دین میں سند کی اہمیت
اسناد اُمت محمدیہ کا خاصہ ہے۔ ان سے پہلے کسی اُمت کو یہ خاصہ عطاء نہیں ہوا۔ دین میں اس کاانتہائی اہم مقام ہے۔امام حاکم نیسابوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’قال عبد اﷲ بن مبارک: الإسناد من الدِّین،لولا الإسناد لقال من شاء ما شاء‘‘
’’عبداللہ بن مبارکؒ نے فرمایا کہ اسناد کا اہتمام دینی اُمور میں سے ہے۔ اگر اسناد نہ ہوتیں تو جس کے جی میں جو آتا وہ کہہ دیتا۔‘‘ (معرفۃ علوم الحدیث: ۶)
امام ابن مبارک رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
’’مثل الذی یطلب أمر دینہ بلا إسناد کمثل الذی یرتقی السطح بلا سلّم‘‘
’’جو شخص دین کا کوئی حکم بغیر سند کے طلب کرتا ہے، اس کی مثال اس شخص جیسی ہے جو چھت پربغیرسیڑھی کے چڑھناچاہتا ہے۔‘‘
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’الاسناد سلاح المؤمن فإذا لم یکن معہ سلاح فبأیّ شیٔ یقاتل‘‘(الإسناد من الدین للشیخ أبو غدۃ)’’اسناد تو مومن کا ہتھیار ہے۔ اگر اس کے پاس اسلحہ نہیں ہوگا تو وہ لڑائی کس چیز کیساتھ کرے گا۔‘‘
اسی طرح امام سفیان ثوری رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
’’الإسناد زین الحدیث ممن اعتنی بہ فھو السعید‘‘ (أیضا)’’اسناد تو حدیث کی زینت ہے، جس نے اس کااہتمام کیا وہ بامراد ہوا۔‘‘
امام شعبہ بن حجاج رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
کلّ حدیث لیس فیہ حدثنا أو أخبرنا فہو خلّ وبقل (المحدّث الفاصل بین الراوی والواعی: ص۵۱۷)’’ہروہ حدیث جس میں
حدثنا یا
أخبرنا کے الفاظ نہیں ہیں، وہ ردّی اور بے وقعت ہے۔ اسناد کے فقدان کی وجہ سے وہ ناقابل التفات ہوگی۔‘‘
امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’مثل الذی یطلب الحدیث بلا إسناد کمثل حاطب لیل،یحمل حزمۃ حطب وفیہ أفعی وہو لا یدری‘‘ (الإسناد من الدین)
’’جو شخص بغیرسند کے حدیث طلب کرتاہے اس کی مثال یوں ہے جیسے کوئی آدمی رات کے اندھیرے میں لکڑیاں اکٹھی کرتا ہے اور پھر وہ اپنا گٹھا اٹھاتا ہے، لیکن اسے علم نہیںہوتا کہ اس کی لکڑیوں میں خطرناک ترین سانپ موجود ہے۔‘‘
امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ امام زہریؒ نے ایک دن حدیث بیان فرمائی، میں نے کہا کہ بلاسند بیان کر دیں، توانہوں نے فرمایا کیا آپ چھت پربغیر سیڑھی کے چڑھنا چاہتے ہیں۔‘‘ (اَیضا)
بعض اہل علم نے انہی کی مثال کہتے ہوئے ذکر کیا ہے کہ ’’ وہ شخص جوبغیر سند کے حدیث طلب کرتا ہے تو اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو چھت پربغیر سیڑھی کے چڑھنا چاہتا ہے، بھلا وہ آسمان پر کیسے چڑھ سکتا ہے؟‘‘
اِمام اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ما ذھاب العلم إلا ذھاب الاسناد‘‘ ’’علم کا خاتمہ اسناد کے خاتمہ پرمنحصر ہے۔‘‘
حافظ یزیدبن زریع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’لکلّ دین فرسان وفرسان ھذا الدّین أصحاب الأسانید‘‘’’ہردین کی حفاظت کرنے کیلئے کچھ شاہسوار ہوتے ہیں۔دین اسلام کے شاہسوار اصحاب اسانید یعنی محدثین کرام ہیں۔‘‘
حافظ الجوال ابوسعد سمعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’نبی کریم ﷺ کے الفاظ (احادیث) کا مدار نقل پرہے۔ ان الفاظ کی صحت، صحت ِسند پر منحصر ہے۔ اور صحت ِسند کی بنیاد ثقہ اور عادل راوی کے بغیر ناممکن ہے۔‘‘
پھر اپنی سند کے ساتھ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’میں نے بہز بن اسعد العمی بصریؒ (متوفی بعد از ۲۰۰ھ) کو کہتے ہوئے سنا کہ جب ان کے سامنے کوئی صحیح حدیث بیان کی جاتی تو فرماتے یہ تو عادل لوگوں کی ایک دوسرے کے لئے گواہیاں ہیں، اورجب ان کے سامنے کوئی کمزور سند بیان کی جاتی تو فرماتے کہ یہ تو ناقابل التفات ہے، اور ساتھ یہ بھی فرماتے اگر کوئی مقروض جس کے ذمہ دس روپے کا قرض ہے وہ اس کی ادائیگی سے انکار کردے توقرض لینے والا جب تک دو عادل لوگوں کو گواہ بناکر پیش نہ کرے وہ قرضہ واپس لینے سے قاصر ہوتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا دین تو اس بات کازیادہ حقدار ہے کہ اس کی باتیںعادل لوگوں سے قبول کی جائیں۔‘‘ (أدب الإملاء والاستملائ: ۳، ۵۵)
امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ لم یکن فی أمۃ من الأمم منذ خلق اﷲ آدم،أمناء یحفظون آثار نبیہم وأنساب سلفہم إلا فی ہذہ الأمۃ‘‘ (شرح مواہب اللدنیۃ للزرقانی: ۵؍۴۵۴)
’’ جب سے اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق فرمائی، اس اُمت سے بڑھ کر کوئی ایسی اُمت نہیں گزری جو اس قدر امین ، اپنے انبیاء کی باتوں اور اسلاف کے انساب کی حفاظت کرنے والی ہو۔‘‘
امام ابو العباس محمد بن عبدالرحمن سرخسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’میں نے محمد بن مظفر کو کہتے ہوئے سنا کہ اللہ نے اس اُمت کو عزت وشرف سے نوازا اور علم الاسناد کے ساتھ اس کو پہلی اُمتوں سے ممتاز کیا، کیونکہ اُن کے پاس جو کتابیں موجود ہیں انہوں نے ان میں کئی اپنی باتیں بھی داخل کردیں۔ اب ان کے پاس کوئی ایسا پیمانہ نہیں جس سے وہ اپنے انبیاء سے منقول کتب اورغیر معتبر آدمیوں کی رخنہ اندازیوں کے مابین فرق کرسکیں۔‘‘
جہاندیدہ شخصیت، حافظ ابوبکر محمد بن احمد ثقفی اصبہانی رحمہ اللہ (متوفی ۳۰۹ھ) فرماتے ہیں:
’’ مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ اللہ نے اس اُمت کو تین ایسے خصائص عطا فرمائے ہیں جوان سے ماقبل کا نصیب نہ بن سکے:
١ سند واسناد
٢ اِعراب
٣ انساب (شرح مواہب اللدنیۃ للزرقانی: ۵؍۴۵۴، الأجوبۃ الفاضلۃ لعبد الحیّ اللّکنوی:ص ۲۴)
اسی وجہ سے کسی شاعر نے ایسی قوم کو، جو سند کا اہتمام نہیں کرتی، مخاطب کرتے ہوئے سند کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے:
ومن بطون کراریس روایتھم لو ناظروا باقلاً لَمَا غلبوا
والعلم إن فاتہ إسناد مسندہ کالبیت لیس لہ سقفٌ ولا طنب
(الکفایۃ للخطیب البغدادی:ص۱۶۳)
’’ان کی روایات کا مدار سراسر اوراق اور کتب پر ہے، اگر کبھی کسی ردّ ی چیز سے ان کاپالا پڑ جائے تو انہیں جان چھڑانا مشکل ہوجاتا ہے۔ اگر علم کی سند ختم ہوجائے تو وہ ایسے گھر کی مانند ہے جس کی چھت ہے، نہ درودیوار۔‘‘
یہ بات تو حدیث کی سند کے متعلقہ تھی، رہی بات اللہ تعالیٰ کے کلام کی، جو کہ نسل در نسل تلقِّی، سماع اور بالمشافہ اخذو اَداء کے ذریعے ہم تک ہے ، تو اس کی کیا شان ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کریم کی ایسی حفاظت پر ہم اللہ تعالیٰ کاکیسے شکریہ ادا کرسکتے ہیں۔ جو فرض ہم مسلمانوں پر حفاظت ِ قرآن کے سلسلہ میں عائد ہوتا ہے تو اس امانت کی اَدائیگی کے سلسلہ میں ہم اپنے سات سالہ بچے کو قرآن مجید کاحافظ بناکر عہد نبویؐ سے پورا کر رہے ہیں۔ایسے لوگوں پر اللہ کی رحمتوں اور خوشنودیوں کا نزول ہو۔ واﷲ المستعان