(٢) اس سے مراد وہ خوش الحانی اور سُر ہے جس میں تکلف اور تصنع ہواور طبیعت کے غیر موافق ہو جس کا حصول تکلف اور تصنع کے بغیر ناممکن ہو جس طرح موسیقی کی تعلیم حاصل کی جاتی ہے اور مخصوص اور من گھڑت اوزان پر گایا جاتاہے۔ ایسی خوش الحانی کو سلف صالحین نے ناپسند کیا ہے اس کی مذمت کی ہے،اس کا انکار کیاہے، اس کو معیوب قرار دیا ہے اور اس سے برأت کا اعلان کیاہے۔ اور ہر وہ شخص جو احوال سلف سے واقف ہے وہ بخوبی اس سے آگاہ ہے کہ وہ قواعد موسیقی پر تلاوت کرنے سے بری تھے اور اس کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔‘‘ (زاد المعاد)گویا اس سے مراد وہ خوش الحانی ہے جس میں بے جاتکلف اور تصنع نہ ہو بلکہ وہ انسانی طبیعت کا حصہ ہو اور اس میں شامل ہو یہی وہ خوش الحانی ہے جس پر سلف عمل کرتے تھے اور یہی ممدوح اور محمود تغنی ہے اور اسی سے ہی سامع متاثر ہوسکتاہے۔
اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے اللہ رب العزت ہمیں قرآن کریم کو صحیح اور درست پڑھنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین
جو مشہور مقامات ہیں مثلا رست ، سیکا ، نہاوند ، صبا وغیرہ میں سے کوئی ایک لفظ یوٹیوب میں لکھ کر تلاش کریں ۔ بہت کچھ مل جائے گا ۔اسلام علیکم
جزاک اللہ
بھائی میرے جیسے کم فہم لوگوں کے لئے اگر آپ مثالوں سے واضح کر دیں کہ الحان کسے کہتے ہیں اور موجودہ یا ماضی قریب میں کون سے معروف قراء الحان سے پڑھتے ہیں تو بات کو سمجھنا آسان ہو جائے گا۔
پتا نہیں بھائی جان ۔قاری مشاری بن راشد العفاسی کے بارے میں مجھے کچھ شک ہے۔ ان کی قراءت کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ خضر حیات
محترم خضر حیات بھائی کیا واقعی اوپر جو بتایا گیا ہے کہ لحن کا سکھانا ٹھیک نہیں جیسے آج کل ترتیل کی تعلیم دی جاتی ہے اور باقاعدہ ایک مضمون کے طور پر (چند مدارس ) میں پڑھائی جاتی ہے میں نے وہاں بھی یہی سوال کیا تھا کہ ایک مدرسے والے اسکو سکھانا چاہتے ہیں کیا امام الجوزیہ رحمہ اللہ کی بات پر سب کا اتفاق ہےراجح اور معتدل مؤقف
حافظ ابن قیم الجوزیۃ رحمہ اللہ نے اپنی مشہور تصنیف زاد المعاد فی ھدي خیر العباد میں اس مسئلہ میں اَحادیث اور علماء کے اقوال ذکر کرنے کے بعد جو فیصلہ کن اور راجح بات نقل کرتے ہیں،ہمارے نزدیک بھی وہی راہ صواب اور راجح موقف ہے۔فرماتے ہیں:
’’ قرآن کریم کو خوش الحانی اور سُر لگا کر پڑھنے کی دوقسمیں ہیں:
(١) وہ خوش الحانی جس کا طبیعت تقاضا کرتی ہے اور بغیر تکلف و تعلیم زبان پر جاری ہوجائے یعنی جب طبیعت کوکھلا چھوڑ دیا جائے تو مذکورہ خوش الحانی اور سُر خود بخود ہی جاری ہو جائے تو یہ درست اور جائز ہے۔ جس طرح حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا تھا (لوعلمت أنک تسمع لحبرت لک تحبیرا )
(٢) اس سے مراد وہ خوش الحانی اور سُر ہے جس میں تکلف اور تصنع ہواور طبیعت کے غیر موافق ہو جس کا حصول تکلف اور تصنع کے بغیر ناممکن ہو جس طرح موسیقی کی تعلیم حاصل کی جاتی ہے اور مخصوص اور من گھڑت اوزان پر گایا جاتاہے۔ ایسی خوش الحانی کو سلف صالحین نے ناپسند کیا ہے اس کی مذمت کی ہے،اس کا انکار کیاہے، اس کو معیوب قرار دیا ہے اور اس سے برأت کا اعلان کیاہے۔ اور ہر وہ شخص جو احوال سلف سے واقف ہے وہ بخوبی اس سے آگاہ ہے کہ وہ قواعد موسیقی پر تلاوت کرنے سے بری تھے اور اس کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔‘‘ (زاد المعاد)
نہیں بھائی اتفاق تو نہیں ہے ۔ مسئلہ مختلف فیہ ہے ۔محترم خضر حیات بھائی کیا واقعی اوپر جو بتایا گیا ہے کہ لحن کا سکھانا ٹھیک نہیں جیسے آج کل ترتیل کی تعلیم دی جاتی ہے اور باقاعدہ ایک مضمون کے طور پر (چند مدارس ) میں پڑھائی جاتی ہے میں نے وہاں بھی یہی سوال کیا تھا کہ ایک مدرسے والے اسکو سکھانا چاہتے ہیں کیا امام الجوزیہ رحمہ اللہ کی بات پر سب کا اتفاق ہے