• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قنوت وتر کا رفع الیدین؟

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436


جو لوگ جو وتر کی نماز میں تیسری رکعت میں د عا قنوت سے پہلے (دوران نماز) رفع یدین کرتے ہیں اس کا جواز کیا ہے ؟؟؟ کیوں کہ حضرت عبدللہ بن مسعود رضی الله عنہ کی روایت میں یہ کہیں نہیں کہ وتر کے علاوہ کسی اور نماز میں دوران نماز نبی کریم صل الله علیہ وسلم رفع یدین نے نہیں کیا - بلکہ اس میں تو تمام نمازیں شامل ہیں چاہے وہ وتر ہوں یا فرض ہوں یا سنّت ہوں ؟؟

رفع یدین فقہ حنفی میں صرف تکبیر تحریمہ کے وقت ہے ۔ باقی ہر جگہ منسوخ ہے

پلیز جواب دے کر ہمارے علم میں اضافہ کریں


 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191


جو لوگ جو وتر کی نماز میں تیسری رکعت میں د عا قنوت سے پہلے (دوران نماز) رفع یدین کرتے ہیں اس کا جواز کیا ہے ؟؟؟ کیوں کہ حضرت عبدللہ بن مسعود رضی الله عنہ کی روایت میں یہ کہیں نہیں کہ وتر کے علاوہ کسی اور نماز میں دوران نماز نبی کریم صل الله علیہ وسلم رفع یدین نے نہیں کیا - بلکہ اس میں تو تمام نمازیں شامل ہیں چاہے وہ وتر ہوں یا فرض ہوں یا سنّت ہوں ؟؟

رفع یدین فقہ حنفی میں صرف تکبیر تحریمہ کے وقت ہے ۔ باقی ہر جگہ منسوخ ہے

پلیز جواب دے کر ہمارے علم میں اضافہ کریں



حدثنا عبد الرحيم المحاذى حدثنا زائدة عن ليث عن عبد الرحمن بن الأسود عن أبيه عن عبد الله أنه كان يقرأ في آخر ركعة من الوتر : " قل هو الله أحد " ثم يرفع يديه ,فيقنت قبل الركعة .

رواہ البخاری في جزء رفع اليدین
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436

حدثنا عبد الرحيم المحاذى حدثنا زائدة عن ليث عن عبد الرحمن بن الأسود عن أبيه عن عبد الله أنه كان يقرأ في آخر ركعة من الوتر : " قل هو الله أحد " ثم يرفع يديه ,فيقنت قبل الركعة .

رواہ البخاری في جزء رفع اليدین

میرے بھائی ذرا اس کا اردو ترجمہ بھی کر دیں تا کہ یہاں سب کو آسانی سے سمجھ آ جا ے -

رفع یدین فقہ حنفی میں صرف تکبیر تحریمہ کے وقت ہے ۔ باقی ہر جگہ منسوخ ہے

کیا یہ حدیث فقہ حنفی کی دلیل ہے

اور اس حدیث میں جو آخری رکعت کا ذکر ہے - تو یہ بھی بتا دیں کہ آخری رکعت کون سی ہے -
کیا تیسری ہے
 
شمولیت
اگست 05، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
57
حدثنا عبد الرحيم المحاذى حدثنا زائدة عن ليث عن عبد الرحمن بن الأسود عن أبيه عن عبد الله أنه كان يقرأ في آخر ركعة من الوتر : " قل هو الله أحد " ثم يرفع يديه ,فيقنت قبل الركعة .
رواہ البخاری في جزء رفع اليدین
اولاً: علامہ ہیثمی حنفی رحمہ اللہ کے مطابق اس کی سند میں لیث مدلس ہیں، مدلس کا عنعنہ قبول نہیں ہوتا اور درج بالا اثر کی سند میں لیث کا عنعنہ ہے لہٰذا یہ ضعیف ہے۔ دیکھئے:
كانَ عبدُ اللَّهِ يقرأُ في آخرِ الرَّكعةِ منَ الوترِ { قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ } ثمَّ يرفعُ يديِهِ فيقنتُ قبلَ الرَّكعة
الراوي: الأسود بن يزيد المحدث:الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 2/247
خلاصة حكم المحدث: فيه ليث بن أبي سليم وهو مدلس وهو ثقة

http://dorar.net/enc/hadith?skeys=فيقنت قبل الركعة&phrase=on&xclude=&t=*°ree_cat0=1

اب شائد احناف فضائل کے علاوہ احکام میں بھی ضعیف (اور موقوف) آثار قبول کرنے لگے ہیں۔ ابتسامہ!

ثانیا: اصل اعتراض شائد تلمیذ صاحب نے سمجھا ہی نہیں یا تجاہل عارفانہ سے کام لیا ہے۔
اعتراض یہ ہے کہ وتر کا یہ رفع الیدین بھی سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث
قال عبدُاللهِ بنُ مسعودٍ: ألا أُصلِّي بكم صلاةَ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ قال فصلَّى فلم يرفعْ يدَيه إلامرَّةً
الراوي: عبدالله بن مسعود المحدث:أبو داود - المصدر: سنن أبي داود - الصفحة أو الرقم: 748
خلاصة حكم المحدث: ليس بصحيح على هذا اللفظ

کے منافی ہے۔
سنن ابو داؤد کی اس ضعیف حدیث سے تو احناف نے بخاری ومسلم ودیگر بہت ساری کتبِ احادیث کی رکوع میں جاتے اور اٹھتے وقت اور تیسری رکعت کے رفع الیدین کی صحیح وصریح ترین احادیث مبارکہ کو تو منسوخ کردیا۔

سوال یہ ہے کہ کیا اس حدیث سے سیدنا ابن مسعود کا ہی ضعیف موقوف اثر منسوخ نہیں ہوتا؟؟؟

اگر یہ ضعیف اثر خاص ہے تو پھر صحیح بخاری ومسلم کی صحیح وصریح ترین احادیث مبارکہ کی تخصیص کیوں نہیں ہو سکتی؟؟؟
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323

حدثنا عبد الرحيم المحاذى حدثنا زائدة عن ليث عن عبد الرحمن بن الأسود عن أبيه عن عبد الله أنه كان يقرأ في آخر ركعة من الوتر : " قل هو الله أحد " ثم يرفع يديه ,فيقنت قبل الركعة .

رواہ البخاری في جزء رفع اليدین
بہت خوب !
اولا : اس کس سند ہی ضعیف ہے!!
ثانیا : اس میں رفع الیدین کا ذکر ہے یعنی دعاء کے لیے ہاتھ اٹھانے کا نہ کہ کندھوں یا کانوں تک ہاتھ اٹھانے کا !!!
ثالثا: پھر اس میں اس تکبیر شریف کا بھی ذکر نہیں ہے جو قنوت وتر سے قبل احناف کرتے ہیں !!

لہذا
۱۔ صحیح سند کے ساتھ
۲۔ قنوت وتر سے قبل کندھوں یا کانوں تک ہاتھ اٹھانا
۳۔ اور تکبیر کہنا ثابت کیا جائے !
 
شمولیت
اگست 05، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
57
بہت خوب !
اولا : اس کس سند ہی ضعیف ہے!!
ثانیا : اس میں رفع الیدین کا ذکر ہے یعنی دعاء کے لیے ہاتھ اٹھانے کا نہ کہ کندھوں یا کانوں تک ہاتھ اٹھانے کا !!!
ثالثا: پھر اس میں اس تکبیر شریف کا بھی ذکر نہیں ہے جو قنوت وتر سے قبل احناف کرتے ہیں !!
لہذا
۱۔ صحیح سند کے ساتھ
۲۔ قنوت وتر سے قبل کندھوں یا کانوں تک ہاتھ اٹھانا
۳۔ اور تکبیر کہنا ثابت کیا جائے !
جزاکم اللہ خیرا شیخ!
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437

حدثنا عبد الرحيم المحاذى حدثنا زائدة عن ليث عن عبد الرحمن بن الأسود عن أبيه عن عبد الله أنه كان يقرأ في آخر ركعة من الوتر : " قل هو الله أحد " ثم يرفع يديه ,فيقنت قبل الركعة .

رواہ البخاری في جزء رفع اليدین
تلمیذ بھائی۔۔۔
میرے پاس تین آپشن تھے۔۔۔
ناپسند، غیر متفق، یا غیرمتعلق۔
لیکن میں نے ان کا استعمال نہیں کیا۔۔۔
میں صرف یہ کہوں گا۔۔۔
ہر عربی عبارت کے ساتھ اردو کا ترجمہ لازمی پیش کردیا کیجئے۔۔۔
کیونکہ اس طرح جو قاری عربی سے ناواقف ہیں وہ بیچارے تذبذب کا شکار ہونے سے محفوظ رہیں۔۔۔
یہ میری ہمیشہ سے خواہش رہی ہے۔۔۔
کے آپ محترم، جمشید صاحب، اور بہرام۔۔۔
جب بھی کوئی عربی روایت کو پیش کریں اپنی یہ عادت بنا لیں۔۔۔
بالکل ویسے ہی جیسے آپ عربی عبارت یہاں پیش کرتے ہیں۔۔۔ ساتھ میں اردو ترجمہ بھی ہو۔۔۔
اللہ رب العالمین سے دُعا ہے کہ وہ حق کے داعی کو باطل پر فتح نصیب فرمائیں۔۔۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
میرے بھائی ذرا اس کا اردو ترجمہ بھی کر دیں تا کہ یہاں سب کو آسانی سے سمجھ آ جا ے -

رفع یدین فقہ حنفی میں صرف تکبیر تحریمہ کے وقت ہے ۔ باقی ہر جگہ منسوخ ہے

کیا یہ حدیث فقہ حنفی کی دلیل ہے

اور اس حدیث میں جو آخری رکعت کا ذکر ہے - تو یہ بھی بتا دیں کہ آخری رکعت کون سی ہے -
کیا تیسری ہے

آپ اپنے اعتراضات تو احناف پر اس طرح کرتے یں کہ وہ ترمذی میں تحریف کرتے ہیں اور حال یہ کہ ایک آسان سی حدیث کے معنی سمجھنے سے قاصر ہیں اس سے آپ کی تحقیقات کی حقیقت سامنے آجاتی ہے
مذید یہ کہ یہاں وتر کے رفع الیدین جو احناف کرتے ہیں اس کے متعلق بحث ہے نا کہ وتر کی رکعت کی تعداد ۔ اس لئیے دیگر مباحث مت چھیڑیں

دوسری بات آپ نے یہ بات از خود سوچ لی ہے کہ احناف صرف حدیث عبد اللہ بن مسعود کی وجہ سے رفع الیدین نہیں کرتے ۔ نہیں بھائی اس کی اور وجوہ بھی ہیں
جب کسی کو نماز سکھائی جاتی ہے تو پانچ نمازوں میں سے کوئی طریقہ بتایا جاتا ہے ایسا کوئی نہیں کرتا کہ نماز کا صریقہ بتانے کا کہے تو عیدین یا وتر کا طریقہ بتانے بیٹھ جائے ۔ جب وتر یا عیدین کی بات ہوتی ہے تو واضح طور کہا جاتا ہے کہ نماز عید کا یہ طریقہ ہے اور نماز وتر کا یہ طریقہ ہے ۔ آپ حضرات کی کتب میں جہاں نماز نبوی لکھی ہوتی ہے تو عام نمازوں کا طریقہ ہوتا ہے اور عیدین وغییرہ کی نماز کو الگ مستقلا ذکر کے ان کے مسائل لکھے جاتیں ہیں ۔ اس لئیے حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت سے وتر پر قیاس کرنا صرف اصول فقہ سے لاعلمی کا نتیجہ ہے
قنوت کے رفع الیدین کا ثبوت
وروى ابن ماجة (861) عَنْ عُمَيْرِ بْنِ حَبِيبٍ قَالَ : ( كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ مَعَ كُلِّ تَكْبِيرَةٍ فِي الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ ) .
وروى ابن ماجة أيضا (865) عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ : ( أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ كُلِّ تَكْبِيرَةٍ ) ، صححهما الشيخ الألباني في "صحيح ابن ماجة"
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق ارشاد ہوا ہے کہ وہ ہر تکبیر کے ساتھ ہاتھ اٹھاتے تھے ۔
اولا
رکوع و سجود یا تشھد سے اٹھنے کے بعد کے رفع یدین کے ترک پر احادیث واضح دلالت کرتیں ہیں ۔(ان احادیث کی یہاں ذکر کرنے کی ضرورت نہیں کیوں ان پر مفصل بحث ضخیم کتب میں ہو چکی ہے اور اس فورم پر بھی کچھ تھریڈ میں بحث ہو رہی ہے اور یہاں اس پر بحث کرنا موضوع سے الگ ہے اور اور کافی تفصیل طلب ہے )
اس لئیے جب وتر کے قنوت سے پہلے تکبیر ہو گي تو چوں کہ اس موقع پر رفع الیدین کی کوئی ممانعت نہیں تو رفع الیدین بھی ہو گآ
ثانیا
اگر کوئی صاحب عقل ان احادیث پر غور کرے تو معلوم ہو گا جن مقامات پر رفع الیدین سے منع کیا گيا ہے تو یہ وہ مقامات ہیں جن میں تکبیر کے ساتھ جسم بھی ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہو رہا ہے دعاء قنوت سے پہلے تکبیر میں ایسی صورت الحال نہیں تو یہاں بھی رفع الیدین ہو گا
ثالثا
اس حدیث کو اگر صحیح مسلم کی اس حدیث کے ساتھ دیکھا جائے جس میں اسکنوا في الصلاہ کہا گيا ہے اور ہاتھ اٹھانے کو سرکش گھوڑوں سے تشبیہ دی گئی اور اس حدیث کی تشریح میں امام نووی نے لکھا وهي الَّتي لا تستقرُّ، بل تضطرب وتتحرَّك بأذنابها وأرجلها،
اس تشریح سے بھی احناف کے موقف کی تائید ہوتی ہے کیوں کہ احناف کے نذدیک ہر وہ رفع الیدین منسوخ ہے جس میں ہاتھ اٹھانے کے ساتھ جسم بھی حرکت کرے یہ صورت تکبیرہ تحریمہ اور قنوت اور عیدین کی تکبیرات میں نہیں ہوتی اس لئیے احناف ان تکبیرات کے ساتھ رفع الیدین بھی کرتے ہیں
قنوت سے پہلے تکبیر کا ثبوت
آب اس ثبوت ( تکبیر و رفع الیدین
) کے کچھ شواہد بھی ہیں
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ لَيْثٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ أَبِيهِ : " أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ كَانَ إِذَا فَرَغَ مِنَ الْقِرَاءَةِ كَبَّرَ ، ثُمَّ قَنَتَ ، فَإِذَا فَرَغَ مِنَ الْقُنُوتِ كَبَّرَ ، ثُمَّ رَكَعَ " .
.
حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ مُغِيرَةَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : " إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَقْنُتَ فَكَبِّرْ لِلْقُنُوتِ ، وَكَبِّرْ إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَرْكَعَ " .


حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ : " أَنَّهُ كَانَ يُكَبِّرُ إِذَا قَنَتَ ، وَيُكَبِّرُ إِذَا فَرَغَ " .


حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ مُغِيرَةَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : إِذَا فَرَغْتَ مِنَ الْقِرَاءَةِ فَكَبِّرْ ، ثُمَّ إِذَا فَرَغْتَ ؛ فَكَبِّرْ وَارْكَعْ " .
حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَةَ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْحَكَمَ ، وَحَمَّادًا ، وَأَبَا إِسْحَاقَ ، يَقُولُونَ : فِي قُنُوتِ الْوِتْرِ : " إِذَا فَرَغَ ؛ كَبَّرَ ، ثُمَّ قَنَتَ "
یہ صرف مصنف ابی شيبہ سے روایت لیں ہیں ، طوالت کے خوف سے باقی کتب کی روایت چھوڑ دیں ہیں
حدثنا عبد الرحيم المحاذى حدثنا زائدة عن ليث عن عبد الرحمن بن الأسود عن أبيه عن عبد الله أنه كان يقرأ في آخر ركعة من الوتر : " قل هو الله أحد " ثم يرفع يديه ,فيقنت قبل الركعة .
رواہ البخاری في جزء رفع اليدین
.
یہاں بعض افراد نے لیث کو ضعیف ثابت کرنا چاہا
عرض ہے کہ میزان الاعتدال میں کہا گيا ہے کہ الکوفی اللیثی احد العلماء
اگر امام احمد نے اس کو مضظرب الحدیث کہا ہے تو ساتھ میں کہا ہے حدث عنہ الناس ۔
ابن معین نے لا باس بہ کہا ہے
دار قطنی نے اس کو صاحب السنہ کہا ہے
عبدالوارث نے اس کان من اوعیہ العلم کہا ہے
ابو بکر بن عیاش نے " کان من اکثر الناس صلاہ و صیاما " کہا ہے
حوالہ میزان الاعتدال
کیا اب بھی لیث ضعیف ہیں ؟؟؟
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
آپ اپنے اعتراضات تو احناف پر اس طرح کرتے یں کہ وہ ترمذی میں تحریف کرتے ہیں اور حال یہ کہ ایک آسان سی حدیث کے معنی سمجھنے سے قاصر ہیں اس سے آپ کی تحقیقات کی حقیقت سامنے آجاتی ہے
میرے بھائی جب آپ کے اتنے بڑے بڑے علماء جو احادیث کا ترجمہ کرتے ہیں وہ اس قابل نہیں کہ عربی عبارات کا ترجمہ کر سکیں کیوں کہ اپنے امام کو تحفظ جو دینا ہے​
تو آپ مجھ پر کیا گلا کر سکتے ہیں​
آپ نے جو حدیث پیش کی اس کا ترجمہ کرنے سے آپ کو کیا چیز روک رہی ہے​
پلیز اپنی پیش کردہ حدیث کا ترجمہ کر دیں - بات آگے بڑھاتے ہیں​

حدثنا عبد الرحيم المحاذى حدثنا زائدة عن ليث عن عبد الرحمن بن الأسود عن أبيه عن عبد الله أنه كان يقرأ في آخر ركعة من الوتر : " قل هو الله أحد " ثم يرفع يديه ,فيقنت قبل الركعة .
کیا چیز آپ کو اس کا ترجمہ کرنے سے روک رہی ہے​
کتنے بڑے نام ہیں​
جمشید صاحب
سہج صاحب
عبدالرحمان صاحب
تلمذ صاحب
کیا کوئی بھی نہیں جو ترجمہ کر سکے​
اس لیے پوچھ رہا ہوں​
کیوں کہ​
اس میں کون سے رفع الیدین کا ذکر ہے - دعاء کے لیے ہاتھ اٹھانے کا یا کہ کندھوں یا کانوں تک ہاتھ اٹھانے کا​

پھر اس میں اس تکبیر شریف کا بھی ذکر نہیں ہے جو قنوت وتر سے قبل احناف کرتے ہیں​
کیا یہ حدیث فقہ حنفی کی دلیل ہے تیسری رکعت میں تکبیر کہنے اور رفع الیدین​
میرا سوال پھر پڑھ لیں​

جو لوگ جو وتر کی نماز میں تیسری رکعت میں د عا قنوت سے پہلے (دوران نماز) رفع یدین کرتے ہیں اس کا جواز کیا ہے ؟؟؟

میں بھی یہی کہتا ہوں کے ایک حنفی کو احادیث کے چکر میں پڑنا ہی نہیں چاہیے، قرآن اور احادیث سے دلائل لینا تو قرآن اور حدیث والوں کا کام ہے جسے قرآن اور حدیث سے مسلہ لینا ہو وہ حدیث کے علماء سے رجوع کرے اور جسے فقہ سے مسلہ لینا ہو فقہ سے رجوع کرے....ایک حنفی کے لئے تو قول امام ہی دلیل ہے (جو آج کل قول مسجد کا امام ہے کیونکہ مسجد کا امام جو کہتا ہے مان لیتے ہیں ان بیچاروں کو تو یہ بھی نہیں پتا کے امام ابو حنیفہ کے خاص شاگردوں امام محمد اور امام یوسف نے دو تہائی مسائل میں امام ابو حنیفہ کی مخالفت کی ہے بقول فقہ احناف کے ).. اگر کسی مسلے میں کوئی حدیث نا بھی ہو تو بھی ایک حنفی جو کے اگر پکا حنفی ہے تو اسے فقہ حنفی کی ہی کی تقلید کرنی چاہیے..پھر تو اسکا حنفی ہونا سچا ...مگر یہ کیا ایک طرف تو اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیں پھر حدیث سے دلائل بھی لانے کی کرتے ہیں اور ظلم یہ کے ضعیف احادیث بھی پیش کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے..کیوں کے فقہ کی ترجیح جو ثابت کرنی ہے







 
Top