ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
٭ پہلا سوال یہ ہے کہ بظاہر پینتیس نظرآنے والے یہ اقوال کیا واقعتاً پینتیس ہی ہیں؟ اگر ہم غور کریں تویہ درحقیقت سات اقوال ہیں: ایک قول تو یہ ہے کہ ’سبعۂ احرف‘ سے مراد مضامین قرآن ہیں، پھر اس میں آگے اختلاف ہے کہ کون سے مضامین مراد ہیں ۔دوسراقول یہ ہے کہ سبعہ احرف سے مراد سات لغات ہیں ،پھر آگے اس میں اختلاف ہے کہ کن قبائل کی لغات مراد ہیں ۔تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد صحابہ کی سات قراء ات ہیں ۔چوتھا قول یہ ہے کہ اس سے مراد سات حروف تہجی ہیں ۔پانچواں قول یہ ہے کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کے سات نام ہیں ۔چھٹا قول یہ ہے کہ اس سے مراد سات قسم کے اعراب ہیں ۔ساتواں قول یہ ہے کہ اس سے مراد حروف کی ادائیگی کی مختلف کیفیات ہے ۔اسی لیے امام سیوطی رحمہ اللہ نے ان اقوال کے نقل کرنے کے بعد ابن حبان کا قول نقل کیا ہے:
’’و ھی اقاویل یشبہ بعضھا بعضا‘‘(الاتقان:۱؍۴۹)
’’یہ اقوال ایک دوسر ے سے ملتے جلتے ہیں۔ ‘‘
اس کے بعد امام سیوطی رحمہ اللہ نے امام مزنی المرسی رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کیا ہے :
’’وقال المرسی ھذہ الوجوہ أکثرھا متداخلۃ‘‘(الاتقان:۱؍۴۹)
’’مرسی نے کہا ہے کہ یہ اقوال ایک دوسرے سے پیوستہ ہیں ‘‘۔
باہم متشابہ اور متداخل اقوال کو غامدی صاحب نے چالیس اقوال سمجھ لیا اور اس بنا پر’سبعہ اَحرف‘ ،کی متواتر روایت کا انکار کر دیا۔
٭ دوسرا سوال یہ کہ بالفرض ہم مان لیں کہ یہ چالیس اَقوال ہیں، جیسا کہ غامدی صاحب کا کہنا ہے،تو اگر قرآن کی کسی آیت کی تفسیر میں پینتیس یا چالیس اَقوال نقل ہو جائیں تو کیا اس بنیاد پر غامدی صاحب قرآن کی اس آیت کا انکار کر دیں گے کہ اس آیت کے معنی و مفہوم کے تعین میں چالیس قوال نقل ہوئے ہیں ؟چالیس تو چھوڑیے اگر ہم بدعتی فرقوں مثلاً باطنیہ ،روافض اور صوفیاء کی تفاسیر کا مطالعہ کریں تو ہمیں ایک ایک آیت کی تفسیر میں ستر ستر اَقوال بھی ملتے ہیں، تو کیا ہم صرف اس بنا پر قرآن کی اس آیت کو ماننے سے ہی انکار کر دیں ؟
’’و ھی اقاویل یشبہ بعضھا بعضا‘‘(الاتقان:۱؍۴۹)
’’یہ اقوال ایک دوسر ے سے ملتے جلتے ہیں۔ ‘‘
اس کے بعد امام سیوطی رحمہ اللہ نے امام مزنی المرسی رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کیا ہے :
’’وقال المرسی ھذہ الوجوہ أکثرھا متداخلۃ‘‘(الاتقان:۱؍۴۹)
’’مرسی نے کہا ہے کہ یہ اقوال ایک دوسرے سے پیوستہ ہیں ‘‘۔
باہم متشابہ اور متداخل اقوال کو غامدی صاحب نے چالیس اقوال سمجھ لیا اور اس بنا پر’سبعہ اَحرف‘ ،کی متواتر روایت کا انکار کر دیا۔
٭ دوسرا سوال یہ کہ بالفرض ہم مان لیں کہ یہ چالیس اَقوال ہیں، جیسا کہ غامدی صاحب کا کہنا ہے،تو اگر قرآن کی کسی آیت کی تفسیر میں پینتیس یا چالیس اَقوال نقل ہو جائیں تو کیا اس بنیاد پر غامدی صاحب قرآن کی اس آیت کا انکار کر دیں گے کہ اس آیت کے معنی و مفہوم کے تعین میں چالیس قوال نقل ہوئے ہیں ؟چالیس تو چھوڑیے اگر ہم بدعتی فرقوں مثلاً باطنیہ ،روافض اور صوفیاء کی تفاسیر کا مطالعہ کریں تو ہمیں ایک ایک آیت کی تفسیر میں ستر ستر اَقوال بھی ملتے ہیں، تو کیا ہم صرف اس بنا پر قرآن کی اس آیت کو ماننے سے ہی انکار کر دیں ؟