• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قراء ات متواترہ…غامدی موقف کا تجزیہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ات متواترہ…غامدی موقف کا تجزیہ

(قراء اتِ متواترہ اور اہل ِسنت کا موقف)​
حافظ محمدزبیر​
حافظ محمد زبیرحفظہ اللہ کی فاضل شخصیت علمی حلقوں میں اب محتاج ِتعارف نہیں۔ موصوف کو اللہ تعالی نے ذہانت وفطانت سے حظ ِوافر عطاء فرمایا ہے۔ جاوید احمد غامدی کے جمیع منحرف نظریات کے اُصول ومبادی پر آپ کی کئی تحریریں منظر عام پر آکر داد وصول کرچکی ہیں، جو کہ ’فکر غامدی‘ کے نام سے کتابی صورت میں بھی مطبوع ہیں۔ زیر نظر شمارہ میں بھی حافظ صاحب حفظہ اللہ نے جاوید غامدی کے نظریہ’ انکار قراء ات‘ پر دو مضمون تحریرکیے ہیں، جن میں سے یہ مضمون اگرچہ ماہنامہ’ رشد‘ کے جولائی ۲۰۰۷ء کے شمارے میں پہلے شائع ہوچکاہے، لیکن موصوف نے اس مضمون میں متعدد مقامات پر تشنہ رہ جانے والے دیگرپہلوؤں کا اضافہ بھی کیا ہے اور غامدی صاحب کی طرف سے پیش کردہ بعض دیگر اَعتراضات، جن کا جواب پچھلے مضمون میں ذکر نہیں کیا جاسکا تھا، کا تنقیدی جائزہ بھی پیش کردیا ہے ۔ (اِدارہ)
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور شریعت اِسلامیہ میں اصل الاصول کی حیثیت رکھتا ہے۔تاریخ اسلامی کے ہر دورمیں فقہاء و علماء نے استنباطِ اَحکام کے لیے اسے اپنا اوّلین مرجع و مصدر بنایا۔اس کی بہت سی خصوصیات ہیں،ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ اللہ کے رسول ﷺ پر ایک سے زائد قراء ات کے ساتھ نازل ہوا اور پھر اِن قراء ات کے ساتھ اُمت میں مروی ہے۔ان میں سے بعض قراء ات ایسی ہیں جو آج بھی بعض ممالک اِسلامیہ میں عوام الناس کی سطح پر رائج ہیں، مثلاً روایتِ حفص،روایت ِقالو ن،روایتِ ورش اور روایتِ دُوری۔جب کہ بعض قراء ات ایسی ہیں جو اُمت کے خواص میں نقل در نقل چلی آرہی ہیں اور اُمت کے فقہائ،علمائ،مفسرین ،محدثین ،مجتہدین اور قراء کاان قراء ات کے قرآن ہونے پر اتفاق ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علمائے اُمت نے قراء ات کی دو قسمیں بیان کی ہیں :
(١) قراء ات متواترہ
یہ وہ قراء ات ہیں جن میں درج ذیل تین شرائط پائی جائیں :
(ا ) جو رسول اللہﷺ سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہو اور ائمۂ قراء کے ہاں مشہور ہو۔
(ب) جو مصاحف عثمانیہ کے رسم الخط کے مطابق ہو۔
(ج) جولغات عرب میں سے کسی لغت کے مطابق ہو۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢) قراء اتِ شاذہ
اگر کسی قراء ت میں ان تین شرائط میں سے کوئی شرط مفقود ہو تو اسے قراء تِ شاذہ کہتے ہیں۔قرآن سے اَحکام مستنبط کرتے ہوئے اور قرآن کی قراء اتِ متواترہ کو دلیل بنانے پر مذاہبِ اَربعہ کے جمیع فقہاء کا اتفاق ہے،لیکن قراء ات شاذہ کے بارے میں اختلاف ہے۔
اَحناف اور حنابلہ کا موقف یہ ہے کہ قراء اتِ شاذہ کی اگر سند صحیح ہو تو وہ بطورِ حدیث حجت ہیں،جب کہ مالکیہ اور شوافع کا نقطہ نظر یہ ہے کہ قراء اتِ شاذہ حجت نہیں ہیں ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء اتِ متواترہ کے بارے میں غامدی صاحب کا نقطۂ نظر
غامدی صاحب نے اپنی کتاب ’میزان‘ میں قراء ات متواترہ پر مختلف اعتراضات وارد کرتے ہوئے ان کا انکار کیا ہے ۔غامدی صاحب کے نزدیک قرآن کی متواتر قراء ات فتنۂ عجم کی باقیات میں سے ہیں۔ان کے نزدیک قرآن کی صرف ایک ہی قراء ت ہے جسے وہ ’قراء تِ عامہ‘کہتے ہیں۔یہ وہ قراء ت ہے جو کہ مشرق کے اکثرو بیشتر ممالک میں ’روایت حفص‘کے نام سے رائج ہے۔غامدی صاحب لکھتے ہیں :
’’لہٰذا یہ بالکل قطعی ہے کہ قرآن کی ایک ہی قرأت ہے جو ہمارے مصاحف میں ثبت ہے۔اس کے علاوہ اس کی جو قراتیں تفسیروں میں لکھی ہوئی ہیں یا مدرسوں میں پڑھی پڑھائی جاتی ہیں یا بعض علاقوں میں لوگوں نے اختیار کر رکھی ہیں،وہ سب اس فتنۂ عجم کی باقیات ہیں جس کے اَثرات سے ہمارے علوم کا کوئی شعبہ،افسوس ہے کہ محفوظ نہیں رہ سکا۔‘‘ (میزان:ص۳۲)
غامدی صاحب مراکش،تیونس،لیبیا ،سوڈان،یمن ،موریطانیہ،الجزائر،صومالیہ اور افریقہ کے اکثر و بیشتر ممالک میں رائج قراء ات کو قرآن نہیں مانتے۔ایک جگہ لکھتے ہیں :
’’قرآن وہی ہے جو مصحف میں ثبت ہے اور جسے مغرب کے چند علاقوں کو چھوڑ کر پوری دنیا میں اُمت مسلمہ کی عظیم اَکثریت اس وقت تلاوت کر رہی ہے ۔یہ تلاوت جس قرأ ت کے مطابق کی جاتی ہے،اس کے سوا کوئی دوسری قرأ ت نہ قرآن ہے اور نہ اسے قرآن کی حیثیت سے پیش کیا جا سکتا ہے۔‘‘(میزان:ص۲۵ ،۲۶)
غامدی صاحب نے قراء ات متواترہ کے بارے میں صحاح ستہ میں موجود’سبعہ اَحرف‘ کی متواتر روایات کا انکار کیا ہے۔وہ حضرت ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ اور حضرت عمررضی اللہ عنہ کی روایت پر اعتراضات کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اول یہ کہ یہ روایت اگرچہ حدیث کی امہات کتب میں بیان ہوئی ہے،لیکن اس کا مفہوم ایک ایسا معمہ ہے جسے کوئی شخص اس اُمت کی پوری تاریخ میں کبھی حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔امام سیوطی رحمہ اللہ نے اس کی تعیین میں چالیس کے قریب اَقوال اپنی کتاب ’الاتقان‘ میں نقل کیے ہیں ،پھر ان میں سے ہر ایک کی کمزوری کا احساس کر کے موطأ کی شرح ’تنویر الحوالک ‘میں بالآخر یہ اعتراف کر لیا ہے کہ اسے من جملہ متشابہات ماننا چاہیے جن کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا…یہی معاملہ ان روایتوں کا بھی ہے جو سیدنا صدیق اور ان کے بعد سیدنا عثمان کے دور میں قرآن کی جمع و تدوین سے متعلق حدیث کی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں ۔قرآن،جیسا کہ اس بحث کی ابتدا میں بیان ہوا،اس معاملے میں بالکل صریح ہے کہ وہ براہِ راست اللہ کی ہدایت کے مطابق اور رسول اللہﷺ کے حین حیات میں مرتب ہوا، لیکن یہ روایتیں اس کے بر خلاف ایک دوسری ہی داستان سناتی ہیں جسے نہ قرآن قبول کرتا ہے اور نہ عقل عام ہی کسی طرح ماننے کے لیے تیار ہو سکتی ہے ۔صحاح میں یہ اصلاً ابن شہاب زہری کی وساطت سے آئی ہیں۔ائمہ رجال انہیں تدلیس اور اِدراج کا مرتکب تو قرار دیتے ہی ہیں،اس کے ساتھ اگر وہ خصائص بھی پیش نظر رہیں جو امام لیث بن سعد نے امام مالک کے نام اپنے ایک خط میں بیان فرمائے ہیں تو ان کی کوئی روایت بھی، بالخصوص اس طرح کے اہم معاملات میںقابل قبول نہیں ہو سکتی۔‘‘ (میزان:ص۳۰، ۳۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
غامدی صاحب کے نقطۂ نظر کی غلطی
ہم ذیل میں غامدی صاحب کے ان اعتراضات اور ان کے جوابات کو علی الترتیب ذکر کریں گے :
غامدی صاحب کی عربی دانی
غامدی صاحب قراء ات متواترہ پر تنقید کا شوق پورا فرما رہے ہیں اورکیفیت یہ ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب ’میزان‘ میں ص ۲۵ سے لیکر ۳۳ تک ’قرأ ت کے اختلاف‘کے عنوان سے قراء ات متواترہ پر بحث کی ہے اور ’قرأ ت ‘ کا لفظ اپنی اس بحث میں تقریباً ۳۴دفعہ لے کر آئے ہیں اور ہر دفعہ انھوں نے اس لفظ کو ’قرأت‘ ہی لکھا ہے‘گویا انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ لفظ’قرأت‘ نہیں، بلکہ ’قراء ت‘ہوتا ہے، جس کی جمع ’قراء ات‘ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
غامدی صاحب حفاظت قرآن کے قائل نہیں ہیں
غامدی صاحب تو حفاظت قرآن کے بھی قائل نہیں ہیں ۔وہ لکھتے ہیں :
’’لہٰذا یہ بالکل قطعی ہے کہ قرآن کی ایک ہی قرأت ہے جو ہمارے مصاحف میں ثبت ہے۔اس کے علاوہ اس کی جو قرأتیں تفسیروں میں لکھی ہوئی ہیں یا مدرسوں میں پڑھی اور پڑھائی جاتی ہیں یا بعض علاقوں میں لوگوں نے اختیار کر رکھی ہیں،وہ سب اس فتنۂ عجم کے باقیات ہیں‘‘۔(میزان:ص۳۲)
گویا غامدی صاحب قرآن کو محفوظ نہیں سمجھتے۔اگر قرآن مجید محفوظ ہے تو پھر یہ’قرا ء ات‘اُمت میں بطورِ قرآن کیسے رائج و معروف ہو گئیں؟
٭ امام المفسرین ابن جریر طبری رحمہ اللہ سے لے کر علامہ آلوسی رحمہ اللہ تک ہر مفسر نے اپنی تفسیر میں ان قراء ات کا تذکرہ کیا ہے اور ان کے ذریعے آیات قرآنیہ کی تفسیر و تاویل میں مدد لی ہے ۔
٭ یہ قراء ات مشرق سے لے کر مغرب تک تقریباً تمام اسلامی ممالک کی عالمی شہر ت کی حامل جامعات مثلاً جامعہ ازہر،جامعہ کویت اور مدینہ یونیورسٹی وغیرہ کے نصاب میں شامل،ہیں۔
٭ بریلوی ہوں یا اہل حدیث،دیوبندی ہوں یااہل تشیع،تقریباًتمام مکاتب فکر کے بڑے بڑے مدارس میں یہ قراء ات سبقاً سبقاً پڑھائی جاتی ہیں ۔
٭ اُمتِ مسلمہ کی ایک بہت بڑی تعداد غامدی صاحب کی ’قرأت عامہ‘کے مطابق قرآن نہیں پڑھتی۔مثلاًلیبیا ، تیونس اور الجزائر کے بعض علاقوں میں روایت ’قالون‘پڑھی جاتی ہے۔سوڈان،صومالیہ اور یمن( حضر موت) کے علاقے میں روایت’دوری‘ میں قرآن پڑھا جاتا ہے ۔اسی طرح موریطانیہ ‘الجزائر کے اکثر وبیشتر علاقوں،مراکش اوربر اعظم افریقہ کے اکثر ممالک میں روایت’ورش‘ رائج ہے۔بلکہ واضح رہے کہ اکیلی روایت ’ورش‘ دنیا کے تقریباً چالیس ممالک میں رائج ہے۔ ہمارا غامدی صاحب سے سوال ہے کہ :
٭ کیا ہمارے تمام مفسرین قرآن سے جاہل تھے ؟
٭ کیا اللہ تعالیٰ نے’فتنہ عجم‘ کوامت مسلمہ میں اتنا عام کر دیا کہ کیا خواص اور کیا عوام ‘سب ہی اسے چودہ صدیوں سے قرآن سمجھ کر پڑھ رہے ہیں؟
٭ کیا ان مذکورہ بالا تمام ممالک میں رہنے والے کروڑوںمسلمان اپنی نمازوں میں قرآن کی بجائے ’فتنہ عجم ‘ کی تلاوت کرتے ہیں ؟
٭ کیا غامدی صاحب مراکش‘لیبیا ‘تیونس ‘الجزائر ‘موریطانیہ ‘سوڈان ‘صومالیہ ‘یمن ‘مغربی ممالک اور براعظم افریقہ کے کروڑوں مسلمانوں کو اُمت مسلمہ میں شامل نہیں سمجھتے ؟
٭ کیا عالم عرب و عجم کے تمام معروف قراء کی مختلف’ قراء ات‘میں آڈیو اور ویڈیوکیسٹس ’مشرق‘ میں عام نہیں ہیں ؟
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اُمت مسلمہ میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی روایت،روایت حفص ہے،لیکن اُمت کی ایک معتد بہ تعداد میں روایت قالون،ورش اور دوری بھی رائج ہے ۔اور ان ’ قراء ات‘کا اُمت مسلمہ میں رائج ہونا ہی ان کے قرآن ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے‘ کیونکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ‘‘ (الحجر:۹)
’’بے شک ہم نے ہی قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ‘‘۔
جب اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے تو ایک ایسی چیز جو قرآن نہیں ہے، وہ اُمت مسلمہ میں بطور قرآن کیسے رائج ہو سکتی ہے؟
غامدی صاحب کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ جس طرح وہ صرف اسی قراء ت کے قائل ہیں جو مشرق کے عوام الناس میں رائج ہے اور مغرب میں پڑھی جانے والی قراء ات کے انکاری ہیں اسی طرح مغرب میں بھی بعض ایسے لوگ موجود ہیں جو صرف اسی قراء ت کو حق سمجھتے ہیں جو کہ ان کے علاقوں میں پڑھی جاتی ہے اور غامدی صاحب کی’قرأت عامہ‘ان کے نزدیک قرآن نہیں ہے‘بلکہ وہ اپنے ہاں رائج قراء ت کو ہی ’قرأت عامۃ ‘کہتے ہیں ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
غامدی صاحب کی ’قرأت عامہ‘اور اُمت مسلمہ کے مصاحف
غامدی صاحب کے نزدیک قرآن کی صرف ایک ہی قراء ت ہے جو کہ مصاحف میں ثبت ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’لہٰذا یہ بالکل قطعی ہے کہ قرآن کی ایک ہی قرأت ہے جو ہمارے مصاحف میں ثبت ہے۔‘‘(میزان: ص ۳۲)
’ہمارے مصاحف‘ سے غامدی صاحب کی کیا مراد ہے ؟’المورد‘ کے تصدیق شدہ مصاحف یا امت مسلمہ کے مصاحف ؟اگر تو ان کی مراد’ المورد‘ کے مصاحف ہیں تو پھر توہم بھی مانتے ہیں کہ قرآن کی ایک ہی قراء ت ہے،لیکن اگر ان کی مراد امت مسلمہ کے مصاحف ہیں تو وہ جس طرح روایت حفص میں ہمارے ممالک میں موجود ہیں اسی طرح روایت قالون، روایت ورش،روایت دوری کے مطابق یہ مصاحف لاکھوں کی تعداد میں متعلقہ ممالک میں باقاعدہ ان ممالک کی حکومتوں کی زیر نگرانی ایسے ہی شائع کیے جاتے ہیں جیسے کہ غامدی صاحب کا ’قرأت عامۃ ‘ کا مصحف۔اب تو مجمّع الملک فھدنے بھی لاکھوں کی تعداد میں روایتِ دوری ،قالون اور ورش کے مطابق مصاحف کومتعلقہ ممالک کے مسلمانوں کے لیے شائع کیا ہے۔مختلف قراء ات کے رسم الخط کے مطابق یہ طبع شدہ مصاحف ہمارے پاس بھی موجود ہیں،لہٰذا ثابت یہ ہوا کہ جو مصاحف اُمت مسلمہ میں رائج ہیں وہ ایک سے زائد قراء ات پر مشتمل ہیں او ر غامدی صاحب کا یہ دعویٰ بے بنیاد ہے کہ ہمارے مصاحف میں ایک ہی قرا ء ت ثبت ہے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
غامدی صاحب کی ’قرأتِ عامہ‘ اور اُمت مسلمہ کی روایت حفص
قراء اتِ قرآنیہ کے نقل کرنے میں دس امام ایسے ہیں جنہیں بہت شہرت حاصل ہوئی اور مابعد کے زمانوں میں یہ قراء ات انہی ائمہ کے ناموں سے معروف ہو گئیں۔ان ائمہ کے نام درج ذیل ہیں :امام نافع رحمہ اللہ(م ۱۶۹ھ)امام ابن کثیر مکی رحمہ اللہ(م۱۲۰ھ)،امام ابو عمرو بصری رحمہ اللہ(م۱۵۴ھ)امام ابن عامر شامی رحمہ اللہ(م۱۱۸ھ)،امام عاصم رحمہ اللہ(م۱۲۷ھ] امام حمزہ رحمہ اللہ(م۱۸۸ھ)امام کسائی رحمہ اللہ(م۱۸۹ھ)امام ابو جعفررحمہ اللہ (م۱۳۰ھ)امام یعقوب رحمہ اللہ(م۲۲۵ھ) امام خلف رحمہ اللہ(م۲۰۵ھ)۔ان ائمہ کی قراء ات ’قراء ات عشرۃ‘کہلاتی ہیں۔ان ائمہ سے ان قراء ات کو نقل کرنے والے ان کے سینکڑوں شاگرد ہیں، لیکن ہر اما م کی قرا ء ت بعدازاں اس کے دو شاگردوں سے معروف ہوئی۔ان شاگردوں کی اپنے امام سے نقل ِقراء ت قرآن کی ’روایت‘کہلاتی ہے۔ پس ہر امام کے دو شاگردوں کے اعتبار سے قرآن کی کل بیس روایات ہوئیں۔ان بیس روایات میں سے چار روایات ایسی ہیں جو اُمت مسلمہ کے مختلف علاقوں میں عوامی سطح پررائج ہیں،جن کا ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں،جب کہ باقی سولہ روایات قراء کی ایک بہت بڑی تعداد سے نقل در نقل چلی آ رہی ہیں اور ان تمام قراء ات کی اللہ کے رسولﷺتک باقاعدہ اسناد موجودہیں۔
غامدی صاحب ان بیس کی بیس روایات قرآنیہ کے منکر ہیں اور انھیں فتنہ عجم قرار دیتے ہیں، لیکن ان بیس روایات میں سے ایک روایت’روایتِ حفص‘ ہے اور ’حفص‘ اما م عاصمؒ کے شاگرد ہیں۔کیا ہی عجب اور حسنِ اتفاق ہے کہ’روایتِ حفص‘لفظ بلفظ وہی ہے جسے غامدی صاحب ’قرأت عامہ‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور اسے قرآن کہتے ہیں۔اب غامدی صاحب اگر اس روایت کا انکار کریں تو اپنی ہی ’قرأت عامہ‘کے بھی انکاری ہو ں گے اور اگر وہ اس روایت حفص کو مان لیں تو باقی انیس روایات کو ماننے سے انکار کیوں ؟
اگر ’قرأتِ عامہ‘سے غامدی صاحب کی مراد عوام الناس کی قراء ت ہے تو روایت حفص، روایت ورش،روایت قالون اور روایت دوری بھی تو عوام الناس ہی کی قراء ات ہیں‘ان کو ماننے سے غامدی صاحب کیونکر انکار کر سکتے ہیں؟
غامدی صاحب کے نزدیک قرآن اجماع و قولی تواتر سے ثابت ہوتا ہے‘جبکہ قرآن کی مندرجہ بالاروایات اربعہ بلکہ عشرہ اجماع و قولی تواتر دونوں سے ثابت ہیں۔لیکن اس کے باوجود وہ ان روایات کو قرآن ماننے سے انکاری ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرا ء اتِ متواترہ اور اجماع امت
غامدی صاحب کے نزدیک قراء ات متواترہ کے بارے میں مروی وہ تمام روایات جو صحاح ستہ میں موجود ہیں سنداًاور معناًدونوں اعتبارات سے ناقابل قبو ل ہیں۔سنداً اس لیے کہ ان تمام روایات کی سند میں ابن شہاب زھری ہے، جوآئمہ رجال کے ہاں مدلس ہے اور معناًا س لیے کہ ان احادیث کے معنی و مفہوم کا آج تک تعین نہیں ہو سکا۔
غامدی صاحب کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ قرآن کو حدیث کی دلیل سے ثابت کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ قرآن اپنے ثبوت کے لیے کسی حدیث کا محتاج نہیں ہے۔غامدی صاحب جس کو ’قرأت عامہ‘کہتے ہیں کیا وہ حدیث سے ثابت ہے؟قرآن کا اجماع اور تواتر کے ساتھ امت میںنقل ہونا ہی اس کے ثبوت کی سب سے بڑی دلیل ہے،اور’قراء اتِ عشرہ ‘ تواتر اور اجماع کے ساتھ ثابت ہیں۔مشہور مفسر اور اندلسی عالم ابن عطیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ومضت الاعصار والامصار علی قراء ات الائمۃ السبعۃ بل العشرۃ وبھا یصلی لانھا تثبت بالاجماع‘‘(المحرر الوجیزلابن عطیہ:۱؍۹)
’’قراء ات سبعہ بلکہ عشرہ بھی ہر زمانے اور ہر شہر میں رائج رہی ہیں اور ان کی نماز میں تلاوت کی جاتی رہی ہے، کیونکہ یہ اجماع امت سے ثابت ہیں۔ ‘‘
آج بھی مدارس و جامعات اِسلامیہ کے ہزاروں طلبہ ان قراء ات کو اپنے شیوخ سے نقل کر رہے ہیں ۔ان میں سے بعض قراء ات تو مغرب و افریقہ کے بلاد اِسلامیہ میں اسی طرح رائج ہیں جس طرح ہمارے ہاں روایت حفص ، اور ان قراء ات کا تواتر کے ساتھ اُمت میں پڑھا جانا ہی ان کے قرآن ہونے کے ثبوت کے لیے قطعی دلیل ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سبعہ اَحرف کا مفہوم اور غامدی صاحب کے مغالطے
غامدی صاحب نے سبعۃ أحرف کی روایات پر اعتراض یہ کیا ہے کہ اس کے معنی و مفہوم کے تعین میں علما کے تقریباً چالیس اقوال نقل کیے گئے ہیں۔غامدی صاحب لکھتے ہیں:
’’اوّل یہ کہ یہ روایت اگرچہ حدیث کی اُمہاتِ کتب میں بیان ہوئی ہے،لیکن اس کا مفہوم ایک ایسا معمہ ہے جسے کوئی شخص اس اُمت کی پوری تاریخ میں کبھی حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔امام سیوطی رحمہ اللہ نے اس کی تعیین میں چالیس کے قریب اقوال اپنی کتاب ’الاتقان ‘ میں نقل کیے ہیں۔ ‘‘(میزان:ص۳۰)
غامدی صاحب نے امام سیوطی رحمہ اللہ کا حوالہ نقل کر دیا ہے، لیکن کاش وہ امام سیوطی رحمہ اللہ کی کتاب ’الاتقان‘ کھول کر دیکھنے کی زحمت بھی گوارا کر لیتے ۔حقیقت یہ ہے کہ امام سیوطی رحمہ اللہ نے چالیس نہیں، بلکہ سولہ اَقوال اپنی کتاب میں بیان کیے ہیں،البتہ انہوں نے ابن حبان رحمہ اللہ کے حوالے سے پینتیس اَقوال کا تذکرہ کیا ہے جو کہ درج ذیل ہیں:
(١) زجر،امر ،حلال ،حرام ،محکم ،متشابہ ،امثال
(٢) حلال ،حرام ،امر ،نہی ،زجر ،مستقبل کی خبریں ،امثال
(٣) وعد ، وعید ،حلال ،حرام ،مواعظ ،امثال ،احتجاج
(٤) امر ،نہی ،بشارت ،نذارت ،اخبار ،امثال
(٥) محکم ،متشابہ ،ناسخ ،منسوخ ،خصوص ،عموم ،قصص
(٦) امر ،زجر ،ترغیب ،ترہیب ،جدل ،قصص ،مثل
(٧) امر ،نہی ،وجد ،علم ،سر ،ظہر، بطن
(٨) ناسخ ،منسوخ ،وعد ،وعید ،رغم ،تادیب ،انذار
(٩) حلال ،حرام ،افتتاح ،اخبار ،فضائل ،عقوبات
(١٠) اوامر ،زواجر ،امثال ،أنباء ،عتب ، وعظ ،قصص
(١١) حلال ،حرام ،امثال ،منصوص،قصص،اباحات
(١٢) ظھر، بطن ،فرض ،ندب ،خصوص ،عموم ،امثال
(١٣) امر ،نہی ،وعد ،وعید ،اباحت ،ارشاد ،اعتبار
(١٤) مقدم ،مؤخر ،فرائض ،حدود ،مواعظ ،متشابہ ،امثال
(١٥) مقیس ،مجمل ،مقضی،ندب ،حتمی ،امثال
(١٦) امر حتم ،امر ندب ،نہی حتم ،نہی ندب ،اخبار ،اباحات
(١٧) امرفرض ،نہی حتم ،امر ندب ،نہی مرشد ،وعد ،وعید ،قصص
(١٨) لفظ خاص مرادخاص ،لفظ عام مراد عام ،لفظ عام مراد خاص ،لفظ خاص مراد عام ،وہ لفظ جس کا معنی واضح ہو، وہ لفظ جس کا مفہوم علماء پر ظاہر ہو،وہ لفظ جس کا معنی صرف الراسخون فی العلم کو معلوم ہو۔
(١٩) اظہارِ ربوبیت ،اثبات وحدانیت ،تعظیم الوہیت ،التعبد ﷲ ،مجانبۃ الاشراک، ترغیب، ترہیب
(٢٠) سبع لغات مراد ہیں ،جن میں پانچ بنو ہوازن کی جبکہ دو قریش کی ہیں ۔
(٢١) عرب کے متفرق مشہور قبائل کی سات لغات مراد ہیں ۔
(٢٢) سبع لغات ہیں جن میں چار بنو ھوازن کی جبکہ تین قریش کی ہیں ۔
(٢٣) سات قبائل کی لغات مراد ہیں :قریش ،یمن ،جرھم ،ھوازن،قضاعہ ،تمیم ،طی
(٢٤) کعب بن عمرو اور کعب بن لوی کی لغات مراد ہیں جو کہ سات ہیں ۔
(٢٥) ایک ہی معنی ادا کرنے کے لیے عرب کے مختلف قبائل کی لغات مراد ہیں ۔
(٢٦) سات صحابہ کی قراء ات مراد ہیں :ابوبکر،عمر،عثمان ،علی،ابن مسعود،ابن عباس،ابی ابن،کعب
(٢٧) ہمز،امالہ، فتح ،کسر ،تفخیم،مد ،قصر
(٢٨) تعریف ،مصادر ،عروض ،غریب ،سجع، لغات مختلفہ
(٢٩) ایک ہی کلمہ جس کو سات طرح سے اعراب دیا جاسکتا ہے ۔
(٣٠) بنیادی حروف تہجی مراد ہیں:الف ،با، جیم ،دال ،را ،سین ،عین
(٣١) سات اسماء مراد ہیں :رب ،غفور ،رحیم ،سمیع ،بصیر ،علیم ،حکیم
(٣٢) سات قسم کی آیات مراد ہیں :وہ آیات جو صفات ذاتیہ پر مشتمل ہوں ،وہ آیات جو کسی دوسری آیت کی تفسیر کر رہی ہوں،وہ آیات جن کی تفسیر سنت میں ہو،انبیاء و رُسل کے قصص پر مشتمل آیات ،اشیاء کی تخلیق کے بارے میں آیات ،جنت کے اَوصاف پر آیات، جہنم کے اوصاف پر آیات ۔
(٣٣) سات قسم کی آیات مراد ہیں :صانع کے اوصاف پر مشتمل آیات ،اثبات وحدانیت کی آیات ،اثبات صفات کی آیات ،اثباتِ رُسل کی آیات، اثبات کتب کی آیات ،اثبات اسلام کی آیات ،نفی ٔ کفر کی آیات
(٣٤) سات قسم کی صفات ذاتیہ مراد ہیں جن کی کیفیت بیان کرنا ممکن نہیں ہے ۔
(٣٥) ایمان باللہ ،شرک سے اجتناب ،اوامر کا اثبات ،مجانبت زواجر ،ثبات علی الایمان ،تحریم ما حرم اللہ ،اطاعت رسول
ان پینتیس اقوال کو غامدی صاحب نے ایک صحیح متواتر روایت کے انکار کی دلیل بنایا ہے۔ ہم غامدی صاحب سے چند سوالات کرتے ہیں :
 
Top