• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محدثین کا حدیث کو صحیح یا ضعیف کہنا اجتہاد تھا ؟ اور ان کی تصحیح یا تضعیف کو ماننا ان کی تقلید ہے ؟

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
جزاک اللہ خیرا محترم بھائی میں بھی اپنی سمجھ اور علم کے مطابق دلائل تو دے سکتا ہوں حقیقی غلط صحیح تو اللہ تعالی ہی جانتا ہے کہ کون ہے ہاں ہم جتنی چیز کے مکلف بنائے گئے ہیں اور ہمیں جتنی نعمت (عقل و علم) دی گئی ہے اسکے تحت ہم غلط درست کا ایک نظریہ قائم کر سکتے ہیں اور اس میں بھی اللہ تعالی نے ہمیں ہماری سمجھ سے زیادہ مکلف نہیں بنایا واللہ اعلم

محترم بھائی میرے خیال میں یہ بات بالکل تقلید میں نہیں آتی جس کے لئے میں نے اوپر بدعت والی مثال دی ہے کہ جو چیز کسی شرعی حکم کا ذریعہ بن رہی ہوتی ہے وہ بھی بالواسطہ شرعی حکم بن جاتی ہے جیسے پانی پلانے کے حکم میں گلاس اٹھانا اور پھر ٹوٹی کھولنا وغیرہ خود بغود آ جاتا ہے کیونکہ اس پر عمل کے بغیر پانی پلانا ہی ممکن نہیں اسی طرح نحو و صرف کا علم بالواسطہ شرعی حکم بن جاتا ہےکیونکہ اسکے بغیر بہت سے بلا واسطہ شرعی احکامات پر عمل ممکن نہیں مثلا ولقد یسرنا القران لذکر فھل من مدکر پر عمل کے لئے بھی بہت سے علوم کی ضرورت پڑتی ہے بلکہ میں نے تو سنا ہے کہ کہتے ہیں کپ قرآن کو سمجھنے کے لئے سولہ علوم کی ضرورت پڑتی ہے

اسی طرح بلغو عنی ولو ایۃ ایک بلا واسطہ شرعی حکم ہے اس پر ہم نے عمل کرنا ہے
مگر سامنے ایک اور بلا واسطہ شرعی حکم نظر آ جاتا ہے کہ من کذب علی متعمدا فلیتبوا مقعدہ من النار
پس ڈر لگتا ہے کہ کہیں اسکی خلاف ورزی نہ ہو جائے تو اس بارے میں قرآن و حدیث کے بلا واسطہ احکامات سے وضاحت طلب کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے
ان جاءکم فاسکم --------
یعنی ہمیں تحقیق کرنے کا حکم ملتا ہے
اب تحقیق کرنے کا طریقہ کیا ہونا چاہیے اسکے لئے ہمیں قرآن و حدیث سے عقل کو استعمال کرنے اور لوگوں سے پوچھنے کا حکم ملتا ہے
محترم بھائی یاد رکھیں عقل کا استعمال شریعت میں مطلقا منع نہیں ہے بلکہ یہ بھی بعض دفعہ جمہور کے نزدیک شریعت کا ایک ماخذ کہلاتا ہے جیسے قیاس ہے جس کو جمہور مانتے ہیں پس اس میں عقل ہی استعمال ہوتا ہے اور دیکھیں قیاس کو حجت نہ ماننے والوں کو دلیل بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے دی جاتی ہے کہ انھوں نے بھی قیاس (عینی عقل کا استعمال) کیا تھا پس قیاس حجت ہے
تو میرے بھائی جب قیاس کی اصل بنیاد عقل اور مشاہدہ ہے تو قیاس کے حجت ہونے سے عقل حجت کیوں نہیں ہو سکتی
البتہ معتزلہ کی طرح ہم نہیں کہتے کہ جو عقل کو نقل پر مقدم رکھتے تھے بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ اگرچہ عقل کو نقل کے تابع رکھنا ہے مگر مطلقا ممنوع نہیں قرار دینا

اب دیکھنا یہ ہیں کہ اوپر موضوع میں کیا عقل اور مشاہدہ کا ہی استعمال ہو رہا ہے اور وہ نقل کے تابع بھی ہے کہ نہیں
تو میرے بھائی صرف اور نحو میں جو اصول بنائے جاتے ہیں وہ بھی تمام کے تمام عقل اور مشاہدہ کے تابع ہوتے ہیں اسی طرح اسماء الرجال کا علم بھی عقل اور مشاہدہ کے تابع ہوتا ہے
پس جس طرح ہمیں کچھ شرعی احکام تک پہنچنے کے لئے عقلی طور پر وضع کیے گئے علم النحو اور علم الصرف کو شرعی بلواسطہ حجت ماننا پڑتا ہے اسی طرح ہمیں بلغو عنی ولو ایۃ وغیرہ کے شرعی احکامات کی بجاآوری کے لئے بھی اسماء الرجال جیسے عقل سے وضع کیے جانے والے علم کو شرعی حجت سمجھنا پڑتا ہے

پس ہم جب اسماءالرجال میں کسی محدث کی عقلی تحقیق کو مانتے ہیں تو وہ ایسے ہی ہوتا ہے جیسے علم النحو میں کسی نحوی کی عقلی تحقیق کو مانتے ہیں

Dua بہنا نے بھی شاید وضآحت پوچھی تھی کہ پھر کس کی تحقیق پر عمل کریں تو جیسے شروع میں بتایا گیا ہے کہ ہم اپنی سمجھ کے مکلف ہوتے ہیں جتنا سمجھ آتا ہے اسکی تحقیق کر لیں باقی میں ہم دوسرے کی بات پر اعتبار کر لیں یعنی کہیں اہل حدیث کو بھی تقلید کرنی پڑتی ہے واللہ اعلم
یہ تو ٹھیک ہے بھائی۔
لیکن جرح کا جو حکم لگاتے ہیں محدثین اس پر اکثر کوئی دلیل نہیں دیتے۔ مثال کے طور پر انہی جابر جعفی کے بارے میں امام ترمذی نے ابو حنیفہؒ سے نقل کیا ہے کہ جابر جعفی کذاب ہے۔
ابو حنیفہ نے یہ کیوں کہا؟ کوئی لڑائی یا حسد تو نہیں تھا؟ کوئی اور وجہ تو نہیں تھی؟ ممکن ہے ابو حنیفہ کا کوئی اور غلط مقصد رہا ہو۔
یہ سب عقلی امکانات ہیں۔ لیکن کیا ہم ان امکانات کو ایک طرف رکھ کر صرف جارح کے تقوی اور علم کو دیکھ کر اس کی بات نہیں مان لیتے؟
 

123456789

رکن
شمولیت
اپریل 17، 2014
پیغامات
215
ری ایکشن اسکور
88
پوائنٹ
43
یہ لکھا ہے گڈ مسلم نے ”تقلید سے دور بھاگو کیونکہ یہ گمراہی ہے۔ اور اس میں شک نہیں کہ مقلد ہلاکت کی راہ پر گامزن ہے۔“

اور یہ لکھا ہے عبدہ نے ” Dua بہنا نے بھی شاید وضآحت پوچھی تھی کہ پھر کس کی تحقیق پر عمل کریں تو جیسے شروع میں بتایا گیا ہے کہ ہم اپنی سمجھ کے مکلف ہوتے ہیں جتنا سمجھ آتا ہے اسکی تحقیق کر لیں باقی میں ہم دوسرے کی بات پر اعتبار کر لیں یعنی کہیں اہل حدیث کو بھی تقلید کرنی پڑتی ہے واللہ اعلم“
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
یہ تو ٹھیک ہے بھائی۔
لیکن جرح کا جو حکم لگاتے ہیں محدثین اس پر اکثر کوئی دلیل نہیں دیتے۔ مثال کے طور پر انہی جابر جعفی کے بارے میں امام ترمذی نے ابو حنیفہؒ سے نقل کیا ہے کہ جابر جعفی کذاب ہے۔
ابو حنیفہ نے یہ کیوں کہا؟ کوئی لڑائی یا حسد تو نہیں تھا؟ کوئی اور وجہ تو نہیں تھی؟ ممکن ہے ابو حنیفہ کا کوئی اور غلط مقصد رہا ہو۔
یہ سب عقلی امکانات ہیں۔ لیکن کیا ہم ان امکانات کو ایک طرف رکھ کر صرف جارح کے تقوی اور علم کو دیکھ کر اس کی بات نہیں مان لیتے؟
جزاک اللہ محترم بھائی آپ کی باتیں بالکل درست ہیں میں نے یہ کہیں نہیں کہا کہ یہ عقلی امکانات نہیں ہیں
محترم بھائی مجھے لگ رہا ہے کہ آپ شاید کسی کی بات پر اسکے علم اور تقوی کی بنیاد پر اعتماد کرنے کو عقلی توجیہات میں سے خارج سمجھتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے یعنی تقلید بھی ایک قسم کی عقلی توجیہ ہی ہے اب ہمیں کس کو مقدم رکھنا ہو گا اور کس حد تک مقدم رکھنا ہو گا اس پر ڈاکٹر ذاکر نائیک حفظہ اللہ کا بھی ایک موقف سنا تھا اس پر ان شاءاللہ فرصت سے بحث کروں گا آج جمعہ ہے اسکی تیاری کرنی ہے
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
جزاک اللہ محترم بھائی آپ کی باتیں بالکل درست ہیں میں نے یہ کہیں نہیں کہا کہ یہ عقلی امکانات نہیں ہیں
محترم بھائی مجھے لگ رہا ہے کہ آپ شاید کسی کی بات پر اسکے علم اور تقوی کی بنیاد پر اعتماد کرنے کو عقلی توجیہات میں سے خارج سمجھتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے یعنی تقلید بھی ایک قسم کی عقلی توجیہ ہی ہے اب ہمیں کس کو مقدم رکھنا ہو گا اور کس حد تک مقدم رکھنا ہو گا اس پر ڈاکٹر ذاکر نائیک حفظہ اللہ کا بھی ایک موقف سنا تھا اس پر ان شاءاللہ فرصت سے بحث کروں گا آج جمعہ ہے اسکی تیاری کرنی ہے
جزاک اللہ خیرا بھائی۔
بس میں یہی کہہ رہا ہوں کہ اس فن میں ہمیں تقلید کرنی پڑتی ہے۔ کیوں کہ ہم اس دور میں موجود تو ہیں نہیں۔ انہی کی بات پر اعتماد کرنا پڑتا ہے۔
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
جارح کے تقوی اور علم کو دیکھ کر اس کی بات نہیں مان لیتے؟
جارح کا تقوی دیکھنے کے ساتھ ساتھ حفظ و ضبط بھی دیکھا جاتا ہے۔ اور جارح کا عادل ھونا بھی شرط ھوتا ہے۔
ان تمام شروط کے اندر اگر کوئی شخص جرح یا تعدیل کرتا ھے۔ تو اُس کی گواہی قرآن و سنت کی روو سے دلیل کا درجہ رکھے گی
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
بس میں یہی کہہ رہا ہوں کہ اس فن میں ہمیں تقلید کرنی پڑتی ہے۔ کیوں کہ ہم اس دور میں موجود تو ہیں نہیں۔ انہی کی بات پر اعتماد کرنا پڑتا ہے۔
ہمیں کسی فن میں کسی کی تقلید کی ضرورت نہیں۔ جس کو آپ تقلید سمجھ رہے ہیں وہ آپ کا خام خیال ہے فقط۔ خالی خولی کسی کے بات پر اعتماد نہیں کیا جاتا۔ بلکہ اعتماد کرنے کے دلائل موجود ہوتے ہیں۔ کہ بیان کرنے والا عادل ضابط ثقہ حجت ھے یا کہ ردی الحفظ ، کذاب منکر وغیرہ ھے؟؟؟
جب ثابت ھوجائے کہ بیان کرنے والا عادل بھی ھے اور حافظ بھی ہے۔ تو بیان کرنے والے کی گواہی کے مقبول ھونے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں۔
اور یہ سب باتیں دلیل کی محتاج ہیں۔ تو ثابت ہوا کہ اسماء الرجال کے ثقہ ثبت ائمہ کے جرح وتعدیل پر مبنی اقوال خود حجت ہیں۔ جو اُنکی بالمشاھدہ گواہیاں ہیں۔
لہذا تقلید سے خارج ہیں۔
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
بلفرض اگر آپ کی بات تسلیم کر بھی لی جائے۔ تو یہ آپ ہی کے خلاف جائے گی۔
جس کی مثال میں اس طرح دیتی ہوں کہ۔
"احناف نے خود ہی کچھ اصول وضع کرکے اپنے اوپر حجت کیئے ہیں۔ اور خود ہی اپنے انہی اصولوں کا رد بھی بڑے زور وشور سے کرتے ہیں۔
یعنی احناف اپنا ایک مسئلہ سیدھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو دوسرا مسئلہ اُلٹا ھوجاتا ھے۔
۔
مثال: جیساکہ آپ کا سارا زور اس بات پر ھے۔ کہ رجوع الی المجتھد یا رجوع الی الجارح۔ ہی تقلید ہے۔
یعنی اصل چیز جس کو آپ تقلید باور کروانے پر بضد ھیں۔ وہ ھے رجوع کرنا کسی کی طرف۔
۔
چلیں ایک سیکنڈ کے لیئے آپ کی یہ ضد بھی مان لیتے ہیں۔ لیکن آپ کا دوسرا مسئلہ الٹا ھوجائے گا۔
۔
تمام حنفیہ اس بات پر متفق ہیں۔ کہ تقلید اختلافی مسائل میں ھوتی ہے۔ اور اجماع منعقد ھوا حنفیوں کے گھر کا۔ کہ بیک وقت تقلید صرف ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی ھوگی۔ اور ائمہ اربعہ کے علاوہ تقلید کی ممانعت ھے".
۔
اب سوال یہ ھے کہ تقلید پر جو حنفیوں کے گھر کا اجماع ھوا۔ وہ صرف ائمہ اربعہ کی تقلید پر ھوا۔ تو غیر ائمہ اربعہ کی طرف رجوع کو تقلید کیسے قرار دے دیا حنفیوں نے؟؟؟؟؟؟
اور اگر غیر ائمہ اربعہ کی طرف رجوع بھی تقکید ہی ہے۔ تو حنفی تو خود اپنے ہی اجماع کے منکر ھوگئے۔ اور حنفیوں کے نزدیک اجماع کا منکر تو کافر ھوتا ھے۔
۔
دوسرا نقطہ:
عام آدمی کا اپنے سے اہل علم کی طرف رجوع کرنا تو نص سے ثاب ھے۔ یعنی عام آدمی پر واجب ھے کہ وہ ہر ہر مسئلے میں اہل علم سے رجوع کرے۔ آیت فاسألوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون کے تحت۔ تو ثابت ھوا رجوع الی اھل العلم تو نص سے ثابت ھے۔ پھر یہ تقلید کیسے ھوگئی؟
چلو ایک سیکنڈ کے لیئے مان لیا کہ یہ بھی تقلید ھے۔ تو بتائیے۔ آج کل کے حنفی کس کس مسئلے میں کہاں کہاں رجوع کر رھے ھوتے ہیں؟ اور رجوع کرنے سے کس کس کے مقلد بن رھے ھوتے ہیں؟؟؟؟؟؟

اس میں ایک سوال کا اور بھی اضافہ آئے گا۔ کہ۔ اگر جب ایک عام آدمی کسی عالم یا مفتی سے رجوع کرتا ھے۔ تو 2018 کے حنفیوں کے حساب سے وہ تقلید کر رہا ھوتا ھے۔
تو سوال یہ ھے۔ کہ کیا ایک عام آدمی کسی مقلد عالم کی بھی تقلید کرسکتا ھے؟ یعنی کیا تقلید کسی مقلد (عالم) کی بھی کی جاسکتی ھے؟

یعنی ہر تینوں صورتوں میں حنفی حضرات اپنے ہی اجماع کے منکر ثابت ھونگے۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
426
پوائنٹ
197
کتاب انکار حدیث کا نیا روپ سے ایک اقتباس

(رواۃ حدیث کی توثیق و تضعیف اجتہاد امر نہیں ہے)

تمام اصحاب نظر جانتے ہیں کہ جرح و تعدیل کی اصل بنیاد امور محسوسہ یعنی مشاہدات اور مسموعات پر ہے۔ ان مشاہدات و مسموعات نیز حدیث کے متن و سند کے خوردبینی جائز ہے اور اپنے تجربات کی روشنی میں ہی جارحین اور معدلین کسی راوی کے متعلق کسی عصبیت، حقدو محابات، ورع لومتہ لائم کے خوف کے بغیر غایت درجہ ورع و امانت کے ساتھ اپنا فیصلہ اور حکم صادر کرتے ہیں۔ اتصال سند، توثیق الرواۃ، انکا ضابط القلب اور جید الحافظہ ہونا راوی اور مروی عنہ کی معاصرت اور آپس میں ان کے لقاء و سماع وغیرہ کی تحقیق محض جارحین اور معدلین کی شخصی آراء، تجویز، قیاس و اجتہاد کا نتیجہ نہیں ہوسکتی نیز ان جارحین و معدلین نے رواۃ کی نسبت جو کچھ لکھا ہے ثقه، ثبت، ، ثقه ثقه، ثبت ثبت، حافظ،، ثقه حافظ، ثقه ثبت، صدوق،شيخ،ضابط، عادل، حجة، جيد الحديث، حسن الحديث، صويلح، روواعنه، يكتب عنه، يكتب حديثه، صدوق إنشاء الل، مقبول، صالح الحديث، مقارب الحديث، محله الصدق، أرجوان لابأس به،لابأس به، ليس به بأس، مأمون، خيار، وسط، متقن، له اوهام، مضطرب، مضطرب الحديث، صدوق تغير، صدوق يهم، صدوق سي الحفظ، صدوق، رمي بالتشيع، الي الصدق ماهو، واهم، مجهول الحال، مجهول العين، مستور، لايعرف، ساقط، واه، واه جدا، هالك، دجال، متروك، كذاب، يكذب، متهم بالكذب، وضاع، متهم بالوضع، يضع، لايساوي شيئا، لايساوي فلسا، ضعفوه، تركوه، متساهل، لين الحديث، ليس بشي، له مناكير، منكر الحديث، تعرف و تنكر، ركن الكذب، اكذب الناس، اليه المنتهي، في الكذب، سي الحفظ، تكلموا فيه، ذاهب الحديث، ليس بقوي، ليس بالمتين، سارق الحديث، يسرق الحديث، ليس بثقة، غير أوثق منه، لايحتج به، ليس بحجة، ليس بذاك، فيه مقال، رمي بالنصيب، فيه تشيع، فيه الارجا، شيعى جلد، زنديق، رافضى، قدرى، من الخوارج، لايكتب حديثه، لاتحل الرواية عنه، ضعيف جدا، واه بمرة، اور تالف وغیرہ الفاظ جرح و تعدیل لکھے ہیں، ان سب کی بنیاد حس، تجربات، مسموعات، مشاہدات اور ان کی روایات کے باریک بین تجزیہ پر ہے نہ کہ قیاس و اجتہاد یا ظن و تخمین پر۔
 
Top