• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

متعہ اور حلالہ میں مدت طے کرنا !!!

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
حضرت عمر ہرگز قرآن و سنت کے خلاف نہیں جاسکتے تھے


آپ کے اس فرمان سے میں صحیح مسلم کی حدیث کی دلیل کی بناء پر متفق نہیں


تیمم کے بارے میں واضح قرآنی آیات اور حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی بیان کی گئی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس کھلی خلاف ورزی کو آپ کیا نام دیں گے ؟؟؟؟


کچھ لوگ پوری احادیث اور اس کا مفہوم پیش نہیں کرتے- اور صحابہ کرام راضی اللہ کے خلاف اپنی زبان درازیاں کرتے رہتے ہیں​
اللہ ایسے لوگوں پر لعنت کرے آمین​
پوری حدیث یہ ہے​
حیض کا بیان

تیمم کے بیان میں

صحیح مسلم:جلد اول
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هَاشِمٍ الْعَبْدِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَی يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ الْقَطَّانَ عَنْ شُعْبَةَ قَالَ حَدَّثَنِي الْحَکَمُ عَنْ ذَرٍّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَجُلًا أَتَی عُمَرَ فَقَالَ إِنِّي أَجْنَبْتُ فَلَمْ أَجِدْ مَائً فَقَالَ لَا تُصَلِّ فَقَالَ عَمَّارٌ أَمَا تَذْکُرُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ أَنَا وَأَنْتَ فِي سَرِيَّةٍ فَأَجْنَبْنَا فَلَمْ نَجِدْ مَائً فَأَمَّا أَنْتَ فَلَمْ تُصَلِّ وَأَمَّا أَنَا فَتَمَعَّکْتُ فِي التُّرَابِ وَصَلَّيْتُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا کَانَ يَکْفِيکَ أَنْ تَضْرِبَ بِيَدَيْکَ الْأَرْضَ ثُمَّ تَنْفُخَ ثُمَّ تَمْسَحَ بِهِمَا وَجْهَکَ وَکَفَّيْکَ فَقَالَ عُمَرُ اتَّقِ اللَّهَ يَا عَمَّارُ قَالَ إِنْ شِئْتَ لَمْ أُحَدِّثْ بِهِ قَالَ الْحَکَمُ وَحَدَّثَنِيهِ ابْنُ
عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی عَنْ أَبِيهِ مِثْلَ حَدِيثِ ذَرٍّ قَالَ وَحَدَّثَنِي سَلَمَةُ عَنْ ذَرٍّ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ الَّذِي ذَکَرَ الْحَکَمُ فَقَالَ عُمَرُ نُوَلِّيکَ مَا تَوَلَّيْتَ

عبد اللہ بن ہاشم عبدی، یحیی ابن سعید قطان، شعبہ، حکم، ذر، سعید بن عبدالرحمن ابن ابزی سے روایت ہے کہ ایک آدمی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ میں جنبی ہوگیا اور میں نے پانی نہیں پایا آپ نے فرمایا نماز نہ پڑھ، تو حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اے امیر المومنین کیا آپ کو یاد نہیں کہ جب میں اور آپ ایک سریہ میں جنبی ہو گئے اور ہمیں پانی نہ ملا اور آپ نے نماز ادا نہ کی بہر حال میں مٹی میں لیٹا اور نماز ادا کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تیرے لئے کافی تھا کہ تو اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر مارتا پھر پھونک مارتا پھر ان دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مسح کرتا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اے عمار اللہ سے ڈر حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اگر آپ نہ چاہیں تو میں یہ حدیث نہیں بیان کروں گا حکم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت مذکور ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہم تیری روایت کا بوجھ تجھ ہی پر ڈالتے ہیں۔

بہرام نے حدیث کا یہ حصہ کیوں پیش نہیں کیا​
حکم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت مذکور ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہم تیری روایت کا بوجھ تجھ ہی پر ڈالتے ہیں۔

اللہ بہرام پر حق چھپانے پر کروڑ ہا لعنتیں کرے
آمین

اور یہی روایت سنن نسائی میں بھی بیان ہوئی ہے​
کتاب سنن نسائی جلد 1
محمد بن بشار، عبدالرحمن، سفیان، سلمہ، ابومالک و عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابزی، عبدالرحمن بن ابزی سے روایت ہے کہ ہم لوگ حضرت عمر کے نزدیک بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص حاضر ہوا اور اس نے کہا اے امیرالمومنین کبھی ایک ایک دو دو ماہ تک ہم لوگوں کو پانی (وضو یا غسل کے مطابق) نہیں ملتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا مجھ کو نہ پانی ملے تو میں نماز نہ پڑھوں۔ جس وقت تک میں پانی حاصل نہ کر سکوں۔ حضرت عمار بن یاسر نے فرمایا اے امیرالمؤمنین آپ کو یاد ہے کہ جس وقت میں اور تم دونوں فلاں فلاں جگہ پر موجود تھے اور ہم اونٹ چراتے تھے تو تم کو معلوم ہے کہ ہم کو غسل کرنے کی ضرورت پیش آئی تھی میں مٹی میں لوٹ پوٹ ہوگیا پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے واقعہ عرض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہنسی آگئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم کو مٹی کافی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی دونوں ہتھیلی کو زمین پر مارا پھر ان کو پھونک ماری اور چہرہ پر مسح فرمایا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے عمار تم خدا سے ڈرو کہ تم بغیر کسی روک ٹوک کے حدیث نقل کرتے ہو- حضرت عمار نے فرمایا اے امیرالمؤمنین اگر آپ چاہیں تو میں اس حدیث کو نقل نہ کروں گا۔ حضرت عمر نے فرمایا نہیں بلکہ تم نقل کرو اس کو ہم تمہارے ہی حوالے کر دیں گے
پاکی کا بیان
تیمم کا بیان
سنن ابوداؤد:جلد اول
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِيرٍ الْعَبْدِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ کُهَيْلٍ عَنْ أَبِي مَالِکٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی قَالَ کُنْتُ عِنْدَ عُمَرَ فَجَائَهُ رَجُلٌ فَقَالَ إِنَّا نَکُونُ بِالْمَکَانِ الشَّهْرَ وَالشَّهْرَيْنِ فَقَالَ عُمَرُ أَمَّا أَنَا فَلَمْ أَکُنْ أُصَلِّي حَتَّی أَجِدَ الْمَائَ قَالَ فَقَالَ عَمَّارٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَمَا تَذْکُرُ إِذْ کُنْتُ أَنَا وَأَنْتَ فِي الْإِبِلِ فَأَصَابَتْنَا جَنَابَةٌ فَأَمَّا أَنَا فَتَمَعَّکْتُ فَأَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لَهُ فَقَالَ إِنَّمَا کَانَ يَکْفِيکَ أَنْ تَقُولَ هَکَذَا وَضَرَبَ بِيَدَيْهِ إِلَی الْأَرْضِ ثُمَّ نَفَخَهُمَا ثُمَّ مَسَحَ بِهِمَا وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ إِلَی نِصْفِ الذِّرَاعِ فَقَالَ عُمَرُ يَا عَمَّارُ اتَّقِ اللَّهَ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنْ شِئْتَ وَاللَّهِ لَمْ أَذْکُرْهُ أَبَدًا فَقَالَ عُمَرُ کَلَّا وَاللَّهِ لَنُوَلِّيَنَّکَ مِنْ ذَلِکَ مَا تَوَلَّيْتَ

محمد بن کثیر، سفیان، سلمہ بن کہیل، ابومالک، عبدالرحمن بن ابزی سے روایت ہے کہ میں حضرت عمر کے پاس تھا کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہا کہ ہم ماہ دو ماہ ایک جگہ قیام کرتے ہیں )اور وہاں پانی نہیں ہوتا اور ہم جنبی ہوتے ہیں تو ایسی صورت میں ہم کیا کر یں- اس پر حضرت عمر نے فرمایا کہ میں تو اس وقت تک نماز نہ پڑھوں گا جب تک کہ پانی نہ ملے گا یہ سن کر حضرت عمار نے کہا کہ اے امیر المومنین کیا آپ کو یاد نہیں کہ میں اور آپ اونٹوں میں تھے اور ہم جنبی ہو گئے تھے تو میں مٹی میں لوٹ گیا تھا پھر ہم نے واپس آکر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے واقعہ عرض کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ایسی صورت میں تمھیں صرف ایسا کرنا کافی تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ زمین پر مار کر پھونک ماری اور اپنے چہرے پر اور ہاتھوں پر نصف ذراع تک پھیر لیا حضرت عمر نے فرمایا۔ اے عمار اللہ سے ڈرو۔ انھوں نے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو یہ بات میں کبھی ذکر نہ کروں۔ حضرت عمر نے فرمایا۔ نہیں بخدا میرا یہ مطلب نہیں ہے بلکہ تمھیں اپنی بات کہنے کا اختیار ہے۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
یہ ہے غیر مقلدین کے چہرہ کا اصل رخ۔۔۔۔۔۔۔
جو قرآن و احدیث کا صرف نعرہ ہی لگاتا ہے اور دلیل افسانے، ڈرامے ، معاشرے کی جہالت کو بناتا ہے۔۔۔۔۔۔
اور قرآن و حدیث کو چھوڑ دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
ہے کوئی عبرت حاصل کرنے وال غیر مقلد

میں برابر قرآن وسنت پر اس موضوع میں بات کرنے کی دعوت دے رہا ہوں۔۔۔۔۔
اور عامر یونس صاحب برابر قرآن و سنت کو چھوڑ کر افسانوی کرداروں، ڈراموں، میڈیا کی ترتیب شدہ کہانیوں ، اور معاشرے کی جہالت کو بطور دلیل و حجت پیش کررہے ہیں۔
یہ ہے غیر مقلدیت جو نعرہ قرآن و احادیث کا لگاتا ہے، اور خود دلیل کے لئے افسانوں اور ڈراموں کی تنگ وادیوں میں بھٹک رہا ہے،
اللہ تعالی ایسی جہالت اور گمراہی سے ہر مومن کو بچائے۔
اس موضوع پر آپ کے پاس صرف ڈرامے ، افسانے ، اور غیر مقلدین کے ترتیب شدہ فسانے ہیں،
اگر یہی آپ کے کامل ایمان کی دلیل بمعنی پختگی ہے تو آپ اسی میں جئے ۔۔۔۔ اور دوسروں کو جینے دیں۔ مزید اس پر بات مناسب نہیں۔
شکریہ



 

ideal_man

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
498
پوائنٹ
79
محترم
اگر واقعی آپ حق کی طرف رجوع کرنا چاہتے ہیں تو فرقہ اور مسلک سے بالاتر ہوکر قرآن کی ان آیاتکے ترجمہ و مفہوم پر ضرور غور کیجئے گا کہ جو مفہوم آپ نے کسی مولوی صاحب کے صفحہ سے بیان کیا ہے کیا واقعی ان آیات میں وہی مفہوم بیان ہوا ہے۔
خیانت اس چیز کا نام نہیں کہ کسی آیت کے ایک حصہ کو اپنے مفادکے لئےبیان کیا جائے یا اس میں پیوند کاری کی جائے۔ بلکہ اس کے اصل مفہوم کو بدلنا یہ سب سے بھیانک خیانت ہے۔ اللہ تعالی معاف فرمائے۔
جن دوآیات پر اس کا ٹائٹل بنایا گیا ہے اس کا اس سے کیا تعلق ہے؟؟؟؟
وَالْمُطَلَّقٰتُ يَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْۗءٍ ۭ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ اَنْ يَّكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ فِيْٓ اَرْحَامِهِنَّ اِنْ كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭوَبُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِيْ ذٰلِكَ اِنْ اَرَادُوْٓا اِصْلَاحًا ۭ وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۠ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۭ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ ٢٢٨
ترجمہ مولانا محمد جونا گڑھی
طلاق والی عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں (١) انہیں حلال نہیں کہ اللہ نے ان کے رحم میں جو پیدا کیا ہو چھپائیں (٢) اگر انہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہو، ان کے خاوند اس مدت میں انہیں لوٹا لینے کے پورے حقدار ہیں اگر ان کا ارادہ اصلاح کا ہو (٣) اور عورتوں کو بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہیں اچھائی کے ساتھ (٤) ہاں مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے اللہ تعالیٰ غالب ہے حکمت والا ہے۔
تفسیری حواشی مولانا صلاح الدین یوسف
٢٢٨۔١ اس سے وہ متعلقہ عورت مراد ہے جو حاملہ بھی نہ ہو (کیونکہ حمل والی عورت کی مدت وضع حمل تک ہے) جسے دخول سے قبل طلاق مل گئی ہو وہ بھی نہ ہو (کیونکہ اس کی کوئی عدت ہی نہیں) جس کو حیض آنا بند ہو گیا ہو کیونکہ ان کی عدت تین مہینے ہے گویا مذکورہ عورتوں کے علاوہ صرف مدخولہ عورت کی عدت بیان کی جا رہی ہے۔ یعنی تین طہر یا تین حیض عدت گزار کے وہ دوسری شادی کرنے کی مجاز ہے سلف نے قروء کے دونوں ہی معنی صحیح قرار دئیے ہیں اس لئے دونوں کی گنجائش ہے (ابن کثیر فتح القدیر)
٢٢٨۔٢ اس سے حیض اور حمل دونوں ہی مراد ہیں حیض نہ چھپائیں مثلاً کہے کہ طلاق کے بعد مجھے ایک دو حیض آئے ہیں مقصد پہلے خاوند کی طرف رجوع کرنا ہو (اگر وہ رجوع کرنا چاہتا ہو) ۔ اسی طرح حمل نہ چھپائیں کیونکہ نطفہ وہ پہلے خاوند کا ہوگا اور منسوب دوسرے خاوند کی طرف ہو جائے گا اور یہ سخت کبیرہ گناہ ہے۔
٢٢٨۔٣ رجوع کرنے سے خاوند کا مقصد اگر تنگ کرنا نہ ہو تو عدت کے اندر خاوند کو رجوع کرنے کا پورا حق حاصل ہے عورت کے ولی کو اس میں رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں ہے۔
٢٢٨۔٤ دونوں کے حقوق ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں جن کو پورا کرنے کے دونوں شرعاً پابند ہیں تاہم مرد کو عورت پر فضیلت یا درجہ حاصل ہے مثلا فطری قوتوں میں جہاد کی اجازت ہے میراث کے دوگنا ہونے میں قوامیت اور حاکمیت میں اور اختیار طلاق و رجوع (وغیرہ) میں ۔
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَاَحْصُواالْعِدَّةَ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ رَبَّكُمْ ۚ لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۢ بُيُوْتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ اِلَّآ اَنْ يَّاْتِيْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۭ وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ ۭ وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ ۭ لَا تَدْرِيْ لَعَلَّ اللّٰهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا
ترجمہ مولانا محمد جونا گڑھی
اے نبی! (اپنی امت سے کہو کہ) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو (١) تو ان کی عدت (کے دنوں کے آغاز) میں انہیں طلاق دو (٢) اور عدت کا حساب رکھو (٣) اور اللہ سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرتے رہو، نہ تم انہیں ان کے گھر سے نکالو (٤) اور نہ وہ (خود) نکلیں (٥) ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کھلی برائی کر بیٹھیں (٦) یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں جو شخص اللہ کی حدوں سے آگے بڑھ جائے اس نے یقیناً اپنے اوپر ظلم کیا (۷) تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ تعالیٰ کوئی نئی بات پیدا کردے
تفسیری حواشی مولانا صلاح الدین یوسف
۔١ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب آپ کے شرف و مرتب کی وجہ سے ہے، ورنہ حکم تو امت کو دیا جا رہا ہے۔ یا آپ ہی کو بطور خاص خطاب ہے۔ اور جمع کا صیغہ بطور تعظیم کے ہے اور امت کے لیے آپ کا اسوہ ہی کافی ہے۔ طَلَّقْتُمْ کا مطلب ہے جب طلاق دینے کا پختہ ارادہ کر لو ۔
١۔٢ اس میں طلاق دینے کا طریقہ اور وقت بتلایا ہے لعدتھن میں لام توقیت کے لیے ہے۔ یعنی لاول یا لاستقبال عدتھن (عدت کے آغاز میں طلاق دو ۔ یعنی جب عورت حیض سے پاک ہو جائے تو اس سے ہم بستری کے بغیر طلاق دوحالت طہر میں اسکی عدت کا آغاز ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے حیض کی حالت میں یا طہر میں ہم بستری کرنے کے بعد طلاق دینا غلط طریقہ ہے اسکو فقہا طلاق بدعی سے اور پہلے صحیح طریقے کو طلاق سنت سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسکی تایید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں آتا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حیض کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غضبناک ہوئے اور انہیں اس سے رجوع کرنے کے ساتھ حکم دیا کہ حالت طہر میں طلاق دینا اور اسکے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت سے استدلال فرمایا۔ (صحیح بخاری) تاہم حیض میں دی گئی طلاق بھی باوجود بدعی ہونے کے واقع ہوجائے گی۔ محدثین اور جمہور علماء اسی بات کے قائل ہیں البتہ امام ابن قیم اور امام ابن تیمیہ طلاق بدعی کے وقوع کے قائل نہیں ہیں ۔
۔ ١۔٣ یعنی اس کی ابتدا اور انتہا کا خیال رکھو، تاکہ عورت اس کے بعد نکاح ثانی کر سکے، یا اگر تم ہی رجوع کرنا چاہو، (پہلی اور دوسری طلاق کی صورت میں) تو عدت کے اندر رجوع کر سکو
١۔٤ یعنی طلاق دیتے ہی عورت کو اپنے گھر سے مت نکالو، بلکہ عدت تک اسے گھر ہی میں رہنے دو اور اس وقت تک رہائش اور نان و نفقہ تمہاری ذمہ داری ہے۔
١۔٥ یعنی عدت کے دوران خود عورت بھی گھر سے باہر نکلنے سے احتراز کرے الا یہ کہ کوئی بہت ہی ضروری معاملہ ہو ۔
١۔٦ یعنی بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھے یا بد زبانی اور بد اخلاقی کا مظاہرہ کرے جس سے گھر والوں کو تکلیف ہو ۔ دونوں صورتوں میں اس کا اخراج جائز ہوگا۔
١۔٧ یعنی مرد کے دل میں مطلقہ عورت کی رغبت پیدا کردے اور وہ رجوع کرنے پر آمادہ ہو جائے جیسا کہ پہلی دوسری طلاق کے بعد خاوند کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق حاصل ہے۔
پہلی آیت میں اللہ رب العالمین عورت کی عدت کے طریقہ کی تعلیم دے رہا ہے۔ جن کو طلاق دی جاچکی ہے۔ چاہے ایک طلاق دی ہے چاہے تین طلاق دی ہے۔ اگر ایک یا دو طلاق دی ہے تو دوران عدت شوہر کو رجوع کا حق حاصل ہے۔ اگر تین ماہ دوران عدت شوہر بیوی سے رجوع نہیں کرتا تو نکاح ختم ہو گیا، قصہ ہی ختم، عورت اب دوسرے مرد سے نکاح ثانی کرسکتی ہے، اگر اسی مرد سے کرنا چاہے ، دونوں راضی ہوں تو دوبارہ نکاح کرنا ہوگا، لیکن ایک طلاق دی تھی تو دو طلاق کا اختیار ہوگا، اور اگر دو طلاقیں دی تھیں تو صرف ایک طلاق کا اختیار ہوگا،
محترم اپنے ٹائٹل سے جو مفہوم تراش کر خود کو دھوکا دیا ہے ذرا وضاحت فرمادیں ، کی وہ مفہوم اس آیت سے کیسے اخذ کیا ہے۔؟؟؟؟
دوسری آیت میں یہ تعلیم موجود ہے کہ شوہر جب طلاق کا ارادہ کرلے تو انہیں عدت کے آغاز میں طلاق دے۔ یہ آیت تو خود اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کوئی ایک طلاق دیتا ہے، یا تین طلاقیں دیتا ہے ، دونوں اس میں شامل ہیں، تعلیم یہ ہے کہ طلاق عدت کے آغاز میں دی جائے،
آپ اس آیت سے جو مفہوم نکال رہے ہیں وہ تو سرے سے باطل جہالت پر مبنی ہے۔
کیونکہ اس آیت میں عدت کے آغاز میں طلاق دینے کا ذکر ہے ، اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو حالت طہر میں بغیر ہمبستر ہوئے ایک طلاق دیتا ہے اور وہ عورت تین ماہ اپنی عدت پوری کرتی ہے تو نکاح ختم ہوجاتا ہے۔
دوسری طلاق کب دیگا۔؟؟؟؟
کونسی عدت کے آغاز میں دے گا۔؟؟؟؟؟
اس بات کو ذہن نشین فرمالیں کہ اس آیت میں اللہ تعالی نے طلاق کا احسن طریقہ بیان فرمایا ہے، لیکن آپکی عقل کو داد دیجئے قرآن کیا حکم دے رہا ہے اور جناب اس سے کیا مفہوم تراش رہے ہیں۔
میرے بھائی قرآن و حدیث کو اپنی عقل کے طابع نہ کریں کہ جو بات اور مفہوم آپ کی عقل شریف میں بیٹھ جائے وہی حرف آخر ہے۔
ذرا تعصب اور مسلک پرستی سے نکل کر قرآن و سنت کسی اچھے اور قابل مفسر قرآن کی تشریح پر سمجھنے کی کوشش کیا کریں۔
شکریہ
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
کچھ لوگ پوری احادیث اور اس کا مفہوم پیش نہیں کرتے- اور صحابہ کرام راضی اللہ کے خلاف اپنی زبان درازیاں کرتے رہتے ہیں​
اللہ ایسے لوگوں پر لعنت کرے آمین​
پوری حدیث یہ ہے​
حیض کا بیان
تیمم کے بیان میں

صحیح مسلم:جلد اول
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هَاشِمٍ الْعَبْدِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَی يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ الْقَطَّانَ عَنْ شُعْبَةَ قَالَ حَدَّثَنِي الْحَکَمُ عَنْ ذَرٍّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَجُلًا أَتَی عُمَرَ فَقَالَ إِنِّي أَجْنَبْتُ فَلَمْ أَجِدْ مَائً فَقَالَ لَا تُصَلِّ فَقَالَ عَمَّارٌ أَمَا تَذْکُرُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ أَنَا وَأَنْتَ فِي سَرِيَّةٍ فَأَجْنَبْنَا فَلَمْ نَجِدْ مَائً فَأَمَّا أَنْتَ فَلَمْ تُصَلِّ وَأَمَّا أَنَا فَتَمَعَّکْتُ فِي التُّرَابِ وَصَلَّيْتُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا کَانَ يَکْفِيکَ أَنْ تَضْرِبَ بِيَدَيْکَ الْأَرْضَ ثُمَّ تَنْفُخَ ثُمَّ تَمْسَحَ بِهِمَا وَجْهَکَ وَکَفَّيْکَ فَقَالَ عُمَرُ اتَّقِ اللَّهَ يَا عَمَّارُ قَالَ إِنْ شِئْتَ لَمْ أُحَدِّثْ بِهِ قَالَ الْحَکَمُ وَحَدَّثَنِيهِ ابْنُ
عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی عَنْ أَبِيهِ مِثْلَ حَدِيثِ ذَرٍّ قَالَ وَحَدَّثَنِي سَلَمَةُ عَنْ ذَرٍّ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ الَّذِي ذَکَرَ الْحَکَمُ فَقَالَ عُمَرُ نُوَلِّيکَ مَا تَوَلَّيْتَ
عبد اللہ بن ہاشم عبدی، یحیی ابن سعید قطان، شعبہ، حکم، ذر، سعید بن عبدالرحمن ابن ابزی سے روایت ہے کہ ایک آدمی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ میں جنبی ہوگیا اور میں نے پانی نہیں پایا آپ نے فرمایا نماز نہ پڑھ، تو حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اے امیر المومنین کیا آپ کو یاد نہیں کہ جب میں اور آپ ایک سریہ میں جنبی ہو گئے اور ہمیں پانی نہ ملا اور آپ نے نماز ادا نہ کی بہر حال میں مٹی میں لیٹا اور نماز ادا کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تیرے لئے کافی تھا کہ تو اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر مارتا پھر پھونک مارتا پھر ان دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مسح کرتا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اے عمار اللہ سے ڈر حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اگر آپ نہ چاہیں تو میں یہ حدیث نہیں بیان کروں گا حکم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت مذکور ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہم تیری روایت کا بوجھ تجھ ہی پر ڈالتے ہیں۔
اس پوری حدیث سے بھی یہی ثابت ہوتا کہ حضرت عمر نے حضرت عمار کی حدیث کو قبول نہیں کیا صرف یہی نہیں بلکہ تیمم کے بارے میں قرآن کی واضح آیت سے بھی لاعلمی کا ثبوت دیا

صحیح بخاری

کتاب التیمم​
باب: اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس ارشاد کی وضاحت کہ​
قول الله تعالى ‏ {‏ فلم تجدوا ماء فتيمموا صعيدا طيبا فامسحوا بوجوهكم وأيديكم منه‏}‏​
"پس نہ پاؤ تم پانی تو ارادہ کرو پاک مٹی کا، پس مل لو منہ اور ہاتھ اس سے"۔​
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،​
اب دیکھیں امام بخاری نے اپنی صحیح میں صحیح مسلم کی اس حدیث کو کس طرح پیش کیا ہے​
صحیح بخاری​
کتاب التیمم​
باب: اس بارے میں کہ کیا مٹی پر تیمم کے لیے ہاتھ مارنے کے بعد ہاتھوں کو پھونک کر ان کو چہرے اور دونوں ہتھیلوں پر مل لینا کافی ہے؟​
حدیث نمبر: 338​
حدثنا آدم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال حدثنا شعبة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا الحكم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ذر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن سعيد بن عبد الرحمن بن أبزى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبيه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال جاء رجل إلى عمر بن الخطاب فقال إني أجنبت فلم أصب الماء‏.‏ فقال عمار بن ياسر لعمر بن الخطاب أما تذكر أنا كنا في سفر أنا وأنت فأما أنت فلم تصل،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأما أنا فتمعكت فصليت،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فذكرت للنبي صلى الله عليه وسلم فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إنما كان يكفيك هكذا ‏"‏‏.‏ فضرب النبي صلى الله عليه وسلم بكفيه الأرض،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ونفخ فيهما ثم مسح بهما وجهه وكفيه‏.‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے حکم بن عیینہ نے بیان کیا، انھوں نے ذر بن عبداللہ سے، انھوں نے سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے، وہ اپنے باپ سے، انھوں نے بیان کیا کہ ایک شخص عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور عرض کی کہ مجھے غسل کی حاجت ہو گئی اور پانی نہیں ملا (تو میں اب کیا کروں) اس پر عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا، کیا آپ کو یاد نہیں جب میں اور آپ سفر میں تھے، ہم دونوں جنبی ہو گئے۔ آپ نے تو نماز نہیں پڑھی لیکن میں نے زمین پر لوٹ پوٹ لیا، اور نماز پڑھ لی۔ پھر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تجھے بس اتنا ہی کافی تھا اور آپ نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے پھر انہیں پھونکا اور دونوں سے چہرے اور پہنچوں کا مسح کیا۔​
کیا اب اس بددعا کے مستحق امام بخاری بھی نہیں بن گئے کہ انھوں نے بھی حق کو چھپایا ہے​
کیا اب لینے اور دینے کے باٹ الگ ہونگے​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
ہم سے مسدد نے بیان کیا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید نے، کہا کہ ہم سے عوف نے، کہا کہ ہم سے ابورجاء نے عمران کے حوالہ سے، انھوں نے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ ہم رات بھر چلتے رہے اور جب رات کا آخری حصہ آیا تو ہم نے پڑاؤ ڈالا اور مسافر کے لیے اس وقت کے پڑاؤ سے زیادہ مرغوب اور کوئی چیز نہیں ہوتی (پھر ہم اس طرح غافل ہو کر سو گئے) کہ ہمیں سورج کی گرمی کے سوا کوئی چیز بیدار نہ کر سکی۔ سب سے پہلے بیدار ہونے والا شخص فلاں تھا۔ پھر فلاں پھر فلاں۔ ابورجاء نے سب کے نام لیے لیکن عوف کو یہ نام یاد نہیں رہے۔ پھر چوتھے نمبر پر جاگنے والے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرماتے تو ہم آپ کو جگاتے نہیں تھے۔ یہاں تک کہ آپ خودبخود بیدار ہوں۔ کیونکہ ہمیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ آپ پر خواب میں کیا تازہ وحی آتی ہے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ جاگ گئے اور یہ آمدہ آفت دیکھی اور وہ ایک نڈر دل والے آدمی تھے۔ پس زور زور سے تکبیر کہنے لگے۔ اسی طرح باآواز بلند، آپ اس وقت تک تکبیر کہتے رہے جب تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آواز سے بیدار نہ ہو گئے۔ تو لوگوں نے پیش آمدہ مصیبت کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی ہرج نہیں۔ سفر شروع کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دور چلے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے اور وضو کا پانی طلب فرمایا اور وضو کیا اور اذان کہی گئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے سے فارغ ہوئے تو ایک شخص پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر پڑی جو الگ کنارے پر کھڑا ہوا تھا اور اس نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ اے فلاں! تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک ہونے سے کون سی چیز نے روکا۔ اس نے جواب دیا کہ مجھے غسل کی حاجت ہو گئی اور پانی موجود نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پاک مٹی سے کام نکال لو۔ یہی تجھ کو کافی ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر شروع کیا تو لوگوں نے پیاس کی شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے اور فلاں (یعنی عمران بن حصین رضی اللہ عنہما) کو بلایا۔ ابورجاء نے ان کا نام لیا تھا لیکن عوف کو یاد نہیں رہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی طلب فرمایا۔ ان دونوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ پانی تلاش کرو۔ یہ دونوں نکلے۔ راستہ میں ایک عورت ملی جو پانی کی دو پکھالیں اپنے اونٹ پر لٹکائے ہوئے بیچ میں سوار ہو کر جا رہی تھی۔ انھوں نے اس سے پوچھا کہ پانی کہاں ملتا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ کل اسی وقت میں پانی پر موجود تھی (یعنی پانی اتنی دور ہے کہ کل میں اسی وقت وہاں سے پانی لے کر چلی تھی آج یہاں پہنچی ہوں) اور ہمارے قبیلہ کے مرد لوگ پیچھے رہ گئے ہیں۔ انھوں نے اس سے کہا۔ اچھا ہمارے ساتھ چلو۔ اس نے پوچھا، کہاں چلوں؟ انھوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں۔ اس نے کہا، اچھا وہی جن کو لوگ صابی کہتے ہیں۔ انھوں نے کہا، یہ وہی ہیں، جسے تم کہہ رہی ہو۔ اچھا اب چلو۔ آخر یہ دونوں حضرات اس عورت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارک میں لائے۔ اور سارا واقعہ بیان کیا۔ عمران نے کہا کہ لوگوں نے اسے اونٹ سے اتار لیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن طلب فرمایا۔ اور دونوں پکھالوں یا مشکیزوں کے منہ اس برتن میں کھول دئیے۔ پھر ان کا اوپر کا منہ بند کر دیا۔ اس کے بعد نیچے کا منہ کھول دیا اور تمام لشکریوں میں منادی کر دی گئی کہ خود بھی سیر ہو کر پانی پئیں اور اپنے تمام جانوروں وغیرہ کو بھی پلا لیں۔ پس جس نے چاہا پانی پیا اور پلایا (اور سب سیر ہو گئے) آخر میں اس شخص کو بھی ایک برتن میں پانی دیا جسے غسل کی ضرورت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، لے جا اور غسل کر لے۔ وہ عورت کھڑی دیکھ رہی تھی کہ اس کے پانی سے کیا کیا کام لیے جا رہے ہیں اور خدا کی قسم! جب پانی لیا جانا ان سے بند ہوا، تو ہم دیکھ رہے تھے کہ اب مشکیزوں میں پانی پہلے سے بھی زیادہ موجود تھا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ اس کے لیے (کھانے کی چیز) جمع کرو۔ لوگوں نے اس کے لیے عمدہ قسم کی کھجور (عجوہ) آٹا اور ستو اکٹھا کیا۔ یہاں تک کہ بہت سارا کھانا اس کے لیے جمع ہو گیا۔ تو اسے لوگوں نے ایک کپڑے میں رکھا اور عورت کو اونٹ پر سوار کر کے اس کے سامنے وہ کپڑا رکھ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے کہ ہم نے تمہارے پانی میں کوئی کمی نہیں کی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں سیراب کر دیا۔ پھر وہ اپنے گھر آئی، دیر کافی ہو چکی تھی اس لیے گھر والوں نے پوچھا کہ اے فلانی! کیوں اتنی دیر ہوئی؟ اس نے کہا، ایک عجیب بات ہوئی وہ یہ کہ مجھے دو آدمی ملے اور وہ مجھے اس شخص کے پاس لے گئے جسے لوگ صابی کہتے ہیں۔ وہاں اس طرح کا واقعہ پیش آیا، خدا کی قسم! وہ تو اس کے اور اس کے درمیان سب سے بڑا جادوگر ہے اور اس نے بیچ کی انگلی اور شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر اشارہ کیا۔ اس کی مراد آسمان اور زمین سے تھی۔ یا پھر وہ واقعی اللہ کا رسول ہے۔ اس کے بعد مسلمان اس قبیلہ کے دور و نزدیک کے مشرکین پر حملے کیا کرتے تھے۔ لیکن اس گھرانے کو جس سے اس عورت کا تعلق تھا کوئی نقصان نہیں پہنچاتے تھے۔ یہ اچھا برتاؤ دیکھ کر ایک دن اس عورت نے اپنی قوم سے کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ لوگ تمہیں جان بوجھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ تو کیا تمہیں اسلام کی طرف کچھ رغبت ہے؟ قوم نے عورت کی بات مان لی اور اسلام لے آئی۔​
حضرت ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ صبا کے معنی ہیں اپنا دین چھوڑ کر دوسرے کے دین میں چلا گیا اور ابوالعالیہ نے کہا ہے کہ صابئین اہل کتاب کا ایک فرقہ ہے جو زبور پڑھتے ہیں اور سورۃ یوسف میں جو اصب کا لفظ ہے وہاں بھی اس کے معنی امل کے ہیں۔​
صحیح بخاری حدیث نمبر: 344
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
یاد رہے کہ اس حدیث میں بیان ہوا کہ حضرت عمر بھی اس سفر میں رسول اللہ کے ہمراہ تھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک جنبی شخص سے ارشاد فرمایا کہ " پاک مٹی سے کام نکال لو۔ یہی تجھ کو کافی ہے "
اس کے باوجود بھی حضرت عمار کی بیان کی ہوئی حدیث کا قبول نہ کرنا فہم سے بلا ہے​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
اب اس بات کا ثبوت کہ حضرت عمر نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی بیان کی ہوئی حدیث کو نہیں مانا تھا
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا کہ کہا ہم سے میرے والد حفص بن غیاث نے، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ میں نے شقیق بن سلمہ سے سنا، انھوں نے کہا کہ میں عبداللہ (بن مسعود) اور ابوموسیٰ اشعری کی خدمت میں تھا، ابوموسیٰ نے پوچھا کہ ابوعبدالرحمن! آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر کسی کو غسل کی حاجت ہو اور پانی نہ ملے تو وہ کیا کرے۔ عبداللہ نے فرمایا کہ اسے نماز نہ پڑھنی چاہیے۔ جب تک اسے پانی نہ مل جائے۔ ابوموسیٰ نے کہا کہ پھر عمار کی اس روایت کا کیا ہو گا جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا تھا کہ تمہیں صرف (ہاتھ اور منہ کا تیمم) کافی تھا۔ ابن مسعود نے فرمایا کہ تم عمر کو نہیں دیکھتے کہ وہ عمار کی اس بات پر مطمئن نہیں ہوئے تھے۔ پھر ابوموسیٰ نے کہا کہ اچھا عمار کی بات کو چھوڑو لیکن اس آیت کا کیا جواب دو گے (جس میں جنابت میں تیمم کرنے کی واضح اجازت موجود ہے) عبداللہ بن مسعود اس کا کوئی جواب نہ دے سکے۔ صرف یہ کہا کہ اگر ہم اس کی بھی لوگوں کو اجازت دے دیں تو ان کا حال یہ ہو جائے گا کہ اگر کسی کو پانی ٹھنڈا معلوم ہوا تو اسے چھوڑ دیا کرے گا۔ اور تیمم کر لیا کرے گا۔ (اعمش کہتے ہیں کہ) میں نے شقیق سے کہا کہ گویا عبداللہ نے اس وجہ سے یہ صورت ناپسند کی تھی۔ تو انھوں نے جواب دیا کہ ہاں۔​
صحیح بخاری حدیث نمبر: 346​
اب کیا ہوگا یہ تو امام بخاری نے بھنڈا پھوڑ دیا اب یا تو یہ مان لیا جائے کہ حضرت عمر صحیح حدیث اور قرآن کے واضح آیات کے ہوتے ہوئے اپنے قیاس کی پیروی کرتے تھے یا پھر صحیح بخاری کی ان احادیث کا انکار کرکے منکر حدیث کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیں ! آپ کیا پسند کریں گے ؟؟؟؟​
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
کچھ لوگ پوری احادیث اور اس کا مفہوم پیش نہیں کرتے- اور صحابہ کرام راضی اللہ کے خلاف اپنی زبان درازیاں کرتے رہتے ہیں​
اللہ ایسے لوگوں پر لعنت کرے آمین​
پوری حدیث یہ ہے​
حیض کا بیان
تیمم کے بیان میں

صحیح مسلم:جلد اول
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هَاشِمٍ الْعَبْدِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَی يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ الْقَطَّانَ عَنْ شُعْبَةَ قَالَ حَدَّثَنِي الْحَکَمُ عَنْ ذَرٍّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَجُلًا أَتَی عُمَرَ فَقَالَ إِنِّي أَجْنَبْتُ فَلَمْ أَجِدْ مَائً فَقَالَ لَا تُصَلِّ فَقَالَ عَمَّارٌ أَمَا تَذْکُرُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ أَنَا وَأَنْتَ فِي سَرِيَّةٍ فَأَجْنَبْنَا فَلَمْ نَجِدْ مَائً فَأَمَّا أَنْتَ فَلَمْ تُصَلِّ وَأَمَّا أَنَا فَتَمَعَّکْتُ فِي التُّرَابِ وَصَلَّيْتُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا کَانَ يَکْفِيکَ أَنْ تَضْرِبَ بِيَدَيْکَ الْأَرْضَ ثُمَّ تَنْفُخَ ثُمَّ تَمْسَحَ بِهِمَا وَجْهَکَ وَکَفَّيْکَ فَقَالَ عُمَرُ اتَّقِ اللَّهَ يَا عَمَّارُ قَالَ إِنْ شِئْتَ لَمْ أُحَدِّثْ بِهِ قَالَ الْحَکَمُ وَحَدَّثَنِيهِ ابْنُ
عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی عَنْ أَبِيهِ مِثْلَ حَدِيثِ ذَرٍّ قَالَ وَحَدَّثَنِي سَلَمَةُ عَنْ ذَرٍّ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ الَّذِي ذَکَرَ الْحَکَمُ فَقَالَ عُمَرُ نُوَلِّيکَ مَا تَوَلَّيْتَ
عبد اللہ بن ہاشم عبدی، یحیی ابن سعید قطان، شعبہ، حکم، ذر، سعید بن عبدالرحمن ابن ابزی سے روایت ہے کہ ایک آدمی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ میں جنبی ہوگیا اور میں نے پانی نہیں پایا آپ نے فرمایا نماز نہ پڑھ، تو حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اے امیر المومنین کیا آپ کو یاد نہیں کہ جب میں اور آپ ایک سریہ میں جنبی ہو گئے اور ہمیں پانی نہ ملا اور آپ نے نماز ادا نہ کی بہر حال میں مٹی میں لیٹا اور نماز ادا کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تیرے لئے کافی تھا کہ تو اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر مارتا پھر پھونک مارتا پھر ان دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مسح کرتا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اے عمار اللہ سے ڈر حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اگر آپ نہ چاہیں تو میں یہ حدیث نہیں بیان کروں گا حکم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت مذکور ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہم تیری روایت کا بوجھ تجھ ہی پر ڈالتے ہیں۔

بہرام نے حدیث کا یہ حصہ کیوں پیش نہیں کیا​
حکم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت مذکور ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہم تیری روایت کا بوجھ تجھ ہی پر ڈالتے ہیں۔

اللہ بہرام پر حق چھپانے پر کروڑ ہا لعنتیں کرے
آمین
جس بات پر کروڑ ہا لعنتیں دی جارہی ہے درجہ ذیل لنک پر موصوف ایسی امر کے خود بھی مرتکب ہوکر خود ان کروڑ ہا لعنتوں کے مستحق ہوگئے یا نہیں ؟؟؟؟؟ یا اب لینے اور دینے کے باٹ الگ ہونگے
http://forum.mohaddis.com/threads/کیا-حضرت-عمر-راضی-اللہ-نے-حضرت-عمار-راضی-اللہ-کی-حدیث-کو-قبول-نہیں-کیا.17264/
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
بہرام

میں نے وہاں آپ کی ہی پوسٹ کی ہے
اصل میں بات یہ ہے کہ جو میں نے حدیث صحیح مسلم پیش کی اس حدیث میں وہ اضافی حصہ شامل نہیں ہے بلکہ یہ اس سے اگلی حدیث میں ہے اور اس اضافی حصے کو بیان کرنے یا نہ کرنے سے ایسا کوئی فرق بھی نہیں پڑنا تھا جس پر آپ اتنے چیں باجبیں ہوگئے
 
Top