• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن کریم کو قواعد موسیقی پرپڑھنے کی شرعی حیثیت

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِصطلاحی تعریف
مقامات، مقام کی جمع ہے اور مقام کی تعریف یہ ہے:
’’المقام الصوتی ھو الطابع الموسیقی الذی یمتاز بہ صوت معین۔ فالدیک یعطی مقام الصبا والأسد یعطی مقام الرست‘‘
’’مقام صوتی موسیقی کا ایسا انداز جس سے خاص آوازوں کے مابین امتیاز کیاجاتاہے جس طرح مرغ (کی آواز)مقام رست اور شیر(کی دھاڑ) مقام صبا کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔‘‘
مذکورہ تعریف سے معلوم ہواکہ مقامات موسیقی کے ایسے قواعد کو کہا جاتاہے جس سے آواز کے اتار چڑھاؤ، شدت، نرمی وغیرہ میں امتیاز کیاجاتاہے اور اس سے یہ ممکن ہوتا ہے کہ انسان موسیقی کی مختلف دھنوں کے اندر ہی رہ کرپڑھتاہے۔
آج کل کے نام نہاد قراء جومقامات کے اختیار کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں اور پھر اسے دلائل کے ذریعے جائز کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ درج ذیل دلائل دیتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پہلی دلیل :
(لیس منا من لم یتغَنَّ بالقرآن)
’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جو قرآن کریم کو خوش آوازی نہ پڑھے‘‘
یہاں یتغنّ سے مراد کیا؟اس بارے میں علماء کے دو اقوال ہیں۔
پہلا قول: تغنّی سے مراد وہ بے نیازی ہے جو فقر کے مقابلہ میں ہو۔سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ، وکیع بن الجراح رحمہ اللہ، ابوعبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ، اسحق بن راہویہ رحمہ اللہ اور امام بخاری رحمہ اللہ اس مؤقف کے مؤیدین ہیں۔
دوسرا قول: تغنّی کا مفہوم ہے ۔ قرآن کریم کو خوش آوازی سے پڑھنا یہ ابن وہب رحمہ اللہ، حرملہ بن یحییٰ رحمہ اللہ، امام مزنی رحمہ اللہ، امام ربیع رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کامؤقف ہے۔
ہم یہاں راجح مسلک کے تفصیلی دلائل ذکر کرنے کے بجائے چند روایات ذکرکرتے ہیں، جس سے راجح مسلک اور مذکورہ حدیث کامفہوم از خود واضح ہوجائے گا:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
(ما أذن اﷲ لشئ ما أذن لنبی حسن الترنم بالقرآن) (فتح الباري:۱۱؍۸۷)
’’اللہ تعالیٰ کسی چیز کو اس قدر متوجہ ہوکر نہیں سنتے جس قدر توجہ سے نبی ﷺ کو سنتے ہیں جب وہ خوش الحانی سے قرآن پڑھ رہے ہوں۔‘‘
صحیح مسلم میں حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
(ما أذن لنبی حسن الصوت یتغنی بالقرآن یجھربہ) (صحیح مسلم:۱۸۴)
مذکورہ دونوں روایات سے معلوم ہوا کہ تغنّی اور ترنم دو حروف ایک ہی مفہوم کی وضاحت کے لیے ذکر کئے گئے۔جس سے آسانی سے متعین کیاجاسکتاہے کہ حدیث (من لم یتغَنَّ بالقرآن فلیس منا) میں تغنی، ترنم یعنی تحسین صوت کے معنی میں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسری دلیل:
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
(زیِّنوا القرآن بأصواتکم) (سنن ابوداؤد:۲؍۷۲، سنن نسائی:۲؍۱۷۹)
’’قرآن کریم کو اپنی آوازوں سے زینت بخشو۔‘‘
دوسری جگہ ہے:
( فإن الصوت الحسن یزید بالقرآن حسنا)
’’یقینا خوبصورت آواز قرآن کریم کے حسن کو دوبالا کرتی ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تیسری دلیل:
ابویعلی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنی اہلیہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہمراہ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے گھر کے پاس سے گزر رہے تھے کہ انہوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری رحمہ اللہ کو قرآن پڑھتے ہوئے سنا، آپ ﷺ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ان کی قراء ت سننے کے لیے کھڑے ہوگئے۔صبح جب سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا:
(یا أبا موسیٰ مررت بک البارحۃ لو رأیتنی وأنا أستمع لقراتک لقد أوتیت مزمارا من مزامیر آل داؤد فقال أبو موسیٰ أما إنی لو علمت بمکانک لحبرت لک تحبیرا) (مسند أبو یعلی:۱۳؍۲۶۶)
’’اے ابوموسیٰ! گذشتہ رات میں تیرے گھر کے پاس سے گزرا تھا، جب میں آپ کی قراء ت سن رہا تھا تو کاش تو مجھے دیکھتا، بلاشبہ توآل داؤد کے لہجوں میں سے ایک لہجہ دیا گیاہے۔ جب ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے یہ سنا تو عرض کیا کہ اگر مجھے معلوم ہوجاتا کہ آپ کھڑے سماعت فرما رہے ہیں، تو میں اس سے بھی زیادہ خوبصورت پڑھتا۔‘‘
’مزمار‘ بانسری کو کہتے ہیں اور یہاں ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی خوبصورت شیریں اور سُریلی آواز کو بانسری کی آواز سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ سیدناابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کوبے حد شیریں آواز سے نوازاگیا تھا، چنانچہ ابوعثمان نہدی فرماتے ہیں کہ:
’’کہ ایک روز میں ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ کے ہاں گیا۔ آپ تلاوت فرمارہے تھے۔ آپ کی آواز اس قدر پرسُوز تھی کہ میں نے ان کی آواز سے خوبصورت آواز کبھی طبلہ، سارنگی اور بانسری کی بھی نہیں سنی تھی۔‘‘ (فضائل القرآن لابن کثیر، ص۳۵)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
وہ حضرات جو قواعد موسیقی کے ساتھ قرآن پڑھنے کے قائل ہیں وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ قرآن کریم کو خوبصورت پڑھنا شرعاً مطلوب ہے اور قرآن کو خوبصورت پڑھنے کے لیے اگر تکلف سے کام لیا جائے اور بعض ایسے قواعد سے مدد لی جائے جس سے مطلوب حاصل ہوجائے تو یہ کون سی حرج کی بات ہے۔
اس حدیث میں جہاں تک تکلف کی بات ہے تو خوبصورت اور درست پڑھنے کے لیے تکلف سے کام لیا جائے تو اس میں واقعی کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اس میں کس حد تک تکلف ہوسکتا ہے اس کے لیے کچھ حدود قیودہیں مثلاً تجوید و قراء ات کے مدارس میں قرآن کریم کو خوبصورت اور درست پڑھنے کی غرض جو مشق کروائی جاتی ہے وہ سراسر تکلف ہے حتیٰ کہ اس بارے میںبعض من گھڑت قصے بھی مشہور ہیں لیکن اس تکلف سے کوئی بھی منع نہیں کرتا یعنی فطری انداز میں آدمی جس قدر خوبصورت قرآن پڑھ سکتا ہے، اس کی کوشش کرنی چاہئے اور شریعت میں اس کی بے حد حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ الغرض ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کی آپﷺ نے تعریف فرمائی تو انہوں نے کہا :
(أما أنی لو علمت بمکانک لحبَّرت لک تحبیرا )
آپ نے جب یہ جملے سنے تو آپ نے اس پر کوئی انکار نہیں فرمایا،جس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کو تکلفاً خوبصورت پڑھنے میں بھی کوئی حرج نہیں، لیکن یہاں سے کوئی کوتاہ نظر یہ سمجھ لے کہ قرآن کریم کو قواعد موسیقی (مقامات) پربھی پڑھنا درست اورجائز ہے، تو اس کی کج فکری کی اس سے بڑی کوئی دلیل نہیں ہے، کیونکہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ایک فطری تکلف کی بات کررہے تھے کہ اللہ رب العزت نے انہیں جو لحن داؤدی عطاکررکھی تھی وہ ایک وہبی اور فطری چیز ہے۔ اُسی میں مزید خوبصورتی اور نکھار سے پڑھنا مراد ہے نہ کہ قواعد موسیقی پر، کیونکہ انہیں ایسے فنون خبیثہ سے دور کا واسطہ بھی نہیںتھااور نہ ہی انہوں نے کسی سے یہ فن سیکھا تھا۔ ان کی فطری خوبصورتی کو’مزمار‘ سے تشبیہ دی گئی تھی، ورنہ لوگ جب قرآن کو ’مزمار‘ بنا کر صرف آوازوں کے پیچھے پڑجائیں گے تو ایسی حالت کو حدیث میں علامات الساعات میں ذکر کیا گیاہے۔ یہ فتن میں سے ایک فتنہ ہے۔
مسنداحمد میں سیدنا عباس5 سے روایت ہے، فرماتے ہیں:
(سمعت رسول اﷲ! بادروا بالموت ستا إمرۃ السفھاء وکثرۃ الشرط وبیع الحکم و استخفافاً بالدم وقطیعۃ الرحم و نشوا یتخذون القران مزامیر یقدمونہ یغنیھم وإن کان أقل منھم فقھا)(مسنداحمد:۳؍۴۹۴)
’’میں نے رسول اللہﷺسے سنا چھ چیزوں کے آنے سے پہلے موت طلب کرو۔بے وقوفوں کی امارت سے پہلے، شرطوں کی کثرت سے پہلے، انصاف کے بکنے سے پہلے، خون کے ارزاں ہونے سے پہلے، قطع رحمی عام ہونے سے پہلے اور ایسے لوگوں کے پیداہونے سے پہلے جو قرآن کو مزمار (بانسری) بنالیں گے اور ایسے لوگوں کو امام بنایا جائے گا جو قرآن کو اچھا گاتے ہوں گے اگرچہ وہ اُسے بہت کم سمجھتے ہوں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اور مصنف عبدالرزاق میں یہ الفاظ ہیں (وناس یتخذون القرآن مزامیر یتغنَّون بہ)
’’ ایسے لوگ آجائیں گے جو قرآن کو بانسری بنا لیں گے جس کے ساتھ وہ گائیں گے۔‘‘ العیاذ باللہ
لہٰذا سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث کاسہارا لے کر قرآن کریم کو قواعد موسیقی پر پڑھنا یہ کسی طرح بھی درست نہیں ہے، بلکہ وہ ایک فطری حسن تھا جس میں تلاوت قرآن کی جمیع شروط موجود تھیں، جبکہ مقامات پر پڑھنا ایک غیر فطری، غیر شرعی اور حرام کام ہے، جس میں تلاوت قرآن کی تقریباً جمیع شروط مفقود ہوتی ہیں،کیونکہ وہاں قواعد ترتیل کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں اور جوشخص آواز کی سروں اور قواعد موسیقی پرتوجہ دے گا وہ خاک تدبر اور تفکر کرے گا۔ باقی دو شرائط تو ابتداء ہی مفقود ہوجاتی ہیں۔ اس کے علاوہ قواعد موسیقی پر تلاوت کرنے سے جو خرابیاں لازم آتی ہیں وہ اس حدیث پر غور کرنے سے خوب آشکارا ہوجائیں گی:
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نبی مکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا:
(إقرء وا القرآن بلحون العرب وأصواتھا وإیاکم ولحون أہل الکتاب والفسق فإنہ سیجیئ من بعدی أقوام یرجعون بالقرآن ترجیع الغناء والنوح لایجاوز حناجرھم مفتونۃً قلوبھم وقلوب الذین یعجبھم شأنھم) (الطبرانی فی الأوسط)
’’قرآن کریم کو عرب کے لب و لہجہ میں پڑھو، اہل کتاب اور فساق کے لہجو سے بچو، بلا شبہ میرے بعد کچھ قومیں آئیں گی جو قرآن کریم کو گلوکاروں اور نوحہ خانوں کی طرح لوٹا لوٹا کر پڑھیں گے۔ قرآن ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترے گا وہ لوگ خود اور جو ان کوقابل عزت سمجھیں گے ان کے دل فتنوں میں مبتلاہوں گے۔‘‘
مذکورہ روایت پر غور کریں تو کئی ایک باتیں سامنے آتیں ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) إقرء وا القرآن بلحون العرب وأصواتھا، قرآن کریم کو عرب کے لب و لہجہ میں پڑھو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عرب کے لب و لہجہ کے علاوہ کسی دوسری قوم کے لب و لہجہ میں پڑھنا درست نہیں ہے،کیونکہ مذکورہ روایت میں اس بات کا امر ہے کہ عرب کے لب ولہجہ میں پڑھو اور یہ وجوب کامتقاضی ہے اور اس کے خلاف پڑھنا حرام ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا موسیقی کا تعلق عرب سے ہے یا نہیں، تو اس بارے میں اختلاف ہے کہ موسیقی کا موجد اور بانی کون ہے۔ قدیم تمدن کے ورثاء اسے یونان کی پیداوار کہتے ہیں اور اسے اپنے دیوتا میوزس کی نو بیٹیوں کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ ہندو موسیقی کا بانی اپنے دیوتا برہما کو قرار دیتے ہیں۔ ایرانیوں اور فارسیوں کا نقطہ نظر ہے کہ موسیقی حکیم فیثا غورث نے ایجاد کی ہے اور بعض کے ہاں موسیقی کاخالق دیوتا مہادیو ہے۔‘‘ (اسلام اورموسیقی، ماہنامہ ’ترجمان الحدیث‘، جون ۱۹۷۰ء)
اس سے قطع نظر کہ موسیقی کا حقیقی اور اصلی بانی کون ہے۔یہ بات متفق علیہ ہے کہ اس کا بانی کوئی نہ کوئی عجمی ہے ، عرب کا اس کی ایجاد سے کوئی تعلق نہیں اور حدیث رسولﷺ کے مطابق قرآن کریم کو عرب کے لب و لہجہ میں پڑھنا ہی لازمی و ضروری ہے اور موسیقی بنیادی طور پر عرب کے لب و لہجہ میں داخل ہی نہیں اس لیے قرآن کو اس پر پڑھنا ناجائز اور حرام ہے۔ میں اس میں قطعاً داخل نہیں ہوں گاکہ موسیقی کا شرعی حکم کیاہے یہ بالکل واضح ہے۔ اب اگر کوئی وسعت نظر رکھنے والے قاری صاحب یہ فرمائیں کہ مقامات (قواعد موسیقی) کے موافق مصری قراء بھی پڑھتے ہیں جو کہ عرب ہیں اور ان کی تقلید کرتے ہوئے ہم بھی پڑھیں تو کون سی حرج کی بات ہے تو ان کی اجتہادی بصیرت اور دقتِ نظر پر سوائے ماتم کے ،کیا کیا جاسکتاہے۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ جناب اس کا عرب کے لب و لہجہ سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ انہوں نے ایک خارجی شے کو اپنے لب و لہجہ میں داخل کیا ہے اور آج کل کے نوخیز قراء نے اُسے پروان چڑھایا ہے۔اس کا بنیادی طور پر عرب کے لب و لہجہ سے دور کاواسطہ بھی نہیں ہے اور قرآن اس سے بالکل منزہ اور پاک ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ایک سوال یہ بھی پیداکیا جاتاہے کہ مقامات کے موافق صرف موجودہ نوخیز قراء مصر ہی نہیں پڑھتے بلکہ متقدمین قراء مصر جیساکہ شیخ رفعت رحمہ اللہ ہیں، وہ بھی مقامات (قواعد موسیقی) کے موافق ہی پڑھتے تھے تو ان کی خدمت میں عرض ہے اس بارے میں اللہ سے ڈرنا چاہئے اوربہتان طرازی سے گریز کرنا چاہئے اور اِن ورع وتقویٰ کے حامل اماموں کو اس فن خبیث سے دور رکھنا چاہئے۔ اس بہتان کی حقیقت کچھ یوں ہے کہ جب ان گلوکاروں نے جو مقامات اور قواعد موسیقی کی تربیت دیتے تھے، انہوں نے ان کی تلاوت سنی تو انہوں نے اپنے فن کی بنیاد پراستقرائی طور پرکہا کہ یہ فلاں مقام میں پڑھ رہے ہیں اور اس طرح ان کو قواعد موسیقی اور مقامات کا ماہر قرار دے دیا۔ اس کو یوں سمجھنا آسان ہے جس طرح آپ نے مقامات کی تعریف میں پڑھا کہ مرغ مقام صبامیں اَذان دیتاہے اور شیر مقام رست میں دھاڑتا ہے اب کوئی عقل و دانش سے عاری شخص ہی کہے گا کہ مرغ اور شیر قواعد موسیقی یا مقامات کے ماہر ہیں اور قواعد موسیقی کا پوراخیال رکھتے ہوئے اَذان دیتے یادھاڑتے ہیں۔
اگر آپ کی نظر سے علم مقامات کا کوئی مذکرہ گزرا ہو تو اس میں آپ کو یہ بھی ملے گا کہ شیخ سعود شریم حفظہ اللہ فلاں مقام پر پڑھتے ہیں، حالانکہ ان کا تعلق علماء کے اس گروہ سے ہے جو مقامات کے سخت مخالف ہیں۔بالکل اسی طرح انہوں نے متقدمین مصری قراء کو مقامات کا ماہر قرار دیا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ استاد محترم قاری حمزہ مدنی حفظہ اللہ، جو سالہا سال سے کویت میں تراویح پڑھاتے ہیں، ان کی خوش آوازی کی وجہ سے بعض موسیقار بھی ان کاقرآن سننے آتے ہیں اور بعد میں وہ انہیں بتاتے ہیں کہ آج آپ نے فلاں فلاں مقام پر تلاوت کی ہے ، حالانکہ ان کے بقول انہوں نے تو کبھی کوئی گانا بھی نہیں سنا ، چہ جائیکہ ان مقامات سے واقفیت رکھتے ہوں۔
(٢) وإیَّاکم وأصوات أہل الکتاب والفسق: ’’اہل کتاب اور فساق کی آوازوں سے بچو۔‘‘
اہل کتاب کی آوازوں سے بچنے کے لیے اس لیے کہا گیاہے کہ وہ بھی خاص لہجوں میں گرجا گھروں میں اپنی کتب کو گاتے تھے جو آج کل بہت زیادہ بڑھ کر یہاں پہنچ چکی ہے کہ وہ باقاعدہ موسیقی کا اہتمام کرکے اس کے ساز میں اپنی کتب کو پڑھتے ہیں اور فساق لوگوں سے مراد گلوکار اور قوال قسم کے لوگ ہیں،جو شاعری کو خاص سروں اور دھنوں پرگاتے ہیں۔اس لیے قرآن کریم کو گلوکاروں کے اور قوالوں کے انداز پر بھی پڑھنا ممنوع ہے اور انہیں فساق اس لیے کہا گیا ہے کہ موسیقی اور گانا بجانا متقی اور شرفاء لوگوں کا شیوہ نہیں ہے بلکہ منافقین اور فاسقوں کے ٹولے کا ہی طرزعمل ہے اس لیے قرآن کریم کو ایسی اوازوں پر پڑھنے سے بھی منع کیاگیا ہے۔
(٣) (فإنہ سیجیئ من بعدی أقوام یرجعون بالقرآن ترجیع الغناء النوح)
’’آپﷺ نے فرمایا: بلا شبہ میرے بعد ایسی قومیں ائیں گی جو گانوں اور نوحوں کی طرح لوٹا لوٹا کرپڑھیں گی۔‘‘
حدیث کا یہ ٹکڑا انتہائی قابل غور اور قابل التفات ہے کہ گانوں اور نوحوں کی طرح لوٹا لوٹا کر پڑھنے کا اس کے سوا کیا مطلب ہوسکتا ہے کہ قاری آیت کو ایک مرتبہ مقام رست میں پڑھے پھر مقام صبا میں پڑھے۔پھر مقام’ نھاوند‘ میں پڑھے پھر مقام ’سیکا‘ میں پڑھے، علی ہذا القیاس اگر یہ ترجیح اور لوٹانا گلوکاروں اورنوحہ خانوں سا نہیں ہیں تو کن کی طرح لوٹا رہے ہیں۔ العیاذ باﷲ
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اب بھی اگر کوئی صاحب یہ کہے کہ قرآن کو قواعد موسیقی پر پڑھنا جائز ہے تو پھر وہ حدیث کی یہ وعید سن لے۔
(٤) (لا یجاوز حناجرھم مفتونۃ قلوبھم وقلوب الذین یعجبھم شأنھم)
مذکورہ بالاصفات کے مالک جو قراء ہیں، قرآن ان کے دلوں سے نیچے نہیں اترتا خود ان کے اور ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھنے والے لوگوں کے دل فتنہ میں مبتلا ہیں۔
لہٰذا وہ قراء جو آج کل قواعد موسیقی (مقامات) پر قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ اس فتنہ سے خود بھی نکلیں اور سامعین کوبھی نکالیں لوگوں سے داد وصول کرنے کے چکر میں اپنی اور عوام الناس کی آخرت تباہ نہ کریں۔
اب ہم اس مسئلہ پرمتقدمین اور متاخرین فقہاء اورعلماء کا نقطہ نظر ذکر کرتے ہیں اور اس کے بعد راجح مسلک کی نشاندہی کرتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قواعد موسیقی کے مطابق قرآن پڑھنے پرفقہاء کا نقطۂ نظر

اس مسئلہ میں فقہاء کے دو نقطۂ نظر ہیں:
پہلا گروہ
اس میں ایسے علماء اور فقہاء شامل ہیں جو قواعد موسیقی (مقامات)کے موافق تلاوت کرنے کو حرام اور مکروہ سمجھتے ہیں اس میں کئی ایک ائمہ شامل ہیں، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام عبدالوھاب مالکی رحمہ اللہ نے امام مالک سے اور امام طبری، ماوردی اور ابن حمدان الحنبلی رحمہم اللہ نے اہل علم کی ایک جماعت سے الحان (قواعد موسیقی) میں قراء ت کی حرمت بیان کی ہے۔ اس کے علاوہ ابن بطال، قاضی عیاض، قرطبی، شافعیہ میں سے البندنیجی، غزالی رحمہم اللہ اور احناف میں سے صاحب الذخیرہ کراہت کے قائل ہیں۔
نیز ہمیں بعض تفصیلی اَقوال بھی ملے ہیں، ذیل میں ہم انہیں ذکر کرتے ہیں:
 
Top