حافظ زبیر صاحب نے فیس بک پر یہ جواب دیا ہے جو کاپی کر رہا ہوں
کیا اہل الحدیث، حنفیہ سے نکلے ہیں؟
------------------------------------
علمائے دیوبند کے بارے میں ہماری ایک سابقہ تعریفی پوسٹ پر بہت سے اہل حدیث علماء نے سوشل میڈیا پر بہت سے گروپس میں شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ آپ کی یہ بات بالکل لغو اور بے کار ہے کہ اہل الحدیث، حنفیہ سے نکلے ہیں۔ یہ بات تاریخی طور ثابت نہیں ہے۔ بعض نے اس بات کو اہل حدیث کے لیے گالی قرار دیا۔ بعض نے کہ جنہیں علماء بھی کہا جا رہا تھا، کہا کہ حافظ زبیر مرتد ہو گیا ہے کہ جو اہل حدیثیت سے نکل جائے، وہ ہمارے نزدیک مرتد ہو جاتا ہے۔
قزاق، اسراری غنڈہ اور بہت کچھ کہا گیا۔ بد دعائیں کی گئیں کہ اس کے ہاتھ پاوں شل ہو جائیں۔ اور شاید میرے اہل حدیث نہ ہونے کے بارے جلد ہی ایک کتاب بھی مارکیٹ میں آ جائے۔ اور یہ اعزاز میرے لیے نیا نہیں ہے، مجھے پہلی مرتبہ مقامی اہل حدیثوں نے غالبا 98ء میں حنفیوں کی مسجد میں نماز پڑھنے کے سبب سے بدعتی قرار دیا تھا۔ اور اس جیسے القابات مجھے دیوبندیوں سے بھی حاصل ہوتے رہے ہیں۔ میں ان سب کے بارے یہی سمجھتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں مجھ پر تنقید کرتے ہیں، اور میرے پاس ان کے جواب میں دعاوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ مجھے اپنی ذات کا دفاع ہر گز نہیں کرنا، مجھے تو اپنی اصلاح کرنی ہے البتہ علمی مسئلہ میں واضح کرتا رہوں گا۔
علمی بات یہ ہے کہ اہل الحدیث کی اصطلاح دو طرح سے استعمال ہوتی ہے۔ ایک تو اہل الرائے کے بالمقابل، اور اس اعتبار سے اہل الحدیث وہ مکتب فکر ہے کہ جس کے بانی امام مالک رحمہ اللہ ہے اور پھر اس مکتب فکر کو ان کے شاگرد امام شافعی رحمہ اللہ نے آگے بڑھایا۔ پھر ان کے شاگرد امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ لے کر چلے۔ ۔پھر ان کے شاگرد امام بخاری رحمہ اللہ نے اس میں اضافے فرمایے۔ اس اعتبار سے اہل الحدیث ایک بہت قدیم سوچ اور فکر ہے جیسا کہ اہل الرائے یا حنفی ایک قدیم مکتب فکر ہے۔ اہل الحدیث اور اہل الرائے کے ان دو اجتہادی مکاتب فکر کے اختلافات پر میری مستقل تحریریں شائع ہو چکی ہیں جیسا کہ ماہنامہ الاحیاء وغیرہ میں۔
میں اپنی تحریروں میں امام مالک رحمہ اللہ کے زمانے سے مدینہ سے شروع ہونے والے اس قدیم مکتب فکر کو "فکری اہل حدیث" کا نام دیتا رہا ہوں۔ مجھ سے جب بھی کوئی پوچھتا ہے تو میں یہی کہتا ہوں کہ میں "فکری اہل حدیث" ہوں یعنی ان ائمہ دین کی فکر پر ہوں اور وہ فکر یہ ہے کہ ائمہ کے اقوال کو کتاب وسنت پر پیش کرتے رہو نہ کہ کتاب وسنت کو ائمہ کے اقوال پر پیش کرو۔ یہ فکری اہل حدیث آج بھی پائے جاتے ہیں لیکن تعداد میں بہت کم ہیں۔ یہ ائمہ دین پر طعن نہیں کرتے، یہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے استفادہ کے بھی قائل ہیں اور ان سے اختلاف بھی کرتے ہیں۔ اشارتا عرض کرتا چلوں کہ "فکری حنفی" بھی موجود ہیں جو اختلافی مسائل میں سخت نہیں ہیں یعنی رفع الیدین سے بھی نماز پڑھ لیں گے لیکن فکری وابستگی اہل الرائے/حنفیہ سے ہے۔
دوسرا اہل الحدیث سے مراد برصغیر کے اہل حدیث ہیں۔ اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ایک خاص دور میں وجود میں آئے اور شیخ الکل نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ کو ان کا نقطہ آغاز کہا جا سکتا ہے۔ برصغیر میں تقلیدی جمود کی اس اصلاحی تحریک کا آغاز "فکر اہل حدیث" سے ہوا تھا لیکن اب بدقسمتی سے یہ "فرقہ اہل حدیث" بن چکا ہے۔ اور ان کے شاگرد مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ نے قادیانیت، نیچریت اور تقلید کے رد میں بہت کام کیا اور 1877ء میں "اشاعۃ السنۃ" کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا۔ انہوں نے ہی سرکاری کاغذات میں اپنے ہم فکر ساتھیوں کے لیے "وہابی" کی جگہ "اہل حدیث" کا نام پسند کیا۔ البتہ یہ بات تاریخِی طور درست ہے کہ برصغیر میں حنفیت جو تین مسالک میں تقسیم ہوَئی ہے تو اس میں اہل حدیث پہلے وجود میں آئے۔ دار العلوم دیوبند کے قیام سے تقریبا بیس سال پہلے شیخ نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ نے شاہ محمد اسحاق رحمہ اللہ مسند پر بیٹھ کر برصغیر میں اہل حدیث کی پہلی درسگاہ کی بنیاد رکھ دی تھی۔
اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہی مولانا محمد حسین بٹالوی صاحب رحمہ اللہ اپنے آپ کو "حنفی اہل حدیث" لکھتے تھے۔ وہ اجتہادی مسائل میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول پر فتوی دینے کے قائل تھے کہ عرف میں فقہ حنفی تھی لہذا مناسب یہی تھا کہ جن مسائل میں صریح احادیث موجود نہ ہوں تو امام صاحب کے قول پر فتوی دیا جائے۔ پھر اس کے بعد برصغیر کے اہل حدیث میں سختی آتی چلی گئی اور ان کی اکثریت میں امام صاحب سے چڑ پیدا ہو گئی بلکہ اہل حدیثیت نام ہی حنفیت کے رد کا پڑ گیا۔ امام صاحب کو گالیاں دینے والے بھی موجود ہیں۔ آج کل یہی لوگ جماعت میں غالب ہیں۔ معاشرے میں انہی کو اہل حدیث کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے لیکن میں انہیں اہل حدیث کا حقیقی نمائندہ نہیں سمجھتا بلکہ "فکری اہل حدیث" کو اہل حدیث کا حقیقی نمائندہ سمجھتا ہوں اور انہی کی طرف نسبت رکھتا ہوں۔ ساتھ میں اپنی کتاب "صالح اور مصلح" سے اہل الحدیث کی اقسام کے موضوع پر اپنی ایک پرانی تحریر کا امیج لگا رہا ہوں، اسے سب اہلحدیث ضرور پڑھیں۔