پہلی بات تو یہ کہ:
ایک عام طالب علم کو بھی یہ بات معلوم ہے کہ سند کے ضعیف ہونے سے حدیث کا ضعیف ہونا لازم نہیں آتا اوریہاں حدیث کے ضعیف ہونے کی بات ہورہی ہے ۔
آپ نے جن اہل علم کے حوالے دئے ہیں یہ لوگ اس کی سند کو ضعیف ماننے کے باوجود بھی شواہد کی روشنی میں اسے صحیح قرار دیتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ:
اس سند کو ضعیف کہنا بھی درست نہیں کیونکہ مؤمل بن اسماعیل کم ازکم حسن الحدیث ہے جیساکہ شیخ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے اس موضوع پر لکھی گئی اپنی کتاب میں ثابت کیاہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ سے یہ جرح ثابت نہیں ہے یہ جرح نہ تو ان کی کتاب میں ہے ۔
اور نہ ہی کسی نے ان کی کسی کتاب کا حوالہ دے کر نقل کیا ہے ۔
اورنہ ہی کسی نے ان سے بسند صحیح اسے روایت کیا ہے۔
لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے منکر الحدیث کہا ہی نہیں ، اسی لئے امام بخاری نے اس سے روایت بھی لی ہے اور یہ بات بھی اس چیز کی دلیل ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک یہ راوی منکر الحدیث نہیں ہے۔
بےسند حوالہ ہے۔
تقریب صرف اتنا ہی نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے یہ بھی ہے کہ یہ صدوق ہے۔
نیز تقریبا ہر راوی کے بارے بعض کی کوئی نہ کوئی جرح مل جاتی ہے لیکن ہرطرح کے اقوال کے سامنے رکھنے کے بعد ہی فیصلہ کیا جائے گا۔
لیکن شیخ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے مؤمل کو کثیر الخطاء نہیں قرار دیا بلکہ انہوں نے تو اس کی توثیق پر ایک منفرد مقالہ تحریر کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ جمہور کے نزدیک یہ روای ثقہ ہے۔
جب اس حدیث کا ضعیف ہونا ثابت ہی نہیں بلکہ اس کا صحیح ہونا ثابت ہے اور محدثین نے اسے صحیح کہا بھی ہے تو اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔
مومل بن اسماعیل کے ضعف کی محدثین نے واضح الفاظ میں تصریح کی ہے اسی کے ساتھ سبب ضعف کوبھی واضح انداز میں بیان کیاہے۔ جس سے واضح ہے کہ مومل بن اسماعیل پر ہونے والاجرح جرح مفسر ہے۔ اس کے باوجود اسنادہ صحیح کہنایاتوزبیر علی زئی کی تقلید کی وجہ سے ہے جس نے مومل بن اسماعیل کو ثقہ وصدوق قراردے رکھاہے
اب ہم آپ کے سامنے مومل بن اسماعیل کے تعلق سے ناقدین رجال کے کچھ اقوال پیش کرتے ہیں تاکہ اس کی حالت کا اندازہ ہرایک کو ہوسکے۔
اس راوی کے بارے میں اولاالبانی صاحب کا ہی ہم ذکرتے ہیں کیونکہ وہ ان حضرات کے محدث العصر ہیں دیکھئے مومل کے سلسلے میں وہ کیاکہتے ہیں۔
قلت: وهذا خطأ فاحش، وبخاصة من الذهبي؛ لأن مؤملا هذا ليس من
رجال الشيخين أولا، ثم هو شديد الخطأ ثانيا؛ فقد قال فيه إمام المحدثين البخاري:
" منكر الحديث ".
وقد اعترف كل من ترجم له - حتى الذهبي - بأنه سيئ الحفظ، فقال في
" حافظ عالم يخطئ. وثقه ابن معين. وقال أبو حاتم: صدوق شديد في
السنة، كثير الخطأ. وقال البخاري: منكر الحديث. وقال أبو زرعة: في حديثه
خطأ كثير ". وقال الحافظ في " التقريب ":
" صدوق سيئ الحفظ ".
وقد أعتمد قول أبي حاتم المتقدم الذهبي نفسه في " الكاشف "، ثم أتبعه
ببيان سبب كثرة خطئه فقال:
" وقيل: دفن كتبه، وحدث حفظا؛ فغلط ".
قلت: فمثله لا يحتج به إذا انفرد،
سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ12/58
اس کے بارے میں ہم ناقدین کے اقوال ذکر کرتے چلے جاتے ہیں۔ امام بخاری فرماتے ہیں منکرالحدیث
ابوحاتم کہتے ہیں صدوق شدید فی السنۃ کثیرالخطاءیکتب حدیثہ،الجرح والتعدیل 8/374
ابوزرعہ الرازی کہتے ہیں فی حدیثہ خطاء کثیر
ابن سعد کہتے ہیں ثقۃ کثیرالخطاء
یعقوب بن سفیان المعروف الفسوی لکھتے ہیں: قال يعقوب بن سفيان: مؤمل أبو عبد الرحمن شيخ جليل سني سمعت سُلَيْمان بن حرب يحسن الثناء كان مشيختنا يوصون به الا ان حديثه لا يشبه حديث اصحابه وقد يجب على اهل العلم ان يقفوا عن حديثه
فانه يروي المناكير عن ثقات شيوخه وهذا اشد
فلو كانت هذه المناكير عن الضعفاء لكنا نجعل له عذرا.
ساجی کہتے ہیں: صدوق كثير الخطأ وله أوهام يطول ذكرها.
ابونصرالمروزی کہتے ہیں: المؤمل إذا انفرد بحديث وجب ان يتوقف ويتثبت فيه لانه كان سيئ الحفظ كثير الغلط.
ابن قانع کہتے ہیں: صالح يخطئ
دارقطنی کہتے ہیں: : ثقة كثير الخطأ۔اوران سے ایک دوسری روایت میں صدوق کثیر الخطاء کے الفاظ بھی منقول ہیں۔ اس کے علاوہ علل میں دارقطنی کہتے ہیں۔
وَرَوَاهُ مُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ يَحْيَى الْقَطَّانِ فَوَهِمَ عَلَيْهِ فِي إِسْنَادِهِ، وَهْمًا قَبِيحًا؛علل الدارقطنی9/314
اس کے علاوہ ان کے بارے میں یہ بھی کہاگیاہے کہ ان کی کتابیں دفن ہوگئی تھیں وہ جوکچھ بیان کرتے تھے یادداشت سے بیان کرتے تھے اسی بناء پر ان کی غلطیاں زیادہ ہوگئیں وَقَال غيره: دفن كتبه فَكَانَ يحدث من حفظه، فكثر خطؤه.اوریہ بات مشہور ہے کہ جب کسی کی غلطیاں صواب سے زیادہ ہوجائیں توپھر وہ ترک کا مستحق ہوجاتاہے۔
اس کے بارے میں حافظ ابن حجر کا فیصلہ یہ ہے کہ مؤمل بوزن محمد بهمزة ابن إسماعيل البصري أبو عبد الرحمن نزيل مكة صدوق سيء الحفظ من صغار التاسعة مات سنة ست ومائتين خت قد ت س ق
تقریب التہذیب1/
دیگر کتابیں یہ ہیں،تہذیب الکمال،طبقات ابن سعد5/501،سیر اعلام النبلاء8/286،من تکلم فیہ وھوموثق1/513،میزان الاعتدال4/284،تہذیب التہذیب10/381،لسان المیزان7/406،موسوعۃ اقوال ابی الحسن الدارقطنی2/674۔