• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قراء ات متواترہ…غامدی موقف کا تجزیہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ پہلا سوال یہ ہے کہ بظاہر پینتیس نظرآنے والے یہ اقوال کیا واقعتاً پینتیس ہی ہیں؟ اگر ہم غور کریں تویہ درحقیقت سات اقوال ہیں: ایک قول تو یہ ہے کہ ’سبعۂ احرف‘ سے مراد مضامین قرآن ہیں، پھر اس میں آگے اختلاف ہے کہ کون سے مضامین مراد ہیں ۔دوسراقول یہ ہے کہ سبعہ احرف سے مراد سات لغات ہیں ،پھر آگے اس میں اختلاف ہے کہ کن قبائل کی لغات مراد ہیں ۔تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد صحابہ کی سات قراء ات ہیں ۔چوتھا قول یہ ہے کہ اس سے مراد سات حروف تہجی ہیں ۔پانچواں قول یہ ہے کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کے سات نام ہیں ۔چھٹا قول یہ ہے کہ اس سے مراد سات قسم کے اعراب ہیں ۔ساتواں قول یہ ہے کہ اس سے مراد حروف کی ادائیگی کی مختلف کیفیات ہے ۔اسی لیے امام سیوطی رحمہ اللہ نے ان اقوال کے نقل کرنے کے بعد ابن حبان کا قول نقل کیا ہے:
’’و ھی اقاویل یشبہ بعضھا بعضا‘‘(الاتقان:۱؍۴۹)
’’یہ اقوال ایک دوسر ے سے ملتے جلتے ہیں۔ ‘‘
اس کے بعد امام سیوطی رحمہ اللہ نے امام مزنی المرسی رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کیا ہے :
’’وقال المرسی ھذہ الوجوہ أکثرھا متداخلۃ‘‘(الاتقان:۱؍۴۹)
’’مرسی نے کہا ہے کہ یہ اقوال ایک دوسرے سے پیوستہ ہیں ‘‘۔
باہم متشابہ اور متداخل اقوال کو غامدی صاحب نے چالیس اقوال سمجھ لیا اور اس بنا پر’سبعہ اَحرف‘ ،کی متواتر روایت کا انکار کر دیا۔
٭ دوسرا سوال یہ کہ بالفرض ہم مان لیں کہ یہ چالیس اَقوال ہیں، جیسا کہ غامدی صاحب کا کہنا ہے،تو اگر قرآن کی کسی آیت کی تفسیر میں پینتیس یا چالیس اَقوال نقل ہو جائیں تو کیا اس بنیاد پر غامدی صاحب قرآن کی اس آیت کا انکار کر دیں گے کہ اس آیت کے معنی و مفہوم کے تعین میں چالیس قوال نقل ہوئے ہیں ؟چالیس تو چھوڑیے اگر ہم بدعتی فرقوں مثلاً باطنیہ ،روافض اور صوفیاء کی تفاسیر کا مطالعہ کریں تو ہمیں ایک ایک آیت کی تفسیر میں ستر ستر اَقوال بھی ملتے ہیں، تو کیا ہم صرف اس بنا پر قرآن کی اس آیت کو ماننے سے ہی انکار کر دیں ؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ تیسرا اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یہ کیسے ثابت ہو گا کہ یہ پینتیس اقوال مختلف پینتیس علماء کے ہیں ؟بعض اَفراد نے ان اقول کو اپنی کتابوں میں نقل تو کر ہی دیا ہے لیکن ان کے قائلین کو کوئی آج تک نہ جان سکا ۔جیسا کہ امام سیوطیa نے امام مزنی المرسی رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کیا ہے :
’’وقال المرسی ھذہ الوجوہ أکثرھا متداخلۃ و لا أدری مستندھاو لا عمن نقلت‘‘
’’مرسی نے کہا ہے کہ یہ اقوال ایک دوسرے سے پیوستہ ہیں اور میں نہیں جانتا کہ ان کی سند کیا ہے یا کس سے یہ منقول ہیں؟ ‘‘ (الاتقان:۱؍۴۹)
اِن اقوال کی باہمی مشابہت و مماثلت دیکھنے کے بعد اندازہ یہی ہوتاہے کہ دو چار نامعلوم اور گمنام افراد نے سبعہ احرف کی تشریح میں مختلف احتمالات پیش کیے تھے، جنہیں بعد والوں نے مستقل اقوال کی حیثیت سے نقل کر دیا۔
ان پینتیس اقوال میں سے اکثر و بیشتر کی تردید خود سبعہ احرف کی روایات سے ہی ہو رہی ہے، کیونکہ اکثرو بیشتر اقوال کا جائزہ لیں تو واضح ہوتا ہے کہ ان اقوال کی رو سے’سبعۃ احرف‘کا تعلق قرآن کے مضامین یا معانی سے ہے جبکہ’سبعہ احرف‘کی اکثرو بیشترروایات سے معلوم ہوتا ہے کہ’سبعۃ احرف‘کا تعلق الفاظ سے ہے ۔مثلاً حضرت ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ اور حضرت عمررضی اللہ عنہ میں آپس میں قراء ت کا اختلاف ہو اتوحضرت عمررضی اللہ عنہ،حضرت ہشام رضی اللہ عنہ ،کو ان کی چادر سے کھینچتے ہوئے اللہ کے رسول ﷺکے پاس لے آئے اورآپ ﷺ سے کہا :
’’انی سمعت ھذا یقرأ بسورۃ الفرقان علی حروف لم تقرئنیھا فقال رسول ﷺ: (أرسلہ اقرأ یا ھشام) فقرأ علیہ القراء ۃ التی سمعتہ یقرأ فقال رسول ﷺ : (کذلک أنزلت) ثم قال : (اقرأ یا عمر) فقرأت القراء ۃ التی اقرأنی فقال رسول ﷺ: ( کذلک أنزلت إن ھذا القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف فاقرء وا ما تیسر منہ) ‘‘(صحیح البخاري،کتاب فضائل القرآن،باب أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف)
’’میں نے اس (یعنی ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ )کو سورئہ فرقان اُن حروف کے ساتھ پڑھتے سنا ہے جن حروف کے ساتھ آپؐ نے مجھے یہ سورت نہیں پڑھائی ۔رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اے عمررضی اللہ عنہ!اسے چھوڑ دو،اور کہا: ’’اے ہشام پڑھو‘‘۔پس حضرت ہشام ؓنے اس قراء ت کے مطابق پڑھا جو میں نے ان سے سنی تھی تو آپ ؐ نے کہا:’’یہ سورت اسی طرح نازل کی گئی ہے‘‘۔ پھر آپﷺ نے کہا:’’اے عمر رضی اللہ عنہ اب تم پڑھو‘‘تو میں نے اس سورت کواس قراء ت کے مطابق پڑھا جس پر آپﷺنے مجھے پڑھایا تھاتو آپﷺ نے کہا: ’’ یہ سورت اسی طرح نازل کی گئی ہے اور قرآن سات حروف پر نازل کیا گیا ہے، پس اس میں سے جو بھی تمہیں آسان لگے اس کے مطابق پڑھ لو۔‘‘
اسی لیے امام سیوطی رحمہ اللہ، امام مزنی رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’وأکثرھا معارضۃ حدیث عمر وہشام ابن حکیم الذی فی الصحیح فإنھما لم یختلفا فی تفسیرہ ولا أحکامہ وإنما اختلفا فی قراء ۃ حروفہ‘‘ (الاتقان:۱؍۴۹)
’’ان میں سے اکثر اَقوال حضرت عمررضی اللہ عنہ اور حضرت ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کی حدیث کے خلاف ہیں جوکہ صحاح میں ہے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ اور حضرت ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ ‘کا اختلا ف قرآن کی تفسیریا اس کے احکام میں نہ تھا بلکہ ان دونوں حضرات نے قرآن کے حروف کے پڑھنے میں آپس میں اختلاف کیا تھا‘‘۔
جب خود روایت کے الفاظ سے ہی اس کے معنی کے تعین میں وارد شدہ اقوال کی تردید ہو رہی ہو تو اُن اقوال کو اس روایت کی تشریح و توضیح کے ضمن میں پیش کرنا اور ان میں اختلاف کی بنیاد پر روایت ہی کورد کر دیناکون سی عقل مندی ہے ؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جہاں تک سبعہ احرف کے معنی و مفہوم کے تعین کی بحث ہے تو اس بارے میں علماء کے بنیادی اقوال دو ہی ہیں :
پہلا قول
پہلا قول یہ ہے جو علماء میں امام رازیa کے حوالے سے معروف ہوا ،کہ سبعہ احرف سے مراد سات وجوہ ہیں جو قراء ات کے تمام اختلافات کو محیط ہیں اور وہ وجوہ اختلاف درج ذیل ہیں:اسماء کا اختلاف (یعنی تذکیر و تانیث اور جمع و افراد وغیرہ ) ،تصریف افعال کا اختلاف(ماضی ،مضارع اورامر وغیر ہ)،وجوہ اعراب کا اختلاف ،نقص و زیادت کا اختلاف، تقدیم و تأخیر کا اختلاف ،اختلاف ابدال ،اختلاف لغات (یعنی لہجات کا اختلاف)۔یہی قول امام مالک، قاضی ابو بکر باقلانی ،ابن قتیبہ دینوری، علامہ ابن الجزری رحمہم اللہ وغیرہ سے کچھ اختلاف کے ساتھ منقول ہے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسرا قول
دوسرا قول، جو علماء میں ابن جریر طبری رحمہ اللہ کے حوالے سے معروف ہوا، وہ یہ کہ سبعہ اَحرف سے مراد مختلف عرب قبائل کی سات لغات ہیں جن میں تھوڑا بہت اختلاف موجود تھا۔اسی قول کو امام ابو عبید قاسم بن سلام ،سفیان بن عیینہ ، ابن وھب ،احمد بن یحییٰ ،امام طحاوی ،امام ابو حاتم سجستانی،امام بیہقی ،علامہ ابن جوزی ،علامہ ابن الاثیر الجزری ،ابن عبد البر اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ وغیرہ نے کچھ اختلاف کے ساتھ اختیار کیا ہے ،بلکہ ابن عبد البررحمہ اللہ نے تو اسے جمہور علماء کا قول قرار دیا ہے۔
ان دونوں اقوال میں بھی قدرِ مشترک یہ ہے کہ ان کے قائلین اس بات پر متفق ہیں کہ’سبعہ اَحرف ‘ سے مراد قرآن کے الفاظ کو سات طرح سے پڑھنا ہے ۔پہلے قول کے قائلین کا کہنا یہ ہے کہ اس سے مراد قرآن کو پڑھنے کے سات قسم کے اختلافات ہیں جبکہ دوسرے گروہ کا موقف یہ ہے کہ اس سے مراد سات لغات میں قرآن کو پڑھنا ہے ۔
ہم ان دونوں اَقوال میں موجود اختلاف کا انکار نہیں کرتے ،لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ اختلاف، اختلاف تضاد نہیں ہے بلکہ اختلاف تنوع ہے ،کیونکہ دونوں گروہوں کے اَقوال کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قرآن کی ایک سے زائدقراء ات ہیں جن کے مطابق قرآن کو پڑھنا صحیح ہے، جبکہ غامدی صاحب قرآن کی ایک سے زائد قراء ات کو نہیں مانتے ۔ ان دو کے علاوہ جتنے بھی اَقوال ہیں ان کی نہ تو کوئی سندہے، نہ ہی ان کے قائلین کی کسی کو خبر ہے اور نہ ہی وہ کسی قسم کا علمی وزن رکھتے ہیں۔ لہٰذا ایسے اقوال پر بحث کرنا صرف اور صرف وقت کا ضیاع ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِمام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ اور غامدی صاحب کے اعتراضات
غامدی صاحب نے سبعہ اَحرف والی روایات کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے ۔ا ن کا کہنا یہ ہے کہ ایسی تمام روایات کی سند میں ایک راوی امام ابن شہاب زہری aہے جسے وہ مدلس ا ور مدرج قرار دیتے ہیں۔غامدی صاحب لکھتے ہیں :
’’لیکن یہ روایتیں اس کے بر خلاف ایک دوسری ہی داستان سناتی ہیں جسے نہ قرآن قبول کرتا ہے اور نہ عقل عام ہی کسی طرح ماننے کے لیے تیار ہو سکتی ہے ۔صحاح میں یہ اصلاً ابن شہاب زہری کی وساطت سے آئی ہیں ۔ائمہ رجال انھیں تدلیس اور اِدراج کا مرتکب قرار دیتے ہی ہیں،اس کے ساتھ اگر وہ خصائص بھی پیش نظر رہیں جو امام لیث بن سعدرحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ کے نام اپنے ایک خط میں بیان فرمائے ہیں تو ان کی کوئی روایت بھی ،بالخصوص اس طرح کے اہم معاملات میں،قابل قبول نہیں ہو سکتی۔وہ (امام لیث بن سعدرحمہ اللہ) لکھتے ہیں :اور ابن شہاب سے جب ہم ملتے تھے تو بہت سے مسائل میں اختلاف ہو جاتا تھا اور ہم میں سے کوئی جب ان سے لکھ کر دریافت کرتا تو علم و عقل میں فضیلت کے باوجود ایک ہی چیز کے متعلق ان کا جواب تین طرح کا ہوا کرتا تھا جن میں سے ہر ایک دوسرے کا نقیض ہوتا اور انھیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ اس سے پہلے کیا کہہ چکے ہیں۔میں نے ایسی ہی چیزوں کی وجہ سے ان کو چھوڑا تھا،جسے تم نے پسند نہیں کیا ۔‘‘ ( میزان:ص۳۰،۳۱)
اب ہم امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ (م ۱۲۵ھ) کے بارے میں ائمۂ جرح و تعدیل،ائمہ محدثین اور ائمۂ فقہاء اور ان کے معاصر علماء کی آراء نقل کرتے ہیں :
٭ امام ابن حجررحمہ اللہ (م ۸۵۲ھ) کی رائے :علامہ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’الفقیہ الحافظ متفق علی جلالتہ و اتقانہ‘ ( تقریب:۲؍۲۰۷)
’’فقیہ، اورالحافظ،ہیں ،ان کی بزرگی اور حافظے کی پختگی پر محدثین کا اتفاق ہے۔‘‘
٭ امام ذہبی رحمہ اللہ (م ۷۴۸ھ )کی رائے امام ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’محمد بن مسلم الحافظ الحجۃ‘‘ ( میزان الاعتدال:۴؍۴۰)
’’محمد بن مسلم الحافظ اور الحجۃہیں۔ ‘‘
٭ امام ابن حبان رحمہ اللہ(م ۲۵۴ھ) کی رائے :امام ابن حبان رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’رأی عشرۃ من أصحاب رسول اﷲﷺ وکان أحفظ أھل زمانہ وأحسنھم سیاقا لمتون الأخبار وکان فقیھا فاضلا‘‘(کتاب الثقات:۳؍۴)
’’انھوں نے دس صحابہ رضی اللہ عنہم کی زیارت کی ہے اور وہ اپنے زمانے کے سب سے بڑے حدیث کے حافظ اور احادیث کے متون کو بیان کرنے میں سب سے اچھے ، فقیہ اور فاضل تھے۔ ‘‘
٭ امام احمد العجلی رحمہ اللہ (م ۲۵۷ھ) کی رائے :امام احمد العجلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’تابعی ثقۃ‘‘(تاریخ الثقات:ص۴۱۲)’’تابعی اور ثقہ تھے ۔‘‘
٭ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی رائے ابن ابی حاتم الرازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’قال عمر بن عبد العزیز علیکم بابن شھاب ھذا فانکم لا تتبعون أحدا أعلم بالسنۃ الماضیۃ منہ‘‘( کتاب الجرح و التعدیل:ص۱۲)
’’حضرت عمر بن عبد العزیزرحمہ اللہ نے کہا ہے تم ابن شہاب رحمہ اللہ کو لازم پکڑو (ان سے استفادہ کرو)کیونکہ گزری ہوئی سنن کے بارے میں ان سے بڑھ کر کوئی جاننے والا نہیں ہے۔‘‘
٭ امام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ ھ) کی رائے امام ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’قال ابن القاسم سمعت مالکا یقول بقی ابن شھاب ومالہ فی الدنیا نظیر‘‘
’’ابن القاسم رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ میں نے امام مالک رحمہ اللہ سے سنا وہ کہہ رہے تھے ابن شہابؒ باقی رہ گئے اور ان کی کوئی مثال اس دنیا میں نہیں ہے۔‘‘(سیر أعلام النبلاء:۴؍۱۴۰)
٭ امام احمدرحمہ اللہ (م ۲۴۲ھ) کی رائے :
’’أحسن الناس حدیثا وأجود الناس إسنادا‘‘( ایضاً:ص ۱۴۱)
’’لوگوں میں حدیث کے اعتبار سے سب سے بہتر اور سند کے اعتبار سے سب سے عمدہ ہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ (م ۲۷۷ھ) کی رائے :
’’أثبت أصحاب أنس الزھری‘‘(ایضاً)
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں سب سے زیادہ ’ثابت‘امام زہری رحمہ اللہ ہیں۔ ‘‘
٭ امام قتادہ رحمہ اللہ (م ۱۰۹ھ) کی رائے :
’’ما بقی أحد أعلم بسنۃ ماضیۃ من ابن شھاب‘‘(ایضاً)
’’گزشتہ سنن کے بارے میں ابن شہاب رحمہ اللہ سے زیادہ علم رکھنے والا کوئی بھی باقی نہیں رہا۔‘‘
٭ یحییٰ بن سعیدرحمہ اللہ کی رائے :
’’مابقی عند أحد من العلم ما بقی عند ابن شہاب ‘‘(ایضاً)
’’کسی ایک کے پاس بھی وہ علم نہیں رہا جو ابن شہاب رحمہ اللہ کے پاس ہے ‘‘۔
٭ سعید بن عبد العزیزرحمہ اللہ کی رائے :
’’ما کان الا بحرا‘‘( ایضاً:ص ۱۴۲)
’’وہ تو علم کا ایک سمندر ہے۔ ‘‘
٭ سفیان ثوری رحمہ اللہ (م ۱۶۱ھ) کی رائے :
’’کان الزھری أعلم أھل المدینۃ‘‘( ایضاً:ص ۱۴۰)
’’امام زہری رحمہ اللہ اہل مدینہ میں سب سے بڑے عالم ہیں۔‘‘
٭ عمروبن دیناررحمہ اللہ (م ۱۲۶ھ)کی رائے :
’’ما رأیت أحدا أنص للحدیث من الزھری‘‘( ایضاً:ص ۱۴۰)
’’ حدیث کی سند بیان کرنے میں زہری رحمہ اللہ سے بڑھ کر میں نے کوئی عالم نہیں دیکھا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ ابو ایوب سختیانی رحمہ اللہ(م ۱۳۱ھ )کی رائے اما م ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ قال أبو أیوب ما رأیت أعلم منہ‘‘( ایضاً: ص ۱۱۰)
’’ابو ایوب رحمہ اللہ نے کہا: میں نے ان سے بڑا عالم کوئی نہیں دیکھا۔‘‘
٭ امام لیث بن سعدرحمہ اللہ (م ۱۷۵ھ )کی رائے :
’’کان من أسخی الناس‘‘( تذکرۃ الحفاظ:۱؍ ۱۰۹)
’’ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ سخاوت کرنے والے تھے۔‘‘
روی أبو صالح عن اللیث بن سعد ما رأیت عالما قط أجمع من الزھری( ایضاً: ص ۱۰۹)
’’ابو صالح امام لیث بن سعدرحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے ابن شہاب زہری رحمہ اللہ سے زیادہ جامع العلوم کسی عالم کو نہیں دیکھا۔ ‘‘
٭ امام نسائی رحمہ اللہ(م ۳۰۳ھ )کی رائے امام مزی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’قال النسائی أحسن أسانید تروی عن رسول اﷲ أربعۃ منھا: الزھری عن علی بن الحسین عن الحسین بن علی عن علی ابن أبی طالب عن رسول اﷲ ﷺوالزھری عن عبید اﷲ بن عبد اﷲ بن عتبۃ بن مسعود عن ابن عباس عن عمر عن رسول اﷲ ﷺ‘‘( ایضاً: ص ۱۱۰)
’’امام نسائی رحمہ اللہ نے کہاکہ سب سے بہتر اسناد جو کہ اللہ کے رسولﷺسے مروی ہیں وہ چار ہیں:زہری رحمہ اللہ حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ سے وہ حسین بن علی رضی اللہ عنہ سے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب سے اوروہ اللہ کے رسول ﷺسے روایت کرتے ہیں اور زہری رحمہ اللہ عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے وہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے وہ حضرت عمررضی اللہ عنہ سے اور وہ اللہ کے رسول ﷺسے روایت کرتے ہیں۔ ‘‘
٭ عمروبن دیناررحمہ اللہ(م ۱۲۶ھ ) کی رائے :
’’قال سفیان بن عیینہ عن عمرو بن دینار ما رأیت أنص للحدیث من الزھری‘‘
’’سفیان بن عیینہ،عمرو بن دیناررحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے حدیث کی سند بیان کرنے میں زہری رحمہ اللہ سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘( تہذیب الکمال:۶؍ ۵۱۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ محمد بن سعدرحمہ اللہ اور محدثین کی رائے :
’’وقال محمد بن سعد قالوا:وکان الزھری ثقۃ کثیر الحدیث والعلم والروایۃ فقیھا جامعا‘‘(ایضاً)
’’محمد بن سعدؒنے کہامحدثین کا کہنا ہے کہ زہری ثقہ راوی ہے اور کثرت سے علم رکھنے والا،احادیث کو جاننے والا اور اَحادیث کو نقل کرنے والا ہے۔‘‘
٭ مکحو ل رحمہ اللہ(م ۱۰۹ھ ) کی رائے :
’’قال عمرو بن أبی سلمۃ سمعت سعید بن عبد العزیز یحدث عن مکحول قال:ما بقی عن ظھرھا احد اعلم بسنۃ ماضیۃ من الزھری‘‘( ایضاً)
’’عمرو بن ابی سلمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن عبد العزیزرحمہ اللہ سے سنا ‘وہ مکحول رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:زمین کی پشت پر گزری ہوئی سنت کے بارے میں زہری ؒسے بڑھ کر کوئی عالم باقی نہیں رہا ہے‘‘ ۔
٭ ابو بکر الھذلی رحمہ اللہ(م ۱۶۷) کی رائے :
’’وقال سفیان بن عیینہ قال ابو بکر الھذلی : قد جالست الحسن و ابن سیرین فما رأیت أحدا أعلم منہ یعنی الزھری‘‘( ایضاً)
’’سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ابو بکررحمہ اللہ کہتے ہیں : میں حسن بصری رحمہ اللہ اور ابن سیرین رحمہ اللہ کے ساتھ بیٹھا، لیکن میں نے زہری رحمہ اللہ سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں دیکھا۔‘‘
٭ یحییٰ بن معین رحمہ اللہ متوفی ۲۳۲ھ کی رائے:
’’قال الدارمی قلت لہ (یعنی یحیی بن معین )الزھری أحب إلیک فی سعید بن المسیب أو قتادۃ فقال کلاھما فقلت فھما أحب إلیک أو یحیٰی بن سعید فقال کل ثقۃ‘‘( ایضاً)
’’امام دارمی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن معین رحمہ اللہ سے کہا کہ زہری رحمہ اللہ آپ کوسعید بن مسیب رحمہ اللہ سے زیادہ محبوب ہے یا قتادہ رضی اللہ عنہ؟تو انھوں نے کہا دونوں ‘تو میں نے پھر کہا کہ وہ دونوں آپ کو زیادہ محبوب ہیں یا یحییٰ بن سعیدرحمہ اللہ‘تو یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے کہا :یہ سب ثقہ راوی ہیں ‘‘۔
٭ علی بن مدینی رحمہ اللہ(م ۲۳۴ھ )کی رائے :
’’ قال علی بن المدینی حفظ العلم علی أمۃ محمد ستۃ فلأھل مکۃ عمرو بن دینار ولأھل مدینۃ ابن شہاب الزھری …‘‘(تہذیب ا لکمال:۱۲؍۸۴)
’’علی بن مدینی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ حدیث کا علم اُمت محمد میں چھ افراد نے محفوظ کیا۔ اہل مکہ میں سے عمرو بن دیناررحمہ اللہ نے اور اہل مدینہ میں ابن شہاب الزہری رحمہ اللہ نے۔۔۔۔ ‘‘
امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ کی تعدیل و توصیف سے اسماء الرجال کی کتب بھری پڑی ہیں۔غامدی صاحب کو امام زہری رحمہ اللہ کے بارے میں جلیل القدر معاصرو متاخرفقہاء، تابعین اور محدثین کے یہ اقوال تو نظر نہ آئے،اور اگرکچھ نظر آیا تو وہ امام لیث بن سعدرحمہ اللہ کا وہ قول جسے ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’اعلام الموقعین‘میں نقل کیا ہے ۔اس قول کے بارے میں ہماری رائے درج ذیل نکات پر مشتمل ہے :
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ پہلا نکتہ
پہلی بات تو یہ ہے کہ’اعلام الموقعین‘اسماء الرجال کی کتاب نہیں ہے۔ ہم غامدی صاحب کو یہ مشورہ دیں گے کہ امام زہری رحمہ اللہ کی شخصیت پر اگر بحث کرنی ہے تو اسماء الرجال کی کتب میں موجود ائمۂ جرح و تعدیل کے اقوا ل کی روشنی میں کریں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ دوسرا نکتہ
دوسری بات یہ کہ امام لیث بن سعدرحمہ اللہ کا وہ خط جس کا غامدی صاحب نے حوالہ دیا ہے‘ وہ تقریباً تین صفحات پر مشتمل ہے،جبکہ غامدی صاحب نے اس خط میں اپنے کام کی تین چار سطریں اخذ کر لیں،حالانکہ اگر اس پورے خط کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امام لیث بن سعدرحمہ اللہ نے اتنا لمبا چوڑا جوخط امام مالک ؒکو لکھا ہے اس کا موضوع امام زہری رحمہ اللہ کی شخصیت نہیں ہے بلکہ اس کا موضوع امام لیث بن سعدرحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ کے درمیان ایک مسئلے میں علمی اختلاف ہے اور وہ یہ کہ امام لیث بن سعدرحمہ اللہ کے نزدیک ’ عمل اہل مدینہ‘کے خلاف فتویٰ دینا جائز ہے ،جبکہ امام مالک رحمہ اللہ اس کو ناجائز قرار دیتے تھے ۔اس پر امام لیث بن سعدرحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ کو خط لکھاجس میں مدینہ کے علماء کے باہمی اختلاف اور ان کی آراء کے کمزور پہلوؤں کو اجاگر کیا،ان علمائے مدینہ میں ایک ابن شہاب زہری رحمہ اللہ بھی تھے ۔یہ تو ایک فقہی اختلاف ہے جس کی کچھ عبارت کوجناب غامدی صاحب نے درمیان سے اٹھا لیا اور اسے امام لیث بن سعدرحمہ اللہ کی ابن شہاب زہری رحمہ اللہ پر تنقید کے عنوان سے پیش کر دیا حالانکہ امام لیث بن سعدرحمہ اللہ نے امام زہری رحمہ اللہ کے علم حدیث میں مقام و مرتبہ کو بیان کرتے وقت اسی مبالغے کاا ظہار کیا ہے جو کہ تمام علمائے جرح و تعدیل سے منقول ہے۔امام لیث رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’وقال أبو صالح عن اللیث بن سعد ما رأیت عالما قط أجمع من ابن شھاب ولا أکثر علما منہ…‘‘(تہذیب ا لکمال:۱۲؍۸۴)
’’ابو صالح‘ امام لیث بن سعدرحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے ابن شہاب زہری رحمہ اللہ سے زیادہ جامع العلوم کسی عالم کو نہیں دیکھا اور نہ ہی ان سے بڑے کسی عالم کو دیکھاہے…‘‘
’’کتبت من علم محمد بن شہاب الزہری علما کثیرا‘‘ (وفیات الأعیان:۴؍۱۲۷)
’’میں نے امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ کے علم میں سے بہت کچھ لکھا ہے۔‘‘
 
Top