ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
٣ امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنے شیخ امام مالک رحمہ اللہ سے تو یہ روایت بیان کی ہے کہ بسم اﷲ قرآن کا جزو نہیں، لیکن ان کا مذہب اس کے برعکس یہ ہے کہ بسم اﷲ قرآن بلکہ ہر ہر سورت کا جزو ہے، کیونکہ امام شافعی رحمہ اللہ اہل مکہ میں سے ہیں، جو دوسورتوں کے درمیان بسملہ کو ثابت رکھتے ہیں اور اسے فاتحہ کی اور اسی طرح ہر ہر سورت کی ایک مستقل آیت شمار کرتے ہیں، نیز امام شافعی رحمہ اللہ نے اسماعیل قسط رحمہ اللہ سے قراء ت ابن کثیررحمہ اللہ پڑھی ہے، پس شافعی رحمہ اللہ نے عدم بسملہ والی اُس روایت پر تو اعتماد نہیں کیا، جو امام مالک رحمہ اللہ سے ہے، اس لئے کہ وہ آحاد میں سے ہے اور ابن کثیررحمہ اللہ کی قراء ت پر اعتماد کرلیا، کیونکہ وہ متواتر ہے۔ یہ ایک لطیف اور انتہائی دقیق بات ہے جو قابل غور ہے اور میں اپنے اصحاب کی کتب میں یہ لکھا ہوا دیکھتاتھا کہ شافعی رحمہ اللہ نے عدم بسملہ والی حدیث امام مالک رحمہ اللہ سے روایت کی ہے، لیکن اس پر اعتماد نہیں کیا۔ پس معلوم ہوا کہ اس بارہ میں امام شافعی رحمہ اللہ کے لئے کوئی علت و سبب ظاہر ہوا ہوگا، ورنہ بلاوجہ وہ اس حدیث کی اتباع کو ترک نہ کرتے۔‘‘
علامہ جزری رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ
’’ ہمارے اصحاب میں سے کسی نے بھی اس کی وجہ بیان نہیں کی اور میں ایک رات اس میں غوروفکر کررہا تھا کہ اچانک اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے یہ بات دل میں ڈالی کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کی روایت آحاد میں سے ہے اور قراء ت ابن کثیر متواتر ہے، شائد اسی بنا پر امام شافعی رحمہ اللہ نے آحاد کو چھوڑ کر متواتر پرعمل کرلیا ، واللہ اعلم
اسی طرح مزید ذکر فرماتے ہیں کہ میں نے قراء ت ابن کثیررحمہ اللہ امام شافعی رحمہ اللہ کی روایت سے بھی پڑھی ہے، جو بعینہٖ سیدنا بزی رحمہ اللہ اور سیدنا قنبل رحمہ اللہ کی روایت کی طرح ہے، اور جب شافعیہ کے اکابر ائمہ میں سے ہمارے بعض اصحاب کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے مجھ سے قراء ات ابن کثیر بروایت امام شافعی رحمہ اللہ پڑھنے کے خیال کااظہار فرمایا۔ پس اس تفصیل سے بھی اس بات کی تائید ہوگئی کہ ہر شہر والوں کی قراء ت ان کے اعتبار سے متواتر ہے۔‘‘
٤ امام ابوحاتم سجستانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ
’’بصرہ میں سب سے پہلے جس نے قراء ت کی وجوہ کو تلاش کیا اور انہیں ایک تالیف میں جمع کردیا اور شاذ و مشہور اور متواتر قراء توں کی تحقیق کی، وہ ہارون بن موسیٰ اعورa ہیں جوقراء میں سے تھے۔ پس لوگوں نے ان کے اس عمل کوناپسند کیا اور یہ کہا کہ انہوں نے قراء توں کو ایک تالیف میں جمع کرکے نامناسب کام کیا ہے، جس سے فن قراء ت کی اہمیت و عظمت ختم ہوجاتی ہے۔ اس لئے کہ قراء ات کی شان تو یہ ہے کہ انہیں ہرقرن و زمانہ والے جماعت در جماعت بالمشافہ ایک دوسرے سے حاصل کرتے ہیں۔‘‘
اس قول سے بھی قراء ات کے متواتر ہونے کی مزید تائید ہوجاتی ہے۔
علامہ جزری رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ
’’ ہمارے اصحاب میں سے کسی نے بھی اس کی وجہ بیان نہیں کی اور میں ایک رات اس میں غوروفکر کررہا تھا کہ اچانک اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے یہ بات دل میں ڈالی کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کی روایت آحاد میں سے ہے اور قراء ت ابن کثیر متواتر ہے، شائد اسی بنا پر امام شافعی رحمہ اللہ نے آحاد کو چھوڑ کر متواتر پرعمل کرلیا ، واللہ اعلم
اسی طرح مزید ذکر فرماتے ہیں کہ میں نے قراء ت ابن کثیررحمہ اللہ امام شافعی رحمہ اللہ کی روایت سے بھی پڑھی ہے، جو بعینہٖ سیدنا بزی رحمہ اللہ اور سیدنا قنبل رحمہ اللہ کی روایت کی طرح ہے، اور جب شافعیہ کے اکابر ائمہ میں سے ہمارے بعض اصحاب کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے مجھ سے قراء ات ابن کثیر بروایت امام شافعی رحمہ اللہ پڑھنے کے خیال کااظہار فرمایا۔ پس اس تفصیل سے بھی اس بات کی تائید ہوگئی کہ ہر شہر والوں کی قراء ت ان کے اعتبار سے متواتر ہے۔‘‘
٤ امام ابوحاتم سجستانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ
’’بصرہ میں سب سے پہلے جس نے قراء ت کی وجوہ کو تلاش کیا اور انہیں ایک تالیف میں جمع کردیا اور شاذ و مشہور اور متواتر قراء توں کی تحقیق کی، وہ ہارون بن موسیٰ اعورa ہیں جوقراء میں سے تھے۔ پس لوگوں نے ان کے اس عمل کوناپسند کیا اور یہ کہا کہ انہوں نے قراء توں کو ایک تالیف میں جمع کرکے نامناسب کام کیا ہے، جس سے فن قراء ت کی اہمیت و عظمت ختم ہوجاتی ہے۔ اس لئے کہ قراء ات کی شان تو یہ ہے کہ انہیں ہرقرن و زمانہ والے جماعت در جماعت بالمشافہ ایک دوسرے سے حاصل کرتے ہیں۔‘‘
اس قول سے بھی قراء ات کے متواتر ہونے کی مزید تائید ہوجاتی ہے۔