کون سے جوابات سے؟؟
میرا پیشہ Metal Engraving کا ہے، یہ کاروبار میرے والد صاحب قریب ٤٠ سال سے کر رہے ہے، میرے دادا شرابی تھے اور بدمعاش تھے اپنے محلہ کے، ایک دن جب میرے والد صاحب نے انہیں پیسے نہیں دیے تو میرے دادا نے انہیں گھر سے نکال دیا اور کہنے لگے کہ جب تک شراب کا بندوبست نہیں ہو جاتا جب تک گھر میں نہیں آنا، یہ قصہ انڈیا کے شہر کانپور کا ہے جو لکھنؤ کے قریب ہے، میرے والد صاحب کے پاس صرف سات روپے تھے تبھی میرے والد صاحب نے سوچا کہ اب اس شہر میں نہیں رہنا، اس کے بعد میرے ابو احمدآباد آ گئے اور انہوں نے بہت پریشانیاں جھیلی، میرے ابو بتاتے ہے کہ اس دوران انہوں نے کئی نوکریاں کی ، چائے کی دکان سے لیکر کئی بار تو عید کے موقع پر بچوں کو چنے بھی فروخت کر چکے ہے، میری والدہ کہتی ہے کہ جب میں چھوٹا تھا اور جب عید آتی تھی تو میری ماں پرانے کپڑے اکٹھے کرتی تھی اور ہر کپڑے کو دو بار دھوتی تھی تاکہ عید کے دن ہمارے کپڑے پرانے نا لگے، یہ دن تو مجھے آج بھی یاد ہے کہ ہم بہت غریبی میں رہ چکے ہے ایک ہی روم کا کرایہ کا مکان تھا، بارش جب ہوتی تھی تب میری ماں پلاسٹک کی بڑی سی چادر اوڑھ کر کھانا تیار کرتی، اور ہم سب بھائی بہن چولہے کے پاس بیٹھے رہتے تھے، اور میری ماں ہمیں باری باری سے مارتی تھی اور کہتی تھی کہ چولہے کے پاس سے ہٹ جاؤ جل جاؤ گے تو علاج کا پیسہ نہیں ہے ہمارے پاس، میری ماں گزارے کے لئے نہ جانے کیا کیا کام گھر پر کرتے رہتی تھی ، مجھے یاد ہے کہ میں "اگربتی" بناتا تھا بہنوں کے ساتھ، اسی طرح ہماری زندگی بڑھتی رہی، metal engraving کا کام جب میرے ابو نے شروع کیا تو مجھے یاد ہے کہ میرے والد صاحب سڑک کے کنارے دھول میں بیٹھ کر کام کرتے تھے، میرے ابو کے بغل ہی میں ایک موچی بھی سڑک پر بیٹھا رہتا تھا ور پوچھتا رہتا تھا میرے ابو سے کہ کونسا پیشہ کرتے ہو کچھ سمجھ ہی نہیں پڑتی، نا کوئی گاہک آتا ہے ، میرے ابو کہتے ابھی لوگوں کوپتا نہیں کہ یہ پیشہ کیا ہے ان شاء الله میں بھی ایک دن اس شہر میں ترقی کروں گا، جب شام ہوتی تو سڑک پر بیٹھا موچی جیب بھر کر پیسہ کماتا تھا لیکن ہم کچھ نہیں کماتے تھے، جب ہم سڑک کنارے بیٹھے رہتے تھے تب میرے والد صاحب دھوپ میں رہتے تھے اور ہم لوگوں کو ایک چھاؤ میں بٹھاتے تھے ہم کہتے کہ آپ بھی چھاؤ میں آ جائے تو کہتے تھے نہیں اگر کوئی گاہک آیا اور مجھے نہیں دیکھ پایا تو چلا جائے گا، اور بیچارے سارا دن ایسے ہی نکال دیتے تھے، ایک دن کی بات ہے کہ ہم لوگ چھاؤ میں بیٹھے تھے تبھی اچانک آندھی چلی اور ہم نے جو سڑک پر چھوٹا سا آسرا بنایا تھا ہوا میں اڑنے لگا، میں اور میرا بڑا بھائی پاگلوں کی طرح اس ٹاٹ کے پیچھے بھاگ رہے تھے کہ کہیں ہاتھ سے وہ ٹاٹ بھی نا چلا جائے، ہم جب ایسا کر رہے تھے تب وہاں موجود لوگ خوب ہنستے تھے یہ سب دیکھ کر میرے والد کی آنکھیں کئی بار نم ہو جاتی، ہمارا پیشہ اور بھی ہے اور وہ ہے Rubber Stamp ، سڑک پر بیٹھے ہوئے ہم ربر سٹیمپ کا بھی آرڈر لینے لگے ، جب بھی کوئی گاہک آرڈر دیتا تھا تو میں اور میرا بھائی چھوٹی سی سائکل کرائے پر لیتے اور قریب ٨ کلو میٹر سائکل چلا کر ہم دوسری جگہ سے وہ ربر سٹیمپ بنوا کر گاہک کو دیتے تھے، جب ہم وہ آرڈر لے کر جاتے تھے تو دکان والا ہمیں دیکھ کر کہتا تھا "واندرا لوکو آویا" یعنی وہ گجراتی میں کہتے تھے "بندر آگئے " ہمیں بہت برا لگتا تھا کیونکہ ہمارا حال ہی کافی گندا رہتا اور کپڑے بھی پھٹے رہتے تھے ہم مجبور تھے، لوگوں کی باتیں سننا پڑتی تھی ، خیر دھول کا ذائقہ چکھتے ہوئے الله نے ہمارا ہاتھ پکڑ لیا اور ہماری ترقی کے دن شروع ہو گئے، آج ہماری کافی بڑی آفس ہے جس میں کئی امپورٹ کی ہوئی مشینیں بھری پڑی ہے، جو لوگ ہمیں بندر کہتے تھے آج وہی لوگ ہمارے یہاں کام لے کر آتے ہے ، کیونکہ آج ہمارے یہاں جو مشینیں ہیں وہ دوسروں کے یہاں نہیں بلکہ پورے شہر میں اس طرح کی مشین لانے والے ہم ہی ہے اور یہ الله کا خاص فضل ہے ، الحمد للہ ، ہم جس طرح کا کام کرتے ہے پورے شہر میں کوئی نہیں کرتا ، اور جہاں ہم پہلے ایک کمرے کے مکان میں رہتے تھے آج وہی گھر ١٤ کمروں کا ہو چکاہے، پچھلے سال ہی کئی مہنگی مشین خریدی ہے ابھی کچھ روز پہلے ہی ایک جاپانی شخص مجھے مشین کی ٹریننگ دے چکا ہے، ہمارے پاس ابھی جو مشینیں ہیں وہ کچھ اس طرح ہے
Cnc Pantograph
Edm Wire-cut
Edm Spark Erosion
Edm Drill
1)انٹرنیٹ دوستوں نے نہ ملنے کی وجہ عدم تحفظ کا احساس؟جیسے ظاہر ہونا،ویسا حقیقت میں نہ ہونا یا اجتماعیت پسند نہ ہونا ہے؟اب تک کسی سے ملاقات نہیں ہوئی، جیسا کہ میں نے پہلے ہی کہا ہے میں نیٹ پر بنائے گئے دوستوں سے کبھی نہیں ملتا،
اب تک اس فورم پر قریب ١٠ لوگوں نے مجھ سے ملنے کا یا فون نمبر لینے کی کوشش کی ہے ، دکھ مجھے بھی ہوتا ہے لیکن کیا کروں ایسا میں تو نہیں کرنا چاہتا ، اس بات کے لئے سبھی معاف کر دیجئے
1- نہ ہی عدم تحفظ کا شکار ہوں اور نہ ہی جیسا ظاہر میں ہونا اور حقیقت میں نہ ہونا ایسا کچھ نہیں ہے، انٹرویو شروع کرتے وقت میں نے یہی سوچا تھا کہ جیسا میں ہوں ویسا ہی لکھوں گا، اجتماعیت پسند ہوں، اور میرے دوستوں کو بھی نہیں پتا کہ میں کس طرح دین کا کام انٹرنیٹ پر کر رہا ہوں،کبھی دوستوں کے سامنے اپنے بلوگس وغیرہ پر گفتگو نہیں کرتا،اپنے بلاگ کی دعوت ضرور دیتا ہوں لیکن کبھی یہ نہیں کہتا کہ اسے میں چلا رہا ہوں، یہ سب باتیں آپ لوگوں کو ضرور الجھا سکتی ہے لیکن یہ میرے کچھ اصول ہیں ،چند مزید سوالات!!اگر عامر بھائی مناسب سمجھیں تو جواب دے دیں۔
1)انٹرنیٹ دوستوں نے نہ ملنے کی وجہ عدم تحفظ کا احساس؟جیسے ظاہر ہونا،ویسا حقیقت میں نہ ہونا یا اجتماعیت پسند نہ ہونا ہے؟
2)انڈیا میں نظام تعلیم کیسا ہے؟سکول،کالج اور یونیورسٹی لیول پر؟حکومتی سطح پر تعلیمی حوالے سے کیا سرگرمی ہے؟
3)قریبا بے دینی سے دین کی طرف آئے۔۔فارم پر چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپسی اختلاف کو عناد میں ڈھلتاکس نظر سے دیکھتے ہیں؟دین بیزاری کی ایک وجہ بلاوجہ کے اختلافات اور غلط طریقہ اختلاف سمجھتے ہیں؟عام لوگ ان بحث مباحثہ سے کیا اخذ کرتے ہیں؟
بالکل ایسا ہی ہے،دین بیزاری کی ایک وجہ بلاوجہ کے اختلافات اور غلط طریقہ اختلاف سمجھتے ہیں؟
عام لوگ بہت بھولے قسم کے ہوتے ہیں، اس سے انکی زندگی بدل سکتی ہے یا بگڑ سکتی ہے، اس قسم کی بحث سے عام آدمی کوئی نہ کوئی نتیجہ ضرور اخذ کرتا ہے ، بحث کرنے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ اپنی بات قرآن و حدیث سے ثابت کی جائے اس کے علاوہ سامنے والا جو بھی زبان درازی کرے ہمیں چپ رہنا چاہیے،عام لوگ ان بحث مباحثہ سے کیا اخذ کرتے ہیں؟
ابتسامہ۔۔۔آپ نے یہ محاورے بازی کی بات بہت درست اور زبردست کی ہے۔3- فورم پر چھوٹی چھوٹی باتوں کو عناد کی شکل میں دیکھ کر دکھ ہوتا ہے، یہاں ڈھنگ سے علمی بحث نہیں ہوتی، کچھ لوگ ہی ایسے ہیں جو صرف علمی جواب دیتے ہیں، اور کچھ لوگ تو صرف محاورے یاد کر کے آ جاتے ہیں، علمی بحث بہت کم اور محاورے بازی بہت زیادہ ہوتی ہے،
بھائی آپ کیوں معافی مانگتے ہے، یہ سب تو چلتا ہی رہتا ہے پاکستانی ہو یا ہندوستانی دونوں ہی جگہ لوگ جاہلیت سے کام لینے میں اول ہے،عامر بھائی سب سے پہلے تو یہ کہ اگر کسی پاکستانی نے آپ کو کسی سیاسی یا مذہبی بنیاد پر برا بھلا کہا ہے تو اس کی میں آپ سے معذرت کرتا ہوں میرا تو خیال ہے مسلمان زمانی و مکانی قیود سے ماوراء ہوتا ہے اس لیے آپ ہمارے ہیں اور ہم آپ کے ہیں
مجھے آپ کا انٹرویو پڑھ کر بہت اچھا لگا اور ہمیشہ سیلف میڈ لوگ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں جو مشکلات اور مصائب سے گھبراتے نہیں ہیں بلکہ بہادری سے ان کا مقابلہ کرتے ہیں اور اپنے آپ کو منوا لیتے ہیں
لیکن اگر ایک بات اگر آپ بر انہ مانیں تو کرنا چاہوں گا ایک مقام پر آپ نے چھوڑی ہوئی نمازوں کی قضا کی بات کی تھی شاید ایسا کچھ بھی نہیں ہے سابقہ جو نمازیں آپ نے چھوڑ دیں تھی اور اب توبہ کر لی ہے اور مستقل پڑھ رہے ہیں تو چھوڑی ہوئی نمازوں کی کوئی قضا نہیں ہے آپ کی توبہ ہی کافی ہے البتہ رمضان کے روزوں کے بارے میں کچھ علماء کی رائے ہے کہ اس کے بارے میں رکھے جا سکتے ہیں لیکن اگر اس کی صحیح تعداد بھی معلوم نہیں تواس کے بارے میں کسی عالم دین سے پوچھ لیں
اور ماضی جو بھی تھا جیسا بھی تھا صرف حال دیکھنا چاہیے اور وہ بہت اچھا ہے الحمدللہ
یہ تو اس فورم پر موجود علماء بہتر وضاحت کر سکتے ہیں کہ فوت شدہ نمازوں کا کیا حکم ہے میرے علم کے مطابق صرف توبہ اور موجودہ زندگی میں نماز مسلسل پڑھنا یہ کافی ہے اگر اس میں کوئی غلطی ہو تو یقینی بات ہے کہ وضاحت ہو جائے گیبھائی آپ کیوں معافی مانگتے ہے، یہ سب تو چلتا ہی رہتا ہے پاکستانی ہو یا ہندوستانی دونوں ہی جگہ لوگ جاہلیت سے کام لینے میں اول ہے،
اگر سچ میں نمازوں کی معافی ہے تو اچھی بات ہے، یہ بات میں نے بھی کہیں پڑھی ہے لیکن نتیجہ کیا نکلا یاد نہیں آتا، اس لئے میں بقیہ نمازیں پڑھ لینا ہی افضل سمجھتا ہوں، الله بہت رحیم ہے ہر غلطی کی معافی ہے سوائے شرک کے، الله معاف کرے آمین