راشد محمود
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 24، 2016
- پیغامات
- 216
- ری ایکشن اسکور
- 22
- پوائنٹ
- 35
بسم الله الرحمن الرحیم
سب تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جو سب جہانوں کا پالنے والا ہے اور اللہ تعالیٰ تمام انبیاء اور رسولوں پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔
اما بعد! بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور بہترین سیرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت ہے اور سارے کاموں میں بدترین کام نئے نئے طریقے ہیں (یعنی دین کے نام سے نئے طریقے جاری کرنا) اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
قارئین ! الله تعالٰی نے فرقہ بندی سے منع فرمایا- الله تعالٰی فرماتا ہے :
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ۠
اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو مل جل کر اور تفرقے میں نہ پڑو(آل عمران -103)
لیکن اس واضح حکم کے باوجود جو لوگ فرقہ فرقہ ہو گئے ان سے مسلمین کا کوئی تعلق نہیں ہے -
الله تعالٰی فرماتا ہے :
اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِيْ شَيْءٍ ۭ اِنَّمَآ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ
جن لوگوں نے اپنے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور وہ گروہوں میں تقسیم ہوگئے تمہارا ان سے کوئی تعلق نہیں ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے ‘ پھر وہ انہیں جتلا دے گا جو کچھ کہ وہ کرتے رہے تھے-(الانعام -159)
یہ وہی وحدت کا تصور ہے جو سورۃ البقرۃ کی آیت ٢١٣ میں دیا گیا ہے : (کَان النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً قف) کہ پہلے تمام لوگ ایک ہی دین پر تھے۔ پھر لوگ صراط مستقیم سے منحرف ہوتے گئے اور مختلف گروہوں نے اپنے اپنے راستے الگ کرلیے۔ چنانچہ فرمایا جا رہا ہے کہ جو لوگ صراط مستقیم کو چھوڑ کر اپنی اپنی خود ساختہ پگڈنڈیوں پر چل رہے ہیں وہ سب ضلالت اور گمراہی میں پڑے ہیں اور تمہارا ان گمراہ لوگوں سے کوئی تعلق نہیں۔
ہر فرقے نے اپنے خود ساختہ اصول بنا لیے ہیں – انہیں باطل اصولوں میں اجماع ، قیاس اور اجتہاد کے اصول بھی شامل فہرست ہیں –
قارئین !
ہمارا دعویٰ ہے کہ قیاس شریعت نہیں ہے
بلکہ یہ تو الله تعالٰی کی نازل کردہ شریعت میں اضافہ ہے – قیاس سے حرمت اور حلت ثابت نہیں ہو سکتی –
باطل فرقے یہ کہتے ہیں کہ ہم قیاس کو مثبت للحکم نہیں مانتے بلکہ مظھر للحکم مانتے ہیں – یعنی قیاس کسی چیز پر حکم نہیں لگاتا بلکہ جو حکم پوشیدہ ہو اس کو ظاہر کردیتا ہے-
تو عرض یہ ہے کہ یہ ایک باطل دعویٰ ہے – اگر یہ مظھر للحکم ہوتا تو یہ فرقے آپس کے قیاس میں کبھی اختلاف نہیں کرتے - حکم تو ایک ہی ہو گا دو نہیں ، یہاں تو ایک ہی چیز پر چار چار حکم لگ رہے ہیں تو پتا چلا کہ قیاس مثبت للحکم ہے نہ کہ مظھر للحکم -
قارئین ! یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ کسی چیز کو حرام یا حلال قرار دینا یہ صرف الله تعالٰی کا کام ہے – کسی مقرب یا نبی کو بھی اس چیز کا اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنی طرف سے کسی چیز کو حرام یا حلال کہے –
اس بات کا حق نہ کسی نبی کو ہے جیسے کہ الله تعالٰی نے فرمایا :
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ
اے نبی ! کیوں تم حرام کرتے ہو (اُسے ) جسے اللہ نے حلال کیا ہے تمہارے لیے
( التحریم -1 )
اورابو سعید خدری سے بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :
أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ لَيْسَ بِي تَحْرِيمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لِي
اے لوگو میں اس چیز کو حرام نہیں کرتا جسے اللہ تعالیٰ نے میرے لئے حلال کردیا ہو
(صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 1251)
اور نہ ہی کسی مجتہد کو ہے (حلال اور حرام کرنے کا اختیار ) جیسے کہ الله تعالٰی نے فرمایا :
يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَيِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ
اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو مت حرام ٹھہراؤ (ان) پاکیزہ چیزوں کو جو حلال کی ہیں اللہ نے تمہارے لیے اور مت تم حد سے بڑھو، بیشک اللہ نہیں پسند کرتا حد سے بڑھنے والوں کو
(المائدہ – 87)
وَلَا تَــقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُوْنَ
اور مت کہوجس کے متعلق تمہاری زبانیں جھوٹ گھڑتی ہیں کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے تاکہ تم اللہ کی طرف جھوٹ منسوب کرو یقیناً جو لوگ اللہ کی طرف جھوٹ منسوب کرتے ہیں وہ فلاح نہیں پائیں گے
(النحل – 116)
مندرجہ بالا آیات میں بتایا یہ گیا ہے کہ اشیاء کو حرام یا حلال قرار دینے کا اختیار کلیتاً اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ کسی دوسرے کو یہ اختیار نہیں کہ وہ قیاس کر کے اللہ کی حرام کردہ چیز کو حلال یا جائز قرار دے لے یا اس کی حلال کردہ چیزوں کو حرام بنا دے۔ اور جو لوگ یہ کام کرتے ہیں وہ جھوٹ بکتے ہیں۔ پہلے وہ اس قسم کے جھوٹ اختراع کرتے ہیں پھر انھیں اللہ کے ذمہ لگا کر یا اس کی طرف منسوب کرکے اپنے ایسے عقیدوں کودینی تقدس کا جامہ پہنا دینے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ وہ حقیقتاً الله تعالٰی کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے کر شرک کا ارتکاب کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کی اخروی نجات کی کوئی صورت نہیں۔
قیاس کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ اس کا حکم الله تعالٰی نے نہیں اتارا اس لیے ہم نے اس پر حکم لگایا ہے جب کہ الله تعالٰی کا فرمان ہے :
اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ
آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کردیا ہے (المائدہ – 3 )
بلکہ فرمایا :
وَاَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَاۗءَهُمْ
اور یہ کہ فیصلہ کرو ان کے درمیان اس کے مطابق جو اللہ نے نازل کیا اور نہ پیروی کرو انکی خواہشات کیاما بعد! بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور بہترین سیرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت ہے اور سارے کاموں میں بدترین کام نئے نئے طریقے ہیں (یعنی دین کے نام سے نئے طریقے جاری کرنا) اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
قارئین ! الله تعالٰی نے فرقہ بندی سے منع فرمایا- الله تعالٰی فرماتا ہے :
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ۠
اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو مل جل کر اور تفرقے میں نہ پڑو(آل عمران -103)
لیکن اس واضح حکم کے باوجود جو لوگ فرقہ فرقہ ہو گئے ان سے مسلمین کا کوئی تعلق نہیں ہے -
الله تعالٰی فرماتا ہے :
اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِيْ شَيْءٍ ۭ اِنَّمَآ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ
جن لوگوں نے اپنے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور وہ گروہوں میں تقسیم ہوگئے تمہارا ان سے کوئی تعلق نہیں ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے ‘ پھر وہ انہیں جتلا دے گا جو کچھ کہ وہ کرتے رہے تھے-(الانعام -159)
یہ وہی وحدت کا تصور ہے جو سورۃ البقرۃ کی آیت ٢١٣ میں دیا گیا ہے : (کَان النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً قف) کہ پہلے تمام لوگ ایک ہی دین پر تھے۔ پھر لوگ صراط مستقیم سے منحرف ہوتے گئے اور مختلف گروہوں نے اپنے اپنے راستے الگ کرلیے۔ چنانچہ فرمایا جا رہا ہے کہ جو لوگ صراط مستقیم کو چھوڑ کر اپنی اپنی خود ساختہ پگڈنڈیوں پر چل رہے ہیں وہ سب ضلالت اور گمراہی میں پڑے ہیں اور تمہارا ان گمراہ لوگوں سے کوئی تعلق نہیں۔
آج یہ امت بھی فرقوں میں تقسیم ہو چکی ہے
:-ہر فرقے نے اپنے خود ساختہ اصول بنا لیے ہیں – انہیں باطل اصولوں میں اجماع ، قیاس اور اجتہاد کے اصول بھی شامل فہرست ہیں –
قارئین !
سب سے پہلے ہم قیاس کے اصول کا جائزہ لیتے ہیں
ہمارا دعویٰ ہے کہ قیاس شریعت نہیں ہے
بلکہ یہ تو الله تعالٰی کی نازل کردہ شریعت میں اضافہ ہے – قیاس سے حرمت اور حلت ثابت نہیں ہو سکتی –
باطل فرقے یہ کہتے ہیں کہ ہم قیاس کو مثبت للحکم نہیں مانتے بلکہ مظھر للحکم مانتے ہیں – یعنی قیاس کسی چیز پر حکم نہیں لگاتا بلکہ جو حکم پوشیدہ ہو اس کو ظاہر کردیتا ہے-
تو عرض یہ ہے کہ یہ ایک باطل دعویٰ ہے – اگر یہ مظھر للحکم ہوتا تو یہ فرقے آپس کے قیاس میں کبھی اختلاف نہیں کرتے - حکم تو ایک ہی ہو گا دو نہیں ، یہاں تو ایک ہی چیز پر چار چار حکم لگ رہے ہیں تو پتا چلا کہ قیاس مثبت للحکم ہے نہ کہ مظھر للحکم -
قارئین ! یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ کسی چیز کو حرام یا حلال قرار دینا یہ صرف الله تعالٰی کا کام ہے – کسی مقرب یا نبی کو بھی اس چیز کا اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنی طرف سے کسی چیز کو حرام یا حلال کہے –
اس بات کا حق نہ کسی نبی کو ہے جیسے کہ الله تعالٰی نے فرمایا :
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ
اے نبی ! کیوں تم حرام کرتے ہو (اُسے ) جسے اللہ نے حلال کیا ہے تمہارے لیے
( التحریم -1 )
اورابو سعید خدری سے بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :
أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ لَيْسَ بِي تَحْرِيمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لِي
اے لوگو میں اس چیز کو حرام نہیں کرتا جسے اللہ تعالیٰ نے میرے لئے حلال کردیا ہو
(صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 1251)
اور نہ ہی کسی مجتہد کو ہے (حلال اور حرام کرنے کا اختیار ) جیسے کہ الله تعالٰی نے فرمایا :
يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَيِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ
اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو مت حرام ٹھہراؤ (ان) پاکیزہ چیزوں کو جو حلال کی ہیں اللہ نے تمہارے لیے اور مت تم حد سے بڑھو، بیشک اللہ نہیں پسند کرتا حد سے بڑھنے والوں کو
(المائدہ – 87)
وَلَا تَــقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُوْنَ
اور مت کہوجس کے متعلق تمہاری زبانیں جھوٹ گھڑتی ہیں کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے تاکہ تم اللہ کی طرف جھوٹ منسوب کرو یقیناً جو لوگ اللہ کی طرف جھوٹ منسوب کرتے ہیں وہ فلاح نہیں پائیں گے
(النحل – 116)
حلت وحرمت کا اختیار سنبھالنا بھی شرک ہے :۔
مندرجہ بالا آیات میں بتایا یہ گیا ہے کہ اشیاء کو حرام یا حلال قرار دینے کا اختیار کلیتاً اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ کسی دوسرے کو یہ اختیار نہیں کہ وہ قیاس کر کے اللہ کی حرام کردہ چیز کو حلال یا جائز قرار دے لے یا اس کی حلال کردہ چیزوں کو حرام بنا دے۔ اور جو لوگ یہ کام کرتے ہیں وہ جھوٹ بکتے ہیں۔ پہلے وہ اس قسم کے جھوٹ اختراع کرتے ہیں پھر انھیں اللہ کے ذمہ لگا کر یا اس کی طرف منسوب کرکے اپنے ایسے عقیدوں کودینی تقدس کا جامہ پہنا دینے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ وہ حقیقتاً الله تعالٰی کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے کر شرک کا ارتکاب کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کی اخروی نجات کی کوئی صورت نہیں۔
قیاس کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ اس کا حکم الله تعالٰی نے نہیں اتارا اس لیے ہم نے اس پر حکم لگایا ہے جب کہ الله تعالٰی کا فرمان ہے :
اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ
آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کردیا ہے (المائدہ – 3 )
الله تعالٰی نےاپنے نبی کو بھی قیاس کرنے کی اجازت نہیں دی
بلکہ فرمایا :
وَاَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَاۗءَهُمْ
(المائدہ – 49 )
اور اسی طرح الله تعالٰی کا فرمان ہے :
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ
اور جو اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی تو کافر ہیں
(المائدہ – 44 )
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
اور جو اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی تو ظالم ہیں
( المائدہ – 45 )
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ
جو اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی تو فاسق ہیں
( المائدہ – 47)
قارئین !قرآن کی ان آیات کو سامنے رکھیے اور ملت اسلامیہ کی موجودہ کیفیت کا جائزہ لیجیے کہ دنیا میں کتنے ممالک ہیں ‘ جہاں اللہ کا قانون نافذ ہے ؟ آج روئے زمین پر کوئی ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے جہاں شریعت اسلامی پورے طور پر نافذ ہو اور اسلام کا مکمل نظام قائم ہو۔ اگرچہ ہم انفرادی اعتبار سے مسلم ہیں لیکن ہمارے نظام کافرانہ ہیں۔
اور یہ آیات اس بات پر بھی توجہ دلا رہی ہیں کہ جو لوگ اپنی طرف سے یا مجتہد کے غلط فتوے سے چیزوں پر حلال اور حرام کی مہر لگاتے ہیں وہ یا تو کافر ہیں ، یا فاسق ہیں یا ظالم ہیں –
اہل قیاس خود قیاس کرتے ہوۓ آپس میں اختلاف کرتے ہیں – جس سے الله تعالٰی نے سختی سے منع فرمایا ہے - الله تعالٰی فرماتا ہے :
وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَھُمُ الْبَيِّنٰتُ ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ
اور تم مت ہو ان لوگوں کی طرح جو فرقوں میں بٹ گئے اور وہ اختلاف کرنے لگے اس کے بعد کہ آگئے ان کے پاس رشن دلائل اور وہی لوگ ہیں کہ ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔
( آل عمران – 105)
اور ان کا
اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۭوَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا
توکیا یہ لوگ غور نہیں کرتے قرآن میں اوراگر ہوتا اللہ کے علاوہ کی طرف سے (تو)یقینا وہ پاتے اس میں بہت سا اختلاف۔
( النساء – 82)
یہاں تو بات اختلافات تک نہیں رہی بلکہ اس کی وجہ سے لوگ فرقوں میں بٹ گئے جس سے شریعت نے سختی سے منع کیا ہے –
قارئین !اب میں آپ کو چند مثالیں دیتا ہوں –
مثال نمبر ١ – شوافع کہتے ہیں کہ تین بال برابر مسح کرنے سے وضوء ہو جائے گا اور احناف کہتے ہیں کہ جب تک چوتھائی سر کا مسح نہیں کرے گا وضوء نہیں ہو گا لیکن مالکی کہتے ہیں نہ پہلے والے کا وضو ء صحیح اور نہ دوسرے کا بلکہ جب تک پورے سر کا مسح نہیں کرے گا اس کا وضو ء نہیں ہو گا –
مثال نمبر ٢ – احناف کہتے ہیں اگر کسی نے الله اجل یا الله اعظم کہتے ہوۓ نیت باندھ لی تو اس کی نماز ہو جائے گی لیکن شوافع کے نزدیک یہ بے نمازی شمار ہو گا جب تک الله اکبر نہ کہے گا اس کی نماز نہیں ہو گی –
مثال نمبر ٣ – احناف کہتے ہیں لفظ هبه يا تمليك سے نکاح منعقد ہو جائے گا اور وہ مرد اور عورت آپس میں شوہر اور بیوی شمار ہوں گے جو بچہ ہو گا وہ حلال کا ہو گا دونوں میں سے کوئی مر جائے تو دوسرا وارث ہو گا –
لیکن شوافع کہتے ہیں کہ بغیر لفظ (نکاح یا تزویج ) کے نکاح منعقد نہیں ہو گا اگر وہ صحبت کرے تو وہ زنا شمار ہو گا اور اس صحبت سے جو بچا پیدا ہو گا وہ حرام کا ہو گا اور ایک مر جائے تو دوسرا مرنے والا اس کا وارث نہیں بنے گا –
قارئین ! آپ نے دیکھ لیا کہ اہل قیاس کے قیاسات میں کتنا آسمان و زمین جتنا فرق ہے اور کتنا اختلاف ہے – یعنی بالفاظ دیگر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ الله تعالٰی اور اس کے نبی محمّد صلی الله علیہ وسلم نے نہ ہمیں وضو ء کا طریقہ بتایا ہے اور نہ نماز کا طریقہ بتایا ہے اور نہ ہی نکاح کا صحیح طریقہ بتایا ہے جس کی وجہ سے ہم قیاس کرنے پر مجبور ہوۓ ہیں – نعوذباللہ
جبکہ الله تعالٰی کا فرمان ہے :
اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ
آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کردیا ہے (المائدہ – 3 )
تو یہ بات ثابت ہوئی کہ قیاس قطعا دین شریعت نہیں ہے –
بلکہ دین اسلام نے قیاس کا رد کر دیا –
الله تعالٰی کا فرمان ہے :
فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا
پھراگر تم اختلاف کروکسی چیز میں تولوٹاؤ اسے اللہ اور رسول کی طرف اگر ہوتم ایمان رکھتے اللہ پراور روز آخرت پر،یہ بہت اچھی بات ہے اور بہت بہتر انجام کے لحاظ سے۔(النساء – ٥٩ )اور اسی طرح الله تعالٰی کا فرمان ہے :
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ
اور جو اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی تو کافر ہیں
(المائدہ – 44 )
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
اور جو اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی تو ظالم ہیں
( المائدہ – 45 )
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ
جو اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی تو فاسق ہیں
( المائدہ – 47)
قارئین !قرآن کی ان آیات کو سامنے رکھیے اور ملت اسلامیہ کی موجودہ کیفیت کا جائزہ لیجیے کہ دنیا میں کتنے ممالک ہیں ‘ جہاں اللہ کا قانون نافذ ہے ؟ آج روئے زمین پر کوئی ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے جہاں شریعت اسلامی پورے طور پر نافذ ہو اور اسلام کا مکمل نظام قائم ہو۔ اگرچہ ہم انفرادی اعتبار سے مسلم ہیں لیکن ہمارے نظام کافرانہ ہیں۔
اور یہ آیات اس بات پر بھی توجہ دلا رہی ہیں کہ جو لوگ اپنی طرف سے یا مجتہد کے غلط فتوے سے چیزوں پر حلال اور حرام کی مہر لگاتے ہیں وہ یا تو کافر ہیں ، یا فاسق ہیں یا ظالم ہیں –
قیاس کے رد کے لیے یہ بھی کافی ہے کہ : -
اہل قیاس خود قیاس کرتے ہوۓ آپس میں اختلاف کرتے ہیں – جس سے الله تعالٰی نے سختی سے منع فرمایا ہے - الله تعالٰی فرماتا ہے :
وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَھُمُ الْبَيِّنٰتُ ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ
اور تم مت ہو ان لوگوں کی طرح جو فرقوں میں بٹ گئے اور وہ اختلاف کرنے لگے اس کے بعد کہ آگئے ان کے پاس رشن دلائل اور وہی لوگ ہیں کہ ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔
( آل عمران – 105)
اور ان کا
قیاس میں اختلاف کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ قیاس شریعت نہیں ہے
کیوں کہ شریعت میں اختلاف محال ہے جیسے کہ الله تعالٰی نے فرمایا :اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۭوَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا
توکیا یہ لوگ غور نہیں کرتے قرآن میں اوراگر ہوتا اللہ کے علاوہ کی طرف سے (تو)یقینا وہ پاتے اس میں بہت سا اختلاف۔
( النساء – 82)
یہاں تو بات اختلافات تک نہیں رہی بلکہ اس کی وجہ سے لوگ فرقوں میں بٹ گئے جس سے شریعت نے سختی سے منع کیا ہے –
قارئین !اب میں آپ کو چند مثالیں دیتا ہوں –
مثال نمبر ١ – شوافع کہتے ہیں کہ تین بال برابر مسح کرنے سے وضوء ہو جائے گا اور احناف کہتے ہیں کہ جب تک چوتھائی سر کا مسح نہیں کرے گا وضوء نہیں ہو گا لیکن مالکی کہتے ہیں نہ پہلے والے کا وضو ء صحیح اور نہ دوسرے کا بلکہ جب تک پورے سر کا مسح نہیں کرے گا اس کا وضو ء نہیں ہو گا –
مثال نمبر ٢ – احناف کہتے ہیں اگر کسی نے الله اجل یا الله اعظم کہتے ہوۓ نیت باندھ لی تو اس کی نماز ہو جائے گی لیکن شوافع کے نزدیک یہ بے نمازی شمار ہو گا جب تک الله اکبر نہ کہے گا اس کی نماز نہیں ہو گی –
مثال نمبر ٣ – احناف کہتے ہیں لفظ هبه يا تمليك سے نکاح منعقد ہو جائے گا اور وہ مرد اور عورت آپس میں شوہر اور بیوی شمار ہوں گے جو بچہ ہو گا وہ حلال کا ہو گا دونوں میں سے کوئی مر جائے تو دوسرا وارث ہو گا –
لیکن شوافع کہتے ہیں کہ بغیر لفظ (نکاح یا تزویج ) کے نکاح منعقد نہیں ہو گا اگر وہ صحبت کرے تو وہ زنا شمار ہو گا اور اس صحبت سے جو بچا پیدا ہو گا وہ حرام کا ہو گا اور ایک مر جائے تو دوسرا مرنے والا اس کا وارث نہیں بنے گا –
قارئین ! آپ نے دیکھ لیا کہ اہل قیاس کے قیاسات میں کتنا آسمان و زمین جتنا فرق ہے اور کتنا اختلاف ہے – یعنی بالفاظ دیگر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ الله تعالٰی اور اس کے نبی محمّد صلی الله علیہ وسلم نے نہ ہمیں وضو ء کا طریقہ بتایا ہے اور نہ نماز کا طریقہ بتایا ہے اور نہ ہی نکاح کا صحیح طریقہ بتایا ہے جس کی وجہ سے ہم قیاس کرنے پر مجبور ہوۓ ہیں – نعوذباللہ
جبکہ الله تعالٰی کا فرمان ہے :
اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ
آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کردیا ہے (المائدہ – 3 )
تو یہ بات ثابت ہوئی کہ قیاس قطعا دین شریعت نہیں ہے –
بلکہ دین اسلام نے قیاس کا رد کر دیا –
الله تعالٰی کا فرمان ہے :
فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا
اور یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ
اور الله تعالٰی نے یہ بھی بتا دیا کہ الله اور اس کے رسول سے آگے مت بڑھو -
الله تعالٰی کا فرمان ہے :
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُـقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ
اے اہل ِایمان مت آگے بڑھو اللہ اور اس کے رسول سے ( الحجرات – 1 )
دوسری بات یہ کہ
الله تعالٰی کا فرمان ہے :
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى
اور نہیں وہ بولتا (اپنی )خواہش سے-نہیں ہے وہ مگر ایک وحی (جو )اس پر بھیجی جاتی ہے _
(النجم – 3 اور 4 )
تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ
جیسے کہ
الله تعالٰی کا فرمان ہے :
فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا
پھراگر تم اختلاف کروکسی چیز میں تولوٹاؤ اسے اللہ اور رسول کی طرف اگر ہوتم ایمان رکھتے اللہ پراور روز آخرت پر،یہ بہت اچھی بات ہے اور بہت بہتر انجام کے لحاظ سے۔(النساء – ٥٩ )رجوع الی القیاس نہ رجوع الی الله ہے اور نہ ہی رجوع الی الرسول ہے
اور الله تعالٰی نے یہ بھی بتا دیا کہ الله اور اس کے رسول سے آگے مت بڑھو -
الله تعالٰی کا فرمان ہے :
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُـقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ
اے اہل ِایمان مت آگے بڑھو اللہ اور اس کے رسول سے ( الحجرات – 1 )
دوسری بات یہ کہ
نبی صلی الله علیہ وسلم نے نہ خود کبھی قیاس کیا اور نہ ہی صحابہ کو اس کی تعلیم دی
–الله تعالٰی کا فرمان ہے :
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى
اور نہیں وہ بولتا (اپنی )خواہش سے-نہیں ہے وہ مگر ایک وحی (جو )اس پر بھیجی جاتی ہے _
(النجم – 3 اور 4 )
تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ
مسلمین کہ لیے حجت صرف قرآن مجید اور سنّت رسول ہے
–جیسے کہ
الله تعالٰی کا فرمان ہے :
فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا
اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِيَاۗءَ ۭ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ
تم پیروی کرو اس کی جو نازل کیا گیا ہے تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے اور نہ پیروی کرو اس کے علاوہ اولیاء کی ،
بہت ہی کم تم نصیحت حاصل کرتے ہو۔(الاعراف – ٣ )
الله تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ حق بات کو پڑھنے ، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے ! ( آمین)
والحمدللہ رب العلمین
تم پیروی کرو اس کی جو نازل کیا گیا ہے تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے اور نہ پیروی کرو اس کے علاوہ اولیاء کی ،
بہت ہی کم تم نصیحت حاصل کرتے ہو۔(الاعراف – ٣ )
الله تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ حق بات کو پڑھنے ، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے ! ( آمین)
والحمدللہ رب العلمین
Last edited by a moderator: