ابھی اسی ہفتے کی ہی بات ہے کہ ایک ضروری رقم کی تفصیل معلوم کرنے بینک برانچ فون کیا۔فون کسی خاتون نے اٹھایا"جی فرمائیے؟"میں نے بتایا کہ اکاونٹ میں اماؤنٹ معلوم کرنی ہے۔جانے کس ترنگ میں تھیں،طنز بھری شوخی میں کہنے لگیں"اکاؤنٹس؟؟؟؟میڈم!آپ کے کتنےےےےے اکاؤنٹس ہیں؟"خالصتا غیرپیشہ وارانہ رویہ تھا۔صاف محسوس ہوا کہ نئی نئی بھرتی ہوئی ہیں۔بے ساختہ زبان سے انگریزی پھسل پڑی"محترمہ!میں نے اکاونٹ کہا ہے اکاؤنٹس نہیں۔"خجل ہو کر چپ کر گئیں۔میں نے انگریزی میں ہی گفتگو جاری رکھی۔پہلے اپنا رعب ڈالنے کی کوشش کی لیکن الٹا سر پر پڑا۔حالانکہ قابل تھیں لیکن شاید وہ توقع نہیں کر رہی تھیں لہذا بار بار غلطی کرتیں اور بار بار معذرت کرتیں۔کام مکمل ہوا تو میں نے فون رکھ دیا۔
میں سامنے ہوتی تو اس رویے کی منطق بھی سمجھ آ جاتی کیونکہ عموما یہی دیکھاگیا ہے کہ جہاں کسی دین دار خصوصا خاتون کو دیکھا جائے توعموما خواتین ہی ان کو مرعوب کرنے یا احساس کمتری کا شکار بنانے کی کوشش کرتی ہیں اور کوشش بھی کیا کہ چار لفظ انگریزی کے بول دیے اور وہ بھی "چلڈرنز" والے))انگریزی زبان ہے،ایک زبان سےکمتری یا برتری کیسے ظاہر ہوتی ہے؟لیکن وہی غلامی کی خو جینا دوبھر کر دیتی ہے۔دین دار افراد کو چاہیے کہ انگریزی سیکھیں،بولیں کیونکہ انگریزی صرف دعوت دین کے لیے ہی موثر نہیں بسا اوقات ہاتھ لگائے بغیر زوردار طمانچوں کا کام بھی کرتی ہے۔