میرے بھائی ذرا اس کا اردو ترجمہ بھی کر دیں تا کہ یہاں سب کو آسانی سے سمجھ آ جا ے -
رفع یدین فقہ حنفی میں صرف تکبیر تحریمہ کے وقت ہے ۔ باقی ہر جگہ منسوخ ہے
کیا یہ حدیث فقہ حنفی کی دلیل ہے
اور اس حدیث میں جو آخری رکعت کا ذکر ہے - تو یہ بھی بتا دیں کہ آخری رکعت کون سی ہے -
کیا تیسری ہے
آپ اپنے اعتراضات تو احناف پر اس طرح کرتے یں کہ وہ ترمذی میں تحریف کرتے ہیں اور حال یہ کہ ایک آسان سی حدیث کے معنی سمجھنے سے قاصر ہیں اس سے آپ کی تحقیقات کی حقیقت سامنے آجاتی ہے
مذید یہ کہ یہاں وتر کے رفع الیدین جو احناف کرتے ہیں اس کے متعلق بحث ہے نا کہ وتر کی رکعت کی تعداد ۔ اس لئیے دیگر مباحث مت چھیڑیں
دوسری بات آپ نے یہ بات از خود سوچ لی ہے کہ احناف صرف حدیث عبد اللہ بن مسعود کی وجہ سے رفع الیدین نہیں کرتے ۔ نہیں بھائی اس کی اور وجوہ بھی ہیں
جب کسی کو نماز سکھائی جاتی ہے تو پانچ نمازوں میں سے کوئی طریقہ بتایا جاتا ہے ایسا کوئی نہیں کرتا کہ نماز کا صریقہ بتانے کا کہے تو عیدین یا وتر کا طریقہ بتانے بیٹھ جائے ۔ جب وتر یا عیدین کی بات ہوتی ہے تو واضح طور کہا جاتا ہے کہ نماز عید کا یہ طریقہ ہے اور نماز وتر کا یہ طریقہ ہے ۔ آپ حضرات کی کتب میں جہاں نماز نبوی لکھی ہوتی ہے تو عام نمازوں کا طریقہ ہوتا ہے اور عیدین وغییرہ کی نماز کو الگ مستقلا ذکر کے ان کے مسائل لکھے جاتیں ہیں ۔ اس لئیے حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت سے وتر پر قیاس کرنا صرف اصول فقہ سے لاعلمی کا نتیجہ ہے
قنوت کے رفع الیدین کا ثبوت
وروى ابن ماجة (861)
عَنْ عُمَيْرِ بْنِ حَبِيبٍ قَالَ : ( كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ مَعَ كُلِّ تَكْبِيرَةٍ فِي الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ ) .
وروى ابن ماجة أيضا (865) عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ : ( أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ كُلِّ تَكْبِيرَةٍ ) ، صححهما الشيخ الألباني في "صحيح ابن ماجة"
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق ارشاد ہوا ہے کہ وہ ہر تکبیر کے ساتھ ہاتھ اٹھاتے تھے ۔
اولا
رکوع و سجود یا تشھد سے اٹھنے کے بعد کے رفع یدین کے ترک پر احادیث واضح دلالت کرتیں ہیں ۔(ان احادیث کی یہاں ذکر کرنے کی ضرورت نہیں کیوں ان پر مفصل بحث ضخیم کتب میں ہو چکی ہے اور اس فورم پر بھی کچھ تھریڈ میں بحث ہو رہی ہے اور یہاں اس پر بحث کرنا موضوع سے الگ ہے اور اور کافی تفصیل طلب ہے )
اس لئیے جب وتر کے قنوت سے پہلے تکبیر ہو گي تو چوں کہ اس موقع پر رفع الیدین کی کوئی ممانعت نہیں تو رفع الیدین بھی ہو گآ
ثانیا
اگر کوئی صاحب عقل ان احادیث پر غور کرے تو معلوم ہو گا جن مقامات پر رفع الیدین سے منع کیا گيا ہے تو یہ وہ مقامات ہیں جن میں تکبیر کے ساتھ جسم بھی ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہو رہا ہے دعاء قنوت سے پہلے تکبیر میں ایسی صورت الحال نہیں تو یہاں بھی رفع الیدین ہو گا
ثالثا
اس حدیث کو اگر صحیح مسلم کی اس حدیث کے ساتھ دیکھا جائے جس میں اسکنوا في الصلاہ کہا گيا ہے اور ہاتھ اٹھانے کو سرکش گھوڑوں سے تشبیہ دی گئی اور اس حدیث کی تشریح میں امام نووی نے لکھا
وهي الَّتي لا تستقرُّ، بل تضطرب وتتحرَّك بأذنابها وأرجلها،
اس تشریح سے بھی احناف کے موقف کی تائید ہوتی ہے کیوں کہ احناف کے نذدیک ہر وہ رفع الیدین منسوخ ہے جس میں ہاتھ اٹھانے کے ساتھ جسم بھی حرکت کرے یہ صورت تکبیرہ تحریمہ اور قنوت اور عیدین کی تکبیرات میں نہیں ہوتی اس لئیے احناف ان تکبیرات کے ساتھ رفع الیدین بھی کرتے ہیں
قنوت سے پہلے تکبیر کا ثبوت
آب اس ثبوت ( تکبیر و رفع الیدین
) کے کچھ شواہد بھی ہیں
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ لَيْثٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ أَبِيهِ : " أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ كَانَ إِذَا فَرَغَ مِنَ الْقِرَاءَةِ كَبَّرَ ، ثُمَّ قَنَتَ ، فَإِذَا فَرَغَ مِنَ الْقُنُوتِ كَبَّرَ ، ثُمَّ رَكَعَ " .
.
حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ مُغِيرَةَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : " إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَقْنُتَ فَكَبِّرْ لِلْقُنُوتِ ، وَكَبِّرْ إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَرْكَعَ " .
حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ : " أَنَّهُ كَانَ يُكَبِّرُ إِذَا قَنَتَ ، وَيُكَبِّرُ إِذَا فَرَغَ " .
حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ مُغِيرَةَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : إِذَا فَرَغْتَ مِنَ الْقِرَاءَةِ فَكَبِّرْ ، ثُمَّ إِذَا فَرَغْتَ ؛ فَكَبِّرْ وَارْكَعْ " .
حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَةَ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْحَكَمَ ، وَحَمَّادًا ، وَأَبَا إِسْحَاقَ ، يَقُولُونَ : فِي قُنُوتِ الْوِتْرِ : " إِذَا فَرَغَ ؛ كَبَّرَ ، ثُمَّ قَنَتَ "
یہ صرف مصنف ابی شيبہ سے روایت لیں ہیں ، طوالت کے خوف سے باقی کتب کی روایت چھوڑ دیں ہیں
حدثنا عبد الرحيم المحاذى حدثنا زائدة عن ليث عن عبد الرحمن بن الأسود عن أبيه عن عبد الله أنه كان يقرأ في آخر ركعة من الوتر : " قل هو الله أحد " ثم يرفع يديه ,فيقنت قبل الركعة .
رواہ البخاری في جزء رفع اليدین
.
یہاں بعض افراد نے لیث کو ضعیف ثابت کرنا چاہا
عرض ہے کہ میزان الاعتدال میں کہا گيا ہے کہ الکوفی اللیثی احد العلماء
اگر امام احمد نے اس کو مضظرب الحدیث کہا ہے تو ساتھ میں کہا ہے حدث عنہ الناس ۔
ابن معین نے لا باس بہ کہا ہے
دار قطنی نے اس کو صاحب السنہ کہا ہے
عبدالوارث نے اس کان من اوعیہ العلم کہا ہے
ابو بکر بن عیاش نے " کان من اکثر الناس صلاہ و صیاما " کہا ہے
حوالہ میزان الاعتدال
کیا اب بھی لیث ضعیف ہیں ؟؟؟