• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محدثین کا حدیث کو صحیح یا ضعیف کہنا اجتہاد تھا ؟ اور ان کی تصحیح یا تضعیف کو ماننا ان کی تقلید ہے ؟

sufi

رکن
شمولیت
جون 25، 2012
پیغامات
196
ری ایکشن اسکور
310
پوائنٹ
63
To brother rashid yaqoob salafi

Is afsanvi nazariye k 'naqideen ahadees pr hakim hain' se qata e nazar aap ki baat ki taraf ate hain k naqideen ki baat khabar hai.
Aap k sawal k tanazur main khabar 2 qisam pr hai

Ek wo jo Nabi Saw se manqol ho. Khabar ki is qisam ka naam hadees hai aur is pr amal/man'na itteba hai

Khabar ki dosri qisam wo hai jo ghair nabi ka qol ho, is ko tasleem karna taqleed hai

Agar ye nukta aap zahan main rakhain k ghair nabi k qol ko man'na taqleed hai aur nabi saw k qol ko tasleem karna dalil ki pairwi hai tu aap ko kabhi bhi apne mamdoheen k liye haila bazion aur khird ka naam junoon rakhne ki zaroorat na parhegi
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
سوال اچھا ہے۔۔۔
مگر جواب۔۔۔۔۔؟؟؟
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
سوال اچھا ہے۔۔۔
مگر جواب۔۔۔۔۔؟؟؟
پہلی بات تو یہ کہ مجھے گلابی اردو (انگلش میں اردو) کی سمجھ نہیں آتی اس لئے گلابی اردو میں کمنٹس نہیں پڑھ سکا کوئی بھائی گلابی اردو میں لکھے گئے مواد بارے رائے چاہتا ہے تو وہ پہلے مجھے اسکا سادہ اردو میں ترجمہ کر دے میں پھر جوب دینے کی کوشش کروں گا جزاکم اللہ خیرا
باقی پوسٹیں میں نے پڑھی ہیں ان کے مطابق اپنی رائے دے دیتا ہوں بھائی اصلاح کر دیں جزاکم اللہ خیرا

سوال یہ ہے کہ
محدثین کے حدیث پر حکم لگانے کو تسلیم کرنا تقلید ہے یا اتباع

سوال کرنے والے کے نزدیک اتباع سے مراد یہ ہے
دین میں اللہ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو ماننا
اور تقلید سے مراد یہ ہے
دین میں اللہ اور رسول کے علاوہ کسی کی بات کو ماننا

اب ان تعریفوں کے پس منظر میں "محدثین کا حدیث پر حکم لگانا" کو تین نمبروں میں تقسیم کرتے ہیں کہ

1-کیا یہ بات دین کی بات ہے
اس میں محترم گڈ مسلم اور باقی بھائیوں میں اختلاف ہے یعنی محترم گڈ مسلم بھائی شاید یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ دین کی بات نہیں اور دوسری طرف والے بھائی یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ دین کی ہی بات ہے

2-کیا یہ بات اللہ اور اسکے رسول کے علاوہ کسی اور کی بات ہے
سب بھائی دوسرے نمبر کو مانتے ہیں کہ ہم جب محدثین کے لگائے گئے حکم کو ہم تسلیم کرتے ہیں تو یہ اللہ اور اسکے رسول کی بات نہیں ہوتی بلکہ کسی اور کی بات ہوتی ہے

3-کیا حدیث کو صحیح یا ضعیف سمجھنا محدث کی بات کو تسلیم کرنا ہوتا ہے
تیسرے نمبر پر بھی سب متفق ہیں کہ جب ہم کسی حدیث کو صحیح یا ضعیف کسی محدث کے حکم کی وجہ سے کہتے ہیں تو ہم اسکی بات کو مان رہے ہوتے ہیں

پس اصل اختلاف پہلے نمبر میں ہی ہے اور اسکی وجہ بھی نا سمجھی ہے باقی اختلاف کچھ نہیں

اصل اختلاف نا سمجھی ہے
اصل میں اختلاف اس وجہ سے پیدا ہوا کہ ہمیں یہ گڈ مڈ ہو جاتا ہے کہ اوپر تقلید اور اتباع میں جس چیز کو ہم نے دین کی بات کہا ہے اس سے مراد کیا ہے
اسکو سمجھانے کے لئے میں یہ بدعت کی مثال دیتا ہوں کہ کچھ بھائی کہتے ہیں کہ جب دین میں ہر نئی بات بدعت ہے تو پھر صرف و نحو بھی تو نئی بات ہے جو صحابہ کے دور میں نہیں تھی اور صرف اور نحو ہے بھی دین کی بات اس سے کون انکار کر سکتا ہے پس یہ بھی بدعت ہے تو جب اسکو کوئی بدعت نہیں کہتا تو پھر باقی قل تیجہ وغیرہ کو بھی بدعت نہ کہا جائے
اصل میں یہاں "دین میں" کے لفظ سے غلط مراد لیا جاتا ہے جیسے میں آپ کو کہوں کہ مجھے پانی پلاؤ اور جو میں نے حکم دیا ہے اسکے علاوہ کوئی کام نہ کرو تو آپ جب پانی ڈالنے کے لئے جگ اٹھانے لگے تو کیا میں اعتراض کر سکتا ہوں کہ آپ نے جگ کیوں اٹھایا میں نے تو گلاس کا نہیں کہا تھا کل جس نے پانی دیا تھا اسنے تو جگ نہیں اٹھایا تھا
بھائی کل ہو سکتا ہے پانی گلاس میں موجود ہو مگر آج جگ سے ڈالنا پڑا تو جگ تو اٹھانا تھا پس جگ اٹھانا اصل مقصود نہیں بلکہ کسی اور حکم کو حاصل کرنے کے لئے لازمی ہے
اسی طرح صرف و نحو اصل مقصود نہیں بلکہ کسی اور حکم کو حاصل کرنے کے لئے لازمی امر ہے مثلا حکم ہے ولقد یسرنا القران للذکر فھل من مدکر (کہ ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کر دیا ہے تو کوئی ہے جو اسکو سمجھے) پس صحابہ کے دور میں یا عربیوں کو سمجھنے کے لئے شاید اسکی ضرورت نہ ہو مگر بعد میں تو ہمیں صرف و نحو کی ضرورت ہے
اسی طرح اسماءالرجال کے علم کے بارے اگرچہ اللہ اور رسول کا ڈائریکٹ حکم تو نہیں مگر دوسرے احکام موجود ہیں جن کو حاصل کرنے کے لئے اسماء الرجال کا علم ذریعہ بنتا ہے اور اسکے بغیر ممکن نہیں مثلا
بلغوا عنی ولو ایۃ
من کذب علی متعمدا----
ان جاءکم فاسق بنباء فتبینوا--

پس صرف و نحو اگرچہ دین سے متعلق علم ہے مگر بدعت کی تعریف میں جو الفاظ (دین میں) آتے ہیں انکا اطلاق اس صرف و نحو پر نہیں کیا جا سکتا اور اس اطلاق نہ کرنے سے باقی جگہوں پر بدعت کا حکم ساقط بھی نہیں ہوتا

اسی طرح اسماءالرجال کے علم پر انحصار کرنا اگرچہ دین سے متعلق بات ہے مگر تقلید کی تعریف میں جو الفاظ (دین میں) آتے ہیں انکا اطلاق اس اسماءالرجال کے علم پر انحصار کرنے پر نہیں کیا جا سکتا اور اس اطلاق نہ کرنے کی وجہ سے باقی جگہوں پر تقلید کا حکم ساقط بھی نہیں ہوتا
مزید وضاحت چاہئے ہو یا اصلاح کرنی ہو تو ضرور اسکا بندہ حاضر ہے جزاکم اللہ خیرا
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
عمدہ وضاحت ہے عبدہ بھائی۔
مگر ایک بات اور سمجھا دیں کہ محدثین اسماء الرجال کے علم سے احادیث کو موضوع اور ضعیف بھی بیان کرتے ہیں۔پھر وہ احادیث اعمال میں نہیں لائی جاتیں،
جبکہ اسی حدیث کو کوئی اور محدث قابل قبول درجہ دے رہیں ہوتے ہیں، تب کوئی انھیں اعمال میں شامل کر لے۔۔۔۔تو وہ ان کے لگائے حکم پر عمل کرتا ہے۔یہ بات تو طے ہے کہ محدثین کے اجتہاد پر انھیں اجر وثواب ہے اور اگر اجتہاد درست نہ بھی ہوا تو بھی اجروثواب سے خالی نہیں، مگر عام انسان کے لیے
ان صورتوں میں کیا حکم ہے؟
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
ایک بات اور سمجھا دیں کہ محدثین اسماء الرجال کے علم سے احادیث کو موضوع اور ضعیف بھی بیان کرتے ہیں۔پھر وہ احادیث اعمال میں نہیں لائی جاتیں،
جبکہ اسی حدیث کو کوئی اور محدث قابل قبول درجہ دے رہیں ہوتے ہیں، تب کوئی انھیں اعمال میں شامل کر لے۔۔۔۔تو وہ ان کے لگائے حکم پر عمل کرتا ہے۔یہ بات تو طے ہے کہ محدثین کے اجتہاد پر انھیں اجر وثواب ہے اور اگر اجتہاد درست نہ بھی ہوا تو بھی اجروثواب سے خالی نہیں، مگر عام انسان کے لیے ان صورتوں میں کیا حکم ہے؟
اسی جیسے شبہات کو دور کرنے کے لئے میں نے رفع الملام کا موضؤع شروع کیا تھا پھر اور مصروفیت کی وجہ سے معاملہ مکمل نہ ہو سکا فرصت ملنے پر شاید ہو جائے
اوپر والا اختلاف عقل کے استعمال کے حوالے سے ہے کہ ہمارے لئے عقل کا استعمال کرنا کیا شریعت سے ثابت ہے اور اگر ہے تو وہ کیا نقل (قرآن و حدیث ) کے تابع ہے یا نہیں اور اگر تابع ہے تو کیوں ہے اس کے لئے کچھ فرقوں مثلا معتزلہ، اشاعرہ، اہل سنت وغیرہ کو دیکھنا ہو گا جن میں عقل اور نقل میں موازنہ پر ہی اختلاف ہے
چونکہ تھوڑی تفصیل کی ضرورت ہے اسلئے انشاءاللہ اگلی فرصت میں یہاں یا رفع الملام میں لکھوں گا
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
تقلید و اتباع کی تعریف صوفی بھائی نے درست نہیں کی۔ کوئی اور بھائی کرے گا؟
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
تقلید و اتباع کی تعریف صوفی بھائی نے درست نہیں کی۔ کوئی اور بھائی کرے گا؟
محترم بھائی مصروفیت کی وجہ سے جواب نہیں دے سکا
آپ کی بات درست ہے کہ جو بھائی اوپر والی تعریف کرتے ہیں میرا جواب اسی تناظر میں ہے کیونکہ اوپر والی تعریف کر کے پھر اہل حدیث پر اعتراض کرتے ہیں کہ تم بھی تو پھر تقلید کرتے ہو جیسے بدعت کے حوالے سے بھی ایسا ہی اعتراض کیا جاتا ہے کہ تم بھی تو نحو صرف کی بدعت کرتے ہو
اگر آپ اس سے ہٹ کے تعریف کریں گے یا اتباع اور تقلید کو ایک ہی کہیں گے تو پھر جواب اسی تناظر میں دیا جائے گا
میں اصل میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو اسماءالرجال کا علم ہے اس پر بالواسطہ چونکہ حکم موجود ہے اس لئے یہ اتباع میں ہی آئے گا
دوبارہ سمجھاتا ہوں کہ ہمارے لئے حاکم صرف اللہ کی ذات ہے پھر اللہ تعالی نے وما ینطق عن الھوی کہہ کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں فرمان کو بھی بلا شرط ہمارے لئے قابل اتباع بنا دیا
اس کے ساتھ ساتھ شریعت میں کچھ اور لوگوں کے حکموں کو ماننا بھی لازمی قرار پایا البتہ بلا شرط کی بجائے وہ کچھ شرائط کے ساتھ ہے مثلا والدین ، خلیفہ، امیر وغیرہ
پس اللہ اور رسول کے علاوہ کسی کی بات کچھ شرائط کے ساتھ ماننا شریعت کے خلاف کیسے ہو سکتا ہے
پس جب جج کسی کی گواہی مانتا ہے تو وہ شریعت کے خلاف نہیں کر رہا ہوتا

پس اوپر بحث سے ہمیں دو چیزیں نظر آتی ہیں
1-لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق کا خیال رکھتے ہوئے کسی کی بات ماننا شریعت کی خلاف ورزی نہیں کہلا سکتی
2-اللہ کی بات ماننے سے مراد ہر وہ بات جس پر اللہ کا براہ راست قرآن کے ذریعے حکم ہو یا وما ینطق عن الھوی والی زبان سے حکم ہو یا اللہ تعالی کسی ذات کو ہی واجب الاطاعت کچھ شرائط سے کر دے مثلا امیر والدین وغیرہ

اب محدثین کی اطاعت کا شریعت میں کیسے ذکر ہے اسکے لئے اوپر عقل اور نقل والی بحث کا ذکر کیا تھا جس کی وضاحت ان شاءاللہ بعد میں فرصت سے کروں گا ابھی تو محترم شاکر بھائی کا انتظار ہو رہا ہے گرائمر کی کلاس شروع کرنی ہے
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
محترم بھائی مصروفیت کی وجہ سے جواب نہیں دے سکا
آپ کی بات درست ہے کہ جو بھائی اوپر والی تعریف کرتے ہیں میرا جواب اسی تناظر میں ہے کیونکہ اوپر والی تعریف کر کے پھر اہل حدیث پر اعتراض کرتے ہیں کہ تم بھی تو پھر تقلید کرتے ہو جیسے بدعت کے حوالے سے بھی ایسا ہی اعتراض کیا جاتا ہے کہ تم بھی تو نحو صرف کی بدعت کرتے ہو
اگر آپ اس سے ہٹ کے تعریف کریں گے یا اتباع اور تقلید کو ایک ہی کہیں گے تو پھر جواب اسی تناظر میں دیا جائے گا
میں اصل میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو اسماءالرجال کا علم ہے اس پر بالواسطہ چونکہ حکم موجود ہے اس لئے یہ اتباع میں ہی آئے گا
دوبارہ سمجھاتا ہوں کہ ہمارے لئے حاکم صرف اللہ کی ذات ہے پھر اللہ تعالی نے وما ینطق عن الھوی کہہ کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں فرمان کو بھی بلا شرط ہمارے لئے قابل اتباع بنا دیا
اس کے ساتھ ساتھ شریعت میں کچھ اور لوگوں کے حکموں کو ماننا بھی لازمی قرار پایا البتہ بلا شرط کی بجائے وہ کچھ شرائط کے ساتھ ہے مثلا والدین ، خلیفہ، امیر وغیرہ
پس اللہ اور رسول کے علاوہ کسی کی بات کچھ شرائط کے ساتھ ماننا شریعت کے خلاف کیسے ہو سکتا ہے
پس جب جج کسی کی گواہی مانتا ہے تو وہ شریعت کے خلاف نہیں کر رہا ہوتا

پس اوپر بحث سے ہمیں دو چیزیں نظر آتی ہیں
1-لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق کا خیال رکھتے ہوئے کسی کی بات ماننا شریعت کی خلاف ورزی نہیں کہلا سکتی
2-اللہ کی بات ماننے سے مراد ہر وہ بات جس پر اللہ کا براہ راست قرآن کے ذریعے حکم ہو یا وما ینطق عن الھوی والی زبان سے حکم ہو یا اللہ تعالی کسی ذات کو ہی واجب الاطاعت کچھ شرائط سے کر دے مثلا امیر والدین وغیرہ

اب محدثین کی اطاعت کا شریعت میں کیسے ذکر ہے اسکے لئے اوپر عقل اور نقل والی بحث کا ذکر کیا تھا جس کی وضاحت ان شاءاللہ بعد میں فرصت سے کروں گا ابھی تو محترم شاکر بھائی کا انتظار ہو رہا ہے گرائمر کی کلاس شروع کرنی ہے
جزاک اللہ بھائی جان
میں غلط صحیح کی بحث تو نہیں کر رہا اور نہ اتنا علم رکھتا ہوں کہ آپ کے سامنے یہ بحث کر سکوں لیکن میرا خیال ہے کہ یہ حکم ماننا تقلید ہی ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر جابر جعفی کو محدثین (بشمول امام اعظم) نے ضعیف قرار دیا ہے۔ اس پر کوئی قرآنی یا حدیث سے دلیل نہیں ہے۔ ہم صرف محدثین کے ورع اور علم پر اعتماد کر کے اس جرح کو قبول کر لیتے ہیں۔
یہ تقلید ہی ہوتی ہے نا؟ اب نام ہم اس کا کچھ بھی رکھ دیں۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
کیا آپ لوگوں نے اتنے بڑے بڑے جھوٹ سنے ہیں کبھی - نہیں نا - چلیں اب دیکھ لیں
احناف کی اپنی ویب سائٹ پر تقلید کے بارے میں سوالات اور ان کے حیرت انگیز جوابات​
ایک دو سوالات میں یہاں پیش کر دیتا ہوں - باقی آپ یہ نیچے والا لنک دیکھ لیں​
سوال ہفتم: امام ابو بوسفؒ اور امام محمدؒ امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد ہیں اور آپ کی تقلید بھی کرتے ہیں مگر انہوں نے بہت سے مسائل میں امام صاحب کی مخالفت کیوں کی؟​
الجواب: امام ابو یوسف اور امام محمد یہ دونوں حضرات خود مجتہد فی المذہب ہیں اور مجتہد کو دوسرے مجتہد کی تقلید واجب نہیں ہوتی۔ ہاں اگر اپنے سے بڑے مجتہد کی تقلید کرے تو جائز ہے۔

سوال ہشتم: کیا کسی امام نے اپنی تقلید کرنے کا حکم دیا ہے؟

الجواب: ائمہ اربعہ کے اقوال مختلف کتابوں میں موجود ہیں جن میں ان حضرات نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہماری ہر اس بات کو مانو جو قرآن وسنت کے موافق ہواور جو خلاف ہو جائے اس کو مت مانو۔ مطلب یہ ہو ا کہ وہ اپنے اقوال کی ترغیب دے رہے ہیں اور یہ بھی بتا رہے ہیں کہ ان کے اقوال قرآن وسنت کے موافق ہیں اور قرآن وسنت کی مخالفت نہیں کرتے پس اس سے ان کی تقلید کی حکم ان کے اپنے اقوال سے ثابت ہوا۔

سوال نہم: جو لوگ چاروں اماموں میں سے کسی امام کی تقلید نہیں کرتے۔ ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟

الجواب:موجودہ دور میں جو لوگ ائمہ اربعہ میں سے کسی ايک امام کی تقلید نہیں کرتے وہ فافق ہیں۔ اہل سنت والجماعت سے خارج ہیں اور حرمین شریفین کے فتووں کے مطابق ان پرتعزیز واجب ہے۔
لنک یہ ہے
۔​
 

123456789

رکن
شمولیت
اپریل 17، 2014
پیغامات
215
ری ایکشن اسکور
88
پوائنٹ
43
تقلید نقل کو کہتے ہیں۔ جیسے کوئی اچھا کام کرے تو کہتے ہیں اسکا یہ کام قابل تقلید ہے۔ مطلب اس کام کی نقل میں ہمیں بھی اچھا کام کرنا چاہئے
 
Top