تلاوت منسوخ کر کے حکم باقی رکھنے کی حکمت؟
علامہ ابن جوزی فرماتے ہیں:
’’اس سے اُمت ِمسلمہ کی فرمانبرداری اور اطاعت شعاری بتانا مقصود ہے کہ اس اُمت کے ایسے لوگ بغیر کسی دلیل اور حجت کے صرف ادنیٰ سے اشارہ پر سر تسلیم خم کر دیتے ہیں، محبوب کے حکم کی تعمیل میں انہیں کہنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ یہ بغیر کہے اس کی منشا اور رضا معلوم کر کے جو کرنا ہے کر گزرتے ہیں۔‘‘ (لباب التأویل في معاني التنزیل: ۱؍۷۶، الإتقان: ۲؍۴۷، ۴۸)
3۔حکم منسوخ لیکن تلاوت باقی
نسخ کی یہ قسم قرآنِ مجید میں بکثر ت پائی جاتی ہے، اِمام زرکشی فرماتے ہیں:
’’یہ قرآن کریم کی ۶۳ سورتوں میں ہے۔‘‘(الإتقان: ۲؍۴۲)
نسخ پر لکھی جانے والی کتابیں عموماً اسی قسم پر مشتمل ہیں، اس کی مثالیں اور دلائل حسب ذیل ہیں۔
1۔ارشادِ باری تعالیٰ:
’’ لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ‘‘ (الکافرون: ۶)
’’تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین۔‘‘
سورۃ الکافرون کا یہ جزء منسوخ ہے اگرچہ اس کی تلاوت باقی ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ رسول اللہﷺ مشرکین ِعرب کو دعوتِ اسلام دینے کیلئے مبعوث کیے گئے تھے نہ کہ ان کے اپنے دین پر قائم رہنے پر اپنی رضامندی کے اظہار کیلئے۔ پس ایک خاص حالت میں جب مشرکین غالب تھے اور انہوں نے نہ صرف دعوتِ الٰہی کا انکار کیا بلکہ تمسخر بھی اُڑایا تو اللہ عز وجل کی جانب سے یہ کہا گیا کہ اے رسولﷺ! آپ ان کافروں سے صاف صاف فرما دیجئے کہ میں نہ تمہارے معبودوں کی پرستش کرتاہوں اور نہ تم میرے معبود کی پرستش کرتے ہو اور نہ میں تمہارے معبودوں کی پرستش کروں گا اور نہ تم میرے معبود کی پرستش کرو گے۔ پس تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین ہے۔
اِمام رازی فرماتے ہیں:
کلّا! فإنہ ﷺ ما بعث إلا للمنع فکیف یأذن فیہ، ولکن المقصود منہ أحد أمور: أحدہا: إنَّ المقصود التّہدید، کقولہ: { اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ } …(التفسیر الکبیر: ۳۰؍۱۴۷)
’’ہر گز نہیں! آپﷺ کفر کی چھوٹ کیوں دے سکتے تھے جبکہ آپ کو مبعوث ہی اس سے روکنے کیلئے کیا گیا تھا، اس سے مراد اِن اُمور میں سے کوئی بھی ہو سکتا ہے: a یہ الفاظ تہدید کے طور پر استعمال ہوئے ہوں، جیسے ارشادِ باری ہے: { اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ } … ‘‘
2۔ارشادِ باری تعالیٰ:
’’ کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَکَ خَیْرًا الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ ‘‘ (البقرۃ: ۱۸۰)
’’جب تم میں سے کسی کو موت آ جائے اگر وہ مال چھوڑ رہا ہو تو اس پر والدین اور اَقربا کیلئے وصیت کرنا فرض قرار دے دیا گیا ہے،یہ حکم متقین پر لازمی ہے۔‘‘
یہ آیت اُس وقت نازل ہوئی جب وراثت کے احکام نہ اُترے تھے، اس میں ہر شخص کے ذمے یہ فرض قرار دیا گیا کہ وہ مرنے سے پہلے اپنے ترکہ کے بارے میں وصیت کرے کہ اس کے والدین اور رشتہ داروں کو کتنا کتنا مال تقسیم کیا جائے۔
اہل ِعلم کی ایک کثیر تعداد اس آیت کو منسوخ قرار دیتی ہے۔ اس کی ناسخ آیت ِکریمہ:
’’ یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِی اَوْلَادِکُمْ ‘‘ (النّسائ: ۱۱) ہے۔ بعض علما کے نزدیک اس آیت کا ناسخ فرمانِ نبویﷺ:
( لَا وَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ ) (جامع الترمذی: ۲۱۲۰) ہے۔
علامہ ابن منذر اجماع نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
أجمع کل من نحفظ من أہل العلم علی أن الوصیۃ للوالدین الذین لا یرثان والأقرباء الّذین لا یرثون جائزۃ۔(حاشیۃ علیٰ روضۃ النّاظر: ۱؍۲۳۲)
’’تمام اہل ِعلم کا اس بات پر اجما ع ہے کہ صرف اُن والدین اور قریبی رشتہ داروں کے حق میں وصیت جائز ہے جو وارث نہ بن رہے ہوں۔‘‘
بعض اہل ِعلم کا کہنا ہے کہ وصیت کا وجوب منسوخ ہے اور استحباب باقی ہے۔
مزید برآں!
یہ کہ وصیت والی آیت منسوخ ہے لیکن ان والدین اور اقربا کیلئے جو اَسباب منع ارث کے تحت وارث نہ بن رہے ہوں یا وہ ورثا جو کثیر العیال ہوں اور وراثت سے ان کا حصہ کم ہو تو دوسرے ورثا سے موافقت لے کر ان کے حق میں وصیت کا جواز فراہم کرتی ہے۔
3۔آیت کریمہ:
’’ وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ ‘‘ (البقرۃ: ۱۸۴) منسوخ ہے اور اس کی ناسخ آیت ’’ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ ‘‘ (البقرۃ: ۱۸۵) ہے۔
ابتدائے اسلا م میں روزوں کی فرضیت میں ایک مرحلہ ایسا بھی آیا جس میں روزہ رکھنے اور نہ رکھنے کا اِختیار تھا لہٰذا جو روزہ نہ رکھنا چاہتا اُس پر اُسکے بدلے میں فدیہ - جو کہ ایک مسکین کو کھانا کھلانے کے برابر تھا - اَدا کرنے کا حکم تھا۔ چنانچہ بعد والی آیت نے روزہ رکھنے پر قادر لوگوں کیلئے اس اختیار کو منسوخ کر دیا اور عاجز، بوڑھے، حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتوں کیلئے اس رُخصت کو برقرار رکھا، جس کی تائید اَحادیث ِمبارکہ سے بھی ہوتی ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں:
’’بوڑھے مرد اور عورت روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں لیکن ان کیلئے رخصت تھی کہ وہ چاہیں تو روزہ رکھیں، چاہیں تو روزہ نہ رکھیں اور ہر دن کے بدے کسی مسکین کو کھانا کھلا دیں، پھر یہ رخصت آیت کریمہ: ’’ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ ‘‘ سے منسوخ ہو گئی اور اُن بوڑھے مرد وعورت کیلئے برقرار رہی جو روزہ نہ رکھ سکیں۔ حاملہ اور دودھ پلانے والی کو جب روزہ رکھنا مشکل لگے تو اُن کیلئے بھی یہ رُخصت ہے۔‘‘ (أبو داؤد: ۸؍۲۳)
4۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ امَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ ‘‘ (البقرۃ: ۱۸۳)
اس آیت کریمہ میں اہل کتاب کی طرح روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا تھا کہ رات کو سو جانے سے پہلے پہلے کھانے کی اِجازت تھی، اور اگر کوئی سو گیا تو اس پر کھانا اور بیوی دونوں حرام تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اُمت ِمحمدیہ پر قلت ِتکلیف کے پیش نظر اس کو منسوخ کر دیا۔
عمر بن خطاب اور قیس بن صرمہ رض سے پیش آنے والے واقعات اس ناسخ آیت کے نزول کا سبب بنے:
’’ اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَاؓئِکُمْ … وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ‘‘ (البقرۃ: ۱۸۷)
پہلی آیت میں لفظ کما میں حکم اور وصف دونوں پائے جاتے ہیں۔ اس مذکورہ آیت سے حکم بعینہٖ باقی رہا لیکن وصف منسوخ ہو گیا۔
5۔آیت ِکریمہ:
’’ وَلِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اﷲِ ‘‘ (البقرۃ: ۱۱۵) تحویل ِقبلہ والی آیت: ’’ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ شَطْرَہٗ ‘‘ (البقرۃ: ۱۴۴) سے منسوخ ہے۔
پہلی آیت یہود پر رد کرنے میں محکم ہے جنہوں نے یہ طعن کیا تھا کہ یہ کیسا دین ہے جو لوگوں کے قبلے تبدیل کررہا ہے، لیکن جہت ِقبلہ کے اعتبار سے منسوخ ہے۔
پہلی آیت سواری پر نفلی عبادت کی ادائیگی کی رخصت فراہم کرتی ہے لیکن دوسری آیت فرض نمازوں میں قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کے وجوب کا فائدہ دیتی ہے۔(مناہل العرفان: ۲؍۱۵۹)
نسخ کی اس نوع کے بارے میں مزید تفصیل کیلئے امام سیوطی کی کتاب الإتقان في علوم القرآن،علامہ زرقانی کی کتاب مناہل العرفان اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی کتاب الفوز الکبیر في أصول التفسیر کا مطالعہ مفید رہیگا۔