محمد فیض الابرار
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2012
- پیغامات
- 3,039
- ری ایکشن اسکور
- 1,234
- پوائنٹ
- 402
علمائے دیوبند کا مقام
---------------------
حالیہ پوسٹوں پر حنفی دوست کا سوال ہے کہ دین صرف اہل حدیثوں کے پاس ہی ہے یا حنفیوں کی بھی کوئی حیثیت ہے؟ جواب: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ملک حنفیوں کا ملک ہے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ برصغیر پاک وہند میں جتنی دینی اور ملی خدمات علمائے دیوبند کی ہیں، اتنی کسی اور مسلک کی نہیں ہیں۔
میری نظر میں بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث، تینوں حنفیت سے ہی نکلے ہیں۔ شیخ نذیر حسین دہلوی، مولانا احمد رضا خان بریلوی اور مولانا محمود الحسن دیوبندی رحمہم اللہ حنفیوں میں سوچ کے تین انداز تھے جو آگے بڑھ کر تین مسلکوں کی صورت اختیار کر گئے۔ اور ان تین مسالک میں بریلویوں کی حیثت تو ہجوم کی سی رہی اور اہل حدیث اقلیت میں رہے جبکہ دیوبندی ایک دینی قوت اور طاقت بن کر سامنے آئے۔
میں صرف یہ نہیں کہتا کہ دیوبند کے پاس شیخ الہند جیسے استاذ، حکیم الامت جیسے مربی، حضرت مدنی جیسے مجاہد، علامہ کاشمیری جیسے محدث، مولانا الیاس جیسے مبلغ اور مفتی شفیع رحمہم اللہ جیسے فقیہ موجود ہیں بلکہ ہمارے ملک کی اکثر وبیشتر دینی اور اسلامی تحریکیں بھی تحریک دیوبند ہی کی ایکسٹینشن ہیں جیسا کہ تبلیغی جماعت، جماعت اسلامی، تنظیم اسلامی وغیرہ
پھر اس ملک میں فتنوں کے خلاف جو کردار دیوبند کے حلقے کو حاصل رہا ہے، وہ کسی اور حاصل نہیں ہے۔ ختم نبوت کے لیے سب سے زیادہ کام اسی حلقے نے کیا ہے۔ اسی طرح انکار حدیث کے فتنے کے خلاف اہل حدیث کیا بند باندھنے میں کامیاب ہو سکتے تھے، اگر انہیں دیوبند کی سپورٹ حاصل نہ ہوتی؟ دیوبند کو آپ نکال دیں، تو اس ملک میں مسلمانوں کی حیثیت ایک اقلیت سے زیادہ نہیں رہ جائے گی۔
ہاں البتہ بطور شرارت اتنی بات کہی جا سکتی ہے کہ حنفیوں میں سے جو پڑھ لکھ گئے، وہ دیوبندی کہلائے اور جو زیادہ پڑھ لکھ گئے، وہ اہل حدیث بن گئے۔ تو اہل حدیث، حنفیوں سے اختلاف ضرور کریں لیکن مخالفت نہ کریں۔ باپ سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس کے باپ ہونے کا انکار نہیں۔ برصغیر میں حنفیت، تینوں مسالک کے لیے باپ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور اگر کوئی بھی اس کا انکار کرے گا تو اسے اپنا شجرہ مکمل کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اور شجرہ سے مراد علمی شجرہ ہے کہ جسے علمی سند کہتے ہیں۔
از قلم حافظ زبیر تیمی
---------------------
حالیہ پوسٹوں پر حنفی دوست کا سوال ہے کہ دین صرف اہل حدیثوں کے پاس ہی ہے یا حنفیوں کی بھی کوئی حیثیت ہے؟ جواب: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ملک حنفیوں کا ملک ہے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ برصغیر پاک وہند میں جتنی دینی اور ملی خدمات علمائے دیوبند کی ہیں، اتنی کسی اور مسلک کی نہیں ہیں۔
میری نظر میں بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث، تینوں حنفیت سے ہی نکلے ہیں۔ شیخ نذیر حسین دہلوی، مولانا احمد رضا خان بریلوی اور مولانا محمود الحسن دیوبندی رحمہم اللہ حنفیوں میں سوچ کے تین انداز تھے جو آگے بڑھ کر تین مسلکوں کی صورت اختیار کر گئے۔ اور ان تین مسالک میں بریلویوں کی حیثت تو ہجوم کی سی رہی اور اہل حدیث اقلیت میں رہے جبکہ دیوبندی ایک دینی قوت اور طاقت بن کر سامنے آئے۔
میں صرف یہ نہیں کہتا کہ دیوبند کے پاس شیخ الہند جیسے استاذ، حکیم الامت جیسے مربی، حضرت مدنی جیسے مجاہد، علامہ کاشمیری جیسے محدث، مولانا الیاس جیسے مبلغ اور مفتی شفیع رحمہم اللہ جیسے فقیہ موجود ہیں بلکہ ہمارے ملک کی اکثر وبیشتر دینی اور اسلامی تحریکیں بھی تحریک دیوبند ہی کی ایکسٹینشن ہیں جیسا کہ تبلیغی جماعت، جماعت اسلامی، تنظیم اسلامی وغیرہ
پھر اس ملک میں فتنوں کے خلاف جو کردار دیوبند کے حلقے کو حاصل رہا ہے، وہ کسی اور حاصل نہیں ہے۔ ختم نبوت کے لیے سب سے زیادہ کام اسی حلقے نے کیا ہے۔ اسی طرح انکار حدیث کے فتنے کے خلاف اہل حدیث کیا بند باندھنے میں کامیاب ہو سکتے تھے، اگر انہیں دیوبند کی سپورٹ حاصل نہ ہوتی؟ دیوبند کو آپ نکال دیں، تو اس ملک میں مسلمانوں کی حیثیت ایک اقلیت سے زیادہ نہیں رہ جائے گی۔
ہاں البتہ بطور شرارت اتنی بات کہی جا سکتی ہے کہ حنفیوں میں سے جو پڑھ لکھ گئے، وہ دیوبندی کہلائے اور جو زیادہ پڑھ لکھ گئے، وہ اہل حدیث بن گئے۔ تو اہل حدیث، حنفیوں سے اختلاف ضرور کریں لیکن مخالفت نہ کریں۔ باپ سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس کے باپ ہونے کا انکار نہیں۔ برصغیر میں حنفیت، تینوں مسالک کے لیے باپ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور اگر کوئی بھی اس کا انکار کرے گا تو اسے اپنا شجرہ مکمل کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اور شجرہ سے مراد علمی شجرہ ہے کہ جسے علمی سند کہتے ہیں۔
از قلم حافظ زبیر تیمی
Last edited by a moderator: