• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن کریم کو قواعد موسیقی پرپڑھنے کی شرعی حیثیت

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ
’’انھم کانو یستمعون القرآن بالألحانِ‘‘ (زاد المعاد:۱؍۴۸۶)
’’کہ ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب قرآن کو الحان کے ساتھ سنتے تھے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
امام شافعی رحمہ اللہ
’’ قال محمد بن عبد الحکم رأیت أبی ویوسف بن عمرو الشافعی یستمعون القرآن بالألحان‘‘ (زاد المعادحوالہ مذکورہ)
’’محمد بن حکم کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ امام شافعی اور یوسف بن عمرؒ کودیکھا کہ وہ الحان (قواعد موسیقی) کے ساتھ قرآن سنتے تھے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
راجح اور معتدل مؤقف
حافظ ابن قیم الجوزیۃ رحمہ اللہ نے اپنی مشہور تصنیف زاد المعاد فی ھدي خیر العباد میں اس مسئلہ میں اَحادیث اور علماء کے اقوال ذکر کرنے کے بعد جو فیصلہ کن اور راجح بات نقل کرتے ہیں،ہمارے نزدیک بھی وہی راہ صواب اور راجح موقف ہے۔فرماتے ہیں:
’’ قرآن کریم کو خوش الحانی اور سُر لگا کر پڑھنے کی دوقسمیں ہیں:
(١) وہ خوش الحانی جس کا طبیعت تقاضا کرتی ہے اور بغیر تکلف و تعلیم زبان پر جاری ہوجائے یعنی جب طبیعت کوکھلا چھوڑ دیا جائے تو مذکورہ خوش الحانی اور سُر خود بخود ہی جاری ہو جائے تو یہ درست اور جائز ہے۔ جس طرح حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا تھا (لوعلمت أنک تسمع لحبرت لک تحبیرا )
گویا اس سے مراد وہ خوش الحانی ہے جس میں بے جاتکلف اور تصنع نہ ہو بلکہ وہ انسانی طبیعت کا حصہ ہو اور اس میں شامل ہو یہی وہ خوش الحانی ہے جس پر سلف عمل کرتے تھے اور یہی ممدوح اور محمود تغنی ہے اور اسی سے ہی سامع متاثر ہوسکتاہے۔
(٢) اس سے مراد وہ خوش الحانی اور سُر ہے جس میں تکلف اور تصنع ہواور طبیعت کے غیر موافق ہو جس کا حصول تکلف اور تصنع کے بغیر ناممکن ہو جس طرح موسیقی کی تعلیم حاصل کی جاتی ہے اور مخصوص اور من گھڑت اوزان پر گایا جاتاہے۔ ایسی خوش الحانی کو سلف صالحین نے ناپسند کیا ہے اس کی مذمت کی ہے،اس کا انکار کیاہے، اس کو معیوب قرار دیا ہے اور اس سے برأت کا اعلان کیاہے۔ اور ہر وہ شخص جو احوال سلف سے واقف ہے وہ بخوبی اس سے آگاہ ہے کہ وہ قواعد موسیقی پر تلاوت کرنے سے بری تھے اور اس کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔‘‘ (زاد المعاد)
اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے اللہ رب العزت ہمیں قرآن کریم کو صحیح اور درست پڑھنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین
 
شمولیت
اپریل 21، 2011
پیغامات
36
ری ایکشن اسکور
147
پوائنٹ
71
اسلام علیکم
جزاک اللہ
بھائی میرے جیسے کم فہم لوگوں کے لئے اگر آپ مثالوں سے واضح کر دیں کہ الحان کسے کہتے ہیں اور موجودہ یا ماضی قریب میں کون سے معروف قراء الحان سے پڑھتے ہیں تو بات کو سمجھنا آسان ہو جائے گا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اسلام علیکم
جزاک اللہ
بھائی میرے جیسے کم فہم لوگوں کے لئے اگر آپ مثالوں سے واضح کر دیں کہ الحان کسے کہتے ہیں اور موجودہ یا ماضی قریب میں کون سے معروف قراء الحان سے پڑھتے ہیں تو بات کو سمجھنا آسان ہو جائے گا۔
جو مشہور مقامات ہیں مثلا رست ، سیکا ، نہاوند ، صبا وغیرہ میں سے کوئی ایک لفظ یوٹیوب میں لکھ کر تلاش کریں ۔ بہت کچھ مل جائے گا ۔
فاضل مضمون نگار کے نزدیک یہ مقامات موسیقی کی مختلف سریں ہیں ۔ اور ’’ الحان ‘‘ بھی بعض دفعہ اسی کو کہاجاتا ہے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
راجح اور معتدل مؤقف
حافظ ابن قیم الجوزیۃ رحمہ اللہ نے اپنی مشہور تصنیف زاد المعاد فی ھدي خیر العباد میں اس مسئلہ میں اَحادیث اور علماء کے اقوال ذکر کرنے کے بعد جو فیصلہ کن اور راجح بات نقل کرتے ہیں،ہمارے نزدیک بھی وہی راہ صواب اور راجح موقف ہے۔فرماتے ہیں:
’’ قرآن کریم کو خوش الحانی اور سُر لگا کر پڑھنے کی دوقسمیں ہیں:
(١) وہ خوش الحانی جس کا طبیعت تقاضا کرتی ہے اور بغیر تکلف و تعلیم زبان پر جاری ہوجائے یعنی جب طبیعت کوکھلا چھوڑ دیا جائے تو مذکورہ خوش الحانی اور سُر خود بخود ہی جاری ہو جائے تو یہ درست اور جائز ہے۔ جس طرح حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا تھا (لوعلمت أنک تسمع لحبرت لک تحبیرا )

(٢) اس سے مراد وہ خوش الحانی اور سُر ہے جس میں تکلف اور تصنع ہواور طبیعت کے غیر موافق ہو جس کا حصول تکلف اور تصنع کے بغیر ناممکن ہو جس طرح موسیقی کی تعلیم حاصل کی جاتی ہے اور مخصوص اور من گھڑت اوزان پر گایا جاتاہے۔ ایسی خوش الحانی کو سلف صالحین نے ناپسند کیا ہے اس کی مذمت کی ہے،اس کا انکار کیاہے، اس کو معیوب قرار دیا ہے اور اس سے برأت کا اعلان کیاہے۔ اور ہر وہ شخص جو احوال سلف سے واقف ہے وہ بخوبی اس سے آگاہ ہے کہ وہ قواعد موسیقی پر تلاوت کرنے سے بری تھے اور اس کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔‘‘ (زاد المعاد)
محترم خضر حیات بھائی کیا واقعی اوپر جو بتایا گیا ہے کہ لحن کا سکھانا ٹھیک نہیں جیسے آج کل ترتیل کی تعلیم دی جاتی ہے اور باقاعدہ ایک مضمون کے طور پر (چند مدارس ) میں پڑھائی جاتی ہے میں نے وہاں بھی یہی سوال کیا تھا کہ ایک مدرسے والے اسکو سکھانا چاہتے ہیں کیا امام الجوزیہ رحمہ اللہ کی بات پر سب کا اتفاق ہے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
محترم خضر حیات بھائی کیا واقعی اوپر جو بتایا گیا ہے کہ لحن کا سکھانا ٹھیک نہیں جیسے آج کل ترتیل کی تعلیم دی جاتی ہے اور باقاعدہ ایک مضمون کے طور پر (چند مدارس ) میں پڑھائی جاتی ہے میں نے وہاں بھی یہی سوال کیا تھا کہ ایک مدرسے والے اسکو سکھانا چاہتے ہیں کیا امام الجوزیہ رحمہ اللہ کی بات پر سب کا اتفاق ہے
نہیں بھائی اتفاق تو نہیں ہے ۔ مسئلہ مختلف فیہ ہے ۔
اس مضمون میں دونوں آراء اور ان کے دلائل ذکر کردیے گئے ہیں طرفین کے دلائل کو پڑھ کر فیصلہ کرلیں کے آپ کے نزدیک کیا موقف درست ہے ۔
اگر آپ نے یہ مضمون مکمل ملاحظہ کر لیا ہے تو کچھ باتیں آپ کو بالکل واضح نظر آئیں گی کہ :
1۔ قرآن کو خوبصورتی سے پڑھنا چاہیے ۔ اور اس میں محنت بھی کرنی چاہیے ۔
2۔ قرآن کو گانے بجائے کی طرح پڑھنا درست نہیں ۔ اور نہ ہی وہ طرز اختیار کیا جائے جس سے قرآن کی حرمت و تقدس پر حرف آتا ہو ۔
ان دو باتوں کا خیال رکھتے ہوئے اگر کسی مدرسے والے اس کا اہتمام کرنا چاہتے ہیں تو بہترین اقدام ہے ۔
 
Top