• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قسطوں میں خرید و فروخت ۔

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
بیع قسط

(استاذ حدیث حافظ ذو الفقار حفظہ اللہ کی کتاب ’’ دور حاضر کے مالی معاملات کا شرعی حکم ‘‘ سے اقتباس )
(ص 99 تا 109 )
دور حاضر میں جن معاملات کووسیع پیمانے پر فروغ حاصل ہوا ہے ان میں قسطوں پر خرید و فروخت بھی شامل ہے اس کو عربی میں البيع بالتقسيط کہا جاتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ چیز تو فورا مشتری کےحوالے کردی جائے مگر اس کی قیمت طے شدہ اقساط میں وصول کی جائے قسط کو نجم بھی کہتے ہیں ۔ جس کا معنی ہے '' ستارہ '' ۔
شارح بخاری علامہ وحید الزمان رحمہ اللہ علیہ اس کی وجہ تسمیہ میں فرماتے ہیں :​
'' عرب میں تمام معاملات تاروں کے طلوع پر ہوا کرتےتھے کیونکہ وہ حساب نہیں جانتے تھے وہ یوں کہتے تھے کہ جب فلاں تارہ نکلے گا تو یہ معاملہ ہوگا اسی وجہ سے قسط کو نجم کہنے لگے ۔ '' ( تیسیر الباری ج 2 ص 626 )
بعض لوگ اس کو موجودہ دور کی ایجاد سمجھتے ہیں جو درست نہیں اس کا رواج تو عہد رسالت و صحابہ میں بھی موجود تھا جیساکہ ذیل کے دو واقعات سے ثابت ہوتا ہے ۔​
پہلا واقعہ
"عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ، قَالَ: وَقَفْتُ عَلَى سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، فَجَاءَ المِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَةَ، فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى إِحْدَى مَنْكِبَيَّ، إِذْ جَاءَ أَبُو رَافِعٍ مَوْلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا سَعْدُ ابْتَعْ مِنِّي بَيْتَيَّ فِي دَارِكَ؟ فَقَالَ سَعْدٌ: وَاللَّهِ مَا أَبْتَاعُهُمَا، فَقَالَ المِسْوَرُ: وَاللَّهِ لَتَبْتَاعَنَّهُمَا، فَقَالَ سَعْدٌ: وَاللَّهِ لاَ أَزِيدُكَ عَلَى أَرْبَعَةِ آلاَفٍ مُنَجَّمَةً، أَوْ مُقَطَّعَةً، قَالَ أَبُو رَافِعٍ: لَقَدْ أُعْطِيتُ بِهَا خَمْسَ مِائَةِ دِينَارٍ، وَلَوْلاَ أَنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «الجَارُ أَحَقُّ بِسَقَبِهِ»، مَا أَعْطَيْتُكَهَا بِأَرْبَعَةِ آلاَفٍ، وَأَنَا أُعْطَى بِهَا خَمْسَ مِائَةِ دِينَارٍ، فَأَعْطَاهَا إِيَّاهُ "( صحيح البخاري ، رقم 2258 ، بَابُ عَرْضِ الشُّفْعَةِ عَلَى صَاحِبِهَا قَبْلَ البَيْعِ )
'' عمرو بن شرید کہتے ہیں کہ میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے پاس کھڑا تھا ، اتنے میں مسور بن مخرمۃ آئے انھوں نے اپنا ہاتھ میرے کندھے پر رکھا ۔ اتنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ابو رافع آگئے ۔ انہوں نے کہا : اے سعد آپ کے محلے میں میرے موجود دو گھر ہیں وہ آپ خرید لیں ۔ سعد نےکہا : اللہ کی قسم میں نہیں خریدتا ۔ حضرت مسور نےکہا کہ اللہ کی قسم آپکو ضرور خریدنا ہوں گے ۔ تب سعد نے کہا میں چار ہزار درہم سے زیادہ نہیں دوں گا وہ بھی قسطوں میں ۔ ابو رافع نےکہا کہ مجھے ان گھروں کے پانچ سو دینار ( نقد ) ملتے تھے اور اگر میں نے بنی صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے نہ سنا ہوتا کہ پڑوسی اپنے قرب کی وجہ سے زیادہ حق دار ہے تو میں آپ کو یہ گھر چار ہزار درہم میں بھی نہ دیتا ۔ جب کہ مجھے ان کے پانچ سو دینار ( نقد ) ملتے تھے ۔ ''​
دوسرا واقعہ
((قَالَ عُرْوَةُ: قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: إِنَّ بَرِيرَةَ دَخَلَتْ عَلَيْهَا تَسْتَعِينُهَا فِي كِتَابَتِهَا، وَعَلَيْهَا خَمْسَةُ أَوَاقٍ نُجِّمَتْ عَلَيْهَا فِي خَمْسِ سِنِينَ )) (صحيح البخاري رقم 2560 ، كتاب المكاتب )
'' عروہ کا بیان ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : بریرہ رضی اللہ عنہا ان کے پاس اپنی مکاتبت میں مدد کے سلسلے میں حاضر ہوئی اس کے ذمہ پانچ اوقیہ چاندی تھی جو اس نے پانچ سالانہ اقساط میں ادا کرنا تھی ۔ ''​
امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے صحیح بخاری میں اس پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے :​
((بَابُ المُكَاتِبِ، وَنُجُومِهِ فِي كُلِّ سَنَةٍ نَجْمٌ))
'' مکاتب اور اس کی قسطوں کا بیان ، ہر سال میں ایک قسط ۔ ''​
بیع قسط چونکہ بیع مؤجل ہی کی ایک شکل ہے ۔ جس میں چیز کی قیمت بیک مشت ادا کرنے کی بجائے اقساط مقرر کردی جاتی ہیں ۔ اس لیے ہمارے فقہاء نے اس کو الگ عنوان میں ذکر کرنے کی بجائے عموما بیع مؤجل کے ضمن میں ہی بیان کیا ہے ۔
قسطوں پر خریداری کی مختلف صورتیں :
نقد اور ادھار دونوں صورتوں میں ایک ہی قیمت ہو ۔ ایسا شاذ و نادر ہوتا ہے ۔ تاہم اس کے جواز میں کوئی کلام نہیں ۔​
ادھار میں نقد سے زیادہ قیمت وصول کی جائے ۔ مثلا یوں کہا جائے کہ یہ چیز نقد سو روپے کی اور ادھار ایک سودس کی ہوکی ۔ اس کے بارہ میں تین نقطہ نظر ہیں :
(1)
جمہور فقہاء و محدثین رحمہم اللہ کی رائے میں یہ جائز ہے ۔ چنانچہ امام شوکانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :​
(( و قالت الشافعیة والحنفية و زيد بن علي والمؤيد بالله والجمهور إنه يجوز )) ( نيل الأوطار ج 8 ص 201 )​
اهل حديث علماء میں سے سید نذیر حسین محدث دہلوی ، نواب صدیق حسن خان اور حافظ عبد اللہ محدث روپڑی رحمہم اللہ جمیعا بھی اس کو جائز قرار دیتے ہیں ۔ ( فتاوی نذیریہ ج 2 ص 162 و الروضۃ الندیۃ ج 2 ص 89 و فتاوی اہل حدیث ج 2 ص 663 ، 664 )​
سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ ابن باز رحمہ اللہ بھی اس کے جواز کے حامی ہیں چنانچہ وہ فرماتے ہیں :​
'' قسطوں کی بیع میں کوئی حرج نہیں جب کہ مدت اور قسطیں معلوم ہوں خواہ قسطوں کی صورت میں قیمت نقد قیمت سے زیادہ ہو کیونکہ قسطوں کی صورت میں بائع اور مشتری دونوں فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ بائع زیادہ قیمت سے اور مشتری مہلت سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔ '' ( فتاوی اسلامیہ ج 2 ص 445 )​
اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ نے بھی اپنے چھٹے اور ساتویں اجلاس میں جو بالترتیب سترہ تا تیس شعبان 1410 ھ اور سات سے بارہ ذیقعدہ 1412 ھ کو جدہ میں ہوئے ، اس کو جائز قرار دیا ہے ۔ چھٹے اجلاس کی قرار داد کے متعلقہ الفاظ یہ ہیں :​
(( تجوز الزيادة في الثمن المؤجل عن الثمن الحال كما يجوز ذكر ثمن المبيع نقدا و ثمنه بالأقساط بمدة معلومة )) ( موسوعة القضايا الفقهية المعاصرة والاقتصاد الإسلامي للدكتور على أحمد سالوس )
'' ادھار میں نقد سے زیادہ قیمت جائز ہے ۔ جس طرح چیز کی قیمت نقد اور متعینہ اقساط میں ذکر کرنا جائز ہے ۔ ''​
ساتویں اجلاس کے الفاظ یوں ہیں :​
(( البيع بالتقسيط جائز شرعا و لو زاد فيه ثمن المؤجل على المعجل )) ( أيضا )
'' بیع قسط شرعا جائز ہے خواہ اس میں ادھار قیمت نقد سے زیادہ ہو ۔ ''​
(2)
امام ابن حزم ، امام ابن سیرین اور زین العابدین عدم جواز کے قائل ہیں ۔​
محدث البانی رحمہ اللہ بھی اسی نقطہ نظر کے حامی ہیں ۔ ( سلسلة الأحاديث الصحيحة ج 5 )​
(3)
حضرات طاؤس ، ثوری ، اور اوزاعی کی رائے میں یہ ہے تو ناجائز لیکن اگر بائع اس طرح ہونے کے بعد دو قیمتوں میں سے کم یعنی نقد والی قیمت وصول کرے تو جائز ورنہ نا جائز ۔ ( سلسلة الأحاديث الصحيحة ج 5 )​
قائلین جواز کے دلائل :
  • جو حضرات اس کے حق میں ہیں ان کا استدلال ایک تو اس بات سے ہے کہ معاملات میں اصل اباحت ہے ۔ یعنی کاروبار کی ہر وہ صورت جائز ہے جس سے شریعت نے منع نہ کیا ہو ۔ قرآن حکیم کی آیت : ( وَأَحَل اللہُ البیعَ ) '' اللہ تعالی نے بیع کو حال کیا ہے '' سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ سوائے ان بیوع کے جن کی حرمت قرآن وحدیث میں واضح کردی گئی ہے ، ہر قسم کی بیع جائز ہے ، اور قرآن و حدیث میں کوئی ایسی نص موجود نہیں جس سے اس کی ممانعت ثابت ہوتی ہو ۔
  • ان حضرات کی دوسری دلیل ذیل کاواقعہ ہے :
((عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو: «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُ أَنْ يُجَهِّزَ جَيْشًا فَنَفِدَتْ الْإِبِلُ فَأَمَرَهُ أَنْ يَأْخُذَ فِي قِلَاصِ الصَّدَقَةِ»، فَكَانَ يَأْخُذُ الْبَعِيرَ بِالْبَعِيرَيْنِ إِلَى إِبِلِ الصَّدَقَةِ)) ( سنن أبی داؤد رقم 3357 ، کتاب البیوع ، باب فی الرخصة في ذلك ) ( شيخ الباني رحمه الله نے اس روایت کو ضعیف قراردیا ہے ۔از خضرحیات)​
'' حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جیش تیار کرنے کا حکم دیا تو اونٹ کم پڑگئے ، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صدقے کے اونٹ آنے تک ادھار لے لو ۔ تو انہوں نے لوگوں سے اس شرط پر اونٹ لے کہ جب صدقے کے اونٹ آئیں گے تو ایک کے بدلے دد دد دیے جائیں گے ۔ ''​
مانعین کے دلائل :
جو حضرات اس کی ممانعت کے قائل ہیں ان کی پہلی دلیل یہ ہے :​
  • ادھار کی صورت میں اضافی رقم اصل میں مدت کا معاوضہ ہے اور مدت کا معاوضہ لینا سود ہے ۔
  • اس رائے کے حق میں دوسری دلیل وہ روایات ہیں جن میں ایک بیع میں دو بیعوں کی ممانعت بیان ہوئی ہے ۔ مثلا :​
(( نهى رسول الله صلي الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة ))

( ترمذي : كتاب البيوع ، باب ما جاء في النهي عن بيعتين في بيعة )​
'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع میں دو بیعوں سے منع کیا ہے ۔ ''​
((نهى رسول الله صلي الله عليه وسلم عن صفقتين في صفقة واحدة )) ( مسند احمد بن حنبل ج 8 ص 383 )
'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سودے میں دو سودوں سے منع کیا ہے ۔ ''​
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ انسان یہ کہے :​
(( وإن کان بنقد فبكذا وإن كان بنسيئة فبكذا )) ( مصنف ابن أبي شيبة ج 5 ص 54 )
'' اگر نقد ہو تو اتنے اور ادھار ہو تو اتنے کی ۔ ''​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
راجح نقطہ نظر

ہمارے خیال میں حسب ذیل وجوہ کے باعث ان لوگوں کی رائے زیادہ وزنی ہے جوجواز کے حق میں ہیں :
  • ادھار کی صورت میں اضافے کا جواز خود قرآن کی آیت ( وَأَحَل اللہُ البیعَ ) '' اللہ تعالی نے بیع کو حال کیا ہے '' سے ثابت ہے ۔ کیونکہ یہ آیت ان لوگوں کے رد میں نازل ہوئی ہے جیساکہ ابن جریر طبری ، علامہ ابن العربی اور امام رازی رحمہم اللہ نے بیان کیا ہے ۔ جن کا اعتراض یہ تھا کہ جب عقد بیع کے وقت ادھار کی زیادہ قیمت مقرر کی جاسکتی ہے تو پھر وقت پر ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں اضافہ کیوں نہیں کیا جاسکتا ۔ وہ کہتے دونوں صورتیں یکساں ہیں ۔
چنانچہ امام المفسرین امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں :
((وذلك أن الذين يأكلون من الربا من أهل الجاهلية كان إذا حل مال أحدهم على غريمه يقول الغريم لغريم الحق زدني في الأجل و أزيدك في مالك فكان يقال لهما إذا فعلا ذلك هذا ربا لا يحل فإذا قيل لهما ذلك قالا سواء علينا زدنا في أول البيع أو عند محل المال فكذبهم الله في قيلهم )) ( تفسیر طبری )
'' اہل جاہلیت میں سے جولوگ سود کھاتے تھے اس کی صورت یہ ہوتی کہ جب کسی کا دوسرے کے ذمے مال ہوتا جس کی ادائیگی کا وقت آچکا ہوتا وہ صاحب حق سے کہتا آپ مدت میں اضافہ کردیں میں آپ کے مال میں اضافہ کرتا ہوں ۔ ج ان سے یہ کہاجاتا کہ یہ توسود ہے جو حلال نہیں تو کہتے کہ ہم بیع کے آغاز میں اضافہ کریں یا مدت پوری ہونے پر دونوں صورتوں میں یکساں ہیں ۔ تو اللہ تعالی نے ان کی تردید فرمائی ۔ ''
مشہورمحدث و مفسر علامہ ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں :
(( و کانت تقول إنما البيع مثل الربا أي إنما الزيادة عند حلول الأجل آخرا مثل أصل الثمن من أول العقد و رد الله عليهم قولهم )) ( أحكام القرآن )
'' اہل جاہلیت کہتے تھے بیع سود کی مثل ہی ہے یعنی مدت پوری ہونے پر جو اضافہ کیا جاتا ہے وہ شروع عقد میں اصل قیمت میں اضافہ کی مانند ہے تو اللہ تعالی نے ان کے اس قول کا رد فرمایا ہے ۔ ''
امام رازی فرماتے ہیں :
(( القوم كانوا في تحليل الربا على هذه الشبهة وهي أن من اشترى ثوبا بعشرة ثم باع بأحد عشر فهذا حلال فكذا إذا باع العشرة بأحد شرة يجب أن يكون حلال لأنه لا فرق في العقل بين الأمرين فهذا في ربا النقد وأما في ربا النسئة فكذلك أيضا لأنه لو باع الثوب الذي يساوي عشرة في الحال بأحد عشر إلى شهر جاز فكذا إذا أعطى العشرة بأحد عشر إلى شهر وجب أن يجوز لأنه لا فرق في العقل بين الصورتين )) (التفسير الكبير )
'' ربا کو حلال قراردینے کے متعلق لوگوں کا شبہ یہ تھاکہ جب کوئی شخص ایک کپڑا دس کا خرید کر گیارہ کا بیچے تو یہ جائز ہے اسی طرح جب دس ( درہم ) گیارہ کے بیچے تو معاملہ بھی جائز ہونا چاہیے ۔ کیونکہ دونوں صورتوں میں عملا کوئی فرق نیہں ہے ۔ یہ شبہ تو ربا النقد کے متعلق تھا ۔ '' رباالنسیئۃ '' کے بارہ میں یہ شبہ تھا کہ وہ کپڑا جس کی نقد قیمت دس ( درہم ) دے کر مہینے بعد گیارہ لے تو یہ بھی جائز ہونا چاہیے کیونکہ عقلی اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ۔ ''
ان جلیل القدر آئمہ تفسیر کے بیان سے ثابت ہوا کہ اہل جاہلیت کی اصل غلطی یہ تھی کہ وہ وقت پر ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں اصل دین پر اضافہ کو ادھار کی صورت میں زیادہ قیمت لینے پر قیاس کرتے تھے ۔ تو اللہ تعالی نے اس کا رد کرتےہوئے فرمایا کہ ادھار کی صورت میں قیمت میں اضافہ کرنا بیع میں شامل ہے جوجائز ہے جبکہ بروقت ادائیگی نہ کرنیکی صورت میں اضافہ سود ہے جو حرام ہے ۔
  • ہر مدت کا معاوضہ سود نہیں ہوتا ۔ مہلت کا اضافہ تب سود بنتا ہےجب انسان کی ذمہ قرض ، دین (Debt ) کی تاخیر یا اموال ربویہ کے تبادلے کی صورت میں ہو ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کے سونے کے ساتھ تبادلے میں دوشرطیں لگائیں ہیں :
برابر ہو ۔
دونوں جانت سے نقد ہو ۔
اگر اسلام میں مدت کی قیمت کا اعتبار نہ ہوتا تو دونوں طرف سے نقد کی قید لگانے کی ضرورت نہ تھی ۔ نیز ادھار کی صورت میں اضافہ بیع کے ضمن میں ہے اس لیےجائز ہے ۔
فقہاء کرام نے بیع کے ضمن میں مدت کے اضافہ کو جائز قرار دیا ہے ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے : '' المعاملات المالية المعاصرة للدكتور وهبة الزحيلي حفظه الله ''
  • یہ اضافہ ربا کی کسی قسم میں شامل نہیں ۔ اس کا اقرار ان لوگوں کو بھی ہے جو اس کے مخالف ہیں ۔ چنانچہ مفتی سیاح الدین کاکا خیل رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
'' ادھار کی وجہ سے جو ثمن میں اضافہ کیاجاتا ہے اس کوعین ربا اوربا حقیقی کی طرح حرام نہیں کہا جاسکتا کیونکہ فقہاء کرام اور حضرات مفسرین نے حقیقی ربا کی جو تعریف کی ہے اس کے مطابق یہ ربا کی تعریف میں داخل نہیں ہے ۔ ( حکمت قرآن : جنوری 1992 ص 14 )
مزید لکھتے ہیں :
'' سود سے اس کا فرق دو وجہوں سے ہے ۔ ایک تو یہ دَین پر اضافہ نہیں بلکہ شروع ہی سے ثمن مہنگا بتلادینا ہے وہ اضافہ محض اس کے ذھن میں ہے نیز مدت کے بڑھنے کے ساتھ اس زیادتی میں اضافہ نہیں ہوتا ۔ '' ( ماہنامہ حکمت قرآن :جنوری 1992 ء ص 16 )
  • محدثین کرام اور فقہاء عظام نے '' بیعتین فی بيعة '' کے مختلف مفاہیم بیان کیے ہیں :
• بائع يہ کہے کہ یہ کپڑا نقد دس کا اور ادھار بیس کا ۔ مشتری کسی ایک قیمت کا تعین کئے بغیر خرید لے ۔
• یہ کہا جائے کہ میں اپنا گھر تجھے اتنے میں بیچتا ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ آپ نے اپنا غلام اتنے میں مجھے بیچنا ہے ۔
• انسان کسی چیز کا سودا کرے مثلا ایک قفیز گندم کا اور اس کی قیمت پیشگی ادا کردے ۔ گندم کی ادائیگی کیلیے ایک مہینہ مدت مقرر ہوجائے ۔ جب مقررہ آئے تو فروخت کنندہ کہے کہ وہ گندم آپ مجھے دو مہینے کی مدت کے لیے دو قفیز کے عوض فروخت کردیں ۔ ( تحفة الأحوذي )
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نزدیک اس سے '' بیع عینہ '' مراد ہے ۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں :
(( وفی السنن عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال )) من باع بيعتين في بيعة فله أو كسها أو الربا )) وفيه أيضا عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال (( إذا تبايعتم بالعينة واتبعتم أذناب البقر و تركتم الجهاد في سبيل الله أرسل الله عليكم ذلا لا يرفعه عنكم حتى ترجعوا إلى دينكم و هذا كله في بيعة العينة و هو بيعتان في بيعة )) ( مجموع الفتاوى ج 29 ص 432 )
''من باع بيعتين اور إذا تبايعتم بالعينة یہ سب بیع عینہ کے متعلق ہیں اور یہی ایک بیع میں دو بیع کرنے کا معنی ہے ۔ ''
پہلی صورت کے ناجائز ہونے کی علت قیمت کا متعین نہ ہونا ہے ۔ دوسری صورت میں بیع کو مستقبل کی شرط پر معلق کیا گیا ہے ، اور آخری دو صورتوں میں ربا لازم آتا ہےجبکہ بیع تقسیط ان سب سے الگ ہے ۔
  • مانعین کا حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی تشریح سے استدلال درست نہیں کیونکہ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ ان کی مراد یہ ہو کہ مشتری ایک قیمت طے کیے بغیر چیز اٹھا کرلے جائے احتمال کی صورت میں جمہور کی تشریح ہی معتبر ہوگی جنہوں نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ مشتری نقد یا ادھار کی صراحت کیے بغیر چیز اٹھا کر لے جائے ۔
ملاحظہ :
یہاں یہ بھی واضح رہے کہ یہ جواز صرف اس وقت ہے جب ادائیگی میں تاخیر پر اضافی رقم خواہ وہ جرمانہ کے نام پر ہو وصول نہ کی جائے ۔
دونوں صورتوں میں فرق ہے ۔ پہلی صورت میں جب چیز ایک قیمت طے ہوجاتی ہے تو پھر اس میں اضافہ ممکن نہیں ہوتا خواہ ادائیگی مدت مقررہ پر کی جائے یاتاخیر کرکے ۔
دوسری صورت میں فریقین کے درمیان طے ہونے کے بعد تاخیر پر جرمانہ وصول کیا جاتا ہے جو زمانہ جاھلیت کے سود '' إما أن تقضي وإما أن تربي '' '' یا ادا کرو یا اضافہ کرو '' میں داخل ہےجو سراسر ناجائز ہے ۔
ہمارے ہاں چونکہ قسطوں کی خریدو فروخت میں عموما تاخیر پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے لہذا اس کو مطلق جائز قراردینا درست نہیں ۔
خلاصہ
• ادھار میں نقد سے زیادہ قیمت لگائی جاسکتی ہے ۔
• اکثر محدثین عظام نے ایک بیع میں دو بیع کی جو تشریح کی ہے بیع قسط اس میں شامل نہیں ۔
• ادائیگی میں تأخیر پر جرمانہ عائد کرنا سود ہے ۔

تمت بالخير
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
راجح نقطہ نظر

ہمارے خیال میں حسب ذیل وجوہ کے باعث ان لوگوں کی رائے زیادہ وزنی ہے جوجواز کے حق میں ہیں :
  • ادھار کی صورت میں اضافے کا جواز خود قرآن کی آیت ( وَأَحَل اللہُ البیعَ ) '' اللہ تعالی نے بیع کو حال کیا ہے '' سے ثابت ہے ۔ کیونکہ یہ آیت ان لوگوں کے رد میں نازل ہوئی ہے جیساکہ ابن جریر طبری ، علامہ ابن العربی اور امام رازی رحمہم اللہ نے بیان کیا ہے ۔ جن کا اعتراض یہ تھا کہ جب عقد بیع کے وقت ادھار کی زیادہ قیمت مقرر کی جاسکتی ہے تو پھر وقت پر ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں اضافہ کیوں نہیں کیا جاسکتا ۔ وہ کہتے دونوں صورتیں یکساں ہیں ۔
چنانچہ امام المفسرین امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں :

((وذلك أن الذين يأكلون من الربا من أهل الجاهلية كان إذا حل مال أحدهم على غريمه يقول الغريم لغريم الحق زدني في الأجل و أزيدك في مالك فكان يقال لهما إذا فعلا ذلك هذا ربا لا يحل فإذا قيل لهما ذلك قالا سواء علينا زدنا في أول البيع أو عند محل المال فكذبهم الله في قيلهم )) ( تفسیر طبری )
'' اہل جاہلیت میں سے جولوگ سود کھاتے تھے اس کی صورت یہ ہوتی کہ جب کسی کا دوسرے کے ذمے مال ہوتا جس کی ادائیگی کا وقت آچکا ہوتا وہ صاحب حق سے کہتا آپ مدت میں اضافہ کردیں میں آپ کے مال میں اضافہ کرتا ہوں ۔ ج ان سے یہ کہاجاتا کہ یہ توسود ہے جو حلال نہیں تو کہتے کہ ہم بیع کے آغاز میں اضافہ کریں یا مدت پوری ہونے پر دونوں صورتوں میں یکساں ہیں ۔ تو اللہ تعالی نے ان کی تردید فرمائی ۔ ''
مشہورمحدث و مفسر علامہ ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں :
(( و کانت تقول إنما البيع مثل الربا أي إنما الزيادة عند حلول الأجل آخرا مثل أصل الثمن من أول العقد و رد الله عليهم قولهم )) ( أحكام القرآن )
'' اہل جاہلیت کہتے تھے بیع سود کی مثل ہی ہے یعنی مدت پوری ہونے پر جو اضافہ کیا جاتا ہے وہ شروع عقد میں اصل قیمت میں اضافہ کی مانند ہے تو اللہ تعالی نے ان کے اس قول کا رد فرمایا ہے ۔ ''
امام رازی فرماتے ہیں :
(( القوم كانوا في تحليل الربا على هذه الشبهة وهي أن من اشترى ثوبا بعشرة ثم باع بأحد عشر فهذا حلال فكذا إذا باع العشرة بأحد شرة يجب أن يكون حلال لأنه لا فرق في العقل بين الأمرين فهذا في ربا النقد وأما في ربا النسئة فكذلك أيضا لأنه لو باع الثوب الذي يساوي عشرة في الحال بأحد عشر إلى شهر جاز فكذا إذا أعطى العشرة بأحد عشر إلى شهر وجب أن يجوز لأنه لا فرق في العقل بين الصورتين )) (التفسير الكبير )
'' ربا کو حلال قراردینے کے متعلق لوگوں کا شبہ یہ تھاکہ جب کوئی شخص ایک کپڑا دس کا خرید کر گیارہ کا بیچے تو یہ جائز ہے اسی طرح جب دس ( درہم ) گیارہ کے بیچے تو معاملہ بھی جائز ہونا چاہیے ۔ کیونکہ دونوں صورتوں میں عملا کوئی فرق نیہں ہے ۔ یہ شبہ تو ربا النقد کے متعلق تھا ۔ '' رباالنسیئۃ '' کے بارہ میں یہ شبہ تھا کہ وہ کپڑا جس کی نقد قیمت دس ( درہم ) دے کر مہینے بعد گیارہ لے تو یہ بھی جائز ہونا چاہیے کیونکہ عقلی اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ۔ ''
ان جلیل القدر آئمہ تفسیر کے بیان سے ثابت ہوا کہ اہل جاہلیت کی اصل غلطی یہ تھی کہ وہ وقت پر ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں اصل دین پر اضافہ کو ادھار کی صورت میں زیادہ قیمت لینے پر قیاس کرتے تھے ۔ تو اللہ تعالی نے اس کا رد کرتےہوئے فرمایا کہ ادھار کی صورت میں قیمت میں اضافہ کرنا بیع میں شامل ہے جوجائز ہے جبکہ بروقت ادائیگی نہ کرنیکی صورت میں اضافہ سود ہے جو حرام ہے ۔
  • ہر مدت کا معاوضہ سود نہیں ہوتا ۔ مہلت کا اضافہ تب سود بنتا ہےجب انسان کی ذمہ قرض ، دین (Debt ) کی تاخیر یا اموال ربویہ کے تبادلے کی صورت میں ہو ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کے سونے کے ساتھ تبادلے میں دوشرطیں لگائیں ہیں :

برابر ہو ۔
دونوں جانت سے نقد ہو ۔
اگر اسلام میں مدت کی قیمت کا اعتبار نہ ہوتا تو دونوں طرف سے نقد کی قید لگانے کی ضرورت نہ تھی ۔ نیز ادھار کی صورت میں اضافہ بیع کے ضمن میں ہے اس لیےجائز ہے ۔
فقہاء کرام نے بیع کے ضمن میں مدت کے اضافہ کو جائز قرار دیا ہے ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے : '' المعاملات المالية المعاصرة للدكتور وهبة الزحيلي حفظه الله ''
  • یہ اضافہ ربا کی کسی قسم میں شامل نہیں ۔ اس کا اقرار ان لوگوں کو بھی ہے جو اس کے مخالف ہیں ۔ چنانچہ مفتی سیاح الدین کاکا خیل رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
'' ادھار کی وجہ سے جو ثمن میں اضافہ کیاجاتا ہے اس کوعین ربا اوربا حقیقی کی طرح حرام نہیں کہا جاسکتا کیونکہ فقہاء کرام اور حضرات مفسرین نے حقیقی ربا کی جو تعریف کی ہے اس کے مطابق یہ ربا کی تعریف میں داخل نہیں ہے ۔ ( حکمت قرآن : جنوری 1992 ص 14 )

مزید لکھتے ہیں :
'' سود سے اس کا فرق دو وجہوں سے ہے ۔ ایک تو یہ دَین پر اضافہ نہیں بلکہ شروع ہی سے ثمن مہنگا بتلادینا ہے وہ اضافہ محض اس کے ذھن میں ہے نیز مدت کے بڑھنے کے ساتھ اس زیادتی میں اضافہ نہیں ہوتا ۔ '' ( ماہنامہ حکمت قرآن :جنوری 1992 ء ص 16 )
  • محدثین کرام اور فقہاء عظام نے '' بیعتین فی بيعة '' کے مختلف مفاہیم بیان کیے ہیں :
• بائع يہ کہے کہ یہ کپڑا نقد دس کا اور ادھار بیس کا ۔ مشتری کسی ایک قیمت کا تعین کئے بغیر خرید لے ۔

• یہ کہا جائے کہ میں اپنا گھر تجھے اتنے میں بیچتا ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ آپ نے اپنا غلام اتنے میں مجھے بیچنا ہے ۔
• انسان کسی چیز کا سودا کرے مثلا ایک قفیز گندم کا اور اس کی قیمت پیشگی ادا کردے ۔ گندم کی ادائیگی کیلیے ایک مہینہ مدت مقرر ہوجائے ۔ جب مقررہ آئے تو فروخت کنندہ کہے کہ وہ گندم آپ مجھے دو مہینے کی مدت کے لیے دو قفیز کے عوض فروخت کردیں ۔ ( تحفة الأحوذي )
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نزدیک اس سے '' بیع عینہ '' مراد ہے ۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں :
(( وفی السنن عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال )) من باع بيعتين في بيعة فله أو كسها أو الربا )) وفيه أيضا عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال (( إذا تبايعتم بالعينة واتبعتم أذناب البقر و تركتم الجهاد في سبيل الله أرسل الله عليكم ذلا لا يرفعه عنكم حتى ترجعوا إلى دينكم و هذا كله في بيعة العينة و هو بيعتان في بيعة )) ( مجموع الفتاوى ج 29 ص 432 )
''من باع بيعتين اور إذا تبايعتم بالعينة یہ سب بیع عینہ کے متعلق ہیں اور یہی ایک بیع میں دو بیع کرنے کا معنی ہے ۔ ''
پہلی صورت کے ناجائز ہونے کی علت قیمت کا متعین نہ ہونا ہے ۔ دوسری صورت میں بیع کو مستقبل کی شرط پر معلق کیا گیا ہے ، اور آخری دو صورتوں میں ربا لازم آتا ہےجبکہ بیع تقسیط ان سب سے الگ ہے ۔
  • مانعین کا حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی تشریح سے استدلال درست نہیں کیونکہ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ ان کی مراد یہ ہو کہ مشتری ایک قیمت طے کیے بغیر چیز اٹھا کرلے جائے احتمال کی صورت میں جمہور کی تشریح ہی معتبر ہوگی جنہوں نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ مشتری نقد یا ادھار کی صراحت کیے بغیر چیز اٹھا کر لے جائے ۔
ملاحظہ :

یہاں یہ بھی واضح رہے کہ یہ جواز صرف اس وقت ہے جب ادائیگی میں تاخیر پر اضافی رقم خواہ وہ جرمانہ کے نام پر ہو وصول نہ کی جائے ۔
دونوں صورتوں میں فرق ہے ۔ پہلی صورت میں جب چیز ایک قیمت طے ہوجاتی ہے تو پھر اس میں اضافہ ممکن نہیں ہوتا خواہ ادائیگی مدت مقررہ پر کی جائے یاتاخیر کرکے ۔
دوسری صورت میں فریقین کے درمیان طے ہونے کے بعد تاخیر پر جرمانہ وصول کیا جاتا ہے جو زمانہ جاھلیت کے سود '' إما أن تقضي وإما أن تربي '' '' یا ادا کرو یا اضافہ کرو '' میں داخل ہےجو سراسر ناجائز ہے ۔
ہمارے ہاں چونکہ قسطوں کی خریدو فروخت میں عموما تاخیر پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے لہذا اس کو مطلق جائز قراردینا درست نہیں ۔
خلاصہ
• ادھار میں نقد سے زیادہ قیمت لگائی جاسکتی ہے ۔
• اکثر محدثین عظام نے ایک بیع میں دو بیع کی جو تشریح کی ہے بیع قسط اس میں شامل نہیں ۔
• ادائیگی میں تأخیر پر جرمانہ عائد کرنا سود ہے ۔

تمت بالخير
رحمک اللہ
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
محترم خضر حیات بھائی ان شاءاللہ فرصت میں لکھوں گا اللہ آپ کو جزا دے امین
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
رحمک اللہ

از حافظ عبد المنان نورپوری بطرف جناب بشیر أحمد سیالکوٹی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ:
أمابعد!میں نے آپ کے مجلہ '' نداء الإسلام '' کے سال چہارم کے پہلے شمارہ کامطالعہ کیا،اس میں مَیں نے جناب دکتور حسین مطاوع الترتوری کامضمون''قسطوں کی بیع''پڑھا ،جس میں انہوں نے قسطوں کی بیع کوجائزقراردیاہے۔چنانچہ اس مضمون کی فصل ''مُنَاقَشَۃُ الْأَدِلَّۃِ وَ بَیَانُ الرَّاجِحِ''(دلائل کامناقشہ اورراجح چیز کابیان)میں فرماتے ہیں:
راجح- واللہ أعلم -یہی ہے کہ قسطوں کی بیع جائزہے خواہ اُس میں قیمت زیادہ ہی دینی پڑے؛بشرطیکہ خریدوفروخت کے وقت شروع میں ہی یہ بات ہوجائے (کہ پیسے تاخیرسے دینے ہیں اوراتنی مقدارمیں دینے ہیں)۔ترتوری صاحب مضمون کے آخر میں فرماتے ہیں:
خلاصہ یہ ہے کہ قسطوں کی بیع جائزہے۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
محترم خضر حیات بھائی ان شاءاللہ فرصت میں لکھوں گا اللہ آپ کو جزا دے امین

ترتوری صاحب مضمون کے آخر میں فرماتے ہیں:
خلاصہ یہ ہے کہ قسطوں کی بیع جائزہے۔

از حافظ عبد المنان نورپوری بطرف جناب بشیر أحمد سیالکوٹی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ:
أمابعد!میں نے آپ کے مجلہ '' نداء الإسلام '' کے سال چہارم کے پہلے شمارہ کامطالعہ کیا،اس میں مَیں نے جناب دکتور حسین مطاوع الترتوری-حَفِظَہُ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی ، وَبَارَکَ فِیْ عِلْمِہِ وَعَمَلِہٖ ، وَ وَفَّقَنَا وَإِیَّاہُ لِمَا یُحِبُّہ، وَیَرْضَاہُ-کامضمون''قسطوں کی بیع''پڑھا ،جس میں انہوں نے قسطوں کی بیع کوجائزقراردیاہے۔چنانچہ اس مضمون کی فصل ''مُنَاقَشَۃُ الْأَدِلَّۃِ وَ بَیَانُ الرَّاجِحِ''(دلائل کامناقشہ اورراجح چیز کابیان)میں فرماتے ہیں:
راجح- واللہ أعلم -یہی ہے کہ قسطوں کی بیع جائزہے خواہ اُس میں قیمت زیادہ ہی دینی پڑے؛بشرطیکہ خریدوفروخت کے وقت شروع میں ہی یہ بات ہوجائے (کہ پیسے تاخیرسے دینے ہیں اوراتنی مقدارمیں دینے ہیں)۔ترتوری صاحب مضمون کے آخر میں فرماتے ہیں:
خلاصہ یہ ہے کہ قسطوںکی بیع جائزہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صاحبِ مضمون کے دلائل :
صاحبِ مضمون نے اپنے دعوٰی کے اِثبات کے لئے مندرجہ ذیل چند دلائل بھی پیش کئے ہیں:
١-اللہ تعالیٰ کے اس فرمان:(وَ أَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ ).(اللہ تعالیٰ نے خرید و فروخت حلال کی ہے۔ ) (البقرۃ:٢٧٥)کے تحت قسطوں کی بیع بھی داخل ہے۔
٢-اللہ تعالیٰ کے فرمان:(یَآ أَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَأْکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَینَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ).(اے ایمان والو!اپنے مال آپس میں باطل طریقے سے نہ کھاؤ،مگریہ کہ باہم رضامندی سے تجارت ہو۔)(النسائ: ٢٩)کے تحت بھی داخل ہے۔
٣-نبیؐ کی حدیث:((لَایَحِلُّ مَالُ امْرِیئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا عَنْ طِیْبِ نَفْسٍ)).(کسی مسلمان کامال جائزنہیں مگر اُس کی خوشنودی سے [مستدرک علی الصحیحین للحاکم کتاب العلم(٣١٨) سنن دارقطنی کتاب البیوع (٩٢) ]سے بھی قسطوں کی بیع کی اجازت ہے۔
٤-اصل میں تمام معاملات،لین دین جائزہیں جب تک کوئی منع کی دلیل واردنہ ہو،اورجوآدمی کہتاہے کہ قسطوں کی بیع جائزنہیں اُس کے پاس کوئی ایسی دلیل موجودنہیں جس سے قسطوں کی بیع کی ممانعت نکلتی ہو۔
٥-لوگوں کوایک چیزکی ضرورت ہواورنقدپیسے نہ ہوں توآسان قسطوں پرچیزکواس کے ریٹ سے مہنگاخریدلینے میں ان کوکوئی دشواری نہیں ہوتی۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے:(وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ ).(اللہ تعالیٰ نے دین میں تم پرکوئی تنگی نہیں ڈالی۔)[الحج :٧٨]اورفرماتاہے:(یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ).(اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتاہے اورتمہارے ساتھ تنگی نہیں چاہتا۔)[ البقرۃ :١٨٥]
٦-اس وقت ایسے محسنوں کی کمی ہے جواپنے ضرورت مندبھائیوں کوقرضِ حسنہ دے سکیں۔
٧-اس سے ُسود کا دروازہ بندہوگا؛کیونکہ ایک آدمی کوجب ایک چیزکی ضرورت ہواوراس کے پاس اسے خریدنے کے لئے پیسے نہ ہوں،نہ ہی کوئی قسطوںپربیچنے کے لئے تیارہوتواُسے وہ چیزخریدنے کے لئے سود پرپیسے لینے پڑیں گے۔
٨-قیمت میں اضافہ کاجوازتاخیرکابدل ومعاوضہ ہے۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
دلائل کاتجزیہ:
ان آٹھ دلائل میں کوئی دلیل بھی ایسی نہیں،نہ ہی کوئی اوردلیل ایسی ہے جوصاحبِ مضمون کے دعوٰی''قسطوں کی بیع کے جواز''کوثابت کرسکے۔
''١،٢،٣''(پہلے تین دلائل تواس لئے دلیل نہیں بنتے کہ غیرشرعی خریدوفروخت اورتجارتیں سرے سے ان تینوں دلائل کے عموم میں داخل ہی نہیں،اوراگرداخل ہیں توشریعت نے ان عمومی دلائل سے نکال کران کابطورِخاص الگ حکم بتایاہے؛ورنہ لازم آئے گاکہ ان کے ساتھ:(ا)شراب اورخنزیرکی خریدوفروخت۔(ب)گندم کی خریدوفروخت برابروزن سے ،ایک جانب سے نقداوردوسری جانب سے ادھار۔ (ج)دونوں جانب سے گندم نقدہولیکن ایک فریق زیادہ لے۔ (د)ایک فریق کم لے اوردوسرازائدلے جبکہ ایک اُدھارکرے۔
تویہ اوراس طرح دوسری بیوع اورتجارتیں اگررضامندی سے ہوجائیں توجائزہونی چاہئیں؟لیکن ظاہرہے کہ سودہیں،توقسطوں کی بیع بھی صرف رضامندی کی وجہ سے کیسے جائزہوگئی؟
صاحبِ مضمون بھی اس طرح کی خریدوفروخت اور تجارت کواِس بنا پرجائز قرار نہیں دیتے کہ یہ اِن دلائل کے عموم کے تحت داخل ہیں؛ اس لئے کہ شریعت نے اِن کواوراس طرح کی دوسری بیوع اورتجارات کوحرام قراردیاہے۔اورقسطوں کی بیع بھی انہی بیوع میں سے ہے جنہیں شریعت نے حرام کیاہے کیونکہ اس میں زیادہ منافع صرف تاخیر کی وجہ سے لیاجاتاہے۔اورصرف تاخیرِوقت کامنافع شریعت میں جائزنہیں،جس طرح سود (قرض کے سود اوربیع کے سود)کی حرمت کے بہت سے دلائل سے سمجھ آتاہے۔پھرقسطوں کی بیع ان بیوع سے ہے جن پرنبیؐ کایہ فرمان صادق آتاہے:
(( مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہ، أَوْکَسُھُمَا أَوِالرِّبَا)).(جس نے ایک بیع(چیزِ فروخت)کے دو بھاؤ لگائے تواس کےلئے کم ریٹ اور بھاؤ لینا جائز ہے اور اگر زیادہ لیا تو سود ہوگا ۔)
( یہ مسئلہ آگے آرہا ہے ، إِنْ شَآءَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی).
لہٰذا ان تین اور ان کے علاوہ دوسرے دلائل سے قسطوں کی بیع کے جواز پر استدلال کرنا درست نہیں ۔
٤-چو تھی دلیل اس لئے نہیں بنتی کہ یہاں قسطوں کی بیع کی ممانعت کی مضبوط دلیل موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ قسطوں کی بیع کا انحصار اس پر ہے کہ اس میں صرف تاخیر اور دیر سے ادائیگی کرنے پر منافع لیا جاتا ہے اور یہ ایسی بیوع سے ہے جن پر نبیؐ کا یہ قول: ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَاأَوِالرِّبَا)) .صادق آتا ہے
٥-پانچویں پیش کردہ دلیل اس لئے صحیح نہیں کہ اس سے شریعت میں ہر حرام کردہ چیزاس وجہ سے جائز اور حلال ٹھہرے گی کہ لوگوں کو اس کی ضرورت ہے مثلاً:
کسی آدمی کو ایک چیز کی ضرورت ہو لیکن خریدنے کیلئے پیسے نقد موجود نہیں ،وہ کسی آدمی سے پیسے لے کر چیز خرید لے اور بعد میں اسے پیسے واپس کرے تو اضافی رقم بھی ادا کرے اور یہ معاملہ اورلین دین سود کے باوجود حلال ٹھہرے گا ؟''نہیں'' ''ہر گز نہیں''۔لہٰذا اصل یہی ہے کہ جو چیز شریعت نے حرام کی ہے وہ حرام ہی ہے لوگوں کو اس کی ضرورت پڑے یا نہ پڑے ، چیز خریدنے کےلئے نقد قیمت ملے یا نہ ملے ۔اور قسطوں کی بیع حرام بیوع سے ہے ، یہ رفع حرج اور ارادهء یُسرکے قاعدہ(کہ شریعت میں تنگی نہیں آسانی ہے)کے زمرے میں نہیں آتی۔جن کے پاس نقد قیمت موجود ہے اور جن کے پاس موجود نہیں سب پر لازم ہے کہ حلال کو لازم پکڑیں اور حرام سے اجتناب کریں ،جوآدمی حلال لیناچاہے وہ حرام سے بچ جاتا ہے نبی ﷺنے فرمایا:((وَمَنْ یَّسْتَعِفَّ یُعِفَّہُ اللّٰہُ ، وَمَنْ یَّسْتَغْنِ یُغْنِہُ اللّٰہُ)) (جو پاکدامنی اختےار کرنا چاہے اللہ سبحانہ وتعالیٰ اسے پاکدامن بنا دیتا ہے اور جو حرام سے بچنا چاہے اللہ سبحانہ وتعالیٰ اسے حرام سے بچا لیتا ہے۔) [بخاری کتاب الزکاۃباب لا صدقۃ إلاعن ظہر غنا(١٤٢٨) مسلم کتاب الزکاۃ باب فضل التعفف والصبر(١٠٥٣)] اور اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:(وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَہ، مَخْرَجاً . وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبْ وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہ، إِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ أَمْرِہٖ قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْءٍ قَدْراً)۔(جو اللہ تعالیٰ سے ڈر ے وہ اس کےلئے کوئی نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے اور اسے وہاں سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اسے امید بھی نہیں ہوتی اور جو اللہ پر بھروسہ کر لے تو وہ اُسے کافی ہو جاتا ہے بے شک اللہ تعالیٰ اپنے کام کو پورا کرتا ہے ، اور اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک اندازہ لگا رکھا ہے۔)[الطلاق :٣] لہٰذا اللہ تعالیٰ کے یہ فرامین: (وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ)[الحج :٧٨]۔ اور (یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ)۔[ البقرۃ :١٨٥] اللہ اوراس کے رسول کی حرام کردہ چیزوں کودفعِ حرج اور رفعِ عُسر(تنگی اوراٹھانااوردورکرنا)کے دعوٰ ی سے حلال نہیں کرتے،ورنہ لازم آئے گاکہ ہرحرام حلال ہوجائے اوریہ ٹھیک نہیں۔
٦-چھٹی دلیل بھی صحیح نہیں؛کیونکہ اسے صحیح ماننے سے شریعت کی ہرحرام کردہ چیزاس علت اوروجہ سے حلال ٹھہرے گی کہ جی!ایسے محسنین کی کمی ہے جولوگوں کواپنے مال بطورقرض حسنہ دیں۔اوریہ علت بھی کمزورہے۔
٧-ساتویں دلیل سے بھی ''قسطوںکی بیع کاجواز''ثابت نہیں ہوتا؛اس لئے کہ:(أ)- ''قسطوں کی بیع''سودی بیع ہے جس میں زائدمنافع ادائیگی کی تاخیرکی وجہ سے ہوتاہے جوکہ شریعت میں سودکہلاتاہے۔ (ب)-نبی ؐنے فرمایا: ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَاأَوِالرِّبَا))۔دراصل قسطوں کی بیع میں تھوڑے درہم یا دینار کی زیادہ کے بدلے بیع (خرید و فروخت)ہوتی ہے اور سودا توواضح طور پرحیلہ ہے ۔ (یہ مسئلہ إِنْ شَآ ءَ اللّٰہ تَعَالٰی آگے آرہا ہے)
لہٰذا پتہ چلاکہ قسطوں کی بیع سے سود کا راستہ بند نہیں ہوتا بلکہ یہ سود کا بہت بڑا دروازہ خوب کھول دیتی ہے۔
٨-آٹھویں دلیل سے صاحب مقال کا دعوٰی اسلئے ثابت نہیں ہوتا کہ ذکر کردہ دلیل : '' قیمت میں تاخیرکے عوض اضافہ کا جواز ''
نہ قرآن سے ثابت ہے نہ نبیؐ کی کسی حدیث سے بلکہ یہ صرف دعوٰی ہے ۔ہاں! یہ ضرور ثابت ہے کہ قیمت مؤجل ہونے کی بناء پر نفع لینا (اور اس میں زائد قیمت بھی آگئی)جائز نہیں ۔ اورسود کی حرمت کے بہت سارے دلائل اس پر دلالت کرتے ہیں۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
ادائیگی کی تاخیر، وجہ سودنہیں
جو لوگ ''قسطوں کی بیع'' کو اس وجہ سے سودی بیع کہتے ہیں کہ اس میں صرف ادائیگی کی تاخیر کی وجہ سے پیسے زیادہ لئے جاتے ہیں ۔ اس کا جواب دیتے ہوئے صاحبِ مضمون کہتے ہیں:
یہ استدلال صحیح نہیں ،اسلئے کہ بیع شروع سے ہی معین قیمت پر ہوئی ہے کہ اتنے عرصے میں ادائیگی ہوگی اور اتنا ریٹ ہے۔ دوسرے ریٹ کی بات کی ہی نہیں ہوئی۔اور ایسا جب فریقین کی رضا مندی سے طے ہو جائے تو جائز ہے۔
جواب
اس کے کئی جواب ہیں:
١-صاحبِ مضمون پہلے خود ''قسطوں کی بیع''کی اہم خصوصیات میں بیان کر چکے ہیں کہ
(أ)١-سامان (قابل فروخت) فوری دیا جائے گا۔ ٢-قیمت مؤجل ہوگی اور قسطوں میں دی جائیگی۔ ٣-قیمت میں اضافہ تاخیرکاعوض ہے۔
(ب)پھر یہ بھی کہہ کر آئے ہیں کہ تیسری بات (قیمت میں اضافہ تاخیر کی نظیرہے)میں اختلاف ہے۔
(ج) پھر کہتے ہیں کہ ''قیمت میں اضافہ تاخیر کی نظیر ہے'' کو جائزقرار دینے والوں کی دلیل یہی ہے کہ قیمت میں اضافہ تاخیر کی نظیرہے۔
آپکو یہ معلوم ہو چکا ہے کہ صاحبِ مضمون نے اپنے ان تینوں اقوال میں''قسطوں کی بیع میں'' قیمت میں اضافہ کو تاخیرِ ادائیگی کاعوض وبدل ٹھہرایا ہے لیکن اب کہہ رہے ہیں کہ
''قیمت جو طے ہو رہی ہے وہ سامان (قابل فروخت)کی پوری قیمت ہے''
ان کے پچھلے تین اقوال اور اس قول میں واضح تضاد ہے،کیونکہ جب قیمت سامان کی پوری قیمت بن رہی ہو تو پھر '' قیمت میں اضافہ تاخیر کاعوض وبدل ہے''باقی نہیں رہتا ۔اور جب''قیمت میں اضافہ تاخیرکاعوض وبدل ہو''سامان فروخت کی قیمت اس کی پوری قیمت نہیں ہو سکتی۔یہ بالکل واضح بات ہے جسے ذہین اورکند ذہن سبھی جانتے ہيں۔
٢-دوسرا جواب یہ ہے کہ جب ساری قیمت جو قسطوںمیں قابل ادا ہے سامان کی کل قیمت ہے اور ادائیگی کی تاخیر کی وجہ سے اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا تو پھر تو یہ بیع ''قسطوں کی بیع'' رہتی ہی نہیں (کیونکہ قسطوں کی بیع میں تاخیر ادائیگی کی وجہ سے پیسے زیادہ دینے پڑتے ہیں)اور جب یہ صورت ''قسطوں کی بیع'' والی بنتی ہی نہیں تو صاحب مضمون کا یہ جواب اسے سود کہنے والوں کےلئے جواب نہیں بنتا۔
٣-اگر قسطوں میں ادا ہونے والی رقم سامان ِ فروخت کی کل قیمت ہے اور تاخیر ادائیگی کی وجہ سے ریٹ نہیں بڑھایا گیا تو اگر یکبارگی ساری رقم ادا کر دی جائے تو ریٹ کم نہیں ہونا چاہئے!جبکہ ایسا نہیں ہوتا۔
٤-''قیمت(قابل ادا)کو سامان کی مکمل اور پوری قیمت کہنا''اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ'' شروع سے ایک معین ریٹ ہی طے پایا تھا لیکن ابتدامیں ایساہو جانے سے وہ بیع صحیح نہیں ہو جاتی! دیکھئے:
ایک آدمی دوسرے سے کہتا ہے:میں تجھے یہ''درھم'' ''ایک درھم اور چوتھا ئی درھم ''کے عوض ادھار بیچتا ہوں (جبکہ قیمت میں دونوں برابر ہوں)۔
یا کہتا ہے:میں تمہیں یہ سودا دو درھم میں ادھار بیچتا ہوں (جبکہ نقداً اس سودے کی قیمت دو درھم سے کم ہو)اور دوسرا آدمی کہہ دے:
'' مجھے یہ بیع اور سود اقبول ہے'' اس سے ''درہم اور چوتھائی درہم''ایک درہم کی پوری قیمت نہیں بنتی۔نہ ہی دو درہم سامان کی پوری قیمت بنتے ہیں(بالکل قیمت زیادہ ہے) یہ اضافی ریٹ ادائیگی کی تاخیر کی وجہ سے ہے ۔تو اب یہ بیع اس دلیل سے جائز نہیں ہو جائیگی کہ''بیع ابتداء ہی سے معین ریٹ پر ہوئی تو کل قیمت سامان کی پوری قیمت ہی ہے''۔
٥-شریعت جو ''نقد درھم کی ادھار درھم سے بیع''کو سود قرار دیتی ہے ''قسطوں کی بیع'' کو بالأولیٰ سود قرار دیتی ہے کیونکہ اس میں تو ادائیگی کی تاخیر کی وجہ سے قیمت زیادہ لی جاتی ہے جبکہ ''نقد درھم کی ادھار درھم سے بیع'' میں قیمت بھی زیادہ نہیں لی جاتی اور پھر بھی سود ٹھہرتا ہے۔اسی طرح جب شریعت میں ''نقد گندم کی ادھار جو سے بیع'' سود ہے تو قسطوں کی بیع بالأولیٰ سود ہے ۔لہٰذا واضح ہو گیا کہ قسطوں کی بیع سودکی ایک شکل ہی ہے ۔(وَأَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبَا).اور اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام کیا ہے۔
٦-صاحبِ مضمون کی یہ بات :''یہ جائزہے جب بیع(فریقین کی )رضامندی سے ہوئی ہو''کوئی حیثیت نہیں رکھتی کیونکہ ''قسطوں کی بیع''سودی بیع ہے (جیساکہ پہلے گزرچکاہے اورآگے بھی یہ بات إِنْ شَآءَ اللّٰہُ تَعَالٰی آرہی ہے)اورسود جب قرآن وحدیث کی نصوص سے ناجائزاورحرام ہے توفریقین کی رضامندی سوداورسودی بیوع (جن میں قسطوں کی بیع بھی شامل ہے)کوجائزاورحلال نہیں کرسکتی۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
حدیثِ ''مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ ''الخ کے تین معانی
صاحبِ مضمون کہتے ہیں:''اس طرح ان (قسطوں کی بیع کوحرام کہنے والوں)کااس حدیث:((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَاأَوِالرِّبَا))۔
سے استدلال قسطوں کی بیع-جس میں اضافی رقم دیناپڑتی ہے- پرمنطبق نہیں ہوتاکیونکہ حدیث سے مندرجہ ذیل تین معانی میں سے ایک معنی مرادہے اورتین میں قسطوں کی بیع شامل نہیں۔
(١)ایک بیع میں دوبیعوں سے مراد''بیع عِینہ ''ہے جس کامطلب ہے کہ ایک آدمی دوسرے کو کوئی چیزفروخت کرتاہے اورادائیگی کاوقت معینہ مدت تک طے ہوجاتاہے،پھروہ چیزخریدنے والے سے نقدرقم پرکم قیمت میں خریدلیتاہے۔
(٢)بعض نے کہاہے:اس کامطلب یہ ہے کہ ایک ہی چیزدومرتبہ فروخت ہوتی ہے جیسے:ایک آدمی ایک مہینہ ادھارپرکوئی چیزبیچتاہے،جب ادائیگی کاوقت آتاہے، خریدارکے پاس قیمت موجودنہیں ہوتی،فروخت کنندہ اس پراورپیسے چڑھادیتاہے،اسے دوبارہ نئے سرے سے نئی قیمت پربیچتاہے اورادئیگی کی پہلی رقم اس کے ذمہ بدستورقائم رہتی ہے۔
(٣)بعض کہتے ہیں:حدیث کامعنی یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی کوکوئی چیزفروخت کرے اورساتھ شرط لگائے کہ خریداربھی اسے کوئی دوسری چیز فروخت کرے۔
جواب
میں کہتاہوں اس کے کئی جواب ہیں:
جو ا ب نمبر١-یہ حدیث:((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَاأَوِالرِّبَا))۔صرف ایک،دو،تین یاچار،پانچ کوشامل نہیں بلکہ ہراس بیع کوشامل ہے جس میں دوبیعیں کی جائیں۔اوریہ بالکل واضح بات ہے جوکسی اہل علم سے مخفی نہیں؛لہٰذا صاحبِ مضمون کایہ کہناکہ یہ حدیث''قسطوں کی بیع(جس میں اضافی رقم دیناپڑتی ہے)پرمنطبق نہیں ہوتی''صحیح نہیں،کیونکہ اس بات کی بنیاداِس نظریہ اورفکرپرہے کہ حدیث صرف مذکورہ تین معانی پرہی منحصرہے،حالانکہ حدیث میں کوئی قصرہے نہ حصر،جیساکہ آپ معلوم کرچکے ہیں۔
جواب نمبر٢-صاحبِ مضمون نے حدیث کوتین معانی میں بندکرکے رکھ دیاہے،یہ بات کسی اہلِ علم سے ثابت نہیں،ہاں!بعض نے اس سے صرف ''بیع عِینہ''مرادلی ہے جیسا کہ آگے إِنْ شَآءَ اللّٰہُ تَعَالٰی آرہاہے؛بلکہ کئی علماء نے ''کوئی چیزنقدکم قیمت پراورادھارزیادہ قیمت پربیچنے ''کوہی ایک بیع میں دوبیعیں قراردیاہے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب جامع ترمذی میں فرماتے ہیں:''وَقَدْ فَسَّرَ بَعْضُ أَھْلِ الْعِلْمِ قَالُوْا:بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ أَنْ یَّقُوْلَ:أَبِیْعُکَ ھٰذَا الثَّوْبَ بِنَقْدٍ بِعَشْرَۃٍ ، وَ بِنَسِیْئَۃٍ بِعِشْرِیْنَ.وَلَایُفَارِقُہ، عَلٰی أَحَدِ الْبَیْعَیْنِ ، فَاِذَا فَارَقَہ، عَلٰی أَحَدِھِمَا فَلَا بَأْسَ إِذَا کَانَتِ الْعُقْدَۃُ عَلٰی وَاحِدٍ مِّنْھُمَا''.اھـ[أبواب البیوع عن رسول اللہ باب ماجاء فی النہی عن بیعتین فی بیعۃ]
''بعض اہل علم نے وضاحت کی ہے کہ ایک بیع میں دوبیعیں یہ ہیں کہ آدمی ایک ہی مجلس میں کہے:میںیہ کپڑاآپ کونقددس درھم میں دیتاہوں اورادھاربیس درھم میں''لیکن اگرصرف ایک ہی قیمت (دس درھم)یا(بیس درھم)کہے اورسوداہوجائے اوربائع ومشتری جدا جدا ہوجائیں توپھرکوئی حرج نہیں۔
محدث البانی رحمہ اللہ تعالیٰ إرواء الغلیل میں فرماتے ہیں:وَقَدْ مَضٰی قَرِیْباً تَفْسِیْرُہ، بِمَا ذُکِرَ عَنْ سِمَاکٍ.وَکَذَا فَسَّرَہ، عَبْدُالْوَھَّابِ بْنُ عَطَاءٍ ، فَقَالَ:یَعْنِیْ یَقُوْلُ:ھُوَ لَکَ بِنَقْدٍ بِعَشْرَۃٍ، وَبِنَسِیْئَۃٍ بِعِشْرِیْنَ.اھـ(٥/١٥١)پیچھے قریب ہی اس کی تفسیرمیں سماک کاقول ذکرہواہے ، اسی طرح عبدالوھاب بن عطاء نے اس کی تشریح کرتے ہوئے کہا:''یعنی آدمی کہے:نقدآپ کے لئے دس میں ہے اورادھاربیس میں''۔
عبدالرزاق رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب ''مصنف ''میں لکھتے ہیں:قَالَ الثَوْرِیُّ:إِذَا قُلْتَ:أَبِیْعُکَ بِالْنَقْدِ بِکَذَاوَبِالْنَّسِیْئَۃِ بِکَذَاوَکَذَا۔فَذَھَبَ بِہِ الْمُشْتَرِیُ فَھُوَ بِالْخِیَارِ فِیْ الْبَیْعَیْنِ مَا لَمْ یَکُنْ وَقَعَ بَیْعٌعَلٰی أَحَدِھِمَا،فَإِنْ وَقَعَ الْبَیْعُ ھٰکَذَا فَھٰذَا مَکْرُوْہٌ، وَھُوَ بَیْعَتَانِ فِیْ بَیْعَۃٍ ، وَہُوَمَرْدُوْدٌ وَہُوَ الَّذِیْ یُنْھٰی عَنْہُ ، فَإِذَ وَجَدَتَ مَتَاعَکَ بِعَیْنِہِ أَخَذْتَہُ ، وَإِنْ کَانَ قَدْ اسْتَھْلَکَ فَلَکَ أَوْکَسُ الْثَمَنَیْنِ ، وَأَبْعَدُ الْأَجَلَیْنِ۔ [٨/١٣٨(١٤٦٣٢)]
امام ثوری رحمہ اللہ نے کہا:جب آپ کہیں کہ ''نقد آپ کو اتنے میں دوں گا اور ادھار اتنے میں ''کوئی ایک صورت طے ہونے کے بغیر گاہک اگر وہ چیز لے جائے تو اسے اختیار ہے دو قیمتوں میں سے جو مرضی ادا کر دے لیکن اگر اس طرح بیع طے ہو جائے تو ایسی بیع مکروہ ہے اور ایک بیع میں دو بیعیں ہیں جو کہ مردود اور ممنوع ہے، اگر آپ کو اپنا سامان بعینہ مل جائے تو اسے لے لو اور اگر خراب ہو چکا ہو تو دو قیمتوں میں جو کم ہے وہ لیں گے اور ادائیگی کے دو اوقات میں سے جو زیادہ تاخیر والا وقت ہے اس وقت وصول کریں گے۔
وَ قَالَ عَبْدُالْرَّزَّاقِ:أَخْبَرَنَا إِسْرَائَیْلُ قَالَ:حَدَّثَنَا سِمَاکُ بْنُ حَرْبٍ عَنْ عَبْدِالْرَّحْمٰنِ ابْنِ عَبْدِاللّٰہِ عَنْ ابْنِ مَسْعُوْدٍ ص قَالَ:لَا تَصْلُحُ الْصَّفْقَتَانِ فِیْ الْصَّفْقَۃِ أَنْ یَّقُوْلَ: ہُوَ بِالنَّسِیْئَۃِ بِکَذَا وَ کَذَا، وَ بِالنَّقْدِ بِکَذَا وَ کَذَا۔اہـ(٨/١٣٨) عبدالرزاق فرماتے ہیں :ہمیں اسرائیل نے خبر دی ،اس نے کہا ہمیں سماک بن حرب نے بیان کیا از عبدالرحمان بن عبداللہ کہ عبداللہ بن مسعودص نے فرمایا:ایک چیز کے دو سودے کرنا کہ ''ادھار اتنے کی اور نقد اتنے کی ہے '' درست نہیں۔
امام شوکانی رحمہ اللہ نیل الاوطار میں فرماتے ہیں:''قَوْلُہ،:مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ.فَسَّرَہ، سِمَاکٌ بِمَا رَوَاہُ الْمُصَنِّفُ عَنْ أَحْمَدَ عَنْہُ ، وَقَدْ وَافَقَہ، عَلٰی مِثْلِ ذٰلِکَ الشَّافِعِیُّ ، فَقَالَ:بِأَنْ یَّقُوْلَ: بِعْتُکَ بِأَلْفٍ نَقْداً أَوْ أَلْفَیْنِ إِلٰی سَنَۃٍ ، فَخُذْ أَیَّھُمَا شِئْتَ أَنْتَ ، وَشِئْتُ أَنَا ، وَنَقَلُ ابْنُ الرِّفْعَۃَ عَنِ الْقَاضِیْ أَنَّ الْمَسْأَلَۃَ مَفْرُوْضَۃٌ عَلٰی أَنَّہ، قَبِلَ عَلٰی الْإِبْھَامِ.أَمَّا لَوْ قَالَ:قَبِلْتُ بِأَلْفٍ نَقْداً ،أَوْ بِأَلْفِیْنِ بِالنَّسِیْئَۃِ صَحَّ ذٰلِکَ.وَقَدْ فَسَّرَ ذٰلِکَ الشَّافِعِیُّ بِتَفْسِیْرٍ آخَرَ ، فَقَالَ: ھُوَ أَنْ یَّقُوْلَ: بِعْتُکَ ذَا الْعَبْدَ بِأَلْفٍ عَلٰی أَنْ تَبِیْعَنِیْ دَارَکَ بِکَذَا.أَیْ إِذَا وَجَبَ لَکَ عِنْدِیْ وَجَبَ لِیْ عِنْدَکَ ، وَھٰذَا یَصْلُحُ تَفْسِیْرٌ لِلرِّوَایَۃِ الْأُخْرٰی مِنْ حَدِیثِ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ، لَا لِلْأُوْلٰی فَإِنَّ قَوْلَہ،:فَلَہ، أَوْکَسُھُمَا.یَدُلُّ عَلٰی أَنَّہ، بَاعَ الشَّیْیئَ الْوَاحِدَ بَیْعَتَینِ بَیْعَۃً بِأَقَلَّ و َبیْعَۃً بِأَکْثَرَ .وَقِیْلَ فِیْ تَفْسِیْرِ ذٰلِکَ:ھُوَ أَنْ یُّسْلِفَہ، دِیْنَاراً فِیْ قَفِیْزِ حِنْطَۃٍ إِلٰی شَھْرٍ ، فَلَمَّا حَلَّ الْأَجَلُ ، وَطَالَبَہ، بِالْحِنْطَۃِ قَالَ: بِعْنِیْ الْقَفِیْزَ الَّذِیْ لَکَ عَلَیَّ إِلٰی شَھْرَیْنِ بِقَفِیْزَیْنِ. فَصَارَ ذٰلِکَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ ؛ لِأَنَّ الْبَیْعَ الثَّانِیَ قَدْ دَخَلَ عَلٰی الْأَوَّلِ فَیَرُدُّ إِلَیْہِ أَوْکَسَھُمَا ، وَھُوَ الْأَوَّلُ. کَذَا فِیْ شَرْحِ السُّنَنِ لِابْنِ رَسْلَانَ.اھـ
[کتاب البیوع باب بیعتین فی بیعۃ ٥/٢٤٩]
حدیث(( مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ))کی تفسیر سماک نے اسی طرح کی ہے جس طرح مصنف نے امام احمدکے واسطے سے سماک سے روایت کیا ہے۔ امام شافعی کا قول بھی ان کے موافق ہی ہے،امام شافعی فرماتے ہیں: کہ حدیث کا مطلب ہے کہ آدمی مثال کے طور پر کہےـ:''نقد ہزار کی اور ایک سال تک ادائیگی کر دو تو دو ہزارکی،جو آپ چاہتے ہیں وہ لے لیں اور جو میں چاہوں وہ لے لوں''۔
ابن رفعہ نے قاضی سے نقل کیا ہے کہ اس صورت میں جب بات مبہم اور غیر واضح ہو لیکن اگر وضاحت ہو جائے اور کہہ دے کہ: نقد ہزار کی مجھے منظورہے، یا ادھار دو ہزار کی مجھے قبول ہے تو ایسا کرنا صحیح ہے۔
ا س کی وضاحت امام شوکانی نے اور طرح بھی کی ہے کہ وہ کہے:یہ غلام میں تمہیں ایک ہزار میں فروخت کرتا ہوں بشرطیکہ تو اپنا گھر مجھے اتنی اتنی قیمت پر بیچے۔ یعنی جب غلام تیرا ہو جائے گا تو گھر میرا ہو جائے گا۔
یہ ابو ھریرہ کی دوسری روایت کی تفسیر تو بن سکتا ہے مگر پہلی روایت کی نہیں کیونکہ فَلَہُ أَوکَسُھُمَا(اس کےلئے کم قیمت لینا جائز ہے)کے الفاظ اس بات پر دلالت کررہے ہیں کہ وہ ایک ہی چیز کی دو بیعیں کر رہا ہے:ایک بیع کی قیمت کم ہے جبکہ دوسری کی زیادہ ۔
اس کی تفسیر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ: اس کا مطلب ہے کہ ایک آدمی کسی کو ایک دینار ادھار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ مہینے بعد مجھے اس کے بدلے ایک قفیز گندم دے دینا ، وقت آنے پر وہ اس گندم کا مطالبہ کرتا ہے تو وہ کہتا ہے:آپکا جو ایک قفیز میرے ذمہ ہے وہ مجھے بیچ دو اور دو مہینے بعد دو قفیز مجھ سے لے لےنا۔
یہ ایک بیع میں دو بیعیں ہیں کیونکہ دوسری بیع پہلی بیع پر داخل ہوئی ہے ۔تو خریدار دو قیمتوں میں سے کم قیمت ہی ادا کرے گا اور وہ وہی پہلی (ایک قفیز ہی) ہے، شرح السنن لابن رسلان میں اسی طرح ہے ۔ امام شوکانی کی بات ختم ہوئی۔
حدیث کے الفاظ :''فلَہ، أَوْکَسُھُمَا''کامطلب ہے دونوں قیمتوںمیں کم درجہ کی قیمت۔
علامہ خطابی فرماتے ہیں:لَا أَعْلَمُ أَحَداً قَالَ بِظَاھِرِ الْحَدِیثِ ، وَصَحَّحَ الْبَیْعَ بِأَوْکَسِ الثَّمَنَیْنِ إِلَّا مَا حُکِیَ عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، وَھُوَ مَذْھَبٌ فَاسِدٌ.اھـ[تحفۃ الأحوذی شرح جامع الترمذی لأبی العلا المبارکفوری أبواب البیوع باب ماجاء فی النہی عن بیعتین فی بیعۃ ٤/٣٥٩]میں کسی کونہیں جانتاجس نے حدیث کے ظاہرالفاظ کوسامنے رکھ کر''دو قیمتوںمیں سے کم قیمت والی بیع ''کوصحیح قراردیامگرامام اوزاعی اسے صحیح کہتے ہیں اورامام اوزاعی کایہ نظریہ فاسدہے۔انتہیٰ
یہ توواضح ہے کہ امام اوزاعی نے جوفرمایا حدیث کے الفاظ سے ظاہرہے؛کیونکہ ''فَلَہ، أَوْکَسُھُمَا'' کایہی تقاضاہے کہ دوقیمتوںمیں سے کم قیمت لیناجائزہے۔
قَوْلُہ،: ((أَوِ الرِّبَا)).یَعْنِیْ أَوْ یَکُوْنُ قَدْ دَخَلَ ھُوَ وَصَاحِبُہ، فِی الرِّبَا الْمُحَرَّمِ إِذَا لَمْ یَأْخُذِ الْأَوْکَسَ ، بَلْ أَخَذَ الْأَکْثَرَ ، وَذٰلِکَ ظَاھِرٌ فِی التَّفْسِیْرِ الَّذِیْ ذَکَرَہ، ابْنُ رَسْلَانَ ، وَأَمَّا فِی التَّفْسِیْرِ الَّذِیْ ذَکَرَہ، أَحْمَدُ عَنْ سِمَاکٍ ، وَذَکَرَہ، الشَّافِعِیُّ فَفِیْہِ مُتَمَسَّکٌ لِمَنْ قَالَ:یَحْرُمُ بَیْعُ الشَّیئِ بِأَکْثَرَ مِنْ سِعْرِ یَوْمِہٖ لِأَجْلِ النَّسَأ ِ.اھـ[تحفۃ الأحوذی شرح جامع الترمذی لأبی العلا المبارکفوری أبواب البیوع باب ماجاء فی النہی عن بیعتین فی بیعۃ ٤/٣٥٩].
حدیث کے الفاظ: (( أوِالرِّبَا)) یعنی دوقیمتوںمیں سے ''کم قیمت''کی بجائے اگر''زیادہ قیمت''لے لے توبائع اورمشتری دونوں حرام سودمیں داخل ہوجاتے ہیں۔یہ بات ابن رسلان کی بیان کردہ تفسیرمیں واضح ہے۔رہی وہ تفسیرجوامام احمد نے سماک سے ذکرکی ہے اورامام شافعی نے بھی ذکرکی ہے تواس سے اس آدمی کے قول کوتقویت ملتی ہے جوکہتاہے''کسی چیزکوادھارکی وجہ سے اس کی موجودہ قیمت سے زیادہ پربیچناحرام ہے۔
ہماری ان نقل کردہ عبارات سے معلوم ہوا کہ بیع کی یہ شکل ''نقد دس کی،ادھار پندرہ کی'' نبیؐ کی اس حدیث: ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَاأَوِالرِّبَا)) .میں شامل ہے۔اور بلاشبہ ''قسطوں کی بیع جس میں تاخیرِ ادائیگی کی وجہ سے قیمت زیادہ کی جاتی ہے ''اسی سے ہے۔ اور صاحب مضمون ان صورتوں میں جن پر حدیث منطبق ہوتی ہے اِس صورت کا ذکر چھوڑ گئے ہیں۔
پھر ان کی یہ بات ''یہ حدیث قسطوں والی بیع پر منطبق نہیں ہوتی کیونکہ حدیث کا ان تینوں معانی -جن میں قسطوں والی بیع جس میں قیمت بڑھائی جاتی ہے شامل نہیں-میں سے ہی کوئی معنیٰ مراد ہے''فقہ و انصاف سے بالکل عاری ہے ۔
جواب نمبر٣-آپ یہ دیکھ چکے ہیں کہ صاحب مضمون نے کہا :بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص دوسرے کو کوئی چیز اس شرط پر فروخت کرے کہ خریدار اسے کوئی دوسری چیزفروخت کرے۔
حالانکہ پہلے یہ کہہ کر آئے ہیں کہ: حدیث سے تین معانی میں سے ہی کوئی ایک معنٰی مراد ہے ۔ توتاکیداً لکھ رہے ہیں کہ یہ صورت بھی حدیث :((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَاأَوِالرِّبَا)) . کے تحت داخل ہے ۔
پہلے آپ امام شافعی کی تفسیر جو امام شوکانی نے نقل کی ہے بھی جان چکے ہیں کہ:میں تمہیں یہ غلام ایک ہزار کا اس شرط پر فروخت کرتا ہوں کہ تم مجھے اپنا گھر اتنے میں فروخت کرو ۔ پھرامام شوکانی نے فرمایاکہ یہ ابوھریرہ کی دوسری روایت:نَہَی النَّبِیُّ ؐ عَنْ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ. (رسول اللہؐ نے ایک بیع میں دوبیعوں سے منع فرمایا ) کی تفسیر بنتی ہے پہلی روایت کی نہیں ۔ کیونکہ یہ الفاظ ''فَلَہُ أَوْکَسُھُمَا'' اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اس نے ایک چیز کی دو بیعیں کیں ایک کم قیمت پر، دوسری زیادہ پر -
تو تین صورتوں میں سے آخری تیسری صورت جس پر حدیث : ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَاأَوِالرِّبَا)) . صاحب مضمون کے ہاں منطبق ہوتی ہے لیکن یہ حدیث ان الفاظ سے اس صورت پر منطبق نہیں ہوتی۔
جواب نمبر٤- بیع عینہ-ایک شخص کا دوسرے سے کوئی سامان ادھار خریدنا ،پھر فروخت کنندہ کا خریدار سے نقد اً اُسے کم قیمت پر لے لینا - بھی ان صورتوں سے نہیں جن پر حدیث (( فَلَہُ أَوْکَسُھُمَاأَوِالرِّبَا)).صادق آتی ہے کیونکہ حدیث میں ربا(سود)اضافی قیمت والی بیع کوکہاگیاہے،کم قیمت والی بیع کونہیں؛جبکہ بیع عینہ میں معاملہ اس کے برعکس ہے ،اس لئے کہ اس میں کم قیمت پرخریدناحرام ہے،زیادہ قیمت پرخریدناحرام نہیں۔اور اس لئے بھی کہ حدیث اس صورت کاذکرکررہی ہے جس میں بائع ایک ہی چیز کی دوبیعیں کرتاہے:ایک کم قیمت والی اوردوسری زیادہ قیمت والی،جبکہ بیع عینہ میں ایسی صورت نہیں۔
جواب نمبر٥-جب دو صورتیں''بیع عینہ اوربیع بشرطِ بیع ''صاحب مضمون کی حدیث: ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَاأَوِالرِّبَا))۔ کے مصداق میں ذکرکردہ تین صورتوں سے نکل گئیں توتین میں سے ایک صورت باقی رہ گئی جس کوحدیث شامل ہے اوروہ یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی کوکوئی چیزایک مہینہ کے ادھارپرفروخت کرتاہے،جب ادائیگی کاوقت آتاہے خریدارکے پاس قیمت موجودنہیں ہوتی،توبائع مشتری پرمزیدبوجھ اس طرح ڈالتاہے کہ وہی سامان اُسے دوبارہ نئی قیمت اورنئے ادھارپرفروخت کرتاہے جبکہ پہلی قیمت بدستوراُس پرواجب الأداء رہتی ہے۔تواِس صورت میں''دوسری بیع''صاحبِ مضمون کے نزدیک بھی سودہے۔اورجودلیل اِس دوسری بیع کوسود ٹھہراتی ہے وہ بعینہٖ ان دو بیعوںمیں سے پہلی بیع کو سُود ٹھہراتی ہے جب اِس میں نقدکی قیمت سے زیادہ قیمت ہو۔
اسی طرح بعینہٖ یہ دلیل قسطوں کی بیع کوبھی سود ٹھہراتی ہے کیونکہ قسطوں کی بیع دو بیعوںمیں سے پہلی بیع ہے ،جب اس میں نقدکی قیمت سے زیادہ قیمت ہو۔یہ صورت بقیہ ایک صورت جیسی ہی ہے جو حدیث کے منطوق میں آتی ہے۔ہاں!اتنافرق ہے کہ قسطوں کی بیع میں ادائیگی کی تاخیر کی وجہ سے قیمت قسطوں کی شکل میں اداکرناہوتی ہے،اورحکماًدونوںصورتیں ایک ہی ہیں۔اس فرق سے حکم میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ توکیاوجہ ہے کہ صاحب مضمون دوسری نئی بیع کوتوحرام اورسود قراردیتے ہیں اورپہلی بیع خواہ نقدقیمت سے مہنگی ہو،اسی طرح قسطوں کی بیع کوسودقرارنہیں دیتے ہیں؟
اگرتووہ کہتے ہیں:قسطوں کی بیع میں ساری قیمت سامان کے مماثل اوراُس کی پوری قیمت ہے اورپہلی بیع دوسری نئی بیع کے علاوہ ہے توہم کہتے ہیں کہ یہ محض دعوٰی ہے ،حالانکہ صورت مذکورہ میں''قسطوںکی بیع ،پہلی بیع اوردوسری نئی بیع کے درمیان کوئی فرق نہیں؛کیونکہ دوسری نئی بیع میں ساری قیمت جب سامانِ فروخت کی مماثل نہیں-کیونکہ تاخیرِ ادائیگی کی وجہ سے قیمت بڑھائی جارہی ہے-توقسطوں کی بیع اورپہلی بیع میں بھی تمام قیمت سامانِ فروخت کے مماثل نہیں کیونکہ ان میں بھی زیادہ قیمت لینے کادارومدارتاخیرِادائیگی پرہے۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
چندفوائد
فائدہ أولیٰ:اکثرعلماء نے ایک بیع میں دوبیعوں کی ممانعت کی وجہ معاملہ کے مبہم اورمجہول ہونے کوٹھہرایاہے۔یہ بات ان اقوال سے ظاہر ہے جوشوکانی نے نیل الأوطارمیں اوردوسرے علماء نے اپنی کتابوںمیں ذکرکئے ہیں۔''ایک بیع میں دوبیعوں''کی بعض صورتوںمیں یہ وجہ ہوسکتی ہے لیکن اس حدیث:((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَاأَوِالرِّبَا))۔میں منع کی علت یہ وجہ نہیں بلکہ اس میں ممانعت کی وجہ اس کاسودہوناہے جیساکہ نبیؐ نے اس کی وضاحت کی ہے۔
فائدہ ثانیہ:بعض اہلِ علم کہتے ہیں کہ ایک بیع میں دوبیعوں کے منع کی علت کاوہ احتمال ہوسکتاہے جومتنازع فیہ مسئلہ سے خارج ہے،جس طرح ابن رسلان کاقول پیچھے گزراہے کہ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ اِس صورت میں واقع ہونے والی بیع ''نقد اتنے کی اوراُدھاراتنے کی''کومنع کہہ سکتے ہیں لیکن اگرشروع میں ایک ہی بات کرے کہ ''ادھاراتنے کی دوں گا''(اوراس کی قیمت اس روز کے ریٹ سے زیادہ ہو)توایسی بیع جائزہے،ویسے اس حدیث کاتمسک کرنے والے(دلیل پکڑنے والے )اِس صورت سے منع کرتے ہیں؛حالانکہ حدیث میں یہ معنٰی موجودنہیں،تودلیل دعوٰ ی سے أخصّ ہے۔(انتہیٰ)
میں کہتاہوں:١-اس کایہ قول کہ ایک بیع میں دوبیعوں کے منع کی علت کاوہ احتمال ہوسکتاہے جومتنازع فیہ مسئلہ۔۔۔۔۔۔اگرتسلیم کرلیاجائے توبھی متنازع فیہ مسئلہ پرحدیث سے کئے گئے استدلال میں کوئی خرابی لازم نہیں آتی کیونکہ حدیث عام ہے اوروہ ابن رسلان کی ذکرکردہ صورت اورمتنازع فیہ صورت دونوں کوشامل ہے اورحدیث کے عموم سے متنازع فیہ مسئلہ کوخاص اورمستثنٰی کرنے کی کوئی دلیل موجودنہیں۔
یہ بات بھی ہے کہ ابن رسلان کی ذکر کردہ بیع کی صورت اس طرح بنتی ہے:ایک قفیز گندم کے عوض ،دو قفیز گندم، دو مہینے بعد۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ ایک قفیز گندم کی دو قفیز کے ساتھ بیع منع اور سود ہے خواہ ایک دو دن یا مہینہ دومہینہ تک کی مدت حائل نہ ہوبلکہ تاخیر ادائیگی کا اس میں دخل تک نہ ہواور قیمت کی زیادتی بھی تاخیر کی وجہ سے نہ ہو ۔تو ابن رسلان کی ذکر کردہ صورت میں دوسری بیع منع اور سود بنتی ہے خواہ شروع سے ہی ایسا طے کیا جا رہاہو ۔ہماری اس بات سے واضح ہو گیا کی ابن رسلان کی ذکر کردہ صورت اس حدیث: ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَاأَوِالرِّبَا)) .کی تشریح میں داخل نہیں ہوتی۔لہٰذا ان کا یہ کہناکہ: ایک بیع میں دوبیعوں کے منع کی علت کاوہ احتمال ہوسکتاہے جومتنازع فیہ مسئلہ ہے درست نہیں،کیونکہ حدیث میں ابن رسلان کی تفسیر والا احتمال بالکل نہیں پایا جاتا۔ابن رسلان کا احتمال پیچھے حدیث کی تفسیر میں میں نے صرف بطورِ نقل وحکایت ذکرکیا ہے۔
ہماری اس ساری بات چیت سے واضح ہو گیا کہ نبیؐ کی حدیث:((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَاأَوِالرِّبَا)) . کامصداق ایک صورت ہو یا کئی صورتیں ،انہیں ان چیزوں پر مشتمل ہونا چاہئے۔
١-وہ صورت ایسی ہو کہ اس میں ایک چیز کی دو بیعیں ہوں۔ ٢-وہ دونوں بیعیں ایک بیع میں ہوں ۔ ٣-ان دو نوں میں سے ایک بیع کم قیمت پر ہو ۔ ٤-ان میں سے ایک کم قیمت و الی بیع حلال ہو، سود نہ ہو
٥-دونوںمیں سے ایک بیع زیادہ قیمت والی ہو۔ ٦-دونوں میں سے زیادہ قیمت والی بیع حرام اور سود ہو۔ ٧-دونون بیعوں میں بائع (بیچنے والا)ایک ہو۔ ٨-دونوں بیعوںمیں سے اکژاور زیادہ قیمت والی بیع کی حرمت کا سبب سود ہو ۔ ٩-دونوں بیعوں میں سے جس چیز کو فروخت کیا جا رہا ہو وہ ایک ہی چیز ہو۔ ١٠-ایسی بیع کی حرمت -جس کا ذکر کیا جا رہا ہے -اس میں مندرجہ بالا نوچیزیں جمع ہوں ۔
اور ابن رسلان کی ذکر کردہ صورت میں بائع(فروخت کنندہ)بدل گیا ہے ،کیو نکہ پہلی بیع میں جو بائع ہے،دوسری بیع میں وہ مشتری (خریدار )ہوتا ہے۔اور پہلی بیع میں جو مشتری ہوتا تھا، دوسری بیع میں وہ بائع بنتا ہے۔لہٰذا واضح ہو گیا کہ ابن رسلان نے جو صورت ذکر کی ہے وہ ان صورتوں سے نہیں جن پر بنیؐ کی حدیث :((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَاأَوِالرِّبَا)) . صادق آتی ہے۔
٢-بائع جب شروع سے صرف یہی کہے کہ''ادھار اتنے کی ''اوریہ نہ کہے کہ''نقد اتنے کی '' اور ادائیگی میں تاخیر کیوجہ سے قیمت زیادہ لگائے توتحقیقاًتویہ ایک بیع ہے اورتقدیراً یہ دوبیعیں ہیں ؛اس لئے کہ وہ زیادہ پیسے ادائیگی کی تاخیر کی وجہ سے لے رہا ہے۔او رنبیؐ کا فرمان :((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَاأَوِالرِّبَا)) . دو بیعوں کو مشتمل ہے، خواہ وہ حقیقی ہوں ، یا ان میں سے ایک حقیقی ہو
اوردوسری مخفی اور تقدیری۔ تو دلیل دعوٰی سے أخص نہیں۔
٣-ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اگر شرو ع سے ہی کہا جائے کہ '' ادھار اتنے کی'' اور ادھار کی وجہ سے پیسے بھی زیادہ لگا لے ۔تو یہ حدیث کے منطوق میں داخل نہیں ہوتالیکن ہم کہتے ہیں : ''حدیث کے مفہوم میں یہ چیز داخل ہے،کیونکہ دوسری بیع یعنی''ادھار اتنے کی ''اور ادائیگی کی تاخیر کی وجہ سے قیمت بھی زیادہ لگا لے تو یہ سودی بیع ہے(جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے)خواہ''نقد اتنے کی''کہہ کر کہے اورخواہ اس کے بغیر صرف یہی کہے کہ''ادھار اتنے کی''مفہوم سے جو بات سمجھ میں آتی ہے اس کی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے-(وَلَاتَقُلْ لَھُمَاأُفٍّ).اورانہیں (والدین کو)اُف نہ کہو ۔اورنبیؐ کا فرمان:((لَا یَبُوْلَنَّ أَحَدُکُمْ فِیْ الْمَاءِ الدَّائِمِ)).الحدیث (تم میں سے ہر گز کوئی کھڑے پانی میں پیشاب نہ کرے) [صحیح مسلم کتاب الطہارۃ باب النہی عن البول فی الماء الراقد(٢٨٢)] اس سے استدلال کیا گیاہے کہ جب والدین کو اُف کہنا حرام ہے تو جوتے کے ساتھ مارنا بھی حرام ہے۔اور کھڑے پانی میں پیشاب کرنا حرام ہے تو پاخانہ کرنا بھی حرام ہے ۔تو کیا یہ کہا جائے گا کہ آیت اور حدیث میں تو یہ بات نہیں آئی کہ والدین کو جوتے کے ساتھ مارنا حرام ہے ،اور کھڑے پانی میں پاخانہ کرنا حرام ہے ،اسلئے کہ دلیل دعویٰ سے أخص ہے ؟ ''نہیں،ہر گز نہیں ''کیونکہ استدلال مفہوم سے ہی لیا گیا ہے اور یہ صحیح استدلال ہے،اسی طرح جو استدلال ہم کر رہے ہیں وہ بھی مفہوم سے ہی سمجھ آرہا ہے ،لہٰذا ان کا یہ کہنا صحیح نہیں کہ ''حدیث اس پر دلالت نہیں کرتی کیونکہ دلیل دعوٰی سے أخص ہے ''۔
٤-ان کا استدلال '' علت کے ساتھ استدلال کرنے کی قبیل سے ہے کیونکہ یہ صورت کہ: ''میں نقد تمہیں یہ چیز دس درھم کی دیتا ہوں اور یہی چیز ادھار پندرہ درہم کی دیتا ہوں '' دوسری بیع کی حرمت کی علت'' سود'' کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں۔اور اگرکوئی آدمی کوئی چیز ادھار اس وجہ سے موجود ہ ریٹ سے زیادہ پر بیچتا ہے کہ پیسے تاخیر سے ملنے ہیں تو شروع سے ہی صرف ادھار کی وجہ سے چیز کو زیادہ قیمت پر بیچنا سود ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ قسطوں کی بیع میں نقدقیمت سے زیادہ لینااسی قبیل سے ہے،توپھرقسطوں کی بیع کیسے جائز ہوئی جبکہ وہ سود پر مشتمل ہے؟
فائدہ ثالثہ:بعض اہل علم کا خیال ہے کہ ''نبیؐ کی حدیث :((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَاأَوِالرِّبَا)) . ضعیف اور شاذ ہے لہٰذا اس سے حجت پکڑنا اور استدلال کرنا صحیح نہیں''۔لیکن ان کی یہ بات درست نہیں ،اس لئے کہ حدیث حسن اور صحیح ہے ،نہ ضعیف ہے،نہ شاذ اور نہ معلل؛ لہٰذا اس سے حجت پکڑنا اور استدلال کرنا درست ہے ۔
محدث البانی رحمہ اللہ تعالیٰ إرواء الغلیل میں فرماتے ہیں:١٣٠٧-قَالَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ((صَفْقَتَانِ فِیْ صَفْقَۃٍرِباً))صحیح ، الخ ابن مسعود نے فرمایا ''ایک چیز کے دو سودے کرنا سود ہے ''۔
البانی صاحب فرماتے ہیں:کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اس کے شواہد ابو ھریرہ ،عبداللہ بن عمراور عبداللہ بن عمرو ث کی حدیث سے ملتے ہیں۔ ابوھریرہ والی حدیث: ((عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍوعَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَصقَالَ : نہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِؐ عَنْ بَیْعَتَیْنِ فَیْ بَیْعَۃٍ )).[النسائی(٢/٢٧٧)الترمذی(١/٢٣٢)،ابن الجارود (٦٠٠)،ابن
حبان(١١٠٩)،البیہقی(٥/٣٤٣) ،أحمد(٢/٤٣٢،٤٧٥،٥٠٣)]امام ترمذی نے کہا :یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔میں کہتا ہوں :اس کی سند حسن ہے ۔ ایک رو ایت میں یہ لفظ ہیں:((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَا أَوِالرِّبَا)).[مصنف ابن أبی شیبۃ(٧/١٩٢/٢)،أبو داود (٣٤٦٠)،ابن حبان (١١١٠)، الحاکم (٢/٤٥)البیہقی (٥/٣٤٣).امام حاکم نے کہا : مسلم کی شرط پر صحیح ہے اور امام ذہبی نے ان کی مو افقت کی، ابن حزم نے بھی المحلی(٩/١٦)میں اسے صحیح کہا ، اسی طرح عبدالحق نے اپنی کتاب''الأحکام''میں اس حدیث کو (پہلے الفاظ کے ساتھ)صحیح کہا۔ میں کہتا یہ صرف ''حسن'' ہے کیونکہ محمد بن عمرو کے حافظے میں تھوڑا سا کلام ہے۔امام بخاری نے باقی راویوں کے ساتھ ملا کر اس سے رو ایت کی ہے ،اور امام مسلم نے متابعت میں۔حافظ ابن حجر تقریب التہذیب میں فرماتے ہیں:صَدُوْقٌ لَہُ أَوْھَامٌ .(صدوق ہے اور اسے بعض دفعہ وہم بھی ہوئے ہیں)البانی رحمہ اللہ کاکلام ختم ہوا
فائدہ رابعہ : بعض کہتے ہیں :حدیث تو صحیح ہے لیکن منسوخ ہے۔لیکن ان کی یہ بات محض دعوٰی ہے،قرآن و حدیث سے اس کے نسخ کی کوئی دلیل نہیں ملتی ۔اور منسوخ جیسے مسائل صرف دعوٰی کرنے سے ثابت نہیں ہوتے خواہ بڑے بڑے علماء ہی اِس کا دعوٰی کریں۔
صاحب مضمون لکھتے ہیں ''اسی طرح ان کا عبداللہ بن عباس کے اس قول: ''إِذَا اسْتَقَمْتَ أَیْ قَوَّمْتَ السِلْعَۃَ بِنَقْدٍ ، ثُمَّ بِعْتَ بِنَقْدٍ فَلَا بَأْسَ ، وَإِذَا اسْتَقَمْتَ بِنَقْدٍ ثُمَّ بِعْتَ بِنَسِیْئَۃٍ فَتِلْکَ دَرَاھِمُ بِدَرَاھِمَ''.( جب تو چیز کی قیمت نقد کی لگائے پھر نقد بیچ دے تو کوئی حرج نہیں ، اور جب نقد کی قیمت لگائے اور ادھار بیچے تو یہ درہموں کی درہموں سے بیع ہے) (جو جائز نہیں)۔
سے حجت پکڑنا صحیح نہیں؛ اس لئے کہ عبداللہ بن عباس ص کایہ قول اتنے ہی درجہ کے ایک دوسرے قول کے معارض اور بر عکس ہے ۔ چنانچہ عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ یہ جائز ہے جب فریقین جدا ہونے سے پہلے ایسی بیع پر متفق ہو جائیں ۔ اور پھر عبداللہ بن عمرو ص سے بھی اس کاجواز مروی ہے ۔انتہی
میں کہتا ہوں:١-ہم ایک چیز کے ''نقد ایک قیمت پر اور ادھار اس سے زیادہ قیمت پر بیچنے کو، اسی طرح قسطوں کی بیع کو عبداللہ بن عباس کے اس قو ل یادوسری موقوف اور مقطوع روایات کی بناء پر حرام نہیں سمجھتے ،ہم نے تواپنے اس دعوٰی کو نبی ؐکی مرفوع ،حسن اورصحیح حدیث سے ثابت کیاہے، جیساکہ پہلے گزرچکاہے۔ ابن عباس اوردوسرے صحابہ کرام کاقول توہم صرف تمہیں یہ بتانے کیلئے ذکر کرتے ہیں کہ انہوں نے نبیؐ کی حدیث پرعمل کیا اور اس پر فتوٰی بھی دیا۔
٢-صاحب مضمون نے ابن عباس کے قول سے کئے گئے استدلال کو اس دلیل سے غیر صحیح کہا ہے کہ وہ اتنے ہی درجے کے دوسرے اقوال سے معارض ہے اورٹکراتا ہے۔ صاحب مضمون کی یہ دلیل بڑی عجیب و غریب ہے ،کیونکہ کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ تم جو ابن عباس سے اس کا جواز ثابت کر رہے ہو یہ صحیح نہیں اس لئے کہ ابن عباس کا وہ قول جو جواز والا ہے ان کے دوسرے عدم جواز والے قول: ''إِذَااسْتَقَمْتَ بِنَقْدٍ ثُمَّ بِعَتَ ''الخ کے معارض ہے ؟ پھر ابن مسعود کے قول: '' اَلصَّفْقَتَانِ فِیْ صَفْقَۃٍ رِ باً''کے بھی معارض ہے؟۔
٣-پھر ابن عباس -رَضِیَ عَنْھُمَا اللّٰہُ رَبُّ النَّاسِ-سے اس کے جواز کا جو قول مروی ہے وہ ان سے ثابت ہی نہیں ، چنانچہ محدث البانی رحمہ اللہ تعالیٰ إرواء الغلیل میں لکھتے ہیں :''أَخْرَجَ ابْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ فِی الْبَابِ عَنْ أَشْعَثَ عَنْ عِکْرِمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَابَأْسَ أَنْ یَّقُوْلَ لِلسِّلْعَۃِ ھِیَ بِنَقْدٍ بِکَذَا ، وَبِنَسِیْئَۃٍ بِکَذَا ، وَلٰکِنْ لَا یَفْتَرِقَا إِلَّا عَنْ رِضًی.قُلْتُ: وَھٰذَا إِسْنَادٌ ضَعِیْفٌ مِنْ أَجْلِ أَشْعَثَ ھٰذَا ، وَھُوَ ابْنُ سِوَارٍ الْکِنْدِیُّ ، وَھُوَ ضَعِیْفٌ کَمَا فِی التَّقْرِیْبِ ، وَ إِنَّمَا أَخْرَجَ لَہ، مُسْلِمٌ مُتَابَعَۃً .اھـ(٥/١٥٢).
ابن أبی شیبہ نے اس باب میں اشعث از عکرمہ از ابن عباس روایت کیا ہے، ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا : سامان کیلئے یہ کہناکہ ''نقد اتنے کا اور ادھار اتنے کا (سودا کرکے ) دونوں(بائع اور مشتری )اگر رضا مندی سے جدا ہو جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیـں ''میں کہتا ہوں: اشعث ابن سوار کندی کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے کیونکہ وہ ضعیف ہے۔ جیسا کہ تقریب میں ہے ، امام مسلم نے ان کی احادیث متابعت کے طور پر روایت کی ہیں۔انتھٰی(٥/١٥٢)
٤-عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے جواز کی روایت سے اگر صاحب مضمون کا اشارہ سنن أبی داؤد کی مندرجہ ذیل روایت کی طرف ہے :أَنَّ النَّبِیَّؐ أَمَرَہ، أَنْ یُّجَھِّزَ جَیْشاً فَنَفِدَتِ الْاِبِلُ ، فَأَمَرَہ، أَنْ یَأْخُذَ عَلٰی قَلَائِصِ الصَّدَقَۃِ ، فَکَانَ یَأْخُذُ الْبَعِیْرَ بِالْبَعِیْرَیْنِ إِلٰی إِبِلِ الصَّدَقَۃِ.(مشکٰوۃ المصابیح بتحقیق الألبانی٢/٨٥٨).
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما روایت کر تے ہیں کہ نبی ؐ نے انہیں ایک لشکر کی تیاری کا حکم دیا ،اونٹ کم پڑ گئے تو آپؐ نے انہیں فرمایا : صدقے کی اونٹنیاْں آنے تک ادھار لے لو ،چنانچہ وہ صدقے کے اونٹ آنے تک دو اونٹوں کے بدلے ایک اونٹ لیتے تھے (یعنی جس سے ادھار اونٹ لیتے اسے کہتے کہ جب صدقے کے اونٹ آئیں گے توہم تمہیں ایک کی بجائے دو اونٹ دیں گے )
تو اس روایت کے بارے میں محدث البانی کہتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے ۔( مشکٰوۃ المصابیح بتحقیق الألبانی ٢/٨٥٨).
پھر سمرۃبن جندب کی حدیث سے ثابت ہے جو کہ ترمذی ، ابو داؤد ، نسائی،ابن ماجہ ،دارمی ، أحمد، أبو یعلٰی اور المختارۃ للضیاء میں ہے :(أَنَّ الْنَّبِیَّؐ نَھٰی عَنْ بَیْعِ الْحَیَوَانِ بِالْحَیَوَانِ نَسِیْئَۃً) .نبی ؐنے حیوان کی حیوان کے ساتھ ادھار بیع سے منع فرمایا ۔
ترمذی اور ابن الجارود نے اسے صحیح کہا جیساکہ ''تنقیح الرواۃ فی تخریج أحادیث المشکاۃ''میں ہے۔ صاحب تنقیح فرماتے ہیں :عبداللہ بن أحمد نے اسی طرح جابر بن سمرۃ کی حدیث رو ایت کی ہے ۔انتھی
٥-عبداللہ بن عباس کا قول ''موقوف '' ہے اور موقوف روایت حجت نہیں ہوتی ؛خصوصاًجب وہ ایک دوسری موقوف روایت کے معارض ہو جیسے یہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکے قول: ''إِذَااسْتَقَمْتَ بِنَقْدٍ ''الخ، ابن مسعود کے قول: ''اَلصَّفْقَتَانِ فِیْ صَفْقَۃٍ رِباً''کے معارض ہے بلکہ مرفوع حدیث: ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَا أَوِ الْرِّبَا)).کے بھی مخالف ہے ۔
پھر صاحب مضمون کے اپنے طریقے اور منہج کے مطابق بھی یہ دلیل صحیح نہیں بنتی کیونکہ وہ اِس کی مثل سے معارض ہے ،چنانچہ انہوں نے نبی ؐ سے روایت کی ہے کہ ''نَھٰی رَسُوْ لُ اللّٰہ ؐ عَنْ صَفْقَتَیْنِ فِیْ صَفْقَۃٍ'' ( رسول اللہ ؐنے ایک سود ے میں دو سودے کرنے سے منع فرمایا)جیساکہ ابن مسعود سے ثابت ہے انہوں نے فرمایا:''اَلصَّفْقَتَانِ فِیْ صَفْقَۃٍ رِباً''ایک سودےمیں دو سودے کرنا سود ہے ۔
٦-عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ :أَنَّہ، نَھٰی عَنْ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ وَاحِدَۃٍ ، وَعَنْ شَفٍّ مَا لَمْ یَضْمَنْ ، وَعَنْ بَیْعٍ وَ سَلَفٍ.(شرح السنۃ ۔٨/١٤٤).
آپؐنے ایک بیع میں دو بیع کرنے سے منع فرمایا،نفع اور فائدہ لینے سے منع فرمایا جب تک ضامن نہ بن جائے اور بیع و سلف سے منع فرمایا۔
صاحب شرح السنۃ فرماتے ہیں: ایوب از عمرو بن شعیب از أبیہ از جدہ رو ایت کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا :((لَا یَحِلُّ سَلَفٌ وَبَیعٌ وَلَا شَرْطَانِ فِیْ بَیعٍ وَلَا رِبْحَ مَا لَمْ یَضْمَنْ ، وَلَا بَیْعَ مَا لَیْسَ عِنْدَکَ)). 'سلف و بیع جائز نہیں ،ایک بیع میں دو شرطیں جائز نہیں، ایسی چیز کا منافع لینا جائز نہیں جس کا ابھی ضامن نہیں بنا اور نہ ایسی چیز کی بیع جائز ہے جو تیرے پاس موجود نہیں''۔
پھر اس کے بعد صاحب شرح السنۃ لکھتے ہیں کہ ((وَلَا شَرْطَانِ فِیْ بَیْعٍ)).سے مراد یہ ہے کہ کہے : ''میں تمہیں یہ غلام نقد ہزار کا دیتا ہوں اور ادھار دو ہزار کا''تو یہ ایک بیع میں دو بیع ہی ہیں۔انتھیٰ(٨/١٤٤-١٤٥)
محدث البانی إرواء الغلیل میں فرماتے ہیں :عبداللہ بن عمرو کی حدیث عمرو بن شعیب از أبیہ از جدہ کی رو ایت سے مرفوعاً مروی ہے جس کا بیان ایک حدیث سے پہلے گزر چکا ہے، اس کے الفاظ ابو ھریرہ کی پہلی حدیث والے ہی ہیں:(نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ؐعَنْ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ ).عبداللہ بن عمرو کی یہ حدیث ابن خزیمہ اور بیہقی میں موجود ہے اور امام أحمداس حدیث کے ضمن میں اسے لائے ہیں جوپہلے گزرچکی ہے ،بعض نے اِسے ((وَلَاشَرْطَانِ فِیْ بَیْعَۃٍ)).(ایک بیع میں دوشرطیں جائزنہیں)کے الفاظ سے روایت کیاہے۔ظاہراًیہی معلوم ہوتا ہے کہ دونوںالفاظ کامعنٰی ایک ہی ہے کیونکہ دونوں الفاظ عمروبن شعیب کی سندسے ہی مروی ہیں،بعض رواۃ نے پہلے الفاظ روایت کئے ہیں اوربعض نے دوسرے۔پھرغریب الحدیث(١/١٨)میں ابن قتیبۃ کاقول بھی اس کی تائیدکرتاہے،وہ فرماتے ہیں:''ممنوع بیوع سے''شَرْطَانِ فِیْ بَیْعٍ''(ایک بیع میں دوشرطیں)بھی ہے،اور اس کامطلب یہ ہے کہ ایک آدمی دو مہینوں کے لئے دو دینارپرایک چیزخریدتاہے،اوراگرتین مہینوں کے لئے خریدے توتین دینارکی خریدتاہے،یہ ایک ''بیع میں دو بیع'' کے معنٰی میں ہی ہے''۔سماک سے مذکوراس کی تفسیرقریب ہی گزری ہے،اسی طرح عبدالوھاب بن عطاء اس کی تفسیرمیں فرماتے ہیں:یعنی کہے:''نقدیہ تیرے لئے دس کی ہے اورادھاربیس کی ''۔انتہی(٥/١٥١)اس کی تائیدبغوی کی اِس حدیث:((وَلَاشَرْطَانِ فِیْ بَیْعٍ)).کی تفسیرسے بھی ہوتی ہے جسے ہم پہلے نقل کرآئے ہیں ،انہوں نے اس کی تفسیرمیں فرمایاہے:''فَمَعْنَاہُ مَعْنَی الْبَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیعَۃٍ''.کہ اس کامعنیٰ ایک بیع میں دوبیع کرناہی ہے۔
صاحب تہذیب السنن(رَحِمَہُ اللّٰہُ ذُوالْمِنَنِ)بیع عِینہ کی حرمت کے دلائل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:چھٹی دلیل ابوداود میں ابوھریرہ کی حدیث ہے،وہ نبی ؐسے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَاأَوِالرِّبَا))۔علماء کے اس کی تفسیرمیں دوقول ہیں:
پہلاقول:یہ ہے کہ کہے:نقد(یہ چیز)تمہیں دس کی ،یاادھاربیس کی دیتاہوں۔یہی بات احمد نے سماک سے روایت کی ہے،چناچہ ابن مسعودصوالی حدیث:''نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ؐعَنْ صَفْقَتَیْنِ فِیْ صَفْقَۃٍ''.کی تفسیرمیں سماک فرماتے ہیں:''آدمی ایک چیزبیچتاہے توکہتاہے:ادھاراتنے کی بیچنامجھے منظورہے اورنقداتنے کی ''۔لیکن یہ تفسیرضعیف ہے کیونکہ اس صورت میں ربا(سود)نہیںبنتااورنہ ہی دوسودے بنتے ہیں بلکہ یہ دوقیمتوںمیں سے ایک کے ساتھ ایک ہی سوداہے۔
دوسراقول:یہ ہے کہ کہے:میں یہ چیزتمہیں ایک سال کے ادھارپرایک سو کی اس شرط پرفروخت کرتاہوں کہ اسے تجھ سے ابھی اسّی کی خریدوں گا۔بس حدیث کایہی معنیٰ ہے،کوئی اورمعنیٰ نہیں،اوریہ آپ ؐکے قول: ((فَلَہ، أَوْکَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا)).کے بھی مطابق ہے۔کیونکہ یاتووہ زائدقیمت لے گاجوکہ سودہے،یاپہلی قیمت لے جوکہ کم ہے۔یہ صورت ایک سودے میں دوسودے والی بنتی ہے،کیونکہ اس نے نقدوادھارکے دونوںسودوں کوایک سودے اورایک بیع میں جمع کردیاہے،اوروہ فوری اورنقدتھوڑے درھم دے کرتاخیرسے زیادہ درہم لیناچاہتاہے حالانکہ وہ اپنے اصل مال-جوکہ دوقیمتوںسے کم قیمت ہے-کامستحق ہے،لیکن اگروہ زائدہی لے تواس نے سودلیا۔انتہی(٥/١٠٥-١٠٦)
اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسری صورت میں اسّی کی سو کے ساتھ بیع کی گئی اوریہ بیع سودہے،اوراسی طرح اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پہلی صورت میں دس کوبیس کے ساتھ بیچاگیا،اوریہ بیع بھی سودہے۔توپہلی صورت کوچھوڑکرصرف دوسری صورت کوسودبناناتحکّم اورسینہ زوری کے علاوہ کچھ نہیں۔
پہلے ہم بیان کرآئے ہیںکہ جب دس نقدکی دس ادھارسے بیع سودہے تودس نقدکی بیس ادھارسے بیع بالأولیٰ سودہے،رہاسامانِ فروخت !توجس طرح وہ دوسری صورت میں حیلہ ہے اُسی طرح پہلی صورت میں بھی وہ حیلہ ہی ہے۔
پھرپہلی صورت میں اگردوقیمتوںمیں سے ایک قیمت کے ساتھ ایک ہی سوداہے تو دوسری صورت میں بھی دوقیمتوںمیں سے ایک کے ساتھ ایک ہی سوداہے،اوراگردوسری صورت میں ایک سودے میں دوسودے اس لئے بنتے ہیں کہ یہ صورت نقداورادھارکے دونوں سودوں کوایک سودے اورایک بیع میں جمع کرتی ہے اورمالک تھوڑے درہموں کی بجائے زیادہ درہم لیناچاہتاہے توپہلی صورت میں بھی ایک سودے میں دوسودے بنتے ہیں کیونکہ یہ صورت بھی نقداورادھارکے دونوںسودوں کوایک سودے اورایک بیع میں جمع کرتی ہے اوراس کامالک بھی تھوڑے درہموںکی بجائے زیادہ درہم لیناچاہتاہے الخ
علاوہ ازیں صاحبِ تہذیب السنن کے قول کہ ''یہ دوقیمتوںمیں سے ایک کے ساتھ ایک ہی سوداہے''اس کی بنیادپہلی تفسیرمیں واردمثال''بِعْتُکَ بِعَشْرَۃٍ نَقْداً ، أَوْ عِشْرِیْنَ نَسِیْئَۃً''کے لفظ ''أَوْ''(یا)پرہے۔لفظ''أَوْ''تردّد اور ابہام پردلالت کرتاہے،لیکن پہلے آپ کومعلوم ہوچکاہے کہ بعض نے حدیث کی یہ تفسیر''أَوْ''کی بجائے ''وَ''(اور)کے ساتھ کی ہے؛لہٰذا پھرتردد باقی رہتاہے اورنہ کوئی ابہام،اس وقت یہ صورت دو بیع پرمشتمل ہوگی جن میں سے ایک کم قیمت پرہوگی اوردوسری زیادہ قیمت پر،پہلی نقدپرہوگی اوردوسری ادھارپر۔
پھرصاحبِ تہذیب کے اِس کلام میں کئی اورمقام قابلِ نظرہیں جوکہ ہماری سابقہ بحث اورخصوصاً نبیؐ کے اس قول: ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَاأَوِالرِّبَا))۔کہ کس پرصادق آتاہے اورکس پرصادق نہیں آتا ؟کی تفصیل پرغورکرنے سے ظاہرہوسکتے ہیں۔
صاحب مضمون کہتے ہیں:اس طرح قسطوں کی بیع کی ممانعت پران کااستدلال کہ اس سے سوداورفضول خرچی کادروازہ بندہوگا الخ
اس بات کی کوئی قدروقیمت نہیں جب کہ نبیؐ نے فرمادیا:((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَاأَوِالرِّبَا))۔یہ حدیث اپنے عموم کی وجہ سے قسطوں کی بیع کوبھی شامل ہے کیونکہ اس میں بھی نقدقیمت سے زیادہ وصول کی جاتی ہے(جیساکہ تفصیل گزرچکی ہے)۔
'قسطوںکی بیع''افراد،خاندانوںاورسوسائیٹیزپرکیابھیانک اوربرے اثرات مرتب کرتی ہے؟اس کے بارے میں اگرآپ صحیح معلومات حاصل کرناچاہتے ہوں توالریاض سپریم کورٹ کے قاضی الشیخ عبداللہ بن ناصرالسلمان حفظہ اللہ تعالیٰ کی کتاب''وجوب حفظ المال وأثرالتقسیط علیہ''پڑھیں،قطع نظراس بات کے کہ قسطوں کی بیع جائزہے یاناجائز۔
اوراگرآپ بیوع کے حیلوں کے بارے میں-جوآخرکارسودتک لے جاتے ہیں-کے بارے میں معلوم کرناچاہیں توبیع عینہ وغیرہ کی حرمت کے اثبات کے متعلق حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالیٰ نے ''تہذیب السنن''میں جولکھاہے وہ پڑھیں،انہوں نے اس مسئلہ پربہت عمدہ اوراچھے پیرائے میں کلام کیا ہے مگربعض مقامات پراُن سے تسامح ہواہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ کسی چیز کی''نقد بیع(مثلاً)دس کی،اورادھارپندرہ کی''جائزنہیں،اوراس بیع کی صورتوںمیں سے قسطوں کی بیع بھی ہے جس میں ادائیگی کی تاخیر کی وجہ سے نقدکی قیمت سے زیادہ لی جاتی ہے۔دلیل اِس کی نبیؐ کایہ فرمان ہے:((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَاأَوِالرِّبَا))۔
اوراِس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ کسی چیزکو-خواہ شروع میںصرف ادھارکی ہی بات ہو-اس کو موجودہ قیمت سے زیادہ پربیچناجائزنہیں،اس لئے کہ اس میں سودداخل ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعاہے کہ ہمیں ان اعمال کی توفیق عطافرمائے جن میں اس کی رضاہے،اورہمارے نبی محمدؐاوران کے آل واصحاب پرکثرت سے درود وسلام بھیجے۔
وَالسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَعَلٰی مَنْ لَدَیْکُمْ
 
Top