• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

كيا نصف شعبان كا روزہ ركھ لے چاہے حديث ضعيف ہى كيوں نہ ہو ؟

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
ضعیف حدیث کو ذکر کرنا جائز نہیں البتہ اسے صرف اس صورت میں بیان کیا جاسکتا ہے کے اس کے ضعیف کو بھی ساتھ ہی بیان کیا جائے
ذرا مطالعہ تازہ کرلیجئے گا
یہ بات ضعیف حدیث کے بارے میں کہی گئی ہے یاپھر موضوع حدیث کے بارے میں!
اسرار نے ہوامیں تیر مارنے کی بات غلط نہیں کہی تھی!
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
ذرا مطالعہ تازہ کرلیجئے گا
یہ بات ضعیف حدیث کے بارے میں کہی گئی ہے یاپھر موضوع حدیث کے بارے میں!
اسرار نے ہوامیں تیر مارنے کی بات غلط نہیں کہی تھی!
اسرار کے ساتھ (پُر) لگادیتے تو جملہ میں جان پڑ جاتی۔۔۔
 

israrulhaq

رکن
شمولیت
مئی 31، 2011
پیغامات
11
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
32
اسرار کے ساتھ (پُر) لگادیتے تو جملہ میں جان پڑ جاتی۔۔۔
کیا ضعیف حدیث پرعمل کرنا جائز ہے یا نہیں یہ جاننے کے لیے ایک حدیث پیش خدمت ہے جو "نماز میں ہاتھ کہاں باندھیں" سے لی گئی ہے۔حدیث کا متن یہ ہے۔
"حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر انہیں اپنے سینے پر رکھ لیا۔"
اعتراض نمبر 1: ؟؟ ناصر الدین البانی ابن خزیمہ کے حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے۔
اعتراض نمبر 2: ؟؟ مبارک پوری ابکار المنن ص 109 میں لکھتے ہیں کہ میں تسلیم کر تا ہوں کہ اس کی سند ضعیف ہے۔
اعتراض نمبر 3: ؟؟ ابو عبد السلام القول المقبول میں ص 345 میں لکھتے ہیں اس کی سند ضعیف ہے۔
اعتراض نمبر 4: اس روایت میں ایک راوی مومل بن اسماعیل ہے ۔ امام بخاری فرماتے ہے یہ منکر الحدیث ہے(المغنی فی الضعفاءج 2 ص446، تہذیب الکمال ج 91 ص526، تہذیب التہذیب ج 5 ص2، میزان الااعتدال ج 4 ص 228امام بخاری ؒ فرماتے ہیں جسکو میں منکر الحدیث کہہ دوں اس سے روایت لینا حلال نہیں ہے۔ میزان ج 1 ص6، تدریب الراوی)
اعتراض نمبر 5: امام بخاریؒ کے استاد امام ابوزرعہؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث میں کثرت سے خطا ءکرتاہے۔(میزان ج 4 ص 228)
اعتراض نمبر 6: تقریب التہذیب میں ہے ۔برئے حافظے والا ہے ۔(ج 2 ص 231)
اعتراض نمبر 7: ؟؟ زبیر علی زئی نے اپنی کتاب نور العینین ص 61 پر لکھا ہے جو راوی کثیر الخطاءاور برئے حافظہ والا ہو، اس کی منفرد روایت ضعیف ہوتی ہے یہاں مومل بن اسماعیل کا بھی یہی حال ہے۔
اب بتائیں اس حدیث پر عمل کرنا کیسا ہے۔
دعا کا طالب : اسرار الحق

پوسٹ کے اصل مقصود کو باقی رکھتے ہوئے غیر مناسب جملوں میں تبدیلی کر دی گئی ہے۔ انتظامیہ
 

غازی

رکن
شمولیت
فروری 24، 2013
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
183
پوائنٹ
90
کیا ضعیف حدیث پرعمل کرنا جائز ہے یا نہیں یہ جاننے کے لیے ایک حدیث پیش خدمت ہے جو "نماز میں ہاتھ کہاں باندھیں" سے لی گئی ہے۔حدیث کا متن یہ ہے۔
"حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر انہیں اپنے سینے پر رکھ لیا۔"
اعتراض نمبر 1: غیر مقلد ناصر الدین البانی ابن خزیمہ کے حاشیہ میں لکھتا ہے کہ اس کی سند ضعیف ہے۔
اعتراض نمبر 2: غیرمقلد مبارک پوری ابکار المنن ص 109 میں لکھتا ہے کہ میں تسلیم کر تا ہوں کہ اس کی سند ضعیف ہے۔
اعتراض نمبر 3: غیر مقلد ابو عبد السلام القول المقبول میں ص 345 میں لکھتا ہے اس کی سند ضعیف ہے۔
پہلی بات تو یہ کہ:
ایک عام طالب علم کو بھی یہ بات معلوم ہے کہ سند کے ضعیف ہونے سے حدیث کا ضعیف ہونا لازم نہیں آتا اوریہاں حدیث کے ضعیف ہونے کی بات ہورہی ہے ۔
آپ نے جن اہل علم کے حوالے دئے ہیں یہ لوگ اس کی سند کو ضعیف ماننے کے باوجود بھی شواہد کی روشنی میں اسے صحیح قرار دیتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ:
اس سند کو ضعیف کہنا بھی درست نہیں کیونکہ مؤمل بن اسماعیل کم ازکم حسن الحدیث ہے جیساکہ شیخ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے اس موضوع پر لکھی گئی اپنی کتاب میں ثابت کیاہے۔


اعتراض نمبر 4: اس روایت میں ایک راوی مومل بن اسماعیل ہے ۔ امام بخاری فرماتے ہے یہ منکر الحدیث ہے(المغنی فی الضعفاءج 2 ص446، تہذیب الکمال ج 91 ص526، تہذیب التہذیب ج 5 ص2، میزان الااعتدال ج 4 ص 228امام بخاری ؒ فرماتے ہیں جسکو میں منکر الحدیث کہہ دوں اس سے روایت لینا حلال نہیں ہے۔ میزان ج 1 ص6، تدریب الراوی)
امام بخاری رحمہ اللہ سے یہ جرح ثابت نہیں ہے یہ جرح نہ تو ان کی کتاب میں ہے ۔
اور نہ ہی کسی نے ان کی کسی کتاب کا حوالہ دے کر نقل کیا ہے ۔
اورنہ ہی کسی نے ان سے بسند صحیح اسے روایت کیا ہے۔

امام بخاری ؒ فرماتے ہیں جسکو میں منکر الحدیث کہہ دوں اس سے روایت لینا حلال نہیں ہے۔ میزان ج 1 ص6، تدریب الراوی)
لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے منکر الحدیث کہا ہی نہیں ، اسی لئے امام بخاری نے اس سے روایت بھی لی ہے اور یہ بات بھی اس چیز کی دلیل ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک یہ راوی منکر الحدیث نہیں ہے۔

اعتراض نمبر 5: امام بخاریؒ کے استاد امام ابوزرعہؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث میں کثرت سے خطا ءکرتاہے۔(میزان ج 4 ص 228)
بےسند حوالہ ہے۔

اعتراض نمبر 6: تقریب التہذیب میں ہے ۔برئے حافظے والا ہے ۔(ج 2 ص 231)
تقریب صرف اتنا ہی نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے یہ بھی ہے کہ یہ صدوق ہے۔
نیز تقریبا ہر راوی کے بارے بعض کی کوئی نہ کوئی جرح مل جاتی ہے لیکن ہرطرح کے اقوال کے سامنے رکھنے کے بعد ہی فیصلہ کیا جائے گا۔

اعتراض نمبر 7: غیر مقلد زبیر علی زئی نے اپنی کتاب نور العینین ص 61 پر لکھا ہے جو راوی کثیر الخطاءاور برئے حافظہ والا ہو، اس کی منفرد روایت ضعیف ہوتی ہے یہاں مومل بن اسماعیل کا بھی یہی حال ہے۔
لیکن شیخ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے مؤمل کو کثیر الخطاء نہیں قرار دیا بلکہ انہوں نے تو اس کی توثیق پر ایک منفرد مقالہ تحریر کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ جمہور کے نزدیک یہ روای ثقہ ہے۔

اب بتائیں اس حدیث پر عمل کرنا کیسا ہے۔
جب اس حدیث کا ضعیف ہونا ثابت ہی نہیں بلکہ اس کا صحیح ہونا ثابت ہے اور محدثین نے اسے صحیح کہا بھی ہے تو اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔
 

israrulhaq

رکن
شمولیت
مئی 31، 2011
پیغامات
11
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
32
پہلی بات تو یہ کہ:
ایک عام طالب علم کو بھی یہ بات معلوم ہے کہ سند کے ضعیف ہونے سے حدیث کا ضعیف ہونا لازم نہیں آتا اوریہاں حدیث کے ضعیف ہونے کی بات ہورہی ہے ۔
آپ نے جن اہل علم کے حوالے دئے ہیں یہ لوگ اس کی سند کو ضعیف ماننے کے باوجود بھی شواہد کی روشنی میں اسے صحیح قرار دیتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ:
اس سند کو ضعیف کہنا بھی درست نہیں کیونکہ مؤمل بن اسماعیل کم ازکم حسن الحدیث ہے جیساکہ شیخ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے اس موضوع پر لکھی گئی اپنی کتاب میں ثابت کیاہے۔




امام بخاری رحمہ اللہ سے یہ جرح ثابت نہیں ہے یہ جرح نہ تو ان کی کتاب میں ہے ۔
اور نہ ہی کسی نے ان کی کسی کتاب کا حوالہ دے کر نقل کیا ہے ۔
اورنہ ہی کسی نے ان سے بسند صحیح اسے روایت کیا ہے۔



لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے منکر الحدیث کہا ہی نہیں ، اسی لئے امام بخاری نے اس سے روایت بھی لی ہے اور یہ بات بھی اس چیز کی دلیل ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک یہ راوی منکر الحدیث نہیں ہے۔



بےسند حوالہ ہے۔



تقریب صرف اتنا ہی نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے یہ بھی ہے کہ یہ صدوق ہے۔
نیز تقریبا ہر راوی کے بارے بعض کی کوئی نہ کوئی جرح مل جاتی ہے لیکن ہرطرح کے اقوال کے سامنے رکھنے کے بعد ہی فیصلہ کیا جائے گا۔



لیکن شیخ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے مؤمل کو کثیر الخطاء نہیں قرار دیا بلکہ انہوں نے تو اس کی توثیق پر ایک منفرد مقالہ تحریر کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ جمہور کے نزدیک یہ روای ثقہ ہے۔



جب اس حدیث کا ضعیف ہونا ثابت ہی نہیں بلکہ اس کا صحیح ہونا ثابت ہے اور محدثین نے اسے صحیح کہا بھی ہے تو اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔
مومل بن اسماعیل کے ضعف کی محدثین نے واضح الفاظ میں تصریح کی ہے اسی کے ساتھ سبب ضعف کوبھی واضح انداز میں بیان کیاہے۔ جس سے واضح ہے کہ مومل بن اسماعیل پر ہونے والاجرح جرح مفسر ہے۔ اس کے باوجود اسنادہ صحیح کہنایاتوزبیر علی زئی کی تقلید کی وجہ سے ہے جس نے مومل بن اسماعیل کو ثقہ وصدوق قراردے رکھاہے
اب ہم آپ کے سامنے مومل بن اسماعیل کے تعلق سے ناقدین رجال کے کچھ اقوال پیش کرتے ہیں تاکہ اس کی حالت کا اندازہ ہرایک کو ہوسکے۔
اس راوی کے بارے میں اولاالبانی صاحب کا ہی ہم ذکرتے ہیں کیونکہ وہ ان حضرات کے محدث العصر ہیں دیکھئے مومل کے سلسلے میں وہ کیاکہتے ہیں۔
قلت: وهذا خطأ فاحش، وبخاصة من الذهبي؛ لأن مؤملا هذا ليس من
رجال الشيخين أولا، ثم هو شديد الخطأ ثانيا؛ فقد قال فيه إمام المحدثين البخاري:
" منكر الحديث ".
وقد اعترف كل من ترجم له - حتى الذهبي - بأنه سيئ الحفظ، فقال في
" حافظ عالم يخطئ. وثقه ابن معين. وقال أبو حاتم: صدوق شديد في
السنة، كثير الخطأ. وقال البخاري: منكر الحديث. وقال أبو زرعة: في حديثه
خطأ كثير ". وقال الحافظ في " التقريب ":
" صدوق سيئ الحفظ ".
وقد أعتمد قول أبي حاتم المتقدم الذهبي نفسه في " الكاشف "، ثم أتبعه
ببيان سبب كثرة خطئه فقال:
" وقيل: دفن كتبه، وحدث حفظا؛ فغلط ".
قلت: فمثله لا يحتج به إذا انفرد،
سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ12/58
اس کے بارے میں ہم ناقدین کے اقوال ذکر کرتے چلے جاتے ہیں۔ امام بخاری فرماتے ہیں منکرالحدیث
ابوحاتم کہتے ہیں صدوق شدید فی السنۃ کثیرالخطاءیکتب حدیثہ،الجرح والتعدیل 8/374
ابوزرعہ الرازی کہتے ہیں فی حدیثہ خطاء کثیر
ابن سعد کہتے ہیں ثقۃ کثیرالخطاء
یعقوب بن سفیان المعروف الفسوی لکھتے ہیں: قال يعقوب بن سفيان: مؤمل أبو عبد الرحمن شيخ جليل سني سمعت سُلَيْمان بن حرب يحسن الثناء كان مشيختنا يوصون به الا ان حديثه لا يشبه حديث اصحابه وقد يجب على اهل العلم ان يقفوا عن حديثه
فانه يروي المناكير عن ثقات شيوخه وهذا اشد
فلو كانت هذه المناكير عن الضعفاء لكنا نجعل له عذرا.
ساجی کہتے ہیں: صدوق كثير الخطأ وله أوهام يطول ذكرها.
ابونصرالمروزی کہتے ہیں: المؤمل إذا انفرد بحديث وجب ان يتوقف ويتثبت فيه لانه كان سيئ الحفظ كثير الغلط.
ابن قانع کہتے ہیں: صالح يخطئ
دارقطنی کہتے ہیں: : ثقة كثير الخطأ۔اوران سے ایک دوسری روایت میں صدوق کثیر الخطاء کے الفاظ بھی منقول ہیں۔ اس کے علاوہ علل میں دارقطنی کہتے ہیں۔
وَرَوَاهُ مُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ يَحْيَى الْقَطَّانِ فَوَهِمَ عَلَيْهِ فِي إِسْنَادِهِ، وَهْمًا قَبِيحًا؛علل الدارقطنی9/314
اس کے علاوہ ان کے بارے میں یہ بھی کہاگیاہے کہ ان کی کتابیں دفن ہوگئی تھیں وہ جوکچھ بیان کرتے تھے یادداشت سے بیان کرتے تھے اسی بناء پر ان کی غلطیاں زیادہ ہوگئیں وَقَال غيره: دفن كتبه فَكَانَ يحدث من حفظه، فكثر خطؤه.اوریہ بات مشہور ہے کہ جب کسی کی غلطیاں صواب سے زیادہ ہوجائیں توپھر وہ ترک کا مستحق ہوجاتاہے۔
اس کے بارے میں حافظ ابن حجر کا فیصلہ یہ ہے کہ مؤمل بوزن محمد بهمزة ابن إسماعيل البصري أبو عبد الرحمن نزيل مكة صدوق سيء الحفظ من صغار التاسعة مات سنة ست ومائتين خت قد ت س ق
تقریب التہذیب1/
دیگر کتابیں یہ ہیں،تہذیب الکمال،طبقات ابن سعد5/501،سیر اعلام النبلاء8/286،من تکلم فیہ وھوموثق1/513،میزان الاعتدال4/284،تہذیب التہذیب10/381،لسان المیزان7/406،موسوعۃ اقوال ابی الحسن الدارقطنی2/674۔
 

israrulhaq

رکن
شمولیت
مئی 31، 2011
پیغامات
11
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
32
صرف شیخ زبیر علی زئی کے کہنے کی وجہ سے مومل بن اسماعیل کو ثقہ وصدوق قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ بے شمار آئمہ نے اس کے ضعف کوبھی واضح انداز میں بیان کیاہے۔جس کے میں نے بے شمار حوالے دے دیئے ہیں۔ انہی حوالوں کی روشنی میں ہم شیخ زبیر علی زئی کی کتاب نور العینین کا حوالہ دیا تھا جس میں لکھا ہوا ہے کہ جو راوی کثیر الخطاءاور برئے حافظہ والا ہو، اس کی منفرد روایت ضعیف ہوتی ہے مومل بن اسماعیل کا بھی یہی حال ہے۔آئیے اس کتاب کا یہ صفحہ دوبارہ پڑھیں۔
نور--العین--از--حافط--زبیر--علی--زئی.gif
 

shinning4earth

مبتدی
شمولیت
اپریل 11، 2013
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
173
پوائنٹ
26
پہلی بات تو یہ کہ:
ایک عام طالب علم کو بھی یہ بات معلوم ہے کہ سند کے ضعیف ہونے سے حدیث کا ضعیف ہونا لازم نہیں آتا اوریہاں حدیث کے ضعیف ہونے کی بات ہورہی ہے ۔
آپ نے جن اہل علم کے حوالے دئے ہیں یہ لوگ اس کی سند کو ضعیف ماننے کے باوجود بھی شواہد کی روشنی میں اسے صحیح قرار دیتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ:
اس سند کو ضعیف کہنا بھی درست نہیں کیونکہ مؤمل بن اسماعیل کم ازکم حسن الحدیث ہے جیساکہ شیخ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے اس موضوع پر لکھی گئی اپنی کتاب میں ثابت کیاہے۔




امام بخاری رحمہ اللہ سے یہ جرح ثابت نہیں ہے یہ جرح نہ تو ان کی کتاب میں ہے ۔
اور نہ ہی کسی نے ان کی کسی کتاب کا حوالہ دے کر نقل کیا ہے ۔
اورنہ ہی کسی نے ان سے بسند صحیح اسے روایت کیا ہے۔



لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے منکر الحدیث کہا ہی نہیں ، اسی لئے امام بخاری نے اس سے روایت بھی لی ہے اور یہ بات بھی اس چیز کی دلیل ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک یہ راوی منکر الحدیث نہیں ہے۔



بےسند حوالہ ہے۔



تقریب صرف اتنا ہی نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے یہ بھی ہے کہ یہ صدوق ہے۔
نیز تقریبا ہر راوی کے بارے بعض کی کوئی نہ کوئی جرح مل جاتی ہے لیکن ہرطرح کے اقوال کے سامنے رکھنے کے بعد ہی فیصلہ کیا جائے گا۔



لیکن شیخ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے مؤمل کو کثیر الخطاء نہیں قرار دیا بلکہ انہوں نے تو اس کی توثیق پر ایک منفرد مقالہ تحریر کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ جمہور کے نزدیک یہ روای ثقہ ہے۔



جب اس حدیث کا ضعیف ہونا ثابت ہی نہیں بلکہ اس کا صحیح ہونا ثابت ہے اور محدثین نے اسے صحیح کہا بھی ہے تو اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔
جزاک اللہ احسن الجزا
اللہ آپ کے علم میں اضافہ فرمائے
آمین
 
Top