• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قراء ات متواترہ…غامدی موقف کا تجزیہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ تیسرا نکتہ
تیسری بات یہ کہ غامدی صاحب کے بقول امام زہری رحمہ اللہ کے بارے میں امام لیث بن سعد رحمہ اللہ نے یہ اعتراض کیا کہ ایک ہی مسئلے میں بعض اوقات ان کے فتاویٰ جات مختلف ہوتے ہیں ۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ ایک ہی مسئلے میں امام مالک رحمہ اللہ ، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ، امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمدرحمہ اللہ جیسے جلیل القدر فقہاء کی بھی ایک سے زائد آراء منقول ہوتی ہیں، کیونکہ فتویٰ حالات کے مطابق ہوتا ہے۔ بعض اَوقات ایک شخص کو دیکھ کر مفتی ایک مسئلے میں ایک فتویٰ دیتا ہے اور بعض اوقات دوسرے شخص کو اس کے حالات کے مطابق بالکل اس کے برعکس فتویٰ دیتا ہے، جیسا کہ اللہ کے رسولﷺ نے ایک نوجوان کو روزے کی حالت میں اپنی بیوی کا بوسہ لینے سے روک دیا جبکہ ایک بوڑھے شخص کو اس کی اجازت دے دی۔ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک عالم ایک مسئلے میں ایک فتویٰ دیتا ہے،بعد میں اس کی رائے تبدیل ہو جاتی ہے اور وہ اس کے بالکل برعکس فتویٰ دیتا ہے،جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ کے بارے میں معروف ہے کہ ان کی ایک قدیم رائے ہے اور ایک جدید رائے ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ چوتھا نکتہ
چوتھی بات یہ ہے کہ امام لیث بن سعد رحمہ اللہ نے امام زہری رحمہ اللہ پر جو جرح کی ہے وہ ان کے فتاویٰ جات کے اعتبار سے ہے نہ کہ ان کی حدیث بیان کرنے کے اعتبار سے۔اگر وہ حدیث کے معاملے میں بھی ایسا ہی کرتے کہ کبھی ایک روایت کو کچھ الفاظ کے ساتھ اور کبھی اس کے بالکل برعکس الفاظ کے ساتھ نقل کرتے تو امام لیث رحمہ اللہ اس کا ضرور تذکرہ فرماتے۔جتنی جرح نقل کر کے غامدی صاحب امام زہری رحمہ اللہ کی شخصیت کو متنازعہ بنانا چاہتے ہیں اتنی جرح تو ائمۂ رجال کے ہاں حدیث کے مسئلے میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر بھی موجود ہے،لیکن اس جرح کے باوجود امام ابوحنیفہ کی ایک فقیہ کی حیثیت سب کے نزدیک متفق علیہ اور مسلّم ہے۔ اس لیے امام زہری رحمہ اللہ کے فتاویٰ پر جرح سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ وہ حدیث میں بھی مجروح ہوں ۔یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ’ فلاں شخص محدث نہیں ہے‘اور اس دعوے کے ثبوت کے لیے اگر اس کے پاس کوئی دلیل بھی ہو تو وہ یہ کہ’فلاں شخص فقیہ نہیں ہے‘۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ پانچواں نکتہ
پانچویں بات یہ ہے کہ غامدی صاحب نے امام زہری رحمہ اللہ کے بارے میں امام لیث بن سعدرحمہ اللہ کی جو ایک رائے نقل کی ہے، اگر کسی ایک شخص کی رائے پر ہی کسی کے علمی مقام و مرتبہ کے تعین کا انحصار ہے تو ایسی آراء توہرفقیہ اور محدث کی ذات یا اس کی کتب کے بارے میں موجود ہیں‘تو کیا ایسی ایک شاذ رائے کی وجہ سے ان کے تمام علمی کام اور مرتبے کا انکار کر دیا جائے گا؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام زہری رحمہ اللہ اور تدلیس
جناب غامدی صاحب نے امام زہری رحمہ اللہ کی روایات قبول نہ کرنے کی جوتین وجوہات بیان کی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ تدلیس کرتے ہیں ۔غامدی صاحب لکھتے ہیں :
’’صحاح میں یہ اصلاً ابن شہاب زہری کی وساطت سے آئی ہیں ۔ائمۂ رجال انھیں تدلیس اور ادراج کا مرتکب تو قرار دیتے ہی ہیں،اس کے ساتھ اگر وہ خصائص بھی پیش نظر رہیں جو امام لیث بن سعد نے امام مالک کے نام اپنے ایک خط میں بیان فرمائے ہیں تو ان کی کوئی روایت بھی ‘بالخصوص اس طرح کے اہم معاملات میں‘قابل قبول نہیں ہو سکتی‘‘۔ (میزان:ص۳۱)
غامدی صاحب جن ائمہ رجال پر اعتماد کرتے ہوئے امام زہری رحمہ اللہ،کو تدلیس اور اِدراج کامرتکب قرار دے رہے ہیں وہی ائمہ رجال امام زہری رحمہ اللہ کی روایات کو قبول کرتے ہیں۔ صحاحِ ستہ کے مؤلفین نے امام زہری رحمہ اللہ سے روایات لی ہیں اور ائمہ جرح وتعدیل نے ان پر صحیح کا حکم بھی لگایا ہے جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ ائمہ محدثین ورجال کے نزدیک امام زہری رحمہ اللہ کی روایات مردود نہیں بلکہ مقبول ہیں۔امام زہری رحمہ اللہ کی ’سبعہ اَحرف‘ کی جس روایت پر جاوید احمد غامدی صاحب تنقید کررہے ہیں اور اس کو مردود قرار دے رہے ہیں، وہ صحیح بخاری کی روایت ہے کہ جس کی صحت پر محدثین کا اتفاق ہے ۔
قابل غور بات یہ ہے کہ علم حدیث میں غامدی صاحب کا مقام و مرتبہ کیا ہے یا ان کی خدمات کیا ہیں جس کی بنیاد پر وہ صحیح بخاری کی روایات کو مردود کہہ رہے ہیں ؟امام بخاری رحمہ اللہ کہہ رہے ہیں کہ یہ روایت صحیح ہے اور ان کی رائے کو قبول کیا جائے تو بات سمجھ میں بھی آتی ہے‘ کیونکہ وہ حدیث کے امام ہیں۔ اسی طرح اگر امام دار قطنی رحمہ اللہ صحیح بخاری کی روایات پر تنقید کریں تو بات سمجھ میں بھی آتی ہے ‘کیونکہ وہ اس کے اہل بھی ہیں اور فنِ حدیث اور اس کی اصطلاحات کی روشنی میں ہی روایات پر بحث کرتے ہیں‘ لیکن غامدی صاحب جیسے محقق اگرصحیح بخاری کی روایات کو مردود کہنے لگ جائیں توعلم دین کا اللہ ہی حافظ ہے،کیونکہ نہ تو وہ فن حدیث اور اس کی اِصطلاحات سے کماحقہ واقف ہیں اور نہ ہی وہ اس کے طے شدہ اُصولوں کی روشنی میں اَحادیث کے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں ۔اس سلسلے میں چند مزید پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے :
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ پہلی بات تو یہ ہے کہ صرف تدلیس کوئی ایسا عیب نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے کسی راوی کی روایات کومردود قرار دیا جائے۔امام ابن صلاح رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’أن التدلیس لیس کذبا وانما ھو ضرب من الایھام بلفظ محتمل‘‘(مقدمہ ابن الصلاح:۱؍۱۴)
’’تدلیس جھوٹ نہیں ہے،یہ تو محتمل الفاظ کے ساتھ ابہام کی ایک قسم ہے۔ ‘‘
٭ دوسری بات یہ ہے کہ امام زہری رحمہ اللہ کی تدلیس وہ تدلیس نہیں ہے جس معنی میں متاخرین اس کو تدلیس کہتے ہیں،بلکہ وہ اِرسال کی ہی ایک قسم ہے جس کو بعض متقدمین نے تدلیس کہہ دیا۔شیخ ناصر بن احمدالفہد لکھتے ہیں :
’’لم أجد أحداً من المتقدمین وصفہ بالتدلیس غیر أن ابن حجر ذکر أن الشافعی والدارقطنی وصفاہ بذلک والذی یظھر أنھما أرادا الارسال لا التدلیس بمعناہ الخاص عند المتأخرین أو أنھم أرادوا مطلق الوصف بالتدلیس غیر القادح … وھو من أھل المدینۃ و التدلیس لا یعرف فی المدینۃ‘‘(منہج المتقدمین فی التدلیس:ص۶۰،۶۱)
’’میں نے متقدمین میں سے کسی ایک کو بھی نہیں پایا جس نے امام زہری رحمہ اللہ کو تدلیس سے متصف کیا ہو،صرف ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھاہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ اور امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ان کو تدلیس سے متصف کیا ہے اور صحیح بات یہ ہے کہ ان دونوں حضرات کے کلام کا مفہوم یہ ہے کہ امام زہری رحمہ اللہ ارسال کے مرتکب تھے نہ کہ اس معنی میں تدلیس کے کہ جس معنی میں یہ متاخرین میں معروف ہے یا ان کا مقصد امام زہری رحمہ اللہ کو مطلقاًایسی تدلیس سے متصف کرنا تھا جو کہ عیب دار نہ ہو۔۔۔امام زہری رحمہ اللہ اہل مدینہ میں سے ہیں اور اہل مدینہ میں تدلیس معروف نہ تھی۔ ‘‘
٭ تیسری بات یہ کہ امام زہری رحمہ اللہ سے تدلیس شاذو نادر ہی ثابت ہے۔امام ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’کان یدلس فی النادر‘‘( میزان الاعتدال:۴؍۴۰)
’’وہ شاذ و نادر ہی تدلیس کرتے تھے ‘‘۔
باقی ابن حجررحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ امام زہری رحمہ اللہ تدلیس میں مشہور تھے ‘صحیح نہیں ہے،کیونکہ متقدمین میں سے کسی نے بھی یہ بات نہیں کی ۔شیخ ناصر بن حمدالفہد لکھتے ہیں :
’’و یعسر اثبات تدلیس الزھری (التدلیس الخاص) فضلا عن أن یشتھر بہ‘‘ (منہج المتقدمین فی التدلیس:ص۶۲)
’’امام زہریa کے بارے میں تدلیس (تدلیس خاص ) کو ثابت کرنا ہی مشکل ہے چہ جائیکہ یہ دعویٰ کیاجائے کہ وہ تدلیس میں مشہور تھے ‘‘۔
امام صنعانی رحمہ اللہ نے بھی ابن حجر رحمہ اللہ پر یہ اعتراض وارد کیا ہے کہ انھوں نے امام زہری رحمہ اللہ کا شمارمدلسین کے تیسرے طبقے میں کیوںکیا ہے ؟امام صنعانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’فما کان یحسن أن یعدہ الحافظ ابن حجر فی ھذہ الطبقۃ بعد قولہ أنہ اتفق علی جلالتہ و اتقانہ‘‘( توضیح الأفکار:۱؍۳۶۵)
’’یہ بات اچھی نہیں ہے کہ ابن حجر رحمہ اللہ نے اما م زہری رحمہ اللہ،کو تیسرے طبقے میں شمار کیا،جبکہ خود ابن حجر کاامام زہری رحمہ اللہ کے بارے میں یہ قول موجود ہے کہ ان کے علمی مقام اور حافظے کی پختگی پر محدثین کا اتفاق ہے۔ ‘‘
٭ چوتھی بات یہ کہ امام زہری رحمہ اللہ کی وہ روایات جن میں سماع کی تصریح موجود ہے،وہ تو قابل قبول ہیں ،اس کے علاوہ ان کی وہ روایات بھی مقبول ہیں جو کہ ’عنعنہ‘ کے ساتھ ہوں۔ابراہیم بن محمدالعجمی فرماتے ہیں :
’’و قد قبل الأئمۃ قولہ عن‘‘( التبیین لأسماء المدلسین:ص۹)
’’اور ائمہ محدثین نے ان کی ’عن‘کے ساتھ روایات کو قبول کیا ہے۔ ‘‘
امام بخاری اور اما م مسلم نے ان کی ’عن‘کے صیغہ کے ساتھ روایات کو قبول کیا ہے۔ شیخ ناصر ابن احمدالفہد لکھتے ہیں :
’’وأما رد حدیثہ الا عند ذکر السماع فلا أظنک تجد ذلک عند أحد من الأئمۃ المتقدمین‘‘ (منہج المتقدمین فی التدلیس:ص۶۰،۶۱)
’’اور جہاں تک اس بات کا معاملہ ہے کہ صراحت کے ساتھ سماع کے علاوہ ان(یعنی امام زہری رحمہ اللہ ) کی روایت قبول نہ کی جائے ‘تو میرا نہیں خیال کہ ائمہ متقدمین میں سے کسی کا یہ موقف رہا ہو‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام زہری رحمہ اللہ اور اِدراج
غامدی صاحب نے امام زہری رحمہ اللہ پر ادراج کا الزام بھی لگایا ہے ‘لیکن انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ کس قسم کے ادراج کے مرتکب ہوئے ہیں۔یہ بات تو صحیح ہے کہ کسی حدیث کے متن میں اپنی طرف سے جان بوجھ کر کچھ اضافہ کر دینا حرام ہے، لیکن ادراج کی ایک قسم وہ بھی ہے جو کہ جائز ہے،اور وہ یہ کہ کوئی راوی اَحادیث کے غریب الفاظ کی تشریح میں کچھ الفاظ اس طرح بیان کرے کہ وہ حدیث کا حصہ معلوم ہوں ۔ امام زہری aکے ادراج کی نوعیت بھی یہی ہے، جیساکہ اما م سیوطی رحمہ اللہ کی درج ذیل عبارت سے واضح ہو رہا ہے ۔امام سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’وعندی ما أدرج لتفسیر غریب لا یمنع ولذلک فعلہ الزھری وغیر واحد من الأئمۃ‘‘
’’اور میرے نزدیک کسی غریب الفاظ کی تشریح کے لیے جو ادراج کیا جائے تو وہ ممنوع نہیں ہے جیساکہ امام زہری aاور دوسرے ائمہ حدیث سے مروی ہے۔ ‘‘(تدریب الراوی:۱؍۲۳۱)
غامدی صاحب جس تدلیس اور ادراج کی بنیاد پر امام زہری رحمہ اللہ ‘کو مجروح قرار دے رہے ہیں وہ تدلیس اور ادراج تو بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی ثابت ہے،مثلاً حضر ت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ وغیرہ سے،جیسا کہ امام سیوطی ؒنے ’تدریب الراوی‘میں اور امام صنعانی رحمہ اللہ نے’ توضیح الأفکار‘ میں اس کی مثالیں بیان کی ہیں،تو کیا اس بنیاد پر صحابہ رضی اللہ عنہم کی روایات کو مردود کہیں گے ؟ واقعہ یہ ہے کہ غامدی صاحب کی آراء کا علمی جائزہ لینے کے بعدیہ محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے صرف ’تدلیس‘ اور’ ادراج‘ جیسی اصطلاحات کا نام سنا ہوا ہے،جہاں تک ان اِصطلاحات کی مفصل اور عمیق ابحاث کا تعلق ہے،وہ اس کے لیے وقت نہیں نکال پائے،اسی لیے وہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی ایسی متفق علیہ روایت کو مردود کہنے کی جرا ت کر رہے ہیں جو کہ جملہ محدثین اور ائمۂ رجال کے نزدیک صحیح ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام زہری رحمہ اللہ کے علاوہ ثقہ رواۃ سے سبعہ اَحرف کی روایات
غامدی صاحب نے سبعہ اَحرف کی روایات کا ا س بنا پر انکار کیا ہے کہ ان روایات کا مرکزی راوی امام زہری رحمہ اللہ ہے جس کی روایات ان کے نزدیک مردود ہیں۔اگر ہم غامدی صاحب کویہی روایات امام زہری رحمہ اللہ کے طریق کے علاوہ کسی اورثقہ راوی کے طریق سے پیش کر دیں تو کیا وہ ان روایات کو مان لیں گے؟ذیل میں ہم امام زہری رحمہ اللہ کے طریق کے علاوہ بعض دوسرے طرق سے چند صحیح روایات بطور مثا ل ایک سے زائد قراء ات کے اثبات کے لیے تحریر کر دیتے ہیں۔صحیح بخاری کی ایک روایت ہے :
’’حدثنا أبو الولید حدثنا شعبۃ قال عبد الملک بن مسیرۃ أخبرنی قال سمعت نزال بن سبرۃ قال سمعت عبد اللہ یقول‘‘(صحیح البخاری،کتاب الخصومات،باب ما یذکر فی الأشخاص والخصومۃ)
سنن نسائی کی ایک روایت ہے :
’’أخبرنی یعقوب بن ابراہیم قال حدثنا یحیی عن حمید عن أنس عن أبی بن کعب قال‘‘ (سنن النسائی،کتاب الافتتاح،باب جامع ما فی القرآن)
اسی طرح سنن نسائی کی ایک اور روایت ہے :
أخبرنی عمرو بن منصور قال حدثنا أبو جعفر بن نفیل قال قرأت علی معقل بن عبید اﷲ عن عکرمۃ بن خالدعن سعید بن جبیر عن ابن عباس عن أبی بن کعب قال۔( ایضاً)
اسی طرح کی بیسیوں روایات ایسی ہیں جن سے قرآن کی ایک سے زائد قراء ات کا اثبات ہوتاہے اور ان کی سند میں امام زہری رحمہ اللہ موجود نہیں ہیں۔غامدی صاحب نے اپنی کتاب میں ان روایات پر کوئی تبصرہ نہیں فرمایا۔کیا یہ روایات بھی ان کے نزدیک مردود ہیں ؟اگر ہیں تو کن اُصولوں کی روشنی میں ؟ اگر غامدی صاحب نے ’سبعہ اَحرف‘ کی روایات پر بحث کرنی ہے تو پھر ایک سے زائد قراء ات کے اثبات میں مروی ان تمام روایات کا بھی جواب دیں جن کی سند میں امام زہری رحمہ اللہ موجود نہیں ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
غامدی صاحب کی ’قرأت عامہ‘ کی دلیل کا ایک جائزہ
غامدی صاحب نے اپنی ’قرأت عامہ‘ کی دلیل کے طور پر معروف تابعی اَبوعبد الرحمن السلمی (م ۷۰ھ) کا ایک قول نقل کیا ہے ‘ جس کو امام زرکشی رحمہ اللہ(م ۷۹۴ھ )نے اپنی کتاب البرھان میں بیان کیا ہے۔ غامدی صاحب لکھتے ہیں:
’’ابو عبد الرحمن السلمی رحمہ اللہ کی روایت ہے:’’ابو بکر و عمر،عثمان،زید بن ثابت اور تمام مہاجرین و انصار کی قرأت ایک ہی تھی۔وہ قرأت عامہ کے مطابق قرآن پڑھتے تھے۔یہ وہی قرأت ہے جس پر اللہ کے رسولﷺنے اپنی وفات کے سال جبریل امین کو قرآن سنایا۔عرضہ اَخیرہ کی اس قرأت میںزید بن ثابت بھی موجود تھے۔دنیا سے رخصت ہونے تک وہ لوگوں کو اسی کے مطابق قرآن پڑھاتے تھے۔‘‘ (میزان:ص ۲۸، مطبوعہ ۲۰۰۲ء)
غامدی صاحب قرآن کو ثابت کرنے چلے ہیں اور اس کے ثبوت کی دلیل کے طور پر ان کے پاس اگر کچھ ہے تو وہ ایک تابعی کاقول ہے کہ جس کی کوئی سند بھی موجود نہیں ہے۔امام زرکشی رحمہ اللہ نے’البرھان‘ میں اس قول کی کوئی سند بیان نہیں فرمائی ہے۔اگر توایک تابعی کایہ قول ایک سے زائد قراء ات کے انکار پر مبنی ہے جیسا کہ غامدی صاحب کا گمان ہے تو تابعی کے ایک ایسے قول کو، کہ جس کی سند بھی موجود نہ ہو، صحاح ستہ کی قراء ا ت متواترہ کے ثبوت میں موجود صحیح، مستند ، مرفوع اور اُمت میں معروف و مقبول روایات پر ترجیح دینا، ہماری سمجھ سے بالاتر ہے ۔
امام قراء ت، امام اَبو عبد الرحمن سلمی رحمہ اللہ کی طرف اس قول کی نسبت کو درست تسلیم کر بھی لیا جائے توپھر بھی اس کا معنی و مفہوم وہ نہیں ہے جو کہ غامدی صاحب سمجھ رہے ہیں ۔امام زرکشی رحمہ اللہ نے جب اس قول کو اپنی کتاب ’البرھان‘ میں بیان کیا ہے تو انہیں تو وہ بات سمجھ میں نہ آئی جو کہ غامدی صاحب اس قول سے نکال رہے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بعض روایات میں’قرا ء ت عامہ‘ کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے جیسا کہ صحیح بخاری کی ایک روایت کے الفاظ ہیں:
عن عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ أن رسول اﷲ ﷺ قرأ ’فھل من مدّکر‘مثل القرء ۃ العامۃ (صحیح البخاري، کتاب الأنبیاء)
’’عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺنے فھل من مدّکرکو قراء ت عامہ کے مطابق پڑھاہے۔‘‘
جامعہ دمشق کے استاذ الحدیث ڈاکٹر مصطفی دیب البغا، اس روایت کی تشریح میں لکھتے ہیں:
’’قراء ۃ العامۃ أی القراء ۃ المشھورۃ التی یقرأ بھا عامۃ القراء الذین رووا القراء ات المتواترۃ‘‘(صحیح البخاري:۳؍۱۲۱۶، دار ابن کثیر الیمامۃ، بیروت )
’’قرا ء ت عامہ سے مرادوہ مشہور قراء ت ہے کہ جس کے مطابق ان عام قراء نے، کہ جنہوں نے قراء ات متواترہ کو نقل کیا ہے، قرآن کو پڑھا ہے ۔‘‘
پس اہل سنت کے نزدیک ’قراء ت عامہ‘ سے مراد بھی معروف و متواترقراء ت ہی ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین کے زمانے میں بعض لوگوں کاخیال یہ تھا کہ’فھل من مدکر‘ میں’مدّکر‘ کواہل عرب کے استعمالات کی رعایت رکھتے ہوئے ’مذکر‘ پڑھنا چاہیے، کیونکہ اس لفظ کا مادہ بھی ’ذکر‘ہی ہے ، لیکن حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے اس بارے میں دو اساسی باتوں کو واضح کیا ہے ایک تویہ کہ قرآن کی قراء ت میں اصل،اللہ کے رسولﷺ سے اس کا سماع ہے نہ کہ عرب کامحاورہ، دوسری بات انہوں نے یہ بیان کی کہ مسلمانوں نے جن طرق سے قرآن اللہ کے رسولﷺ سے حاصل کیا ہے،ان سب میں یہ لفظ’مدکر‘ہی پڑھا گیاہے ۔اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ قراء ات عشرہ متواترہ کے دس اَئمہ نے بھی اسے ’مدکر‘ ہی پڑھا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے’فھل من مدکر‘ کی قراء ت کو واضح کرنے کے لیے ’کتاب التفسیر‘میں چار ابواب باندھے ہیں، جن میں حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے مروی چھ اَحادیث بیان کی ہیں، انہی میں سے ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ سے یہ سوال بھی ہوا تھا کہ اس لفظ کو ’مذکر‘ پڑھنا چاہیے یا ’مدکر‘؟
پس اہل سنت کے نزدیک ’قراء ت عامہ‘ سے مراد وہ قراء ت ہے‘ جو قراء ت شاذہ نہیں ہے یعنی قراء ات متواترہ۔ ’قراء ات شاذہ کے بالمقابل ’قراء ت عامہ‘ ایک ہی ہے لیکن اپنی اصل کے اعتبار سے یہ کئی ایک روایات پر مبنی ہے۔
علاوہ ازیں امام ابو عبد الرحمن سلمی رحمہ اللہ سے صحیح اور متصل سند کے ساتھ مروی ہے کہ انہوں نے امام عاصم کو جو قراء ت پڑھائی تھی وہ دو روایتوں، روایت حفص اور روایت شعبہ پر مشتمل تھی۔جبکہ غامدی صاحب کی قراء ت عامہ صرف روایت حفص کو شامل ہے۔پس امام ابوعبد الرحمن السلمی سے صحیح اور متصل سند کے ساتھ روایت شعبہ کا ثبوت اس بات کی دلیل کے طور پر کافی ہے کہ امام صاحب کی قراء ت عامہ صرف روایت حفص پر مشتمل نہ تھی۔اس رسالہ کے بعض دوسرے مضامین میں ان اَسناد کے بارے میں تفصیلاً بحث موجود ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
غامدی صاحب اور امام سیوطی رحمہ اللہ کا قول
غامدی صاحب نے اپنے نظریہ قراء ت میں بعض اَئمہ سلف کے اَقوال سے جو اِستفادہ کیا ہے تو اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ جیسے عربی میں کہا جاتا ہے : ’کلمۃ حق أرید بہ الباطل‘یعنی بات درست ہے، لیکن اس کا جو مفہوم لیا گیا ہے وہ باطل ہے یا اس قول کا قائل اپنے اس قول سے وہ مفہوم نکالنے پر راضی نہیں ہے۔غامدی صاحب نے امام سیوطی کے ایک قول سے بھی وہ مفہوم نکالنے کی کوشش کی ہے جس پر امام سیوطی رحمہ اللہ کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا۔غامدی صاحب قراء ات کا انکار اس وجہ سے بھی کرتے ہیں کہ قراء ات کے ثبوت میں مروی روایت میں سبعہ اَحرف کا مفہوم متشابہات میں سے ہے۔پس جب دلیل ہی متشابہات میں سے ہے تو وہ دلیل کیسے بن سکتی ہے؟غامدی صاحب سبعہ اَحرف کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’اِمام سیوطی رحمہ اللہ نے اس کی تعیین میں چالیس کے قریب اقوال اپنی کتاب’الاتقان‘ میں نقل کیے ہیں‘ پھر ان میں سے ہر ایک کی کمزوری کا احساس کر کے موطأ کی شرح’تنویر الحوالک‘میں بالآخر اعتراف کر لیا ہے کہ اسے من جملہ متشابہات ماننا چاہیے جن کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔وہ لکھتے ہیں:میرے نزدیک سب سے بہتر رائے اس معاملے میں انہی لوگوں کی ہے جو کہتے ہیں کہ یہ روایت ان امور متشابہات میں سے ہے جن کی حقیقت کسی طرح سمجھی نہیں جا سکتی۔‘‘(میزان:ص ۳۰، مطبوعہ ۲۰۰۲ء)
امام سیوطی رحمہ اللہ کے بیان کردہ چالیس اقوال کی حقیقت کیا ہے وہ تو ہم پیچھے بیان کر چکے ہیں ۔واقعہ یہ ہے کہ غامدی صاحب نے’الاتقان‘ کھول کر بھی نہیں دیکھی ورنہ وہ ان اقوال کی صحیح تعداد ہی نقل کر دیتے جو امام سیوطی رحمہ اللہ نے بیان کیے ہیں۔
اِمام سیوطی رحمہ اللہ کیا قراء ات کو نہیں مانتے؟ یقینا ایسا نہیں ہے۔ وہ قرا ء ات عشرہ کے قائل ہیں۔ ان کی’الاتقان‘اٹھا کر دیکھ لیں تو قراء ات کے بارے میں ان کا موقف واضح ہو جائے گا۔ غامدی صاحب کے علم میں اضافہ کے لیے ہم ذکر کیے دیتے ہیں کہ امام سیوطی رحمہ اللہ تو درکنار ہمارا دعوی یہ ہے کہ سلف وخلف میں سے قراء ات کا انکار کسی امام نے نہیں کیا اور نہ متنوع قراء ات قرآنیہ کو ماننے میں انہیں کوئی شبہ ہے، اختلاف صرف سبعہ احرف کی تعیین میں ہے، جسے غامدی صاحب نے کم فہمی سے متنوع قراء ات کو نہ ماننے کی بنیاد کے طور پر پیش کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سبعہ احرف کے مفہوم کے ضمن میں پیش کردہ تمام اقوال کے قائلین کے درمیان ایک شے بہرحال قدر مشترک ہے کہ وہ تمام قرآن کریم میں پڑھنے کے متعدد اسالیب کے قائل ہیں۔
اب آتے ہیں امام سیوطی رحمہ اللہ کے قول سے غامدی صاحب کے استدلال کی طرف، تو غامدی صاحب! جن کو بنیاد بنا کر آپ انکار قراء ات کا موقف اپنائے ہوئے ہیں وہ تو قراء ات پر کئی کتب کے مؤلف ہیں، جن کی فہرست زیر نظر شمارہ کے حصہ دوم میں ’’مختلف زمانوں میں قراء ات پر لکھی گئی کتب… ایک جائزہ‘‘ کے زیر عنوان لکھے گئے مضمون میں دیکھ سکتے ہیں۔ قراء ات قرآنیہ متواترہ میں اہل فن کے ہاں سب سے مشہور کتاب امام شاطبی رحمہ اللہ کی حرز الامانی ووجہ التہانی المعروف بالشاطبیہ ہے، امام سیوطی رحمہ اللہ کی شرح شاطبیہ مکتبہ کلیہ القرآن الکریم، جامعہ لاہور الاسلامیہ میں ریاض یونیورسٹی،سعودیہ کے ایک پروفیسر کی تحقیق سے مطبوع ہے۔ غامدی صاحب اگر چاہیں تواس کتاب کا مطالعہ فرما سکتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام سیوطی رحمہ اللہ نے’الأتقان‘ہی میں محکم و متشابہ کی تین قسمیں بیان کی ہیں جن میں ایک قسم وہ ہے جو من وجہ محکم ہو اور من وجہ متشابہ ہو۔پس یہ حدیث بھی اس قسم میں سے ہے۔
اس حدیث کا یہ معنی تو محکم اور سب اَئمہ کے نزدیک متفق علیہ ہے کہ یہ حدیث قرآن کو پڑھنے کے اختلافات کے بارے میں مروی ہے۔کیا اس حدیث کے مطالعے کے بعد کسی صاحب عقل کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ حدیث قرآن کی بجائے نماز، روزے یا حج کے مسائل کے بارے میں منقول ہے یا کسی معروف عالم دین نے یہ خیال پیش کیا ہے کہ یہ حدیث قرآن کے پڑھنے کی بجائے اس کے معنی و مفہوم کی متنوع اَقسام کو بیان کر رہی ہے؟۔پس اس حدیث کا یہ معنی تو محکم ہے کہ یہ حدیث قرآن کے بارے میں ہے اور قرآن کے بھی پڑھنے کے اِختلافات کے بارے میں مروی ہے،لیکن وہ اختلافات کس طرح سات کے عدد میں سمو جاتے ہیں؟اس میں اَئمہ کے مابین اختلاف ہے اور حدیث کے معنی کے اس پہلو کے اعتبار سے امام سیوطی رحمہ اللہ نے اس کو متشابہ قرار دیا ہے۔امام سیوطی رحمہ اللہ پڑھنے کے اختلافات یعنی عشرہ قراء ات سے بھی واقف ہیں اور ان کو مانتے بھی ہیں، لیکن قرا ء ات کے ان جمیع اختلافات کو، جنہیں قراء عشرہ قراء ات میں نقل کر رہے ہیں، حدیث کے الفاظ ’سبعہ اَحرف‘ میں کیسے سمو دیں یہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکا ہے۔پس اس اعتبار سے امام سیوطی رحمہ اللہ نے سبعہ اَحرف کومتشابہ کہا ہے۔
کیا امام سیوطی رحمہ اللہ جب قرآن کی کسی آیت کو متشابہ قرار دیتے ہیں تو ان کے نزدیک اس آیت کا وجود ہی مشتبہ قرار پاتا ہے؟ یقیناً ایسا کسی کے ہاں بھی نہیں ہے۔پس امام سیوطی رحمہ اللہ جب اس حدیث کو متشابہ قرار دے رہے ہیں تو وہ اس کو معنوی اعتبار سے ایک پہلو سے متشابہ کہہ رہے ہیں نہ کہ اس حدیث کی استنادی حیثیت یا وجود ہی کو مشکوک سمجھ رہے ہیں جیسا کہ غامدی صاحب کا خیال ہے۔پس امام سیوطی رحمہ اللہ کے اس کو من وجہ متشابہ قرار دینے سے اس حدیث کی صحت پر کوئی اعتراض لازم نہیں آتا۔
اگر امام سیوطی رحمہ اللہ قرآن کی کسی آیت کو متشابہ قرار دیں تو بعد میں آنے والے علماء کے لیے یہ گنجائش باقی رہتی ہے کہ وہ تحقیق و تنقیح کے رستے سے اس آیت کا تشابہ دور کر دیں۔پس اسی طرح اس حدیث کے بارے میں پائے جانے والے اَقوال کی کثرت کی حقیقت اور علمی بنیادوں کی طرف ہم نے بھی کچھ اِشارے کیے ہیں اور ہمارے علاوہ علماء کی ایک جماعت نے بھی اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ہیں جو اس حدیث کے بارے میں امام سیوطی رحمہ اللہ کو پیدا ہونے والے من وجہ تشابہ سے بھی ہمیں نجات دلاتی ہیں۔
 
Top