• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قراء عشرہ اور اُن کے رواۃ کا مختصر تعارف

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
(اِمام ابن عامر شامی رحمہ اللہ)

نام ونسب:آپ کی کنیت ’ابوعمران‘ اور نام ’’عبداللہ بن عامر بن یزید بن تمیم بن ربیعہ بن عامر الیحصبی‘‘ ہے۔
پیدائش :امام ابن عامررحمہ اللہ ۲۱ھ میں پیدا ہوئے۔بعض نے ان کی تاریخ ولادت ۸ ھ بتلائی ہے۔
خالد بن یزید فرماتے ہیں کہ میں نے امام ابن عامر شامی کو کہتے ہوئے سنا کہ میری ولادت ۸ ھ میں بلقاء کے مقام پر ہوئی جب میں دو سال کا تھا تو رسول اللہﷺ نے وفات پائی۔ یہ فتح دمشق کے پہلے کا واقعہ ہے جب میں دمشق گیاتو دمشق فتح ہوچکا تھا ۔ اس وقت میری عمر ۹ سال تھی۔ (غایۃ النہایۃ:۱؍۴۲۵)
مقام و مرتبہ:امام ابن عامر شامی رحمہ اللہ تابعی اور شام میں قراء ت کے امام تھے انہوں نے امیر المؤمنین سیدنا عمر ابن عبدالعزیزرحمہ اللہ کے دور سے پہلے اور بعد میں کئی سالوں تک جامع مسجد دمشق میں امامت کروائی۔ عمر بن عبدالعزیز بھی انہی کی اقتداء میں نماز پڑھتے تھے وہ کچھ عرصہ منصب ِقضا پربھی فائز رہے۔ ان کی قراء ت کو تلقی بالقبول حاصل ہے۔ ان کا متعدد صحابہ رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت ہے۔ جن میں معاویہ بن سفیان، نعمان بن بشیر، واثلہ بن اسقع اورفضالہ بن عبید رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔ امام ابن عامررحمہ اللہ علم قراء ت کے ساتھ ساتھ حدیث میں بھی ثقہ تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
امام اہوازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ابن عامر شامی رحمہ اللہ عالم، ثقہ، متقن، حافظ اور لوگوں کے امام تھے۔امام ابن مجاہد رحمہ اللہ نے آپ کو قراء سبعہ میں سے چوتھے مرتبے پر بیان کیا ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ قراء سبعہ میں سے آپ کبار تابعین میں سے اورباعتبار زمانہ اور بلحاظ شیوخ، سب سے مقدم ہیں۔‘‘ (شرح سبعہ قراء ات:۱؍۸۷)
اَساتذہ: امام ابن عامر شامی رحمہ اللہ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین عظام رحمہم اللہ کی ایک مقدس جماعت سے قرآن وحدیث کی تحصیل کی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ابن عامر نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے قرآن پڑھا۔ مگر یحییٰ بن حارث زماری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ابن عامر نے عثمان رضی اللہ عنہ سے باقاعدہ پڑھا نہیں تھا بلکہ انکی قراء ت کو نماز میں سنا تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
تلامذہ:امام ابن عامررحمہ اللہ سے متعدد تلامذہ نے علم قراء ت پڑھا۔ ان میں سے اسماعیل بن عبداللہ بن ابوالمہاجر، ابوعبداللہ مسلم بن مشکم، عبدالرحمن بن عامر، ربیعہ بن یزید اور یحییٰ بن حارف زماری رحمہم اللہ قابل ذکر ہیں۔ امام ابن عامررحمہ اللہ کے دو مشہور ترین شاگرد اور راوی ہشام اور ابن ذکوان ہیں۔ جن کاتذکرہ آگے آرہا ہے۔
وفات:امام ابن شامی رحمہ اللہ نے ۱۱۸ھ میں ہشام بن عبدالملک کے زمانہ میں دمشق میں وفات پائی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
(امام ہشام رحمہ اللہ)

نام ونسب:آپ کی کنیت ’ابوالولید‘ اور نام ’’ہشام بن عمار بن نصیر بن میسرۃ السلمی الدمشقی‘‘ ہے۔
پیدائش :ان کی ولادت۱۵۳ھ میں منصور کے زمانہ میں دمشق میں ہوئی۔
مقام و مرتبہ:امام ہشام رحمہ اللہ دمشق میں اپنے زمانہ میں قراء ت کے امام تھے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ امام ہشام دمشق کے خطیب،قاری، فقیہ اور محدث تھے۔ امام اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہشام ذہانت، فصاحت، فن روایت علم اوردرایت میں مشہور تھے۔ خود امام ہشام رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے سات چیزوں کی درخواست کی تھی جن میں سے چھ اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کردی ہیں اور ساتویں کے بارے میں مجھے معلوم نہیں ہے کہ وہ پوری ہوئی ہے یا نہیں۔
جوچیزیں اللہ نے مجھے عطا کی ہیں، وہ یہ ہیں:
(١) حج کی سعادت نصیب ہو۔ (٢) تقریباً سو سال تک حیات میسر آئے۔
(٣) اَحادیث نبویہ کا مصداق بنایا جاؤں۔ (٤) دمشق کے منبرپر خطبہ دوں۔
(٥)ایک ہزار دینار رزق مرحمت ہو۔ (٦)اور لوگ میرے پاس طلب علم کے لیے حاضر ہوں۔
امام ہشام کی یہ تمام تمنائیں پوری ہوئیں اور ساتویں چیز میں نے اللہ تعالیٰ سے مانگی تھی کہ وہ مجھے اور میرے والدین کو بخش دے۔ (معرفۃ القراء:۱؍۱۹۷)
تلامذہ :امام ہشام سے بہت سے لوگوں نے علم قراء ت کی تحصیل و تکمیل کی، چند تلامذہ کے نام یہ ہیں: ابو عبید قاسم ابن سلام، احمدبن یزید الحلوانی، ہارون بن موسیٰ الاخفش، ابوعلی اسماعیل بن الحویرث، احمد بن محمد بن مامویہ رحمہم اللہ وغیرہ۔
وفات:امام ہشام رحمہ اللہ نے ۲۴۵ھ میں دمشق میں وفات پائی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
(اِمام ابن ذکوان رحمہ اللہ)

نام ونسب:آپ کی کنیت ’’ابومحمد یا ابوعمرو‘‘ اور نام ’’عبداللہ بن احمد بن بشیر بن ذکوان القرشی الدمشقی‘‘ ہے۔ آپ عربی النسل تھے۔
پیدائش :امام ابن ذکوان رحمہ اللہ ۱۰ محرم ۱۷۳ھ میں پیدا ہوئے۔
مقام و مرتبہ:امام ابن ذکوان رحمہ اللہ جامع مسجد دمشق کے امام تھے اور اپنے شیخ ہشام کی وفات کے بعد شام میں قراء ت کے امام تھے۔ علامہ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ امام ابن ذکوان ہشام سے بڑے قاری تھے اور ہشام ابن ذکوان سے بڑے عالم تھے۔ امام ابن ذکوان کا شمار طبقہ محدثین میں بھی ہوتا ہے۔ ولید بن عقبہ فرماتے ہیں کہ پورے عراق میں ابن ذکوان سے بڑا کوئی قاری نہیں تھا۔
اَساتذہ :امام ابن ذکوانa نے فن قراء ت کی تحصیل ابوسلیمان ایوب بن تمیم اور ابوالحسن علی کسائی سے کی۔
تلامذہ :امام ابن ذکوان سے متعدد تلامذہ نے کسب فیض کیا۔ ان میں سے چند ممتاز اہل علم کے نام یہ ہیں۔ احمد بن انس، احمد بن معلّی، احمد بن محمد، اسحق بن داؤد، حسین بن اسحق، سہل بن عبداللہ، محمد بن موسیٰ صوری، ابوعبداللہ ہارون بن موسیٰ الاخفش رحمہ اللہ وغیرہ۔
وفات: امام ابن ذکوان رحمہ اللہ نے ۲۸ شوال ۲۴۲ھ میں دمشق میں بزمانہ متوکل عباسی وفات پائی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
(اِمام عاصم کوفی رحمہ اللہ)

نام ونسب:آپ کی کنیت ’ابوبکر‘ اور نام ’’عاصم بن ابی النجود‘‘ ہے۔کوفہ میں سکونت پذیر ہونے کی وجہ سے کوفی کہا جاتا ہے۔
پیدائش :امام عاصم کوفی رحمہ اللہ کے ابتدائی حالات مفقود ہیں لہٰذا ان کی تاریخ ولادت پر مطلع نہیں ہوا جاسکا۔
مقام و مرتبہ:امام عاصم کوفی رحمہ اللہ قراء سبعہ میں سے پانچویں امام ہیں۔قرآن مجید کی جن قراء ت پر امت کااجماع ہے ان میں امام عاصم کی قراء ت بھی شامل ہے۔ یہ تابعی ہیں اور ان کا شمار تابعین کے اس طبقہ میں کیا جاتاہے جنہوں نے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کادور پایا اور ان سے کسب فیض کیا۔ قراء سبعہ میں اپنی جلالت شان اور یکتائے روزگار ہونے کی وجہ سے ان کو امام حمزہ الزیات اور امام کسائی جیسے نادرۂ عصر اور بلند مرتبہ قراء پر اولیت دی جاتی ہے۔ امام عاصم کوفی اپنے شیخ عبدالرحمن سلمی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد مسند کوفہ پرمتمکن ہوئے اور پچاس برس تک لوگوں کو اپنے چشمہ فیض سے سیراب کرتے رہے۔ امام عاصم رحمہ اللہ علم قراء ت کے ساتھ قرآن و حدیث، فقہ و لغت اور نحو و صرف کے بھی امام تھے۔
عجلی رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ امام عاصم صاحب سنت و قراء ت، ثقہ اور رئیس القراء تھے۔ ابواسحق السبیعی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ میں نے امام عاصم سے بڑھ کر کوئی قاری و عالم نہیں دیکھا۔ امام عاصم رحمہ اللہ نہایت ہی مسحورکن آواز کے مالک تھے۔ ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام عاصم رحمہ اللہ خوش الحان تھے۔امام عاصم بڑے عابد،زاہد اور متقی وپرہیزگار تھے۔ بکثرت نمازیں پڑھتے اور جمعہ کے دن عصر تک مسجد میں رہنا ان کامعمول تھا اور دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی قراء ت امام عاصم کے شاگرد حفص کی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
اَساتذہ:امام عاصم رحمہ اللہ نے جن مشائخ و اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں: ابوعبدالرحمن سلمی، ابومریم زر بن حبیش اسدی، ابوعمرو الشیبانی وغیرہ۔ایک روایت کے مطابق حضرت حارث بن حسان البکری اور رفعہ بن یثربی تمیمی سے بھی کسب فیض کیاہے اور اسی بناء پر زمرہ تابعین میں شمار کئے جاتے ہیں۔
تلامذہ:امام عاصم رحمہ اللہ حصولِ علم کے بعد درس و تدریس میں مصروف ہوگئے اور دور دراز سے لوگ سفر کرکے حصولِ علم کے لئے آپ کے پاس تشریف لائے۔ آپ سے بے شمار تلامذہ نے کسب فیض کیا جن میں سے چند کے اسمائے گرامی یہ ہیں:اَبان بن ابوثعلب، ابان بن یزید، اسماعیل بن مجاہد، سفیان بن عینیہ، حمزہ بن حبیب اور سعید بن ابو عروبہ رحمہم اللہ۔
آپ کے دو مشہور ترین شاگرد اور راوی شعبہ اور حفص ہیں جن کا تذکرہ آگے آرہا ہے۔
وفات: امام عاصم نے ۱۲۷ھ میں کوفہ میں وفات پائی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
(اِمام شعبہ رحمہ اللہ)

نام ونسب : آپ کی کنیت ’ابوبکر‘ اورنام’’شعبہ بن عیاش بن سالم اسدی کوفی ‘‘ ہے۔
پیدائش : امام شعبہ ۹۵ھ میں کوفہ میں پیدا ہوئے۔
مقام و مرتبہ: امام شعبہ رحمہ اللہ امام عاصم کوفی کے تلمیذ رشید اور ان کی قراء ت کے پہلے راوی ہیں۔ آپ کوفہ کے نامور عالم دین تھے، قراء ت قرآن اور علم حدیث کے ماہر اور عظیم المرتبت مقری تھے۔ ان کی ثقاہت و عدالت کا بھی ائمہ فن نے اعتراف کیا ہے۔ امام شعبہ نے طویل عمر پائی ہے اور اس حیات مستعار کا بیشتر حصہ درس و تدریس اور تعلیم وتعلّم میں گذاراہے۔ خود امام شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے پچاس برس تک لوگوں کو پڑھایا ہے۔ امام شعبہ آخر عمر میں نہایت لاغر ہوگئے اور جسم میں رعشہ پیدا ہوگیا تھا اور ٹیک لگا کر نماز پڑھتے تھے۔ وفات سے ۱۹ سال قبل غالباً اسی کمزوری اور ضعف کی وجۂ سے سلسلہ تدریس بند کردیا تھا۔وفات کے وقت ان کی بہن نے رونا شروع کردیا تو امام شعبہ نے فرمایا۔ روتی کیوں ہو؟ گھر کے اس گوشے کی طرف دیکھو ! میں نے اس جگہ ۱۸ہزار مرتبہ قرآن مجیدمکمل کیا ہے۔ ابوعیسیٰ نخعی رحمہ اللہ کا قول ہے:’’میں نے امام شعبہ کو جب دیکھا تو ایسا محسوس ہوا گویا اس اُمت کے قرنِ اوّل کے کسی شخص کو دیکھ رہا ہوں۔‘‘ (معرفۃ القراء:۱؍۱۲۸)
اِمام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ’’ امام شعبہ ثقہ، صدوق، صالح، صاحب ِقرآن اورصاحب ِسنت تھے۔ خود فرماتے ہیں کہ میں نے کبھی کوئی منکر کام نہیں کیا اورتیس (۳۰) سال سے روزانہ ایک قرآن ختم کرتا ہوں۔‘‘
ابن المبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’میں نے ابوبکر سے زیادہ متبع سنت نہیں دیکھا۔‘‘ اعمش رحمہ اللہ فرماتے ہیں:میں نے ابوبکر سے بہتر نماز پڑھنے والا کوئی نہیں دیکھا۔ ۷۰ سال تک عبادت میں مصروف رہے اور۴۰ سال تک آپ کے لئے بستر نہیں بچھایا گیا۔اوراس عرصہ میں شب کے وقت زمین سے کمر نہیں لگائی۔(شرح سبعہ قراء ات:۱؍۹۰)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
اَساتذہ: امام شعبہ رحمہ اللہ نے امام عاصم کوفی سے علم قراء ت کی تحصیل و تکمیل کی۔ علامہ ابن القاصح بغدادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ امام شعبہ رحمہ اللہ نے امام عاصم کوفی سے قرآن مجید کی پانچ پانچ آیات اس طرح پڑھیں جس طرح ایک بچہ اپنے استاد سے پڑھتا ہے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام عاصم کے علاوہ ان کے شیوخ میں عطاء بن ابوالسائب اور اسلم منقری کا بھی ذکر کیا ہے۔
تلامذہ:امام شعبہ رحمہ اللہ سے بے شمار لوگوں نے اپنی علمی تشنگی بچھائی۔ علم قراء ت کی تحصیل کرنیوالے تلامذہ میں سے چند نمایاں تلامذہ کے نام یہ ہیں۔ ابویوسف بن یعقوب، سہل بن شعیب، حماد بن ابی زیاد، یحییٰ بن آدم رحمہ اللہ وغیرہ ۔
وفات: امام شعبہ رحمہ اللہ نے۹۸سال کی طویل عمرپائی اور ۱۹۳ھ میں مامون الرشیدکے دورخلافت میں وفات پائی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
(امام حفص رحمہ اللہ)

نام ونسب:آپ کی کنیت ’ابوعمر‘ اور نام ’’حفص بن سلیمان بن مغیرہ بن ابوداؤد اسدی کوفی بزاز‘‘ ہے۔ کپڑے کا کاروبار کرنے کی وجہ سے ’بزاز‘ کہا جاتا ہے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ اور امام ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حفص امام عاصم کی گود میں پلے تھے اور ان کی بیوی کے پہلے شوہر کے لڑکے تھے۔
پیدائش : امام حفص رحمہ اللہ ۹۰ھ میں کوفہ میں پیداہوئے۔
مقام و مرتبہ:امام حفص قراء سبعہ میں سے اِمام عاصم کے شاگرد رشید ہیں۔ان کا شمار اقلیم عالم قراء ت کے تاجداروں میں ہوتا ہے۔ ان کی تگ ودو محنت وجانفشانی اور اخلاص و للہیت سے ان کی قراء ت نے وہ قبول عام حاصل کیا کہ آج پورے عالم اسلام میں قرآن مجیدسب سے زیادہ انہی کی قراء ت اور لب و لہجے میں پڑھا اور پڑھایا جارہا ہے۔
محمد بن سعید الصوفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ کو یہ کہتے ہوئے سنا: ’’اگر تم امام حفص کو دیکھ لیتے تو انکے علم و فہم کی وجہ سے تمہاری نگاہیں ٹھنڈی ہوجاتیں۔‘‘ علامہ جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’حفص امام عاصم کی قراء ت کے سب سے بڑے ماہر تھے۔ امام حفص نے علم قراء ت کے ساتھ علم حدیث بھی سیکھا۔امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’قراء ت میں ثقہ، ضابط اورثبت تھے، لیکن حدیث میں یہ حال نہ تھا۔‘‘ (شرح سبعہ قراء ات:۱؍۹۰)
اَساتذہ:امام حفص رحمہ اللہ نے امام عاصم کے علاوہ بھی متعدد مشائخ سے اکتساب فیض کیا جن میں سے، عاصم الاحوال، عبدالملک بن عمیر، لیث بن ابوسلیم، اسحاق السبیعی اور ثابت بنانی رحمہ اللہ قابل ذکر ہیں۔
 
Top