• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

متعہ اور حلالہ میں مدت طے کرنا !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
  • طلاق کے شرعی طریقے سے اعراض کا نتیجہ ہر سال 1200 افراد ''حلالہ'' کے لیے فتویٰ حاصل کر تے ہیں قومی روزنامے کی رپورٹ
  • 50 فیصد لوگ حلالہ کے قبیح عمل میں مدارس کے اساتذہ اور ائمہ کا تعاون چاہتے ہیں ' بعض مفتیوں نے اپنے اداروں میں عوام کو حلالے کی سہولت بھی فراہم کی ہوئی ہے

  • غلطی مرد سے سر زد ہو تی ہے حلالے کی صورت میں سزا عورت کو دی جاتی ہے ' اس ظلم کی نسبت اسلام سے کرنا بہت بڑی زیادتی ہے۔
  • اسلام نے نکاح و طلاق کے مہذب اور معاشرے کے لیے مفید اور بے ضرر طریقے بتا دئیے ہیں، ایک مجلس میں تین طلاقیں دنیا نہ شرعی طریقہ ہے اور نہ اسطرح طلاق واقع ہوتی ہے۔

کراچی (حدیبیہ نیوز) شریعت محمدی صلی اﷲ علیہ وسلم کا مذاق بنانے اور کھیل سمجھنے والوں کی اپنی زندگی اور اس کے معاملات مذاق اور کھیل بن کر رہ جاتے ہیں۔ روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق مصدقہ اعداد و شمار کی رو سے طلاق / خلع کے یومیہ 48 کیس شہر کی فیملی کورٹس میں دائر ہو رہے ہیں جن میں سے 90 فیصد طلاق و خلع پر منتج ہوتے ہیں عدالتی ریکارڈ کے مطابق ہر سال شہر کے 13 ہزار سے زائد جوڑوں کی ازواجی زندگی طلاق بھینٹ چڑھ جاتی ہے جبکہ ایک بڑی تعداد گھر کے اندر دی جانے والی طلاقوں کی بھی ہے جن کے معاملات بزرگوں یا پنچا ئتوں میں نمٹائے جاتے ہیں طلاقوں اور علیحدگی کی اس رپورٹ سے وابستہ امت اخبار کی ایک حالیہ رپورٹ جس میں بتایا گیا ہے کہ ''جذبات غصہ اور شکوک کی بناء پر دی گئی طلاقوں کی وجہ سے جدا ہونے والے ہزاروں جوڑوں میں 10 فی صد تعداد ایسی ہو تی ہے کہ جو کچھ عرصے بعد پچتاوے اور پشیمانی کے بعد دوبارہ رجوع کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے ''حلالہ' ' کا راستہ اختیار کرنے کا سوچتے ہیں۔ اخبار کی رپورٹ کے مطابق ہر سال طلاق دینے والے 1200 افراد ''حلالہ'' کے لیے فتویٰ حاصل کر تے ہیں ۔ 50 فی صد لوگ حلالہ کے عمل میں مدارس کے علمائ، آئمہ کا تعاون چاہتے ہیں۔بعض مفتیوں نے اپنے ادارے میں عوام کو ''حلالے '' کی سہولت بھی فراہم کی ہوتی ہے۔ حلالہ کے خواہش مندوں میں 98 فی صد مرد ہوتے ہیں۔ حلالہ کے بعد دوبارہ نکاح کرنے والوں کو دنیاوی پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا ایسا بھی ہوا کہ حلالہ کے بعد نکاح ثانی کرنے والے میں دو ماہ بعد دوبارہ طلاق ہو گئی۔ حلالہ ایک لعنتی فعل ہے ۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان کے مطابق''حلالہ'' کرنے اور کروانے والے پر اﷲ کی لعنت ہے '' (دارمی)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح حدیث کے مطابق حلالہ کرنے لعنت کا مستحق ہے۔ علماء فقہاء مروجہ اور حلالہ کو مکرہ اور قبیح قرار دیتے ہوئے اسے سراسر غلط اور گناہ کا کام قرار دیتے ہیں مگر وہ علماء نکاح ثانی کے لئے ''حلالہ'' کی شرط لگاتے ہیں اور ایسے شواہد موجود ہیں کہ ان ہی علماء فقہاء نے ''حلالہ'' کرنے کا انتظام بھی کر رکھا ہو تا ہے ''حلالہ'' کا مسئلہ در پیش ہی وہاں آتا ہے جہاں طلاق دینے کے شرعی احکامات کی خلاف ورزی کی گئی ہو شریعت دلوں اور خاندانوں کو جوڑنے اہتمام کر تی ہے جبکہ '' حلالہ'' دلوں اور خاندانوں میں دراڑیں پیدا کر تا ہے۔ یہ معاشرتی دلیل بھی اس کے غیر شرعی ہونے کی دلیل ہے اسلام نے نکاح و طلاق کے مہذب اور معاشرے کے لیے مفید اور بے ضرر طریقے بتا دئیے ہیں ایک مجلس کی تین طلاقیں دینا نہ شرعی طریقہ ہے اور نہ ہی اس طرح طلاقع واقع ہو تی ہے۔جن مکاتب فکر کے نزدیک ایک محفل میں دی گئی تین طلاقوں سے مکمل طلاق واقع ہوجاتی ہے اور میاں بیوی کے درمیان جدائی لازمی ہے اور اگر وہ دوبارہ رجوع کرنا چاہیں تو انھیں حلالہ مرحلہ سے گزرنے کا فتویٰ بھی دیتے ہیں بظاہر تو ان مکاتب فکر کے علماء حلالہ کی شرط پر کئے گئے نکاح کو غلط اور باطل قرار دیتے ہیں لیکن اگر نکاح سے شرط اور پہلے شوہر کے لیے حلال کرنے کا ارادہ نکال دیا جائے تو پھر وہ حلالہ کسے کہیں گے ۔ ''امت'' اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایسا بھی ہوا ہے کہ حلالہ کے لیے نکاح کرنے والا شخص نکاح کے بعد طلاق دینے سے انکاری ہو گیا اور اپنی منکوحہ کو وظیفہ زوجیت ادا کرنے کے لیے دبائو ڈالتا رہا ۔ کراچی کی ایک فیملی کورٹ میں ایک ایسا ہی کیس گزشتہ ایک سال سے زیر سماعت ہے جس میں ایک لڑکی نے اس دوسرے شوہر سے خلع کے لیے درخواست دے رکھی جس سے ''حلالہ'' کے طور پر دوسرے دن طلاق کی شرط پر شادی کرائی گئی تھی جبکہ اسی کورٹ میں اس دوسرے شوہر نے بھی حقوق زوجیت ادا کرنے کی اجازت نہ دینے پر لڑکی کے خلاف درخواست دائر کر رکھی ہے ایک سال سے کیس عدالت میں زیر سماعت ہے ''حلالہ'' ایک ایسی سزا ہے جو مکمل طور پر غیر شرعی غیر اسلامی ہے مگر علمائے فقہاء مرد کے جذبے اور وقتی غصہ کی سزا عورت کو دینے پر بضد ہیں۔

http://www.hudebiah.net/news_paper/2012/nov/01/News/News18.html
 

ideal_man

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
498
پوائنٹ
79
لو جی مفتی صاحب کا فتوی بھی سن لو:حلالہ کیلئےمیری خدمات حاضرھیں

استغفراللہ العظیم:اناللہ واناالیہ راجعون:::

یہ ہے غیر مقلدین کے چہرہ کا اصل رخ۔۔۔۔۔۔۔
جو قرآن و احدیث کا صرف نعرہ ہی لگاتا ہے اور دلیل افسانے، ڈرامے ، معاشرے کی جہالت کو بناتا ہے۔۔۔۔۔۔
اور قرآن و حدیث کو چھوڑ دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
ہے کوئی عبرت حاصل کرنے وال غیر مقلد

میں برابر قرآن وسنت پر اس موضوع میں بات کرنے کی دعوت دے رہا ہوں۔۔۔۔۔
اور عامر یونس صاحب برابر قرآن و سنت کو چھوڑ کر افسانوی کرداروں، ڈراموں، میڈیا کی ترتیب شدہ کہانیوں ، اور معاشرے کی جہالت کو بطور دلیل و حجت پیش کررہے ہیں۔
یہ ہے غیر مقلدیت جو نعرہ قرآن و احادیث کا لگاتا ہے، اور خود دلیل کے لئے افسانوں اور ڈراموں کی تنگ وادیوں میں بھٹک رہا ہے،
اللہ تعالی ایسی جہالت اور گمراہی سے ہر مومن کو بچائے۔
اس موضوع پر آپ کے پاس صرف ڈرامے ، افسانے ، اور غیر مقلدین کے ترتیب شدہ فسانے ہیں،
اگر یہی آپ کے کامل ایمان کی دلیل بمعنی پختگی ہے تو آپ اسی میں جئے ۔۔۔۔ اور دوسروں کو جینے دیں۔ مزید اس پر بات مناسب نہیں۔
شکریہ
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
یہ ہے غیر مقلدین کے چہرہ کا اصل رخ۔۔۔۔۔۔۔
جو قرآن و احدیث کا صرف نعرہ ہی لگاتا ہے اور دلیل افسانے، ڈرامے ، معاشرے کی جہالت کو بناتا ہے۔۔۔۔۔۔
اور قرآن و حدیث کو چھوڑ دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
ہے کوئی عبرت حاصل کرنے وال غیر مقلد

میں برابر قرآن وسنت پر اس موضوع میں بات کرنے کی دعوت دے رہا ہوں۔۔۔۔۔
اور عامر یونس صاحب برابر قرآن و سنت کو چھوڑ کر افسانوی کرداروں، ڈراموں، میڈیا کی ترتیب شدہ کہانیوں ، اور معاشرے کی جہالت کو بطور دلیل و حجت پیش کررہے ہیں۔
یہ ہے غیر مقلدیت جو نعرہ قرآن و احادیث کا لگاتا ہے، اور خود دلیل کے لئے افسانوں اور ڈراموں کی تنگ وادیوں میں بھٹک رہا ہے،
اللہ تعالی ایسی جہالت اور گمراہی سے ہر مومن کو بچائے۔
اس موضوع پر آپ کے پاس صرف ڈرامے ، افسانے ، اور غیر مقلدین کے ترتیب شدہ فسانے ہیں،
اگر یہی آپ کے کامل ایمان کی دلیل بمعنی پختگی ہے تو آپ اسی میں جئے ۔۔۔۔ اور دوسروں کو جینے دیں۔ مزید اس پر بات مناسب نہیں۔
شکریہ


میرے بھائی یہ مفتی کوئی اھل حدیث نہیں بلکے حنفی ہے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
یہ ہے غیر مقلدین کے چہرہ کا اصل رخ۔۔۔۔۔۔۔
جو قرآن و احدیث کا صرف نعرہ ہی لگاتا ہے اور دلیل افسانے، ڈرامے ، معاشرے کی جہالت کو بناتا ہے۔۔۔۔۔۔
اور قرآن و حدیث کو چھوڑ دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
ہے کوئی عبرت حاصل کرنے وال غیر مقلد

میں برابر قرآن وسنت پر اس موضوع میں بات کرنے کی دعوت دے رہا ہوں۔۔۔۔۔
اور عامر یونس صاحب برابر قرآن و سنت کو چھوڑ کر افسانوی کرداروں، ڈراموں، میڈیا کی ترتیب شدہ کہانیوں ، اور معاشرے کی جہالت کو بطور دلیل و حجت پیش کررہے ہیں۔
یہ ہے غیر مقلدیت جو نعرہ قرآن و احادیث کا لگاتا ہے، اور خود دلیل کے لئے افسانوں اور ڈراموں کی تنگ وادیوں میں بھٹک رہا ہے،
اللہ تعالی ایسی جہالت اور گمراہی سے ہر مومن کو بچائے۔
اس موضوع پر آپ کے پاس صرف ڈرامے ، افسانے ، اور غیر مقلدین کے ترتیب شدہ فسانے ہیں،
اگر یہی آپ کے کامل ایمان کی دلیل بمعنی پختگی ہے تو آپ اسی میں جئے ۔۔۔۔ اور دوسروں کو جینے دیں۔ مزید اس پر بات مناسب نہیں۔
شکریہ

بھائی کیا آپ لوگوں کا قرآن و حدیث پر عمل ہے آپ کے منھ سے یہ بات عجیب لگی کیوں آپ لوگوں کی نماز ہی کو لے لو کیا آپ لوگوں کی نماز صحیح حدیث کے مطابق ھے

اس کا جواب آپ دلیل سے دے

آئے موزوں پر آتے ہیں اس کو تعصب کی عینک اوتار کر پڑھے ان شاء اللہ آپ پر حق واضح ھو جائے گا -

حلالہ کے متعلق۱۴ جنوری۱۹۹۶ء کے جنگ اخبار میں ایک حنفی مولوی محمد صدیق ہزاروی کا مضمون شائع ہوا جس میں انہوںنے امام ابو حنیفہ کا موقف یہ لکھا ہے کہ:
''اختلاف کی صورت میں یہ ہے کہ اگر اس شرط پر نکاح کیا جائے کہ دوسرا خاوند اسے طلاق دے دے گا تو کیا یہ نکاح ہو جائے گا۔ اگرچہ یہ شرط بے کار ہو گی یا نکاح ہی نہیں ہو گا۔ اب اگر یہ نکاح صحیح قرار پائے تو طلاق کے بعد عورت کا پہلے خاوند سے نکاح جائز ہوگا اور اگر یہ نکاح صحیح قرار نہیں پاتا تو عورت پہلے خاوند کے لئے بدستور حرام رہے گی۔ سیدنا امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کے نزدیک یہ نکاح صحیح ہو گا کیونکہ فاسد شرائط سے نکاح کے انعقاد میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔''


یہ عبارت من و عن ہم نے نقل کر دی ہے ۔ اب اس کی وضاحت ملاحظہ کیجئے۔ مولوی صدیق ہزاروی نے اس عبارت میں یہ بات تسلیم کی ہے کہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک حلت (عورت کو حلال کروانے ) کی شرط پر نکاح صحیح ہو گا اور یہی بات فقہ حنفی کی معتبر کتب کنزالدقائق ص۱۲۶، مع فتح القدیر ۴/۳۴'۳۵ اور دیگر کتب فقہ میں موجود ہے۔

یہ تو آپ نے پیچھے پڑھ لیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرما ن کے مطابق حلالہ کرنے والا اور کروانے والا ملعون ہیں اور حلالہ کرنے والا اُدھار سانڈ کی مانند ہے۔ یہ احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ نکاح حلالہ صحیح نہیں بلکہ نکاح فاسد ہے۔ صاحب سبل السلام راقم ہیں:

مذکورہ حدیث حلالہ کی حرمت پر دلالت کرتی ہے۔ اس لئے کہ لعنت کا اطلاق فعل حرام کے مرتکب پر ہی ہوتا ہے اور ہر حرام چیز پر شریعت میں نہی وارد ہے اور نہی فساد کا تقاضا ہے۔''

لہٰذا جب حلالہ حرام اور منہی عنہ ہے ، اس لئے یہ نکاح فاسد قرار پاتا ہے ۔ یہی مفہوم دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نکاح حلالہ نکاح فاسد ہے ، زنا اور بدکاری ہے، نکاح صحیح نہیں ہے۔

سیرتِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے

''ایک آدمی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ایک ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں ۔پھر اس (طلاق دینے والے آدمی) کے بھائی نے اس کے مشورے کے بغیر اس سے اس لئے نکاح کر لیا تا کہ وہ اس عورت کو اپنے بھائی کے لئے حلال کر دے۔ کیا یہ پہلے کے لئے حلال ہو سکتی ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ صحیح نکاح کے بغیر یہ حلال نہیں ہو سکتی ہم اس طریقے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بدکاری (زنا ) شمار کرتے تھے۔''(مستدرک حاکم ۲۸۰۶،۲/۲۱۷ط، قدیم،۲/۱۹۹، بیہقی۷/۲۰۸، التلخیص الحبیر باب موانع النکاح۱۰۳۹،۳/۱۷۱۔ تحفہ الاحوذی۲/۱۷۵، امام حاکم نے فرمایا۔ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر ہے اور امام ذہبی نے تلخیص مستدرک میں امام حاکم کی موافقت کی ہے)۔

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

''اللہ کی قسم میرے پاس حلالہ کرنے والا اور کروانے والا لایا گیا تو میں دونوں کو سنگسار کر دوں گا۔''
(مصنف عبدالرزاق ۲/۲۶۵، سن سعید بن منصور ۲/۴۹'۵۰ بیہقی۷/۲۰۸)
فتوے سے بھی ہوتی ہے کہ ان کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے حلالے کی غرض سے نکاح کیا تھا تو انہوں نے ان دونوں کے درمیان جدائی کرا دی اور فرمایا ''یہ عورت حلالہ کے ذریعے پہلے خاوند کی طرف نہیں لوٹ سکتی بلکہ ایسے نکاح کے ذریعے لوٹ سکتی ہے جو رغبت کے ساتھ ہو اور دھوکہ دہی کے علاوہ ہو۔'' (بیہقی۷/۲۰۸،۲۰۹)

اسی طرح عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ:
''کہ حلالہ کرنے والا مرد و عورت اگرچہ بیس سال اکھٹے رہیں ، وہ زناہی کرتے رہیں گے۔'' (مغنی ابنِ قدامہ۱۰/۵۱)
مذکورہ بالا احادیث و آثار سے معلوم ہوا کہ نکاح حلالہ صحیح نہیں بلکہ نکاح فاسد ، زنا اور بدکاری ہے ۔ امام ابو حنیفہ سے منسوب یہ موقف کہ ''شرط فاسد ہے لیکن نکاح صحیح ہے اور زوجِ اوّل کے لئے حلال ہو سکتی ہے'' حدیث کے خلاف ، غلط اور باطل ہے۔ اس کے لئے کوئی بھی شرعی دلیل موجود نہیں۔ امام ابو حنیفہ کے دونوں شاگردوں کا موقف بھی امام ابو حنیفہ کے خلاف ہے۔ صاحبین کے نزدیک حلالے والی عورت پہلے خاوند کی طرف نہیں لوٹ سکتی۔

مولوی صدیق ہزاروی نے امام ابو حنیفہ کا موقف صحیح ثابت کرنے کے لئے یہ دلیل پیش کی ہے کہ:
''آیت کریمہ میں دوسرے کو مُحلّل قراردیا گیا ہے۔ اب اگر اس کے ساتھ نکاح جائز نہیں اور پھر طلاق کی صورت میں عورت پہلے خاوند کے لئے حلال قرار نہ پائے تو اس کو مُحلّل کہنے کا کوئی مقصد نہیں رہتا۔ یہ نکاح صحیح ہو گا، البتہ یہ لوگ گنہگار ہوں گے۔''
حقیقت یہ ہے کہ اندھی تقلید کی وجہ سے حنفی علماء جب حیلوں اور بہانوں کے دروازے کھولنے پر آتے ہیں تو پھر قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ کا حلیہ بگاڑتے ہوئے خوف خدا کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ قرآن مجید کی جس آیت کریمہ کی طرف مولوی صدیق ہزاروی نے یہ بات منسوب کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ میں دوسرے آدمی کو مُحلّلکہاہے۔ اگر اس پر غور کرین تو اس صورت کا زیر بحث مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں اورا پنے مضمون میں کئی مفسرین کی تفسیروں کے حوالے سے یہ بات درج کی ہے، وہ اس صورت میں قطعاً مختلف ہے ۔ قرآن مجید کی آیت میں اگر ان کے بقول بشرط تحلیل نکاح کو جائز رکھا گیا ہے تو میرے بھائیو کیا جائز کام کرنے پر لعنت مرتب ہوتی ہے اور انسان گنہگار ہوتا ہے جبکہ مولوی صاحب اقراری ہیں کہ نکاح صحیح ہے البتہ لوگ گنہگار ہوں گے۔
رہا حدیث میں اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دوسرے شخص کو مُحلّل قراردیا تو یہ اس وجہ سے نہیں کہ اس کے س غلط فعل کرنے سے وہ عوت کو پہلے خاوند کے لئے حلال کر سکتاہے بلکہ اس لئے مُحلّل کہاہے کہ اس نے عورت کو پہلے خاوند کے لئے حلال کرنے کا قصد کیا ہے اور یہی وجہ ہے اسے مُحلّل کہنے کی۔یہی معنی اوپر سیدنا عبداللہ بن عمر اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بیان کردہ احادیث میں ہے۔ اس بات کو سمجھانے کے لئے میں قرآن کریم پیش کرتا ہوں۔ غور کیجئے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''مہینے کا آگے پیچھے کرنا کفر میں زیادتی ہے۔ کافر اس وجہ سے گمراہ ہوتے ہیں ایک سال تو اس مہینہ میں لڑنا حلال کر لیتے ہیں اور ایک سال اس میں لڑنا حرام کرتے ہیں۔''(توبہ : ۳۷)
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے کفار کو (محلّون)اور(محرّمون)قرار دیا ہے تو کیا کفار کے یہ فعل کرنے سے واقعی حلت و حرمت ثابت ہو جاتی تھی یا کہ ان کے زعم باطل میں یہ حلال و حرام سمجھے جاتے تھے۔ جس طرح کفار کو حلال کرنے والے اور حرام کرنے والے کہنے سے کسی چیز کی حلت و حرمت ثابت نہیں ہوتی بلکہ کفر کا غلط مقصد و ارادہ ہی مراد ہوتا ہے، اسی طرح حلالہ کرنے والے کو مُحلّل کہہ دینے سے عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہوتی بلکہ اس بان پر اسے مُحلّل کہا کہ اس نے اسے حلال کرنے کا ارادہ قصد کیا ہے۔ یہی مفہوم ائمہ لغت اور شارحین حدیث نے بیان کیا ہے۔ النہایہ فی غریب الحدیث والاثر ص٤٣١١ پر ہے کہ :

''اس کو مُحلّل اس لئے کہا گیا کہ اس نے حلال کرنے کا قصد کیا ہے جیسا کہ سودا خریدنے والے کا ارادہ کرنے والے کو مشتری کہا جا تا ہے۔''
یہی معنی امام بغوی نے شرح السنہ۹/۱۰۱ پر لکھا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''جس شخص نے قرآن مجید کی حرام کردہ اشیاء کو حلال گردانا، وہ قرآن پر ایمان نہیں لایا۔'' (ترمذی باب فضائل قرآن)


اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی حرام کردہ اشیاء کو حلال کرنے والے کے لئے استحلّ کا لفظ استعمال کیا تو کیا اس کو مستحلّ کہہ دینے سے واقعی قرآن مجید کی حرام کردہ اشیاء حلال قرار پائیں گی۔

مندرجہ بالا توضیح سے معلوم ہوا کہ امام ابو حنیفہ کا بیان کیا گیا استدلال لفظ مُحلّل سے باطل ہے۔ حنفی حضرات نے حلالہ کو جائز رکھنے کے لئے طرح طرح کے حیلے اور بہانے بنا رکھے ہیں۔ ملاحظہ کیجئے فقہ حنفی کی کتاب کبیر اور الکفایہ میں ہے:

''تین طلاقوں کے بعد جب حلالہ کے لئے عورت کا نکاح کسی دوسرے مرد سے کر دیا جائے اور عورت کو یہ ڈر ہو کہ دوسرا خاوند اسے طلاق نہیں دے گا تو اس کا حیلہ یہ ہے کہ عورت کہے میں نے اپنے آپ کو تیرے نکاح میں اس شرط پر دیا کہ طلاق کا معاملہ میرے ہاتھ میں ہو گا، جب بھی میں چاہوں گی تو مدر اس بات کو قبول کر لے تو جائز ہے اور معاملہ عورت کے ہاتھ میں ہوگا۔''

مذکورہ بالا فقہی نکتہ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ حنفی حضرات کے ہاں جو مروجہ حلالہ ہے اسے یہ بالکل جائز سمجھتے ہیں اور اس بدکاری کو جاری رکھنے کے لئے طرح طرح کی تاویلیں ان کے ہاں فقہ حنفیہ میں موجود ہیں۔ حنفی حضرات کے ہاں تو حلالہ اگر اس غرض سے کیا جائے کہ حلالہ کرنے والا یہ قصد کر لے کہ یہ عورت میرے پہلے بھائی کے لئے حلال ہو جائے تو اس کی اس نیت پر اسے اجر ملے گا۔ ملاحظہ کیجئے فتح القدیر شرح ہدایہ۴/۳۴، البحر الرائق شرح کنز الدقائق۴/۵۸، فتاویٰ شامی۲/۵۴۰، چلپی حاشیہ شرح وقایہ۲/۵۴۰ اردو دان حضرات ملاحظہ کریں نور الہدایہ ترجمہ شرح وقایہ۲/۴۹ اور تقریری ترمذی اردو محمد تقی عثمانی۳/۳۹۹۔

بھائی میں نے آپ کی کتاب سے حوالہ دے دیا :
اللہ سبحانہ وتعالیٰ آپ کو حق سمجھنے کی توفیق دے - آمین
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

محترم جب آپکو کسی بات کا علم نہیں اور یہ آپکا سبجیکٹ بھی نہیں تو پھر اس میں بلاجواز بحث کرنے سے کیا حاصل، فرقہ ورایت کو ہوا دینا اور پھر درمیان سے خود غائب ہو جانا۔

★طلاق (قرآن اورحدیث کی روشنی میں) اور ہمارے مولویوں کےحلالہ کی حقیقت
3 طلاق کاصحیح طریقہ اورامت میں احتلاف کیوں ہے؟​
دیکھیۓ اور Share کریں
یہ دونوں لیکچر آپ نے پیش کئے ہیں اپنے دفاع میں اگر آپکی نظر میں یہ دونوں اہلحدیث ہیں تو ان دونوں کی ذاتی تحقیق میں اتنا فرق کیوں؟​
آپکی اس دھاگہ میں ساری کوشش حلالہ پر تین طلاق ہونے کے بعد میاں بیوی جدا، اور دوسرا لیکچر میں 2 مرتبہ 3 طلاق ہونے کے بعد بغیر کسی ٹینشن لئے نکاح اور پھر تیسری مرتبہ 3 طلاق ہونے کے بعد جدا۔ ہو سکے تو یہ بھی بتا دیں کہ آپ کونسے والے اہلحدیث ہیں اور آپکا کونسی طلاق سے اتفاق ھے۔​
جہاں گفتگو کا مٖقصد فرقہ ورایت ہو وہاں ایسا ہی ہوتا ھے۔​
والسلام​
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم

محترم جب آپکو کسی بات کا علم نہیں اور یہ آپکا سبجیکٹ بھی نہیں تو پھر اس میں بلاجواز بحث کرنے سے کیا حاصل، فرقہ ورایت کو ہوا دینا اور پھر درمیان سے خود غائب ہو جانا۔

یہ دونوں لیکچر آپ نے پیش کئے ہیں اپنے دفاع میں اگر آپکی نظر میں یہ دونوں اہلحدیث ہیں تو ان دونوں کی ذاتی تحقیق میں اتنا فرق کیوں؟​
آپکی اس دھاگہ میں ساری کوشش حلالہ پر تین طلاق ہونے کے بعد میاں بیوی جدا، اور دوسرا لیکچر میں 2 مرتبہ 3 طلاق ہونے کے بعد بغیر کسی ٹینشن لئے نکاح اور پھر تیسری مرتبہ 3 طلاق ہونے کے بعد جدا۔ ہو سکے تو یہ بھی بتا دیں کہ آپ کونسے والے اہلحدیث ہیں اور آپکا کونسی طلاق سے اتفاق ھے۔​
جہاں گفتگو کا مٖقصد فرقہ ورایت ہو وہاں ایسا ہی ہوتا ھے۔​
والسلام​

بھائی دونوں ویڈیو میں کوئی اختلاف نہیں
اور میں کہی غائب نہیں ھوا بلکہ پوری پوسٹ میں موجود ھو۔

طلاق کا سنت طریقہ کیا ہے وہ یہ ھے

اسلام کے طریقہ طلاق میں مسلم مرد کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ تین طلاقیں تین مرتبہ اس طریقے سے دے کہ حالتِ طہر جس میں اس نے مجامعت نہیں کی، میں ایک طلاق دے اور بیوی کو اسی حالت میں چھوڑ دے اور یہاں تک کہ عدت پوری ہو جائے۔ اگر خاوند دورانِ عدت اسے رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے لیکن اگر وہ رجوع نہ کرے اور عدت ختم ہو جائے تو پھر وہ نئے نکاح کے ساتھ اس کو واپس لا سکتا ہے اور اگر شوہر ضرورت نہ سمجھے تو عورت کسی اور مرد کے ساتھ نکاح کرنے کی مجاز ہے اور اگر پہلی طلاق کے بعد شوہر نے اسے دوبارہ اپنی زوجیت میں لے لیا اور پھر دونوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو گئے اور صلح صفائی کی کوئی صورت پیدا نہ ہوئی تو وہ بعد عدت کے اندر شوہر کو رجوع کا حق ہے اور عدت گزر جانے کے بعد اگر رکھنا چاہے تو تجدید نکاح ہو گا۔ لیکن اگر تیسری طلاق بھی دے دی تو پھر یہ عورت قطعی طور پر اس خاوند کے لئے حرام ہو جائے گی۔ اب رجوع کا حق ختم ہے۔ عورت عدت گزار کر کسی اور مرد سے نکاح کر سکتی ہے اور یہ نکاح صحیح شرعی طریقے کے مطابق مستقل بسنے کی نیت سے ہو گا نہ کہ شوہر اوّل کے لئے حلال ہونے کی غرض سے۔۔۔اب اگر اس کا یہ خاوند بھی فوت ہو گیا یا اس نے گھریلو ناچاقی کی بنا پر اسے طلاق دے دی تو یہ عورت اگر دوبارہ شوہر اوّل کی طرف لوٹنا چاہے تو عدت کے بعد اس کے ساتھ نکاح کر سکتی ہے اور ایسا واقعہ ہزاروں میں سے شاید کوئی ایک آدھ ہوا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس طریقہ کا ذکر سورة البقرة میں فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''طلاق (جس کے بعد خاوند رجوع کر سکتا ہے) دوبار ہے۔ پھر دو طلاقوں کے بعد یا تو دستور کے موافق اپنی بیوی کو رہنے دے یا اچھی طرح سے رخصت کر دے۔''
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھااور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کی روایات کے بموجب ابتداء ہجرت میں جاہلی دستور کے مطابق مرد عورتوں کو کئی کئی بار طلاق دیتے اور عدت کے اندر رجوع کرتے رہتے تھے۔ مقصد بیوی کو تنگ کرنا ہوتا تھااس صورتحال کو روکنے کے لئے یہ آیت نازل ہوئی کہ رجعی طلاق (جس میں رجوع کی گنجائش ہو) زیادہ سے زیادہ دو مرتبہ ہے۔ اس کے بعد (امساک بمعروف)یعنی یا تو عدت کے اندر رجوع کرنا ہے اور یا (تسریح یا حسان)یعنی حسن سلوک کے ساتھ تیسری طلاق دینا ہے۔ یہ تفسیر مرفوعاً مروی ہے اور ابنِ جریر نے اسی کو ترجیح دی ہے اور بعض نے تو (او تسریح یا حسان)سے مراد لی ہے کہ دو طلاق کے بعد رجوع نہ کرے حتیٰ کہ عدت گزارنے کے بعد وہ عورت کو بخود اس سے الگ ہو جائے۔ (ابنِ جریر ، ابنِ کثیر)

سائل مذکور لکھتا ہے کہ:
''یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب پہلی طلاق کے بعد تین حیض کی مدت ختم ہو جائے گی تو اب عورت آزاد ہو گی۔ وہ جہاں چاہے نکاح کر سکتی ہے۔ مرد کو رجوع کا حق اب ختم ہو گیا۔ ہاں البتہ دونوں عدت کے ختم ہونے کے بعد نئے سرے سے پھر ملنا چاہیں تو نیانکاح کر کے مل سکتے ہیں لیکن اب دونوں فریقوں کی رضامندی ضروری ہے۔ صرف خاوند کی رضا مندی سے نیا نکاح نہ ہو سکے گا۔''

اوپر والے پیراگراف کے حق میں آپ نے دلیل کے طور پر نہ کوئی قرآن کی آیت لکھی ہے اور نہ ہی کوئی حدیث مبارکہ اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور کا کوئی واقعہ درج کیا ہے؟

جواب: اس سوال کا جواب قرآن مجید میں سورة البقرة کے اندر موجود ہے۔ ملاحظہ کیجئے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

''اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو، پھر ان کی عدت پوری ہو جائے تو ان کو (اگلے) خاوندوں کے ساتھ نکاح کرنے سے مت روکو۔ اگر دستور کے موافق آپس میں رضا مندی ہو جائے۔''(البقرۃ ۲۹۹)
اس آیت کریمہ سے یہ بات عیاں ہو گئی کہ طلاق رجعی جو دو مرتبہ ہے، اس پیریڈ میں اگر عورت کی عدت مکمل ہو چکی ہو اور وہ مرد و عورت دوبارہ آپس میں رضا مندی کے ساتھ بسنا چاہیں تو انہیں نکاح کرنے سے منع نہیں کرنا چاہیے۔ اب اس آیت کریمہ کا شان نزول بھی ملاحظہ فرما لیں تا کہ آپ کی مزید تشفی ہو جائے:

''سیدنا حسن بصری سے مروی ہے کہ معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے اپنی بہن کا نکاح ایک آدمی کے ساتھ کیا ۔ اس نے اسے ایک طلاق دے دی (عدت گزر گئی) تو معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی بہن اس سے علیحدہ ہو گئی۔ پھر وہ پیغام نکاح لے کر آیا تو معقل نے انکار کیا اور کہا میں نے اپنی معزز بہن کا نکاح تجھے دیا تھا۔ تو نے اسے طلاق دے دی اب تو پھر پیغام نکاح لے کر آ گیا ہے۔ اللہ کی قسم اب میں تجھے نکاح کر کے نہیں دوں گا اور معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی بہن لوٹنا چاہتی تھی تو اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ کی یہ آیت اتار دی: ''جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو ان کو اپنے (پہلے ) خاوندوں کے ساتھ نکاح کرنے سے مت روکو۔'' اس کے بعد معقل رضی اللہ عنہ نے کہا، ہا ں تجھے نکاح کر دیتا ہوں۔'' (بخاری۵۱۳۱، بیھقی ۱۳۸/۷، المعجم الکبیر للطبرانی۴۶۷/۲۰،الجزء الثالث والعشرین من حدیث ابی الطاسر القاضی محمد بن احمد الزسلی ص۲۹، رقم الحدیث۶۵واللفظ لہ)

مذکورہ بالا حدیث صحیح کے واقعہ سے معلوم ہوا کہ جب عورت کو اس کا شوہر ایک طلاق دے دیتا ہے اور خاوند عدت کے اندررجوع نہیں کرتا تو اختتام عدت کے بعد اگر وہ مرد اور عورت باہم رضامندی سے رہنا چاہتے ہوں تو تجدید نکاح سے دوبارہ اپنا گھر آباد کر سکتے ہیں۔ اسی طرح دوسری مرتبہ کبھی زندگی میں تعلقات کی کشیدگی ہو گئی اور مرد نے اپنی منکوحہ کو طلاق دے دی تو پھر اسی طرح عدت کے اندر رجوع کا حق ہے اور اختتام عدت کے بعد نئے نکاح سے جمع ہو سکرتفگطبتے ہیں۔ یہ دو حق رجعی اللہ تعالیٰ نے (الطّلاق مرّتٰن)میں ذکر کئے ہیں پھر (فان طللّقھا فلا تجل لہ من بعد حتیٰ تنکح زوجا غیرہ)میں تیسری مرتبہ طلاق کے بعد یہ حق ختم کر دیا گیا ہے۔ مفسرین نے اس سے اس بات کی توضیح کی کہ اکھٹی تین طلاقیں دینے سے تینوں واقعی نہیں ہوتیں بلکہ ایک طلاق رجعی واقع ہوتی ہے۔ حنفی حضرات جو اکھٹی تین طلاقوں کو تین ہی نافذ کرتے ہیں اور پھر اگلی صورت میں جو حلالہ والی بتاتے ہیں ، یہ قابل غور ہے اور مطلوب ہے۔

تین طلاقوں کے بعد۔۔۔۔
قرآن مجید نے تین طلاقیں (وقفہ بعد وقدہ)واقع ہونے کے بعد جو بتایا ہے کہ اب وہ عورت کسی دوسرے مرد سے جب تک نکاح نہ کر لے ، وہ پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہوتی۔ اس کی تفسیر تمام مفسرین نے یہی لکھا ہے کہ جس طرح پہلے خاوند کے ساتھ مقصد نکاح کو مد نظر رکھتے ہوئے مستقل بسنے اور گھر کی آبادی کی نیت سے نکاح کیا تھا، اسی طرح دوسرے مرد سے بھی مستقل بسنے کی نیت سے نکاح ہو نہ کہ نکاح سے پہلے ہی یہ طے کر لیا جائے کہ ایک دو راتوں بعد اس خاوند نے مجھے طلاق دے دینی ہے۔

ہاں پھر وہ بھی اگر اپنی مرضی سے طلاق دے دے یا فوت ہو جائے تو وہ عورت اپنے پہلے خاوند کے ساتھ نکاح کرنا چاہتی ہو تو کر سکتی ہے۔ اس صورت کو حلالہ نہیں کہا جاسکتا۔ یہ اسی طرح نکاح صحیح کہلائے گا جس طرح پہلے خاوند کے ساتھ نکاح تھا۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
بھائی دونوں ویڈیو میں کوئی اختلاف نہیں
1
طلاق1 + طلاق2 + طلاق3 = علیحدگی

2
طلاق1 + طلاق2 + طلاق3 = نیا نکاح
طلاق1 + طلاق2 + طلاق3 = نیا نکاح
طلاق1 + طلاق2 + طلاق3 = علیحدگی
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
حضرت عمر ہرگز قرآن و سنت کے خلاف نہیں جاسکتے تھے


آپ کے اس فرمان سے میں صحیح مسلم کی حدیث کی دلیل کی بناء پر متفق نہیں

أن رجلًا أتى عمرَ فقال : إني أَجْنَبْتُ فلم أَجِدْ ماءً ؟ فقال : لا تُصَلِّ . فقال عمارٌ : أَمَا تَذْكُرُ يا أميرَ المؤمنين ! إذ أنا وأنت في سَرِيَّةٍ فأَجْنَبْنَا . فلم نَجِدْ ماءً ، فأما أنت فلم تُصَلِّ ، وأما أنا فتَمَعْكْتُ في الترابِ وصَلَّيْتُ ، فقال النبيُّ صلى الله عليه وسلم : إنما كان يَكْفِيكَ أن تَضْرِبَ بيديك الأرضَ ، ثم تَنْفُخَ، ثم تَمْسَحَ بهما وجهَك وكفيَّك . فقال عمرُ : اتقِ اللهَ يا عمارُ ! قال : إن شِئْتَ لم أُحَدِّثْ به . قال الحكمُ : وحدِّثَنيه ابنُ عبدِالرحمن بنُ أَبْزَي عن أبيه ، مثلَ حديثِ ذَرٍّ . قال : وحدَّثَني سَلَمَةُ عن ذَرٍّ في هذا الإسنادِ الذي ذَكَرَ الحَكَمُ . فقال عمرُ : نُولِّيك ما تُولَّيْتَ . وفي روايةٍ : أن رجلًا أتى عمرَ فقال : إني أَجْنَبْتُ فلم أَجِدْ ماءً . وساقَ الحديثَ . وزاد فيه : قال عمارٌ : يا أميرَ المؤمنين ، إن شِئْتَ ، لِمَا جَعَلَ اللهُ عليَّ من حقِّك ، لا أُحُدِّثُ به أحدًا.
الراوي: عبدالرحمن بن أبزى المحدث:مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 368
خلاصة حكم المحدث: صحيح

ابزی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا ! میں جنبی ہوگیا ہوں( یعنی مجھے غسل کی حاجت ہے ) اور پانی نہیں مل سکا حضرت عمر نے فرمایا ! نماز مت پڑھ حضرت عمار کہنے لگے اے امیر المومینن ! کیا آپ کو یاد نہیں جب میں اور آپ ایک سریہ میں تھے دونوں جنبی ہوگئے تھے اور ہمیں پانی نہیں ملا آپ نے نماز نہیں پڑھی اور میں زمین پر لوٹ پوٹ ہوگیا اور نماز پڑھ لی ( جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پہنچا اور واقعہ عرض کیا ) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ! تمہارے لئے اتنا کافی تھا کہ تم دونوں ہاتھ زمین پر مارتے پھر پھونک مار کر گرد اڑاتے پھر ان کو اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مسح کرتے حضرت عمر نے کہا ! اے عمار اللہ سے ڈرو حضرت عمار نے کہا آپ فرماتے ہیں تو میں کسی اور سے یہ حدیث بیان نہ کروں گا
تیمم کے بارے میں واضح قرآنی آیات اور حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی بیان کی گئی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس کھلی خلاف ورزی کو آپ کیا نام دیں گے ؟؟؟؟
 
Top