- شمولیت
- مارچ 03، 2011
- پیغامات
- 4,178
- ری ایکشن اسکور
- 15,351
- پوائنٹ
- 800
اسباب نزول
بلاشبہ قرآن پاک تدریجاً بحسبِ الحوائج نازل ہوا ہے ۔ قرآن کا اکثر حصہ تو وہ ہے جو ابتداء موعظت وعبرت یا اصولِ دین اور احکامِ تشریع کے بیان میں نازل ہوا ہے لیکن قرآن کا کچھ حصہ وہ ہے جو کسی حادثہ یا سوال کے جواب میں اُترا ہے۔ علماء نے ان حوادث / سوالات کو اَسباب سے تعبیر کیا ہے ۔ ([1])
اسبابِ نزول کے علم سے چونکہ آیت کا پس منظر سمجھ آتا ہے اور آیت کے سبب سے جہالت بسا اوقات حیرت کا موجب بنتی ہے، اس لئے اسبابِ نزول کی معرفت کو علم تفسیر میں خاص اہمیت حاصل رہی ہے اور علماء نے علومِ قرآن پر جو کتابیں لکھی ہیں اُن میں اسبابِ نزول کے عنوان کو مستقل طور پر ذکر کیا ہے بلکہ خالصتاً اسبابِ نزول پر بھی کتابیں مرتب کی ہیں۔
جلال الدین سیوطی الاتقان میں لکھتے ہیں :
"أفرده بالتّصنیف جماعة أقدمهم علي ابن المديني شیخ البخاريّ." ([2])
کہ علما نے اس موضوع پر مستقل کتابیں بھی تالیف کی ہیں اور اس باب میں سب سے پہلی تصنیف علی بن مدینی کی ہے جو امام بخاری کے شیخ ہیں۔
اسی طرح سیوطی نے اس سلسلہ کی تالیفات کا ذکر کرتے ہوئے ابو الحسین علی بن احمد واحدی (468ھ) کی تالیف([3]) کو مشہور ترین قرار دیا ہے مگر ساتھ ہی فيه أعواز کہ اس میں کچھ مشکلات ہیں، کہہ کر اس پر تبصرہ بھی کیا ہے۔ پھر حافظ ابن حجر (852ھ) کی اسبابِ نزول کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: فات عنه مسودة فلم نقف علیه کاملا کہ ان کی کتاب کا مسودہ ضائع ہو گیا لہٰذا ہم اس پر مطلع نہیں ہو سکے۔ سیوطی نے خود بھی اس موضوع پر ایک کتاب تالیف کی ہے جس کے متعلق لکھتے ہیں:
"وألفت فیه تألیفا موجزا لم یؤلّف مثله في هذا النوع سمّیته لباب النقول في أسباب النزول." ([4])
کہ اس موضوع پر میری بھی ایک یگانہ روزگار تالیف ہے جس کا نام میں نے لباب النقول فی اسباب النزول رکھا ہے ۔
بہرحال اسبابِ نزول کی اہمیت کے پیش نظر علما نے اس کو مستقل فن کی حیثیت دی ہے اور اس پر کتابیں بھی تالیف کی ہیں ۔ مفسرین نے اپنی تفاسیر میں اسباب کے بیان کا اہتمام کیا ہے ۔ شاہ ولی اللہ (1762م)نے اپنے رسالہ الفوز الکبیر میں اس کی معرفت کو المواضع الصّعبة (مشکل مقامات)سے شمار کیا ہے اور اس فن کے مباحث کو منقّح کرنے کی سعیٔ مشکور فرمائی ہے لہٰذا جن علماء نے اس کی افادیت اور تاریخی حیثیت کو ’لاطائل‘ (بے فائدہ)کہا ہے، ان کا موقف سراسر غلط فہمی پر مبنی ہے اور دیگر بعض علماء نے اس میں غلو کرتے ہوئے یہاں تک لکھ دیا ہے کہ اسبابِ نزول کی معرفت کے بغیر تفسیر قرآن نہیں ہو سکتی۔ سیوطی اس فن کی معرفت کے بغیر تفسیر قرآن پر اِقدام کو حرام قرار دیتے ہیں ، تاہم یہ دونوں گروہ اِفراط و تفریط میں مبتلا ہیں ۔ اصل اور صحیح موقف ان کے بین بین ہے جیسا کہ ابن دقیق العید (702ھ)اور ابوالفتح قشیری نے اس کی وضاحت کی ہے کہ اس فن کی معرفت فی الجملہ معاوِن ہو سکتی ہے ورنہ تفسیر قرآن صرف اس پر موقوف نہیں ہے ۔
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں :
"معرفة سبب النّزول تعین على فهم الآية فإن العلم بالسّبب یورث العلم بالمسبّب." ([5])
کہ سببِ نزول کی معرفت آیت کے سمجھنے میں معاون ہے کیونکہ سبب کی معرفت کے ذریعے مسبّب تک رسائی ہو جاتی ہے۔