• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قسطوں میں خرید و فروخت ۔

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
ماشاء اللہ عمدہ معلومات ہیں. جزاکم اللہ خیرا
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
upload_2017-6-6_4-51-43.png
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے جواز کی روایت سے اگر صاحب مضمون کا اشارہ سنن أبی داؤد کی مندرجہ ذیل روایت کی طرف ہے :أَنَّ النَّبِیَّؐ أَمَرَہ، أَنْ یُّجَھِّزَ جَیْشاً فَنَفِدَتِ الْاِبِلُ ، فَأَمَرَہ، أَنْ یَأْخُذَ عَلٰی قَلَائِصِ الصَّدَقَۃِ ، فَکَانَ یَأْخُذُ الْبَعِیْرَ بِالْبَعِیْرَیْنِ إِلٰی إِبِلِ الصَّدَقَۃِ.(مشکٰوۃ المصابیح بتحقیق الألبانی٢/٨٥٨).
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما روایت کر تے ہیں کہ نبی ؐ نے انہیں ایک لشکر کی تیاری کا حکم دیا ،اونٹ کم پڑ گئے تو آپؐ نے انہیں فرمایا : صدقے کی اونٹنیاْں آنے تک ادھار لے لو ،چنانچہ وہ صدقے کے اونٹ آنے تک دو اونٹوں کے بدلے ایک اونٹ لیتے تھے (یعنی جس سے ادھار اونٹ لیتے اسے کہتے کہ جب صدقے کے اونٹ آئیں گے توہم تمہیں ایک کی بجائے دو اونٹ دیں گے )
تو اس روایت کے بارے میں محدث البانی کہتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے ۔( مشکٰوۃ المصابیح بتحقیق الألبانی ٢/٨٥٨).
اس حدیث کو بعض محققین نے حسن قرار دیا ہے،جیسا کہ حافظ زبیر علی زئی نے اسے حسن کہا ہے،سنن ابوداود حدیث٣٣٥٧،طبع دار السلام لاہور
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے جواز کی روایت سے اگر صاحب مضمون کا اشارہ سنن أبی داؤد کی مندرجہ ذیل روایت کی طرف ہے :أَنَّ النَّبِیَّؐ أَمَرَہ، أَنْ یُّجَھِّزَ جَیْشاً فَنَفِدَتِ الْاِبِلُ ، فَأَمَرَہ، أَنْ یَأْخُذَ عَلٰی قَلَائِصِ الصَّدَقَۃِ ، فَکَانَ یَأْخُذُ الْبَعِیْرَ بِالْبَعِیْرَیْنِ إِلٰی إِبِلِ الصَّدَقَۃِ.(مشکٰوۃ المصابیح بتحقیق الألبانی٢/٨٥٨).
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما روایت کر تے ہیں کہ نبی ؐ نے انہیں ایک لشکر کی تیاری کا حکم دیا ،اونٹ کم پڑ گئے تو آپؐ نے انہیں فرمایا : صدقے کی اونٹنیاْں آنے تک ادھار لے لو ،چنانچہ وہ صدقے کے اونٹ آنے تک دو اونٹوں کے بدلے ایک اونٹ لیتے تھے (یعنی جس سے ادھار اونٹ لیتے اسے کہتے کہ جب صدقے کے اونٹ آئیں گے توہم تمہیں ایک کی بجائے دو اونٹ دیں گے )
تو اس روایت کے بارے میں محدث البانی کہتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے ۔( مشکٰوۃ المصابیح بتحقیق الألبانی ٢/٨٥٨).
اس طرح علامہ البانی نے بھی اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے،چناں چہ وہ لکھتے ہیں
الطريق الأخرى : عن ابن جريج أن عمرو بن شعيب . أخبره عن أبيه عن عبد الله بن عمرو بن العاص : " أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمره أن يجهز جيشا ، قال عبد الله بن عمرو : وليس عندنا ظهر ، قال : فأمره النبي صلى الله عليه وسلم أن يبتاع ظهرا إلى خروج المصدق ، فابتاع عبد الله بن عمرو البعير بالبعيرين ، وبأبعرة ، إلى خروج المصدق بأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم " . أخرجه البيهقي والدارقطني وعنه ( 5 / 287 - 288 ) ثاهدا للطريق الأولى وذكر أنه " شاهد صحيج " . وأقره ابن التركماني في " الجوهر النقي " بل تأوله ، ولم يتعقبه بشئ . كما هي عادته ! وأقره الحافظ في " التلخيص " وصرح في " الدراية " ( ص 288 ) بأن إسناده قوي . قلت : وهو حسن الإسناد ، للخلاف المعروف في رواية عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده . ( تنبيهان ) : الأول : لم يورد الزيلعي في كتابه هذه الطريق ، فأوهم أن الحديث ضعيف لم يأت إلا من الطريق الأولى الضعيفة ! الثاني : ذكر المصنف رحمه الله أن الدارقطني صححه ، ولم أر ذلك في سننه ولا ذكره أحد غيره فيما علمت ، وإنما صححه البيهقي كما تقدم ، فلعله سقط من الناسخ قوله : " والبيهقي " . قبل قوله : " صححه " . والله أعلم

ارواء الغلیل؛حدیث؛
1358


اس کے ساتھ ساتھ جناب شعیب الارناؤط نے بھی اس حدیث کو حسن کہا ہے،دیکھیے مسند احمد؛حدیث؛٦٥٩٣
 
Last edited:

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
پھر سمرۃبن جندب کی حدیث سے ثابت ہے جو کہ ترمذی ، ابو داؤد ، نسائی،ابن ماجہ ،دارمی ، أحمد، أبو یعلٰی اور المختارۃ للضیاء میں ہے :(أَنَّ الْنَّبِیَّؐ نَھٰی عَنْ بَیْعِ الْحَیَوَانِ بِالْحَیَوَانِ نَسِیْئَۃً) .نبی ؐنے حیوان کی حیوان کے ساتھ ادھار بیع سے منع فرمایا ۔
‌صحيح البخاري: كِتَابُ البُيُوعِ (بَابُ بَيْعِ العَبِيدِ وَالحَيَوَانِ بِالحَيَوَانِ نَسِيئَةً)
صحیح بخاری: کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان (باب : غلام کو غلام کے بدلے اورکسی جانور کو جانور کے بدلے ادھار بیچنا)

ترجمة الباب: وَاشْتَرَى ابْنُ عُمَرَ رَاحِلَةً بِأَرْبَعَةِ أَبْعِرَةٍ مَضْمُونَةٍ عَلَيْهِ، يُوفِيهَا صَاحِبَهَا بِالرَّبَذَةِ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ «قَدْ يَكُونُ البَعِيرُ خَيْرًا مِنَ البَعِيرَيْنِ» وَاشْتَرَى رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ بَعِيرًا بِبَعِيرَيْنِ فَأَعْطَاهُ أَحَدَهُمَا، وَقَالَ: «آتِيكَ بِالْآخَرِ غَدًا رَهْوًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ» وَقَالَ ابْنُ المُسَيِّبِ: لاَ رِبَا فِي الحَيَوَانِ: البَعِيرُ بِالْبَعِيرَيْنِ، وَالشَّاةُ بِالشَّاتَيْنِ إِلَى أَجَلٍ وَقَالَ ابْنُ سِيرِينَ: «لاَ بَأْسَ بَعِيرٌ بِبَعِيرَيْنِ نَسِيئَةً»
ترجمۃ الباب : اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک اونٹ چار اونٹوں کے بدلے میں خریدا تھا۔ جن کے متعلق یہ طے ہوا تھا کہ مقام ربذہ میں وہ انہیں اسے دے دیں گے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ کبھی ایک اونٹ، دو اونٹوں کے مقابلے میں بہتر ہوتا ہے۔ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے ایک اونٹ دو اونٹوں کے بدلے میں خریدا تھا۔ ایک تو اسے دے دیا تھا، اور دوسرے کے متعلق فرمایا تھا کہ وہ کل ان شاءاللہ کسی تاخیر کے بغیر تمہارے حوالے کر دوں گا۔ سعید بن مسیب نے کہا کہ جانوروں میں سود نہیں چلتا۔ ایک اونٹ دو اونٹوں کے بدلے، اور ایک بکری دو بکریوں کے بدلے ادھار بیچی جاسکتی ہے ابن سیرین نے کہا کہ ایک اونٹ دو اونٹوں کے بدلے ادھار بیچنے میں کوئی حرج نہیں۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
پھر سمرۃبن جندب کی حدیث سے ثابت ہے جو کہ ترمذی ، ابو داؤد ، نسائی،ابن ماجہ ،دارمی ، أحمد، أبو یعلٰی اور المختارۃ للضیاء میں ہے :(أَنَّ الْنَّبِیَّؐ نَھٰی عَنْ بَیْعِ الْحَیَوَانِ بِالْحَیَوَانِ نَسِیْئَۃً) .نبی ؐنے حیوان کی حیوان کے ساتھ ادھار بیع سے منع فرمایا ۔
امام احمد کے نزدیک یہ روایت ہی معلول ہے اور امام ابو داود کے نزدیک احادیث میں اختلاف کی صورت میں صحابہ کے آثار کی طرف رجوع کیا جائے گا؛
وأما أحاديث النهي عن بيع الحيوان بالحيوان نسيئة ، كالحديث الذي رواه الترمذي في جامعه (1237) عن سمرة رضي الله عنه : " أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع الحيوان بالحيوان نسيئة " - فقد أعلها الإمام أحمد رحمه الله ، وقال : ليس فيها حديث يعتمد عليه ، وقال أبو داود : إذا اختلفت الأحاديث عن النبي صلى الله عليه وسلم : نظرنا إلى ما عمل به أصحابه من بعده .
وقد تواتر عن الصحابة رضي الله عنهم ومن بعدهم جوازه متفاضلا ونسيئة ، وأمر به صلى الله عليه وسلم كما سبق ، فدل ذلك على أنه الثابت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فلا تقوى أحاديث النهي عن ذلك على المعارضة
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
محترم حافظ عمران بھائی آپ نے شیخ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ کے مضمون پہ کچھ اشکال اٹھائے ہیں لیکن بات ابھی مبہم ہے
آپ ایسا کریں کہ پہلے اپنا موقف لکھیں پھر اس موقف پہ اپنی کوئی ٹھوس دلیل لکھیں اسکے بعد اگر شیخ رحمہ اللہ کے موقف کے خلاف آپ کا موقف ہو تو پھر پہلے شیخ رحمہ اللہ کے موقف کی دلیل لکھیں اور پھر اس دلیل کا رد لکھیں
اسکے بعد یہ بھی یاد رکھیں کہ آپ کے موقف کے خلاف شیخ رحمہ اللہ کی صرف ایک دلیل کا رد مطلوب نہیں گا بلکہ انکی تمام دلیلوں کا رد اگر ہو سکے تو ایک ایک کر کے لکھ دیں پھر اس پہ نمبر وار بات کر لیتے ہیں جزاکم اللہ خیرا
 
شمولیت
جولائی 07، 2014
پیغامات
155
ری ایکشن اسکور
51
پوائنٹ
91
اس موضوع پر ناچیز کا بھی ایک مضمون ہے جو کہ المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی سے شائع ہونے والے سہہ ماہی رسالے کی خاص اشاعت معیشت نمبر میں شائع ہوا ہے۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ اس کی اسکین تصاویر یہاں پیسٹ کردوں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اس کی اسکین تصاویر یہاں پیسٹ کردوں۔
اس سے بھی بہتر یہ ہے کہ اسے یونیکوڈ میں یہاں لگائیں ، تاکہ پڑھنا بھی آسان ہو ، اور اگر کوئی تبصرہ وغیرہ کرنا چاہیے تو اقتباس لینا بھی ممکن ہو ۔ ویسے بھی تصویر گوگل سرچ وغیرہ میں نہیں آتی ۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
محترم حافظ عمران بھائی آپ نے شیخ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ کے مضمون پہ کچھ اشکال اٹھائے ہیں لیکن بات ابھی مبہم ہے
آپ ایسا کریں کہ پہلے اپنا موقف لکھیں پھر اس موقف پہ اپنی کوئی ٹھوس دلیل لکھیں اسکے بعد اگر شیخ رحمہ اللہ کے موقف کے خلاف آپ کا موقف ہو تو پھر پہلے شیخ رحمہ اللہ کے موقف کی دلیل لکھیں اور پھر اس دلیل کا رد لکھیں
اسکے بعد یہ بھی یاد رکھیں کہ آپ کے موقف کے خلاف شیخ رحمہ اللہ کی صرف ایک دلیل کا رد مطلوب نہیں گا بلکہ انکی تمام دلیلوں کا رد اگر ہو سکے تو ایک ایک کر کے لکھ دیں پھر اس پہ نمبر وار بات کر لیتے ہیں جزاکم اللہ خیرا
میرے پاس تفصیل کا وقت نہیں ہے،صرف اتنی گزارش کروں گا کہ قسطوں کے کاروبار میں سود کا عمل دخل نہیں ہے اور جہاں تک ایک چیز کی دو قیمتوں کا تعلق ہے تو اس سے تو بہت سارے کاروبار اس کی زد میں آجاتے ہیں،مثلا کسی بھی پلاٹ کا تین طرح سودا ہوتا ہے،ڈون پیمنٹ،بیعانہ اور اقساط کی صورت میں اور ان تین طرح کے سودوں میں پلاٹ کی قیمت مختلف ہوتی ہے ڈون پیمنٹ کی صورت میں پلاٹ کی قيمت کم ہوتی ہے کیوں یہ نقد ہوتا ہے اور بیعانہ میں کچھ رقم ادا کردی جاتی ہے اور باقی رقم کے لیے تین مہینے کا ٹائم دے دیا جاتا ہے،اس صورت میں پلاٹ مہنگا سیل ہوتا ہے اور قسطوں کی صورت میں پلاٹ بہت مہنگا ہوتا ہے،یعنی ایک چیز ہے لیکن مول تین ہیں،اس میں اہم بات یہ ہے کہ پہلی دو صورتوں کو کوئی بھی ناجائز نہیں کہتا۔
اسی طرح پانچ کلو چینی لو تو ریٹ اور ہے اگر پورا چینی کا توڑا لو تو قیمت اور ہے کیا یہ ایک چیز کے دو مول نہیں ہیں؟ کیا یہ بھی ناجائز ہے؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
محترم حافظ عمران بھائی آپ نے شیخ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ کے مضمون پہ کچھ اشکال اٹھائے ہیں لیکن بات ابھی مبہم ہے
حافظ ارشد صاحب بیان کی گئی دو دلیلیں ہی اس موضوع میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں،ادھار کی صورت میں زیادہ قیمت وصول کرنا رسول اللہ اور سلف صالحین سے ثابت ہے،جیسا کہ درج ذیل حدیث اور آثار میں بیان کیا گیا ہے؛
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سےمروی ہے :أَنَّ النَّبِیَّؐ أَمَرَہ، أَنْ یُّجَھِّزَ جَیْشاً فَنَفِدَتِ الْاِبِلُ ، فَأَمَرَہ، أَنْ یَأْخُذَ عَلٰی قَلَائِصِ الصَّدَقَۃِ ، فَکَانَ یَأْخُذُ الْبَعِیْرَ بِالْبَعِیْرَیْنِ إِلٰی إِبِلِ الصَّدَقَۃِ.(مشکٰوۃ المصابیح بتحقیق الألبانی٢/٨٥٨).
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما روایت کر تے ہیں کہ نبی ؐ نے انہیں ایک لشکر کی تیاری کا حکم دیا ،اونٹ کم پڑ گئے تو آپؐ نے انہیں فرمایا : صدقے کی اونٹنیاْں آنے تک ادھار لے لو ،چنانچہ وہ صدقے کے اونٹ آنے تک دو اونٹوں کے بدلے ایک اونٹ لیتے تھے (یعنی جس سے ادھار اونٹ لیتے اسے کہتے کہ جب صدقے کے اونٹ آئیں گے توہم تمہیں ایک کی بجائے دو اونٹ دیں گے )

حافظ زبیر علی زئی البانی اور شعیب الارناؤط نے اسے حسن کہا ہے،
سنن ابوداود حدیث٣٣٥٧،طبع دار السلام لاہور

ارواء الغلیل؛حدیث؛1358،
مسند احمد؛حدیث؛٦٥٩٣
‌صحيح البخاري: كِتَابُ البُيُوعِ (بَابُ بَيْعِ العَبِيدِ وَالحَيَوَانِ بِالحَيَوَانِ نَسِيئَةً)
صحیح بخاری: کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان (باب : غلام کو غلام کے بدلے اورکسی جانور کو جانور کے بدلے ادھار بیچنا)
ترجمة الباب: وَاشْتَرَى ابْنُ عُمَرَ رَاحِلَةً بِأَرْبَعَةِ أَبْعِرَةٍ مَضْمُونَةٍ عَلَيْهِ، يُوفِيهَا صَاحِبَهَا بِالرَّبَذَةِ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ «قَدْ يَكُونُ البَعِيرُ خَيْرًا مِنَ البَعِيرَيْنِ» وَاشْتَرَى رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ بَعِيرًا بِبَعِيرَيْنِ فَأَعْطَاهُ أَحَدَهُمَا، وَقَالَ: «آتِيكَ بِالْآخَرِ غَدًا رَهْوًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ» وَقَالَ ابْنُ المُسَيِّبِ: لاَ رِبَا فِي الحَيَوَانِ: البَعِيرُ بِالْبَعِيرَيْنِ، وَالشَّاةُ بِالشَّاتَيْنِ إِلَى أَجَلٍ وَقَالَ ابْنُ سِيرِينَ: «لاَ بَأْسَ بَعِيرٌ بِبَعِيرَيْنِ نَسِيئَةً»
ترجمۃ الباب : اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک اونٹ چار اونٹوں کے بدلے میں خریدا تھا۔ جن کے متعلق یہ طے ہوا تھا کہ مقام ربذہ میں وہ انہیں اسے دے دیں گے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ کبھی ایک اونٹ، دو اونٹوں کے مقابلے میں بہتر ہوتا ہے۔ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے ایک اونٹ دو اونٹوں کے بدلے میں خریدا تھا۔ ایک تو اسے دے دیا تھا، اور دوسرے کے متعلق فرمایا تھا کہ وہ کل ان شاءاللہ کسی تاخیر کے بغیر تمہارے حوالے کر دوں گا۔ سعید بن مسیب نے کہا کہ جانوروں میں سود نہیں چلتا۔ ایک اونٹ دو اونٹوں کے بدلے، اور ایک بکری دو بکریوں کے بدلے ادھار بیچی جاسکتی ہے ابن سیرین نے کہا کہ ایک اونٹ دو اونٹوں کے بدلے ادھار بیچنے میں کوئی حرج نہیں۔
حافظ صاحب کیا ادھار کی صورت میں زیادہ قیمت وصول کرنے کے لیے یہ دلائل نا کافی ہیں؟ اگر کوئی اعتراض یا ابہام ہے تو سامنے لائیں،ورنہ بات یہیں ختم ہوتی ہے۔
 
Top