- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
بیع قسط
(استاذ حدیث حافظ ذو الفقار حفظہ اللہ کی کتاب ’’ دور حاضر کے مالی معاملات کا شرعی حکم ‘‘ سے اقتباس )
(ص 99 تا 109 )
دور حاضر میں جن معاملات کووسیع پیمانے پر فروغ حاصل ہوا ہے ان میں قسطوں پر خرید و فروخت بھی شامل ہے اس کو عربی میں البيع بالتقسيط کہا جاتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ چیز تو فورا مشتری کےحوالے کردی جائے مگر اس کی قیمت طے شدہ اقساط میں وصول کی جائے قسط کو نجم بھی کہتے ہیں ۔ جس کا معنی ہے '' ستارہ '' ۔
شارح بخاری علامہ وحید الزمان رحمہ اللہ علیہ اس کی وجہ تسمیہ میں فرماتے ہیں :
'' عرب میں تمام معاملات تاروں کے طلوع پر ہوا کرتےتھے کیونکہ وہ حساب نہیں جانتے تھے وہ یوں کہتے تھے کہ جب فلاں تارہ نکلے گا تو یہ معاملہ ہوگا اسی وجہ سے قسط کو نجم کہنے لگے ۔ '' ( تیسیر الباری ج 2 ص 626 )
بعض لوگ اس کو موجودہ دور کی ایجاد سمجھتے ہیں جو درست نہیں اس کا رواج تو عہد رسالت و صحابہ میں بھی موجود تھا جیساکہ ذیل کے دو واقعات سے ثابت ہوتا ہے ۔
پہلا واقعہ
"عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ، قَالَ: وَقَفْتُ عَلَى سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، فَجَاءَ المِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَةَ، فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى إِحْدَى مَنْكِبَيَّ، إِذْ جَاءَ أَبُو رَافِعٍ مَوْلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا سَعْدُ ابْتَعْ مِنِّي بَيْتَيَّ فِي دَارِكَ؟ فَقَالَ سَعْدٌ: وَاللَّهِ مَا أَبْتَاعُهُمَا، فَقَالَ المِسْوَرُ: وَاللَّهِ لَتَبْتَاعَنَّهُمَا، فَقَالَ سَعْدٌ: وَاللَّهِ لاَ أَزِيدُكَ عَلَى أَرْبَعَةِ آلاَفٍ مُنَجَّمَةً، أَوْ مُقَطَّعَةً، قَالَ أَبُو رَافِعٍ: لَقَدْ أُعْطِيتُ بِهَا خَمْسَ مِائَةِ دِينَارٍ، وَلَوْلاَ أَنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «الجَارُ أَحَقُّ بِسَقَبِهِ»، مَا أَعْطَيْتُكَهَا بِأَرْبَعَةِ آلاَفٍ، وَأَنَا أُعْطَى بِهَا خَمْسَ مِائَةِ دِينَارٍ، فَأَعْطَاهَا إِيَّاهُ "( صحيح البخاري ، رقم 2258 ، بَابُ عَرْضِ الشُّفْعَةِ عَلَى صَاحِبِهَا قَبْلَ البَيْعِ )
'' عمرو بن شرید کہتے ہیں کہ میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے پاس کھڑا تھا ، اتنے میں مسور بن مخرمۃ آئے انھوں نے اپنا ہاتھ میرے کندھے پر رکھا ۔ اتنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ابو رافع آگئے ۔ انہوں نے کہا : اے سعد آپ کے محلے میں میرے موجود دو گھر ہیں وہ آپ خرید لیں ۔ سعد نےکہا : اللہ کی قسم میں نہیں خریدتا ۔ حضرت مسور نےکہا کہ اللہ کی قسم آپکو ضرور خریدنا ہوں گے ۔ تب سعد نے کہا میں چار ہزار درہم سے زیادہ نہیں دوں گا وہ بھی قسطوں میں ۔ ابو رافع نےکہا کہ مجھے ان گھروں کے پانچ سو دینار ( نقد ) ملتے تھے اور اگر میں نے بنی صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے نہ سنا ہوتا کہ پڑوسی اپنے قرب کی وجہ سے زیادہ حق دار ہے تو میں آپ کو یہ گھر چار ہزار درہم میں بھی نہ دیتا ۔ جب کہ مجھے ان کے پانچ سو دینار ( نقد ) ملتے تھے ۔ ''
دوسرا واقعہ
((قَالَ عُرْوَةُ: قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: إِنَّ بَرِيرَةَ دَخَلَتْ عَلَيْهَا تَسْتَعِينُهَا فِي كِتَابَتِهَا، وَعَلَيْهَا خَمْسَةُ أَوَاقٍ نُجِّمَتْ عَلَيْهَا فِي خَمْسِ سِنِينَ )) (صحيح البخاري رقم 2560 ، كتاب المكاتب )
'' عروہ کا بیان ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : بریرہ رضی اللہ عنہا ان کے پاس اپنی مکاتبت میں مدد کے سلسلے میں حاضر ہوئی اس کے ذمہ پانچ اوقیہ چاندی تھی جو اس نے پانچ سالانہ اقساط میں ادا کرنا تھی ۔ ''
امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے صحیح بخاری میں اس پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے :
((بَابُ المُكَاتِبِ، وَنُجُومِهِ فِي كُلِّ سَنَةٍ نَجْمٌ))
'' مکاتب اور اس کی قسطوں کا بیان ، ہر سال میں ایک قسط ۔ ''
بیع قسط چونکہ بیع مؤجل ہی کی ایک شکل ہے ۔ جس میں چیز کی قیمت بیک مشت ادا کرنے کی بجائے اقساط مقرر کردی جاتی ہیں ۔ اس لیے ہمارے فقہاء نے اس کو الگ عنوان میں ذکر کرنے کی بجائے عموما بیع مؤجل کے ضمن میں ہی بیان کیا ہے ۔
قسطوں پر خریداری کی مختلف صورتیں :
1۔ نقد اور ادھار دونوں صورتوں میں ایک ہی قیمت ہو ۔ ایسا شاذ و نادر ہوتا ہے ۔ تاہم اس کے جواز میں کوئی کلام نہیں ۔
2۔ ادھار میں نقد سے زیادہ قیمت وصول کی جائے ۔ مثلا یوں کہا جائے کہ یہ چیز نقد سو روپے کی اور ادھار ایک سودس کی ہوکی ۔ اس کے بارہ میں تین نقطہ نظر ہیں :
(1)
جمہور فقہاء و محدثین رحمہم اللہ کی رائے میں یہ جائز ہے ۔ چنانچہ امام شوکانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
(( و قالت الشافعیة والحنفية و زيد بن علي والمؤيد بالله والجمهور إنه يجوز )) ( نيل الأوطار ج 8 ص 201 )
اهل حديث علماء میں سے سید نذیر حسین محدث دہلوی ، نواب صدیق حسن خان اور حافظ عبد اللہ محدث روپڑی رحمہم اللہ جمیعا بھی اس کو جائز قرار دیتے ہیں ۔ ( فتاوی نذیریہ ج 2 ص 162 و الروضۃ الندیۃ ج 2 ص 89 و فتاوی اہل حدیث ج 2 ص 663 ، 664 )
سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ ابن باز رحمہ اللہ بھی اس کے جواز کے حامی ہیں چنانچہ وہ فرماتے ہیں :
'' قسطوں کی بیع میں کوئی حرج نہیں جب کہ مدت اور قسطیں معلوم ہوں خواہ قسطوں کی صورت میں قیمت نقد قیمت سے زیادہ ہو کیونکہ قسطوں کی صورت میں بائع اور مشتری دونوں فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ بائع زیادہ قیمت سے اور مشتری مہلت سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔ '' ( فتاوی اسلامیہ ج 2 ص 445 )
اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ نے بھی اپنے چھٹے اور ساتویں اجلاس میں جو بالترتیب سترہ تا تیس شعبان 1410 ھ اور سات سے بارہ ذیقعدہ 1412 ھ کو جدہ میں ہوئے ، اس کو جائز قرار دیا ہے ۔ چھٹے اجلاس کی قرار داد کے متعلقہ الفاظ یہ ہیں :
(( تجوز الزيادة في الثمن المؤجل عن الثمن الحال كما يجوز ذكر ثمن المبيع نقدا و ثمنه بالأقساط بمدة معلومة )) ( موسوعة القضايا الفقهية المعاصرة والاقتصاد الإسلامي للدكتور على أحمد سالوس )
'' ادھار میں نقد سے زیادہ قیمت جائز ہے ۔ جس طرح چیز کی قیمت نقد اور متعینہ اقساط میں ذکر کرنا جائز ہے ۔ ''
ساتویں اجلاس کے الفاظ یوں ہیں :
(( البيع بالتقسيط جائز شرعا و لو زاد فيه ثمن المؤجل على المعجل )) ( أيضا )
'' بیع قسط شرعا جائز ہے خواہ اس میں ادھار قیمت نقد سے زیادہ ہو ۔ ''
(2)
امام ابن حزم ، امام ابن سیرین اور زین العابدین عدم جواز کے قائل ہیں ۔
محدث البانی رحمہ اللہ بھی اسی نقطہ نظر کے حامی ہیں ۔ ( سلسلة الأحاديث الصحيحة ج 5 )
(3)
حضرات طاؤس ، ثوری ، اور اوزاعی کی رائے میں یہ ہے تو ناجائز لیکن اگر بائع اس طرح ہونے کے بعد دو قیمتوں میں سے کم یعنی نقد والی قیمت وصول کرے تو جائز ورنہ نا جائز ۔ ( سلسلة الأحاديث الصحيحة ج 5 )
قائلین جواز کے دلائل :
- جو حضرات اس کے حق میں ہیں ان کا استدلال ایک تو اس بات سے ہے کہ معاملات میں اصل اباحت ہے ۔ یعنی کاروبار کی ہر وہ صورت جائز ہے جس سے شریعت نے منع نہ کیا ہو ۔ قرآن حکیم کی آیت : ( وَأَحَل اللہُ البیعَ ) '' اللہ تعالی نے بیع کو حال کیا ہے '' سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ سوائے ان بیوع کے جن کی حرمت قرآن وحدیث میں واضح کردی گئی ہے ، ہر قسم کی بیع جائز ہے ، اور قرآن و حدیث میں کوئی ایسی نص موجود نہیں جس سے اس کی ممانعت ثابت ہوتی ہو ۔
- ان حضرات کی دوسری دلیل ذیل کاواقعہ ہے :
((عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو: «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُ أَنْ يُجَهِّزَ جَيْشًا فَنَفِدَتْ الْإِبِلُ فَأَمَرَهُ أَنْ يَأْخُذَ فِي قِلَاصِ الصَّدَقَةِ»، فَكَانَ يَأْخُذُ الْبَعِيرَ بِالْبَعِيرَيْنِ إِلَى إِبِلِ الصَّدَقَةِ)) ( سنن أبی داؤد رقم 3357 ، کتاب البیوع ، باب فی الرخصة في ذلك ) ( شيخ الباني رحمه الله نے اس روایت کو ضعیف قراردیا ہے ۔از خضرحیات)
'' حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جیش تیار کرنے کا حکم دیا تو اونٹ کم پڑگئے ، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صدقے کے اونٹ آنے تک ادھار لے لو ۔ تو انہوں نے لوگوں سے اس شرط پر اونٹ لے کہ جب صدقے کے اونٹ آئیں گے تو ایک کے بدلے دد دد دیے جائیں گے ۔ ''
مانعین کے دلائل :
جو حضرات اس کی ممانعت کے قائل ہیں ان کی پہلی دلیل یہ ہے :
- ادھار کی صورت میں اضافی رقم اصل میں مدت کا معاوضہ ہے اور مدت کا معاوضہ لینا سود ہے ۔
- اس رائے کے حق میں دوسری دلیل وہ روایات ہیں جن میں ایک بیع میں دو بیعوں کی ممانعت بیان ہوئی ہے ۔ مثلا :
(( نهى رسول الله صلي الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة ))
( ترمذي : كتاب البيوع ، باب ما جاء في النهي عن بيعتين في بيعة )
'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع میں دو بیعوں سے منع کیا ہے ۔ ''
((نهى رسول الله صلي الله عليه وسلم عن صفقتين في صفقة واحدة )) ( مسند احمد بن حنبل ج 8 ص 383 )
'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سودے میں دو سودوں سے منع کیا ہے ۔ ''
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ انسان یہ کہے :
(( وإن کان بنقد فبكذا وإن كان بنسيئة فبكذا )) ( مصنف ابن أبي شيبة ج 5 ص 54 )
'' اگر نقد ہو تو اتنے اور ادھار ہو تو اتنے کی ۔ ''