لیکن ایسا کوئی دھوکا باز اور فراڈی مولوی دیکھنے میں نہیں آیا کہ جو احادیث نبویہ کا اس ڈھٹائی سے انکار کرے اور پھر اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹا بہتان بھی باندھے جیسا کہ خط کشیدہ الفاظ سے ظاہر ہے۔ ایسے شخص کے متعلق اپنی طرف سے کچھ کہنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کا اِرشاد اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پیش خدمت ہے:
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِاٰٰیتِہٖ اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ (الانعام:۲۱)
اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا اس کی آیات کو جھٹلائے یقینا ظالم فلاح نہیں پاتے۔
اور دوسرے مقام پر اسی طرح کے مضمون کے بعد فرمایا:
اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الْمُجْرِمُوْنَ (یونس:۱۷)
''یقینا مجرم فلاح نہیں پاتے''۔
جناب مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا:
ان کذبا علی لیس ککذب علی احد من کذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار (صحیح بخاری کتاب الجنائز باب ما یکرہ من النیاحہ علی المیت رقم:۱۲۹۱، صحیح مسلم مقدمۃ الرقم۵)
''بیشک مجھ پر جھوٹ باندھنا دوسرے لوگوں پر جھوٹ باندھنے کی طرح نہیں ہے جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولے تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے''۔
رفع یدین کی صحیح احادیث کے خلاف موصوف نے جو ہفوات بکی ہیں ان کا انجام یقینا اس نے دیکھ لیا ہو گا اب اس کے شاگردوں اور مریدوں پر لازم ہے کہ وہ جہنم سے بچنے کی تدابیر اختیار کر لیں ورنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان باندھنے والے کا ٹھکانہ یقینا جہنم ہے۔ اور موصوف نماز میں سکون کی بات کر رہے ہیں حالانکہ حنفی نماز میں سکون نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔
جناب جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہم کی حدیث کو موصوف نے رفع یدین کے خلاف پیش کر کے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ
یہ جانوروں کا فعل ہے۔ گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں جو رفع یدین فرمایا کرتے تھے، موصوف کے بقول جانوروں کا فعل ادا کیا کرتے تھے (نعوذ باﷲ من ذٰلک) حالانکہ اس حدیث میں سلام کے وقت ہاتھوں کو ہلانے سے منع کیا گیا ہے جیسا کہ جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہم کی دوسری حدیث میں اس کی وضاحت موجود ہے اور دیوبندی علماء میں سے بھی بعض نے یہ وضاحت کر دی ہے کہ اس حدیث کا مذکورہ رفع یدین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ موصوف نے گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا بھی ارتکاب کیا ہے۔ (نعوذ باﷲ من ذلک) اگر اس حدیث میں رفع یدین کی ممانعت ہے تو پھر موصوف نماز کے شروع میں، نماز وتر میں اور عیدین کی نماز میں کیوں رفع یدین کرتے ہیں؟ اور کس دلیل کی بنیاد پر وہ ان مقامات پر رفع الیدین کے قائل ہیں؟۔
موصوف نے جس آیت میں تحریف کی ہے ان الفاظ کے ساتھ قرآن کریم میں کوئی آیت موجود نہیں ہے اور اس آیت میں ہاتھوں کو روکنے کے متعلق جو حکم دیا گیا ہے وہ شروع میں جہاد سے رُکنے کا حکم تھا لیکن جب مسلمان مدینہ طیبہ میں مجتمع ہو گئے تو انہیں جہاد کا حکم دیا گیا جیسا کہ اس آیت کے اگلے حصہ میں جہاد و قتال کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت جہاد کے متعلق نازل فرمائی لیکن احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس انکاری نے اس آیت کو رفع یدین نہ کرنے کی دلیل بنا لیا اور تحریف کے اس فن میں اس نے یہود و نصارٰی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ افسوس!
یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
اسے کتابت کی غلطی بھی نہیں کہیں گے کیونکہ موصوف نے اس آیت کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ موصوف نے ابن عباس رضی اللہ عنھما سے
الذین ھم فی صلوتھم خاشعون کی تفسیر میں من گھڑت تفسیر ابن عباس سے یہ قول نقل کیا ہے کہ
جو نمازوں کے اندر رفع یدین نہیں کرتے (وہ خشوع والے ہیں) جبکہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے صحیح سند کے ساتھ رفع یدین کرنا ثابت ہے دیکھئے: مصنف عبدالرزاق۲/۶۹۔ رقم:۲۵۲۳۔ و مصنف ابن ابی شیبہ:۱/۲۳۵، جزء رفع الیدین للبخاری ص۶۳، مسائل احمد بن حنبل۱/۲۴۴ و اسنادہ حسن صحیح۔ اس کے مقابلے میں تفسیر ابن عباس ساری کی ساری مکذوب و موضوع ہے۔ اس کے بنیادی راوی محمد بن مروان، السدی اور صالح تینوں کذاب ہیں اور موصوف اپنے مثل ان کذابین کی روایت کو خاموشی سے ذکر کر رہے ہیں۔
ہم نے موصوف کے ایک دو صفحوں میں سے اس قدر جھوٹ واضح اور آشکارا کر دیئے ہیں اور ان کے مزید جھوٹ اور کذب بیانیوں کو آشکارا کرنے کے لئے ایک ضخیم کتاب کی ضرورت ہے جو لوگ دین کے معاملے میں ایسے جھوٹے اور فراڈی انسان پر بھروسہ کر رہے ہیں وہ سوچیں کہ اس طرح ان کی دنیا اور آخرت دونوں برباد ہو جائیں گی اور قیامت کے دن ان کا جو حال ہو گا اس کا اندازہ ان آیات کے مطالعہ سے ہو گا۔ (الفرقان۲۷تا۲۹، الاحزاب:۶۶،۶۷)۔ اس سلسلہ میں الاستاذ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ردّ میں ایک کتاب ''امین اوکاڑوی کا تعاقب'' تحریر کی ہے جو چھپ چکی ہے۔ نیز الاستاذ موصوف نے اپنے ماہنامہ رسالہ ''الحدیث'' میں ان کے مضامین پر ایک تحقیقی سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور ان کے مضامین قسط وار اس رسالے میں شائع ہو رہے ہیں۔ الاستاذ موصوف نے اپنی علمی اور تحقیقی مضامین کا آغاز امین اوکاڑوی کے مضمون ''تحقیق مسئلہ تقلید'' کے جواب سے شروع کیا ہے اور امید ہے کہ ان کے تمام لٹریچر کا تحقیقی بنیاد پر پوسٹ مارٹم کیا جائے گا۔بہرحال موصوف نے آیت کے ظاہری الفاظ میں بھی تحریف کی ہے اور اس آیت سے جو مفہوم اخذ کیا ہے یہ دوسری تحریف ہے۔ اور موصوف کو اس فن میں اس قدر مہارت حاصل ہے کہ وہ کسی مقام پر بھی تحریف کرنے اور قرآن و حدیث کے مفہوم کو بدلنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی پکڑ بہت سخت ہے
ان بطش ربک لشدید! ایسے جھوٹے اور مکار انسان اللہ کی پکڑ سے نہیں بچ سکتے۔