٢ محمد بن صالح رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں امام ابوعمرو بصری رحمہ اللہ سے ملا اور ان سے کہا:
’’آپ
فیومئذ لا یُعَذِّب عذابہ أحد ولا یوثِق و ثاقہ أحد کو کس طرح پڑھتے ہیں؟امام ابوعمرو بصری رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’لا یعذب ولا یوثق‘‘ کسرہ سے۔ اس شخص نے کہا آنحضرتﷺ تو
(لا یعذَّب ولا یوثَق) فتحہ سے پڑھتے تھے، پھر آپ کسرہ کیوں پڑھتے ہیں؟ امام ابوعمرو بصری رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’لو سمعت الرجل الذی قال سمعت النبی ! ما أخذتہ عنہ ودری ما ذاک لأنی أنھم الواحد الشاذ إذا کان علی خلاف ما جاء ت بہ العامۃ‘‘
’’یعنی میں اگر خود بھی کسی سے کوئی ایسی قراء ت سن لوں جس کو اس نے آنحضرتﷺ سے بلاواسطہ سنا ہو اور وہ قراء ت عام و متواتر قراء ت کے خلاف ہو۔ تب بھی اس شخص سے اس قراء ت کو اخذ نہیں کروں گا کیونکہ میں کسی واحد شاذ روایت کو متہم جانتا ہوں جب کہ وہ اکثر ناقلین کی روایت کے خلاف ہو۔‘‘
شیخ ابوالحسن سخاوی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ
’’ فتحہ والی قراء ت بھی تواتر سے ثابت ہے۔‘‘
علامہ جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’میں کہتاہوں کہ سچ فرمایا کیونکہ یہ امام کسائی رحمہ اللہ او رامام یعقوب رحمہ اللہ کی بھی قراء ت ہے۔ پھر فرماتے ہیں کہ کبھی ایساہوتا ہے کہ ایک روایت ایک قوم کے یہاں تو متواتر ہوتی ہے اور دوسری جماعت کی رائے پر غیر متواتر اور امام ابوعمرو بصری رحمہ اللہ نے فتحہ والی قراء ت کا انکار اسی بنا پر کیاہے کہ وہ آپ کو تواتر کے طریق پرنہیں پہنچی تھی۔‘‘
علامہ ابن جزری رحمہ اللہ مزید فرماتے کہ’’ میں کہتا ہوں کہ متقدمین حضرات کی یہی عادت تھی کہ جو قراء ت ان کے یہاں بطریق تواتر ثابت نہیں ہوتی تھی اس کاانکار فرما دیتے تھے اور خاص خاص قراء و رواۃ کی طرف منسوب ہونے کے باوجود قراء ات و روایات متواتر اس بنا پر ہیں کہ ان قراء کی تعیین و تخصیص لازم نہیں، بلکہ اگر ان کے بجائے دوسرے قراء معین و مخصوص کرلئے جائیں تو اس میں بھی کچھ حرج نہیں اور خاص ان قراء کی تعیین کا سبب یہ ہے کہ بہ نسبت دوسرے لوگوں کے یہ حضرات قراء ات کے پڑھنے پڑھانے کی طرف خصوصی توجہ دیتے تھے یا یہ کہ یہ حضرات تعیین و انتخاب کا کام سرانجام دینے والے لوگوں کے مشائخ و اساتذہ ہیں۔ اسی بناء پر انہوں نے اپنے اساتذہ ہی کوخاص کرلیا، یہی وجہ ہے کہ اسلاف ومتقدمین میں سے کئی حضرات نے قراء ت و روایت کے خاص ایک امام کی طرف منسوب کرنے کو مکروہ جانا ہے، چنانچہ ابن ابی داؤدرحمہ اللہ نے ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ متقدمین ’فلاں کی سند‘، ’فلاں کی قراء ت‘ کہنے کو ناپسند سمجھتے تھے۔‘‘
علامہ جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’ میں کہتاہوں کہ یہ اسی بات سے اندیشہ کرنے کی بنا پر تھا کہ ابوشامہ رحمہ اللہ کی طرح کوئی شخص یہ وہم نہ کرلے کہ قراء ت جب ایک خاص شخص کی طرف منسوب ہو تو ’آحاد‘ کے قبیل سے ہوتی ہے اور یہ لوگ اس بات سے ناواقف ہیں کہ ان قراء میں سے ہر ہر قاری کی طرف جوجو قراء ت منسوب ہے۔اس کی تلاوت کرنے والے ہمارے اس زمانہ کی بہ نسبت خود اس قاری کے اوراسی طرح اس سے پہلے کے زمانہ میں کئی گنا زیادہ تھے۔ اگر ہر ہر قراء ت متواتر نہ ہو تو لازم آئے گا کہ قرآن کا بعض حصہ غیر متواتر ہو۔ اس لئے کہ ہم قرآن مجید میں بہت سے حروف و کلمات ایسے پاتے ہیں کہ ان میں قراء کا اختلاف ہے، اس طرح کہ ان قراء کرام میں سے ہر ایک کی قراء ت دوسرے قاری کی قراء ت سے مختلف اور جدا ہے، مثلاً
أَرْجِہْ (شعبہ بالخلف ، حفص، حمزہ)،
أَرْجِہٖ (ورش، کسائی، خلف، ابن جماز ،ابن وردان بالخلف)،
أَرْجِہِ(قالون، ابن وردان کی وجہ ثانی )، أَرْجِئْہٗ (مکی ، ہشام بالخلاف)،
أَرْجِئْہُ (ابوعمرو،یعقوب، ہشام اور شعبہ دونوں کی دو وجہ ثانی)
أَرْجِئْہِ (ابن ذکوان)۔ اسی طرح
مٰلِکِ (عاصم کسائی، خلف،یعقوب)،
مَلِکِ (نافع،ابوجعفر، مکی،ابوعمرو، شامی، حمزہ) اور
وَمَا یَخٰدِعُوْنَ (نافع، ابن کثیر، ابوعمرو)،
وَما یَخْدَعُوْنَ (شامی، عاصم، حمزہ، خلف، ابوجعفر، یعقوب ) وغیرہ وغیرہ۔
پس مندرجہ بالا قول کی رُو سے ان میں سے کوئی قراء ت بھی متواتر نہیں اور اس کی خرابی ظاہر ہے، کیونکہ اس سے لازم آتاہے کہ قرآن کا بہت سا حصہ غیر متواتر ہو، اس لئے کہ دو یا تین سے تواتر ثابت نہیں ہوتا اور یہ صحیح نہیں۔‘‘
چنانچہ امام جعبری رحمہ اللہ اپنے رسالہ میں فرماتے ہیں:
’’اس کلمہ کی اختلافی وجوہ میں سے ہر ہر وجہ اسی طرح متواتر ہے، مگر یہ وجوہ اس کلمہ کے اجزاء میں سے بعض ہیں نہ کہ کل،کیونکہ کل تو پورا کلمہ ہے نہ کہ محض یہ وجوہ۔‘‘
امام جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ پس اس سے اس شخص کے قول کا فساد ظاہر ہوگیا جو یہ کہتا ہے کہ اختلافی کلمات تو متواتر ہیں لیکن اس کی اختلافی وجوہ متواتر نہیں، اور اس قول کے فساد کی وجہ یہ ہے کہ اختلافی کلمہ انہی اختلافی وجوہ کے مجموعہ کا نام ہے، ان سے الگ اور مستقل کوئی چیز نہیں۔ لہٰذا جب آپ
الصراط پڑھتے ہیں تو اس کاتلفظ صاد یا سین یااشمام بالزای یا ان تین میں سے کسی ایک وجہ کے مطابق کرتے ہیں، ان سے الگ اور جدا اس کلمہ کا کوئی اور مزید تلفظ نہیں کرسکتے۔ پس ان وجوہ کے عدم تواتر سے خود اس کلمہ کاعدم تواتر لازم آئے گا، جو باطل ہے۔ میں کہتا ہوں کہ جعبری رحمہ اللہ کا مقصود ابوشامہ رحمہ اللہ کے قول کا رد ہے۔
واللہ اعلم‘‘