اَسانید قراء ات ِعشرہ کا تواتر
جو قرآن کریم آپﷺنے صحابہ کوسنایا وہی سکھایا آسمانوں سے نازل ہوا تھا اور اسی کی تبلیغ کا حکم دیا، جیسا کہ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا:
’’اگر تمہیں میری طرف سے ایک آیت بھی پہنچے تو اس کوآگے پہنچاؤ۔ ہاں بنی اسرائیل سے نقل کرنے میں کوئی حرج نہیں یہ بات بھی یاد رکھو کہ جس نے مجھ پر جھوٹ بولا اس نے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالیا۔‘‘(صحیح البخاري:۳۴۶۲)
امام ابن کثیر رحمہ اللہ (متوفی۷۷۴ھ) فرماتے ہیں:
’’ اس کا مطلب ہے کہ اگر تمہارے پاس صرف ایک ہی روایت کاعلم ہو تو تمہاری ذمہ داری بنتی ہے کہ اسے آگے پہنچاؤ۔ آنحضرت ﷺ کے صحابہ نے اسی حکم کو بجا لاتے ہوئے قرآن مجید کو لوگوں تک بلا کم و کاست پہنچایا۔اس لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ صحابہ تک جوبات آپؐ کی پہنچی انہوں نے اللہ کے فضل و کرم سے اس بات کو ہماری طرف نقل کردیا۔‘‘ (فضائل القرآن:۱۹)
صحابہ کرام ؓ نے آپﷺ سے نہ صرف قرآن مجید حاصل کیا بلکہ ان میں سے ایک جماعت نے اس میں مہارت تامہ بھی حاصل کی اور وہ قرآن مجید پڑھتے پڑھاتے تھے۔ آپؐ انہی لوگوں کو قرآن کی تعلیم کے لئے مختلف اَطراف میں روانہ فرمایا کرتے تھے۔ ان لوگوں کو آپ ﷺ کے زمانہ میں
’القراء ‘کہا جاتا تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رعل، ذکوان، عصیہ اور بنو لحیان نے رسول اللہﷺ سے اپنے اپنے دشمنوں کے خلاف مدد مانگی تو آپؐ نے ستر (۷۰) انصار صحابہ کرام، جنہیں آپؐ کے زمانہ میں
’قرائ‘ کہا جاتاتھا، کو ان کے ساتھ روانہ کردیا۔ یہ قراء صحابہ دن کو لکڑیاں اکٹھی کرتے تھے اور رات کو نماز میں مشغول رہا کرتے تھے۔
عہد نبی میں بہت سارے صحابہ کرام ؓ نے قرآن مجید حفظ کیاہوا تھا، جن میں سے بعض تک قراء ات کی اَسانید بھی پہنچتی ہیں۔ امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ جن صحابہ نے قرآن مجید حفظ کرکے آپ کوسنایا ان میں سے مندرجہ ذیل صحابہ کرام زیادہ معروف ہیں:
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ (متوفی۳۵ھ)، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ(متوفی ۴۰ھ)، ابی بن کعب رضی اللہ عنہ (متوفی۳۲ھ)، عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ (متوفی ۳۲ھ)، زید بن ثابت رضی اللہ عنہ(متوفی۴۵ھ)، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ (متوفی۵۰ھ)، ابودرداءرضی اللہ عنہ (خلافت عثمان رضی اللہ عنہ کے آخر میں انہوں نے وفات پائی)۔ یہ تو وہ صحابہ کرام ؓ ہیں،جن کے متعلق ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ انہوں نے حیاۃ رسول میں ہی قرآن کریم حفظ کیا اور یاد کرکے آپ کو سنایا۔ یہی وہ مکرم ہستیاں ہیں جن کے گرد ائمہ عشرہ کی اَسانیدقراء ات گھومتی ہیں۔ (الإعلام: ۵؍۳۲۶) ان کے علاوہ بھی دیگر صحابہ کرام نے قرآن مجید یاد کیا تھا۔ ان میں سے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ( المتوفی۱۸ھ) ابوزیدرضی اللہ عنہ، سالم مولی ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ (المتوفی ۷۳ھ) اور عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ قابل ذکر ہیں، لیکن ان کی قراء ات ہم تک نہیں پہنچیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ متعدد صحابہ کرام ؓ نے قرآن مجید پڑھنے پڑھانے کے ساتھ ساتھ زبانی بھی یادکررکھاتھا۔‘‘ (معرفۃ القراء الکبار: ۲۴ تا ۴۲، کچھ تصرف واختصار کے ساتھ)
حفظ ِقرآن کاخاصہ ہے کہ اس کے ساتھ اللہ نے قرآن کوماقبل کتب سے ممتاز کیا، جیساکہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (المتوفی ۷۲۸ھ) نے فرمایا ہے:
’’ نقل قرآن میں اصل اعتماد حفظ پرہے، نہ کہ مصاحف پر ، جیساکہ ایک صحیح حدیث میں بھی ہے:
’’میرے رب نے مجھے کہا: تجھ پر ایسی کتاب نازل کی گئی ہے جسے پانی بھی نہیں مٹا سکتا۔ آپﷺ اس کو سوتے جاگتے تلاوت کرتے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم:۲۸۶۵)
اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن مجید اپنی حفاظت میں ایسی کتابت ِصحائف کا محتاج نہیں ہے، جس کتابت کو پانی کے ساتھ مٹایا جاسکے، بلکہ صحابہ کرام نے ہر حال میں قرآن مجیدکی تلاوت کی، جیساکہ اُمت محمدیہ کے وصف کو بیان کرتے ہوئے کہا گیا کہ
’’بَلْ ہُوَ آیَاتٌ بَیِّنَاتٌ فِی صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْعِلْم‘‘ یعنی ان کی اَناجیل(قرآنی سورتیں) ان کے سینوں میں محفوظ ہیں، برخلاف اہل کتاب کے کہ ان کی کتب کی حفاظت کا واحد ذریعہ صرف کتابت تھا، وہ صرف دیکھ کرتلاوت کرسکتے تھے، زبانی تلاوت پر انہیں قدرت حاصل نہ تھی۔‘‘ (مجموع الفتاوی:۱۳؍۴۰۰)
حفظ قرآن مجید کے ضمن میں صرف تلاوت یا زبانی یاد کرنے پر ہی اکتفاء نہ کیا گیا، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کی کتابت کا بھی اہتمام کیاگیاتھا۔ تو یہ دونوں صورتیں (حفاظت کے حوالہ) سے ایک دوسرے کو تقویت بخشتی ہیں۔ جب ایک صورت میں غلطی کااندیشہ ہوتاہے تو دوسری صورت اس کی تصحیح کردیتی ہے۔ اسی وجہ سے جب بھی آپﷺ پر وحی اتاری جاتی تو آپﷺ حاضرین کو سنانے کے ساتھ ساتھ فی الفور کاتبین وحی میں سے کسی کوبلوا کر وہ وحی لکھوادیا کرتے تھے۔ (مدخل إلی علم القرآن الکریم:ص۳۴)
امام ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اس کتاب کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے خاص کردیتا ہے۔اس نے ایسے ثقہ ائمہ کو اس کام پر مامور کیا،جنہوں نے اس کی تصحیح کی انتہاء کے حصول کی خاطر اپنی تمام تر توانائیاں صرف کردیں۔ انہوں نے قرآن مجید کو حرف بحرف آپ سے نقل کیا۔ ان لوگوں نے نہ تو کسی حذف و اثبات اور حرکت و سکون کو چھوڑا اورنہ ہی انہیں کسی شک و شبہ کا سامنا کرناپڑا۔ ان میں سے بعض نے مکمل بعض نے اکثر اورمتعددنے قرآن کا بعض حصہ آپؐ کی زندگی میں ہی یادکرلیاتھا۔‘‘ (النشر فی القراء ات العشر:۱/۶)