• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محدث بک

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
سُنا ہے زندگی امتحان لیتی ہے فراز
پر یہاں تو امتحانوں نے زندگی لے لی

ابتسامہ
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
کہیں ہم فتنہ میں مبتلا تو نہیں ہو گئے ؟ !

رازدار پیغمبر ؑ سیدنا حذیفہ بن یمانؓ کا مقولہ ہے : ’’ فتنہ دلوں پر پیش ہوتا ہے ؛ جو دل فتنے سے مانوس ہو جاتا ہے ، اس پر سیاہ نکتہ لگ جاتا ہے اور جو اسے ناپسند کرتا ہے ، اس پر سفید نکتہ لگ جاتا ہے ۔ جو شخص یہ معلوم کرنا چاہے کہ وہ فتنے میں مبتلا ہوا ہے یا نہیں ، تو اسے غور کرنا چاہیے ؛ اگر اس نے حلال کو حرام اور حرام کو حلال سمجھنا شروع کر دیا ہے تو یقیناً وہ فتنہ زدہ ہو گیا ہے !
_____________________________________

إن الفتنة تُعرض على القلوب فأيّ قلب أنس بها نكتت فيه نكتةٌ سوداء، فإن أنكرها نكتت فيه نكتة بيضاء ، فمن أحب منكم أن يعلم أصابته الفتنة أم لا فلينظر، فإن كان يرى حرامًا كان يراه حلالاً، أو يرى حلالاً كان يراه حرامًا فقد أصابته الفتنة [صفة الصفوة 1/ 290]

طاہر اسلام
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
لوگ بھی عجیب رویہ رکھتے ھیں. پہلے اپنی جہالت کا ثبوت دیتے ھیں پھر الزام دوسروں پر تھوپتے ھیں.
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
دنیا ھاروت ماروت سے بھی بڑی جادوگر ہے۔
وہ تو میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالتے تھے۔
یہ انسان اور اسکی جنت کے درمیان جدائی ڈالتی ہے!


شیخ رفیق طاہر حفظہ اللہ
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
یہ نظم علامہ اقبال رحمہ اللہ کی ملحدوں سے سوال کرتی ہے .

سائنس کیسے تو بتا سکتی ہے کون کرتا ہے کبھی نہیں بتا سکتی !
الارض للہ


پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون ؟
کون دریاؤں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب؟
کون لایا کھینچ کر پچھم سے باد سازگار ؟
خاک یہ کس کی ہے ، کس کا ہے یہ نور آفتاب؟
کس نے بھر دی موتیوں سے خوشۂ گندم کی جیب ؟
موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خوئے انقلاب؟
دہ خدایا! یہ زمیں تیری نہیں ، تیری نہیں
تیرے آبا کی نہیں ، تیری نہیں ، میری نہیں


بقلم مولوی روکڑا
 
Last edited:

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
☔☀ ماں کے آٹھ جھوٹ ☀☔

ڈاکٹر مصطفیٰ اکّاد کی عربی نظم کے ترجمے سے اقتباس:

ماں کے آٹھ جھوٹ...

میری ماں نے ہمیشہ حقیقت بیان کی ہو، ایسا بھی نہیں،
آٹھ مرتبہ تو اس نے مجھ سے ضرور جھوٹ بولا،
یہ قصّہ مِری ولادت سے شروع ہوتا ہے،
میں اکلوتا بیٹا تھا اور غربت بہت تھی،
اتنا کھانا نہیں ہوتا تھا جو ہم سب کو کافی ہو جائے،
ایک دن ہمارے گھر کہیں سے چاول آئے،
میں بڑے شوق سے کھانے لگا اور وہ کھِلانے لگی
میں نے دیکھا کہ اس نے اپنی پلیٹ کے چاول بھی میری تھالی میں ڈال دئیے،
"بیٹا! یہ چاول تم کھا لو مجھے تو بھوک ہی نہیں ہے"۔
یہ اس کا پہلا جھوٹ تھا،
اور جب میں قدرے بڑا ہوا تو ایک دن مچھلی پکڑنے گیا،
اس چھوٹی سی نہر سے جو ہمارے قصبے سے گذرتی تھی،
یوں ہوا کہ دومچھلیاں میرے ہاتھ لگیں،
بھاگا بھاگا گھر آیا اور جب کھانا تیار ہوگیا،
دونوں مچھلیاں سامنے تھیں اور میں شوق سے کھا رہا تھا،
دیکھا کہ ماں صرف کانٹوں کو چوس رہی تھی،
میں نے جب یہ دیکھ کر کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا تو کہنے لگی،
"تمہیں تو پتہ ہی ہے کہ مجھے مچھلی کا گوشت پسند نہں تم تو کھاؤ"۔
اور یہ اس کا دوسرا جھوٹ تھا۔
اور پھر میرا باپ مرگیا اور وہ بیوہ ہو گئی،
اور ہم دونوں گھر میں اکیلے رہ گئے،
کچھ دن میرا چچا جو بہت اچھا آدمی تھا،
ہمیں کھانا اور ضروریاتِ زندگی لاکر دیتا رہا،
ہمارے ہمسائے اسے آتے جاتے غور سے دیکھنے لگے،
ایک دن انہوں نے ماں سے کہا؛
"زندگی ہمیشہ اس طور پر گذاری نہیں جا سکتی،
بہتر ہے کہ تم اس آدمی سے شادی کر لو"۔
لیکن میری ماں نے چچا کو ہی آنے جانے سے منع کر دیا،
"مجھے کسی ساتھی کی اور کسی کی محبت کی کوئی ضرورت نہیں ہے"۔
یہ اس کا تیسرا جھوٹ تھا۔
اور جب مں کچھ اور بڑا ہوا اور بڑے مدرسے میں جانے لگا،
تو میری ماں گھر میں ہر وقت کپڑے سِینے لگی،
اور یہ کپڑے وہ گھر گھر جاکر بیچتی تھی،
سردیوں کی ایک رات تھی اور ماں ابھی تک گھر واپس نہیں آئی تھی،
میں تنگ آ کر اسے ڈھونڈنے باہر نکل پڑا،
میں نے اسے کپڑوں کا ایک گٹھڑ اٹھائے دیکھا،
گلیّوں میں گھر گھر دروازےکھٹکھٹا رہی تھی،
میں نے کہا؛ "ماں چلو اب گھر چلو، باقی کام کل کر لینا"۔
کہنے لگی؛ "تم تو گھر جاؤ،
دیکھو کتنی سردی ہے اور بارش بھی ہو رہی ہے،
میں یہ دو جوڑے بیچ کر ہی آؤں گی،
اور فکر نہ کرو میں بالکل ٹھیک ہوں اور تھکاوٹ بھی نہیں ہے"۔
یہ اس کا چوتھا جھوٹ تھا۔
اور پھر میرا مدرسے میں آخری دن بھی آ گیا،
آخری امتحانات تھے،
ماں میرے ساتھ مدرسے گئی،
میں اندر کمرۂ امتحان میں تھا اور وہ باہر دھوپ میں کھڑی تھی۔
بہت دیر بعد میں باہر نکلا، میں بہت خوش تھا۔
ماں نے وہیں سے ایک مشروب کی بوتل خریدی اور میں غٹا غٹ پی گیا۔
میں نے شکرگذار نظروں سے اسے دیکھا۔
اس کے ماتھے پر پسینے کی دھاریں چل رہی تھیں،
میں نے بوتل اس کی طرف بڑھا دی،
"پیو ناں ماں"۔
لیکن اس نے کہا؛
"تم پیو، مجھے تو بالکل پیاس نہیں ہے"۔
یہ اس کا پانچواں جھوٹ تھا۔
اور جب میں یونیورسٹی سے فارغ ہوگیا تو ایک نوکری مل گئی،
میں نے سوچا کہ اب یہ مناسب وقت ہے کہ ماں کو کچھ آرام دیا جائے،
اب اس کی صحت پہلے جیسی نہیں تھی،
اسی لئے وہ گھر گھر پِھر کر کپڑے نہیں بیچتی تھی،
بلکہ بازار میں ہی زمین پر درّی بچھا کر کچھ سبزیاں وغیرہ فروخت کر آتی تھی۔
جب میں نے اپنی تنخواہ میں سے کچھ حصہ اسے دینا چاہا،
تو اس نے نرمی سے مجھے منع کردیا۔
"بیٹا! ابھی تمہاری تنخواہ تھوڑی ہے،
اسے اپنے پاس ہی رکھو جمع کرو، میرا تو گذارہ چل ہی رہا ہے،
اتنا کما لیتی ہوں جو مجھے کافی ہوجائے"۔
اور یہ اس کا چھٹا جھوٹ تھا۔
اور جب میں کام کے ساتھ ساتھ مزید پڑھنے لگا اور مزید ڈگریاں لینے لگا،
تو میری ترقی بھی ہوگئی،
میں جس جرمن کمپنی میں تھا، انہوں نے مجھے اپنےہیڈ آفس جرمنی میں بلا لیا،
اور میری ایک نئی زندگی کی ابتداء ہوئی،
میں نے ماں کو فون کیا اور اسے وہاں میرے پاس آنے کو کہا،
لیکن اسے پسند نہ آیا کہ مجھ پر بوجھ بنے،
کہنے لگی کہ؛ "تمہیں تو پتہ ہے کہ میں اس طرزِ زندگی کی عادی نہیں ہوں،
میں یہاں پر ہی خوش ہوں۔
اور یہ اس کا ساتواں جھوٹ تھا۔
اور پھر وہ بہت بوڑھی ہو گئی۔
ایک دن مجھے پتہ چلا کہ اس کو جان لیوا سرطان ہوگیا ہے،
مجھے اس کے پاس ہونا چاہئے تھا، لیکن ہمارے درمیاں مسافتیں حائل تھیں،
پھر جب اسے ہسپتال پہنچا دیا گیا تو مجھ سے رہا نہ گیا،
میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس کے پاس وطن واپس آ گیا،
وہ بستر پر تھی ، مجھے دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر ایک مُسکان آ گئی،
مجھے اسے دیکھ کر ایک دھچکہ سا لگا اور دل جلنے لگا،
بہت کمزور بہت بیمار لگ رہی تھی،
یہ وہ نہیں تھی، جس کو میں جانتا تھا،
میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے،
لیکن ماں نے مجھے ٹھیک سے رونے بھی نہیں دیا،
میرِی خاطر پِھر مسکرانے لگی،
"نہ رو میرے بیٹے، مجھے بالکل کوئی درد نہیں محسوس ہو رہا"۔
اور یہ اس کا آٹھواں جھوٹ تھا۔۔
اس کے بعد اس نے آنکھیں موند لیں
اس کے بعد آنکھیں کبھی نہ کھولیں

مضمون کسی کا بهی ہے مگر لکها دل سے ہے جس کو پڑهکر شاید پتهر دل بهی موم ہوجائے اور بیٹا کیسا بهی ہو اس کے اندر چهپی ممتا جاگ جائے یقین نہ آئے تو پڑهکر دیکهو یقین آجائیگا

التماس دعا:

⭕ ⭕
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
والدین فوت ہوگئے ، ننھیال اور ددھیال میں سے ہر ایک کی خواہش تھی کہ بچوں کی پرورش ہم کریں گے ، اس کشمکش کو دیکھ کر کچھ لوگ تیسرا فریق بن کر آئے کہ بچوں کی پرورش دل و جان سے ہم کریں گے ۔
یہ صورت حال دیکھ کر دو بلیوں کا روٹی پر جھگڑا اور ان کے درمیان بندر کے انصاف والی کہانی یاد آگئی ۔ :)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
دنیا میں کامیاب اور ناکام ہونے والے تمام انسانوں کے پاس دن کا دورانیہ 24 گھنٹے ہی تھا ۔ اس دن کو ناکامی سے گزاریں یا کامیابی کے ساتھ بہر صورت اس نے گزر ہی جانا ہے ۔
( ماخوذ)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
سُنا ہے زندگی امتحان لیتی ہے فراز
پر یہاں تو امتحانوں نے زندگی لے لی

ابتسامہ
سنا ہے طلاب امتحانوں سے نہیں ڈرتے بلکہ اُن کے نتائج سے ڈرتے ہیں...ابتسامہ!
 
Top