محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
- طلاق کے شرعی طریقے سے اعراض کا نتیجہ ہر سال 1200 افراد ''حلالہ'' کے لیے فتویٰ حاصل کر تے ہیں قومی روزنامے کی رپورٹ
- 50 فیصد لوگ حلالہ کے قبیح عمل میں مدارس کے اساتذہ اور ائمہ کا تعاون چاہتے ہیں ' بعض مفتیوں نے اپنے اداروں میں عوام کو حلالے کی سہولت بھی فراہم کی ہوئی ہے
- غلطی مرد سے سر زد ہو تی ہے حلالے کی صورت میں سزا عورت کو دی جاتی ہے ' اس ظلم کی نسبت اسلام سے کرنا بہت بڑی زیادتی ہے۔
- اسلام نے نکاح و طلاق کے مہذب اور معاشرے کے لیے مفید اور بے ضرر طریقے بتا دئیے ہیں، ایک مجلس میں تین طلاقیں دنیا نہ شرعی طریقہ ہے اور نہ اسطرح طلاق واقع ہوتی ہے۔
کراچی (حدیبیہ نیوز) شریعت محمدی صلی اﷲ علیہ وسلم کا مذاق بنانے اور کھیل سمجھنے والوں کی اپنی زندگی اور اس کے معاملات مذاق اور کھیل بن کر رہ جاتے ہیں۔ روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق مصدقہ اعداد و شمار کی رو سے طلاق / خلع کے یومیہ 48 کیس شہر کی فیملی کورٹس میں دائر ہو رہے ہیں جن میں سے 90 فیصد طلاق و خلع پر منتج ہوتے ہیں عدالتی ریکارڈ کے مطابق ہر سال شہر کے 13 ہزار سے زائد جوڑوں کی ازواجی زندگی طلاق بھینٹ چڑھ جاتی ہے جبکہ ایک بڑی تعداد گھر کے اندر دی جانے والی طلاقوں کی بھی ہے جن کے معاملات بزرگوں یا پنچا ئتوں میں نمٹائے جاتے ہیں طلاقوں اور علیحدگی کی اس رپورٹ سے وابستہ امت اخبار کی ایک حالیہ رپورٹ جس میں بتایا گیا ہے کہ ''جذبات غصہ اور شکوک کی بناء پر دی گئی طلاقوں کی وجہ سے جدا ہونے والے ہزاروں جوڑوں میں 10 فی صد تعداد ایسی ہو تی ہے کہ جو کچھ عرصے بعد پچتاوے اور پشیمانی کے بعد دوبارہ رجوع کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے ''حلالہ' ' کا راستہ اختیار کرنے کا سوچتے ہیں۔ اخبار کی رپورٹ کے مطابق ہر سال طلاق دینے والے 1200 افراد ''حلالہ'' کے لیے فتویٰ حاصل کر تے ہیں ۔ 50 فی صد لوگ حلالہ کے عمل میں مدارس کے علمائ، آئمہ کا تعاون چاہتے ہیں۔بعض مفتیوں نے اپنے ادارے میں عوام کو ''حلالے '' کی سہولت بھی فراہم کی ہوتی ہے۔ حلالہ کے خواہش مندوں میں 98 فی صد مرد ہوتے ہیں۔ حلالہ کے بعد دوبارہ نکاح کرنے والوں کو دنیاوی پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا ایسا بھی ہوا کہ حلالہ کے بعد نکاح ثانی کرنے والے میں دو ماہ بعد دوبارہ طلاق ہو گئی۔ حلالہ ایک لعنتی فعل ہے ۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان کے مطابق''حلالہ'' کرنے اور کروانے والے پر اﷲ کی لعنت ہے '' (دارمی)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح حدیث کے مطابق حلالہ کرنے لعنت کا مستحق ہے۔ علماء فقہاء مروجہ اور حلالہ کو مکرہ اور قبیح قرار دیتے ہوئے اسے سراسر غلط اور گناہ کا کام قرار دیتے ہیں مگر وہ علماء نکاح ثانی کے لئے ''حلالہ'' کی شرط لگاتے ہیں اور ایسے شواہد موجود ہیں کہ ان ہی علماء فقہاء نے ''حلالہ'' کرنے کا انتظام بھی کر رکھا ہو تا ہے ''حلالہ'' کا مسئلہ در پیش ہی وہاں آتا ہے جہاں طلاق دینے کے شرعی احکامات کی خلاف ورزی کی گئی ہو شریعت دلوں اور خاندانوں کو جوڑنے اہتمام کر تی ہے جبکہ '' حلالہ'' دلوں اور خاندانوں میں دراڑیں پیدا کر تا ہے۔ یہ معاشرتی دلیل بھی اس کے غیر شرعی ہونے کی دلیل ہے اسلام نے نکاح و طلاق کے مہذب اور معاشرے کے لیے مفید اور بے ضرر طریقے بتا دئیے ہیں ایک مجلس کی تین طلاقیں دینا نہ شرعی طریقہ ہے اور نہ ہی اس طرح طلاقع واقع ہو تی ہے۔جن مکاتب فکر کے نزدیک ایک محفل میں دی گئی تین طلاقوں سے مکمل طلاق واقع ہوجاتی ہے اور میاں بیوی کے درمیان جدائی لازمی ہے اور اگر وہ دوبارہ رجوع کرنا چاہیں تو انھیں حلالہ مرحلہ سے گزرنے کا فتویٰ بھی دیتے ہیں بظاہر تو ان مکاتب فکر کے علماء حلالہ کی شرط پر کئے گئے نکاح کو غلط اور باطل قرار دیتے ہیں لیکن اگر نکاح سے شرط اور پہلے شوہر کے لیے حلال کرنے کا ارادہ نکال دیا جائے تو پھر وہ حلالہ کسے کہیں گے ۔ ''امت'' اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایسا بھی ہوا ہے کہ حلالہ کے لیے نکاح کرنے والا شخص نکاح کے بعد طلاق دینے سے انکاری ہو گیا اور اپنی منکوحہ کو وظیفہ زوجیت ادا کرنے کے لیے دبائو ڈالتا رہا ۔ کراچی کی ایک فیملی کورٹ میں ایک ایسا ہی کیس گزشتہ ایک سال سے زیر سماعت ہے جس میں ایک لڑکی نے اس دوسرے شوہر سے خلع کے لیے درخواست دے رکھی جس سے ''حلالہ'' کے طور پر دوسرے دن طلاق کی شرط پر شادی کرائی گئی تھی جبکہ اسی کورٹ میں اس دوسرے شوہر نے بھی حقوق زوجیت ادا کرنے کی اجازت نہ دینے پر لڑکی کے خلاف درخواست دائر کر رکھی ہے ایک سال سے کیس عدالت میں زیر سماعت ہے ''حلالہ'' ایک ایسی سزا ہے جو مکمل طور پر غیر شرعی غیر اسلامی ہے مگر علمائے فقہاء مرد کے جذبے اور وقتی غصہ کی سزا عورت کو دینے پر بضد ہیں۔
http://www.hudebiah.net/news_paper/2012/nov/01/News/News18.html