ۱۹۹۹، ص ۶ کالم: آپ کے مسائل کا حل)
۷۔ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ:
من ادرک من الصبح رکعۃ قبل أن تطلع الشمس فقد ادرک الصبح
جس نے صبح کی ایک رکعت، سورج کے طلوع ہونے سے پہلے پا لی تو اس نے یقینا صبح (کی نماز) پالی۔ (بخاری:۵۷۹ و مسلم:۶۰۸)۔
فقہ حنفی اس صحیح حدیث کا مخالف ہے۔ مفتی رشید احمد لدھیانوی اس مسئلے پر کچھ بحث کر کے لکھتے ہیں:
''غرضیکہ یہ مسئلہ اب تک تشنہء تحقیق ہے۔ معہذا ہمارا فتوی اور عمل قولِ امام رحمہ اللہ تعالیٰ کے مطابق ہی رہے گا اس لئے کہ ہم امام رحمہ اللہ تعالیٰ کے مقلد ہیں اور مقلد کے لئے قولِ امام حجت ہوتا ہے نہ کہ ادلہء اربعہ کہ ان سے استدلال وظیفہء مجتہد ہے''۔ (ارشاد القاری الی صحیح البخاری ج۱ ص۴۱۲)۔
دراصل حنفیوں نے اس حدیث کے علی الرغم قیاس کیا ہے اور قیاس کو مان کر حدیث کا انکار کر دیا ہے۔ اس حدیث میں ہے کہ ''جس کو صبح کی ایک رکعت سورج طلوع ہونے سے پہلے مل گئی تو اس نے صبح کی نماز پا لی اور جس کو عصر کی ایک رکعت سورج غروب ہونے سے پہلے مل گئی تو اس نے عصر کی نماز پا لی۔
اس مقام پر حنفیوں کا کہنا ہے کہ ایسے شخص کی فجر کی نماز باطل ہو جائے گی اور عصر کی نماز ادا ہو جائے گی۔ کیونکہ اس شخص نے فجر کی نماز کامل وقت میں شروع کی تھی اور پھر ناقص وقت آگیا لہٰذا اس کی فجر کی نماز باطل ہو گئی اور عصر کی نماز اس نے ناقص وقت میں شروع کی تھی اور پھر کامل وقت آگیا لہٰذا اس کی نماز ہو گئی۔ اس طرح حنفیوں نے حدیث کا تو انکار کر دیا اور قیاس کے ذریعے فجر کی نماز کو باطل اور عصر کی نماز کو کامل قرار دے ڈالا۔ یعنی حدیث کے مقابلے میں قیاس پر عمل کیا۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔
لدھیانوی صاحب ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ:
''توسیع مجال کی خاطر اہل بدعت فقہ حنفی چھوڑ کر قرآن و حدیث سے استدلال کرتے ہیں اور ایفاء عنان کے لئے ہم بھی یہ طرز قبول کر لیتے ہیں ورنہ مقلد کے لئے صرف قولِ امام ہی حجت ہوتا ہے'' (ارشاد القاری ص۲۸۸)۔
مفتی رشید احمد لدھیانوی صاحب لکھتے ہیں کہ:
''یہ بحث تبرعاً لکھ دی ہے ورنہ رجوع الی الحدیث وظیفہء مقلد نہیں''
(احسن الفتاوی ج۳ ص۵۰)
۸۔ قاضی زاہد الحسینی دیوبندی لکھتے ہیں:
''حالانکہ ہر مقلد کے لئے آخری دلیل مجتہد کا قول ہے جیسا کہ مسلم الثبوت میں ہے: اما المقلد فمستندہ قول المجتھد۔
اب اگر ایک شخص امام ابوحنیفہ کا مقلد ہونے کا مدعی ہو اور ساتھ ہی وہ امام ابوحنیفہ کے قول کے ساتھ یا علیحدہ قرآن و سنت کا بطور دلیل مطالعہ کرتا ہے تو وہ بالفاظ دیگر اپنے امام اور راہ نما کے استدلال پر یقین نہیں رکھتا''۔
(مقدمہ کتاب: دفاع امام ابو حنیفہ از عبدالقیوم حقانی ص۲۶)۔
۹۔ عامر عثمانی کو کسی نے خط لکھا کہ: ''حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جواب دیں''۔
عامر عثمانی صاحب نے اس کا جواب دیا کہ:
''اب چند الفاظ اس فقرے کے بارے میں کہہ دیں جو آپ نے سوال کے اختتام پر سپرد قلم کیا ہے یعنی: ''حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جواب دیں''۔ اس نوع کا مطالبہ اکثر سائلین کرتے رہتے ہیں۔ یہ دراصل اس قاعدے سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے کہ مقلدین کے لئے حدیث و قرآن کے حوالوں کی ضرورت نہیں بلکہ ائمہ و فقہاء کے فیصلوں اور فتوؤں کی ضرورت ہے۔۔''
(ماہنامہ تجلی دیوبند ج۱۹ شمارہ:۱۱،۱۲جنوری۱۹۶۸ء ص۴۷، اصلی اہلسنت عبدالغفور اثری ص۱۱۶)
۱۰۔ شیح احمد سرہندی لکھتے ہیں کہ:
''مقلد کو لائق نہیں کہ مجتہد کی رائے کے برخلاف کتاب و سنت سے احکام اخذ کرے اور ان پر عمل کرے''۔ (مکتوبات امام ربانی، مستند اردو ترجمہ ج۱ ص۶۰۱ مکتوب:۲۸۶)
سرہندی صاحب نے تشہد میں شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنے کے بارے میں کہا:
''جب روایات معتبرہ میں اشارہ کرنے کی حرمت واقع ہوئی ہو اور اس کی کراہت پر فتوی دیا ہو اور اشارہ عقد سے منع کرتے ہوں اور اس کو اصحاب کا ظاہر اصول کہتے ہوں تو پھر ہم مقلدوں کو مناسب نہیں کہ احادیث کے موافق عمل کر کے اشارہ کرنے میں جرأت کریں اور اس قدر علمائے مجتہدین کے فتوی کے ہوتے امر محرم اور مکروہ اور منہی کے مرتکب ہوں''۔ (مکتوبات ج۱ ص۷۱۸ مکتوب:۳۱۲)
سر ہندی مذکور نے خواجہ محمد پارسا کی فصول ستہ سے نقل کیا ہے کہ:
''حضرت عیسیٰ علی نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام نزول کے بعد امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مذہب کے موافق عمل کریں گے''۔ (مکتوبات اردو ج۱ ص۵۸۵ مکتوب:۲۸۲)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
شبیر احمد عثمانی دیوبندی لکھتے ہیں کہ:
''(تنبیہ) دودھ چھڑانے کی مدت جو یہاں دو سال بیان ہوئی باعتبار غالب اور اکثری عادت کے ہے۔ امام ابوحنیفہؒ جو اکثر مدت ڈھائی سال بتاتے ہیں ان کے پاس کوئی اور دلیل ہو گی۔ جمہور کے نزدیک دو ہی سال ہیں واللہ اعلم''
(تفسیر عثمانی ص۵۴۸ سورہ لقمان، آیت۱۴ حاشیہ:۱۰)۔
ان حوالوں سے معلوم ہوا کہ تقلید کرنے والے حضرات نہ قرآن مانتے ہیں اور نہ حدیث اور نہ اجماع کو اپنے لئے حجت سمجھتے ہیں، ان کی دلیل صرف قولِ امام ہوتا ہے۔
شاہ ولی اللہ الدھلوی الحنفی نے لکھا ہے کہ:
''اگر تم یہودیوں کا نمونہ دیکھنا چاہتے ہو تو (ہمارے زمانے کے) علماء سوء کو دیکھو، جو دُنیا کی طلب اور (اپنے) سلف کی تقلید پر جمے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ کتاب و سنت کی نصوص (دلائل) سے منہ پھیرتے اور کسی (اپنے پسندیدہ) عالم کے تعمق، تشدد اور استحسان کو مضبوطی سے پکڑے بیٹھے ہیں۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، جو معصوم ہیں، کے کلام کو چھوڑ کر موضوع روایات اور فاسد تأویلوں کو گلے سے لگا لیا ہے۔ اسی وجہ سے یہ لوگ ہلاک ہو گئے ہیں۔
(الفوز الکبیر فی اصول التفسیر ص۱۰، ۱۱)۔
فخر الدین الرازی لکھتے ہیں:
''ہمارے استاد جو خاتم المحققین والمجتھدین ہیں فرماتے ہیں کہ میں نے فقہاء مقلدین کے ایک گروہ کا مشاہدہ کیا ہے کہ میں نے انہیں کتاب اللہ کی بہت سی ایسی آیتیں سنائیں جو ان کے تقلیدی مذہب کے خلاف تھیں تو انہوں نے (نہ) صرف ان کے قبول کرنے سے اعراض کیا بلکہ ان کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں دی'' (تفسیر کبیر، سورۃ التوبہ آیت۳۱ جلد۱۶)
۹: امام ابوجعفر الطحاوی (حنفی!؟) سے مروی ہے کہ:
''وھل یقلد الا عصبی أو غبی''
تقلید تو صرف وہی کرتا ہے جو متعصب اور بے وقوف ہوتا ہے۔ (لسان المیزان ۱/۲۸۰)
۱۰: عینی حنفی (!) نے کہا:
''فالمقلد ذھل والمقلد جھل و آفۃ کل شئ من التقلید''
پس مقلد غلطی کرتا ہے اور مقلد جہالت کا ارتکاب کرتا ہے اور ہر چیز کی مصیبت تقلید کی وجہ سے ہے۔
(البنایۃ شرح الھدایہ ج۱ ص۳۱۷)
۱۱: زیلعی حنفی (!) نے کہا:
''فالمقلد ذھل والمقلد جھل''
پس مقلد غلطی کرتا ہے اور مقلد جہالت کا ارتکاب کرتا ہے (نصب الرایہ ج۱ ص۲۱۹) (بحوالہ الحدیث نمبر۹ تقلید کا مسئلہ)
دیوبندیوں کے حکیم الامت اشرف علی تھانوی دیوبندی فرماتے ہیں:
''امام ابوحنیفہ کا غیر مقلد ہونا یقینی ہے'' (مجالس حکیم الامت ص۳۴۵)
ثابت ہوا کہ امام ابوحنیفہ بھی غیر مقلد تھے اب دیکھئے مقلدین اُن پر کیا فتوی لگاتے ہیں؟
۱۲۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تقلید کے خلاف زبردست بحث کرنے کے بعد فرمایا:
''وأما أن یقول قائل: إنہ یجب علی العامۃ تقلید فلان أو فلان، فھذا لا یقولہ مسلم'' (مجموع الفتاوی ابن تیمیہ ج۲۳ ص۲۴۹)۔
اور اگر کوئی کہنے والا یہ کہے کہ عوام پر فلاں یا فلاں کی تقلید واجب ہے، تو یہ قول کسی مسلمان کا نہیں ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ خود بھی تقلید نہیں کرتے تھے، دیکھئے اعلام الموقعین (ج۲/۲۴۱،۲۴۲)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''کسی ایک مسلمان پر بھی علماء میں سے کسی ایک متعین عالم کی ہر بات واجب نہیں ہے کہ ہر چیز میں اسی کی پیروی شروع کر دے'' (مجموع الفتاویٰ:۲۰/۲۰۹)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ:
''...من نصب إماماً فأوجب طاعتہ مطلقاً اعتقادًا أو حالاً فقد ضل فی ذلک کأئمۃ الضلال الرافضۃ الإمیۃ''
جس شخص نے ایک امام مقرر کر کے مطلقاً اس کی اطاعت واجب قرار دے دی، چاہے عقیدتاً ہو یا عملاً، تو ایسا شخص گمراہ رافضیوں امامیوں کے سرداروں کی طرح گمراہ ہے۔ (مجموع الفتاوی ۱۹/۶۹)۔
۱۳۔ علامہ سیوطی (متوفی۹۱۱ھ) نے ایک کتاب لکھی ''کتاب الرد علی من أخلد إلی الأرض و جھل أن الإجتھاد فی کل عصر فرض'' مطبوعہ: عباس احمد الباز، دارالباز مکۃ المکرمہ، اس کتاب میں انہوں نے ''باب فساد التقلید'' کا باب باندھا ہے (ص۱۲۰) اور تقلید کا رد کیا ہے:
قاضی ابن ابی العز حنفی لکھتے ہیں:
فطائفۃ قد غلت فی تقلیدہ فلم تترک لہ قولا وانزلوہ منزلۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم وان اورد علیھم نص مخالفہ قولہ تاولوہ علی غیر تاویلہ لیدفعوہ عنھم (الاتباع:۳۰)
مقلدین کی ایک جماعت نے امام ابوحنیفہ کی تقلید میں غلو سے کام لیا ہے انہوں نے امام صاحب کے کسی قول کو ترک نہیں کیا اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و منصب پر فائز کر دیا گیا ہے۔ اگر ان پر کوئی ایسی نص پیش کی جائے جو قول امام کے خلاف ہو، تو وہ اسے ردّ کرنے کے لئے بے جا تاویلیں کرتے ہیں۔
۱۶۔ شیح حسین بن محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ اور شیخ عبداللہ بن محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے فرمایا:
عقیدۃ الشیخ محمد رحمہ اللہ اتباع ما دل علیہ الدلیل من کتاب اﷲ و سنۃ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم و عرض اقوال العلماء علی ذلک فما وافق کتاب اﷲ و سنۃ رسولہ قبلناہ و أفتینا بہ و ما خالف ذلک ردّدناہ علی قائلہ
شیح محمد (بن عبدالوہاب) رحمہ اللہ کا عقیدہ یہ ہے کہ جس پر کتاب و سنت کی دلیل ہو اس کی اتباع کی جائے اور علماء کے اقوال کو (کتاب و سنت) پر پیش کرنا چاہیے، جو کتاب و سنت کے موافق ہوں انہیں ہم قبول کرتے ہیں اور ان پر فتوی دیتے ہیں اور جو (کتاب و سنت) کے مخالف (اقوال) ہیں، ہم انہیں ردّ کر دیتے ہیں
(الدر السنیہ۱/۲۱۹۔۲۲۰، دوسرا نسخہ۴/۱۲۔۱۴۔ والاقناع بما جاء عن ائمۃ الدعوۃ من الأقوال فی الاتباع ص۲۷)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
۱۷۔ عبدالعزیز بن محمد بن سعود رحمہ اللہ (سعودی عرب کے بادشاہ)سے پوچھا گیا کہ ایک آدمی مذاہب مشہورہ کی تقلید نہیں کرتا، کیا یہ شخص نجات پا جائے گا؟ سلطان عبدالعزیز نے کہا:
''من عبداﷲ وحدہ لا شریک لہ فلم یستغث إلا اﷲ و لم یدع إلا اﷲ و حدہ و لم یذبح إلا ﷲ وحدہ ولم ینذر إلا ﷲ و حدہ ولم یتوکل إلا علیہ و یذب عن دین اﷲ و عمل بما عرف من ذلک بقدر استطاعتہ فھو ناج بلا شک وإن لم یعرف ھذہ المذھب المشھورۃ'' (الدر السنیہ۲/۱۷۰۔۱۷۳ طبع جدید ہ والاقناع ص۳۹۔۴۱)۔
جو شخص ایک اللہ، لا شریک لہ کی عبادت کرے، استغاثہ صرف اسی سے کرے، دعا صرف ایک اللہ ہی سے مانگے ذبح بھی ایک اللہ ہی کیلئے کرے، نذر بھی صرف اسی ہی کی مانے، صرف اسی پر توکل کرے، اللہ کے دین کا دفاع کرے اور اس میں سے جو معلوم ہو حسب استطاعت اس پر عمل کرے تو یہ شخص بغیر کسی شک کے نجات پانے والا ہے، اگرچہ اسے ان مذاھب مشہورہ کا پتہ ہی نہ ہو۔
۱۸۔ سعودی عرب کے مفتی شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ نے فرمایا:
''وإن الحمد ﷲ لست بمتعصب و لکنی أحکم الکتاب والسنۃ و أبنی فتاوٰی علی ما قالہ اﷲ و رسولہ، لا علی تقلید الحنابلۃ ولا غیرھم''
میں، بحمدﷲ، متعصب نہیں ہوں لیکن میں کتاب و سنت کے مطابق فیصلے کرتا ہوں۔ میرے فتووں کی بنیا د قال اللہ اور قال الرسول پر ہے، حنابلہ یا دوسروں کی تقلید پر نہیں ہے۔ (المجلۃ رقم: ۸۰۶ تاریخ ۲۵ صفر ۱۴۱۶ھ ص ۲۳ والاقناع ص ۹۲)۔
(بحوالہ الحدیث۹ دین میں تقلید کا مسئلہ)
دیوبندی حکیم الامت اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں:
اکثر مقلدین عوام بلکہ خواص اس قدر جامد ہوتے ہیں کہ اگر قول مجتہد کے خلاف کوئی آیت یا حدیث کان میں پڑتی ہے ان کے قلب میں انشراح انبساط نہیں رہتا بلکہ اول استنکار قلب میں پیدا ہوتا ہے پھر تأویل کی فکر ہوتی ہے خواہ کتنی ہی بعید ہو اور خواہ دوسری دلیل قوی اس کے معارض ہو بلکہ مجتہد کی دلیل اس مسئلہ میں بجز قیاس کے کچھ بھی نہ ہو بلکہ خود اپنے دل میں اس تأویل کی وقت نہ ہو مگر نصرت مذہب کے لئے تأویل ضروری سمجھتے ہیں۔ دل یہ نہیں مانتا کہ قول مجتہد کو چھوڑ کر حدیث صحیح صریح پر عمل کر لیں۔ (تذکرۃ الرشید:۱/۱۳۱)
ایک مقام پر لکھتے ہیں:
''بعض مقلدین نے اپنے ائمہ کو معصوم عن الخطاء و مصیب وجوبا و مفروض الاطاعت تصور کر کے عزم بالجزم کیا، کہ خواہ کیسی ہی حدیث صحیح مخالف قول امام کے ہو اور مستند قول امام کا بجز قیاس کے امر دیگر نہ ہو پھربھی بہت سی علل و خلل حدیث میں پیدا کر کے یا اس کی تأویل بعید کر کے حدیث کو ردّ کریں گے اور قول امام کو نہ چھوڑیں گے۔ ایسی تقلید حرام اور مصداق قولہ تعالیٰ: اتخذوا احبارھم و رھبانھم اربابا الآیۃ اور خلاف وصیت ائمہ مرحومین کے ہے۔ (امداد الفتاوی ۵/۲۹۷)
 
Top