ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
غامدی صاحب کا اپنے اُصولوں سے انحراف
غامدی صاحب نے اپنی تحقیقات میں بہت سی ایسی اَحادیث سے استدلال کیا ہے جن کے مرکزی راوی اما م زہری رحمہ اللہ ہیں۔ ان اَحادیث میں سے دو کو بطورِ مثال ہم یہاں بیان کیے دیتے ہیں:
(١) غامدی صاحب اپنی کتاب ’میزان‘ میں اسلام کے شورائی نظام کے اصول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اوّلاً‘ یہ اُصول قائم کیا گیا کہ مسلمان اپنے معتمد لیڈروں کی وساطت سے شریکِ مشورہ ہوں گے ۔بخاری میں ہے :
أن رسول اﷲَ ﷺ قال حین أذن لھم المسلمون فی عتق سبی ھوازن فقال: إنی لا أدری من اذن فیکم ممن لم یأذن فارجعوا حتی یرفع إلینا عرفاء کم أمرکم۔ (رقم:۷۱۷۶)
’’مسلمانوں نے حضور1 کے ارشاد کے مطابق جب ہوازن کے قیدی رہا کرنے کی اجازت دی تو آپﷺ نے فرمایا: میں نہیں جان سکا کہ تم میں سے کس نے اجازت دی ہے اور کس نے نہیں دی ۔پس تم جاؤ اور اپنے لیڈروں کو بھیجو تا کہ وہ تمہاری رائے سے ہمیں آگاہ کریں ۔‘‘( میزان:ص۱۱۸،۱۱۹)
غامدی صاحب نے اپنی کتاب ’میزان‘ میں مذکورہ بالا روایات بیان کرنے کے بعد اس کا جو حوالہ دیا ہے وہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سند کے ساتھ نقل کیا ہے :
’’حدثنا إسماعیل بن أبی أویس حدثنی إسماعیل بن إبراہیم عن عمہ موسی بن عقبہ قال ابن شہاب حدثنی عروۃ بن الزبیر أن مروان بن الحکم والمسور بن مخرمۃ أخبراہ أن رسول اﷲ ﷺ قال‘‘( صحیح البخاري،کتاب الأحکام،باب العرفاء للناس)
اس حدیث کی سند میں بھی وہی راوی موجود ہے جس کی روایات کو غامدی صاحب مردود قرار دے چکے ہیں۔ غامدی صاحب کا معاملہ یہ ہے کہ وہ دوسروں کا رد کرنے کے لیے اُصول تو بنا لیتے ہیں، لیکن جب اپنا فکر و فلسفہ بیان کرتے ہیں توبھول جاتے ہیں کہ وہ اپنے ہی وضع کردہ اُصولوں کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔اس حدیث کے اور طرق بھی موجود ہیں، لیکن ان میں بھی ابن شہاب رحمہ اللہ موجود ہیں،گویا اس روایت کا انحصار ابن شہاب رحمہ اللہ پر ہی ہے ۔
(٢) اس سلسلے کی دوسری روایت وہ ہے جسے غامدی صاحب نے اسلام کے شورائی نظام کے دوسرے اصول کی وضاحت میں بیان کیا ہے۔غامدی صاحب لکھتے ہیں :
’’ثانیاً‘ یہ روایت قائم کی گئی کہ امامت و سیاست کا منصب ریاست میں موجود مسلمانوں کے مختلف گروہوں میں سے اس گروہ کا استحقاق قرار پائے گا جسے عام مسلمانوں کی اکثریت کا اعتماد حاصل ہو ۔۔۔انھوں (حضرت عمررضی اللہ عنہ )نے فرمایا:
فلا یغترن امرؤ أن یقول: إنما کانت بیعۃ أبی بکر فلتۃ وتمت ‘الا‘ وإنھا قد کانت کذلک و لکن اﷲ وقی شرھا ولیس فیکم من تقطع الأعناق إلیہ مثل أبی بکرمن بایع رجلا من غیر مشورۃ المسلمین فلا یبایع ھو ولا الذی بایعہ تغرۃ أن یقتلا‘‘ ( میزان:ص۱۲۱،۱۲۴،۱۲۵،صحیح البخاري:۶۸۳۰)
’’تم میں سے کوئی شخص اس بات سے دھوکا نہ کھائے کہ ابوبکر کی بیعت اچانک ہوئی اور لوگوں نے اسے قبول کر لیا ۔اس میں شبہ نہیں کہ ان کی بیعت اسی طرح ہوئی،لیکن اللہ نے اہل ایمان کواس کے کسی برے نتیجے سے محفوظ رکھااور یاد رکھو، تمہارے اندر اب کوئی ایسا شخص نہیں ہے کہ ابو بکررضی اللہ عنہ کی طرح جس کے سامنے گردنیں جھک جائیں ۔ لہٰذا جس شخص نے اہل ایمان کی رائے کے بغیر کسی کی بیعت کی اس کی اور اس سے بیعت لینے والے دونوں کی بیعت نہ کی جائے ۔اس لیے کہ اپنے اس اقدام سے وہ گویا اپنے آپ کو قتل کے لیے پیش کریں گے ۔‘‘
غامدی صاحب کی بیان کردہ اس روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے درج ذیل سند کے ساتھ نقل کیاہے:
’’حدثنا عبد العزیز بن عبد اﷲ حدثنی إبراہیم بن سعد عن صالح عن ابن شھاب عن عبید اﷲ بن عبد اﷲ بن عتبہ بن مسعود عن ابن عباس قال‘‘ (صحیح البخاری،کتاب الحدود،باب رجم الحبلی من الزنا)
اس روایت کے بھی مرکزی راوی امام زہری ہیں جوکہ’مدلس‘ او ر’مدرج‘ ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ’عنعنہ‘ سے روایت کر رہے ہیں،لیکن اسکے باوجود غامدی صاحب ان کی روایت کو قبول کر رہے ہیں،آخر کس بنیاد پر ؟
غامدی صاحب نے اپنی تحقیقات میں بہت سی ایسی اَحادیث سے استدلال کیا ہے جن کے مرکزی راوی اما م زہری رحمہ اللہ ہیں۔ ان اَحادیث میں سے دو کو بطورِ مثال ہم یہاں بیان کیے دیتے ہیں:
(١) غامدی صاحب اپنی کتاب ’میزان‘ میں اسلام کے شورائی نظام کے اصول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اوّلاً‘ یہ اُصول قائم کیا گیا کہ مسلمان اپنے معتمد لیڈروں کی وساطت سے شریکِ مشورہ ہوں گے ۔بخاری میں ہے :
أن رسول اﷲَ ﷺ قال حین أذن لھم المسلمون فی عتق سبی ھوازن فقال: إنی لا أدری من اذن فیکم ممن لم یأذن فارجعوا حتی یرفع إلینا عرفاء کم أمرکم۔ (رقم:۷۱۷۶)
’’مسلمانوں نے حضور1 کے ارشاد کے مطابق جب ہوازن کے قیدی رہا کرنے کی اجازت دی تو آپﷺ نے فرمایا: میں نہیں جان سکا کہ تم میں سے کس نے اجازت دی ہے اور کس نے نہیں دی ۔پس تم جاؤ اور اپنے لیڈروں کو بھیجو تا کہ وہ تمہاری رائے سے ہمیں آگاہ کریں ۔‘‘( میزان:ص۱۱۸،۱۱۹)
غامدی صاحب نے اپنی کتاب ’میزان‘ میں مذکورہ بالا روایات بیان کرنے کے بعد اس کا جو حوالہ دیا ہے وہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سند کے ساتھ نقل کیا ہے :
’’حدثنا إسماعیل بن أبی أویس حدثنی إسماعیل بن إبراہیم عن عمہ موسی بن عقبہ قال ابن شہاب حدثنی عروۃ بن الزبیر أن مروان بن الحکم والمسور بن مخرمۃ أخبراہ أن رسول اﷲ ﷺ قال‘‘( صحیح البخاري،کتاب الأحکام،باب العرفاء للناس)
اس حدیث کی سند میں بھی وہی راوی موجود ہے جس کی روایات کو غامدی صاحب مردود قرار دے چکے ہیں۔ غامدی صاحب کا معاملہ یہ ہے کہ وہ دوسروں کا رد کرنے کے لیے اُصول تو بنا لیتے ہیں، لیکن جب اپنا فکر و فلسفہ بیان کرتے ہیں توبھول جاتے ہیں کہ وہ اپنے ہی وضع کردہ اُصولوں کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔اس حدیث کے اور طرق بھی موجود ہیں، لیکن ان میں بھی ابن شہاب رحمہ اللہ موجود ہیں،گویا اس روایت کا انحصار ابن شہاب رحمہ اللہ پر ہی ہے ۔
(٢) اس سلسلے کی دوسری روایت وہ ہے جسے غامدی صاحب نے اسلام کے شورائی نظام کے دوسرے اصول کی وضاحت میں بیان کیا ہے۔غامدی صاحب لکھتے ہیں :
’’ثانیاً‘ یہ روایت قائم کی گئی کہ امامت و سیاست کا منصب ریاست میں موجود مسلمانوں کے مختلف گروہوں میں سے اس گروہ کا استحقاق قرار پائے گا جسے عام مسلمانوں کی اکثریت کا اعتماد حاصل ہو ۔۔۔انھوں (حضرت عمررضی اللہ عنہ )نے فرمایا:
فلا یغترن امرؤ أن یقول: إنما کانت بیعۃ أبی بکر فلتۃ وتمت ‘الا‘ وإنھا قد کانت کذلک و لکن اﷲ وقی شرھا ولیس فیکم من تقطع الأعناق إلیہ مثل أبی بکرمن بایع رجلا من غیر مشورۃ المسلمین فلا یبایع ھو ولا الذی بایعہ تغرۃ أن یقتلا‘‘ ( میزان:ص۱۲۱،۱۲۴،۱۲۵،صحیح البخاري:۶۸۳۰)
’’تم میں سے کوئی شخص اس بات سے دھوکا نہ کھائے کہ ابوبکر کی بیعت اچانک ہوئی اور لوگوں نے اسے قبول کر لیا ۔اس میں شبہ نہیں کہ ان کی بیعت اسی طرح ہوئی،لیکن اللہ نے اہل ایمان کواس کے کسی برے نتیجے سے محفوظ رکھااور یاد رکھو، تمہارے اندر اب کوئی ایسا شخص نہیں ہے کہ ابو بکررضی اللہ عنہ کی طرح جس کے سامنے گردنیں جھک جائیں ۔ لہٰذا جس شخص نے اہل ایمان کی رائے کے بغیر کسی کی بیعت کی اس کی اور اس سے بیعت لینے والے دونوں کی بیعت نہ کی جائے ۔اس لیے کہ اپنے اس اقدام سے وہ گویا اپنے آپ کو قتل کے لیے پیش کریں گے ۔‘‘
غامدی صاحب کی بیان کردہ اس روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے درج ذیل سند کے ساتھ نقل کیاہے:
’’حدثنا عبد العزیز بن عبد اﷲ حدثنی إبراہیم بن سعد عن صالح عن ابن شھاب عن عبید اﷲ بن عبد اﷲ بن عتبہ بن مسعود عن ابن عباس قال‘‘ (صحیح البخاری،کتاب الحدود،باب رجم الحبلی من الزنا)
اس روایت کے بھی مرکزی راوی امام زہری ہیں جوکہ’مدلس‘ او ر’مدرج‘ ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ’عنعنہ‘ سے روایت کر رہے ہیں،لیکن اسکے باوجود غامدی صاحب ان کی روایت کو قبول کر رہے ہیں،آخر کس بنیاد پر ؟